PDA

View Full Version : سورة إبراهیم -------- از تفسیر احسن البیان ‏


life
08-19-2012, 12:16 AM
سورة إبراهیم -------- از تفسیر احسن البیان ‏



بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ




الر* ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِ*جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ* بِإِذْنِ رَ*بِّهِمْ إِلَىٰ صِرَ*اطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿١﴾

الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف (1)

تفسیر


١۔١ جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '(ھو الذی ینزل علی عبدہ ایت بینت لیخرجکم من الظلمت الی النور) سورہ الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے '(اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمت الی النور) البقرۃ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
١۔٢ یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔

life
08-19-2012, 12:16 AM
اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ*ضِ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِ*ينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَ*ةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ ﴿٣﴾


جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے (2) جو آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راه سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں (3)


تفسیر


٣۔١ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے مین میکھ نکالتے اور انہیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
٣۔٢ اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔

life
08-19-2012, 12:17 AM
وَمَا أَرْ*سَلْنَا مِن رَّ*سُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٤﴾


ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ اب اللہ جسے چاہے گمراه کر دے، اور جسے چاہے راه دکھا دے، وه غلبہ اور حکمت واﻻ ہے (4)


تفسیر


٤۔١ پھر جب اللہ تعالٰی نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
٤۔٢ لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔

life
08-19-2012, 12:18 AM
وَلَقَدْ أَرْ*سَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِ*جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ* وَذَكِّرْ*هُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ* شَكُورٍ* ﴿٥﴾

(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دﻻ۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے (5)

تفسیر


٥۔١ یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔
٥۔٢ اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔
٥۔٣ صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے '(صحیح مسلم ، کتاب الزد باب “ المومن امرہ کللۃ خیر)

life
08-19-2012, 12:18 AM
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُ*وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ*عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ*بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٦﴾

جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وه احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کیے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زنده چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (6)


تفسیر


٦۔١ یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔

life
08-19-2012, 12:18 AM
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَ*بُّكُمْ لَئِن شَكَرْ*تُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْ*تُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ﴿٧﴾


اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے (7)


تفسیر


٧۔١ تَأَذَّنَ کے معنی اَعلَمَکُم بِوَعدِہِ لَکُم اس نے اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کر دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر)
٧۔٢ نعمت پر شکر کرنے پر مذید انعامات سے نوازوں گا،
٧۔٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم العیدین اوائل کتاب الصلوۃ )

life
08-19-2012, 12:18 AM
وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُ*وا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْ*ضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٨﴾


موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں واﻻ ہے (8)


تفسیر


٨۔١ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یا عبادی !لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ (صحیح مسلم ، کتاب البر ، باب تحریم الظلم ) اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔

life
08-19-2012, 12:19 AM
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُ*سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَ*دُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْ*نَا بِمَا أُرْ*سِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِ*يبٍ ﴿٩﴾

کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وﺛمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے ﻻئے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منھ میں دبالیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے (9)


تفسیر


٩۔١ مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں 1 مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، ٢۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،٣۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ٤۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔٥۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔119 وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔
٩۔٢ مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔

life
08-19-2012, 12:19 AM
قَالَتْ رُ*سُلُهُمْ أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ فَاطِرِ* السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ* لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَ*كُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ* مِّثْلُنَا تُرِ*يدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾

ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے واﻻ ہے وه تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناه معاف فرما دے، اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو (10)

تفسیر


١٠۔١ یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟
١٠۔ ٢ یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے؟
١٠۔٣ یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔
١٠۔٤ دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔

life
08-19-2012, 12:19 AM
قَالَتْ لَهُمْ رُ*سُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ* مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾

ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے (11)


تفسیر


١١۔١ رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہی ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔
١١۔٢ ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
۱۱۔۳ یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا “آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔“

life
08-19-2012, 12:19 AM
وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَ*نَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿١٢﴾


آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں (12)


تفسیر


١٢۔١ کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔

life
08-19-2012, 12:19 AM
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ*وا لِرُ*سُلِهِمْ لَنُخْرِ*جَنَّكُم مِّنْ أَرْ*ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ*بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾


کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے (13)


تفسیر


١٣۔١ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا '(ولقدسبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین)۔ (انھم لھم المنصٓورون)۔ (وان جندنا لھم الغلبون)۔ سورۃ الصٓافات171 , 173۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصوراور کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا '(کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی)۔ المجادلہ21۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔

life
08-19-2012, 12:20 AM
وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ*ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾


اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزده رہیں (14)


تفسیر


١٤۔١ یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٓلحون)۔ الانبیا۔ 105ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے ' چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے (لَا تَثْرِیبَ عَلیْکُمْ) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔صٓلوات اللہ وسلامہ علیہ
۱٤۔۲ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ۔(واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ہی الماوی)۔ النازعات۔41 42 جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ ۔(ولمن خاف مقام ربہ جنتن)۔ الرحمن46۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔

life
08-19-2012, 12:20 AM
اسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ* عَنِيدٍ ﴿١٥﴾


اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے (15)


تفسیر

١٥۔١ اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِر عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنْ السَّمَآءِ اَوِائُتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) سورۃ انفال۔ ٣٢) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ ١٩) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔

life
08-19-2012, 12:20 AM
مِّن وَرَ*ائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ ﴿١٦﴾


اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وه پیﭗ کا پانی پلایا جائے گا (16)


تفسیر


١٦۔١ صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے وصاۃ احل النار(مسند احمد جلد 5 صفحہ 171) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ اَعَاذَنَا اللہ مِنہُ

life
08-19-2012, 12:22 AM
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ*حْمَـٰنِ الرَّ*حِيمِ

کمپوزنگ: irum

تفسیر سورۃ النحل ---------- از تفسیر احسن البیان



أَتَىٰ أَمْرُ* اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ*كُونَ ﴿١﴾ يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّ*وحِ مِنْ أَمْرِ*هِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُ*وا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢﴾ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ*ضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ*كُونَ ﴿٣﴾
اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں (1) وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو (2) اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وه اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں (3)
تفسیر
تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد ثنا کریں ، نماز پڑھیں اور رب کی عبادت کریں ، اس سے قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی ، سجدے سے یہان*نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے ، یعنی وہ قیامت قریب آگئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے پس جلدی نہ مچاؤ یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے اسے مستقبل کی بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا کیوں کہ اس کا وقع یقینی ہے۔ روح سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ رُوحًۭا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِى مَا ٱلْكِتَٰبُ وَلَا ٱلْإِيمَٰنُ (الشوری52) اس طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی ، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے ، اور ایمان کیا ہے ، ۔ 3 مراد انبیاعلیہم السلام ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے ۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ٱللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُۥ ۗ (النعام124) اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں اپنی رسالت رکھے ،، ''وہ اپنے حکم سے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے( قیامت کے) دن سے لوگون کو ڈرائے ''( المومن15 ) 4 یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے وہ ہے جزاو سزا ، جیسا کہ ابھی تفصیل گرزی ۔

life
08-19-2012, 12:22 AM
خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿٤﴾ وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِ*يحُونَ وَحِينَ تَسْرَ*حُونَ ﴿٦﴾
اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وه صریح جھگڑالو بن بیٹھا (4) اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں (5) اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی (6)
تفسیر
یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندرد سے نکلتی ہے جسے منی کہا جات اہے اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے ، پھر اس مٰن اللہ تعالٰی روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا ، اس کا انکارکرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹہراتا ہے 2 اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ ، گائے بکریاں )بھی اسی نے پیدا کیے ، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو ، اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو مثلا ان سے دودھ حاصل کرتے ہو ان پر سواری کرت ہو اور سامان لادتے ہو ان کے ذریعے سے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو ، وغیرہ وغیرہ 3 تریحون جب شام کو چراگاہوں سے چا کر گھر لاؤ تسرحون جب صبح چرانے کے لیے لے جاؤ ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں جس سے تمہارے حسنو جمال میں آضافہ ہوتا ہے ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں ۔

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَ*بَّكُمْ لَرَ*ءُوفٌ رَّ*حِيمٌ ﴿٧﴾
اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے (7)
تفسیر
4 یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے یہ زینت کا بھی باعث ہیں ۔ گھوڑے ، خچر، اور گدھون کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہا نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچرعلاوہ ازیں کھانے والے چوپایوں کا پہلے ذکر آچکا ہے ۔ اس لیے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے یہ صرف رکوب (سواری)کے لیے ہے ۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ صحیح احادیث سے گھوڑے کی حلت ثابت ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی کی موجودگی میں خیبر اور مدینہ میں گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت پاکا اور کھایا ۔ آپ ص نے منع نہیں فرمایا (ماحط ہوصحیح مسلم باب مذکور و مسند احمد ض 3 ص356ابوداود کتاب الاطعمہ باب فی اکل لحوم الخیل )اسی لیے جمہور علما اور سلفو خلف کی اکثریت گھوڑے کی حلت کی قائل ہے (تفسیر ان کثیر )یہاں گھوڑے کا ذکر محض سواری کے ضمن میں اس لیے کیا گی اہے کہ اس کا گالب ترین استعمال اسئ مقصد کے لیے ہے وہ ساری دنیا میں ہمہشہ اتنا گراں اور قیمتی ہوا کرتا ہے کہ خوراک کے طور پر اس کا استعمال بہت نادر ہے بھٹ بکری کی طرح اس کو خوراک کے لیے ذبح نہیں کیا جاتا لیکن اس کے معنی نہیں کہ اس کو بلا دلیل حرام ٹھرا دیا جائے

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ* لِتَرْ*كَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾
گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں (8)
تفسیر
زمین کے زیریں حصے میں اسی طرح سمندر میں اور بے آب و گیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالٰی مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللی کے سوا کسی کو نہیں اور اسی مین انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوےئ دماغ اور صلاحیتں کو بروئے کا لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردا چیزوں کو مختلف انداز مٰن جوڑ کر وہ تیار کرتا ہے مثلا بس کار ،ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بے شمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ* ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩﴾
اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لگا دیتا (9)
تفسیر
اس کے ایک دوسرے معنی ہیں'' اوراللہ پر ہی ہے سیدی راہ''یعنی اس کا بیان کرنا۔ چناچہ اس نے اسے بیان فرمادیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کر دیا اسی لیے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیرھی ہیں یعنی گمراہی کی ۔ 3 لیکن اس میں چونکہ ضبر ہوتا ہے اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی ، اس لیے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی ہے

life
08-19-2012, 12:23 AM
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَ*ابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ* فِيهِ تُسِيمُونَ ﴿١٠﴾يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْ*عَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَ*اتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ*ونَ ﴿١١﴾
وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو (10)اسی سے وه تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے بےشک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں (11)
تفسیر
اس میں بارش کے فوائد بیان کیے گئے ہیں جو ہر شخص کے مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں وہ محتاج وجاحت نہیں نیز ان کا ذکر پہلے آچکا ہے

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَسَخَّرَ* لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ* وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ* ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَ*اتٌ بِأَمْرِ*هِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٢﴾
اسی نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے لیے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں۔ یقیناًاس میں عقلمند لوگوں کے لیے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں (12)
تفسیر
کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہپیں ہوتا ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیرون میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیئے دلیل راہ ہیں ۔یہ سب اللہ کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتےے ہیں

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَمَا ذَرَ*أَ لَكُمْ فِي الْأَرْ*ضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَذَّكَّرُ*ونَ ﴿١٣﴾وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ* الْبَحْرَ* لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِ*يًّا وَتَسْتَخْرِ*جُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَ*ى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ* فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ*ونَ ﴿١٤﴾
اور بھی بہت سی چیزیں طرح طرح کے رنگ روپ کی اس نے تمہارے لیے زمین پر پھیلا رکھی ہیں۔ بیشک نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے اس میں بڑی بھاری نشانی ہے (13) اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازه گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لیے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو (14)
تفسیر
3یعنی زمین میں اللہ نے جو معدنیات ، نباتات، جمادات اور حیوانات اور ان کے منافع اور خواص پیدا کیے ہیں*ان میں بھی نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں*۔ 4 اس میں سمندرکی تلاطم خیز موجوں کو انسان کے تابع کر دینے کے بیان کے ساتھ اس کے تین فوائد بھی ذکر کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم اس سے مچھلی کی شکل میں تازہ گوشت کھاتے ہو (اور مچھلی مردا بھی ہو تب بھی حلال ہے ۔ علاوہ ازیں حالت احرام میں*بھی اس کو شکار کرنا حلال ہے ۔ ) دوسرے اس سے تم موتی ، سپیاں اور جواہر نکالتے ہو ، جن سے تم زیور بناتے ہو ، تیسرے اس مٰن تم کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو جن کے ذریعے سے تم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہو تجارتی سامان بھی لاتے لے جاتے ہو جس سے تمہیں اللہ کا فضل حاصل ہوتا ہے جس پر تمھیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔

life
08-19-2012, 12:23 AM
وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْ*ضِ رَ*وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارً*ا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥﴾
اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں تاکہ تمہیں لے کر ہلے نہ، اور نہریں اور راہیں بنا دیں تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو (15)
تفسیر
یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی کیونکہ اگر امین ہلتی رہی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی ۔ اس کا اندازہ زلزلوں سے کیا جاسکاتا ہے جو چند سیکنڈوں اور لمحوں کے لیے آتے ہیں لیکن کس طرح وہ بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پوند زمین اور شہروں کو کھنڈروں میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔

life
08-19-2012, 12:24 AM
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ﴿١٦﴾ أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُ*ونَ ﴿١٧﴾
اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں۔ اور ستاروں سے بھی لوگ راه حاصل کرتے ہیں (16) تو کیا وه جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے؟ (17)
تفسیر
ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ اللہ تو ان تمام چیزون کا خالق ہے لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو ، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے؟نہیں ، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں ۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ تم نے انہیںمعبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھرا رکھا ہے کیا تم ذرا نہیں سوچتے ؟

life
08-19-2012, 12:24 AM
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَغَفُورٌ* رَّ*حِيمٌ ﴿١٨﴾ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّ*ونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿١٩﴾وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿٢٠﴾
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے (18) اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ﻇاہر کرو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے (19)اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں (20)
تفسیر
4اور اس کے مطابق وہ قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا ۔ نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو اس کی بدی کی سزا۔1 اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت کمال (خالقیت)کا اثبات (فتح القدیر)

life
08-19-2012, 12:24 AM
أَمْوَاتٌ غَيْرُ* أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُ*ونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴿٢١﴾
مردے ہیں زنده نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے (21)
تفسیر
2مردہ سے مراد وہ جماد پتھر بھی ہیں جو بے جان اور بے شعور ہیں ۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں ۔ کیوں مرنے کے بعد اٹھایا جانا جس کا انہیں شعور نہیں وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آسکتا ہے ان کو صرف مردہ ہی نہیں*کہا بلکہ مذید وضاحت فرما دی کہ '' وہ زندہ نہیں ہیں*'' اس سے قبر پرستوں کا بھی واضح رد ہو جاتا ہے ، جو کہتے ہیں کہ قبروں میں مدفون مردہ نہیں ، زندہ ہیں ۔ اور ہم زندوں کو ہی پکارتے ہیں اللہ تعالٰی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد دینوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی نہ دنیا سےان کا کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔3پھر ان سے نفع کی اور ثواب وجزا کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

life
08-19-2012, 12:24 AM
إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ*ةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَ*ةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُ*ونَ ﴿٢٢﴾
تم سب کا معبود صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وه خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں (22)
تفسیر
یعنی ایک الہٰ کاماننا منکرین اور مشکرین کے لیے بہت مشکل ہے وہ کہتے ہیں ۔جَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ(5)کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے(5) دوسرے مقام پر فرمایا وَإِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَحْدَهُ ٱشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ ٱلَّذِينَ مِن دُونِهِۦٓ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ(45)اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں۔ اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں(45)

life
08-19-2012, 12:24 AM
لَا جَرَ*مَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّ*ونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِ*ينَ ﴿٢٣﴾
بےشک وشبہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو، جسے وه لوگ چھپاتے ہیں اور جسے ﻇاہر کرتے ہیں، بخوبی جانتا ہے۔ وه غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا (23)
تفسیر
استکبار کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے صحیح اور حق بات کا انکار کر دینا اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجنا۔ کبر کی یہی تعریف حدیث میں بیان کی گئی (صحیح مسلم کتاب الیمان ، باب تھریم الکبروبیانہ)یہ کبر و غرور اللہ کو سخت ناپسند ہے ۔ حدیث میں یہ ہے کہ '' وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی کبر ہو گا '' (حوالہ مذکور)

life
08-19-2012, 12:25 AM
وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَ*بُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِيرُ* الْأَوَّلِينَ ﴿٢٤﴾
ان سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں (24)
تفسیر
یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مذبین جواب دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے کچھ نہیں اتارا اور یہ محمد ص ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے وہ تو پہلے لوگوں کی کہانایاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے

cute_sweety
08-26-2012, 03:57 PM
bhut lambi thread hai
Jazak allah khair

life
08-29-2012, 12:12 AM
yahan daily post hoti hai

life
08-29-2012, 12:12 AM
thanks...

ღƬαsнι☣Rασ™
10-31-2012, 03:32 PM
Jazak Allah ....

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.