Log in

View Full Version : حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعا 


life
08-21-2012, 09:25 PM
حضرت اسماء بنت عُمیس خثعمیّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا





غزوہ خیبر (محرّم سنہ 7ھ) کے چند دن بعد کا ذکر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اجنبی خاتون حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے محوِ گفتگو تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’ یہ بی بی کون ہیں؟‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’یہ اسماء بنت عمیس زوجہ جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہا ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہاں وہ حبش والی(حبشیہ) وہ سمندر والی (بحریہ)؟‘‘
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ہاں وہی‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شاید(ازراہِ خوش طبعی) فرمایا: ’’ہم نے تم سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، اسلئے ہم تم سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مستحق ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غصہ آگیا، بولیں: ’’جی ہاں آپ نے بجا فرمایا، لیکن حقیقت حال یہ ہے آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے اور جاہلوں کو تعلیم دیتے تھے، لیکن ہمارا حال یہ تھا کہ ہم حبش کی دور ترین، مغبوض ترین، سرزمین میں غریب الوطنی کی خاک چھان رہے تھے، ہم کو ایذا دی جا رہی تھی، ہم خائف رہتے تھے اور یہ سب کچھ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا جوئی کی خاطر تھا۔ خدا کی قسم جو کچھ آپ نے کہا ہے، جب تک اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کر لوں گی، نہ کھاؤنگی نہ پانی پیونگی۔۔۔۔۔ خدا کی قسم، کسی قسم کا جھوٹ نہ بولوں گی، کج روی نہ اختیار کرونگی اور اس واقعہ یں کوئی اضافہ نہ کرونگی۔‘‘
یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، عمر یوں کہتے ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تو تم نے انہیں کیا جواب دیا؟‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں: ’’میں نے انہیں یوں اور یوں کہا۔‘‘

life
08-21-2012, 09:25 PM
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں: ’’میں نے انہیں یوں اور یوں کہا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تم سے زیادہ میرے مستحق نہیں ہیں۔ عمر اور ان کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہے اور تم اہل کشتی کی دو ہجرتیں ہیں۔‘‘ (یعنی ایک مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ کی جانب)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اس قدر مسرّت ہوئی کہ ان کی زبان بے اختیار تکبیروتہلیل جاری ہو گئی۔ جب اس گفتگو کو چرچا پھیلا تو مہاجرین جوق در جوق حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آتے، ان سے اس واقعہ کی تفصیل سنتے اور خوش ہوتے تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں حبشہ کے مہاجروں کیلئے دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے بڑھ کر حوصلہ افزا اور مسرّت انگیز کوئی شے نہ تھی۔
یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جن کی فضیلت کی تصدیق ان کے ذوالہجرتین ہونے کی بنا پر خود سیّد الانام فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، قبیلہ خثعم کی چشم چراغ تھیں اور ان جلیل القدر خواتین میں سے تھیں جنہوں نے دعوت حق کے بالکل ابتدائی زمانے میں سخت نامساعد حالات اور مہیب خطرات سے بے پرواہ ہو کرقبول اسلام کی سعادت حاصل کی تھی۔
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے والد عُمَیس کے سلسلہ نسب کے بارے میں مؤرّخین میں سخت اختلاف ہے۔ کسی نے عُمیس کے والد کا نام معبد بن تمیم لکھا ہے اور کسی نے معد بن حارث،والدہ کا نام بالاتفاق ہند(خولہ) بنت عوف تھا۔ امّ المأمنین حضرت میمونہ بنت حارث بھی ان کے بطن سے تھیَ اس نسبت سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، حضرت میمونہ کی اخیافی بہن تھیں۔
علامہ ابن سعد اور ابن ہشام کا بیان ہے کہ جس زمانے میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سعادت اندوز اسلام ہوئیں، اس وقت صرف تین نفوس شرف اسلام سے بہرہ ور ہوئے تھے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں مقیم نہیں ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو ’’السّابقون الاوّلون‘‘ کی مقدس جماعت میں بھی امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اسکے علاوہ تاریخ اسلام میں ان کو اس بنا پر بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کا نکاح یکے بعد دیگرے تین ایسی عظیم المرتبت ہستیوں سے ہوا جو قصر اسلام کے عظیم الشّان ستون تھیں اور رہبر انسانیت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بیحد محبوب تھیں۔

life
08-21-2012, 09:26 PM
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ابن عمّ حضرت جعفر طیّار ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ ان کی شہادت کے بعد دوسرا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ ان کی وفات کے بعد تیسرا نکاح شیر خدا، فاتح خیبر حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کے پہلے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا زمانہ ایک ہی ہے۔
اوائل سنہ 4 بعد بعثت میں جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ لوگوں کو حق کی طرف بلانا شروع کیا تو مشرکین مکہ فرط غضب سے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے دعوت حق قبول کرنے والوں پر بے پناہ ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ جب یہ مظالم ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو سنہ 5 بعد بعثت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ وہ حبش (ایتھوپیا) کو ہجرت کر جائیں جہاں کا بادشاہ ایک نیک دل اور انصاف پسند عیسائی تھا چنانچہ پہلی بار 11 مردوں اور چار عورتوں کا ایک قافلہ بندرگاہِ شعیبہ سے جہاز میں سوار ہو کر حبش روانہ ہو گیا۔ سنہ 6 بعد بعثت کے آغاز میں 80 سے زیادہ مردوں اور19 خواتین پر مشتمل ایک اور قافلہ مکہ سے نکلا اور حبش کا رخ کیا۔ اس قافلہ میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور کچھ ایسے اصحاب بھی جو پہلی ہجرت کے بعد
حبش سے مکہ آگئے تھے لیکن یہاں کی فضا کو بدستور ناسازگار پا کر دوبارہ ہجرت کرنے پر آمادہ ہو گئے تھےْ قریش مکہ نے ان اصحاب کا سمندر تک تعاقب کیا، لیکن وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کشتیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوچکے تھے۔

life
08-21-2012, 09:26 PM
حبش پہنچ کر یہ لوگ امن کی زندگی بسر کرنے لگے لیکن غریب الوطنی آخر غریب الوطنی ہوتی ہے۔ مہاجرین کو طرح طرح کی مصیبتیں پیش آتی تھیں۔(بیماری، تنگدستی وغیرہ)لیکن وہ ان سب کو صبرواستقامت سے برداشت کرتے تھے۔ قریش مکہ کو اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی مسلمانوں کا یہ امن چین گوارا نہ تھا۔ انہوں نے نجاشی(شاہ حبشہ)کے پاس ایک وفد تحفے تحائف دے کر اس مقصد کیلئے روانہ کیا کہ وہ بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ملک سے نکال دے۔ اس وفد کی قیادت عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کر رہے تھے جو زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ انہوں نے حبش پہنچ کر نجاشی کے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر رام کرلیا اور نے وعدہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہ وفد قریش کی حمایت کرینگے۔ اسکے بعد وہ نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تحائف پیش کرکے عرض کیا کہ ہمارے چند سادہ لوح آدمیوں نے ایک نیا مذہب گھڑ لیا ہے جو ہمارے اور آپکے دین کے خلاف ہے۔اس لئے ہماری درخواست ہے کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کیا جائے جو ہمارے پاس سے بھاگ کر آئے ہیں اور اب آپ کے ملک میں گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ بطارقہ اور درباریوں نے وفد قریش کی بھرپور حمایت کی لیکن نجاشی ایک انصاف پسند اور رحم دل بادشاہ تھا، اس نے کہا کہ جب تک میں خود ان لوگوں کو بلا کر تحقیقِ احوال نہ کرلوں، انہیں تمہارے حوالے نہیں کر سکتا چنانچہ اس نے تمام مہاجرین کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

life
08-21-2012, 09:26 PM
دوسرے دن تمام مسلمان نجّاشی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ ان سب نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا ترجمان بنایا۔ نجاشی نے ان سے پوچھا: ’’اے لوگو! وہ کون سا مذہب ہے جس کے لیے تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ دیا ہے؟‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا:
’’اے بادشاہ ہم سخت جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے، اپنی لڑکیاں زندہ دفن کر دیتے تھے، رشتہ داروں اور ہمسایوں کو ستاتے تھے، انسانیت سے عاری تھے، کوئی قاعدہ اور قانون نہ تھا۔ ایسی حالت میں اللہ نے خود ہم میں سے ایک صاحب کو اپنا رسول بنایا جس کے حسب نسب، سچائی، شرافت، دیانتداری اور پاکبازی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی۔ سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے، امانت میں خیانت نہ کرنے، بت پرستی ترک کرنے، بدکاری اور فریب سے بچنے، ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، زکواٰۃ دینے کی تعلیم دی۔ہم اس کی تعلیم پر چلے، ایک خدا کی پرستش کی، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ بیٹھی ہم کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر پھر بت پرستی اور بدکاریوں میں مبتلا کرنا چاہا۔ ہم ان کے ظلم وستم سے تنگ آ کر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔‘‘

life
08-21-2012, 09:26 PM
نجاشی یہ تقریر سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس نے حضرت جعفر سے کہا: ’’تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کا کچھ حصہ مجھے سناؤ۔‘‘
حضرت جعفر بڑے نکتہ رس تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ نجاشی اہل کتاب میں سے ہے اور دین عیسوی کا پیرو ہے۔ انہوں نے سورۃ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ اس کو سن کر نجاشی پر رقّت طاری ہو گئی اور وہ اس قدر رویا کہ اسکی داڑھی تر ہو گئی۔ پھر وہ بےساختہ پکار اٹھا:
’’خدا کی قسم تمہارے نبی کی کتاب اور انجیل مقدس ایک ہی نور کی کرنیں ہیں۔ میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے ہرگز نہ کروں گا۔‘‘
اس کے بعد اس نے قریش کے وفد سے مخاطب ہو کر کہا:
’’واللہ میں ان لوگوں کو کبھی اپنے ملک سے نہیں نکالوں گا اور نہ تمہارے سپردکروں گا۔‘‘
قریش کے وفد نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ بادشاہ کا دل مسلمانوں سے پھیر دے، چنانچہ دوسرے دن وہ پھر دربار میں گیا اور بادشاہ سے کہا:

life
08-21-2012, 09:26 PM
’’اے بادشاہ یہ لوگ آپ کے نبی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے متعلق بہت برا عقیدہ رکھتے ہیں، کیا آپ اس عقیدے کے لوگوں کو پناہ دینگے؟‘‘
نجاشی نے مسلمانوں کو دوبارہ دربار میں طلب کیا اور پوچھا: ’’تمہارا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی نسبت کیا عقیدہ ہے؟‘‘
حضرت جعفر نے جواب دیا: ’’اے بادشاہ ہم عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو خدا کا نبی اور روح اللہ مانتے ہیں۔‘‘
نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا:’’واللہ جو کچھ تم نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں کہا، وہ اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
غرض قریش کی سفارت بے نیل و مرام واپس ہو گئی۔

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس مجلس میں ہم نے نجاشی کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کیا، اسی میں نجاشی نے سوال و جواب کے بعد ہم سے پوچھا:’’کیا میرے ملک میں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دیتا؟‘‘
ہم نے کہا: ’’ہاں یہاں کے لوگ ہمیں ستاتے ہیں۔‘‘
اس پر بادشاہ نے منادی کرادی کہ ’’جو شخص ان لوگوں میں سے کسی کو ستائے گا، اس پر چار درہم جرمانہ کیا جائیگا۔‘‘
پھر نجاشی نے ہم سے دریافت کیا: ’’کیا یہ جرمانہ کافی ہے؟‘‘

life
08-21-2012, 09:26 PM
ہم نے کہا نہیں۔ اس پر اس نے جرمانہ دگنا کر دیا۔ (ابن عساکر اور طبرانی)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفارت کے آنے سے پہلے مہاجرین حبشہ بالکل مامون و محفوظ نہیں تھےاور حبش کے لوگ ان کو ستاتے رہتے تھے۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، ان کے شوہر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بہت سے دوسرے مہاجرین حبش میں چودہ برس تک غرین الوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ اس دوران میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور بدر، اُحد، خندق اور خیبر کے معرکے گزر چکے۔ محرم سنہ 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا، تو سارے مسلمان حبش سے مدینہ آ گئے۔ ان میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ خیبر کی فتح سے مسلمان پہلے ہی خوش تھے، اپنے بھائیوں کی آمد سے ان کو دوہری خوشی ہوئی۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو گلے لگایا ان کی پیشانی چومی اور فرمایا:
’’میں نہیں جانتا مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے۔‘‘

life
08-21-2012, 09:27 PM
اسی زمانے میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے ان کے گھر گئیں جہاں وہ واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔ اس وقت بعض صحابہ کا خیال تھا کہ حقیقی مہاجرین اوّلین وہی ہیں ، جنہوں نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ جن اصحاب نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، ان کو دو ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا اور اس اعتبار سے مہاجرین مدینہ کو مہاجرین حبشہ پر فضیلت نہیں دی جا سکتی۔ چونکہ یہ وضاحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے استفسار پر فرمائی تھی اسلیے مہاجرینِ حبشہ بار بار ان کے پاس آتے تھے اور یہ حدیث سن کر مسرور ہوتے تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نامدار کو مدینہ آئے ہوئے ایک ہی سال گزرا تھا کہ ایک بار پھر ان کی آزمائش کا وقت آ گیا۔

life
08-21-2012, 09:27 PM
سنہ 8 ہجری میں شام کے ایک قصبہ موتہ کے رئیس شرجیل بن عمرو غسانی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت حارث بن عمیر ازدی کو شہید کر دیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسل کا نامہ مبارک لے کر حاکم بُصریٰ حارث بن شمر غسانی کو پہنچانے جا رہے تھے۔ شرجیل کی یہ حرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کیلئے تین ہزار مجاہدین کا ایک لشکر مُوتہ کی جانب روانہ کیا۔ اس لشکر کہ قیادت حِبّ النّبی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر رہے تھے اور اس میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو رخصت کرتے وقت فرمایا:’’ اگر لڑائی میں زید شہید ہو جائیں تو جعفر امیر ہونگے، اگر جعفر بھی شہادت پا جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ان کی جگہ لیں گے۔‘‘
مؤتہ کے علاقے میں ان دنوں اتفاق سے ہرقل شاہ روم بھی آیا ہوا تھااور بلقا میں مقیم تھا۔ شرجیل نے اس سے مدد مانگی۔ ہرقل نے ایک بھاری لشکر اسکی مدد کیلئے بھیج دیا۔قیس، جذام، لحم وغیرہ کے جنگجو عیسائی قبائل بھی شرجیل کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، اسطرح تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر تھی۔ مؤتہ مدینہ منورہ سے بہت دور تھا اسلیے مزید کمک طلب کرنا ممکن نہ تھا اور پیچھے ہٹنا باعث ننگ، مسلمان اللہ کے بھروسے پر غنیم کے ٹڈی دل سے نبرد آزما ہوئے۔مؤتہ کے میدان میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ امیر لشکت حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور اس جرأت اور پامردی سے لڑے کہ شجاعت بھی آفرین پکار اٹھی۔ تقریباً نوّے زخم اس مردِ حق نے اپنے بدن پر کھائے جن میں کوئی بھی پشت پر نہ تھا۔ ایک ہاتھ قلم ہو گیا تو دوسرے ہاتھ سے علم کو سنبھالا، دوسرا ہاتھ شہید ہوا تو دانتوں میں علم پکڑ لیا۔ دشمن کا ہر طرف سے نرغہ تھا، تیروں اور تلواروں کی بارش ہو رہی تھی۔ آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بازو اور دینِ حق کا یہ سچا علمبردار شہید ہو گیا۔ اب علم حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے سنبھالا، وہ بھی داد شجاعت دے کر شہید ہوئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو للکار کر کہا:

life
08-21-2012, 09:27 PM
’’اے غازیانِ دین! جنّت الفردوس تمہارا انتظار کر رہی ہے اور پیچھے ہٹنے والوں کیلئے جہنّم کے شعلے دہک رہے ہیں۔ آگے بڑھو اور رضائے الٰہی کو پالو۔‘‘
مسلمانوں نے اب کمر سے کمر جوڑلی اور ایک نئے عزم اور ولولےکے ساتھ حملہ شروع کیا۔ لڑتے لڑتے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں اور بالآخر غازیان دین کی بے پناہ شجاعت نے اپنے سے چالیس گنا جمیعت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ غنیم کے پسپا ہوجانے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکرِ اسلام کو نہایت وقار کے ساتھ بچا کر واپس لے آئے۔ جس وقت لڑائی کی آگ زور سے بھڑک رہی تھی، اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ کا نقشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام کو لڑائی کے حالات اسطرح بتا رہے تھے گویا وہ بالکل آپ کے سامنے ہو رہی ہے جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو شہید ہو گئے اور انہوں نے جام شہادت پیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ نے فرمایا: ’’ میں جنّت میں حضرت جعفر رضی اللہ کو دو نئے بازوؤں کے ساتھ پرواز کرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق حضرت جعفر ’’طیّار‘‘ اور ’’ذولجناحین‘‘ کے القاب سے مشہور ہوئے۔ اس کے بعد جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے علم سنبھالا ہے۔‘‘ چنانچہ اس دن سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سیف اللہ کے خطاب سے پکارے گئے۔‘‘

life
08-21-2012, 09:27 PM
اس واقعے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، وہ اس وقت آٹا گوندھ چکی تھیں اور بچوں کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آبدیدہ ہو کر فرمایا۔ جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بچوں کو خدمت اقدس میں پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت غم واندوہ کی حالت میں بچوں کو گلے لگایا اور ان کی پیشانیاں چومیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آبدیدہ ہونے سے پریشان ہو گئیں اور دریافت کیا: ’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ غمگین کیوں ہیں؟ کیا جعفر کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں وہ شہید ہو گئے ہیں۔‘‘
اس سانحہ جانگداز کی خبر سنتے ہی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی چیخ نکل گئی، ان کی گریہ وزاری سن کر پاس پڑوس کی خواتین جمع ہوگئیں۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور ازواج مطہّرات کو ہدایت فرمائی کے آل جعفر کا خیال رکھنا وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں، انہیں سینہ کوبی اور بین سے منع کرنا۔

life
08-21-2012, 09:28 PM
سیّدۃ النساء حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بھی اپنے شجاع چچا کی مفارقت کا شدید صدمہ ہوا اور وہ ’’واعماہ واعماہ‘‘ کہہ کر روتی ہوئی بارگاہ نبوّت میں حاضر ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باچشم پُرنم فرمایا: ’’بیشک جعفر جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فاطمہ جعفر کے بچوں کیلیے کھانا تیار کرو، کیونکہ اسماء آج سخت غمزدہ ہے۔‘‘
تیسرے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو صبر کی تلقین فرمائی۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چھہ ماہ بعد سنہ 8 ہجری (غزوہ حنین کے زمانے) میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عُمیس کا نکاح اپنے محبوبِ رفیق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پڑھا دیا۔ دو برس بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلب سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حج کیلئے مکہ آئی ہوئی تھیں کہ ذوالحلیفہ میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:’’ یا رسول اللہ اب میں کیا کروں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’غسل کرکے احرام باندھ لو۔‘‘

life
08-21-2012, 09:28 PM
سنہ 11 ہجری میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا، تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا پر رنج وغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، ان سے بھی بڑھ کر صدمہ سیّدۃ فاطمہ الزہراء کو ہوا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بڑے ضبط سے کام لیا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی دلجوئی میں صرف کرنے لگیں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد سیّدۃ النساء رضی اللہ عنہا کا وقت آخر بھی آ پہنچا۔ علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ اپنی وفات سے پہلے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء بنت عمیس کو بلا بھیجا اور ان سے فرمایا: ’’میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’یا بنت رسول اللہ! میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں، انہیں جوڑا اور ان پر کپڑا تان کر سیّدہ بتول کو دکھایا۔ انہوں نے اسے پسند فرمایا اور بعد وفات ان کا جنازہ اسی طریقے سے اٹھا۔ محدث ابن جوزی اور بعض دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ سیّدہ فاطمہ الزہراء کی میّت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور حضرت سلمیٰ امّ رافع رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔

life
08-21-2012, 09:28 PM
سنہ 13 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو وفات سے پہلے وصیت کی کہ ان کی میت کو اسماء غسل دیں چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اسی کے مطابق عمل کیا۔ صدیق اکبر کی وفات کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ محمد بن ابی بکر کی عمر اس وقت تین برس کی تھی۔ وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ آئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ ہی پرورش پائی۔
ایک دن عجیب لطیفہ ہوا۔ محمد بن جعفر اور محمد بن ابی بکر اس بات پر جھگڑ پڑے کہ دونوں میں سے کس کا باپ افضل تھا اور کون زیادہ معزّز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں بچوں کی دلچسپ گفتگو سنی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا:’’تم اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔‘‘

life
08-21-2012, 09:29 PM
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’میں نے نوجوانانِ عرب میں جعفر سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاق کا حامل کسی کو نہیں پایا اور بوڑھوں میں ابوبکر سے اچھا کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا: ’’تم نے ہمارے لیے تو کچھ بھی نہ چھوڑا۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلب سے ایک فرزند یحییٰ پیدا ہوئے۔ سنہ 38 ہجری میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے جوان فرزند محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ مصر میں قتل ہوئے اور ان کے مخالفین نے ان کی نعش گدھے کی کھال میں جلائی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ روح فرسا خبر سنی تو سکتے میں آگئیں، لیکن نہایت صبرو شکر سے کام لیا اور مصلّٰے بچھا کر عبادت میں مشغول ہو گئیں۔

life
08-21-2012, 09:29 PM
سنہ40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہا نے شہادت پائی اور ان کے جلد ہی بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بھی پیک اجل کو لبّیک کہا۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار لڑکے چھوڑے، عبداللہ، محمد اور عون حضرت جعفر کی صلب سے اور یحییٰ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی صلب سے۔ بعض اہل سیئر نے لکھا ہے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی صلب سے دو لڑکیاں بھی ہوئیں۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنی فیاضی اور سخاوت کی بدولت تاریخ میں شہرت پائی۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الٰہی عبداللہ کو جعفر کے گھرکا صحیح جانشین بنا، ان کی بیعت میں برکت عطا فرما اور میں دنیا اور آخرت دونوں میں آل جعفر کا والی ہوں۔‘‘ پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’عبداللہ صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہیں۔‘‘

life
08-21-2012, 09:30 PM
حضرت اسماء بنت عمیس کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ وہ نہایت سلیم الفطرت اور زیرک خاتون تھیں۔ دعوت حق کی ابتداء میں جب کفار مکہ کے قہروغضب کی بجلیاں تڑپ تڑپ کر مسلمانوں کے خرمن عافیت پر برس رہی تھیں انہوں نے لوائے حق کے تھامنے میں مطلق تامّل نہیں کیا اور بلاکشان اسلام کی اس مقدس صف میں شامل ہو گئیں جس کو ربّ ذوالجلال نے کھلے لفظوں میں اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے۔ یہ ان کے اوصاف و محاسن ہی تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفیق و مربی چچا رئیس بنو ہاشم جناب ابوطالب نے انہیں اپنی بہو بنایا۔ وہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی اہلیہ ہونے کی حیثیت سے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھاوج ہوتی تھیں۔ امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی اخیافی بہن ہونے کی نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی بھی ہوتی تھیں۔

life
08-21-2012, 09:31 PM
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور ان کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ انہوں نے محض اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کی خاطر چودہ برس تک حبش میں غریب الوطنی کی زندگی گزاری۔
مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیض حاصل کیا۔ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دعا بتائی اور فرمایا کہ مصیبت اور تکلیف کے وقت اس کو پڑھا کرو۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے کمسن فرزند حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کو اٹھا کر اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیا۔

life
08-21-2012, 09:31 PM
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے بچوں(حضرت جعفر رضی اللہ عنہ) کی اولاد کو دبلا پایا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے پوچھا یہ اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ان کو نظر بہت لگتی ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ان پر دم کیا کرو۔‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ایک خاص کلام پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور پوچھا: ’’یا رسول اللہ! یہ نظر لگنے کیلیے مفید بتایا جاتا ہے کیا یہ پڑھ لیا کروں؟‘‘
چونکہ اس کلام میں شرک کی آمیزش نہیں تھی، اسلیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی۔‘‘
امام بخاری اور علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک دن پہلے حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض ذات الجنب تشخیص کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوا پلانی چاہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوا پینے کے عادی نہیں تھے، انکار فرمادیا۔ اسی اثنا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ ان دونوں نے دہان مبارک کھول کر دوا پلادی۔ تھوڑی دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غشی دور ہوئی، تو فرمایا: ’’یہ تدبیر اسماء نے بتائی ہوگی، وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں۔ عباس رضی اللہ عنہ کے سوا سب کو یہ دوائی پلائی جائے۔‘‘ چنانچہ تمام ازواج مطہّرات اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو یہ دوا پلائی گئی۔
حافظ ابن حجر نے ’’الاصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا تعبیر رویا میں بھی درک رکھتی تھیں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے اکثر خوابوں کی تعبیر پوچھا کرتے تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ساٹھ احادیث مروی ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت موسیٰ اشعری جیسے جلیل القدر صحابہ اور کئی بلند مرتبہ تابعین شامل ہیں۔


رضی اللہ تعالیٰ عنہا

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.