-|A|-
03-13-2009, 06:49 PM
وکلا قافلے رک گئے، سرحد میں گرفتاریاں
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090313072652_kurd_386_217.jpg
پاکستان میں پولیس وکلاء کے قافلوں کو اسلام آباد کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔سندھ میں پولیس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کی سربراہی میں کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف رواں دواں قافلے کو جیکب آباد میں روک لیا ہے۔سرحد میں پولیس نے بڑھے پیمانے پر مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے اور کئی شہروں میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر کے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090313072648_kurd_283.jpg
پولیس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کو جیکب آباد میں روک لیا
علی احمد کرد جیکب آباد میں روکے جانے کے بعد واپس کوئٹہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ اسلام آباد جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صوبہ سندھ کے علاقہ جیکب آباد کے ساتھ واقع بلوچستان کے شہر ڈیرہ اللہ یار میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے علی احمد کرد نے کہا ہے کہ انھوں نے باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ واپس کوئٹہ جائیں گے اور پھر اسلام آباد اور لاہور پہنچنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔
علی احمد کرد نے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ واپس جا کر ساتھیوں سے صلاح و مشورہ کریں گے اور اس کے بعد نئی حکمت علمی کے تحت سولہ مارچ کو ہر حالت میں اسلام آباد شاہراہ دستور پہنچیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090312233707_lawyers_longmarch.jpg
وکلا کے قافلے کے ہمراہ مسلم لیگ نواز کے قائدین اور کارکن بھی واپس کوئٹہ روانہ ہو گئے ہیں اور اب ایسی اطلاعات ہیں کہ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے وکلا اور سیاسی کارکن ریل گاڑی یا بسوں کے ذریعے جائیں گے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لورالائی اور ژوب کے راستے پنجاب اور سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
بلوچستان حکومت نے وکلا اور سیاسی کارکنوں کے کاررواں کو روکنے یا گرفتاریوں کے لیے کوئی احکامات نہیں دیے ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں پولیس لانگ مارچ کے لیے جانے والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔
کوئٹہ سے وکلا اور مسلم لیگ نواز کی گاڑیاں کل رات دیر سے جب سندھ کے سرحدی علاقے جیکب آباد پہنچیں تو پولیس نے انھیں روک دیا اور کہا کہ ان کے پاس علی احمد کرد کے وارنٹ ہیں وہ سندھ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد وکلا اور سیاسی کارکنوں نے بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر دھرنا دیا ہے اور رات دیر تک وہیں موجود رہے۔ آج صبح پھر وکلا اور سیاسی کارکن اپنی اپنی گاڑیوں میں واپس کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
پشاور سے ہمارے نامہ نگار دلاور خان وزیر نے بتایا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے کے لیےصوبہ سرحد میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں۔سرحد کے کئی اضلاع میں دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ کر کے ریلیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔جگہ جگہ چھاپے مارے جانے کی اطلاعات ہیں اور سینکڑوں افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔
مسلم لیگ نواز صوبہ سرحد کے صدر پیر صابر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعہ کی صبح تک مختلف اضلاع سے ان کے دو سو پچاسی کارکن گرفتار ہوئے ہیں۔جبکہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان کا کہنا تھاکہ جمعہ کی صبح پولیس نے ان کے گھر پر چھاپا مارا ہے لیکن رات تین بجے کے بعد انہوں نے جگہ تبدیل کر لی تھی۔ جماعتِ اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے درجنوں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
صدر پشاور ہائی کورٹ بار عبدالطیف آفریدی کو ان کے گھر میں نظربند کردیاگیا ہے۔جبکہ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر سراج الحق کی گرفتاری کے لیے ان کےگھر پر چھاپا ماراگیا۔ تاہم وہ گھر میں موجود نہیں تھے۔تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر نیازعلی خان کوگرفتار کرلیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) صوبہ سرحد کے صدر پیر صابر شاہ کا کہنا تھا کہ ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ سرحد حکومت اس طرح کے اقدامات اٹھائے گی۔انہوں نے کہا کہ سرحد حکومت نے صدر زارداری کے دباؤ کے بعد کارروائی شروع کی ہے۔جس سے سرحد کی روایت پامال ہوگیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090313072652_kurd_386_217.jpg
پاکستان میں پولیس وکلاء کے قافلوں کو اسلام آباد کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔سندھ میں پولیس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کی سربراہی میں کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف رواں دواں قافلے کو جیکب آباد میں روک لیا ہے۔سرحد میں پولیس نے بڑھے پیمانے پر مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے اور کئی شہروں میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر کے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090313072648_kurd_283.jpg
پولیس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کو جیکب آباد میں روک لیا
علی احمد کرد جیکب آباد میں روکے جانے کے بعد واپس کوئٹہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ اسلام آباد جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صوبہ سندھ کے علاقہ جیکب آباد کے ساتھ واقع بلوچستان کے شہر ڈیرہ اللہ یار میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے علی احمد کرد نے کہا ہے کہ انھوں نے باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ واپس کوئٹہ جائیں گے اور پھر اسلام آباد اور لاہور پہنچنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔
علی احمد کرد نے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ واپس جا کر ساتھیوں سے صلاح و مشورہ کریں گے اور اس کے بعد نئی حکمت علمی کے تحت سولہ مارچ کو ہر حالت میں اسلام آباد شاہراہ دستور پہنچیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090312233707_lawyers_longmarch.jpg
وکلا کے قافلے کے ہمراہ مسلم لیگ نواز کے قائدین اور کارکن بھی واپس کوئٹہ روانہ ہو گئے ہیں اور اب ایسی اطلاعات ہیں کہ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے وکلا اور سیاسی کارکن ریل گاڑی یا بسوں کے ذریعے جائیں گے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لورالائی اور ژوب کے راستے پنجاب اور سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
بلوچستان حکومت نے وکلا اور سیاسی کارکنوں کے کاررواں کو روکنے یا گرفتاریوں کے لیے کوئی احکامات نہیں دیے ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں پولیس لانگ مارچ کے لیے جانے والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔
کوئٹہ سے وکلا اور مسلم لیگ نواز کی گاڑیاں کل رات دیر سے جب سندھ کے سرحدی علاقے جیکب آباد پہنچیں تو پولیس نے انھیں روک دیا اور کہا کہ ان کے پاس علی احمد کرد کے وارنٹ ہیں وہ سندھ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد وکلا اور سیاسی کارکنوں نے بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر دھرنا دیا ہے اور رات دیر تک وہیں موجود رہے۔ آج صبح پھر وکلا اور سیاسی کارکن اپنی اپنی گاڑیوں میں واپس کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
پشاور سے ہمارے نامہ نگار دلاور خان وزیر نے بتایا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے کے لیےصوبہ سرحد میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں۔سرحد کے کئی اضلاع میں دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ کر کے ریلیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔جگہ جگہ چھاپے مارے جانے کی اطلاعات ہیں اور سینکڑوں افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔
مسلم لیگ نواز صوبہ سرحد کے صدر پیر صابر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعہ کی صبح تک مختلف اضلاع سے ان کے دو سو پچاسی کارکن گرفتار ہوئے ہیں۔جبکہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان کا کہنا تھاکہ جمعہ کی صبح پولیس نے ان کے گھر پر چھاپا مارا ہے لیکن رات تین بجے کے بعد انہوں نے جگہ تبدیل کر لی تھی۔ جماعتِ اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے درجنوں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
صدر پشاور ہائی کورٹ بار عبدالطیف آفریدی کو ان کے گھر میں نظربند کردیاگیا ہے۔جبکہ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر سراج الحق کی گرفتاری کے لیے ان کےگھر پر چھاپا ماراگیا۔ تاہم وہ گھر میں موجود نہیں تھے۔تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر نیازعلی خان کوگرفتار کرلیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) صوبہ سرحد کے صدر پیر صابر شاہ کا کہنا تھا کہ ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ سرحد حکومت اس طرح کے اقدامات اٹھائے گی۔انہوں نے کہا کہ سرحد حکومت نے صدر زارداری کے دباؤ کے بعد کارروائی شروع کی ہے۔جس سے سرحد کی روایت پامال ہوگیا ہے۔