![]() |
وہ فُرقتوں کے باب سے آگے نکل گیا
چاہت بھری کتاب سے آگے نکل گیا
وہ شخص اِنتساب سے آگے نکل گیا اُڑتے ہوئے بگولوں سے اُس کا پتہ نہ پوچھ لگتا ہے وہ سراب سے آگے نکل گیا سب واپسی کے راستے مسدود ہوگئے وہ آج اِس حساب سے آگے نکل گیا اِتنا سکوت‘ دھڑکنیں تھم تو نہیں گئیں؟ دل آج اِضطراب سے آگے نکل گیا آنکھیں کھلیں تو سامنے تعبیر تھی کھڑی وہ آج اپنے خواب سے آگے نکل گیا آگے نئے عذاب کے آثار مل گئے جب عشق ‘ اِک عذاب سے آگے نکل گیا گُم وَصل کی کتاب میں ایسا ہوا بتول وہ فُرقتوں کے باب سے آگے نکل گیا |
Re: وہ فُرقتوں کے باب سے آگے نکل گیا
V Nice
|
All times are GMT +5. The time now is 01:30 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.