![]() |
یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
ٹہنیوں میں زہر ہو تو پیڑ پھل سکتا نہیں آئینے میں عکس ہے اُس کی امانت ، اور میں کر نہیں سکتا خیانت ، آنکھ مل سکتا نہیں میں فقط شب کا نہیں ، دن کا مسافر بھی تو ہوں چاند میرے ساتھ اتنی دیر چل سکتا نہیں استقامت مانگتا ہے پُل صراطِ دوستی ڈگمگا جاتا ہے جو پھر وہ سنبھل سکتا نہیں سنگ میں سوراخ کردیتا ہے پانی کا وجود حدّتِ خورشید سے پتھر پگھل سکتا نہیں وہ پرندہ کیا اُڑے گا وسعتوں کی کھوج میں آشیاں تک سے جو مرضی سے نکل سکتا نہیں ہو نہ مشّاقی اگر غوّاص کے اطوار میں کوئی موتی بحر کی تہہ سے اُچھل سکتا نہیں کھینچ کر دل لے گئی فیروز، شاہیں کی ادا کہ عطا کردہ غذاؤں پر وہ پل سکتا نہیں |
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
Nice ........
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
thanks...........
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
nyc......
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
Nice....
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
VERY NICE....................:bu:
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
nice sharing
|
Re: یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں
v nice
|
All times are GMT +5. The time now is 01:54 AM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.