(‘“*JiĢäR*”’)
02-25-2013, 11:55 AM
http://sphotos-c.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc6/165975_400549823374573_1401277886_n.jpg
***مزاح اور خوش طبعی ***
مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پرکیف اور سرور آگیں کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں کوٹ کوٹ کر رکھا ہے سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ ایک ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ عقل وفہم کے تعب و تھکان کو زائل کرکے نشاط اور چستی سے معمور کرتا ہے۔ جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت سے آشنا کرتا ہے۔ روحانی تکدر اورآلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غمزدہ اور مصیبت کے مارے انسان کے سرسے غم واندوہ کے بادلوں کو ہٹانے اور چھٹانے کے لئے اسی نعمت سے کام لیاجاتا ہے۔
الغرض مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے جو خود خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ مادہ معتد بہ مقدار میں پایاجاتا ہے۔
======
مزاح کا شرعی حکم
ہماری شریعت تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اورمحل کی مناسبت سے احیاناً مزاح مباح بلکہ مستحب ہے۔ تواس کی کثرت اور اس پر مداومت مذموم قرار دی گئی ہے۔
=====
پھر مزاح میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ اس سے کسی کو ایذاء نہ پہنچے۔ کسی کی دل شکنی نہ ہو کیونکہ مزاح کہتے ہی ہیں ایسی دل لگی کو جس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی نہ ہو۔ ثم المزاح انبساط مع الغیر من غیر ایذاءٍ فان بلغ الایذاء یکون سخریة (مرقات ج۸ ص۶۱۷) (پھر مزاح کسی کے ساتھ بغیر ایذاء پہنچائے دل لگی کرنا ہے اگر یہ ایذاء کی حد کو پہنچ جائے تو وہ سخریہ اور ٹھٹھا ہے) اور سخریہ اور ٹھٹھا منہی عنہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے: یا ایہا الذین آمنو لا یسخر قوم من قومٍ․ الایہ (پارہ ۲۶ سورہ حجرات) ”اے ایمان والو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے“ لہٰذا اس چیز کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
======
پھر مزاح کا مبنی برصدق و حق ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال قالوا یارسول اللّٰہ اِنّکَ تداعبنا قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم انی لا اقول الاّ حقّاً (مشکوٰة ص۴۱۶)
(صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیایا رسول اللہ آپ بھی ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف حق بات کہتا ہوں)
یعنی اگر میں تم لوگوں سے مزاح اور دل لگی کرتا ہوں تو وہ بھی مبنی برحق و صدق ہوتا ہے۔ جھوٹ پر مبنی نہیں ہوا کرتا۔
===========
یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مزاحی واقعات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لئے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
======
عن انسٍ رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یاذالاذنین (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
======
ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔
========
عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)
(حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ آپ سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے۔
========
البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ہمارا مزاح اور دل لگی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب نہ ہو۔ اس سے آج کل کے مروجہ اپریل فل کا حکم بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ناجائز اور حرام ہے ایک تو اس وجہ سے کہ اس میں اتباع بالغیر اور تشبہ بالغیر لازم آتاہے اور دوم اس وجہ سے کہ اس میں جو مزاح اور مذاق ہوتا ہے اس میں ایذاء رسانی اور لوگوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو مزاح مبنی برحق ہو لیکن اس میں ایذاء رسانی کا خطرہ ہوتو وہ بھی ناجائز کے زمرے میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل سوار گذررہا ہے اس کو کہا کہ آپ کی سائیکل کے پچھلے پہیّے گوم رہے ہیں حالانکہ یہ مزاح مبنی بر حق ہے کہ واقعتا پچھلے پہیّے گھوم رہے ہیں، مگر سوار غلط فہمی میں مبتلاہوکر پیچھے مڑکر دیکھتا ہے اور نتیجتاً زمین بوس ہوجاتا ہے ایسے مزاح سے پرہیز کرنا چاہئے واللّٰہ تعالٰی اعلم․
اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ امور میں اتباعِ سنت کی دولت سے سرفراز فرمائے، (آمین)
***مزاح اور خوش طبعی ***
مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پرکیف اور سرور آگیں کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں کوٹ کوٹ کر رکھا ہے سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ ایک ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ عقل وفہم کے تعب و تھکان کو زائل کرکے نشاط اور چستی سے معمور کرتا ہے۔ جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت سے آشنا کرتا ہے۔ روحانی تکدر اورآلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غمزدہ اور مصیبت کے مارے انسان کے سرسے غم واندوہ کے بادلوں کو ہٹانے اور چھٹانے کے لئے اسی نعمت سے کام لیاجاتا ہے۔
الغرض مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے جو خود خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ مادہ معتد بہ مقدار میں پایاجاتا ہے۔
======
مزاح کا شرعی حکم
ہماری شریعت تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اورمحل کی مناسبت سے احیاناً مزاح مباح بلکہ مستحب ہے۔ تواس کی کثرت اور اس پر مداومت مذموم قرار دی گئی ہے۔
=====
پھر مزاح میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ اس سے کسی کو ایذاء نہ پہنچے۔ کسی کی دل شکنی نہ ہو کیونکہ مزاح کہتے ہی ہیں ایسی دل لگی کو جس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی نہ ہو۔ ثم المزاح انبساط مع الغیر من غیر ایذاءٍ فان بلغ الایذاء یکون سخریة (مرقات ج۸ ص۶۱۷) (پھر مزاح کسی کے ساتھ بغیر ایذاء پہنچائے دل لگی کرنا ہے اگر یہ ایذاء کی حد کو پہنچ جائے تو وہ سخریہ اور ٹھٹھا ہے) اور سخریہ اور ٹھٹھا منہی عنہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے: یا ایہا الذین آمنو لا یسخر قوم من قومٍ․ الایہ (پارہ ۲۶ سورہ حجرات) ”اے ایمان والو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے“ لہٰذا اس چیز کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
======
پھر مزاح کا مبنی برصدق و حق ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال قالوا یارسول اللّٰہ اِنّکَ تداعبنا قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم انی لا اقول الاّ حقّاً (مشکوٰة ص۴۱۶)
(صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیایا رسول اللہ آپ بھی ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف حق بات کہتا ہوں)
یعنی اگر میں تم لوگوں سے مزاح اور دل لگی کرتا ہوں تو وہ بھی مبنی برحق و صدق ہوتا ہے۔ جھوٹ پر مبنی نہیں ہوا کرتا۔
===========
یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مزاحی واقعات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لئے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
======
عن انسٍ رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یاذالاذنین (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
======
ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔
========
عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)
(حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ آپ سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے۔
========
البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ہمارا مزاح اور دل لگی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب نہ ہو۔ اس سے آج کل کے مروجہ اپریل فل کا حکم بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ناجائز اور حرام ہے ایک تو اس وجہ سے کہ اس میں اتباع بالغیر اور تشبہ بالغیر لازم آتاہے اور دوم اس وجہ سے کہ اس میں جو مزاح اور مذاق ہوتا ہے اس میں ایذاء رسانی اور لوگوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو مزاح مبنی برحق ہو لیکن اس میں ایذاء رسانی کا خطرہ ہوتو وہ بھی ناجائز کے زمرے میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل سوار گذررہا ہے اس کو کہا کہ آپ کی سائیکل کے پچھلے پہیّے گوم رہے ہیں حالانکہ یہ مزاح مبنی بر حق ہے کہ واقعتا پچھلے پہیّے گھوم رہے ہیں، مگر سوار غلط فہمی میں مبتلاہوکر پیچھے مڑکر دیکھتا ہے اور نتیجتاً زمین بوس ہوجاتا ہے ایسے مزاح سے پرہیز کرنا چاہئے واللّٰہ تعالٰی اعلم․
اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ امور میں اتباعِ سنت کی دولت سے سرفراز فرمائے، (آمین)