View Full Version : سورة الفَاتِحَة--------- از تفسیر احسن البیان
سورة الفَاتِحَة--------- از تفسیر احسن البیان
سورة الفَاتِحَة
سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں ۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلا ام القرآن ،السبع المثانی ، القرآن العظیم ،الشفاء ، الرقیہ (دم ) وغیرھامن الاسماء
اس کاایک اہم نام الصلوۃ بھی ہےجیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی ۔ الحدیث صحیح مسلم کتاب الصلوۃ
“میں نے صلاۃ(نماز ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیاہے مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا ومناجات ہے جوبندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے ۔
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیاگیاہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ لاصلوۃ لمن لم یقرابفاتحہ الکتاب (صحیح بخاری ومسلم ) اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔ اس حدیث میں (من ) کا لفظ عام ہے جو ہرنمازی کو شامل ہے منفرد ہو یاامام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہویا جہری فرض نماز ہو یانفل ہرنمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔
اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی ،نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاتفعلواالابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا “تم ایسا مت کرو(یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرورپڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد ،ترمذی ،نسائی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا من صلی صلوۃ لم یقرافیھا بام القرآن فھی خداج ۔ثلاثا غیر تمام جس نےبغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا (انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نمازپڑھتے ہیں اس وقت کیاکریں؟) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا (اقرابھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو) صحیح مسلم ۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہواکہ قرآن مجید میں جوآتا ہے (واذاقری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا)۔ الاعراف204۔ جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو،یاحدیث (واذاقرافانصتوا(بشرط صحت) جب امام قرات کرے توخاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں ۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں ۔ یاامام سورۃ فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یاامام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔
اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔دونوں پر عمل ہوجاتا ہے ۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پرہی عمل ہوسکتا ہے ۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ۔ فتعوذباللہ من ھذا۔دیکھئے سورۃ اعراف آیت ۲۰۴کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام ازمولاناعبدالرحمن مبارک پوری وتوضیح الکلام مولانا ارشادالحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ )۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگرمقتدی امام کی قرات سن رہاہوتو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہاہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۳/۲۶۵ )
2 یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں
اس میں سات آئتیں ہیں
3 بِسْمِ اللّٰهِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ قراء، مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰهِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے(فتح القدیر ) اکثر علما نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔تاہم جہری آواز میں پڑھنا جائز ہے ۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ*حْمَـٰنِ الرَّ*حِيمِ ﴿١﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واﻻ ہے (1)
تفسیر
بِسْمِ اللّٰهِ کے آغاز میں اقرا ابدا یا اتلو محذوف ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰهِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہےفَإِذَا قَرَ*أْتَ الْقُرْ*آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ*جِيمِ ﴿٩٨﴾ سورۃ النحل جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ*بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾
سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے (2)
تفسیر
ف۱ اَلْحَمْدُ میں ' ال ' استغراق یا اختصاص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالٰی ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالٰی کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مُستحق بھی وہی ہے۔ اللہ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِلٰہَ افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم)
ف۲ (رَبْ) اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنٰی میں سے ہے، جس کا معنی ہرچیز کو پیدا کر کے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (الْعَالَمِيْنَ) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعہ کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلا عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوکات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعا مختلف ہیں لیکن رَبِّ الْعَالَمِيْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔
الرَّ*حْمَـٰنِ الرَّ*حِيمِ ﴿٣﴾
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے واﻻ (3)
تفسیر
ف۱ رحمن بروز فعلان اور رحیم بروزن فعیل ہے ۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں ۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالٰی بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہو گا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم ۔آمین
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾
بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے (4)
تفسیر
ف۱دنیا میں بھی اگرچہ مکافات عمل کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالٰی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اسی طرح عارضی طور پر اور بھی کئی لوگوں کے پاس تحت الاسباب اختیارات ہوے ہیں لیکمن آخرت میں تمام اختیارات کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالٰی ہی ہوگا اللہ تعالٰی اس روز فرمائے گا لمن الملک الیوم ؟ آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر وہی جواب دے گاللہ الواحد القھار صرف ایک اللہ غالب کے لیےيَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ* يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ﴿١٩﴾ سورة الإنفطار اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (5)
تفسیر
ف۱ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ ہوتی ، لیکن الہ تعالٰی نے یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کر کے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فرمایا جس سے مقصد اختصاص پیدا ہوتا ہے ، یعنی ہم تیری ہی عبادت کرت اور تجھ ہی مدد چاہتے ہیں “ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ استعانت ہی کی سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالٰی کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) لصف “اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو فرمایا (وتعانوا علی البر والتقوی) المائدۃ 2 نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کر دی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات ۔۱
۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا خالق ،مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالٰی ہے اور اس توحید کوملاحدہ و زنادقہ کے تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (سورہ یونس۳۱) دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہرچیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (المومنون ۸٤۔ ۸۹) وغیرھا من الآیات۔
۲۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالٰی ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔
۔۳۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہو گا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
اهْدِنَا الصِّرَ*اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾
ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا (6)
تفسیر
ف۱ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ، الاسلام، ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
صِرَ*اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ* الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا (یعنی وه لوگ جنہوں نے حق کو پہچانا، مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے) اور نہ گمراہوں کی (یعنی وه لوگ جو جہالت کے سبب راه حق سے برگشتہ ہوگئے) (7)
تفسیر
ف۲یہ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔یہ منعم علیہ گروہ ہے انبیا شہدا صدیقین اور صالحین کا جیسا کہ سورۃ نساء میں ہے (وَمَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا)النساء 29 اور جو اللہ تعالٰی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں ، وہقیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیقین اور شہدا اور نیک لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔
2 بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں لا اعلم خلافا بین المفسرین فیی تفسیر مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ : بالیھود (وَالضَّآلِیْن) بالنصاری(فتح القدیر) اس لیے صراط مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ابن اللہ اور ثالث ثلاثۃ(اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہے۔ اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔
سورۃ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید اور فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جہری نمازوں میں) اونچی آواز سے آمین کیا کرتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہ بھی ، حتٰی کہ مسجد گونج اٹھتی (ابن ماجہ ۔ ابن کثیر) بنا بریں آمین اونچی آواز سے کہنا سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہ کا معمول بہ ہے ۔ آمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں ۔ کَزلک فلیکن (اسی طرح ہو) لا تخیب رجآءنا ہمیں نامرادنہ کرنا اللھم ! استجبلنا اے اللہ ہماری دعا قبول فرمالے۔
سورة الروم---------- از تفسیر احسن البیان
سورة الروم
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ*حْمَـٰنِ الرَّ*حِيمِ
الم ﴿١﴾
الم (1)
تفسیر
سُوْرَۃُ الرُّوْمِ ٣٠ یہ سورت مکی ہے اس میں (٦٠) آیات اور (٦) رکوع ہیں
غُلِبَتِ الرُّ*ومُ ﴿٢﴾
تفسیر
رومی مغلوب ہوگئے ہیں (2)
فِي أَدْنَى الْأَرْ*ضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾
تفسیر
نزدیک کی زمین پر اور وه مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے (3)
فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّـهِ الْأَمْرُ* مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَ*حُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾
تفسیر
چند سال میں ہی۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے (4)
بِنَصْرِ* اللَّـهِ ۚ يَنصُرُ* مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّ*حِيمُ ﴿٥﴾
اللہ کی مدد سے، وه جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے (5)
تفسیر
٥۔١ عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جب کہ مسلمان کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لئے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر یقین رکھتے تھے، ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں پیش گوئی کی گئی کہ بضع سنین کے اندر رومی پھر غالب آجائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہوجائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابوجہل سے یہ شرط باندھی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا بِضْع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے ٥ سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ رومی ٩ سال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے، جس سے یقینا مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، ترمذی ، تفسیر سور بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے، یعنی شام و فلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔
وَعْدَ اللَّـهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ* النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٦﴾
اللہ کا وعده ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (6)
تفسیر
٦۔١ یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آجائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت موعود کے اندر یقینا پورا ہو کر رہے گا۔
يَعْلَمُونَ ظَاهِرً*ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ*ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾
وه تو (صرف) دنیوی زندگی کے ﻇاہر کو (ہی) جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل ہی بےخبر ہیں (7)
تفسیر
٧۔١ یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بالکل بےخبر ہیں۔
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُ*وا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرً*ا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَ*بِّهِمْ لَكَافِرُ*ونَ ﴿٨﴾
کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے سے مقرر وقت تک کے لئے (ہی) پیدا کیا ہے، ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (8)
تفسیر
٨۔١ یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بےمقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقینا اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔
٨۔۲اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔
أَوَلَمْ يَسِيرُ*وا فِي الْأَرْ*ضِ فَيَنظُرُ*وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُ*وا الْأَرْ*ضَ وَعَمَرُ*وهَا أَكْثَرَ* مِمَّا عَمَرُ*وهَا وَجَاءَتْهُمْ رُ*سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٩﴾
کیا انہوں نے زمین پر چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا؟ وه ان سے بہت زیاده توانا (اور طاقتور) تھے اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیاده آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دﻻئل لے کر آئے تھے۔ یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ﻇلم کرتا لیکن (دراصل) وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے (9)
تفسیر
٩۔١ یہ آثار و کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔
٩۔٢ یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔
٩۔٣ یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔
٩۔٤ یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔
٩۔٥ اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔
٩۔٦ لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ نتیجتاً تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔
٩۔٧ کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا
٩۔٨ یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تانیث کر کے۔
ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَىٰ أَن كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ ﴿١٠﴾
پھر آخر برا کرنے والوں کا بہت ہی برا انجام ہوا، اس لئے کہ وه اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے (10)
تفسیر
١٠۔١ سوآی بروزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے جیسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔
اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ*جَعُونَ ﴿١١﴾
اللہ تعالٰی ہی مخلوق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوباره پیدا کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (11)
تفسیر
١١۔١ یعنی جس طرح اللہ تعالٰی پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔
١١۔۲یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِ*مُونَ ﴿١٢﴾
اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو گنہگار حیرت زده ره جائیں گے (12)
تفسیر
١٢۔١ ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو نا امیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہوگا جو نا امید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہونگے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرک ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں واضح ہے
---------- Post added at 04:37 PM ---------- Previous post was at 04:37 PM ----------
ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَىٰ أَن كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ ﴿١٠﴾
پھر آخر برا کرنے والوں کا بہت ہی برا انجام ہوا، اس لئے کہ وه اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے (10)
تفسیر
١٠۔١ سوآی بروزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے جیسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔
اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ*جَعُونَ ﴿١١﴾
اللہ تعالٰی ہی مخلوق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوباره پیدا کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (11)
تفسیر
١١۔١ یعنی جس طرح اللہ تعالٰی پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔
١١۔۲یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِ*مُونَ ﴿١٢﴾
اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو گنہگار حیرت زده ره جائیں گے (12)
تفسیر
١٢۔١ ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو نا امیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہوگا جو نا امید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہونگے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرک ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں واضح ہے
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَ*كَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَ*كَائِهِمْ كَافِرِ*ينَ ﴿١٣﴾
اور ان کے تمام تر شریکوں میں سے ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے (13)
تفسیر
١٣۔١ شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔
۔ ١٣۔۲یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہوجائیں گے کیونکہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں فتح القدیر دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کردیں گے کہ یہ لوگ انہیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بےخبر ہیں۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّ*قُونَ ﴿١٤﴾
اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن (جماعتیں) الگ الگ ہو جائیں گی (14)
تفسیر
١٤۔١ اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہوجائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جارہی ہے۔
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَ*وْضَةٍ يُحْبَرُ*ونَ ﴿١٥﴾
جو ایمان ﻻکر نیک اعمال کرتے رہے وه تو جنت میں خوش وخرم کر دیئے جائیں گے (15)
تفسیر
١٥۔١ یعنی انہیں جنت میں اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مذید خوش ہونگے
وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُ*وا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَ*ةِ فَأُولَـٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُ*ونَ ﴿١٦﴾
اور جنہوں نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھوٹا ٹھہرایا تھا وه سب عذاب میں پکڑ کر حاضر رکھے جائیں گے (16)
تفسیر
١٦۔١ یعنی ہمیشہ اللہ کے عذاب کی گرفت میں رہیں گے۔
فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾
پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو (17)
وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُ*ونَ ﴿١٨﴾
تمام تعریفوں کے ﻻئق آسمان وزمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ﻇہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو) (18)
[ar][size="5"]
تفسیر
١٨۔١ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح و تحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہوجانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقت ہیں۔ تمسون میں مغرب وعشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشیا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آجاتی ہے۔ فتح القدیر ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ ابو داؤد کتاب الادب ، باب مایقول اذا اصبح
يُخْرِ*جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِ*جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْ*ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَ*جُونَ ﴿١٩﴾
(وہی) زنده کو مرده سے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے۔ اور وہی زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کرتا ہے اسی طرح تم (بھی) نکالے جاؤ گے (19)
تفسیر
١٩۔١ جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔
١٩۔٢ یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَ*ابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ* تَنتَشِرُ*ونَ ﴿٢٠﴾
اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو (20)
تفسیر
٢٠۔١اذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَ*حْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ*ونَ ﴿٢١﴾
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (21)
تفسیر
٢١۔١ یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔
٢١۔۲مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالٰی کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔
٢١۔٢ مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بےپناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالٰی نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا (couple) تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ قاتلہم اللہ انی یؤفکون۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَ*حْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ*ونَ ﴿٢١﴾
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (21)
تفسیر
٢١۔١ یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔
سلسلہ چلا۔
٢١۔۲مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالٰی کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔
٢١۔٢ مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بےپناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالٰی نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا (couple) تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ قاتلہم اللہ انی یؤفکون۔
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿٢٢﴾
اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں (22)
تفسیر
٢٢۔١ دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہےعربی ہے ترکی ہے انگریزی ہے ، اردو ہندی ہے پشتو ، فارسی ، سندھی ، ۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے لہجے سے پہچان لی جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک اور فلاں علاقہ کا ہے صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا ، کوئی نیلگوں ہے تو کوئی گندمی رنگ کا پھر کالے اور سفید رنگ میں بھی اتنے درجے رکھ دیئے ہیں کہ بیشتر انسانی آبادی دو رنگوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ان کی بیسیوں قسمیں ہیں اور ایک دوسرے سے یکسر الگ اور ممتاز ۔ پھر ان کےچہروں کے خدوخال ، جسمانی اور قد و قامت میں ایسا فرق رکھ دیا ہے کہ ایک ایک ملک کا انسان الگ سے پہچان لیا جاتا ہے یعنی باوجود اس بات کے کہ ایک انسان دوسرے انسان ست نہیں ملتا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿٢٢﴾
اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں (22)
تفسیر
٢٢۔١ دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہےعربی ہے ترکی ہے انگریزی ہے ، اردو ہندی ہے پشتو ، فارسی ، سندھی ، ۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے لہجے سے پہچان لی جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک اور فلاں علاقہ کا ہے صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا ، کوئی نیلگوں ہے تو کوئی گندمی رنگ کا پھر کالے اور سفید رنگ میں بھی اتنے درجے رکھ دیئے ہیں کہ بیشتر انسانی آبادی دو رنگوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ان کی بیسیوں قسمیں ہیں اور ایک دوسرے سے یکسر الگ اور ممتاز ۔ پھر ان کےچہروں کے خدوخال ، جسمانی اور قد و قامت میں ایسا فرق رکھ دیا ہے کہ ایک ایک ملک کا انسان الگ سے پہچان لیا جاتا ہے یعنی باوجود اس بات کے کہ ایک انسان دوسرے انسان ست نہیں ملتا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ* وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿٢٣﴾
اور (بھی) اس کی (قدرت کی) نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل (یعنی روزی) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے۔ جو لوگ (کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (23)
تفسیر
٢٣۔١ نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِ*يكُمُ الْبَرْ*قَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْ*ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٢٤﴾
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ (بھی) ہے کہ وه تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس مرده زمین کو زنده کر دیتا ہے، اس میں (بھی) عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں (24)
تفسیر
٢٤۔١ یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتاں برباد نہ ہوجائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہوگی
وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْ*ضُ بِأَمْرِ*هِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْ*ضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُ*جُونَ ﴿٢٥﴾
اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وه تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے (25)
تفسیر
٢٥۔١ یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔
وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ﴿٢٦﴾
اور زمین وآسمان کی ہر ہر چیز اس کی ملکیت ہےاور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے (26)
تفسیر
٢٦۔١ یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بےبس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت و حیات، صحت و مرض، ذلت و عزت وغیرہ میں۔
وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢٧﴾
وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوباره پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے، آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے (27)
تفسیر
٢٧۔١ یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلٰی اور برتر (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ) الشورٰی 11 ۔
ضَرَ*بَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَ*كَاءَ فِي مَا رَ*زَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٢٨﴾
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وه اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطره رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا، ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کر دیتے ہیں (28)
تفسیر
٢٨۔١ یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔
٢٨۔۲یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا؟۔
۔ ٢٨۔۳کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ* عِلْمٍ ۖ فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّـهُ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِ*ينَ ﴿٢٩﴾
بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ﻇالم تو بغیر علم کے خواہش پرستی کر رہے ہیں، اسے کون راه دکھائے جسے اللہ تعالیٰ راه سے ہٹا دے، ان کا ایک بھی مددگار نہیں (29)
تفسیر
٢٩۔١ یعنی اس حقیقت کا انہیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بےبہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بےعلمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیروکار ہیں۔
٢٩۔٢ کیونکہ اللہ کی طرف سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے، جو اس طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
٢٩۔٣ یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب پھیر دے۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَ*تَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ* النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ* النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (30)
تفسیر
٣٠۔١ یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور ادیان باطلہ کی طرف التفات ہی نہ کریں۔
٣٠۔۲ فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام و توحید ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ صحیح بخاری ۔ تفسیر سورۃ الروم ۔ مسلم کتاب القدر ، باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ
٣٠۔۳یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔
٣٠۔٤یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔
٣٠۔۳یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔
٣٠۔٤یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔
٣٠۔۵ اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِ*كِينَ ﴿٣١﴾
(لوگو!) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ (31)
تفسیر
٣١۔١ یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔
مِنَ الَّذِينَ فَرَّ*قُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِ*حُونَ ﴿٣٢﴾
ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروه گروه ہوگئے ہر گروه اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے (32)
تفسیر
٣٢۔١ یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔
٣٢۔۲یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔
cute_sweety
08-26-2012, 04:01 PM
life jee app to bhut lambi lami thread banaa thi hai kesy read kar hum
sorry jee
Jazak Allah khair
ღƬαsнι☣Rασ™
10-31-2012, 03:32 PM
Jazak Allah ....
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.