View Full Version : باتیں اشفاق احمد کی
beyond_vision
09-09-2012, 06:09 AM
Asalam O Alaikum!
Ashfaq Ahmad, Urdu Litterature ka aik bohat bara Naam hay. Unki Baatain Bohat Sada, magar Hakeekat par Mubni aur Sabak Amoz hoti'n hain. InshAllah Is Thread main Meri Koshish hogi K Ashfaak Ahmad ki Books K Ikatabasaat regularly share Karoon. Agar aap Loag bhi Unka Koyi Iktabaas ya Quote share karna chahain tou u r more than Welcome! :)
خوشی کا راز
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں کی ہوتی، تیار بھی نہیں ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی میتھڈولوجی مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں جانے کے آپ آرزومند ہیں۔
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا۔
beyond_vision
09-11-2012, 05:30 PM
http://i68.photobucket.com/albums/i25/salut_bonjour/Quotes/422285_314328565290039_105923789463852_861606_1675 299467_n.jpg
Zafina
09-11-2012, 05:32 PM
buhat khoob..Ishfaq Ahmed sahaab humrii literature ka ik azeem sarmaya hay...Itni achi post ka shukriya...
Noor ul huda
09-11-2012, 05:34 PM
Asalam O Alaikum!
Ashfaq Ahmad, Urdu Litterature ka aik bohat bara Naam hay. Unki Baatain Bohat Sada, magar Hakeekat par Mubni aur Sabak Amoz hoti'n hain. InshAllah Is Thread main Meri Koshish hogi K Ashfaak Ahmad ki Books K Ikatabasaat regularly share Karoon. Agar aap Loag bhi Unka Koyi Iktabaas ya Quote share karna chahain tou u r more than Welcome! :)
خوشی کا راز
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں کی ہوتی، تیار بھی نہیں ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی میتھڈولوجی مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں جانے کے آپ آرزومند ہیں۔
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا۔
MashaAllah, The best thread of this forum Indeed.
very beautiful and true words shared
JazakAllah!
beyond_vision
09-11-2012, 05:37 PM
buhat khoob..Ishfaq Ahmed sahaab humrii literature ka ik azeem sarmaya hay...Itni achi post ka shukriya...
Jee Bilkul baja Farmaya Aapnay sis! I completly second ur opinion. aur Pasandeedgi ka Bohat Shukriya! :)
beyond_vision
09-11-2012, 05:39 PM
MashaAllah, The best thread of this forum Indeed.
very beautiful and true words shared
JazakAllah!
Awww, Noor sis Thanks a Bunch for ur appreciation
Now Keep visiting it, as I shall be striving my best to keep updating it on a regular basis.
and u r all also more than welcome to contribute in it. :)
Mf Great Power
09-11-2012, 05:53 PM
http://i68.photobucket.com/albums/i25/salut_bonjour/Quotes/422285_314328565290039_105923789463852_861606_1675 299467_n.jpg
I like so much
beyond_vision
09-11-2012, 05:55 PM
I like so much
Bohat Shukriya Mf Great Power! Mujhe bhi unka yeh Quote Bohat Pasand hay. :)
Polar Bear
09-12-2012, 10:04 AM
Buht achi thread hey ,Ihope perdny ko buht kuch miltarehy ga yahan se "Khushi Ka Raaz" buht umda likha Ashfaq Ahmaed ne pardker cha laga
Shukriya share keny ka
beyond_vision
09-13-2012, 07:18 AM
Buht achi thread hey ,Ihope perdny ko buht kuch miltarehy ga yahan se "Khushi Ka Raaz" buht umda likha Ashfaq Ahmaed ne pardker cha laga
Shukriya share keny ka
Pasandeedgi ka Bohat Shukriya! :) Aur Jee han Koshish yehi hogi K yahan tak Mumkin ho, regularly yahan par kuch na kuch share hota rahay! :)
beyond_vision
09-13-2012, 07:21 AM
اشفاق احمد ایک جگہ لکھتے ہیں۔۔
اچھی بات تو سب کو اچھی لگتی ہے لیکن جب تمہیں کسی کی بری بات بھی بری نہ لگے تو سمجھ لینا تمہیں اس سے محبت ہےإ
Polar Bear
09-13-2012, 08:41 AM
Well Noted :)
(‘“*JiĢäR*”’)
09-13-2012, 08:56 AM
http://i68.photobucket.com/albums/i25/salut_bonjour/Quotes/422285_314328565290039_105923789463852_861606_1675 299467_n.jpg
Great Words...
beyond_vision
09-15-2012, 03:20 AM
پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرنے کا راز
انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اُس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اب بڑے پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرے اور وہ ایسے جھمیلوں میں نہ رہے، جس طرح کے جھمیلوں میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور یہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ دوستی لگا لیتے ہیں، وہ بڑے مزے میں رہتے ہیں اور وہ بڑے چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کو اُنہوں نے بتایا ہوتا ہے کہ ہم ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی رکھیں اور وہ خود بیچ میں سے نکل کر اللہ کو دوست بنا لیتے ہیں۔ اُن کے اوپر کوئی تکلیف، کوئی بوجھ اور کوئی پہاڑ نہیں گرتا۔ سارے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے میرے اور آپ کے ہیں، لیکن ان لوگوں کو ایک ایسا سہارا ہوتا ہے، ایک ایسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
میں نے یہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے گھر میں دھوپ سینکتے ہوئے میں ایک چڑیا کو دیکھا کرتا ہوں، جو بڑی دیر سے ہمارے گھر میں رہتی ہے اور غالباً یہ اُس چڑیا کی یا تو بیٹی ہے، یا نواسی ہے جو بہت ہی دیر سے ہمارے مکان کی چھت کے ایک کونے میں رہتی ہے۔ ہمارا مکان ویسے تو بڑا اچھا ہے، اس کی "آروی" کی چھتیں ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی کھدرا ایسا رہ ہی جاتا ہے، جو ایسے مکینوں کو بھی جگہ فراہم کر دیتا ہے۔ یہ چڑیا بڑے شوق، بڑے سبھاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ہمارے کمرے کے اندر بھی اور فرش پر بھی چلی آتی ہے۔ کل ایک فاختہ آئی جو ٹیلیفون کی تار پر بیٹھی تھی اور یہ چڑیا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت میں دھوپ سینک (تاپ) رہا تھا۔ اُس چڑیا نے فاختہ سے پوچھا کہ " آپا یہ جو لوگ ہوتے ہیں انسان، جن کے ساتھ میں رہتی ہوں، یہ اتنے بے چین کیوں ہوتے ہیں؟یہ بھاگے کیوں پھرتے ہیں؟ دروازے کیوں بند کرتے اور کھولتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟" فاختہ نے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم جانوروں کا ایک اللہ ہوتا ہے، ان کا کوئی اللہ نہیں ہے اور ہمیں یہ چاہئے کہ ہم مل کر کوئی دعا کریں کہ ان کو بھی ایک اللہ مل جائے۔ اس طرح انہیں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ اگر ان کو اللہ نہ مل سکا، تو مشکل میں زندگی بسر کریں گے۔
Noor ul huda
09-15-2012, 10:58 PM
https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-snc7/579797_500617356618241_339362371_n.jpg
beyond_vision
09-17-2012, 08:26 AM
Wah Bohat Umda Ikatabas Noor sis! :)
beyond_vision
09-17-2012, 08:28 AM
محبت اور انا؟
محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔
انا دنیا پر قبضہ جمانے کا پروگرام بناتی ہے۔ یہ موت سے غایت درجہ خوف کھاتی ہے۔ اس لیے زندگی پر پورا پورا قبضہ حاصل کرنے کا پلان وضع کرتی ہے۔ انا دنیاوی اشیاء کے اندر پرورش پاتی ہے اور مزید زندہ رہنے کے لیے روحانی برتری میں نشوونما حاصل کرنے لگتی ہے۔ اس دنیا کی غلامی اور چاکری کی ڈور انا کے ساتھ بندھی ہے۔ انا خود غلامی ہے، خود محکومی ہے۔ انا کو آزاد کرانا اور اسے غلامی سے نجات دلانا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو خود کو انا کی غلامی اور محکومی سے آزاد کرانا ہے۔ یاد رکھئے انا کبھی بھی اپنایت سے، قربانی سے، مذہب سے، علم سے، علم سے خوفزدہ نہیں ہوتی بلکہ ان سب کے لیے تن من کی بازی لگا دیتی ہے۔ انا اگر خوفزدہ ہے تو صرف محبت سے۔
beyond_vision
09-19-2012, 07:24 AM
اسلام کا مطلب
مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ اسلام کا مطلب سلامتی ہے
جو شخص اسلام قبول کر لیتا ہے ، وہ سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے
اور جو شخص سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے ، وہ سلامتی عطا کرتا ہے ۔اس کے مخالف عمل نہیں کرتا
جس طرح ایک معطر آدمی اپنے گرد و پیش کو عطر بیز کر دیتا ہے - اسی طرح ایک مسلمان اپنے گرد و پیش کو خیر اور سلامتی سے لبریز کر دیتا ہے
اگر کسی وجہ سے مجھ سے اپنے ماحول کو اور اپنے گرد و پیش کو سلامتی اور خیر عطا نہیں ہو رہی تو مجھے رک کر سوچنا پڑیگا کہ میں اسلام کے اندر ٹھیک سے داخل ہوں کہ نہیں۔
اشفاق احمد
beyond_vision
09-22-2012, 06:34 AM
http://i68.photobucket.com/albums/i25/salut_bonjour/Quotes/ashfaq_TL_zpsed58211e.jpg
Atta ur Rehman
09-22-2012, 09:03 AM
zbardast thread yar
beyond_vision
09-23-2012, 11:23 PM
Thanks for liking it Atta ur Rehman! :)
beyond_vision
09-23-2012, 11:24 PM
A quote from Zavia
خواتین و حضرات ! گاڑی کا وہ میکینک کام کرتے کرتے اٹھا اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کے اور ویسے ہی جا کر کھانا کھانا شروع کر دیا -
میں نے اس سے کہا کہ الله کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑ جاؤ گے - ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائینگے ، کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول یا صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں ،
تو اس نے جواب دیا کہ " صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بہ خود مر جاتے ہیں اور جب بسم للہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہو جاتی ہے -
مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا - میں اس سے اب بھی ملتا ہوں - اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے -
از اشفاق احمد زاویہ ٣ خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف پیج ٢٢٨
~ZAIN~
09-23-2012, 11:32 PM
Berry Nysh Sharing :khob:
beyond_vision
09-24-2012, 12:55 AM
Pasandeedgi ka Bohat Shukriya Zain! :)
beyond_vision
09-25-2012, 07:33 AM
دعا کا سلسلہ ہی ایسا ہے جیسا نلکا " گیڑ" کے پانی نکالنے کا ہوتا ہے۔ جس طرح ہینڈ پمپ سے پانی نکالتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا جو ہینڈ پمپ بار بار یا مسلسل چلتا رہے یا "گڑتا " رہے، اُس میں سے بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے اور جو ہینڈ پمپ سُوکھا ہوا ہو اور استعمال نہ کیا جاتا رہا ہو، اُس پر " گڑنے" والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو۔ اُس پر آپ کتنا بھی زور لگاتے چلے جائیں، اُس میں سے پانی نہیں نکلتا۔ اس لئے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ دعا مانگتے ہی چلے جائیں اور مانگیں توجّہ کے ساتھ، چلتے ہوئے، کھڑے ہوئے، بے خیالی میں کہ یا اللہ ایسے کردے۔ عام طور پر جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں" دعاؤں میں یاد رکھنا " اور وہ بھی کہتے ہیں ہم آپ کو دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ دعاؤں میں یاد رکھتے بھی ہوں لیکن آپ کو خود کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔
خدا کے واسطے دعا کے دائرے سے ہرگز ہرگز نہیں نکلئے گا اور یہ مت کہیئے گا کہ جناب دعا مانگی تھی اور اُس کا کوئی جواب نہیں آیا، دیکھئے دعا خط وکتابت نہیں، دعا نامہ نگار نہیں ہے کہ آپ نے چٹھی لکھی اور اُس خط کا جواب آئے۔ یہ تو ایک یکطرفہ عمل ہے کہ آپ نے عرضی ڈال دی اور اللہ کے حضور گزار دی اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ یہ عرضی جا چکی ہےاور اب اس کے اوپر عمل ہو گا۔اُس کی (اللہ) مرضی کے مطابق کیونکہ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس دعا یا عرضی کو پورا کیا جانا ہے اور کس دعا نے آگے چل کر اُس شخص کے لئے نقصان دہ بن جانا ہے اور کس دعا نے آگے پہنچ کر اُس کو وہ کچھ عطا کرنا ہے جو اُس کے فائدے میں ہے۔ دعا مانگنے کے لئے صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہیں ہونا چاہیئے۔
(اقتباس; اشفاق احمد کی کتاب "زاویہ دوم" سے)
Polar Bear
09-25-2012, 09:06 AM
دعا کا سلسلہ ہی ایسا ہے جیسا نلکا " گیڑ" کے پانی نکالنے کا ہوتا ہے۔ جس طرح ہینڈ پمپ سے پانی نکالتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا جو ہینڈ پمپ بار بار یا مسلسل چلتا رہے یا "گڑتا " رہے، اُس میں سے بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے اور جو ہینڈ پمپ سُوکھا ہوا ہو اور استعمال نہ کیا جاتا رہا ہو، اُس پر " گڑنے" والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو۔ اُس پر آپ کتنا بھی زور لگاتے چلے جائیں، اُس میں سے پانی نہیں نکلتا۔ اس لئے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ دعا مانگتے ہی چلے جائیں اور مانگیں توجّہ کے ساتھ، چلتے ہوئے، کھڑے ہوئے، بے خیالی میں کہ یا اللہ ایسے کردے۔ عام طور پر جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں" دعاؤں میں یاد رکھنا " اور وہ بھی کہتے ہیں ہم آپ کو دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ دعاؤں میں یاد رکھتے بھی ہوں لیکن آپ کو خود کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔
خدا کے واسطے دعا کے دائرے سے ہرگز ہرگز نہیں نکلئے گا اور یہ مت کہیئے گا کہ جناب دعا مانگی تھی اور اُس کا کوئی جواب نہیں آیا، دیکھئے دعا خط وکتابت نہیں، دعا نامہ نگار نہیں ہے کہ آپ نے چٹھی لکھی اور اُس خط کا جواب آئے۔ یہ تو ایک یکطرفہ عمل ہے کہ آپ نے عرضی ڈال دی اور اللہ کے حضور گزار دی اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ یہ عرضی جا چکی ہےاور اب اس کے اوپر عمل ہو گا۔اُس کی (اللہ) مرضی کے مطابق کیونکہ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس دعا یا عرضی کو پورا کیا جانا ہے اور کس دعا نے آگے چل کر اُس شخص کے لئے نقصان دہ بن جانا ہے اور کس دعا نے آگے پہنچ کر اُس کو وہ کچھ عطا کرنا ہے جو اُس کے فائدے میں ہے۔ دعا مانگنے کے لئے صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہیں ہونا چاہیئے۔
(اقتباس; اشفاق احمد کی کتاب "زاویہ دوم" سے)
Buht he umda , I like it
اور اس میں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہیں ہونا چاہیئے۔
beyond_vision
09-26-2012, 07:57 AM
Pasandeedgi ka Bohat Shukriya S. Qaiser! :)
beyond_vision
09-27-2012, 08:52 AM
میں نے ندی کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی بھرا نہیں جاسکتا۔ ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح آنا چاہیے تاکہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے اور خوب سیر ہوسکے .... لیکن افسوس کی بات ہے انسان جھکنے کا‘ خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام کرنے نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادات اکارت جارہی ہیں اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہوگیا ہے۔ اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے اور اس میں وہ مٹھاس‘ وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن توازن اور خوشی کی جان تھی۔ اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پراسرار راز رخصت ہوچکا ہے اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریا کاری بن جائے گا اور یہ جھکنا بھی انا کی اِک شان کہلائے گا۔
Polar Bear
09-27-2012, 09:42 AM
Buht khoob Sharing
pakeeza
09-27-2012, 06:46 PM
greatt................
pakeeza
09-27-2012, 06:51 PM
waalaikumsaalm..........
http://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-snc6/c0.0.403.403/p403x403/198679_10151239739165159_1315691199_n.jpg
pakeeza
09-27-2012, 07:03 PM
http://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-ash4/c0.142.403.403/p403x403/402599_10151242366275159_654820426_n.jpg
pakeeza
09-27-2012, 07:04 PM
http://i38.tinypic.com/2nkjo00.png
pakeeza
09-27-2012, 07:06 PM
http://nativepakistan.com/wp-content/uploads/Learning-from-Life-Ashfaq-Ahmed.png
pakeeza
09-27-2012, 07:07 PM
http://nativepakistan.com/wp-content/uploads/Ashfaq-Ahmed-about-Dhoka.jpg
pakeeza
09-27-2012, 07:09 PM
Ashfaq Ahmed likhtay hain
Ashfaq Ahmed likhtay hain
“Aik baat zindagi bhr yad rakhna.
Woh yeh k kisi ko dhoka na daina.
Dhokay may bari jan hoti hay.
Yeh kabi mrta nahin ghom phir kr 1 din wapis ap k pas he punch jata hy
Q k is ko apne thikane sy bari mohabbat hy
wo apni jae pedaish ko chor kr kahin nahin reh sakta”.
pakeeza
09-27-2012, 07:09 PM
Ashfaq Ahmed:
“Mere paas 1 billi thi..
Us ko jab bhook lagti thi aa kar mere paown chat’ti thi.
Aur mein usay khana dey deta tha.
Eik din muje yeh khayal aya k yeh billi mujh se bohat behtar hai.
Is ko pakka yakeen hai ke apnay maalik ke paas se is ki talab poori ho gi,
Aur insan ko is baat ka yaqeen he nahi..
Insan har fikar apnay zimmay ley leta hai.
Un kaamon ki bhi jo us k ikhteyar main nahi hotay..”
pakeeza
09-27-2012, 07:12 PM
Great writer Ashfaq ahmed says
'Great writer Ashfaque ahmad says;
Hamari Khush-kismati ye hai k hum ALLAH ko aik mantay hain,
Aur Bad-kismati ye hai k ALLAH ki aik nahi mantay!!'
pakeeza
09-27-2012, 07:13 PM
Ashfaq Ahmed Likhtay Hain…
1 Sawal Ne Mujhe Bohat Pareshan Keya!
MOMIN Aur MUSLIM Mein Kya Faraq Hai?
Bohat Logon Se Pucha Lekin Kissi K Jawab Se Mutmin Na Hua…
1 Daffa 1 Village Se Guzra
Dekha K 1 Baba G Gannay Ka Russ Nikaal Rahay Hain
Na Janay Dill Mein Kheyaal Aaya K Inn Se Sawal Poochon
Tou Main Ne Salam Keya Aur Ijazat Lae Kar Sawal Btaaya
He Thought & Replied!
“Muslim Wo Hai Jo ALLAH Ko Manta Hai…….”
Aur
“Momin Wo Hai Jo ALLAH Ki Manta Hai”
pakeeza
09-27-2012, 07:14 PM
Great Scholar Ashfaq Ahmad writes in book "zavyia"
Agr koi apko acha lgta hy
to
Acha wo ni ap ho
Q k ap usme Achai talsh krty ho
Agr koi apko bura lgta hy to jnty ho
bura wo ni hy
Bury ap ho
Q k ap usme burai talsh krty ho
Khubsurt hona Eham ni
Eham hona khubsrti hy
Khubsurt insan se Muhbat ni hoti
Bal'k jis se Muhbat ho jay wo khubsurat lagny lgta hy
Rishty khoon k ni Ehsas k hoty hn,
Agr Ehsas ho to ajnabi B apny
Or agr Ehsas na ho to apny B ajnabi.
pakeeza
09-27-2012, 07:16 PM
ÄSLÄM-Ö-ÄLÄIKÜM
All
Ishfaq Ahmad
Äpñi anaa or apny nafs ko kisi aik shakhs ke samney pamaal kar deny kä naam "Ishq-e-Majaazi" hai
or...
äpñi anaa or nafs ko sub ke samney pamaal kar deny kä naam "Ishq-e-Haqiqi" hai...
Mamla anaa ki pamaali kä hai har haal mein.
Stay Blessed
pakeeza
pakeeza
09-27-2012, 07:20 PM
کوئی خوشی ، کوئی رشتہ کوئی جذبہ کبھی مشکل نہیں ہوتا، ان کے بھی پاؤں ہوتے ہیں، بس ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کر کبھی یہ بھاگ کر قریب آجاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں”۔
(اشفاق احمد)
pakeeza
10-02-2012, 10:04 PM
thnkssssssssssssssssssss
beyond_vision
10-03-2012, 08:26 AM
Thanks Polar Bear and Pakeeza sis for visiting the theread and for the appreciation! :)
beyond_vision
10-03-2012, 08:36 AM
خواتین و حضرات اپنے دکھ اور کوتاہیاں دور کرنے کی لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم تسلیم کرنے والوں ، ماننے والوں مین شامل ہو جایں-اور جس طرح الله کہتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ-میرا بڑا بیٹا کہتا ہے کی ابّو دین میں پورے کے پورے کس طرح داخل ہو جایں تو میں اسکو کہتا ہوں کی جس طرح سے ہم بورڈنگ کارڈ لے کر ائیرپورٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر جہاز میں بیٹھ کر ہم بےفکر ہو جاتے ہیں کی یہ درست سمت میں ہی جاےگا اور ہمیں اس بات کی فکر نہی ہوتی کے جہاز کس طرف کو اڑ رہا ہے ، کون اڑا رہا ہے بلکہ آپ آرام سے سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپکو کوئی فکر فاقہ نہی ہوتا -اسی طرح اپنے دین کا بورڈنگ کارڈ ، اپنے یقین کا بورڈنگ کارڈ ہمارے پاس ہونا چاہیے تو پھر ہم خوشیوں اور آسانیوں میں رہیں گے وگرنہ ہم دکھوں ور کشمکش کے اندر ہی رہیں گے
از زاویہ ٢ "تسلیم و رضا کی بندے
Polar Bear
10-03-2012, 08:40 AM
Buht Umda, ess mein koi shak nahin Deen orr Yaqeen ka boarding card hamary pass hona chaye,
Keep Sharing .
beyond_vision
10-04-2012, 11:18 PM
میں نے کہا کے بابا جی مسلمان کون ہوتا، پھر کہئیے؟ صوفی صاحب کہنے لگے کہ "نوٹ! مسلمان وہ ہوتا جس کا دل صاف ہو اور ہاتھ گندے ہوں۔"
میں نے کہا حضور یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کہنے لگے "جو توجہ اور صاف دل سے بھائیوں کے کام کرتا رہے گا اس کے ہاتھ تو گندے ہوں گے جو آرام سے بیٹھا ہو گا دستانے پہن کے اُسکا تو کچھ بھی خراب نہیں ہونا"۔۔۔
از اشفاق احمد- زاویہ سے اقتباس
beyond_vision
10-04-2012, 11:20 PM
روحانی ادویات کا نسخہ بھی کسی جگہ سے لکھا ہوا نہیں ملتا ہے ، یہ آپ کو اپنی ذات کے ساتھ بیٹھ کر اور خود کو ایک طبیب کے سامنے دو زانوں ہوکر بیٹھنے کے انداز میں پوچھنا پڑتا ہے کے بابا جی یہ میری خرابی اور یہ میری الجھن ہے اور پھر آپ ہی کے اندر کا وجود یا طبیب بتاءے گا کے آپ کو کیا کرنا ہے جب آپ خود اپنی ذات سے خامیاں خوبیاں پوچھنے اور سوال و جواب کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو پرابلمز حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں
از اشفاق احمد زاویہ ٢ بونگیاں مارین خوش رہیں پیج٢٤٢
pakeeza
10-05-2012, 06:49 PM
urrrrrrr welcomee siso
nd
thnkssssssssssssss
pakeeza
10-05-2012, 06:52 PM
http://i41.tinypic.com/2ql4z6d.gif
pakeeza
10-05-2012, 06:54 PM
:In English
I asked Baba G..Who is Muslim ? Sheikh Said that Note Muslim is that Person who's Heart is Clean and hands are dirty; i said Sir i don't Understand it. He Said that The One who Keep Helping his Brothers his hands are obviously going to be dirty rather the Person who Keeps his hands in the gloves how can his hands will be dirty
Urdu Zavia Said by Ashfaq Ahmad a Great Urdu Thinker
pakeeza
10-05-2012, 06:56 PM
:In English
Quote From Zavia 2, Chapter Multinational Wishes, by Ashfaq Ahmad
I asked from Baba G (my Respectable Elder ) that Sir why is that restlessness (i feel), why there is so much worries (arround me), why we are unable to sit with satisfaction and peace in heart? then he replied that look don't keep your bundle of problems in front of you, take them to Allah, He will Solve it. You Try to solve those (problems) all by yourself, But you never can solve it (but only Allah).
pakeeza
10-08-2012, 09:44 PM
معافی اور درگزر
ہم سب کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ معافی اور درگزر، یہ ایک پھول کی مانند ہیں۔ اس کے باعث انسان ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور یہ "معافی" انسانوں کے مابین Connectivity کا کام دیتی ہے۔ جو لوگ معافی مانگنے سے محروم ہو جاتے ہیں وہ انسان کے درمیان رابطے اور تعلق کے پل کو توڑ دیتے ہیں اور ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ ان کو خود کسی وجہ سے آدمیوں اور انسانوں کے پاس جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہےئ لیکن وہ پل ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک انسان سے کوئی زیادتی کرتے ہیں یا انسان کا کوئی گناہ کرتے ہیں اور پھر وہ انسان خدانخواستہ فوت ہو جاتا ہے یا برطانیہ یا کینیڈا جا کر آباد ہو جاتا ہے تو پھر ہمیں اس انسان کے پاس جا کر معافی مانگنے میں بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے لیکن اگر ہم خدا کے گناہگار ہوں اور ہمارا ضمیر اور دل ہمیں کہے کہ "یار تو نے یہ بہت بڑا گناہ کیا تجھے اپنے رب سے معافی مانگنی چاہیے"۔ تو اس صورت میں سب سے بڑی آسانی یہ ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے خدا کو کہیں جا کر ڈھونڈنا نہیں پڑتا، تلاش نہیں کرنا پڑتا کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے ۔ اس لئے ہمارے بابے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارے بابا جی اکثر و بیشتر یہ کہا کرتے تھے کہ، "انسان کے معاملے میں بہت احتیاط کیا کرو اور کوئی ایسا گناہ یا غلطی کی سرزدگی سے بچا کرو جو انسان سے متعلق ہو، کیونکہ انسان سے کیے گناہ یا ظلم کی معافی اس سے ملے گی۔ اگر تم سے خدا کا گناہ ہوجاتا ہے تو یہ اور بات ہے وہ رحیم و کریم ہے اور ہر جگہ موجود ہے، اس سے معافی کسی بھی وقت مانگی جا سکتی ہے (موت سے پہلے)۔ اگر وہ انسان کھو گیا تو مارے جاؤ گے"۔
اشفاق احمد
pakeeza
10-08-2012, 09:46 PM
زاویہ دوم، باب پینتیس سے اقتباس....اشفاق احمد
اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جاۓ تو اس کا کام بن جاتا ہے جبکہ لوگ اس کے لۓ ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔ میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میر ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “رنگیل پیڑھی“ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے میں نے تیرے لۓ پکایا ہے۔ ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہ “پیڑھی“ پڑی تھی میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پُتر ایس تے نئیں بیٹھنا“ (نہ نہ بیٹا، اس پر مت بیٹھنا)، میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔
کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔
کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گۓ تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لۓ ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “رنگیل پیڑھی“ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔ خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گۓ وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ٹامک ٹوئیاں “ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کۓ کراۓ پر “ کُوچی “ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔
زاویہ دوم، باب پینتیس سے اقتباس
اشفاق احمد
pakeeza
10-08-2012, 09:46 PM
اشفاق احمد کے افسانے ” بندرا بن کی کنج گلی میں ” سے اقتباس
“آپ کو پتا ہے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرنے والا سارا ادب … “
“فوت ہو جائے گا” میں نے بات کاٹ کر کہا۔
“ہاں” وہ ہنس پڑی ۔ اس کی آنکھیں پکار پکار کر کہ رہی تھیں ۔ یہ نہایت ہی موزوں لفظ ہے ۔
یونیورسٹی لائبریری سے ایک دِن اچانک مجھے ایک انگریز مصنف کے خطوط کی کتاب ملی. وہیں کھڑے کھڑے ایک دو خط پڑھے . یہ کتاب لائبریری میں 1927 سے پڑی تھی. مگر ایک دفع بھی اشوع نہیں ہوئی تھی . میں وہ کتاب لے کر گھر آ گیا اور رات بھر پڑھتا رہا . بڑے جذباتی خطوط تھے . سیدھی سادی زبان میں پیاری پیاری باتیں لکھی تھیں . پہلا خط کچھ اس طرح شروع ہوتا تھا !
جان ِتمنا ! ۔
جاننا چاہتی ہو کہ تمھارے چلے جانے کے بعد مجھ پر کیا بیتی ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ پہاڑ کے دامن میں کسانوں کے ننھے ننھے جھونپڑے مجھے اب بھی ویسے ہی حسین نظر آتے ہیں اور وادی میں گلاب اور یاسمین کی نگہت اب بھی ویسی ہی طرب انگیز ہے۔ جب تم یہاں تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس! ہر چیز نے اپنا لطف اپنا انداز بدل دیا ہے ۔ جب سے تم نے اس وادی کو چھوڑا ہے میں صاحبِ فراش ہوں۔ آج جونہی میں کھانے کی میز پر بیٹھا میرا دل اندر ہی اندر ڈوب گیا ۔ تنہا رکابی ، ایک چھری ، ایک کانٹا اور پانی کا گلاس، میں نے دکھے دل سے اس کرسی کی طرف دیکھا جس پر تم بیٹھا کرتی تھی اسے خالی دیکھ کر میرا جی بھر آیا اور میں نے چھری اور کانٹا میز پر ڈال دیے اور اسی رومال سے اپنا منہ ڈھانپ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ مجھے وادی کی بہاریں اب کیسی لگتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشفاق احمد کے افسانے ” بندرا بن کی کنج گلی میں ” سے اقتباس
pakeeza
10-08-2012, 09:48 PM
محبّت کی حقیقت
زاویہ ٣
محبّت کا سفر اختیار کرنے کے لئے پہلی منزل فیملی یونٹ کی ہے - جو شخص پہلی منزل تک نہیں پہنچ پاتا وہ آخری منزل تک کسی صورت بھی نہیں پہنچ پاتا - جب فیملی یونٹ مستحکم ہوتا ہے ، اور اس کے افراد فیملی ممبرز سوسائٹی میں پھیل جاتے ہیں تو محبّت کو وسعت نصیب ہوتی ہے - اور محبّت سوسائٹی میں دور دور تک پھیل جاتی ہے
محبّت کے بغیر انسان ایک فرد ہے - ایک ایگو ہے - خالی انا ہے - اس کا کوئی گھر بار نہیں کوئی فمیلی نہیں - اس کا دوسروں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں - کوئی تعلق نہیں ، یہ بے تعلقی یہ نا رشتےداری موت ہے زندگی تعلق ہے رشتےداری سمبندھ ہے -
اشفاق احمد
pakeeza
10-08-2012, 09:48 PM
نیک خواہشات
نیک خواہشات ہمارے بابے جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہتے ہیں کے اگر آپ کسی محفل میں ، کسی یونیورسٹی ، سیمینار، اسمبلی میں کسی اجتما ع میں یا کسی بھی انسانی گروہ میں بیٹھے کوئی موضوع شدت سے ڈسکس کر رہے ہوں اور اس پر اپنے جواز اور دلائل پیش کر رہے ہوں اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آ جائے جو بہت طاقتور ہو اور اس سے اندیشہ ہو کے اگر میں یہ دلیل دونگا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اس آدمی کے پاس دلیل کی کاٹ نہیں ہوگی شطرنج کی ایسی چال میرے پاس آ گئی ہے کہ یہ اس کا جواب نہیں دے سکے گا اس موقعے پر بابے کہتے ہیں کے اپنی دلیل روک لو بندہ بچا لو اسے ذبح نہ ہونے دو کیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے
اشفاق احمد
زاویہ
pakeeza
10-08-2012, 09:49 PM
گڈريا
پارٹ 2
اس نے گلاس ساتھ منہ لگائے لگاے ڈيڈ کہا اور پھر گلاس گھڑونچي تلے پھينک کر اپنے کمرے ميں چلا گيا، دائو جي پھر پڑھنے ميں مصرف ہوگئے گھر ميں ان کو اپني بيٹي سے بڑا پيار تھا، ہم سب اسے بي بي کہہ کر پکارتے تھے، اکيلے دائو جي نے اسکا نام قرہ رکھا ہوا تھا، اکثر بيٹھے بيٹھے ہانک لگا کر کہتے، قرھ بيٹي قينچي تجھ سےکب چھوٹے گي؟ اور وہ اس کے جواب ميں مسکرا کر خاموش ہوجاتي، بے بے کو اس نام سے بڑي چڑ تھي، وہ چيخ کر جواب ديتي تم نے اس کا نام قرھ رکھ کر اس کے بھاگ ميں کرتے سينہ لکھواديا ہے، منہ اچھا نہ ہو تو شبد تو اچھے نکالنے چاہئيں اور دائو جي لمبي سانس لے کر کہتے، جاہل اسکا مطلب کيا جانيں؟ اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا، اور اس کے منہ ميں جو کچھ آتا ہے کہتي چلي جاتي پہلے کوسنے ، پھر بد دعائيں اور آخر ميں گاليوں پر اتر آتي، بي بي روکتي تو دائو جي کہتے ہوائيں چلنے کو ہوتي ہيں بيٹا اور گالياں برسنے کو، تم انہيں روکو مت، انہيں ٹوکو مت، پھر وہ اپني کتابيں سميٹتے اور اپنا محبوب حصير اٹھا کر چپکے سے سیڑھياں چڑھ جاتے ہيں۔
نويں جماعت کے شروع ہي ميں مجھے ايک بري عادت پڑ گئي، اور ا س بري عادت نے عجيب گل کھلائے، حکيم احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ايک ہي حکيم تھے، علاج معالجہ سے تو انہيں کچھ ايسي دل چسپي نہ تھي، ليکن باتيں بڑي مزيدار کرتے تھے، اوليائوں کے تذکرے، جنوں کي کہانياں، اور حضرت سليمان اور ملکہ سبا کي گھريلو زندگي کي داستانيں ان کے تير بہدف ٹوٹکے تھے، انکي تنگ و تاريک مطب ميں معجون کے ڈبوں شربت کي دس پندرہ بوتلوں اور دوا آتشي شيشيوں کے سوا اور کچھ نہ تھا، دوائوں کے علاوہ وھ اپني طلسماتي تقرير اور حضرت سليمان کے خاص صدري تعويذوں سےمريض کا علاج کرتے تھے، انہيں انہيں باتوں کيلئے دور دراز گائوں کے مريض ان کے پاس کھنچے چلے آتے تھے، اور فيض ياب ہو کر جاتے تھے، ہفتہ دو ہفتہ کي صحبت ميں ميرا ان کے ساتھ ايک معاہدہ ہوگيا، ميں اپنے ہسپتال سے ان کيلئے خالي بوتليں اور شيشياں چراکے لاتا، اور اس کے بدلے وہ مجھے داستان امير حمزہ کي جلديں پڑھنے کيلئے ديا کرتے۔
يہ کتابيں کچھ ايسي دل چسپ تھيں کہ ميں رات رات بھر اپنے بستر ميں دبک کر انھيں پڑھا کرتا اور صبح دير تک سويا رہتا، اماں ميرے اس روئيے سے سخت نالاں تھيں، ابا جي کو ميري صحت برباد ہونا کا خطرہ لاحق تھا، ليکن ميں نے ان کو بتا ديا تھا کہ اب کہ جان چلي جائے دسويں ميں وظيفہ ضرور حاصل کروں گا۔
رات طلسم ہوش رہا کہ ايوانوں ميں بسر ہوئي اور دن کلاس ميں بيچ پر کھڑے ہو کر سہ ماہي امتحان ميں فيل ہوتے ہوتے بچا، ششماہي ميں بيمار پڑگيا، اور سالانہ امتحان کے موقعہ پر حکيم جيکي مدد سے ماسٹروں سے ملا کر پاس ہوگيا، دسويں ميں صندلي نامہ فسانہ آزاد، اور الف ليلہ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانہ آزاد اور صندلي نامہ گھر پر تھے تھے، ليکن اليف ليلہ اسکول کي شيدک ميں بند تھي، آخري بنچ پر جغرافيہ کي کتاب تلے سندباد جہازي کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنيا کي سير کرتا۔۔۔بائيس مئي کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے سےبلکہ يونيورسٹي سے نتيجہ کي کتاب ايم بي ہائي اسکول پہنچي، امي چند ہے نہ صرف اسکول ميں بلکہ ضلع بھر اول آيا تھا، بلکہ چھ لڑکے فيل تھے، اور بائيس پاس حکيم جي کا جادو يونيورسٹي پر نہ چل سکا اور پنجاب کي جا بردانش گاہ نے ميرا نام بھي ان جھئوں لڑکوں ميں ڈال ديا، اس شام قبلہ گاہي نے بيد سے ميري پٹائي کي اور گھر سے باہر نکال ديا، ميں ھسپتال سے رہٹ کي گدي پر آبيٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کيا کرنا چاہئے، اب کدھر جانا چاہئيے خدا کا ملک اتنا تنگ نہيں تھا اور ميں عمر و عيار کے ہتھکنڈوں اور سند باد جہازوں کے تمام طريقوں سے واقف تھا مگر پھر بھي کوئي راہ سمجھائي نہ ديتي تھي، نہ کوئي دو تين گھنٹے اسي طرح ساکت وجا اس گدي پر بيٹھا زيست کرنے کي راہيں سوچتا رہا۔
اتنے ميں اماں سفيد چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتي ادھرآگئيں اور ابا جي سے معافي لے دينے کا وعدہ کرکے مجھے گھر پر لے گئيں مجھے معافي وافي سے کوئي دلچسپي نہيں تھي، مجھے افسوس تو بس ايک رات اور انکے گھر ميں گزارني تھي اور صبح اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا، چناچہ ميں آرام سے انکے ساتھ جاکر حسب معمول اپنے بستر پر ليٹ گيا۔
اگلے دن ميرے فيل ہونے والے ساتھيوں ميں سے خوشيا کوئو اور ويسويب مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بيٹھے مل گئے، وہ لاہور کے بزنس کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے، ويسويب يب نے مجھے بتايا کہ لاہور ميں بہت بزنس ہے کيونکہ اسکے بھايا جي اکثر اپنے دوست فتح محمد چند کے ٹھيکوں کا ذکر کيا کرتے تھے، جس نے سال کے اندر اندر دو کاريں خريد لي، ميں نے ان سے بزنس کي نوعيت کي بارے ميں پوچھا تو ويسويب يب نہ کہا لاہور ميں ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے، بس ايک دفتر ہونا چاہئيے او اس کے سامنے بڑا سائن بورڈ ديکھ کر لوگ خود ہي بزنس دے جاتے ہيں، اور وقت بزنس سے مراہ وہ کرنسي نوٹ لے رہا تھا۔
ميں نے ايک مرتبہ پھر وضاحت چاہي تو کو ڈو چمک کو بولا يارو ويسوسب جانتا ہے، يہ بتا تو تيار ہے يا نہيں؟
پھر اس نے پلٹ کر ديسو سے پوچھا، انارکلي ميں دفتر بنائيں گے؟
ويسو نے ذرا سوچ کر کہا انارکلي ميں يا شاہ عالمي کے باہر دونوں ہي جگہيں ايک ہي سوال ہيں، ميں نے کہا انار کلي زيادہ مناسب ہے کيونکہ وھ ہي زيادہ مشہور جگہ ہے اوراخباروں ميں جتنے بھي اشتہار نکلتے ہيں ان ميں انار کلي لاہور لکھا جاتا ہے۔
چناچہ يہ طے پايا کہ اگلے دن دو بجے کي گاڑي سے ہم لاہور روانہ ہوجائيں گے، گھر پہنچ کر ميں سفر کي تياري کرنے لگا بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آکر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا، چلو جي ڈاکڑ صاحب بلاتے ہيں۔
کہا ہيں ؟ ميں نے برش زمين پر رکھ ديا اور کھڑا ہو گيا۔
ہسپتال ميں وہ بدستور مسکرا رہا تھا، کيونکہ ميري پٹائي کے روز حاضرين ميں وہ بھي شامل تھا، ميں ڈرتے ڈرتے برآمدے کي سيڑھياں چڑھا پھر آہستہ سئ جالي والا دروازہ کھول کر ابا جي کے کمرے ميں داخل ہوا، تو وہاں ان کے علاوہ دائو جي بھي بيٹھے تھے، ميں نے سہمے سہمے دائو جي کو سلام کيا اوعر اس کے جواب ميں بڑي دير کے بعد جيتے رھو کي مانو دعا سني۔
انکو پہچانتے ہو؟ ابا جي نے سختي سے پوچھا۔
بے شک ميں ايک مہذب سيلز مين کي طرح بولا۔
بے شک کے بچے، حرام زادے، ميں تير يہ سب۔۔۔۔۔
نہ نہ ڈاکٹر صاحب دائو جي نے ہاتھ اوپر اٹھا کرکہا، يہ تو بہت ہي اچھا بچہ ہے اسکو تو۔۔۔۔
اور ڈاکٹر صاحبنے بات کاٹ کر تلخي سے کہا، آپ نہيں جانتے منشي جي، اس کمينے نے ميري عزت خاک ميں ملا دي۔
آپ فکر نہکريں دايو جي نہ سرجھکائے کہا،يہ ہمارے آفتاب سے بھي ذہين ہے اور ايک دن۔۔۔۔
اب ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگيا اور انھوں نے ميز پر ہاتھ مار کر کہا کيسي بات کرتے ہيں منشي جي، يہ آفتاب کے جوتے کي برابري بھي نہيں کرسکتا۔
کر لے گا، کر لے گا، ڈاکٹر صاحب، دائو جي نے اثبات ميں سر ہلاتے ہو ئے کہا۔۔۔ آپ خاطر جمع رکھيں۔
پھر وہ اپني کرسي سے اٹھے اور ميرے کندھے پر ہات رکھ کر بولے ميں سير کو چلتا ہوں، تم بھي ميرے ساتھ آئو راستے ميں باتيں کريں گے۔
اباجي اسي طرح کرسي پر بيٹھے غصے کے عالم ميں اپنا رجسٹرڈ الٹ پلٹ کرتے رہے اور بڑ بڑاتے رہے، ميں نے آہستہ آہستہ چل کر جالي والا دروازہ کھولا، تو دائو جي نے پيچھے مڑ کر کہا ، ڈاکڑ صاحب بھول نہ جائيے گا ابھي بھجواديجئيے گا۔
دائو جي مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسي ميں بتاتے ، نہر کے اسي پل پر لے گئے، جہاں پہل ميرا ان سے تعارف ہوا تھا، اپني مخصوص نشست پر بيٹھ کر انہوں نے پگڑي اتار کر گود ميں ڈال دي، سر پر ہاتھ پھرا مجھے سامنے بيٹھنے کا اشارہ کيا پھر انہوں نے آنکھيں بند کرليں، اور کہا آج سے ميں تمھيں پڑھائوں گا، اور اگر جماعت ميں اول نہ لاسکا تو فرسٹ ڈيوثرن ضرور دلوادوں گا ميرے ہر ارادے ميں خدا کي مدد شامل ہوتي ہے، اور اس ہستي نے مجھے اپني رحمت سے کبھي مايوس نہيں کيا۔۔۔۔۔
مجھ سے پرھائي نہ ہوگي۔ ميں نے گستاخی سے بات کاٹ کر کہا۔
تو اور کيا ہوگا، گولو؟ انھوں نے مسکرا کر پوچھا۔
ميں نے کہا ميں بزنس کروں گا، روپيہ کمائوں گا اور اپني کار لے کر يہاں آوں گا پھر ديکھنا۔۔۔۔۔۔۔
اب کے دائو جي نے ميري بات کاٹي اور بري محبت سے کہا، خدا ايک چھوڑ تجھے دس کاريں دے، ليکن ايک ان پڑھ کي کار ميں نہ بيٹھوں گا نہ ڈاکڑ صاحب۔
ميں نے جل کر کہا مجھے کسي کي پروا نہيں ڈاکڑ صاحب اپنے گھر راضي ميں يہاں خوش۔
انھوں نے حيران ہوکر پوچھا ميري بھي پراوہ نہيں؟ ميں کچھ کہنے والا تھا کہ وہ دکھي سے ہوگئے، اور بار بار پوچھنے لگے، ميري بھي نہيں؟ او گولو ميري بھي نہيں؟
مجھے ان کے لہجے پر ترس آنےلگا اور ميں نے آہستہ سے کہا، آپ کي تو ہے، مگر۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ميري بات نہ سني اورکہنے لگے، اگر اپنے حضرت کے سامنے ميرے منہ سے ايس بات نکل کاتي؟ اگر ميں يہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے نے فورا اپني پگڑي اٹھا کر سر پر رکھ لي، اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے ميں حضور کے دربار کا ايک ادني سا کتا ہو، ميں حضرت مولان کي خاک سے بدتر بندھ ہو کر آقا سے يہ کہتا ، لعنت کا طوق نہ پہننا؟خاندان ابوجہل کا خانوادہ اور آقا ايک نظر کر، حضرت کا ايک اشارہ حضور نے چنتو کو منشي رام بناديا، لوگ کہتے ہيں، ميں کہتا ہوں، رحمتہ اللہ عليہ کا کفش بردار۔۔۔لوگ سمجھتے ہيں دائو جي کبھي ہاتھ جوڑتے کبھي سر جھکاتے کبھي انگلياں چوم کر آنکھوں کو لگاتے، اور بيچ بيچ ميں فارسي کے شعر پڑھتے جاتے، ميں کچھ پريشان سا ان کا زانو چھو کر آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا، دائو جي دائو جي اور دائو جي ميرے آقا ميرے مولا، ميرے مرشد، کا وظيفہ کئے جارہے تھے، جب جذب کايہ عالم دور ہوا تو نگايھں اوپر اٹھا کر بولے، کيا اچھ اموسم ہے، دن بھر دھوپ پڑتي ہے تو خشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے، پھر وھ پل کي ديوار سے اٹھے اور بولے چلو اب چليں بازار تھوڑا سودا خريد نا ہے۔
ميں جيسا سرکش و بد مزاج بنکر ان کے ساتھ آيا تھا، اس سے کہيں زيادہ منفعل اور خمل ان کے ساتھ لوٹا، گھمسے يعني ديسويب يب کے باپ کي دوکان سے انھوں نے گھريلو ضروريات کي چيزیں اور لفافے گود ميں اٹھا کر چل دئيے، ميں بار بار ان سے لفافے لينے کي کوشش کرتا، مگر ہمت نہ پڑتي، ايک عجيب سي شرم ايک انوکھي سي ہچکچاہٹ مانع تھي، اور اسي تائل اور جھجک ميں ڈوبتا ابھرتا ميں ان کے گھر پہنچ گيا۔
وہاں پہنچ کر يہ بھيد کھلا کہ اب ميں انہي کے ہاں سويا کروں گا، اور وہيں پڑھا کروں گا، کيونکہ ميرا بسترا مجھ سے بھي پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا، اور اس کے پاس ہي ہمارے يہاں سے بھيجي ہوئي ايک ہريکبين لالٹين بھي رکھي تھي۔
بزنس مين بننا اور پاں پاں کرتي پيکار ڈاڑائے پھر ناميرے مقدر ميں نہ تھا، گو ميرے ساتھيوں کيروانگي کے تيسرے ہي روز بعد ان کے والدين بھي انھيں لاھور سے پکڑ لائے، ليکن اگر ميں ان کےساتھ جاتا تو شايد اس وقت انار کلي ميں ہمارا دفتر پتہ نہيں تري کے کون سے شان دار سال ميں داخل ہوچکا ہوتا۔
دائو جي نے ميري زندگي اجيرن کر دي ہے، مجھے تباہ کر ديا، مجھ پر جيان حرام کر ديا، سارا دن اسکول کي بکواس ميں گزرتا ہے اور رات گرميوں کي مختصر رات انکي سولات کا جواب دينے ميں، کوٹھے پر ان کي کھاٹ ميرے بستر کے ساتھ لگي تھي، اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ کي نہروں کي بابت پوچھ رہے تھے، ميں نے بالکل ٹھيک بتا ديا، ہےتو وہ اس سوال کو دہرا رہے ہيں، ميں پھر بتا ديا اور انہوں نے پھر انہي نہروں کوآگے لا کھڑا کرديا ہے، ميں جل تھل اور جھڑک کہ کہتا، مجھے نہيں پتا، ميں نہيں بتاتا، تو وہ خاموش ہوجاتے اور دم سادھ ليتے ميں آنکھيں بند کرکے سونے کي کوشس کرتا تو وہ شرمندگي کنکر بن کر پتيليوں ميں اتر جاتي۔
ميں آہستہ سے کہتا دائو جي۔
ہوں ايک گھمبير سي آواز آئي۔
دائو جي کچھ اور پوچھو۔
دائو جي نے کہا، بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے چلے، اس کي ترکيب نخوبي کرو۔
ميں نے سعادت مندي کے ساتھ جواب ديا، جي يہ تو بہت لمبا فقرہ ہے، صبح لکھ کر بتا دوں گا۔
انھوں نے آسمان کي طرف نگاہيں اٹھاتے ہوئے کہا، ميرا گولو بہت اچھا ہے۔
ميں نے ذرا سوچ کر کہنا شروع کيا، بہت اچھا صفت ہے حرف ربط ملکر نيا مسند۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دائو جي اٹھکر چار پائي پر بيٹھ گئے، ہاتھ اٹھ اکر بولے جان پدر تجھے پہلےبھي کہا ہے مسند اليہ پہلے بنايا کر۔
ميں نےترکيب بخوي سے جان چھڑانےکيلئے پوچھا ، آپ مجھے جان پدر کيوں کہتےہيں؟ جان دائو کيوں نہيں کہتے؟
شاباش وہ خوش ہو کر کہتے، ايسي باتيں پوچھنے کيہوتي ہيں، جان لفط فارسي کا ہے، اور دائو بھاشا کا ، انکے درميان فاسي اضافت نہيں لگ سکتي ہے، جولوگ دن بہ دن لکھتے ہيں يا بولتے ہيں سخت غلطي کرتےہيں روز بہ روز کہو يا دن پر دن اسي طرح سے۔۔۔
اور جب ميں سوچتا کہ يہ تو ترکيب بخوي سے بھي زيادہ خطرناک معاملے ميں الجھ گيا ہوں تو جمائي لے کر پياسر سےکہتا ہوں کہ دائو جي اب تو نيند آرھي ہے۔
اور وہ ترکيب بخوي؟وہ جھٹ سے پوچھتے۔
اسکے بعد ميں چاہے لاکھ بہانے کرتا، ادھر ادھر کي ہزار باتيں کرتا، مگر وہ اپني کھاٹ پر ايسے بيٹھے رہتے بلکہ اگر ذرا سي دير دير ہو جاتي تو کرسي پر رکھي ھوئي پگڑي اٹھا کر سر پر رکھ ليتے، چناچہ کچھ بھي ہوتا ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دينا پڑتا۔
امي چند کالج چلاگيا، تو اسکي بيٹھک مجھے مل گئي اور دائو جي کے دل ميں اسکي محبت پربھي قبضہ کر ليا، اب مجھےدائو جي بہت اچھے لگتے تھے، ليکن ان کي باتيں جو اس وقت مجھے بري لگتي تھيں، وہ اب بھي بري لگتي ہيں، بلکہ اب پہلے سے بھي کس قدر شايد اس لئے کہ ميں نفسيات کا ياک ہونہار طالب علم ہوں۔
اور دائو جي پرانے ملائي مکتب کے پرورھ تھے، سب سے بري عادت ان کي اٹھتے بيٹھتے سوال پوچھنے کي تھي، اور دوسري کھيل کود سےمنع کرنے کي تھي، وہ تو بس يہ چاہتے ہيں کہ آدمي پڑھتا رہے پڑھتا رہے، اور جب اس مدقوق کي موت کا دن قريب آئے تو کتابوں کے ڈھير پر جان دے دے، صحت جسماني قائم رکھنے کيلئے ان کے پاسصرف ايک ہي نقصہ تھا، لمبي سير اور وہ بھي صبح کي، تقريبا سورج نکلنے سے دو گھنٹے پيشتر وہ مجھے بيٹھک ميں جگانے آتے تھے، اور ميرا کندھا ہلا کر کہتے، اٹھ گولو موٹا ہوگيا ہے بيٹا، دنيا جہان کے والدين صبح جگانے کيلئے کہتے ہيں، اٹھو بيٹا صبح ہوگئي ہے، يا سورج نکل آيا ہے، مگر وہ موٹا ہوگيا، کہہ کر ميري تذليل کيا کرتے تھے، ميں منمناتا تو چمکار کر کہتے بھدا ہوجائےگا بيٹا گھوڑا پر ضلع کا دورہ کيسے کرے گا، اور ميں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر کہتا دائو جي خدا کيلئے مجھے صبح نہ جگائو چاہے قتل کر دو، جان سےمار ڈالو۔
يہ فقرہ سنکي سب سے بڑي کمزوري تھي، وہ فورا ميرے سر پر لحاف ڈال ديتےہيں اور باہر نکل جاتے، بے بے کو ان دائو جي سے اللہ واسطے کا بير تھا اور دائو جي ان سے بہت ڈرتے تھے، وہ سارا دن محلے واليوں کپڑے سيتيں اور دائو جي کو کوسنے دئيے جاتے، ان کي اس زبان درازي پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دريا ميں رھ کر مگر مچھ سے بير نہ ہوسکتا تھا، کبھي کبھار جب وہ ناگفتگي گاليوں پر اتر آتيں تو دائو جي ميري بيٹھک ميں آجاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسي پر بيٹھ جاتے تھوڑي دير بعد کہتے غيبت کرنا بڑا گناہ ہے، ليکن ميرا خدا مجھے معاف کردے تيري بے بے بھٹيارن ہے اور اسکي سرائے ميں ميري قرتھ العين اور تھوڑا تو بھي، ہم تينوں بڑے عاجز مسافر ہيں، اور جو واقعي بے بے بھٹيارن سي تھي، اس کا رنگ سخت کالا تھا دانت بيحد سفيد،ماتھا محراب دار آنکھيں چنياں سي، چلتي تو ايسي گربہ پائي کے ساتھ جيسے خدا مجھےمعاف کرے کٹني کنسوئياں ليتي پھرتي ہے، بچاري بي بي کو ايسي ہي بري باتيں کہتي کہ وہ دونوں دن رو رو کر کر ہلکان ہوا کرتي ، ايک امي چند کے ساتھ اسکي بنتي تھي، شايد وہ اس وجہ سے کہ دونوں ہم شکل تھے، يا شايد اس وجہ سے کي اس کي بي بي کي طرح اپنے دائو جي سے پيار نہ تھا، يوں تو بي بي بے چاري بہت اچھي تھي، مگر اس سے مير بھي نہ بنتي تھي، ميں کوٹھے پر بيٹھا سوال نکال رہا ہوں، دائو جي نيچے بيٹھے ہيں اور بي بي اوپر برساتي سے ايندھن ليے آئي تو ذرا رک کر مجھے ديکھا پھر منڈير سے جھانک کر بولي دائو جي پڑھ نہيں رہا ، تنکوں سے چارپائياں بنا رہا ہے۔
ميں غصيل بچے کي طرح منہ چڑاکر کہتا، تجھے کيا نہيں پڑھتا تو کيوں بڑ بڑ کرتي ہے، آئي بڑي تھانے دارني۔
اور دائو جي بھي نيچے سے ہانک لگا کر کہتے ہيں، نہ گولو بہنوں سے نہيں جھگڑا کرتے اور ميں زور سے چلايا پڑھ رہا ہوں جي جھوٹ بولتي ہے۔
دائو جي آہستہ آہستہ سيڑھياں چڑھ کر اوپر آجاتے اور کاپيوں کے نيچے نيم پوشيدہ چار پائي ديکھ کر کہتے، قرھ بيٹا تو اس کو نہ چڑايا کر يہ جن بڑي مشکل سے قابو کيا ہے، اگر ايک بار پھر بگڑ گيا تو مشکل سے سنبھلے گا۔
بي بي کہتي کاپي اٹھا کر ديکھ لو دائو جي اسکے نيچے ہے وھ چار پائي جس سے کھيل رہا تھا۔
ميں قہر آلودنگاہوں سے بي بي کو ديکھتا ہوں وہ لکڑياں اٹھا کر نيچے اتر جاتي ہے پھر دائو جي سمجھاتے کہ بي بي يہ سب کچھ تيرے فائدے کيلئےکہتي ہے ورنہ اسے کيا پڑي ہے، کہ مجھے بتاتي پھرے، تو فيل ہو يا پاس اس کي بلا سے، اگر وہ تيري بھالئي چاہتي ہے تيري بہتري چاہتي ہے اور دائو جي کي يہ بات ہر گز سمجھ ميں نہ آتي تھي، ميري شکايتيں کرنے والي ميري بھلائي کيوں کر چاہ سکتي ہو؟
اشفاق احمد
pakeeza
10-08-2012, 09:50 PM
گڈريا
پارٹ 2
اس نے گلاس ساتھ منہ لگائے لگاے ڈيڈ کہا اور پھر گلاس گھڑونچي تلے پھينک کر اپنے کمرے ميں چلا گيا، دائو جي پھر پڑھنے ميں مصرف ہوگئے گھر ميں ان کو اپني بيٹي سے بڑا پيار تھا، ہم سب اسے بي بي کہہ کر پکارتے تھے، اکيلے دائو جي نے اسکا نام قرہ رکھا ہوا تھا، اکثر بيٹھے بيٹھے ہانک لگا کر کہتے، قرھ بيٹي قينچي تجھ سےکب چھوٹے گي؟ اور وہ اس کے جواب ميں مسکرا کر خاموش ہوجاتي، بے بے کو اس نام سے بڑي چڑ تھي، وہ چيخ کر جواب ديتي تم نے اس کا نام قرھ رکھ کر اس کے بھاگ ميں کرتے سينہ لکھواديا ہے، منہ اچھا نہ ہو تو شبد تو اچھے نکالنے چاہئيں اور دائو جي لمبي سانس لے کر کہتے، جاہل اسکا مطلب کيا جانيں؟ اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا، اور اس کے منہ ميں جو کچھ آتا ہے کہتي چلي جاتي پہلے کوسنے ، پھر بد دعائيں اور آخر ميں گاليوں پر اتر آتي، بي بي روکتي تو دائو جي کہتے ہوائيں چلنے کو ہوتي ہيں بيٹا اور گالياں برسنے کو، تم انہيں روکو مت، انہيں ٹوکو مت، پھر وہ اپني کتابيں سميٹتے اور اپنا محبوب حصير اٹھا کر چپکے سے سیڑھياں چڑھ جاتے ہيں۔
نويں جماعت کے شروع ہي ميں مجھے ايک بري عادت پڑ گئي، اور ا س بري عادت نے عجيب گل کھلائے، حکيم احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ايک ہي حکيم تھے، علاج معالجہ سے تو انہيں کچھ ايسي دل چسپي نہ تھي، ليکن باتيں بڑي مزيدار کرتے تھے، اوليائوں کے تذکرے، جنوں کي کہانياں، اور حضرت سليمان اور ملکہ سبا کي گھريلو زندگي کي داستانيں ان کے تير بہدف ٹوٹکے تھے، انکي تنگ و تاريک مطب ميں معجون کے ڈبوں شربت کي دس پندرہ بوتلوں اور دوا آتشي شيشيوں کے سوا اور کچھ نہ تھا، دوائوں کے علاوہ وھ اپني طلسماتي تقرير اور حضرت سليمان کے خاص صدري تعويذوں سےمريض کا علاج کرتے تھے، انہيں انہيں باتوں کيلئے دور دراز گائوں کے مريض ان کے پاس کھنچے چلے آتے تھے، اور فيض ياب ہو کر جاتے تھے، ہفتہ دو ہفتہ کي صحبت ميں ميرا ان کے ساتھ ايک معاہدہ ہوگيا، ميں اپنے ہسپتال سے ان کيلئے خالي بوتليں اور شيشياں چراکے لاتا، اور اس کے بدلے وہ مجھے داستان امير حمزہ کي جلديں پڑھنے کيلئے ديا کرتے۔
يہ کتابيں کچھ ايسي دل چسپ تھيں کہ ميں رات رات بھر اپنے بستر ميں دبک کر انھيں پڑھا کرتا اور صبح دير تک سويا رہتا، اماں ميرے اس روئيے سے سخت نالاں تھيں، ابا جي کو ميري صحت برباد ہونا کا خطرہ لاحق تھا، ليکن ميں نے ان کو بتا ديا تھا کہ اب کہ جان چلي جائے دسويں ميں وظيفہ ضرور حاصل کروں گا۔
رات طلسم ہوش رہا کہ ايوانوں ميں بسر ہوئي اور دن کلاس ميں بيچ پر کھڑے ہو کر سہ ماہي امتحان ميں فيل ہوتے ہوتے بچا، ششماہي ميں بيمار پڑگيا، اور سالانہ امتحان کے موقعہ پر حکيم جيکي مدد سے ماسٹروں سے ملا کر پاس ہوگيا، دسويں ميں صندلي نامہ فسانہ آزاد، اور الف ليلہ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانہ آزاد اور صندلي نامہ گھر پر تھے تھے، ليکن اليف ليلہ اسکول کي شيدک ميں بند تھي، آخري بنچ پر جغرافيہ کي کتاب تلے سندباد جہازي کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنيا کي سير کرتا۔۔۔بائيس مئي کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے سےبلکہ يونيورسٹي سے نتيجہ کي کتاب ايم بي ہائي اسکول پہنچي، امي چند ہے نہ صرف اسکول ميں بلکہ ضلع بھر اول آيا تھا، بلکہ چھ لڑکے فيل تھے، اور بائيس پاس حکيم جي کا جادو يونيورسٹي پر نہ چل سکا اور پنجاب کي جا بردانش گاہ نے ميرا نام بھي ان جھئوں لڑکوں ميں ڈال ديا، اس شام قبلہ گاہي نے بيد سے ميري پٹائي کي اور گھر سے باہر نکال ديا، ميں ھسپتال سے رہٹ کي گدي پر آبيٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کيا کرنا چاہئے، اب کدھر جانا چاہئيے خدا کا ملک اتنا تنگ نہيں تھا اور ميں عمر و عيار کے ہتھکنڈوں اور سند باد جہازوں کے تمام طريقوں سے واقف تھا مگر پھر بھي کوئي راہ سمجھائي نہ ديتي تھي، نہ کوئي دو تين گھنٹے اسي طرح ساکت وجا اس گدي پر بيٹھا زيست کرنے کي راہيں سوچتا رہا۔
اتنے ميں اماں سفيد چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتي ادھرآگئيں اور ابا جي سے معافي لے دينے کا وعدہ کرکے مجھے گھر پر لے گئيں مجھے معافي وافي سے کوئي دلچسپي نہيں تھي، مجھے افسوس تو بس ايک رات اور انکے گھر ميں گزارني تھي اور صبح اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا، چناچہ ميں آرام سے انکے ساتھ جاکر حسب معمول اپنے بستر پر ليٹ گيا۔
اگلے دن ميرے فيل ہونے والے ساتھيوں ميں سے خوشيا کوئو اور ويسويب مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بيٹھے مل گئے، وہ لاہور کے بزنس کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے، ويسويب يب نے مجھے بتايا کہ لاہور ميں بہت بزنس ہے کيونکہ اسکے بھايا جي اکثر اپنے دوست فتح محمد چند کے ٹھيکوں کا ذکر کيا کرتے تھے، جس نے سال کے اندر اندر دو کاريں خريد لي، ميں نے ان سے بزنس کي نوعيت کي بارے ميں پوچھا تو ويسويب يب نہ کہا لاہور ميں ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے، بس ايک دفتر ہونا چاہئيے او اس کے سامنے بڑا سائن بورڈ ديکھ کر لوگ خود ہي بزنس دے جاتے ہيں، اور وقت بزنس سے مراہ وہ کرنسي نوٹ لے رہا تھا۔
ميں نے ايک مرتبہ پھر وضاحت چاہي تو کو ڈو چمک کو بولا يارو ويسوسب جانتا ہے، يہ بتا تو تيار ہے يا نہيں؟
پھر اس نے پلٹ کر ديسو سے پوچھا، انارکلي ميں دفتر بنائيں گے؟
ويسو نے ذرا سوچ کر کہا انارکلي ميں يا شاہ عالمي کے باہر دونوں ہي جگہيں ايک ہي سوال ہيں، ميں نے کہا انار کلي زيادہ مناسب ہے کيونکہ وھ ہي زيادہ مشہور جگہ ہے اوراخباروں ميں جتنے بھي اشتہار نکلتے ہيں ان ميں انار کلي لاہور لکھا جاتا ہے۔
چناچہ يہ طے پايا کہ اگلے دن دو بجے کي گاڑي سے ہم لاہور روانہ ہوجائيں گے، گھر پہنچ کر ميں سفر کي تياري کرنے لگا بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آکر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا، چلو جي ڈاکڑ صاحب بلاتے ہيں۔
کہا ہيں ؟ ميں نے برش زمين پر رکھ ديا اور کھڑا ہو گيا۔
ہسپتال ميں وہ بدستور مسکرا رہا تھا، کيونکہ ميري پٹائي کے روز حاضرين ميں وہ بھي شامل تھا، ميں ڈرتے ڈرتے برآمدے کي سيڑھياں چڑھا پھر آہستہ سئ جالي والا دروازہ کھول کر ابا جي کے کمرے ميں داخل ہوا، تو وہاں ان کے علاوہ دائو جي بھي بيٹھے تھے، ميں نے سہمے سہمے دائو جي کو سلام کيا اوعر اس کے جواب ميں بڑي دير کے بعد جيتے رھو کي مانو دعا سني۔
انکو پہچانتے ہو؟ ابا جي نے سختي سے پوچھا۔
بے شک ميں ايک مہذب سيلز مين کي طرح بولا۔
بے شک کے بچے، حرام زادے، ميں تير يہ سب۔۔۔۔۔
نہ نہ ڈاکٹر صاحب دائو جي نے ہاتھ اوپر اٹھا کرکہا، يہ تو بہت ہي اچھا بچہ ہے اسکو تو۔۔۔۔
اور ڈاکٹر صاحبنے بات کاٹ کر تلخي سے کہا، آپ نہيں جانتے منشي جي، اس کمينے نے ميري عزت خاک ميں ملا دي۔
آپ فکر نہکريں دايو جي نہ سرجھکائے کہا،يہ ہمارے آفتاب سے بھي ذہين ہے اور ايک دن۔۔۔۔
اب ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگيا اور انھوں نے ميز پر ہاتھ مار کر کہا کيسي بات کرتے ہيں منشي جي، يہ آفتاب کے جوتے کي برابري بھي نہيں کرسکتا۔
کر لے گا، کر لے گا، ڈاکٹر صاحب، دائو جي نے اثبات ميں سر ہلاتے ہو ئے کہا۔۔۔ آپ خاطر جمع رکھيں۔
پھر وہ اپني کرسي سے اٹھے اور ميرے کندھے پر ہات رکھ کر بولے ميں سير کو چلتا ہوں، تم بھي ميرے ساتھ آئو راستے ميں باتيں کريں گے۔
اباجي اسي طرح کرسي پر بيٹھے غصے کے عالم ميں اپنا رجسٹرڈ الٹ پلٹ کرتے رہے اور بڑ بڑاتے رہے، ميں نے آہستہ آہستہ چل کر جالي والا دروازہ کھولا، تو دائو جي نے پيچھے مڑ کر کہا ، ڈاکڑ صاحب بھول نہ جائيے گا ابھي بھجواديجئيے گا۔
دائو جي مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسي ميں بتاتے ، نہر کے اسي پل پر لے گئے، جہاں پہل ميرا ان سے تعارف ہوا تھا، اپني مخصوص نشست پر بيٹھ کر انہوں نے پگڑي اتار کر گود ميں ڈال دي، سر پر ہاتھ پھرا مجھے سامنے بيٹھنے کا اشارہ کيا پھر انہوں نے آنکھيں بند کرليں، اور کہا آج سے ميں تمھيں پڑھائوں گا، اور اگر جماعت ميں اول نہ لاسکا تو فرسٹ ڈيوثرن ضرور دلوادوں گا ميرے ہر ارادے ميں خدا کي مدد شامل ہوتي ہے، اور اس ہستي نے مجھے اپني رحمت سے کبھي مايوس نہيں کيا۔۔۔۔۔
مجھ سے پرھائي نہ ہوگي۔ ميں نے گستاخی سے بات کاٹ کر کہا۔
تو اور کيا ہوگا، گولو؟ انھوں نے مسکرا کر پوچھا۔
ميں نے کہا ميں بزنس کروں گا، روپيہ کمائوں گا اور اپني کار لے کر يہاں آوں گا پھر ديکھنا۔۔۔۔۔۔۔
اب کے دائو جي نے ميري بات کاٹي اور بري محبت سے کہا، خدا ايک چھوڑ تجھے دس کاريں دے، ليکن ايک ان پڑھ کي کار ميں نہ بيٹھوں گا نہ ڈاکڑ صاحب۔
ميں نے جل کر کہا مجھے کسي کي پروا نہيں ڈاکڑ صاحب اپنے گھر راضي ميں يہاں خوش۔
انھوں نے حيران ہوکر پوچھا ميري بھي پراوہ نہيں؟ ميں کچھ کہنے والا تھا کہ وہ دکھي سے ہوگئے، اور بار بار پوچھنے لگے، ميري بھي نہيں؟ او گولو ميري بھي نہيں؟
مجھے ان کے لہجے پر ترس آنےلگا اور ميں نے آہستہ سے کہا، آپ کي تو ہے، مگر۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ميري بات نہ سني اورکہنے لگے، اگر اپنے حضرت کے سامنے ميرے منہ سے ايس بات نکل کاتي؟ اگر ميں يہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے نے فورا اپني پگڑي اٹھا کر سر پر رکھ لي، اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے ميں حضور کے دربار کا ايک ادني سا کتا ہو، ميں حضرت مولان کي خاک سے بدتر بندھ ہو کر آقا سے يہ کہتا ، لعنت کا طوق نہ پہننا؟خاندان ابوجہل کا خانوادہ اور آقا ايک نظر کر، حضرت کا ايک اشارہ حضور نے چنتو کو منشي رام بناديا، لوگ کہتے ہيں، ميں کہتا ہوں، رحمتہ اللہ عليہ کا کفش بردار۔۔۔لوگ سمجھتے ہيں دائو جي کبھي ہاتھ جوڑتے کبھي سر جھکاتے کبھي انگلياں چوم کر آنکھوں کو لگاتے، اور بيچ بيچ ميں فارسي کے شعر پڑھتے جاتے، ميں کچھ پريشان سا ان کا زانو چھو کر آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا، دائو جي دائو جي اور دائو جي ميرے آقا ميرے مولا، ميرے مرشد، کا وظيفہ کئے جارہے تھے، جب جذب کايہ عالم دور ہوا تو نگايھں اوپر اٹھا کر بولے، کيا اچھ اموسم ہے، دن بھر دھوپ پڑتي ہے تو خشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے، پھر وھ پل کي ديوار سے اٹھے اور بولے چلو اب چليں بازار تھوڑا سودا خريد نا ہے۔
ميں جيسا سرکش و بد مزاج بنکر ان کے ساتھ آيا تھا، اس سے کہيں زيادہ منفعل اور خمل ان کے ساتھ لوٹا، گھمسے يعني ديسويب يب کے باپ کي دوکان سے انھوں نے گھريلو ضروريات کي چيزیں اور لفافے گود ميں اٹھا کر چل دئيے، ميں بار بار ان سے لفافے لينے کي کوشش کرتا، مگر ہمت نہ پڑتي، ايک عجيب سي شرم ايک انوکھي سي ہچکچاہٹ مانع تھي، اور اسي تائل اور جھجک ميں ڈوبتا ابھرتا ميں ان کے گھر پہنچ گيا۔
وہاں پہنچ کر يہ بھيد کھلا کہ اب ميں انہي کے ہاں سويا کروں گا، اور وہيں پڑھا کروں گا، کيونکہ ميرا بسترا مجھ سے بھي پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا، اور اس کے پاس ہي ہمارے يہاں سے بھيجي ہوئي ايک ہريکبين لالٹين بھي رکھي تھي۔
بزنس مين بننا اور پاں پاں کرتي پيکار ڈاڑائے پھر ناميرے مقدر ميں نہ تھا، گو ميرے ساتھيوں کيروانگي کے تيسرے ہي روز بعد ان کے والدين بھي انھيں لاھور سے پکڑ لائے، ليکن اگر ميں ان کےساتھ جاتا تو شايد اس وقت انار کلي ميں ہمارا دفتر پتہ نہيں تري کے کون سے شان دار سال ميں داخل ہوچکا ہوتا۔
دائو جي نے ميري زندگي اجيرن کر دي ہے، مجھے تباہ کر ديا، مجھ پر جيان حرام کر ديا، سارا دن اسکول کي بکواس ميں گزرتا ہے اور رات گرميوں کي مختصر رات انکي سولات کا جواب دينے ميں، کوٹھے پر ان کي کھاٹ ميرے بستر کے ساتھ لگي تھي، اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ کي نہروں کي بابت پوچھ رہے تھے، ميں نے بالکل ٹھيک بتا ديا، ہےتو وہ اس سوال کو دہرا رہے ہيں، ميں پھر بتا ديا اور انہوں نے پھر انہي نہروں کوآگے لا کھڑا کرديا ہے، ميں جل تھل اور جھڑک کہ کہتا، مجھے نہيں پتا، ميں نہيں بتاتا، تو وہ خاموش ہوجاتے اور دم سادھ ليتے ميں آنکھيں بند کرکے سونے کي کوشس کرتا تو وہ شرمندگي کنکر بن کر پتيليوں ميں اتر جاتي۔
ميں آہستہ سے کہتا دائو جي۔
ہوں ايک گھمبير سي آواز آئي۔
دائو جي کچھ اور پوچھو۔
دائو جي نے کہا، بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے چلے، اس کي ترکيب نخوبي کرو۔
ميں نے سعادت مندي کے ساتھ جواب ديا، جي يہ تو بہت لمبا فقرہ ہے، صبح لکھ کر بتا دوں گا۔
انھوں نے آسمان کي طرف نگاہيں اٹھاتے ہوئے کہا، ميرا گولو بہت اچھا ہے۔
ميں نے ذرا سوچ کر کہنا شروع کيا، بہت اچھا صفت ہے حرف ربط ملکر نيا مسند۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دائو جي اٹھکر چار پائي پر بيٹھ گئے، ہاتھ اٹھ اکر بولے جان پدر تجھے پہلےبھي کہا ہے مسند اليہ پہلے بنايا کر۔
ميں نےترکيب بخوي سے جان چھڑانےکيلئے پوچھا ، آپ مجھے جان پدر کيوں کہتےہيں؟ جان دائو کيوں نہيں کہتے؟
شاباش وہ خوش ہو کر کہتے، ايسي باتيں پوچھنے کيہوتي ہيں، جان لفط فارسي کا ہے، اور دائو بھاشا کا ، انکے درميان فاسي اضافت نہيں لگ سکتي ہے، جولوگ دن بہ دن لکھتے ہيں يا بولتے ہيں سخت غلطي کرتےہيں روز بہ روز کہو يا دن پر دن اسي طرح سے۔۔۔
اور جب ميں سوچتا کہ يہ تو ترکيب بخوي سے بھي زيادہ خطرناک معاملے ميں الجھ گيا ہوں تو جمائي لے کر پياسر سےکہتا ہوں کہ دائو جي اب تو نيند آرھي ہے۔
اور وہ ترکيب بخوي؟وہ جھٹ سے پوچھتے۔
اسکے بعد ميں چاہے لاکھ بہانے کرتا، ادھر ادھر کي ہزار باتيں کرتا، مگر وہ اپني کھاٹ پر ايسے بيٹھے رہتے بلکہ اگر ذرا سي دير دير ہو جاتي تو کرسي پر رکھي ھوئي پگڑي اٹھا کر سر پر رکھ ليتے، چناچہ کچھ بھي ہوتا ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دينا پڑتا۔
امي چند کالج چلاگيا، تو اسکي بيٹھک مجھے مل گئي اور دائو جي کے دل ميں اسکي محبت پربھي قبضہ کر ليا، اب مجھےدائو جي بہت اچھے لگتے تھے، ليکن ان کي باتيں جو اس وقت مجھے بري لگتي تھيں، وہ اب بھي بري لگتي ہيں، بلکہ اب پہلے سے بھي کس قدر شايد اس لئے کہ ميں نفسيات کا ياک ہونہار طالب علم ہوں۔
اور دائو جي پرانے ملائي مکتب کے پرورھ تھے، سب سے بري عادت ان کي اٹھتے بيٹھتے سوال پوچھنے کي تھي، اور دوسري کھيل کود سےمنع کرنے کي تھي، وہ تو بس يہ چاہتے ہيں کہ آدمي پڑھتا رہے پڑھتا رہے، اور جب اس مدقوق کي موت کا دن قريب آئے تو کتابوں کے ڈھير پر جان دے دے، صحت جسماني قائم رکھنے کيلئے ان کے پاسصرف ايک ہي نقصہ تھا، لمبي سير اور وہ بھي صبح کي، تقريبا سورج نکلنے سے دو گھنٹے پيشتر وہ مجھے بيٹھک ميں جگانے آتے تھے، اور ميرا کندھا ہلا کر کہتے، اٹھ گولو موٹا ہوگيا ہے بيٹا، دنيا جہان کے والدين صبح جگانے کيلئے کہتے ہيں، اٹھو بيٹا صبح ہوگئي ہے، يا سورج نکل آيا ہے، مگر وہ موٹا ہوگيا، کہہ کر ميري تذليل کيا کرتے تھے، ميں منمناتا تو چمکار کر کہتے بھدا ہوجائےگا بيٹا گھوڑا پر ضلع کا دورہ کيسے کرے گا، اور ميں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر کہتا دائو جي خدا کيلئے مجھے صبح نہ جگائو چاہے قتل کر دو، جان سےمار ڈالو۔
يہ فقرہ سنکي سب سے بڑي کمزوري تھي، وہ فورا ميرے سر پر لحاف ڈال ديتےہيں اور باہر نکل جاتے، بے بے کو ان دائو جي سے اللہ واسطے کا بير تھا اور دائو جي ان سے بہت ڈرتے تھے، وہ سارا دن محلے واليوں کپڑے سيتيں اور دائو جي کو کوسنے دئيے جاتے، ان کي اس زبان درازي پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دريا ميں رھ کر مگر مچھ سے بير نہ ہوسکتا تھا، کبھي کبھار جب وہ ناگفتگي گاليوں پر اتر آتيں تو دائو جي ميري بيٹھک ميں آجاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسي پر بيٹھ جاتے تھوڑي دير بعد کہتے غيبت کرنا بڑا گناہ ہے، ليکن ميرا خدا مجھے معاف کردے تيري بے بے بھٹيارن ہے اور اسکي سرائے ميں ميري قرتھ العين اور تھوڑا تو بھي، ہم تينوں بڑے عاجز مسافر ہيں، اور جو واقعي بے بے بھٹيارن سي تھي، اس کا رنگ سخت کالا تھا دانت بيحد سفيد،ماتھا محراب دار آنکھيں چنياں سي، چلتي تو ايسي گربہ پائي کے ساتھ جيسے خدا مجھےمعاف کرے کٹني کنسوئياں ليتي پھرتي ہے، بچاري بي بي کو ايسي ہي بري باتيں کہتي کہ وہ دونوں دن رو رو کر کر ہلکان ہوا کرتي ، ايک امي چند کے ساتھ اسکي بنتي تھي، شايد وہ اس وجہ سے کہ دونوں ہم شکل تھے، يا شايد اس وجہ سے کي اس کي بي بي کي طرح اپنے دائو جي سے پيار نہ تھا، يوں تو بي بي بے چاري بہت اچھي تھي، مگر اس سے مير بھي نہ بنتي تھي، ميں کوٹھے پر بيٹھا سوال نکال رہا ہوں، دائو جي نيچے بيٹھے ہيں اور بي بي اوپر برساتي سے ايندھن ليے آئي تو ذرا رک کر مجھے ديکھا پھر منڈير سے جھانک کر بولي دائو جي پڑھ نہيں رہا ، تنکوں سے چارپائياں بنا رہا ہے۔
ميں غصيل بچے کي طرح منہ چڑاکر کہتا، تجھے کيا نہيں پڑھتا تو کيوں بڑ بڑ کرتي ہے، آئي بڑي تھانے دارني۔
اور دائو جي بھي نيچے سے ہانک لگا کر کہتے ہيں، نہ گولو بہنوں سے نہيں جھگڑا کرتے اور ميں زور سے چلايا پڑھ رہا ہوں جي جھوٹ بولتي ہے۔
دائو جي آہستہ آہستہ سيڑھياں چڑھ کر اوپر آجاتے اور کاپيوں کے نيچے نيم پوشيدہ چار پائي ديکھ کر کہتے، قرھ بيٹا تو اس کو نہ چڑايا کر يہ جن بڑي مشکل سے قابو کيا ہے، اگر ايک بار پھر بگڑ گيا تو مشکل سے سنبھلے گا۔
بي بي کہتي کاپي اٹھا کر ديکھ لو دائو جي اسکے نيچے ہے وھ چار پائي جس سے کھيل رہا تھا۔
ميں قہر آلودنگاہوں سے بي بي کو ديکھتا ہوں وہ لکڑياں اٹھا کر نيچے اتر جاتي ہے پھر دائو جي سمجھاتے کہ بي بي يہ سب کچھ تيرے فائدے کيلئےکہتي ہے ورنہ اسے کيا پڑي ہے، کہ مجھے بتاتي پھرے، تو فيل ہو يا پاس اس کي بلا سے، اگر وہ تيري بھالئي چاہتي ہے تيري بہتري چاہتي ہے اور دائو جي کي يہ بات ہر گز سمجھ ميں نہ آتي تھي، ميري شکايتيں کرنے والي ميري بھلائي کيوں کر چاہ سکتي ہو؟
اشفاق احمد
Polar Bear
10-09-2012, 09:12 AM
In khoobsorat alfazoon ko ager ap loog thora gap dey ker yaahan share krein to yahan visit kerny walon ke liye buht easy ho ga read kernay mein . like aik sharing per day , but thora short likha jayee . to es thread ko continue rakhny ka buht maza aye ga.
Idea bura lagy to please ignore it.
beyond_vision
10-09-2012, 09:37 AM
In khoobsorat alfazoon ko ager ap loog thora gap dey ker yaahan share krein to yahan visit kerny walon ke liye buht easy ho ga read kernay mein . like aik sharing per day , but thora short likha jayee . to es thread ko continue rakhny ka buht maza aye ga.
Idea bura lagy to please ignore it.
Nahi, Main Bilkul aapki baat se Mutaffiq hoon lekin I guess Pakiza sis ki sharings Alag thread ki soorat main thi'n lekin Kiun K woh Ashfaq Ahmed hi ke Iktabasaat thay isliay Galiban kisi admin ne un sabko isi thread main merge kar diya hay. Shayed isi wajah se aapko aisa mehsoos hooa hay! :)
beyond_vision
10-09-2012, 09:41 AM
ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ ”اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟“ تو جواب ملا کہ ”انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو
Polar Bear
10-10-2012, 08:54 AM
"Baba Saeen: buht umda sharing thank you
beyond_vision
10-13-2012, 02:05 AM
Pasandeedgi ka Bohat Shukriya! :)
beyond_vision
10-13-2012, 02:06 AM
بابے کہتے ہیں کہ خدمت ایک ایسی چیز ہے جو انا کی دیوار گرا دیتی ہے ، اور انسان کو اس کے باطن سے ہمکلام کردیتی ہے - ہماری دعا ہونی چاہئے کہ " اے الله میں نہ تو دنیاوی لذتیں حاصل کرنے کا آرزومند ہوں اور نہ ہی روحانی سربلندیوں کو پانے کا خواہشمند ہوں مجھے ان دونوں کے بجائے سپردگی اور ابدیت کی دولت چاہئے -
اس طرح نہ تو مجھے مافوق الفطرت طاقت درکار ہے ، نہ ہی مراقبے اور مکشافے کی دولت کی خواھش ہے - دینی ہے تو مجھے ناداروں اور بیچاروں کی خدمت کی طاقت دے دے تیری مہربانی !
[از اشفاق احمد زاویہ ٣ روح کی سرگوشی پیج ٣٠٧]
beyond_vision
10-14-2012, 09:11 AM
اپنے گھر میں داخل ہوکر اپنی آپا سے ، بیوی سے ، یا بوڑھے والدین سے آپ یہ ضرور کہا کریں چاہے کبھی کبھی ، کہ آپ بہت اچھی ہیں - مجھے بڑے ہی اچھے لگتے ہیں - آپ جن سے محبت کرتے ہوں ، انھیں ضرور بتایا کریں ، آپ مجھے اچھے لگتے ہیں - اگر آپ کسی سے کوئی ویلڈنگ کا کام کروائیں یا کسی سے اور کوئی کام کروائیں چاہے موچی سے جوتا مرمت کروائیں یا نیا " پتا " ڈلوائیں تو آپ اسکی حوصلہ افزائی ضرور کریں
ہمارے دین کی تین مضبوط بنیادیں ہیں - ایک اعتقاد ، دوسرا ایمان، اور تیسرا معاملات
الله کے فضل سے اعتقاد کے تو ہم بڑے پکے ہیں - عبادات بھی خوب کرتے ہیں - مساجد بھری ہوئی ہوتی ہیں - لیکن معاملات کے میدان میں ہم صفر ہیں - ہم معاملے کو جان ہی نہیں سکے - ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ ہمارا، ہمارے پڑوسی کے ساتھ کیا رشتہ ہے - دوست سے کیا رشتہ ہے - ابا ، اماں ، بیوی ، کے ساتھ کیا رشتہ ہے یہ رشتے ٹوٹے پڑے ہیں۔
جب تک ہم معاملات کی رسی کو ویسی مضبوطی سے نہیں پکڑیں گے ، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اس وقت تک ہماری بیل منڈھے نہیں چڑھے گی
زاویہ ٣ ٹین کا خالی ڈبہ اور ہمارے معاملات
Polar Bear
10-14-2012, 10:43 AM
معاملات کے میدان میں ہم صفر ہیں
beautiful sharing, ess koi shak nhin mu'amlaat mein hum buht pechy incl.me
beyond_vision
10-16-2012, 08:16 AM
Pasandeedgi ka Bohat Shukriya!
Khuda Hamin Humaray Mu'amlaat ko durust karne Ki bhi Tofeek de
Ameen! :)
Polar Bear
10-16-2012, 09:14 AM
Ameen .............
beyond_vision
10-17-2012, 11:14 PM
جب آپ دو، تین چار مہینے کے تھے تو اس وقت آپ اپنی ذات کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ جو معصومیت دے کر اللہ نے آپ کو پیدا کیا تھا، اس کا اور آپ کی ذات کا رشتہ ایک ہی تھا۔ آپ وہ تھے، وہ آپ تھا۔ ایک چیز تھا دو پونے دو سال یا کوئی سی بھی مدت مقرر کر لیں۔ جب خیال آ کر آپ کو پکڑنے لگا تو وہ پھر یہ ہوا کہ آپ گھر میں بیٹھے تھے۔ ماں کی گود میں۔ کسی کی بہن آئی انہوں نے آ کر کہا کہ اوہ ہو، نسرین یہ جو تمہارا بیٹا ہے یہ تو بالکل بھائی جان جیسا ہے۔ اس بیٹا صاحب نے جب یہ بات سن لی تو اس نے سوچا میں تو ابا جی ہوں۔ ایک خیال آ گیا نا ذہن میں، حالانکہ وہ ہے نہیں ابا جی۔ پھر ایک دوسری پھوپھی آ گئیں۔ انہوں نے آ کر کہا کہ اس کی تو آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں، تو اس بچے نے سوچا میں تو خوبصورت آنکھوں والا ہیرو ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انسان نے اپنی ذات کے آگے سائن بورڈ لٹکانے شروع کر دیئے: ہیرو، رائٹر، لیڈر، پرائم منسٹر، خوبصورت اور طاقتور وغیرہ۔ اس طرح کے کتنے سارے سائن بورڈز لٹکا کر ہم آپ سارے جتنے بھی ہیں، نے اپنے اپنے سائن بورڈ لگا رکھے ہیں اور جب ملنے کے لئے آتے ہیں، تو ہم اپنا ایک سائن بورڈ آگے کر دیتے ہیں۔ کہ میں تو یہ ہوں اور اصل بندہ اندر سے نہیں نکلتا اور اصل کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔
Shaam
10-18-2012, 10:18 AM
http://sphotos-c.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc7/302693_10151279370135159_1233135935_n.jpg
beyond_vision
10-20-2012, 08:25 AM
Beautiful Contribution By ur side Shaam! :)
beyond_vision
10-20-2012, 08:28 AM
ہمارا سب سے بڑا اندیشہ ہمارا مستقبل یا فیوچر ہے کہ کل کیا ہوگا - آبادی بڑھ جانے کا اندیشہ ، پانی کی کمی کا اندیشہ - اور یہ اندیشہ کہ ہم یہ جو آج مزے کر رہے ہیں اور اعلیٰ درجے کا انگور کھا رہے ہیں ، جاپانی پھل اڑا رہے ہیں ، معلوم نہیں کل میسر ہوگا کہ نہیں - ہم اسی خوف کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں - اس خوف کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے اندر اعتماد کی فضا پیدا کریں ، جب تک خوف کے اندر رہ...تے ہوئے اور غم میں مبتلا ہو کر آپ کے دل کے گھونسلے میں یقین کا انڈا پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک آپ چل نہیں سکیں گے
اس یقین کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے - اگر آپ یہ یقین دل میں بٹھا لیں کہ ہاں ہم ہیں ، ہمارا خدا ہے ، اور اس کے وعدے سچے ہیں - پھر بات بنے گی
آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا نجانے اکیسویں صدی میں کیا ہوگا ؟ بجائے اس کے کہ ہم خوشی منائیں اور خوشی خوشی نئی صدی میں داخل ہوں ، ہم اندیشوں میں مبتلا ہو کر بس تھر تھر کانپے جا رہے ہیں
بچو ! جو صاحب اعتماد ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اکیسویں بائیسویں صدی جو صدی بھی آئے میں ہوں ، یہ میرا راستہ ہے ، یہ میرے چلنے کی استطاعت ہے - سارے کام بہتر ہونگے - کیوں نہیں ہونگے
از اشفاق احمد زاویہ ٣ شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ ١٩٥
beyond_vision
10-24-2012, 07:02 AM
مجھے معلوم ہے آپ کو سکون اور مسرت کی تلاش ہے - لیکن سکون تلاش سے کس طرح مل سکتا ہے - سکون اور آسانی تو صرف ان کو مل سکتی ہے جو آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ، جو مسرتیں بکھیرتے پھرتے ہیں - اگر آپ کو سکون کی تلاش ہے تو لوگوں میں سکون تقسیم کرو ، تمھارے بورے بھرنے لگیں گے- طلب بند کرو دو
یہ دولت صرف دینے سے بڑھتی ہے - - الله سائیں کے طریق نرالے ہیں - سکون کے دروازے پر بھکاری کی طرح کبھی نہ جانا ، بادشاہ کی طرح جانا ، جھومتے جھامتے ، دیتے بکھیرتے کیا تم کو معلوم نہیں کہ بھکاریوں پر ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے ، اور بھکاری کون ہوتا ہے - وہ جو مانگے ، جو صدا دے ، تقاضا کرے اور شہنشاہ کون ہوتا ہے جو دے عطا کرے - لٹاتا جائے پس جس راہ سے بھی گزرو بادشاہوں کی طرح گزرو شہنشاہوں کی طرح گزرو _ دیتے جاؤ دیتے جاؤ - غرض و غایت کے بغیر - شرط شرائط کے بغیر -
{از اشفاق احمد زاویہ ٣ محبّت کی حقیقت صفحہ ٢٤٢}
Shaam
10-24-2012, 07:12 AM
mushkil baat
per aaaniya taqseem karna kisey kahtey hain ?
beyond_vision
10-24-2012, 07:49 AM
mushkil baat
per aaaniya taqseem karna kisey kahtey hain ?
Mushkil, han Karna shayed Mushkil hay magar Baat to simple si hay! K asaniyan Phailayein... Asaniyan kisi bhi soorat main ho sakti'n hain. Doosro'n K raaste se pathar hata dena bhi unhe asaani dena hay, un k chehre pe muskarahat lana bhi asaani hay, Un k dukh dard bant'na bhi unko asaani dena hay and the list goes on.
Baat to shayed Asaan hay samajhnay han ispar Amal paira hona thora Mushkil hay! :)
Shaam
10-24-2012, 03:48 PM
Mushkil, han Karna shayed Mushkil hay magar Baat to simple si hay! K asaniyan Phailayein... Asaniyan kisi bhi soorat main ho sakti'n hain. Doosro'n K raaste se pathar hata dena bhi unhe asaani dena hay, un k chehre pe muskarahat lana bhi asaani hay, Un k dukh dard bant'na bhi unko asaani dena hay and the list goes on.
Baat to shayed Asaan hay samajhnay han ispar Amal paira hona thora Mushkil hay! :)
pata nahi
us waqt zehen me koi baat aai thi
dobara ai tou lautooga ...
beyond_vision
10-24-2012, 10:42 PM
pata nahi
us waqt zehen me koi baat aai thi
dobara ai tou lautooga ...
:icon11: Jee Bohat Behtar! :)
beyond_vision
10-24-2012, 10:44 PM
دنیا
ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے - میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ "جناب دنیا اتنی خراب کیوں ہو گئی ہے - اس قدر مادہ پرست کیوں کر ہو گئی ہے " ؟
بابا جی نے جواب دیا " دنیا بہت اچھی ہے - جب ہم اس پر تنگ نظری سے نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہمیں تنگ نطر دکھائی دیتی ہے - جب ہم اس پر کمینگی سے نظر دوڑاتے ہیں تو یہ ہمیں کمینی نظر آتی ہے - جب اسے خود غرضی سے دیکھتے ہیں تو خود غرض ہو جاتی ہے - لیکن جب اس پر کھلے دل روشن آنکھ اور محبت بھری نگاہ سے نظر دوڑاتے ہیں تو پھر اسی دنیا میں کیسے پیارے پیارے لوگ نظر آنے لگتے ہیں "۔
اشفاق احمد زاویہ 3 خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف صفحہ 227
~~KING~~
10-25-2012, 03:58 AM
very nice.....:bu:
beyond_vision
10-26-2012, 07:07 AM
Bohat Shukriya King and Life for reading and appreciation! :)
beyond_vision
10-26-2012, 07:10 AM
دیکھو مجھے نظر تو نہیں آتا مگر میرا ایمان ہے کہ اس کمرے میں ریڈیو کی لہریں بھری پڑیں ہیں ۔ ٹی وی کی لہریں ناچ رہی ہیں اور میں ریڈیو پر یا ٹی وی پر اپنی پسند کا سگنل پکڑ سکتا ہوں ۔ اسی طرح سے میرا ایمان ہے کہ یہاں خدا کی آواز اور خدا کے احکام موجود ہیں اور میں اپنی ذات کے ریڈیو پر ان سگنلوں کو پکڑ سکتا ہوں لیکن اس کے لیے مجھے اپنی ذات کو ٹیون کرنا پڑیگا ۔
اور ایمان کیا ہے ؟ خدا کی مرضی کو اپنی مرضی بنانا
ایک اختیار ہے ، پسند ہے ۔ کوئی مباحثہ یا مکالمہ نہیں ۔ یہ ایک فیصلہ ہے مباحثہ نہیں ہے ۔ یہ ایک کمٹمنٹ ہے کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ یہ تمہارے دل کے خزانوں کو بھرتا ہے اور تمہیں مالا مال کرتا رہتا ہے ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 540
beyond_vision
10-30-2012, 07:12 AM
اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔
جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔
"زاویہ سوئم، باب :محبت کی حقیقت سے اقتباس"
beyond_vision
11-04-2012, 02:55 AM
جب تم کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو - اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو - یہ حقیقی تبلیغ ہے - اسے بزرگان دین تلاوت الوجود کہتے ہیں
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 630
beyond_vision
11-04-2012, 02:57 AM
میرے ایک استاد اونگارتی تھے - مین نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " ؟
انہوں نے جواب دیا کہ ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے - یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی
-اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا
-"اس لڑکے نے کہا کہ " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )
اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تیرا باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین
اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ 198
beyond_vision
11-07-2012, 11:14 PM
باطن کے اس سفر میں آپ شور و غوغا کر کے کسی کو ٹیلیفون کر کےکسی کو میسیج بھیج کر یا کسی کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے ہوشیار کر کے نہ کوئی پیغام دے سکتے ہیں نہ لے سکتے ہیں - یہ خاموشی کی ایک دنیا ہے اس میں اگر آپ کبھی داخل ہو سکتے ہیں تو پھر ہی آپ اس کا مزہ لے سکتے ہیں - مت پوچھیں کہ ہمیں کسی بابا کا بتائیں ، آپ خود بابا ہیں - جب آپ دیوار سے ڈھو (ٹیک) لگا کر آرام سے بیٹھنا آگیا اور دنیا کی سب سے بڑی عبادت یعنی آپ خاموشی میں داخل ہو گئے تو آپ کے اوپر انوار و برکات کی بارش بھی ہونے لگے گی اور انواع و اقسام کا رزق آپ کا مقدر بنتا چلا جائے گا
از اشفاق احمد زاویہ ٢ بابے کی تلاش صفحہ ١٥٩
beyond_vision
11-18-2012, 02:02 AM
دل اور دماغ
اس کائنات میں دل بہت ہی خطرناک چیز ہے ۔ خطرناک اس لیے کہ یہ اکیلا رہتا ہے ، اکیلے سوچتا ہے اور اکیلے ہی عمل کرتا ہے اور اکلاپے میں بڑا خوف ، بڑا وہم ، مسلسل ڈر ہوتا ہے ۔
دماغ ہمیشہ عقلمندی کی اور حفاظت کی باتیں سوچتا ہے ۔ اپنے آپ کو بچانے کی اور محفوظ رہنے کی ترکیبیں وضع کرتا ہے۔ دماغ گروہ میں چلتا ہے اور اور اپنے ارد گرد آدمیوں کا ہجوم رکھتا ہے ۔ اسی جلوس سے اس کو تقویت ملتی ہے ، سہارا ملتا ہے ۔
سیاسی لیڈر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے رکھتا ہے ۔ لیکن فقیر ہمیشہ اکیلا رہتا ہے دل کی فیصلوں کے مطابق خوفناک مقاموں میں ۔
دل اور دماغ دونوں ہی سوچنے والے اعضاء ہیں ۔ دونوں ہی پروگرام وضع کرتے ہیں ۔ دماغ جب بھی سوچتا ہے اپنی لیڈری اپنی نمود اپنی برتری کے بارے میں سوچتا ہے ۔ اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچتا ہے ۔
دل جب بھی سوچتا ہے محبوب کا گھر دکھاتا ہے ، دل سے سوچنے والا ماریا تھریسا ہوتا ہے یا منشی ہسپتال کا خالق یا ایدھی َ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو کوئی دل کی طرف مائل ہوا وہ گرا ، گرفتار ہوا ، پکڑا گیا ۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں فلاں ، فلاں کی محبت میں گرفتار ہوگیا ۔
گروہ کے لوگوں کو خوشی ہوتی ہے کہ وہ عمل میں ہیں حرکت میں ہیں لیکن ہجوم کہیں جا نہیں رہا ہوتا ، کسی طرف بڑہتا نہیں ۔ اس کی کوئی سمت نہیں ہوتی ۔ یہ پابہ زنجیر ہاتھی کی طرح ایک ہی جگہ پر جھومتا رہتا ہے ۔ اور گروہ میں شامل لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ حرکت کر رہے ہیں ۔
دماغ ہمیشہ اور اور اور کا طلبگار ہوتا ہے ۔ ھل من مزید پکارتا رہتا ہے ۔ یہ اس حقیقت کو بلکل نہیں جانتا کہ تمہارے پاس پہلے سے کیا ہے اور تمہارے قبضے میں کیا کچھ ہے ۔ یہ تو بس اور اور مزید مزید کا شکار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم چاہے فقیر ہو یہ اور مانگے گا ، شہنشاہ ہو یہ اور مانگے گا ۔ دماغ سے سوچنے والا ہمیشہ غریب رہتا ہے کیونکہ وہ اور کا طلبگار ہوتا ہے۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 564
Adeela
11-18-2012, 02:54 AM
niceeeeeeeeeeeeee
Polar Bear
11-24-2012, 02:32 PM
جب تم کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو - اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو - یہ حقیقی تبلیغ ہے - اسے بزرگان دین تلاوت الوجود کہتے ہیں
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 630
buht khoobsurat sharing, Thank you!
beyond_vision
11-25-2012, 12:32 AM
buht khoobsurat sharing, Thank you!
u r alwayz welcome :) Infact Thanks to u for visiting the thread and for liking the sharing! :)
and Welcome Back to MF! Great to see u back! :)
Polar Bear
11-25-2012, 12:39 PM
u r alwayz welcome :) Infact Thanks to u for visiting the thread and for liking the sharing! :)
and Welcome Back to MF! Great to see u back! :)
Thank You :)
beyond_vision
12-14-2012, 06:53 AM
نظر
ہم لوگوں کی ، اوروں کے چھوٹے چھوٹےعیوب پر نظر ہے ۔ اور اپنے بڑے بڑے عیوب دکھائی نہیں دیتے ۔ اپنے بدن پر سانپ بچھو لٹک رہے ہیں ، ان کی پرواہ نہیں ۔ اور ہم دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر میں ہیں ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 615
beyond_vision
12-14-2012, 06:56 AM
حیوان
انسان کیا ہے ؟ دیکھنے کو تو دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہے لیکن اس کو ذہن اور شعور کی دولت عطا ہوئی ہے اور اس دولت نے اسے جانوروں سے الگ کر دیا ہے ۔
اب اس کو سچ ، حق ، جمال ، اور خوب کا سامنا ہوتا ہے ۔ اس کا شعور ان کا سامنا کرتا ہے اور اپناتا ہے ۔ وہ اخلاق کا اور اخلاقی اصولوں کا پابند ہو جاتا ہے اور جب تک انسان ان چیزوں کا پابند ہے، وہ انسان ہے ۔ اور جب ان سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر حیوان ہے ۔
543اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ
beyond_vision
12-14-2012, 06:59 AM
غفور الرحیم
میرے تایا بیمار تھے اور کوما میں تھے ۔ کبھی وہ کومے ، سے باہر آجاتے اور کبھی ان پر پھر وہی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ اور ہم سب بہن بھائی مونڈھے پہ بیٹھے ان کو اٹینڈ کرتے تھے ۔میں اس وقت سیکنڈ ایئر میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن انہیں اٹینڈ کرنے کی ڈیوٹی میری تھی ۔
وہ مجھ سے کہنے لگے کہ " یہ جو اللہ ہے کیا وہ انسانوں کے گناہ معاف کر سکتا ہے "۔
میں نے کہا کہ جی اللہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے اور گناہوں کو معاف کرنے میں تو وہ بڑا رحیم ہے اور غفورالرحیم ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ انسان اس سے گناہوں کی معافی مانگے ۔ تایا کہنے لگے یار یہ تو بڑی اچھی بات ہے ۔ جب انہوں نے یہ کہا تو ان کے چہرے پہ کچھ بشاشت سی پیدا ہوئی اور میں نے ان کی خوشنودی کے لیے مزید کہا کہ تایا آپ نے کونسے ایسے گناہ کیے ہیں کہ آپ اس قدر پریشانی کے عالم میں ہیں ۔ آپ تو ہمارے ساتھ بڑے چنگے رہے ہیں یہ سن کر انہوں نے کہا کہ
" shut up , its nothing between you and me , its between me and my ALLAH ."
شٹ اپ ، " تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چائیے یہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے "۔
260اشفاق احمد زاویہ 3 ڈیفینسو ویپن صفحہ
beyond_vision
12-23-2012, 09:04 AM
مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ اسلام کا مطلب سلامتی ہے ۔ جو شخص اسلام قبول کر لیتا ہے وہ سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اور جو شخص سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے وہ سلامتی ہی عطا کرتا ہے ۔ اس کے مخالف عمل نہیں کرتا۔ جس طرح ایک معطر آدمی اپنے گرد و پیش کو عطربیز کر دیتا ہے ۔ اسی طرح ایک مسلمان اپنے گرد و پیش کو خیر اور سلامتی سے لبریز کر دیتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے مجھ سے اپنے ماحول کو اور اپنے گرد و پیش کو سلامتی اور خیر عطا نہیں ہو رہی تو مجھے رک کر سوچنا پڑے گا کہ میں اسلام کے اندر ٹھیک سے داخل ہوں بھی یا نہیں ۔۔۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 458
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.