life
10-24-2012, 06:29 PM
مٹي کي مونا ليزا
دور حاضر کے نامور ناول نگار اے حميد نئي نسل کے پسنديدہ قلمکار ہيں۔ ان کي کہانياں اور ناول بڑي شہرت کے حامل ہوتے ہيں۔ اے حميد انيس سو اٹھائيس کو امر تسر بھارت ميں پيدا ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے سينکڑوں ناول لکھے اور قلم کو بذريعہ معاش کے طور پر اپنايا۔افسانہ نگاري کے صنف ميں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اردو شعر کي داستاں ، اردو نثر کي داستاں ، مرزا غالب لاہور مين، داستاں امير حمزہ اور سنگ دوست شخصيات جيسي معرکتہ الارا کتابيں لکھيں۔ٹي وي کيلئے بھي کئي مقبول پلے لکھے ۔ جس میں عينک والا جن، غبر ناگ ماريہ بہت پسند کئے گئے۔ موت کا تعاقب ، تين سو ناولوں پر مشتمل اردو ميں بچوں کے لئے طويل ترين کہاني بھي انکے کريڈٹ پر ہے۔ان کے معاشرتي ناولوں ميں بھارت کے فرعون، کمانڈو کي بيٹي اور جبرو کو بھي لوگوں نے بے حد پسند کيا۔ اردو ادب ميں انہیں معتبر مقام حاصل ہے۔
مٹي کي مونا ليزا
مونا ليزا کي مسکراہٹ ميں بھيد ہے؟
اس کے ہونٹوں پر يہ شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہے يا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ ان نيم دا مستبم ہونٹوں کے درميان يہ باريک سي کالي لکير کيا ہے؟ يہ طلوع و غروب کے دين بيچ میں اندھيرے کي آبشار کہاں سے گر رہي ہے؟ ہرے ہرے طوطوں کي ايک ٹولي شور مچاتي امرود کے گھنے باغون کے اوپر سے گزرتي ہے۔ ويران باغ کي جنگلي گھاس میں گلاب کا ايک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔ آم کے درختون مین بہنے والي نہر کي پليا پر سے ايک تنگ دھڑنگ کالا لڑکا رتيلے ٹھنڈے پاني ميں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گھرے بسنتي آموں کا ميٹھا رس مٹي پر گرنے لگتا ہے۔
سنيما ہال کے بک اسٹال پر کھڑے ميں اس ميٹھے رس کي گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ايک آنکھ سے انگريزي رسالے کو ديکھتے ہوئے دوسري آنکھ سے ان عورتوں کو ديکھتا ہوں جنہیں ميں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجے کي ٹکٹوں والي کھڑکي پر ديکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کي لمبي کار ميں سے نکلتے ديکھا تھا اور اس سے پہلے بھي شايد انہیں کسي خواب کے ويرانے ميں ديکھا تھا۔ ايک عورت موٹي بھدي ، جسم کا ہر خم و گوشت ميں ڈوبا ہوا، آنکھوں ميں کاجل کي موتي تہہ، ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ليپ، کانوں ميں سونے کي بالياں ، انگليوں پر نيل پالش ، کلائيوں ميں سونے کے کنگن ، گلے ميں سونے کا ہار، سينے ميں سونے کا دل، ڈھلي ہوئي جواني، ڈھلا ہوا جسم، چال ميں زيادہ خوشحالي ، اور زيادہ خوش وقتي کي بيزاري، آنکھوں ميں پر خوري کا خمار اور پيٹ کے ساتھ لگايا ہوا بھاري زرتار پرس۔۔دوسري لڑکي۔ل الٹرا ماڈرن ، الٹرا اسمارٹ ، سادگي بطور زيور اپنائے ہوئے، دبلي پتلي، سبز رنگ کي چست قميض کٹے ہوئے سنہرے بال ، کانو ں ميں چمکتے ہوئے سبز نگينے کلائي ميں سونے کي زنجير والي گھڑاي اور دوپٹے کي رسي گلے ميں ، گہرے شيڈ کي پنسل کے ابرو، آنکھوں ميں پر کار سحر کاري، گردن کھلے گريبان ميں سے اوپر اٹھي ہوئي ، دائيں جانب کو اس کا ہلکا سا مگرور خم ، ڈورس ڈے کٹ کے بال، بالون ميں يورپي عطر کي مہک، دماغ گزري ہوئي کل کے ملال سے نا آشنا، دل آنے والي کل وسوسوں سے بے نياز زندگي کي بھر خوشبوئوں اور مسرتوں سے لبريز جسم ، کچھ رکا رکا سا متحرک سا، کچھ بڑ بڑاتا ہوا۔ اس دودھ کي طرح جسے ابال آنے ہي والا ہو۔ سر انيگلو ، پاکستاني، لباس، پنجابي زبان انگريزي اور دل نہ تيرا نہ ميرا۔
بک اسٹال والا انہیں اندر داخل ہوتے ديکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کٹھ پتلي کي طرح ان کے آگے پيچھے چکر کھانے لگا۔ اس نے پنکھا تيز کر ديا۔ کيونکہ لڑکي بار بار اپنے ننھے ريشمي رومال سے ماتھے کا پسينہ پونچھ رہي تھي۔ موتي عورت نے مسکرا کر پوچھا۔ آپ نے "لک" اور وہ "ٹر اسٹوري" نہيں بھجوائے۔ اسٹال والا احمقوں کي طرح مسکرانے لگا۔ وہ جب اب کے ہمارا مال راستے ميں رک گيا ہے۔ بس اس ہفتے کے اندر اندر سرئنلي بھجوا دوں گا۔ موٹي عورت نے کہا۔ پليز ضرور بھجواديں۔ لڑکي نے فوٹو گرافي کا ارسالہ اٹھا کر کہا۔ پليز اسے پيک کر کے گاڑي ميں رکھوا ديں۔ بک اسٹال والا بولا۔ کيا آپ انٹرويل ميں ہي جا رہي ہيں۔ موٹي عورت بولي ۔يس پکچر بڑي بور ہے۔
انہوں نے ساڑھے تين روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔ پکچر پسند نہیں آئي ۔ لمبي کار کار دروازہ کھول ديا اور کار ديرا کي پر سکون لہر کي طرح سات روپوں کے اوپر سے گزر گئي۔ وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاري دروازےکے ايک کنبے کے پورے ساتہ دن گزرتے ہيں۔ اور لوہاري دروازے کے باہر ايک گندہ نالہ بھي ہے۔ اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائيں۔ ايک گلي دائيں ہاتھ کو ملے گي۔ اس گلي ميں سورج کبھي نہيں آيا ۔ ليکن بدبو بہت آتي ہے۔ يہ بدبو بہت حيرت انگيز ہے۔ اگر آپ يہاں رہ جائيں تو يہ غائب ہو جائے گي۔ يہاں صغرا بي بي رہتي ہے۔ ايک بوسيدہ مکان کي کوٹھري مل گئي ہے۔ دروازے پر ميلا چکٹ بوريا لٹک رہا ہے، پردہ کرنے کے لئے۔۔ جس طرح نئے ماڈل کي شيو ر ليٹ کار ميں سبز پردے لگے ہوتے ہيں۔ صحن کچا اور نم دار ہے۔ ايک چارپائي پڑي ہے۔ ايک طرف چولھا ۔۔اپلوں کا ڈھير ہے۔ ديوار کے ساتھ پکانے والي ہنڈيا مٹي کا ليپ پھيرنے والي ہنڈيا اور دست پناہ لگے پرے ہيں۔ ايک سيڑھي چڑھ کر کوٹھري کا دروازہ ہے۔ کوتھري کا کچا فرش سيلا ہے۔در ديوار سے نم دار اندھيرا رس رہا ہے۔ سامنے دو صندوق کے اوپر صغرا بي بي نے پران اکھيس ڈال رکھا ہے۔ کونے ميں ايک ٹوکرا التا رکھا ہے جس کے اندر دو مرغياں بند ہيں۔ ديوار ميں دو سلاخيں ٹھونک کر اوپر لکري کا تحفہ رکھا ہے۔ اس تختے پر صغر بي بي نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہيں۔ اور تين گلاس اور چار تھالياں ٹکا دي ہيں۔ اندر بھي ايک چارپائي بچھي ہے۔ اس چارپائي پر صغرا بي بي کے دو بچے سو رہے ہيں۔ دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہيں۔ صغرا بي بي بڑي گھريلو عورت ہے باکل آئيڈيل قسم کي مشرقي عورت۔ خاوند مہينے کي آخر ي تاريخوں ميں پٹائي کرتا ہے تو رات کو اس کي مٹھياں بھرتي ہے۔ وہ لات مارتا ہے تو صغرا بي بي اپنا جسم ڈھيلا چھوڑ ديتي ہے۔ کہيں خاوند کے پائوں کو چوت نہ آجائے۔ کتني آئيڈيل عورت ہے يہ صغرا بي بي يقينا اسي ہي عورتوں کے سر کے اوپر دوزخ اور پائوں کے نيچے جنت ہوتي ہے۔ خاوند ڈاکيہ ہے۔ ساٹھ روپے کي کثير رقم ہر مہينے کي پہلي کو لاتا ہے۔ پانچ روپے کوٹھري کا کرايہ۔ پانچ روپے دونون بچوں کے اسکول کي فيس، بيس روپے دودھ والاے کے اور تيس روپے مہينے بھر کے راشن پاني کے۔ باقي جو پيسے بچتے ہيں ان ميں يہ لوگ بڑے مزے سے گزر بسر کرتے ہيں۔ کبھي کبھي صغرا بي بي ساڑھے تين روپے والي کلاس میں بيٹھ کر فلم بھي ديکھ آتي ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹر ول ميں ہي اٹھ کر لمبي کار ميں بيٹھ کر اپنے گھر آجاتي ہے۔ بک اسٹال والا ہر مہينے انگريزي رسالہ ، لک اور لائف اسے گھر پر ہي پہنچا ديتا ہے۔ وہ کھانے کے بعد ميٹھي چيز ضرور کھاتي ہے۔ دودھ کي کريم ميں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغرا بي بي اور اس کے ڈاکيے خاوند کو بہت پسند ہيں۔ کريم کو محفوظ رکھنے کے لئے انہوں نے اپني کوٹھڑي کے اندر ايک ريفريجريٹر بھي لا رکھا ہوا ہے۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي تنخواہ پر کوٹھري کو ايئر کنڈيشنڈ کروا لے کيونکہ گرمي حبس اور گندے نالے کي بدبو کي وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پر دانے نکل آتے ہيں اور وہ رات بھر انہيںاٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتي رہتي ہے ۔ صغرا نے ايک ريڈيو گرام کا آدر بھي دے رکھا ہے۔
دور حاضر کے نامور ناول نگار اے حميد نئي نسل کے پسنديدہ قلمکار ہيں۔ ان کي کہانياں اور ناول بڑي شہرت کے حامل ہوتے ہيں۔ اے حميد انيس سو اٹھائيس کو امر تسر بھارت ميں پيدا ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے سينکڑوں ناول لکھے اور قلم کو بذريعہ معاش کے طور پر اپنايا۔افسانہ نگاري کے صنف ميں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اردو شعر کي داستاں ، اردو نثر کي داستاں ، مرزا غالب لاہور مين، داستاں امير حمزہ اور سنگ دوست شخصيات جيسي معرکتہ الارا کتابيں لکھيں۔ٹي وي کيلئے بھي کئي مقبول پلے لکھے ۔ جس میں عينک والا جن، غبر ناگ ماريہ بہت پسند کئے گئے۔ موت کا تعاقب ، تين سو ناولوں پر مشتمل اردو ميں بچوں کے لئے طويل ترين کہاني بھي انکے کريڈٹ پر ہے۔ان کے معاشرتي ناولوں ميں بھارت کے فرعون، کمانڈو کي بيٹي اور جبرو کو بھي لوگوں نے بے حد پسند کيا۔ اردو ادب ميں انہیں معتبر مقام حاصل ہے۔
مٹي کي مونا ليزا
مونا ليزا کي مسکراہٹ ميں بھيد ہے؟
اس کے ہونٹوں پر يہ شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہے يا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ ان نيم دا مستبم ہونٹوں کے درميان يہ باريک سي کالي لکير کيا ہے؟ يہ طلوع و غروب کے دين بيچ میں اندھيرے کي آبشار کہاں سے گر رہي ہے؟ ہرے ہرے طوطوں کي ايک ٹولي شور مچاتي امرود کے گھنے باغون کے اوپر سے گزرتي ہے۔ ويران باغ کي جنگلي گھاس میں گلاب کا ايک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔ آم کے درختون مین بہنے والي نہر کي پليا پر سے ايک تنگ دھڑنگ کالا لڑکا رتيلے ٹھنڈے پاني ميں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گھرے بسنتي آموں کا ميٹھا رس مٹي پر گرنے لگتا ہے۔
سنيما ہال کے بک اسٹال پر کھڑے ميں اس ميٹھے رس کي گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ايک آنکھ سے انگريزي رسالے کو ديکھتے ہوئے دوسري آنکھ سے ان عورتوں کو ديکھتا ہوں جنہیں ميں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجے کي ٹکٹوں والي کھڑکي پر ديکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کي لمبي کار ميں سے نکلتے ديکھا تھا اور اس سے پہلے بھي شايد انہیں کسي خواب کے ويرانے ميں ديکھا تھا۔ ايک عورت موٹي بھدي ، جسم کا ہر خم و گوشت ميں ڈوبا ہوا، آنکھوں ميں کاجل کي موتي تہہ، ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ليپ، کانوں ميں سونے کي بالياں ، انگليوں پر نيل پالش ، کلائيوں ميں سونے کے کنگن ، گلے ميں سونے کا ہار، سينے ميں سونے کا دل، ڈھلي ہوئي جواني، ڈھلا ہوا جسم، چال ميں زيادہ خوشحالي ، اور زيادہ خوش وقتي کي بيزاري، آنکھوں ميں پر خوري کا خمار اور پيٹ کے ساتھ لگايا ہوا بھاري زرتار پرس۔۔دوسري لڑکي۔ل الٹرا ماڈرن ، الٹرا اسمارٹ ، سادگي بطور زيور اپنائے ہوئے، دبلي پتلي، سبز رنگ کي چست قميض کٹے ہوئے سنہرے بال ، کانو ں ميں چمکتے ہوئے سبز نگينے کلائي ميں سونے کي زنجير والي گھڑاي اور دوپٹے کي رسي گلے ميں ، گہرے شيڈ کي پنسل کے ابرو، آنکھوں ميں پر کار سحر کاري، گردن کھلے گريبان ميں سے اوپر اٹھي ہوئي ، دائيں جانب کو اس کا ہلکا سا مگرور خم ، ڈورس ڈے کٹ کے بال، بالون ميں يورپي عطر کي مہک، دماغ گزري ہوئي کل کے ملال سے نا آشنا، دل آنے والي کل وسوسوں سے بے نياز زندگي کي بھر خوشبوئوں اور مسرتوں سے لبريز جسم ، کچھ رکا رکا سا متحرک سا، کچھ بڑ بڑاتا ہوا۔ اس دودھ کي طرح جسے ابال آنے ہي والا ہو۔ سر انيگلو ، پاکستاني، لباس، پنجابي زبان انگريزي اور دل نہ تيرا نہ ميرا۔
بک اسٹال والا انہیں اندر داخل ہوتے ديکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کٹھ پتلي کي طرح ان کے آگے پيچھے چکر کھانے لگا۔ اس نے پنکھا تيز کر ديا۔ کيونکہ لڑکي بار بار اپنے ننھے ريشمي رومال سے ماتھے کا پسينہ پونچھ رہي تھي۔ موتي عورت نے مسکرا کر پوچھا۔ آپ نے "لک" اور وہ "ٹر اسٹوري" نہيں بھجوائے۔ اسٹال والا احمقوں کي طرح مسکرانے لگا۔ وہ جب اب کے ہمارا مال راستے ميں رک گيا ہے۔ بس اس ہفتے کے اندر اندر سرئنلي بھجوا دوں گا۔ موٹي عورت نے کہا۔ پليز ضرور بھجواديں۔ لڑکي نے فوٹو گرافي کا ارسالہ اٹھا کر کہا۔ پليز اسے پيک کر کے گاڑي ميں رکھوا ديں۔ بک اسٹال والا بولا۔ کيا آپ انٹرويل ميں ہي جا رہي ہيں۔ موٹي عورت بولي ۔يس پکچر بڑي بور ہے۔
انہوں نے ساڑھے تين روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔ پکچر پسند نہیں آئي ۔ لمبي کار کار دروازہ کھول ديا اور کار ديرا کي پر سکون لہر کي طرح سات روپوں کے اوپر سے گزر گئي۔ وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاري دروازےکے ايک کنبے کے پورے ساتہ دن گزرتے ہيں۔ اور لوہاري دروازے کے باہر ايک گندہ نالہ بھي ہے۔ اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائيں۔ ايک گلي دائيں ہاتھ کو ملے گي۔ اس گلي ميں سورج کبھي نہيں آيا ۔ ليکن بدبو بہت آتي ہے۔ يہ بدبو بہت حيرت انگيز ہے۔ اگر آپ يہاں رہ جائيں تو يہ غائب ہو جائے گي۔ يہاں صغرا بي بي رہتي ہے۔ ايک بوسيدہ مکان کي کوٹھري مل گئي ہے۔ دروازے پر ميلا چکٹ بوريا لٹک رہا ہے، پردہ کرنے کے لئے۔۔ جس طرح نئے ماڈل کي شيو ر ليٹ کار ميں سبز پردے لگے ہوتے ہيں۔ صحن کچا اور نم دار ہے۔ ايک چارپائي پڑي ہے۔ ايک طرف چولھا ۔۔اپلوں کا ڈھير ہے۔ ديوار کے ساتھ پکانے والي ہنڈيا مٹي کا ليپ پھيرنے والي ہنڈيا اور دست پناہ لگے پرے ہيں۔ ايک سيڑھي چڑھ کر کوٹھري کا دروازہ ہے۔ کوتھري کا کچا فرش سيلا ہے۔در ديوار سے نم دار اندھيرا رس رہا ہے۔ سامنے دو صندوق کے اوپر صغرا بي بي نے پران اکھيس ڈال رکھا ہے۔ کونے ميں ايک ٹوکرا التا رکھا ہے جس کے اندر دو مرغياں بند ہيں۔ ديوار ميں دو سلاخيں ٹھونک کر اوپر لکري کا تحفہ رکھا ہے۔ اس تختے پر صغر بي بي نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہيں۔ اور تين گلاس اور چار تھالياں ٹکا دي ہيں۔ اندر بھي ايک چارپائي بچھي ہے۔ اس چارپائي پر صغرا بي بي کے دو بچے سو رہے ہيں۔ دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہيں۔ صغرا بي بي بڑي گھريلو عورت ہے باکل آئيڈيل قسم کي مشرقي عورت۔ خاوند مہينے کي آخر ي تاريخوں ميں پٹائي کرتا ہے تو رات کو اس کي مٹھياں بھرتي ہے۔ وہ لات مارتا ہے تو صغرا بي بي اپنا جسم ڈھيلا چھوڑ ديتي ہے۔ کہيں خاوند کے پائوں کو چوت نہ آجائے۔ کتني آئيڈيل عورت ہے يہ صغرا بي بي يقينا اسي ہي عورتوں کے سر کے اوپر دوزخ اور پائوں کے نيچے جنت ہوتي ہے۔ خاوند ڈاکيہ ہے۔ ساٹھ روپے کي کثير رقم ہر مہينے کي پہلي کو لاتا ہے۔ پانچ روپے کوٹھري کا کرايہ۔ پانچ روپے دونون بچوں کے اسکول کي فيس، بيس روپے دودھ والاے کے اور تيس روپے مہينے بھر کے راشن پاني کے۔ باقي جو پيسے بچتے ہيں ان ميں يہ لوگ بڑے مزے سے گزر بسر کرتے ہيں۔ کبھي کبھي صغرا بي بي ساڑھے تين روپے والي کلاس میں بيٹھ کر فلم بھي ديکھ آتي ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹر ول ميں ہي اٹھ کر لمبي کار ميں بيٹھ کر اپنے گھر آجاتي ہے۔ بک اسٹال والا ہر مہينے انگريزي رسالہ ، لک اور لائف اسے گھر پر ہي پہنچا ديتا ہے۔ وہ کھانے کے بعد ميٹھي چيز ضرور کھاتي ہے۔ دودھ کي کريم ميں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغرا بي بي اور اس کے ڈاکيے خاوند کو بہت پسند ہيں۔ کريم کو محفوظ رکھنے کے لئے انہوں نے اپني کوٹھڑي کے اندر ايک ريفريجريٹر بھي لا رکھا ہوا ہے۔ صغرا بي بي کا خيال ہے کہ وہ اگلي تنخواہ پر کوٹھري کو ايئر کنڈيشنڈ کروا لے کيونکہ گرمي حبس اور گندے نالے کي بدبو کي وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پر دانے نکل آتے ہيں اور وہ رات بھر انہيںاٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتي رہتي ہے ۔ صغرا نے ايک ريڈيو گرام کا آدر بھي دے رکھا ہے۔