View Full Version : موت کو یاد رکھنے اور خواہشات کم کرنے کا بیا
ریاض الصالحین باب 70سے 65
باب 65
موت کو یاد رکھنے اور خواہشات کم کرنے کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہر جاندار نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور قیامت والے دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ پس جو دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ یقیناً کامیاب ہوگیا اور دنیوی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔'' (سورة آل عمران :185)
اور فرمایا: ''کوئی جاندار نہیں جانتا کہ کل کو کیا کرے گا اور کسی جاندار کو پتا نہیں کہ وہ کون سی زمین میں مرے گا۔'' (سورة لقمان:34)
اور فرمایا: ''اے ایمان والو! تمہیں تمہارے مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گا پس یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ اور جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کر و، پہلے اس سے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہے: اے رب! تو نے مجھے تھوڑے دنوں کی مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرلیتا اور نیکو کاروں میں سے ہوجاتا؟ اور جب کسی کا وقت مقرر آجائے تو اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔'' (سورة المنافقون: 9۔11)
اور فرمایا: ''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آئے تو وہ کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ جس کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں جاکر نیک عمل کروں۔ (یاد رکھو) ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ صرف ایک بات ہی ہے جسے وہ کہے گا اور ان کے درمیان ایک آڑ ہے قیامت کے دن تک۔ پس جب صور پھونکا جائے گا اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ پس جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے پس یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا اور یہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے چہروں کو آگ جھلستی ہو گی اور ان میں وہ (شدت تکلیف سے) تیوری چڑھاتے ہوں گے۔ (ان سے کہا جائیگا) کیا تم پر میری آیتیں پڑھی نہ جاتی تھیں پس تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ ۔
آگے آیات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک ۔۔۔۔ زمین میں کتنے برس رہے؟ وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ پس تو گنتی کرنے والے (فرشتوں) سے پوچھ لے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تم واقعی تھوڑا ہی رہے اگر تم جانتے ہوتے۔ کیا تم نے یہ گمان کیا تھا کہ ہم نے تمہیں (بے مقصد) بے کار پیدا کیا؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟'' (سورةالمومنون :99۔115)
نیز فرمایا: ''کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیاکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں جھک جائیں اور اس (قرآن وحدیث) کے لیے جھک جائیں جو اللہ تعالیٰ نے حق نازل فرمایا اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پس ان پر زمانہ دراز ہوگیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں۔'' (سورة الحدید:16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 574
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑا اور فرمایا: ''تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم اجنبی اور پردیسی ہو یا جیسے راہ گیر ہو۔''
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو پھر شام کا انتظار نہ کر و اور اپنی صحت کے زمانہ میں اپنی بیماری کے لیے اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لیے تیاری کرلو۔ (بخاری)
توثیق الحدیث حدیث نمبر (471) ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر 575
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان شخص کے لیے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی نہ ہو۔'' (متفق علیہ)
یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ تین راتیں گزارے۔'' (یعنی بخاری میں دو راتیں ہیں اور مسلم میں تین)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو مجھ پر کوئی ایک رات ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3555۔فتح)، و مسلم (1627)، والروایہ الثانیة عند مسلم (1627)(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 576
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لکیریں کھینچیں اور پھر (ایک لکیر کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا: ''یہ انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں) اور (دوسری لکیر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) یہ اس کی موت ہے پس انسان انہی آرزوؤں کے درمیان ہو تا ہے کہ سب سے قریب کی لکیر (یعنی موت) آ پہنچتی ہے''۔ (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2361۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 577
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع کا خط کھینچا اور پھر اس کے وسط میں ایک خط کھینچا جو اس سے باہر نکل رہا تھا اور پھر درمیانی خط کے پہلو میں چند چھوٹے خط کھینچے اور پھر فرمایا: ''یہ انسان ہے اور (مربع) خط جس نے اسے گھیر رکھا ہے یہ اسکی موت ہے (یعنی موت نے اسے گھیر رکھا ہے) اور باہر نکلنے والا خط اس کی آرزوئیں ہیں اور چھوٹے چھوٹے خط اسے پیش آنے والے عوارض و حادثات ہیں۔ اگر ایک حادثہ اس سے خطا کر جاتا ہے تو دوسرا اسے آ دبوچتا ہے۔ اور اگر اس دوسرے سے بچ نکلتاہے تو کوئی اورحادثہ اسے آن پکڑتا ہے۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2351،236۔فتح)
حدیث نمبر 578
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سات چیزوں کے ظہو ر پذیر ہونے سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو کیا تم بھلا دینے والے فقر کا انتظار کر رہے ہو؟ یا سرکش بنا دینے والی دولت مندی کا؟ یا بگاڑ دینے والی بیماری کا؟ یا عقل کو زائل کردینے والے بڑھاپے؟ یا تیزی سے اور اچانک آجانے والی موت کا؟ یا دجال کا؟ پس وہ تو بدترین غائب چیز ہے جس کا انتطار کیا جارہا ہے۔ یا قیامت کا؟ پس قیامت تو نہایت خوفناک اور بہت تلخ ہے۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (93) ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 579
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''لذتیں زائل اور ختم کردینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث:صحیح لغیرہ: أخرجہ الترمذی (2307)، و ابن ماجہ (4258)، والنسائی(44)، و أحمد (2922۔293)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 580
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تہجد کے لیے) کھڑے ہوجاتے اور فرماتے: "اے لوگوں! اللہ تعالیٰ کو یاد کر و، لرزا دینے والی (نفخۂ اولیٰ ) اور اس کے پیچھے آنے والی (نفخۂ ثانیہ) آپہنچی اور موت بھی اپنی ہولناکیوں سمیت آپہنچی اور موت بھی اپنی ہولناکیوں سمیت آپہنچی"۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! میں آپ پر کثرت سے درود پڑھتا ہوں پس میں اپنی دعا میں آپ پر درود کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جتنا تم چاہو۔'' میں نے کہا (پوری دعا کا) چوتھا حصہ؟'' آپ نے فرمایا: ''جتنا تم چاہو۔'' اگر تم زیادہ کرلو گے تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔'' میں نے کہا (دعا کا) آدھا وقت؟ آپ نے فرمایا: ''جتنا تم چاہو اگر تم زیادہ کرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہے۔'' میں نے عرض کیا: دو تہائی کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ''جتنا تم چاہو، اگر تم زیادہ کرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: کیا میں اپنی دعاؤں کا پورا وقت آپ پر درود کے لیے مقرر کردوں؟ آپ نے فرمایا: ''پھر تو یہ عمل تمہارے غموں کے مداوے کے لیے کافی ہوگا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردیے جائیں گے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: شطرہ الأول ضعیف وشطرہ الأخیر حسن لغیرہ: أخرجہ الترمذی (2457)، و أحمد (1365)۔
اس حدیث کا پہلا حصہ امام حاکم (3084) اور ابو نعیم (8 377) نے بیان کیا ہے اور یہ عبداللہ بن محمد بن عقیل طالبی کے سوئے حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے اور دوسرا حصہ ((قلت یا رسول اللہ! انی أکثر الصلوة۔ ۔۔۔)) اس کاشاہد قاضی اسماعیل بن اسحاق نے ''فضل الصلوٰة علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم (13)'' میں بیان کیا ہے۔ اس کی سند مرسل ہے۔ پس دوسرا حصہ انس کی وجہ سے حسن کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 66
مَردوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا مستحب ہے۔ نیز زیارت کرنے والا کیا پڑھے؟
حدیث نمبر 581
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا پس اب تم ان کی زیارت کیا کرو۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (977)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 582
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ہاں باری ہوتی تو آپ رات کے آخری حصے میں بقیع (قبرستان) تشریف لے جاتے اور وہاں یہ دعا پڑھتے:
"السَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤمِنينَ، وأَتَاكُمْ ما تُوعَدُونَ،غَداًمُؤَجَّلُ ونَ، وإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَهْلِ بَقِيعِ الغَرْقَدِ"
ترجمہ: ''اے مسلمان بستی والو! تمہیں سلام ہو، تمہارے پاس وہ کل آگیا جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (974)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 583
حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ قبرستان جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سکھاتے کہ یہ دعا پڑھیں:
"السَّلامُ عَلَيكُمْ أَهْل الدِّيارِ مِنَ المُؤْمِنِينَ والمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاَحِقُونَ، أَسْأَلُ اللَّه لَنَا وَلَكُمُ العافِيَةَ"
ترجمہ: ''تم پر سلام ہو اے مومنو اور مسلمانوں کی بستیوں والو! اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی یقیناً تمہیں ملنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(974)
حدیث نمبر 584
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا:
"السَّلامُ عَلَيْكُمْ يا أَهْلَ القُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنا وَلَكُمْ، أَنْتُم سَلَفُنا ونحْنُ بالأَثَرِ"
ترجمہ: ''اے اہل قبور! تم پر سلام ہو اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں معاف کرے۔ تم ہمارے پیش رو ہو اور ہم آپ کے پیچھے ہیں۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: ضعیف۔ أخرجہ الترمذی (1053)۔ یہ حدیث قابوس بن ابی ظبیان کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
باب 67
کسی تکلیف کی وجہ سے موت کی آرزو کرنے کی کراہت۔ تاہم دین کی بابت کسی فتنے میں مبتلا ہونے کے خوف سے موت کی آزرو کرنا جائز ہے
حدیث نمبر 585
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے۔ وہ نیکوکار ہے تو شاید وہ نیکیوں میں بڑھ جائے اور اگر وہ خطا کار ہے تو شاید وہ توبہ کر لے۔''
(متفق علیہ۔ یہ الفاظ بخاری کے لیے ہیں)
اور مسلم کی روایت ہے جو حضرت ابوہریرہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے اور نہ اس کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے اس لیے کہ جب یہ شخص فوت ہوجائے گا تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور مومن کی عمر میں اضافہ اس کی بھلائی میں اضافہ کا باعث ہے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (12710۔فتح)، و مسلم (2682)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 586
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی ایک کسی تکلیف کے پہنچے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر اس نے ضروری ہی تمنا کرنی ہے تو ان الفاظ سے کرے:
"اللَّهُمَّ أَحْيِني ما كانَتِ الحَياةُ خَيْراً لي، وتَوَفَّني إِذا كانَتِ الوفاةُ خَيراً لي"
ترجمہ: ''اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لیے بہتر ہے اور مجھے اس وقت موت دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (40) ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 587
حضرت قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی عیاد ت کے لیے ان کے پاس گئے۔ انہوں نے (علاج کے لیے زخموں پر) سات داغ لگوائے تھے۔ انہوں نے فرمایا: ''بلاشبہ ہمارے وہ ساتھی جو ہمارے پیش رو تھے وہ گزر گئے اور دنیا نے ان (کے اجر و ثواب) کو کم نہ کیا اورہمیں اتنی دولت میسر آگئی کہ اس کے لیے مٹی کے علاوہ کوئی جگہ میسر نہیں (یعنی مکانات بنانے یا پھر مٹی میں دفن کرنے کے سوا کوئی جگہ نہیں ) اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔ پھر ہم دوسری مرتبہ ان کے پاس گئے۔ تو وہ اس وقت اپنی ایک دیوار بنارہے تھے انہوں نے فرمایا: ''مومن جس چیز پر بھی کچھ خرچ کرے تو اسے اجر ملتا ہے سوائے اس خرچ کے جو وہ اس مٹی (یعنی مکانات وغیرہ کی تعمیر) پر خرچ کر تا ہے۔ (متفق علیہ) اور یہ الفاظ بخاری کی روایت کے ہیں۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (12710۔فتح)، و مسلم (2681)
باب 68
پرہیز گاری اختیار کرنا اور شبہات (مشتبہ چیزوں) کو چھوڑ دینا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''تم اس بات کو ہلکا سمجھتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔'' (سورةالنور:15)
نیز فرمایا: ''یقیناً تیرا رب گھات میں ہے۔'' (سورة الفجر:14)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 588
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''حلال واضح ہے اورحرام بھی واضح ہے اور ان کے دومیان مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص شبہے والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور جس شخص نے شبہے والی چیزوں کو اختیار کرلیا تو وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ جیسے وہ چرواہا جو کسی کی مخصوص چراگاہ کے اردگرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے تو قریب اور ممکن ہے کہ وہ جانور چراگاہ میں داخل ہو کر اس میں چرنا شروع کریں۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے (جس میں عام جانور داخل نہیں ہوسکتے) سنو! اللہ تعالیٰ کی چراگاہ (جس میں داخلہ ممنوع ہے) اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (ان کا ارتکاب سب کے لیے ممنوع ہے) سنو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تا ہے تو سارا جسم صحیح اور درست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ سنو! وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔'' (متفق علیہ)
ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے اور بھی کئی طریق سے روایت کیا ہے جن کے الفاظ باہم قریب قریب ہیں۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1261۔فتح)، و مسلم (1599)
۔۔
حدیث نمبر 589
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ایک کھجور ملی تو آپ نے فرمایا: ''اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ یہ صدقے کی ہوگی تو میں اسے یقیناً کھالیتا۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2934۔فتح)، و مسلم (1071)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 590
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس پر مطلع ہوجانا تجھے ناگوار گزرے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2554)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 591
حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ''کیا تم نیکی کے بارے میں پوچھنے آئے ہو؟'' میں نے عرض کیا: جی ہاں ! تو آپ نے فرمایا: ''اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس سے دل مطمئن ہو اور دل کو اس پر اطمینان حاصل ہو اور گناہ وہ ہے۔ جو دل میں کھٹکے اور دل میں اس کے بارے میں تردّد ہو اگرچہ لوگ تجھے (اس کے جائز ہونے کا) فتویٰ دے دیں اور اگرچہ لوگ (پھر) تجھے فتویٰ دے دیں۔'' (حدیث حسن ہے مسند احمد، دارمی)
توثیق الحدیث: صحیح بطرقة۔ أخرجہ أحمد (2284)، والدارمی (2452۔246)۔
یہ حدیث اس سند سے تو ضعیف ہے لیکن مسند أحمد (2284) میں اس کی ایک اور سند بھی ہے جس کے سب روای ثقہ ہیں سوائے معاویہ بن صالح کہ وہ صدوق ہے اور مسند احمد (1944) ہی میں نواس سمعان کی حدیث بھی اس کی شاہد ہے جس کی سند صحیح ہے لہٰذا یہ حدیث بالجملہ صحیح لغیرہ ہے (واللہ اعلم!)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 592
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی تو ان کے پاس ایک عورت آئی اس نے کہا: میں نے عقبہ کو اور اس لڑکی کو جس سے اس نے شادی کی ہے دونوں کو دودھ پلایا ہے عقبہ نے اسے کہا: مجھے تو معلوم نہیں کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے مجھے بتایا ہے۔ پس وہ سوار ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ (نکاح) کیسے باقی رہ سکتا ہے جبکہ یہ کہہ دیا گیا (کہ اس عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے)؟'' حضرت عقبہ نے اس بیوی سے جدائی اختیار کرلی اور اس لڑکی نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1841۔ فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 593
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (آپ کا یہ فرمان) یاد کیا: ''وہ چیز چھوڑ دو جو تمہیں شک میں مبتلا کردے اور اسے اختیار کرو جوشک میں نہ ڈالے۔'' (ترمذی۔حدیث صحیح ہے) اس کے معنی ہیں کہ جس میں تمہیں شک ہو وہ چھوڑ دو اور جس میں شک نہ ہو اسے اختیار کرو۔
توثیق الحدیث: صحیح۔ أخرجہ الترمذی (2518)، و النسائی (3278۔328)، و أحمد (2001)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 594
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو آپ کو کما کردیا کرتا تھا۔ اور حضرت ابوبکر اس کی کمائی سے کھاتے تھے۔ پس وہ ایک روز کوئی چیز لایا تو حضرت ابوبکر نے اس سے کھالیا تو غلام نے آپ سے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ ابوبکر نے فرمایا: ''یہ کیا ہے؟" اس نے کہا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی حالانکہ میں کہانت سے اچھی طرح واقف نہیں تھا۔ میں نے تو اس سے ایک چال چلی تھی۔ چنانچہ وہ آج مجھے ملا ہے، تو بس اس نے مجھے یہ چیز دی ہے جو آپ نے کھائی ہے۔ پس حضرت ابوبکر نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈالا اور اپنے پیٹ میں گئی ہوئی ہر چیز قے کے ذریعے باہر نکال دی۔ (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1497۔فتح)
حدیث نمبر 595
حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اولین مہاجرین کے لیے چار ہزار (درہم سالانہ) وظیفہ مقرر کیا اور اپنے بیٹے کے لیے ساڑھے تین ہزار۔ آپ سے پوچھا گیا کہ وہ بھی تو اولین مہاجرین میں سے ہیں آپ نے ان کا وظیفہ کم کیوں مقرر کیا ہے؟ حضرت عمر نے فرمایا: "اسے تو اس کے باپ نے ہجرت کرائی۔" آپ کا مقصد یہ تھا کہ ان کی طرح نہیں جنہوں نے بذات خود ہجرت کی۔ (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(2537۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 596
حضرت عطیہ بن عروہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بندہ اس وقت تک متقین کے درجے پر فائز نہیں ہوسکتا جب تک وہ ایسی چیزیں نہ چھوڑ دے جن میں کوئی حرج نہیں تاکہ وہ ان چیزوں سے بچ جائے جن میں حرج ہے۔'' (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث:ضعیف۔ أخرجہ الترمذی (2451)، و ابن ماجہ (4215)، و الحاکم (3194)
یہ حدیث عبد اللہ بن یزید کے ضعیف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب 69
لوگوں اورزمانے کے فساد زدہ ہونے کے وقت، یا دین میں فتنے کے خوف سے، یا حرام و مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے گوشہ نشینی کے مستحب ہونے کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پس تم اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو بے شک میں تمہیں صاف اور کھلا ڈرانے والا ہوں۔''
(سورة الذاریات:50)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 597
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی، غنی (لوگوں سے بے نیاز) اور پوشیدہ (گم نام) ہو۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(2965)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 598
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سے سب سے افضل و بہتر شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ''وہ مومن مجاہد جو اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔'' اس شخص نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''پھر وہ آدمی جو پہاڑ کی کسی گھاٹی یا وادی میں الگ تھلک رہ کر اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔''
اور ایک روایت میں ہے: ''وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(66۔فتح)، و مسلم (1888)(123)'والروایة الثانیة عند مسلم(1888)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 598
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سے سب سے افضل و بہتر شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ''وہ مومن مجاہد جو اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔'' اس شخص نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''پھر وہ آدمی جو پہاڑ کی کسی گھاٹی یا وادی میں الگ تھلک رہ کر اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔''
اور ایک روایت میں ہے: ''وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(66۔فتح)، و مسلم (1888)(123)'والروایة الثانیة عند مسلم(1888)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 599
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ مسلمان کا بہترین مال (اس کی) بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور ایسی جگہ چلا جائے گا جہاں بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے گھاس وغیرہ زیادہ ہوتی ہو۔ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے (پہاڑوں اور وادیوں کی طرف) راہِ فرار اختیار کرے گا۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (691۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔
حدیث نمبر 600
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس نے بکریاں ضرور چرائیں۔'' آپ کے صحابہ نے پوچھا: اور آپ نے بھی؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں! میں مکے والوں کی بکریاں چند قیراط کے عوض چرایا کرتا تھا۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (4414۔فتح)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 601
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''لوگوں میں سے سب سے اچھی زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے وہ اس کی پیٹھ پر سوار ہو کر تیزی سے ادھر ادھر آتا جاتا ہے اور وہ جب بھی لڑائی کی (یعنی کسی جہادی مہم) کی آواز یا کفار کی طر ف سے مسلمانوں پر کہیں ظلم وستم کی وجہ سے چیخ و پکار سنتا ہے تو تیزی کے ساتھ اس طرف لپکتا ہے۔ وہ قتل ہوجانے یا موت کے متوقع مقامات کی تلاش میں رہتا ہے یا پھر اس شخص کی زندگی بہتر ہے جو تھوڑی سی بکریوں کے ساتھ پہاڑ کی کسی چوٹی پر یا پھر ان وادیوں میں سے کسی وادی یا گھاٹی میں اقامت اختیار کرتا ہے۔ وہاں نماز قائم کرتا، زکوٰة ادا کرتا اور اپنے رب کی عبادت کرتا حتیٰ کہ اسے موت آجاتی ہے۔ وہ لوگوں کر ساتھ خیر پر اتفاق کرتا اور ان کے ساتھ رہتا ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1889)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 70
لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنے، ان کی مجالس اور مجامع میں شرکت کرنے، مجالسِ ذِکر میں ان کے ساتھ شریک ہونے، مریض کی عیادت، جنازوں میں شرکت، محتاجوں کی غم خواری، جاہلوں کی راہنمائی اور اس طرح کے دیگر مصالح کا خیال رکھنے کی فضیلت کا بیان، بشرطیکہ اس میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے، لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے اپنے آپ کو روکنے اورخود دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنے کی طاقت ہو
امام نووی بیان کرتے ہیں کہ: "جان لیجیے کہ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے کا جو طریقہ میں نے اس باب میں ذکر کیا ہے یہی مختار اور پسندیدہ طریقہ ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیائے کرام علیہم السلام، خلفائے راشدین، ان کے بعد باقی صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین، علمائے مسلمین اور باقی لوگ کار بند رہے۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ اور اکثر فقہاء اسی کے قائل ہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔'' (سورة المائدة:2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.