life
08-19-2012, 01:32 AM
ہم دونوں ٹیکسی کرکے اس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے ۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے ۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے ۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔
اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی !
" بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا ؟
پتہ نہیں ! میں نے کہا ۔
تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شکایت کی ۔
ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔
مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا ! ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو ۔
میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی ۔ ،وہ بولی !
یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا ! کوئی کام کی بات کرو ۔
واقعی کروں ؟ اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہو ، برا تو نہیں منا گے ؟
بات کاٹو گے تو نہیں ؟ ٹالو گے تو نہیں ؟
بالکل نہیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے یقین دلایا۔
وہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی ۔
سنو ! جب میں مر جاں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینا
اس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔
وہ بولتی گئی ۔۔" یہ شہر مجھے پسند ہے ۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے ۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے ،یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں
شہاب نامہ سے اقتباس
اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی !
" بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا ؟
پتہ نہیں ! میں نے کہا ۔
تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شکایت کی ۔
ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔
مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا ! ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو ۔
میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی ۔ ،وہ بولی !
یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا ! کوئی کام کی بات کرو ۔
واقعی کروں ؟ اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہو ، برا تو نہیں منا گے ؟
بات کاٹو گے تو نہیں ؟ ٹالو گے تو نہیں ؟
بالکل نہیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے یقین دلایا۔
وہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی ۔
سنو ! جب میں مر جاں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینا
اس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔
وہ بولتی گئی ۔۔" یہ شہر مجھے پسند ہے ۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے ۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے ،یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں
شہاب نامہ سے اقتباس