View Full Version : آخری عمر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی
ریاض الصالحین۔ باب 12-13
باب 12
آخری عمر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی ترغیب:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں نصیحت پکڑ لے جس نے نصیحت پکڑنی ہو اور تمہارے پاس یاد دہانی کرانے والا، ڈرانے والا بھی آیا۔''
(سورة فاطر :37)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محققین کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ کیا ہم نے تمہیں ساٹھ سال کی عمر نہیں دی تھی؟ اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے ہم ان شاء اللہ بیان کریں گے۔ بعض نے کہا اس کے معنی اٹھارہ سال اور بعض نے کہا چالیس سال ہیں، یہ قول حسن بصری، محمد بن سائب کلبی اور امام مسروق کا ہے اور یہ قول ابن عباس سے بھی منقول ہے اور انھوں نے نقل کیا ہے کہ اہل مدینہ میں سے جب کوئی شخص چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا تو وہ اپنے آپ کو عبادت کیلئے فارغ کرلیتا اور بعض کے نزدیک اس سے مراد بلوغت کی عمر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان: ''تمہارے پاس ڈرانے والا آیا'' کے بارے میں حضرت ابن عباس اور جمہور نے کہا ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد ''بڑھاپا'' ہے، یہ قول عکرمہ اور ابن عینیہ وغیرہ کا ہے۔ اللہ أعلم۔
حدیث نمبر 112
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا جس کی موت کو اس نے مؤخر کیا حتی ٰ کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔''
(بخاری)
علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب اس کو اتنی مدت تک مہلت دی جائے تو پھر اس کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (23811۔ فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 113
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے اکابر صحابہ کرام کے ساتھ اپنی مجلس میں شریک فرماتے، اس سے بعض نے اپنے دل میں برا محسوس کیا اور کہا کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں مجلس میں شریک ہوتا ہے۔ حالانکہ اس جیسے (اس کے ہم عمر) تو ہمارے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا: ''ان کا جو مقام ہے اسے تم جانتے ہی ہو۔" پس انھوں (حضرت عمر) نے ایک روز مجھے بلایا اور ان کبار صحابہ کرام کے ساتھ ہی مجلس میں شریک کیا، میرا خیال ہے کہ آپ نے اس روز مجھے صرف اس لئے بلایا کہ آپ انہیں میری قدر و منزلت اور قابلیت دکھائیں۔ حضرت عمر نے پوچھا: "تمہارا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "اذاجاء نصراللَّہ والفتح" (جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی فتح آجائے) کے متعلق کیا خیال ہے؟" (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے) بعض نے کہا: "ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی فتح آجائے تو ہم اس کی حمد بیان کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں اور بعض خاموش رہے، انھوں نے کچھ بھی نہ کہا، پھر حضرت عمر نے مجھ سے کہا: "اے ابن عباس! کیا تم بھی اسی طرح کہتے ہو؟" میں نے کہا: "نہیں" انھوں نے کہا: "تو پھر تم کیا کہتے ہو؟" میں نے کہا: "اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی ہے (اذا جاء نصر اللَّہ والفتح) یہ آپکی وفات کی علامت ہے کہ جب یہ مدد اور فتح آجائے تو اپنے رب کی تسبیح اس کی خوبیوں کے ساتھ بیان کر اور اس سے مغفرت طلب کر یقیناً وہ بہت رجوع فرمانے والا ہے۔'' پس حضرت عمر نے فرمایا: "اس(سورت) کے بارے میں میں بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو تم بیان کر رہے ہو۔"
(بخاری)
توثیق الحدث: أخرجہ البخاری(6286،فتح)
حدیث نمبر 114
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ "اذا جاء نصر اللہ والفتح" (سورۂ نصر) کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر نماز میں یہ پڑھتے تھے "سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی'' (ترجمہ) "پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔''
(متفق علیہ)
صحیحین میں حضرت عائشہ ہی سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تاویل کرتے ہوئے اپنے رکوع اور سجدوں میں اکثر "سبحانک اللھم ربناو بحمدک الھم اغفرلی" پڑھا کرتے تھے۔ قرآن میں تاویل کرنے کا مقصد ہے قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جو اس آیت میں ہے۔ "فسبح بحمدربک واستغفرہ" اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے قبل اکثر یہ پڑھا کرتے تھے "سبحانک اللھم وبحمدک استغفرک واتوب الیک" حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! یہ کیا (نئے) کلمات ہیں۔ جنہیں میں آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں؟" آپ نے فرمایا: ''میرے لیے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے کہ جب میں اسے دیکھوں تو وہ کلمات پڑھوں (اذاجاء نصر اللَّہ والفتح) آخر سورت تک۔''
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔
"سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اکثر یہ پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں" (یعنی "سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ والتوب الیہ") آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے رب نے مجھے بتایا ہے کہ میں عنقریب اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا پس جب میں اسے دیکھوں تو کثرت سے یہ پڑھوں پس تحقیق میں نے وہ علامت دیکھ لی ہے۔ "اذا جاء نصر اللہ والفتح" یعنی فتحِ مکہ اور "ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا" (یعنی لوگوں کافوج درفوج اسلام میں داخل ہونا)، اس لیے میں (فسبح بحمدک واستغفرہ) کے مطابق کثرت سے اپنے رب کی تسبیح و تحمید اور استغفار میں مشغول رہتا ہوں۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2812۔فتح) و مسلم (483)(219) والروایة الثانیة عند البخاری (2992۔فتح) و مسلم(484) والروایة الثالثة عند مسلم (483)(218) والروایة الرابعة لہ (284)(220)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 115
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل آپ پر کثرت سے پے درپے وحی نازل فرمائی حتیٰ کہ آپ کی وفات کے وقت آپ پر پہلے سے کہیں زیادہ وحی نازل ہوئی۔
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (39۔فتح) مسلم (3016)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 116
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بندے کو اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کو موت آئی ہوگی۔
(مسلم)
.................................................. .................................
باب13
نیکی اوربھلائی کے راستے بہت ہیں:
نیکی اور بھلائی کے راستے کئی قسم کے ہیں تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے مختلف اوقات میں اطاعت کے مختلف کام سر انجام دے اور اس میں نشاط برقرار رہے۔ بندہ اگر ایک عمل سے اکتا جائے تو دوسرا عمل کرلے۔ وہ اس طرح کہ جس وقت میں جو کام کرنا ہے وہی کیا جائے، یعنی نماز کے وقت نماز ادا کی جائے، جہاد کے وقت جہاد اور اگر مہمان آجائے تو اس وقت اس کی ضیافت کی جائے اور اس کی مہمانی کا حق ادا کیا جائے۔ پس ایسا شخص جو رسم رواج کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے وقت اور طریقے پر کرتا ہے تو اس کے لیے خوش خبری ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''تم جو بھلائی بھی کروگے بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔''
(سورةالبقرة:215)
اور فرمایا:
''اورتم جو بھلائی بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔''
(سورةالبقرة:197)
اور فرمایا:
''جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی کوئی بھلائی کرے گا وہ اسے قیامت والے دن دیکھ لے گا.''
(سورةالزلزلة:7)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''جس نے نیک عمل کیا تو وہ اس کے اپنے نفس کے لیے ہے۔''
(سورةالجاثیة:15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 117
حضرت ابوذر جندب بن جنادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟" آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔'' میں نے عرض کیا: "کون سا غلام آزاد کرنا بہترہے؟" آپ نے فرمایا: ''جو اپنے گھر والے یعنی مالک کے ہاں سب سے زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو۔'' میں نے عرض کیا: "اگر میں یہ نہ کرسکوں؟" آپ نے فرمایا: ''کسی کاریگر کی اعانت کردو یا پھر کسی بے ہنر کا کام کردو۔'' میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں ان میں سے بعض عمل نہ کرسکوں؟" آپ نے فرمایا: ''(پھر) تم لوگوں کو اپنے شر سے بچائے رکھو، یہ بھی تمہاری طرف سے اپنے نفس پر صدقہ ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1485) و مسلم (84)
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 118
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر صبح کو ایک صدقہ ہے، پس ہر تسبیح (سبحان اللہ) کہنا صدقہ ہے ہر حمد (الحمداللہ) کہنا صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہ الااللہ) کہنا صدقہ ہے اور ہر تکبیر (اللہ اکبر) کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(720)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 119
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کیے گئے، پس میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی پایا اور اس کے برے اعمال میں وہ تھوک پایا جو مسجد میں تھوکا گیا ہو اور اسے مٹی میں دبایا نہ گیا ہو۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(553)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 120
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مالدار لوگ بہت زیادہ اجر لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں، وہ روزے رکھتے ہیں جیسے ہم روزے رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے زائد مال سے صدقہ کرتے ہیں (جو ہم نہیں کرتے)" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسی چیزیں نہیں بنائیں جن سے تم بھی صدقہ کرو؟ یقیناً ہرتسبیح (سبحان اﷲ) کہنا صدقہ ہے، ہر تکبیر (اﷲ أکبر) کہنا صدقہ ہے، ہر تحمید (الحمد للہ) کہنا صدقہ ہے۔ ہر تہلیل (لا الہ الا اللہ) کہنا صدقہ ہے، نیکی کاحکم کرنا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تمہاری اپنی شرم گاہ (اپنی بیوی سے صحبت) میں بھی صدقہ ہے۔'' انھوں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی ایک اپنی شہوت پوری کرے تو کیا اس میں بھی اس کیلئے اجر ہے؟" آپ نے فرمایا: ''مجھے بتاؤ اگر وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرے تو اس پر اسے گناہ ہوگا؟ پس اگر وہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اس پر اس کے لیے اجر ہو ہوگا۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1006)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 121
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ''نیکی کے کسی بھی کام کو حقیر مت سمجھو اگر چہ وہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2626)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 122
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر روز جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تمہارا دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا بھی صدقہ ہے، کسی بندے کو سواری پر بٹھانے یا اس کا سامان اوپر اٹھا کر اس پر رکھوانے میں اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے اچھی بات کرنا صدقہ ہے اور ہر اس قدم پر صدقہ ہے۔ جس سے چل کر تو مسجد کی طرف جائے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کردینا بھی صدقہ ہے۔''
(متفق علیہ)
اسی حدیث کو امام مسلم نے بھی حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نبی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، پس جس شخص نے اللہ اکبر کہا، الحمد اللہ کہا، لا الہ الا اللہ کہا، سبحان اللہ کہا، استغفر اللہ کہا، لوگوں کے راستے سے کسی پتھر ،کسی کانٹے یا کسی ہڈی کو دور کردیا یا نیکی کا حکم دیا یا کسی برائی سے منع کیا اور اس نے تین سو ساٹھ مذکورہ کام کیے تو وہ اس روز اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کو جہنم کی آگ سے بچالیا ہوتا ہے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3095،فتح)'ومسلم (1009)' وحدیث عائشة عن مسلم(1007)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 123
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیار کرتا ہے جب بھی صبح یا شام کو مسجد کی طرف جاتا ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1482۔فتح) و مسلم (669)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 124
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کوئی ہدیہ حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی ہو۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری(1975۔فتح) و مسلم (1030)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 125
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایمان کی ستر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ''لا الہ الا اللہ'' کہنا ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث :أخرجہ البخاری (511۔فتح) و مسلم(35)(58)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 126
حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک دفعہ ایک آدمی کسی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا تو اس نے اس میں اتر کر پانی پیا پھر باہر نکل آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہاہے۔ پس اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی ویسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، پس وہ پھر کنویں میں اترا ، اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر اسے اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اور اسے بخش دیا۔'' صحابہ نے کہا: ''اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے حیوانوں کے بارے میں بھی اجر ہے؟" آپ نے فرمایا: ''ہر تر جگر والے (یعنی جانور) کے بارے میں اجر ہے۔''
(مفتق علیہ)
اور بخاری کی ایک روایت ہے: ''اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی، اسے بخش دیا اور جنت میں داخل کردیا۔''
اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: ''ایک کتا ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس اس کی جان لے لیتی کہ اچانک بنی اسرائیل کی فاحشہ عورتوں میں سے ایک فاحشہ نے اسے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعے اس کے لیے پانی نکالا اور اسے پلایا تو اس عمل کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (05 4۔ا4۔ فتح) و مسلم (2244) الروایة الثانیة عند البخاری (2781۔فتح) والروایة الثالثة عند البخاری (5116۔فتح) و مسلم (2245)(55)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 127
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے وایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نے ایک آدمی کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا اس نے ایک درخت کو کاٹا تھا جو راستے کے درمیان میں تھا اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا۔''
(مسلم)
ایک اور روایت میں ہے: ''ایک آدمی ایک درخت کی ٹہنی کے پاس سے گزرا جو راستے کے درمیان میں تھی تو اس نے کہا: "اللہ کی قسم! میں اسے مسلمانوں سے دور کردوں گا یہ انہیں تکلیف نہیں پہنچائے گی، پس اسے جنت میں داخل کردیا گیا۔''
اور بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے: ''ایک شخص ایک راستے سے گزر رہا تھا تو اس نے راستے میں ایک کانٹے دار ٹہنی دیکھی تو اسے ہٹا دیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول فرمایا اور اسے بخش دیا۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1914)(129)، والروایة الثانیة لہ (1914)(128) والروایة الثانیة عند البخاری (1392)و مسلم (1914)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 128
حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کے لیے آیا اور خاموشی کے ساتھ توجہ سے خطبہ سنا تو اسکے اس جمعہ اور پچھلے جمعہ کے درمیانی وقفہ کے اور مزید تین دنوں کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جس شخص نے (دوران خطبہ) کنکریوں کو چھوا تو اس نے لغو (بے مقصد) حرکت کی۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(857)(27)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 129
حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کیے تھے، پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے۔ تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں نے کیے تھے، پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں جو اس کے پاؤں نے چل کر کیے تھے حتیٰ کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(244)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 130
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پانچوں نمازیں، جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے تک (یہ کام) اپنے درمیانی وقفے کے تمام گناہوں کو معاف اور دور کردینے والے ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچ کر رہا جائے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(233)(16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 131
حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسے اعمال نہ بتاؤں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہ مٹادے اور درجات بلند فرمادے؟'' صحابہ کرام نے عرض کیا: "کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! ضرور بتائیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ناگواری اور مشقت کے باوجود اچھے طریقے سے مکمل وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ قدم چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، پس یہ رباط (اجر و ثواب کے لحاظ سے سرحد پر مورچہ زن رہنے کی طرح) ہے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (251)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 132
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھتا ہے وہ جنت میں جائے گا۔'' (مراد نماز فجر اور عصر ہے)
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (522۔فتح) و مسلم (635)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 133
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب بندہ بیمار ہوجاتا ہے یا سفر پر ہوتا ہے تو اس کے لیے ویسے ہی عمل لکھ دیے جاتے ہیں جیسے وہ اقامت اور صحت کی حالت میں کیا کرتا تھا۔''
(یعنی اگر بیمار یا مسافر ہونے کی وجہ سے اس کے معمول کے اعمالِ صالحہ میں سے کچھ رہ جائے تو وہ اس کے نامہ اعمال میں حسبِ معمول لکھے جاتے ہیں)
(بخاری)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (1366۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 134
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر نیکی صدقہ ہے۔''
(بخاری۔ امام مسلم نے اس حدیث کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (24710۔ فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 135
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو مسلمان بھی کوئی درخت لگاتا ہے تو اس میں سے جو کھا لیا جاتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہے، جو اس سے چرا لیا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اگر کوئی شخص اسے نقصان پہنچائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔''
(مسلم)
اور مسلم کی ہی ایک اور روایت میں ہے: ''مسلمان جو درخت لگا تا ہے، تو اس میں سے جو کوئی انسان کھاتا ہے، کوئی جانور یا کوئی پرندہ کھاتا ہے، تو روز قیامت تک وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا۔''
صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے: ''مسلمان جو درخت لگاتا ہے اور کوئی کھیتی بوتا ہے، تو اس میں سے کوئی انسان، کوئی جانور یا کوئی اور کوئی چیز کھالے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔'' اور دونوں (بخاری و مسلم) نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسے روایت کیا ہے۔
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (1552) والروایة الثانیة لہ (1552)(10)
و أخرجہ البخاری (35۔فتح) و مسلم(1553)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 136
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتا چلا تو آپ نے فرمایا: ''مجھے پتا چلا ہے کہ تم نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ہے؟" انھوں نے کہا: "جی ہاں! یا رسول اللہ! ہم نے یقیناً یہ ارادہ کیا ہے۔" پس آپ نے فرمایا: ''بنو سلمہ! تم اپنے گھروں (محلے) ہی میں رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں، تم اپنے گھروں محلے ہی میں رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔"
(مسلم)
ایک اور روایت میں ہے: ''بے شک ہر قدم کے بدلے میں ایک درجہ ہے۔''
(مسلم)
اور امام بخاری نے بھی اس کے ہم معنی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
توثیق الحدیث :أخرجہ مسلم (665) والروایة الثانیة لہ (664)و حدیث
أنس أخرجہ البخاری (1392۔فتح)
حدیث نمبر 137
حضرت ابو منذر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی تھا، میں کسی شخص کے بارے میں نہیں جانتا کہ اس کا گھر اس آدمی کے گھر سے زیادہ مسجد سے دور ہو، لیکن پھر بھی اس سے کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی۔ اس سے کہا گیا یا میں نے اسے کہا اگر تم ایک گدھا خرید لو جس پر تم اندھیرے اور سخت گرمی میں سوار ہو کر آیا کرو (تو تمہیں فائدہ ہو) اس آدمی نے کہا: "مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے پہلو میں ہو، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف چل کر آنا اور میرا لوٹنا جب میں اپنے اہل خانہ کی طرف لوٹوں تویہ سب کچھ میرے لیے (بطورثواب) لکھا جائے۔" پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے یقیناً یہ سب تمہارے لیے جمع فرمادیا''
(مسلم)
ایک اور روایت میں ہے۔ ''یقیناً تمہارے لیے وہ ثواب ہے جس کا تم نے ارادہ کیا۔''
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(663) والر وایة الثانیة لہ (664)، وحدیث أنس أخرجہ البخاری (1392،فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 138
حضرت ابو محمد عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''چالیس خصلتیں ہیں، ان میں سے سب سے اعلیٰ دودھ پینے کے لیے کسی کو بکری دے دینا ہے پس جو شخص بھی ان میں سے کسی ایک خصلت پر ثواب کی امید سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
(بخاری)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (2435۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 139
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔''
(متفق علیہ)
اور بخاری و مسلم میں حضرت عدی رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب ہمکلام ہوگا اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ پس وہ شخص اپنی دائیں طرف دیکھئے گا۔ تو اسے اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال ہی نظر آئیں گے۔ اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی اسے اپنے اعمال ہی نظر آئیں گے، اور اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے اپنے چہرے کے سامنے آگ ہی نظر آئے گی، پس تم آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو، اگر کوئی شخص یہ بھی نہ پائے تو پھر اچھی بات کے ذریعے (آگ سے بچو)۔''
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (2833) و مسلم (1016)(68)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 140
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ اس بندے سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ جب وہ کھانا کھائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرے یا پانی پیئے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (2734)
حدیث نمبر 141
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر مسلمان کے لیے صدقہ کرنا ضروری ہے۔'' وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "آپ بتائیں کہ اگر وہ (صدقہ کرنے کیلئے) کچھ نہ پائے؟" آپ نے فرمایا: ''اپنے ہاتھ سے کام کرے، اس سے اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے اورصدقہ بھی کرے۔'' انھوں نے (ابو موسیٰ) نے پھر کہا: "اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے؟" آپ نے فرمایا: ''پھر وہ کسی ضرورت مند کی مدد کردے۔'' انھوں نے پوچھا "آپ بتائیں کہ اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھے؟" آپ نے فرمایا: ''وہ نیکی یا بھلائی کا حکم کرے۔'' انھوں نے کہا: "آپ بتائیں کہ اگر وہ ایسا بھی نہ کرسکے؟" آپ نے فرمایا: ''لوگوں کو شر اور تکلیف پہنچانے سے باز رہے، یقیناً یہ بھی صدقہ ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1073۔فتح) مسلم (1008)
ღƬαsнι☣Rασ™
10-31-2012, 03:29 PM
Jazak Allah ....
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.