![]() |
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے برا نہ مان، مرے حرف زہر زہر سہی میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے ہر ایک گھر پر مسلط ہے دل کی ویرانی تمام شہر پہ سایا میرے مکان کا ہے بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا وہ کہہ گیا تھا، یہی وقت تو امتحان کا ہے مسافروں کی خبر ہے نہ دکھ ہے کشتی کا ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے جو برگ اے زرد کی صورت ہوا میں اڑتا ہے وہ اک ورق بھی میری اپنی داستان کا ہے یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ تمام شہر میں چرچا میرے بیان کا ہے اثر دکھا نہ سکا اس کے دل میں اشک میرا یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بے خبر بھی رہے یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن ہوا میں شور ابھی تک میری اڑان کا ہے محسن نقوی |
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
nice,,
|
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
wow lash
|
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
nice............
|
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
NicE.. Thanks For SharinG... :):):):) |
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
V Nice
|
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
WoOoow
Nice ...!! |
Re: میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
very good
|
All times are GMT +5. The time now is 08:31 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.