life
08-19-2012, 01:37 AM
جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے ؟ کچھ کاغذ ،ڈھیر ساری کتابیں ،کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب ! لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں ۔یہ بارہ سال کا بچہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔
کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا ،تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ،بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔ہمارے گھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے ۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ،اسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے ،نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔
صد حیف ! کہ اب میرے پاس وہ بچہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روں ۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے ۔ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی ۔ماں جی کے مرتے ہی فورا عفت نے ان کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔
شہاب نامہ سے اقتباس
کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا ،تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ،بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔ہمارے گھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے ۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ،اسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے ،نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔
صد حیف ! کہ اب میرے پاس وہ بچہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روں ۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے ۔ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی ۔ماں جی کے مرتے ہی فورا عفت نے ان کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔
شہاب نامہ سے اقتباس