View Full Version : ضرورت کے بغیر سوال کرنے کی مذمت کا بیان
ریاض الصالحین باب 57 سے 64 تک
باب 57
قناعت یعنی سوال سے بچنے، معیشت و انفاق میں میانہ روی اختیار کرنے اور ضرورت کے بغیر سوال کرنے کی مذمت کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''زمین پر جو بھی چلنے والا ہے اس کی روزی اللہ کی ذمے ہے۔''
(سورة ھود: 6)
اور فرمایا: ''صدقہ وخیرات ان فقراء کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں روکے ہوئے ہیں زمین میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رکھتے ناواقف لوگ انہیں سوال نہ کرنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تُو انہیں ان کے چہرے سے پہچانتا ہے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔'' (سورة البقرة: 273)
اور فرمایا: ''اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو وہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل۔ اور اس کے درمیان ان کی گزران ہے۔'' (سورة الفرقان:67)
اور فرمایا: ''میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے میں ان سے کوئی روزینہ نہیں چاہتا اور نہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔'' (سورة الذاریات:56،57)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اس موضوع سے متعلقہ حدیثوں کا ایک بڑا حصہ گزشتہ دو ابواب میں گزر چکا ہے اور جو پہلے بیان نہیں ہوئیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
حدیث نمبر 522
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دولت مندی، مال و دولت کی کثرت و فراوانی کا نام نہیں بلکہ اصل دولت مندی تو نفس کی دولت مندی ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (27111۔ فتح)، و مسلم (1051)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 523
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اسلام قبول کرلیا، بقدر کفاف (برابر سرابر، گزارہ لائق) روزی دیا گیا اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر اسے قانع بنادیا۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (513) ملاحظہ فرمائیں
حدیث نمبر 524
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے مجھے عطا فرمایا، میں نے پھر آپ سے سوال کیا تو آپ نے عطا فرمایا، میں نے پھر آپ سے سوال کیا تو آپ نے مجھے عطا کیا پھر آپ نے فرمایا: ''اے حکیم! یقیناً یہ مال سرسبز و شاداب اور شیریں ہے پس جو اسے سخاوتِ نفس کے ساتھ حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو اسے نفس کے لالچ کے ساتھ حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا (خرچ کرنے والا) ہاتھ، نیچے (مانگنے) والے ہاتھ سے بہتر ہے'' حکیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کا ساتھ معبوث فرمایا! میں آپ کے بعد مرتے دم تک کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔" پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،حکیم کو بلاتے تاکہ انہیں کچھ عطا کریں لیکن وہ آپ سے کچھ قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں انہیں بلایا تاکہ انہیں کچھ عطا کریں لیکن انہوں نے پھر بھی کچھ لینے سے انکار کردیا۔ چنانچہ حضرت عمر نے فرمایا: ''اے مسلمانو کی جماعت! میں حکیم کے معاملے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ اللہ نے مالِ فئی میں نے سے جو اس کا حق مقرر فرمایا ہے، میں اسے پیش کر رہا ہوں لیکن وہ اسے لینے سے انکار کررہے ہیں۔ پس حضرت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی وفات تک پوری زندگی کسی سے کچھ نہ لیا۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3353۔فتح)، و مسلم (1035)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 525
حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''کسی غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم چھ آدمی تھے ہمارے پاس ایک اونٹ تھا اور ہم اس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ (زیادہ پیدل چلنے کی وجہ سے) ہمارے پاؤں زخمی ہو گئے اور میرا پاؤں بھی زخمی ہوگیا اور میرے ناخن جھڑ گئے۔ ہم اپنے پاؤں پر کپڑے کے چیتھڑے لپیٹ لیتے تھے۔ پس اس غزو ے کا نام ہی ذات الرقاع (چیتھڑوں والا غزوہ) پڑگیا اس لیے کہ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھتے تھے۔ حضرت ابوبردہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے ہمیں یہ حدیث بیان کی پھر اسے ناپسند کیا اور فرمایا میں اسے بیان نہیں کرتا تھا۔ حضرت ابوبردہ بیان کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے اسے ناپسند فرمایا کہ ان کا کوئی عمل ظاہر ہو۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (4177۔فتح)، و مسلم (1816)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 526
حضرت عمرو بن تغلب (تاء پر زبر، غین ساکن،لام پر زبر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال یا قیدی آئے، پس آپ نے انہیں تقسیم فرمادیا۔ آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پس آپ کو یہ خبر پہنچی کہ آپ نے جنہیں کچھ نہیں دیا وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا: ''أمابعد! اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی شخص کو نہیں دیتا اور جس شخص کو میں نہیں دیتا وہ مجھے اس شخص کی نسبت زیادہ محبوب ہوتا ہے جسے میں عطا کرتا ہوں لیکن میں صرف انہی لوگو ں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں خوف اور سخت بے چینی دیکھتا ہوں اور جن لوگوں کے دلوں میں اللہ نے دولت مندی اور خیر و بھلائی رکھ دی ہے میں انہیں اسی کے سپرد کردیتا ہوں اور عمر بن تغلب بھی انہی میں سے ہیں۔'' حضرت عمرو بن تغلب بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں یہ پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمے کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔ (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (402۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 527
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے اور ابتدا اُن سے کر جن کی کفالت تیرے ذمے ہے۔ اور بہترین صدقہ وہ ہے جو ضرورت پوری کرنے کے بعد ہو اور جو شخص سوال کرنے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچالیتا ہے۔ اور جو شخص بے نیاز رہنا چاہیے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کردیتا ہے۔'' (متفق علیہ)
یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔ صحیح مسلم کے الفاظ اس سے مختصر ہیں۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2843۔فتح)، و مسلم (1034)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 528
حضرت معاویہ بن ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اصرار و الحاف اور کثرت سے سوال نہ کیا کرو۔ اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی شخص مجھ سے کسی قسم کا سوال کرے اوراس کا سوال میری ناگواری کے باجود مجھ سے کچھ نکلوالے تو پھر میں اسے جو عطا کردوں اس میں برکت نہیں ہوگی۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1038)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 529
حضرت ابو عبد الرحمن بن عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا: ''کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟'' راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے تھوڑا عرصہ پہلے آپ کی بیعت کی تھی۔ ہم نے عرض کیا! اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کر چکے ہیں پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟'' پس ہم نے بیعت کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور ہم نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی بیعت کرچکے ہیں پس اب ہم آپ سے کس چیز کی بیعت کریں؟" آپ نے فرمایا: ''اس بات پر کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور اللہ کی اطاعت کرو گے۔ (اور ایک چیز خفیہ طور پر آہستہ سے فرمائی) اور تم لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگو گے۔'' پس میں نے ان بیعت کرنے والوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اگر ان میں سے کسی کا کوڑا زمین پر گرجاتا تو وہ کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ اسے اٹھا کر اسے پکڑادے۔ (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1043)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 530
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے جو شخص سوال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ (اسی حالت میں) اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے (تو وہ اس حال میں ملتا ہے کہ) اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہو گا۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3383۔فتح)، و مسلم (1040)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 531
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ اس وقت منبر پر تشریف فرما تھے اور آپ نے صدقے اور سوال سے بچنے کا ذکر فرمایا: ''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے (کیونکہ) اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2943۔فتح)، و مسلم (1033)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 532
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص مال کو بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ آگ کے انگارے کا سوال کرتا ہے اب وہ کم طلب کرے یا زیادہ طلب کرے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1041)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 533
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بلا شبہ سوال کرنا زخم کرنا (یعنی زخم کرنے والا آلہ) ہے جس کے ذریعے آدمی اپنے چہرے کو کھرچتا ہے مگر یہ کہ آدمی بادشاہ سے سوال کرے یا پھر ایسے معاملے میں سوال کرے کہ جس کے بغیر چارہ نہیں۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)
توثیق الحدیث: صحیح۔ أخرجہ أبو داود (1639)، والترمذی (681)، والنسائی (5 100)، و أحمد (105)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 534
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص کو کوئی فاقہ (یا شدید حاجت) درپیش ہو اور وہ اسے لوگوں پر ظاہر کرے تو وہ اس کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے اور جو شخص اس ضرورت کو اللہ کے حضور پیش کرے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کی مشکل حل کردے گا۔ جلد (موت دے کر اخروی انعامات کے ذریعے اسے تمام دنیاوی ضرورتوں سے بے نیاز کردے گا) یا بدیر (اسے حلال مال دے کر غنی کردے گا)۔'' (ابو داؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)
توثیق الحدیث: حسن ان شااﷲ۔ أخرجہ أبوداؤد (1645)، و الترمذی (2326)، و أحمد (3891،407،442)، والحاکم (4081)، و البغوی فی ((شرح السنة)) (30214)، وأبو یعلی فی مسندہ (5317۔5399)، و أبونعیم (3148)۔
اس کی سند میں ایک راوی سیار ہے جس کی تعین میں علماء نے کافی اختلاف کیا ہے کہ یہ سیار ابو حکم ہے یا سیار ابو حمزہ۔ بہرحال اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے اور اس کا ایک شاہد ابوہریرہ سے طبرانی صغیر (791) اور طبرانی اوسط (5036۔مجمع البحرین) میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
حدیث نمبر 535
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کون ہے جو مجھے ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں؟'' (حضرت ثوبان کہتے ہیں) میں نے کہا کہ میں اس کی ضمانت دیتاہوں۔ پھر وہ کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ (ابو داؤد۔ اسناد صحیح ہیں)
توثیق الحدیث: صحیح۔ أخرجہ أبو داود (1643)، والنسائی (965)، و ابن ماجہ (1837)، و أحمد (2765)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 536
حضرت ابو بشیر قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (دو گروہوں کے درمیان لڑائی ختم کرانے کے لیے ضمانت) اٹھائی پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ سے اس کے بارے میں سوال کروں آپ نے فرمایا: ''ٹھہرو، انتظار کرو حتیٰ کہ صدقے کا مال ہمارے پاس آجائے تو ہم آپ کے لیے (اس مال سے) حکم دیں گے۔'' پھر آپ نے فرمایا: ''اے قبیصہ! صرف تین آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے: ایک وہ شخص جو کوئی ضمانت اٹھالے تو ایسے شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہے حتیٰ کہ وہ اس (ضمانت) کے مطابق حاصل کرلے اور پھر وہ رک جائے۔ دوسرا وہ آدمی جو کسی آفت کاشکار ہوجائے اور وہ آفت اس کا مال تباہ و برباد کردے تو ایسے شخص کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے حتیٰ کہ اس کی گزر اوقات کے لیے اسے مال مل جائے (یا فرمایا کہ جو اس کی حاجت کو پورا کردے) اور تیسرا وہ آدمی جو فاقے میں مبتلا ہے اور اس کی قوم سے تین عقلمند آدمی گواہی دے دیں کہ فلاں شخص فاقے میں مبتلا ہے تو ایسے شخص کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے حتیٰ کہ اس کی گزر اوقات کے لیے مال مل جائے (یا یہ فرمایاکہ جو اس کی حاجت کو پورا کردے۔) ا ے قبیصہ! ان مذکورہ (تین) حالتوں کے علاوہ (اپنی ذات کے لیے) سوال کرنا حرام ہے اور ایسا سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1044)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 537
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس چکر لگاتا پھرے اور وہ ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں اسے لوٹا دیں بلکہ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ مال اسے دوسروں سے بے نیاز کردے اور نہ (اس کے چہرے کے آثار یا ظاہر حالات ایسے ہوں کہ) دیکھنے والا اس کا اندازہ کرسکے اور اس پر صدقہ کرے اور وہ خود کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (264) ملاحظہ فرمائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 58
سوال اور حرص و طمع کے بغیر جو مال ملے اسے لینا جائز ہے
حدیث نمبر 538
حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ (اپنے والد) حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی چیز عطا فرماتے تو میں عرض کرتا: آپ اسے مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عطا فرمادیں تو آپ فرماتے: ''اسے لے لو، جب تمہارے پاس کوئی مال اس طرح آئے کہ تمہیں اس کی حرص و طمع بھی نہ ہو اور تم نے اسے مانگا بھی نہ ہو تو اسے لے لو اور اپنے مال میں شامل کر لو پھر اگر تم چاہو تو اسے کھالو اور اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو اور جو اس طرح نہ ملے تو پھر اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگاؤ (یعنی خود سوال وغیرہ نہ کرو)۔'' حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے اور اگر انہیں کوئی چیز دی جاتی تو اسے لینے سے انکار بھی نہیں کرتے تھے۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3373۔فتح)، و مسلم (1045)
باب 59
اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے ،سوال سے بچنے اور دوسروں کو دینے سے گریز نہ کرنے کی ترغیب و تاکید
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جب نماز پوری ہوچکے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل (رزق) تلاش کرو۔'' (سورة الجمعة:10)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 539
حضرت ابو عبداللہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی رسیاں لے کر پہاڑ پر جائے پھر وہ اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لے کر آئے اور اسے فروخت کرے پس اس طرح اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو (سوال کی ذلت سے) بچالے تو یہ اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اسے دیں یا نہ دیں۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3353۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 540
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا گٹھا اپنی کمر پر لاد کر لائے (اور اسے فروخت کرے) تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے (ممکن ہے) وہ اسے دے یا نہ دے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3353۔فتح)، و مسلم (1046)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 541
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''حضرت داؤد (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3034۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 542
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''حضرت زکریا (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) بڑھئی تھے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2379)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 543
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کبھی کوئی کھانا نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3034۔فتح)۔
باب 60
کرم و سخاوت اور اﷲ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔'' (سورةسبأ:39)
اور فرمایا: ''اور جو تم خرچ کرو گے پس اس کا فائدہ تمہیں ہی ہوگا اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔'' (سورة البقرة:272)
اور فرمایا: ''جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔'' (سورة البقرة:273)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 544
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صرف دو آدمیوں کے بارے میں رشک کرنا جائز ہے: ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق سے بھی نوازا اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت سے نوازا اور وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اسے دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔'' (متفق علیہ)
اس کامعنی یہ ہے کہ صرف اس شخص پر رشک کیا جائے جو ان دو خصلتوں میں سے کسی ایک سے نوازا گیا ہو۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1651۔فتح)، و مسلم (816)
حدیث نمبر 545
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟'' صحابہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال ہی زیادہ محبوب ہے۔ آپ نے فرمایا: ''یقیناً اس کا اپنا مال تو وہ ہے جو اس نے (صدقہ کرکے) آگے بھیجا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (26011۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 546
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہو (یعنی خواہ بقدر وسعت کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کرو)'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (139) ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 547
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا آپ نے انکار نہیں کیا (کہ میں آپ کو نہیں دیتا)۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (45510۔فتح)، و مسلم (2311)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 548
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بہتر بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کے مال کو تلف فرما۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (95) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 549
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اے ابن آدم! تو خرچ کر تجھ پر بھی خرچ کیاجائے گا۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3528۔فتح)، و مسلم (993)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 550
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''تم کھانا کھلاؤ اور سلام کہو جسے تم جانتے ہو اور جسے نہیں جانتے ہو (اسے بھی سلام کہو)۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (551۔فتح)، و مسلم (39)
حدیث نمبر 551
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''چالیس خصلتیں ہیں۔ ان میں سے سب سے اعلیٰ دودھ دینے والی بکری بطور عطیہ دینا ہے جو شخص بھی ثواب کی امید اور اس پر کیے گئے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے ان میں سے کسی بھی خصلت پر عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔'' (بخاری) اس حدیث کابیان ''باب کثرة طرق الخیر'' میں گزر چکا ہے۔
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (138) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 552
حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے ابن آدم! اگر تم زائد از ضرورت مال خرچ کروگے تو تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر اسے روک کر رکھو گے تو تمہارے لیے برا ہوگا اور بقدر کفاف (گزارے لائق) روزی ملنے پر تمہیں ملامت نہیں کی جائے گی اور خرچ کرنے کی ابتدا ان سے کر جو تیرے زیر کفاف ہیں اور اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے"۔ (مسلم)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (510) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 553
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے نام پر کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ ضرور عطا فرمائی۔ ایک دفعہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو آپ نے دو پہاڑوں کے درمیان جتنی بکریاں تھیں وہ اسے دے دیں۔ وہ اپنی قوم کے پاس گیا تو اس نے کہا: "اے میری قوم! اسلام قبول کرلو کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی طرح عطا فرماتے ہیں کہ جسے فقر کا اندیشہ نہیں ہوتا۔" (راوی فرماتے ہیں) اگر کوئی شخص صرف حصولِ دنیا کے لیے اسلام قبول کرتا تو تھوڑے ہی عرصے بعد اسلام اسے دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتا۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث۔ أخرجہ مسلم (2312)(58)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 554
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم فرمایا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان لوگوں سے تو جنہیں آپ نے مال دیا ہے دوسرے لوگ زیادہ مستحق تھے؟ آپ نے فرمایا: ''انہوں نے مجھے اختیار دیا یا تو یہ کہ وہ مجھ سے سختی سے سوال کرتے پس مجھے انہیں دینا پڑتا یا یہ کہ وہ مجھے بخیل قرار دیتے حالانکہ میں بخل کرنے والا نہیں ہوں۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1056)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 555
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حنین سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہے تھے کہ کچھ دیہاتی آپ سے چمٹ کر سوال کرنے لگے حتیٰ کہ انہوں نے آپ کو ایک کیکر کے درخت کی طرف مجبور کردیا اور اس درخت (کے کانٹوں) نے آپ کی چادر کو اچک لیا (یعنی چادر ان سے الجھ گئی) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فرمایا: ''میری چادر تو مجھے دو۔ اگر میرے پاس ان خاردار درختوں کے برابر اونٹ ہوتے تو میں انہیں تمہارے درمیان تقسیم کردیتا، پھر تم مجھے بخیل پاتے نہ جھوٹا اور نہ بزدل۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2516۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 556
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صدقے نے کبھی مال کم نہیں کیا۔ عفو و درگزر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2588)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 557
حضرت عمر بن سعد اناری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''میں تین چیزوں پر قسم کھاتا ہوں او تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو (وہ یہ کہ) کسی بندے کا مال صدقہ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی مظلوم شخص ظلم پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور اگر کوئی آدمی مانگنے کا دروازہ کھولتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس پر فقر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (یا آپ نے فقر جیسا کوئی اور کلمہ فرمایا اور فرمایا میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو ''دنیا میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں:۔ (1) ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ ان کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور ان میں جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اسے بھی ادا کرتا ہے۔ پس یہ آدمی اعلیٰ منزل پر فائز ہوگا۔ (2) اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا مگر مال نہیں عطا فرمایا لیکن وہ صدق نیت کا مالک ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی کی طرح عمل (خرچ) کرتا۔ پس جب اس کی نیت یہ ہے تو اس کا اور اس پہلے (خرچ کرنے والے) شخص کا اجر برابر ہے۔ (3) اور تیسرا وہ شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال عطا فرمایا ہے لیکن علم سے نہیں نوازا، وہ جہالت کی وجہ سے اپنا مال ضائع کر رہا ہے اور اس کے بارے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا اور نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی حق پہچانتا ہے تو ایسا شخص بدترین مرتبے والا ہے۔ (4) اور چوتھا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت دیا نہ علم اور وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس فلاں شخص کی طرح اندھا دھند (گناہ کے راستوں میں) خرچ کرتا۔ پس جب اس کی نیت یہ ہے تو پھر اس کا اور تیسرے بندے کا گناہ برابر ہے۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)
توثیق الحدیث: صحیح۔ أخرجہ الترمذی (2325)، و ابن ماجہ (4228)، و أحمد (2304،231)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 558
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس بکری میں سے کیا بچا ہے؟'' حضرت عائشہ نے کہا: "صرف ایک دستی بچی ہے" آپ نے فرمایا: ''اُس دستی کے سوا باقی سب بچا ہے''۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس دستی کے سوا باقی گوشت صدقہ کردیا تھا تو آپ نے فرمایا: ''کہ ہم نے جو صدقہ کردیا آخرت میں وہی ہمارے لیے ذخیرہ ہو گیا (جس کا ہمیں ثواب ہو گا) سوائے اس دستی کے۔
توثیق الحدیث: أخرجہ الترمذی (2470) باسناد صحیح
حدیث نمبر 559
حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا و عن ابیہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم بخل اور کنجوسی نہ کرو (میانہ روی اختیار کرو) ورنہ تم سے بھی ہاتھ کھنچ لیا جائے گا (یعنی تمہیں دینے والا دینا بند کردے گا)
ایک اور روایت میں ہے: "خرچ کرو، گن گن کر نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی گن گن کردے گا اور سینت سینت کر نہ رکھو (جمع نہ کرو) ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ کرے گا۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2993 ،300۔فتح)، و مسلم (1209) (88،89)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 560
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے دو آدمی، جن کے بدن پر لوہے کی زرہیں ہیں جو ان کے سینے سے ہنسلی تک ہیں۔ پس جو خرچ کرنے والا ہے جب وہ خرچ کرتا ہے تو وہ زرہ اس کے جسم پر پوری آجاتی ہے حتیٰ کہ اس کے پاؤں کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو مٹا دیتی ہے اور جو بخیل ہے وہ چونکہ کچھ بھی خرچ نہیں کرتا چاہتا تو پھر زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے بس وہ اسے ڈھیلا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ڈھیلا نہیں ہوتا۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3053۔فتح)، و مسلم (1021)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 561
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص طیب اور پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور طیب کمائی کے صدقے کو قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے پھر اس کو صاحب صدقہ کے لیے بڑ ھاتا رہتا ہے جیسے تم میں سے کوئی ایک اپنے بچھیرے کو پالتا اور اس کی پرورش کرتا ہے حتیٰ کہ وہ (ایک کھجور بڑھ کر) پہاڑ جیسی ہو جاتی ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2783۔فتح)، و مسلم (1014)
حدیث نمبر 562
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک دفعہ ایک آدمی صحرا میں جارہا تھا کہ اس نے بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کے سیراب کر، پس بادل کا ایک ٹکڑا الگ ہوا اور اس نے اپنا پانی سیاہ پتھریلی زمین پر برسادیا۔ پس ان نالوں میں سے ایک نالے نے وہ سارا پانی اپنے اندر جمع کرلیا (اور پانی اس نالے میں بہنے لگا)۔ یہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے بیلچے یا کَسّی سے باغ کو پانی لگا رہا ہے اس آدمی نے اس سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل میں سنا تھا۔ پھر اس نے کہا :اے اللہ کے بندے تو نے میر انام کیوں پوچھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے بادل میں ایک آواز سنی جس بادل کا یہ پانی ہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر اور یہ وہی تمہارا نام ہی ہے (جو میں نے سنا تھا)۔ تمہارا اس باغ کے بارے میں کیادستور عمل ہے؟ اس آدمی نے کہا: اب تم جو یہ کہہ رہے ہو (تو میں تمہیں اپنے عمل کے بارے میں بتادیتا ہوں) میں اپنے باغ کی پیداوار کا اندازہ اور تخمینہ لگاتا ہوں اور اس کا ایک تہائی صدقہ کردیتا ہوں اور ایک تہائی میرے اور میرے اہل و عیال کی خوراک کے لیے ہوتا ہے۔ اور ایک تہائی اس باغ پر دوبارہ لگا دیتا ہوں۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2984)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 61
بخل اورحرص وطمع کی ممانعت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''لیکن جس نے بخل کیا اور بے پروائی اختیار کی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم اس کے لیے تنگی کا سامان مہیا کردیتے ہیں (یعنی ایسی راہ پر لگا دیتے ہیں جس کا انجام برا ہے) اور اس کا مال اس کے کام نہیں آئے گا جب وہ ہلاک ہوگا (یا جب جہنم میں گرے گا)۔'' (سورة اللیل :8۔11)
اور فرمایا: ''جو اپنے نفس کے بخل اور حرص و طمع سے بچا لیا گیا پس وہی کامیاب ہے'' (سورة التغابن:16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 563
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ظلم کرنے سے بچو اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہو گا اور شُح (بخل و حرص) سے بچو اس لیے کہ بخل و حرص نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا، اسی (بخل) نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہائیں اور انہوں نے حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھ لیا۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (203) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 62
ایثار، قربانی اور ہمدری وغم خواری کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''وہ اپنے نفسوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود بھوکے ہی ہوں۔''
(سورة الحشر: 9)
اور فرمایا: ''اور وہ اس (طعام، دنیوی مال و متاع) کی محبت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں'' (سورة الدھر:8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 564
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے کہا: "میں (بھوک کی وجہ سے) سخت مشقت میں ہوں (مجھے کھانا کھلائیں)" آپ نے اپنی ازواجِ مطہرات میں سے ایک کی طرف پیغام بھیجا تو انہوں نے جواب دیا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا! میرے پاس تو صرف پانی ہے۔" پھر آپ نے دوسری زوجہ محترمہ کے پاس پیغام بھیجا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا حتیٰ کہ ان سب نے یہی جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کو ساتھ معبوث فرمایا! ''میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں۔" تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا: ''آج کی رات کون اس کی مہمانی کرے گا؟'' انصار میں سے ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! میں" (اس کی مہمانی کروں گا)۔ پس وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خوب تکریم کرنا۔"
اور ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں صرف میرے بچوں کا کھانا ہے۔ انہوں نے کہا: "جب وہ شام کا کھانا مانگیں تو انہیں کسی چیز سے بہلاؤ اور انہیں سلادو اورجب ہمارا مہمان گھر میں داخل ہو تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہی ظاہر کرنا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھارہے ہیں۔ پس وہ سب کھانے کے لیے بیٹھ گئے مہمان نے کھانا کھالیا اور ان دونوں میاں بیوی نے (بچوں سمیت) بھوکے رات گزاری۔ پس جب صبح ہوئی اور وہ (میزبان) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا: ''تم نے آج رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا ہے۔'' (متفق علیہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 565
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو اور تین کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔'' (متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک آدمی کا کھانا دو کو، دو آدمیوں کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کافی ہوتا ہے۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (5359۔فتح)، و مسلم (2058)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 566
حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر تھے کہ ایک آدمی اپنی سواری پر آیا اور اپنی نظر دائیں بائیں گھمانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو تو اسے چاہیے کہ یہ زائد سواری اسے دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس شخص کے پاس زائدزادِ راہ ہو تو اسے چاہیے کہ یہ اسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو۔'' راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مختلف قسم کے مال کا ذکر کیا حتیٰ کہ ہم نے سمجھا کہ ہم میں سے کسی شخص کا بھی (اپنی) زائد از ضرورت چیز پر کوئی حق نہیں ہے۔ (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(1728)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 567
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت ایک بُنی ہوئی چادر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تواس نے کہا: "میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے تاکہ اسے آپ کو پہناؤں۔" پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی چیز سمجھتے ہوئے قبول فرمالیا۔ پس آپ اس چادر کو تہ بند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے تو کسی شخص نے کہا: "آپ اسے مجھے پہنا دیں یہ کس قدر اچھی اور خوبصورت ہے!" آپ نے فرمایا: ''اچھا''۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے رہے پھر واپس گھر چلے گئے تو اس چادر کو لپیٹا اور اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ پس لوگوں نے اسے کہا: "تم نے اچھا نہیں کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا ہوا تھا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی اور تم نے پھر بھی آپ سے یہ چادر مانگ لی اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔" اس آدمی نے کہا: "اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے آپ سے یہ چادر اس لیے نہیں مانگی کہ میں اسے پہنوں گا بلکہ میں تو اس لیے مانگی ہے کہ یہ میرا کفن بن جائے۔" حدیث کے راوی حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ یہ چادر اُس کا کفن بنی۔ (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1433۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 568
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اشعری ایسے لوگ ہیں کہ جب جہاد میں ان کا زادِ راہ ختم ہو جاتا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے یا مدینے میں رہتے ہوئے ان کے اہل و عیال کا کھانا کم ہوجاتا ہے تو ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اسے ایک کپڑے میں جمع کرلیتے ہیں اور پھر ایک برتن کے ذریعے آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں پس وہ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1285۔129۔فتح)، و مسلم (2500)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 63
امورِ آخرت کے بارے میں رغبت اور متکبر چیزوں کی زیادہ خواہش رکھنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اس(جنت) کے بارے میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے'' (سورة المطففین:26)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 569
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب لایا گیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا: ''آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا اور بائیں جانب عمر رسیدہ لوگ تھے۔ آپ نے لڑکے سے فرمایا: ''کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ میں (یہ مشروب تم سے پہلے) ان شیوخ کودے دوں؟'' لڑکے نے کہا: "نہیں ،اللہ تعالیٰ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میں آپ کی طرف سے ملنے والے اپنے حصے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔" پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (305۔31۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 570
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''حضرت ایوب علیہ السلام برہنہ حالت میں غسل فرما رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں تو حضرت ایوب لپ بھر بھر کر انہیں اپنے کپڑے میں رکھنے لگے۔ پس ان کے رب عز و جل نے انہیں پکارا: "اے ایوب! کیا میں نے تمہیں ان چیزوں سے بے نیاز نہیں کردیا تھا۔ جنہیں تم دیکھ رہے ہو؟" انہوں نے عرض کیا: "کیوں نہیں تیری عزت کی قسم! لیکن تیری برکت سے جو مجھ پر ہورہی ہے، بے نیاز نہیں ہوسکتا۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3871۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 64
شکر گزار مالدارکی فضیلت اورشکر گزار مالدار وہ ہے جو جائز طریقوں سے مال حاصل کرتا ہے اور جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے، وہاں خرچ کرتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور اچھی بات کی تصدیق کی ہم اسے آسان راستے (جنت) کی توفیق دیں گے۔'' (سورة اللیل: 5۔7)۔
اور فرمایا: ''اور جو بڑا پرہیزگار ہے اسے جہنم سے بچا لیا جائے گا، جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور کسی کا اس پر احسان نہیں ہے کہ جس کا بدلہ دیا جائے۔ صرف اپنے رب اعلیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کرتا ہے اور یقیناً عنقریب وہ خوش ہوجائے گا۔'' (سورةاللیل:17۔21)
اور فرمایا: ''اگر تم صدقات ظاہر کرکے دو تب بھی اچھا ہے اور اگر تم چھپا کردو اور فقراء کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور وہ تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔'' (سورةالبقرة:271)
اور فرمایا: ''تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزیں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ نہیں کرو گے اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے جانتا ہے۔'' (سورةآل عمران:92)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 571
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے: ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق سے نوازا اور دوسرے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا فرمائی، وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اسے دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (544) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 572
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے: ایک اس آدمی پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید (کا علم) عطا فرمایا اور وہ آدمی رات کے اوقات میں اور دن کے اوقات میں اس (قرآن مجید) کے ساتھ قیام (عمل) کرتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہے اور وہ رات اور دن کے اوقات میں اسے خرچ کرتا ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (439۔فتح)، و مسلم (815)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 573
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مہاجرین میں سے غریب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: "مالدار لوگ تو بلند درجے اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں لے گئے۔" آپ نے فرمایا: ''وہ کیسے؟'' انہوں نے بتایا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں، وہ روزے رکھتے ہیں جسے ہم رکھتے ہیں، وہ صدقہ کرتے ہیں لیکن ہم (صاحب استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے) صدقہ نہیں کرتے اور وہ غلام آزاد کرتے ہیں ہم نہیں کرتے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤ ں جس کے کرنے سے تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں کو پالو اور اپنے بعد والوں سے تم سبقت لے جاؤ۔ اور تم سے زیادہ فضیلت والا کوئی نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جو تمہارے جیسا عمل کرے؟'' انہوں نے کہا: "کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!" (وہ عمل ضرور بتائیں) آپ نے فرمایا: ''تم ہر نمازکے بعد 33 33 مرتبہ سبحان اﷲ، الحمداﷲ اور اﷲاکبر پڑھ لیا کرو۔'' پس (کچھ دنوں کے بعد) مہاجرین میں سے وہ غریب لوگ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! ہمارے مالدار بھائیوں کو بھی ہمارے عمل کے بارے میں پتا چل گیا ہے اور انہوں نے بھی اس وظیفے کو کرنا شروع کردیا ہے۔" پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔'' (متفق علیہ) یہ الفاظ مسلم کی روایت کے ہیں۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3252۔فتح)، و مسلم (595)
ღƬαsнι☣Rασ™
10-31-2012, 03:28 PM
Jazak Allah ....
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.