-|A|-
03-02-2009, 11:53 PM
ڈیڑھ ملین سال پرانے قدموں کے نشان
http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/03/20090301080121footprint_203.jpg
خیال ہے کہ قدموں کے یہ نشان ڈیڑہ ملین سال پرانے ہیں
کینیا میں پیروں کے ڈیڑھ ملین سال پرانے ایسے نشان دریافت ہوئے ہیں جن سے قدیم زمانے کے جدید انسانوں کے پیروں کی ساخت اور چال کا اندازہ ہوتا ہے۔
نشان قدیم انسانوں کے پیروں کی ساخت سے مختلف ہیں۔قدموں کے ان نشانات کی پیمائش سے جدید زمانے کے انسانوں کے چلنے کے انداز اور قد کا اندازہ ہوتا ہے۔اور قدیمی نشانات کے برعکس پیر میں خم ہے جبکہ انگوٹھے اور دوسری انگلیوں کی لمبائی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
یہ تفصیلات جریدے ’سائنس‘میں دی گئی ہیں۔تاہم پیروں کے یہ نشانات سب سے قدیم انسانوں کے نہیں ہیں۔ قدیم انسانوں کا ٹائٹل 1978 میں تنزانیہ میں ملنے والے تیس لاکھ ستر ہزار سال پرانے قدموں کے نشانات کو دیا گیا تھا۔
ان نشانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت کے لوگوں کے پیر فلیٹ تھے اور انگوٹھے اور دوسری انگلیوں کے سائز یا لمبائی میں بہت فرق تھا۔
برطانیہ کی بورن متھ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو بیننٹ کا کہنا ہے کہ انسانی ڈھانچوں سے ملنے والے ریکارڈ میں ہاتھ اور پیر کی ہڈیوں سے متعلق اطلاعات ناکافی ہیں۔
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گوشت خور جانور ہاتھ اور پیر کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں اور ایک مرتبہ جسم سے گوشت ختم ہونے کے بعد چھوٹی موٹی ہڈیا زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پاتیں۔اسی لیے ہم اپنے آباؤاجداد کے ہاتھ اور پیروں کی ساخت، کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔
پیروں کے یہ نشان کینیا میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ملے ہیں۔ پہاڑی پر دو پیروں کے نشان ملے جن میں سے ایک نشان دوسرے سے پانچ میٹر نیچے تھا۔اور ان کے درمیان مٹی، ریت اور آتش فشاں کی راکھ تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں سے ایک نشان دوسرے کے مقابلے دس ہزار سال پرانا ہے۔قدموں کے ان نشانات سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ سیدھا کھڑے ہوکر چلنے والے انسان کی چال کیسی تھی۔
یہ دریافت جدید انسان کے ارتقاء خاص طور پر اس کے جسمانی اور ماحولیاتی سلسلے کا پتہ لگانے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوگی۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/03/20090301080121footprint_203.jpg
خیال ہے کہ قدموں کے یہ نشان ڈیڑہ ملین سال پرانے ہیں
کینیا میں پیروں کے ڈیڑھ ملین سال پرانے ایسے نشان دریافت ہوئے ہیں جن سے قدیم زمانے کے جدید انسانوں کے پیروں کی ساخت اور چال کا اندازہ ہوتا ہے۔
نشان قدیم انسانوں کے پیروں کی ساخت سے مختلف ہیں۔قدموں کے ان نشانات کی پیمائش سے جدید زمانے کے انسانوں کے چلنے کے انداز اور قد کا اندازہ ہوتا ہے۔اور قدیمی نشانات کے برعکس پیر میں خم ہے جبکہ انگوٹھے اور دوسری انگلیوں کی لمبائی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
یہ تفصیلات جریدے ’سائنس‘میں دی گئی ہیں۔تاہم پیروں کے یہ نشانات سب سے قدیم انسانوں کے نہیں ہیں۔ قدیم انسانوں کا ٹائٹل 1978 میں تنزانیہ میں ملنے والے تیس لاکھ ستر ہزار سال پرانے قدموں کے نشانات کو دیا گیا تھا۔
ان نشانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت کے لوگوں کے پیر فلیٹ تھے اور انگوٹھے اور دوسری انگلیوں کے سائز یا لمبائی میں بہت فرق تھا۔
برطانیہ کی بورن متھ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو بیننٹ کا کہنا ہے کہ انسانی ڈھانچوں سے ملنے والے ریکارڈ میں ہاتھ اور پیر کی ہڈیوں سے متعلق اطلاعات ناکافی ہیں۔
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گوشت خور جانور ہاتھ اور پیر کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں اور ایک مرتبہ جسم سے گوشت ختم ہونے کے بعد چھوٹی موٹی ہڈیا زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پاتیں۔اسی لیے ہم اپنے آباؤاجداد کے ہاتھ اور پیروں کی ساخت، کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔
پیروں کے یہ نشان کینیا میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ملے ہیں۔ پہاڑی پر دو پیروں کے نشان ملے جن میں سے ایک نشان دوسرے سے پانچ میٹر نیچے تھا۔اور ان کے درمیان مٹی، ریت اور آتش فشاں کی راکھ تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں سے ایک نشان دوسرے کے مقابلے دس ہزار سال پرانا ہے۔قدموں کے ان نشانات سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ سیدھا کھڑے ہوکر چلنے والے انسان کی چال کیسی تھی۔
یہ دریافت جدید انسان کے ارتقاء خاص طور پر اس کے جسمانی اور ماحولیاتی سلسلے کا پتہ لگانے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوگی۔