![]() |
آغازِ سفر میں جب چلے تھے
کس بوجھ سے جسم ٹوٹتا ہے اِتنا تو کڑا سفر نہیں تھا دو چار قدم کا فاصلہ کیا پھر راہ سے بے خبر نہیں تھا لیکن یہ تھکن یہ لڑکھڑاہٹ یہ حال تو عمر بھر نہیں تھا آغازِ سفر میں جب چلے تھے کب ہم نے کوئی دیا جلایا کب عہدِ وفا کی بات کی تھی کب ہم نے کوئی فریب کھایا وہ شام وہ چاندنی وہ خوشبو منزل کا کسے خیال آیا تُو محوِ سخن تھی مجھ سے لیکن میں سوچ کے جال بُن رہا تھا میرے لئے زندگی تڑپ تھی تیرے لئے غم بھی قہقہا تھا اب تجھ سے بچھڑ کے سوچتا ہوں کچھ تُو نے کہا تھا! کیا کہا تھا |
Re: آغازِ سفر میں جب چلے تھے
Nice ...
|
Re: آغازِ سفر میں جب چلے تھے
very nice
|
Re: آغازِ سفر میں جب چلے تھے
V Nice
|
All times are GMT +5. The time now is 04:12 PM. |
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2025, Jelsoft Enterprises Ltd.