life
08-14-2012, 03:11 AM
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور بات سے محبت
عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وکان فيه مزاح بينا يضحکهم فطعنه النبي صلی الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليک قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلی الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل کشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله
سید نا اسید بن حضیررضی اللہ عنہ جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو کر رہے تھے مزاح ومذاق ان کے درمیان چل رہا تھا وہ نہا رہے تھے کہ لوگوں کو رسول اللہ نے ان کی کو کھ میں لکڑی سے مارا انہوں نے کہا کہ مجھے بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لے بدلہ لے لیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم مبارک پر قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک اٹھائی تو وہ اس سے لپٹ گئے اور آپ کے پہلوئے مبارک کو بوسہ دینے لگے کہ اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہی مقصد تھا کہ اور نہ آپ سے بدلہ لینے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1812 کتاب الادب
أنس بن مالک يقول إن خياطا دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم لطعام صنعه قال أنس فذهبت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيته يتتبع الدبائ من حوالي القصعة قال فلم أزل أحب الدبائ من يومئذ
سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کی دعوت کی، انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گیا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ کے چاروں طرف کدو تلاش کرکے نکال رہے ہیں، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 350 کتاب الاطعمہ
عن ابن عمر قال بينما نحن نصلي مع رسول الله صلی الله عليه وسلم إذ قال رجل من القوم الله أکبر کبيرا والحمد لله کثيرا وسبحان الله بکرة وأصيلا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم من القال کلمة کذا وکذا قال رجل من القوم أنا يا رسول الله قال عجبت لها فتحت لها أبواب السما قال ابن عمر فما ترکتهن منذ سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ذلک
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا (اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ کَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُکْرَةً وَأَصِيلًا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کے کلمات کہنے والا کون ہے؟ جماعت میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو پھر کبھی نہیں چھوڑا جب سے اس بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ صحیح مسلم کتاب المساجد
قال أبو هريرة لا أزال أحب بني تميم من ثلاث سمعتهن من رسول الله صلی الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول هم أشد أمتي علی الدجال قال وجات صدقاتهم فقال النبي صلی الله عليه وسلم هذه صدقات قومنا قال وکانت سبية منهم عند عاشة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أعتقيها فإنها من ولد إسمعيل
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت دجال پر ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے صدقات ہیں راوی کہتے ہیں کہ انہی میں سے حضرت سدی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک باندی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1951
عن ابن عمر قال کان الرجل في حياة رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا رأی رؤيا قصها علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فتمنيت أن أری رؤيا أقصها علی النبي صلی الله عليه وسلم قال وکنت غلاما شابا عزبا وکنت أنام في المسجد علی عهد رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيت في النوم کأن ملکين أخذاني فذهبا بي إلی النار فإذا هي مطوية کطي البر وإذا لها قرنان کقرني البر وإذا فيها ناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار قال فلقيهما ملک فقال لي لم ترع فقصصتها علی حفصة فقصتها حفصة علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال النبي صلی الله عليه وسلم نعم الرجل عبد الله لو کان يصلي من الليل قال سالم فکان عبد الله بعد ذلک لا ينام من الليل إلا قليلا
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی زندگی مبارک میں کوئی آدمی جو بھی خواب دیکھتا اسے رسول اللہ کے سامنے بیان کرتا اور میں غیر شدہ نوجوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں میں مسجد میں سویا کرتا تھا پس میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے دوزخ کی طرح لے گئے تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کی طرح لکڑیاں بھی تھیں اور اس میں لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا پس میں نے (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ) میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دہرانا شروع کر دیا ان دو فرشتوں میں سے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھ سے کہا تو خوف نہ کر پس میں نے حضرت حفصہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت حفصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے کاش یہ اٹھ کر رات کو نماز پڑھے سالم نے کہا اس کے بعد سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو تھوڑی دیر ہی سویا کرتے تھے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1870 کتاب الفضائل
عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وکان فيه مزاح بينا يضحکهم فطعنه النبي صلی الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليک قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلی الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل کشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله
سید نا اسید بن حضیررضی اللہ عنہ جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو کر رہے تھے مزاح ومذاق ان کے درمیان چل رہا تھا وہ نہا رہے تھے کہ لوگوں کو رسول اللہ نے ان کی کو کھ میں لکڑی سے مارا انہوں نے کہا کہ مجھے بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لے بدلہ لے لیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم مبارک پر قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک اٹھائی تو وہ اس سے لپٹ گئے اور آپ کے پہلوئے مبارک کو بوسہ دینے لگے کہ اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہی مقصد تھا کہ اور نہ آپ سے بدلہ لینے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1812 کتاب الادب
أنس بن مالک يقول إن خياطا دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم لطعام صنعه قال أنس فذهبت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيته يتتبع الدبائ من حوالي القصعة قال فلم أزل أحب الدبائ من يومئذ
سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کی دعوت کی، انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گیا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ کے چاروں طرف کدو تلاش کرکے نکال رہے ہیں، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 350 کتاب الاطعمہ
عن ابن عمر قال بينما نحن نصلي مع رسول الله صلی الله عليه وسلم إذ قال رجل من القوم الله أکبر کبيرا والحمد لله کثيرا وسبحان الله بکرة وأصيلا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم من القال کلمة کذا وکذا قال رجل من القوم أنا يا رسول الله قال عجبت لها فتحت لها أبواب السما قال ابن عمر فما ترکتهن منذ سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ذلک
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا (اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ کَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُکْرَةً وَأَصِيلًا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کے کلمات کہنے والا کون ہے؟ جماعت میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو پھر کبھی نہیں چھوڑا جب سے اس بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ صحیح مسلم کتاب المساجد
قال أبو هريرة لا أزال أحب بني تميم من ثلاث سمعتهن من رسول الله صلی الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول هم أشد أمتي علی الدجال قال وجات صدقاتهم فقال النبي صلی الله عليه وسلم هذه صدقات قومنا قال وکانت سبية منهم عند عاشة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أعتقيها فإنها من ولد إسمعيل
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت دجال پر ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے صدقات ہیں راوی کہتے ہیں کہ انہی میں سے حضرت سدی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک باندی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1951
عن ابن عمر قال کان الرجل في حياة رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا رأی رؤيا قصها علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فتمنيت أن أری رؤيا أقصها علی النبي صلی الله عليه وسلم قال وکنت غلاما شابا عزبا وکنت أنام في المسجد علی عهد رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيت في النوم کأن ملکين أخذاني فذهبا بي إلی النار فإذا هي مطوية کطي البر وإذا لها قرنان کقرني البر وإذا فيها ناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار قال فلقيهما ملک فقال لي لم ترع فقصصتها علی حفصة فقصتها حفصة علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال النبي صلی الله عليه وسلم نعم الرجل عبد الله لو کان يصلي من الليل قال سالم فکان عبد الله بعد ذلک لا ينام من الليل إلا قليلا
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی زندگی مبارک میں کوئی آدمی جو بھی خواب دیکھتا اسے رسول اللہ کے سامنے بیان کرتا اور میں غیر شدہ نوجوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں میں مسجد میں سویا کرتا تھا پس میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے دوزخ کی طرح لے گئے تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کی طرح لکڑیاں بھی تھیں اور اس میں لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا پس میں نے (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ) میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دہرانا شروع کر دیا ان دو فرشتوں میں سے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھ سے کہا تو خوف نہ کر پس میں نے حضرت حفصہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت حفصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے کاش یہ اٹھ کر رات کو نماز پڑھے سالم نے کہا اس کے بعد سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو تھوڑی دیر ہی سویا کرتے تھے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1870 کتاب الفضائل