Log in

View Full Version : محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


life
08-14-2012, 02:39 AM
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ایک خطبہ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم

برادران اسلام! نہ سعدی کی شوخی ، نہ جامی کا سوز ، نہ غزالی کا ذوق و وجداں، نہ خسرو کا دردِ عشق، نہ رومی کی ژرف نگاہی ، نہ اقبال کی ادائے دلبرانہ اور اندازِ قلندرانہ ، یہ سرا پا نقص اور مدحتِ سید الا نبیاء علیہ اطیب التحیتہ والثناء میں زبان کھولے تو کیسے ؟

وادیٔ ایمن کا یہ نخلِ بلند اور اس پر ہو شربا تجلیات کا جھُرمٹ ، یہ بحر کرم اور اس کی بے پناہ فیاضیاں، یہ مہر عالم افروز اوراس کی نور افشاں کرنیں، یہ مرقع حسنِ ازل اور اسکی عالمگیر دلربائیاں ’’ فاطر السمٰوٰت والارض، کا یہ شاہکارِ جمیل جو اپنی شانِ بندگی میں بے مثال اور اپنی شانِ محبوبی میں بے نظیر ۔ جس نے زندگی کو رموزِ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس نے انسان کو انسانیت کی خلعت زیبا سے نوازا، ایسے محبوب دلربا کی تعریف اور یہ دل باختہ قلم ! اس جمالِ حقیقی کا بیان اور کج مج زبان ۔ اس پیکر جو دو سخا کی ثنا اور یہ شکستہ دل ، بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔
لیکن اگر اس آئینہ حق نما کی توصیف نہ کریں ، تو کس کی کریں ! اس سراپا زیبائی کا تذکارِ حسن نہ ہو تو کیا ہو؟ اللہ رب العزت کے محبوب بندے کے عشق میں اگر گیت نہ گائیں تو کس کے گائیں۔ اس محسن کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا میں زبان زمزمہ سنج نہ ہو، تو پھرس کا مصرف کیا ہے۔ اگر قلم اس کی مدحت میں نغمہ سرا نہ ہو ، تو آخر وہ کیا کرے ؟ عقل اگر اس کی عظمتوں کو خراجِ عقیدت پیش نہ کرے ، تو کس کی عقیدت کا دم بھرے ۔ دل اگر اس کے عشق کا دیپ روشن نہ کرے اور اس کے درد اور سوز فراق میں نہ جلے تو اس کی ضرورت کیا ہے؟
راز دان طریقت و شریعت حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے ہی سب کے دل کی بات اپنے مخصوص انداز میں کہہ چکے ہیں۔
فَمَن شَائَ فَلیذ کُر جمال بثنیۃٍ
وَمَن شَائَ فَلیغزَ ل بِحُبِّ الزَّیانِب
’’ جس کا جی چاہے وہ بثنیہ کے حسن و جمال کا ذکر کرتا رہے اور جس کا جی چاہے دوسرے محبوبوں کے عشق کے گیت گائے ۔ ‘‘
سَأذ کرُ حُبِّی لِلحَبِیبِ مُحَمَّدٍ
اِذَا وَصَفَ العُشاقُ حُبَّ الحَبائِب
’’دوسرے عشاق اپنے معشوقوں کی توصیف میں رطب اللسان رہا کریں۔ میں تو اپنے حبیب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستانِ محبت ہی بیان کرتا رہوں گا۔ ‘‘
اب پھر بہار آ رہی ہے ۔عندلیبیں اور قمریاں پھر نواسنج ہونے والی ہیں۔ ربیع الاول کا چاند طلوع ہو رہا ہے۔ کئی حسین یادوں کو تازہ کرے گا۔ ان مبارک لمحوں کا ذکر چھڑے گا جب انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوا تھا۔ جب مظلوموں کا غمگسار تشریف فرما ہوا تھا۔ جب آمنہ کے کچے کوٹھے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے سمٹ آئے تھے اور ان خزانوں کو باذنِ الٰہی بانٹنے والا بلکہ لٹانے والا بڑی آن بان سے رونق افروز ہوا تھا۔
آئو ! سازِ محبت کو مضرابِ شوق سے چھیڑیں۔
آئو ! اس مہِ کامل کی تابانیوں کا ذکر کریں۔
آئو ! اس جہانِ بہار کے گیت گائیں اور روحِ کائنات کی لطافتوں کو آشکارا کریں۔
آئو ! خالق ذوالجلال کی اس نعمتِ عظمیٰ کو پہچانیں اور اس کی قدر کریں اگر اس کا عرفان نصیب ہو گیا تو دل و دماغ اور زبان سب مل کر اپنے پروردگار کا شکر ادا کریں اور جب حتی المقدور حق شکر ادا ہو گا تو اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ اس کی رحمت مائل بہ کرم ہوگی ۔ دل کی اجڑی ہوئی بستی آباد ہو جائے گی ۔ خود فراموشی اور خود شناسی خدا شناسی میں بدل جائے گی ۔ ’’ نَفَختُ فِیہِ مِن رُوحِی ۔‘‘ کی جلوہ سامانیاں بے نقاب ہو جائیں گی ۔
آئو ! پہلے اس سرِّنہاں کو خود سمجھیں ، پھر لوگوں کو سمجھائیں، اس نوید یمن و سعادت کو پہلے خود سنیں، پھر ترستی ہوئی دنیا کو سنائیں۔ اور انہیں بتائیں کہ جس کی تبسم ریزیوں سے من کی دنیا میں چمن آباد ہیں اس کی حکیمانہ تعلیمات سے تن کی دنیا کی حرماں نصیبیاں بھی دُور ہو سکتی ہیں ۔ جس کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو جانے سے عاقبت محمود ہوتی ہے۔ اس کے قدم ناز کے نقوش کو خضر راہ بنا کر ہم اس دنیا کو بھی فردوسِ بریں بنا سکتے ہیں ۔ جس نے روز محشر میں سرخرو ہونے کا راستہ بتایا ہے ۔ اس کی ہدایت پر عمل کر کے ہم مادی زندگی کے خار زاروں کو بھی گلستان بنا سکتے ہیں۔ اس کی اتباع سے ہم اپنے ربِّ کریم کو بھی راضی کر سکتے ہیں اور عروس گیتی کی اُلجھی ہوئی زلفوں کو بھی سنوار سکتے ہیں۔
آج کی صحبت میں مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ معاشیات کے سنگلاخ میدانوں اور اداس وادیوں میں جب اس رحمتوں اور برکتوں والے نبی مکرم نے قدم رنجہ فرمایا تو وہاں کس طرح عزت نفس کے چراغ روشن ہو گئے ۔ کس طرح حریتِ فکر و عمل کے پرچم لہرانے لگے۔ کس طرح عدل و احسان کے پھول کھلنے لگے اور انسان کی محرومیوں کا کس خوبی اور خوبصورتی سے درمان کر دیا گیا۔

life
08-14-2012, 02:39 AM
انسان نہ صرف روح کا نام ہے نہ فقط جسم کا بلکہ دونوں کے مجموعے کو انسان کہا جاتا ہے۔ اس لئے نوعِ انسانی کا عالمگیر اور ابدی دین وہی ہو سکتا ہے جو روح اور جسم دونوں کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ جو دونوں کی نشو ونما اور بالیدگی کا ضامن ہو، دونوں میں باہمی کشمکش اور محاذ آرائی کو ختم کرے اور ان میں ایسی ہم آہنگی پیدا کر دے کہ دونوں ایک ہی راہ پر ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔ مذہب کے نام پر جو نظام ہا ئے حیات اس وقت موجود ہیں وہ مادی نظام ہائے فکر سے مات کھا چکے ہیں۔ اب یا تو وہ نجی زندگی کی چار دیواری میں پناہ گزیں ہیں اور پناہ گزینوں کی طرح ایک بے اثر اور غیر آبرو مندانہ زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ اور یاانہوں نے مادی نظاموں کے باطل افکار کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ اپنے ماننے والوں سے اب وہ یہ تقاضا نہیں کر سکتے کہ وہ بے راہ روی کو چھوڑ دیں، ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس مذہب کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے رکھیں ، اس کے بعد جو جی میں آے کریں۔ شراب پئیں ، جؤا کھیلیں، قمار بازی کے لئے عالیشان زینہ تعمیر کریں، شبینہ کلبوں میں دادِ عیش دیں، ننگے ناچ ناچیں، حیوانی جذبات کی تسکین کے لئے بے شک وہ غیر حیوانی طریقے اختیار کریں۔ حتیٰ کہ مرد مرد کے ساتھ برملا شادیاں رچائیں، انہیں قانونی جواز اور عدالتی تحفظ میسر آ جائے ۔ وہ سُودی کاروبار کریں، جس طرح جی میں آئے ضرورت مندوں کا خون چوستے رہیں۔ مذہب کوئی مزاحمت نہ کرے گا۔ مغربی یورپ اور امریکہ وغیرہ میں عیسائیت کی بے بسی اور مجبوری کو دیکھ کر باشعور انسان کی آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔

life
08-14-2012, 02:40 AM
رہے موجودہ دور کے مادی نظام ، تو ان کے علمبردار وں کے نزدیک انسان کے انسانی پہلو کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ انہوں نے اس کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ رہا انسان کا حیوانی پہلو تو اس میں بھی سرمایہ داری اور اشتراکیت کے نظاموں میں جو خوفناک تصادم برپا ہے، اس نے انسانیت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے بلکہ اس کی ہڈیاں پیس کر رکھ دی ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کے لئے اپنے جنگی ذخائر میں ہر آن مہلک ترین اسلحہ کا اضافہ کرتے جا رہے ہیں جب بھی کسی نے بٹن دبایا، تو دنیا بھر میں ایک کہرام مچے گا جو مشرق و مغرب دونوں کو تباہ و برباد کر دے گا۔
نظام سرمایہ داری اگر انسان کی محنت اور عرق ریزی کو کوئی وقعت نہیں دیتا تو اشتراکی کیمپ انسان کی حریت ضمیر اور آزادی فکر کو برداشت نہیں کرتا اور اسے آ ہنی زنجیروں میں جکڑ دینے کے در پے ہے۔
اس ہنگامۂ دارو گیر میں کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے ، تو وہ سید کائنات فخرِ موجودات محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین فطرت ہے، جسے ہم اسلام کے نام سے پہچانتے ہیں میں یہاں بڑے اختصار کے ساتھ ان خطوط کا اجمالی تذکرہ کروںگا جو اس دین حنیف نے انسانی زندگی کو متوازن ، خوشحال ، پاکیزہ اور بابرکت بنانے کے لئے پیش کئے ہیں۔

life
08-14-2012, 02:40 AM
دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے انسان کی جسمانی زندگی ، اس کے تقاضوں اور اس کی مادی ضرورتوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا ، یہ نہیں کہا کہ آخرت کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ترک دنیا ناگزیر ہے ۔ اپنے ماننے والوں کو جنگلوں ، پہاڑوں ، ویران جزیروں میں بھاگ جانے کی ہرگز اجازت نہیں دی ۔ اسلام کے نزدیک انسان میں مستور ممکنہ قوتیں فقط اسی وقت بیدار ہوتی ہیں جب وہ کشمکش حیات میں بھرپور حصہ لیتا ہے ۔ اس کی توانائیوں کی آزمائش کے لئے حادثات سے ٹکرانا ضروری ہے۔ زندگی کی گراں باریوں سے نجات حاصل کر کے کسی گوشۂ عافیت میںپناہ لینا مومن کے لئے جائز نہیں، اس کے ہادیٔ برحق نے وضاحت سے فرما دیا۔ ’’ لارہبانیۃ فی الاسلام ‘‘ اس لئے قرآن کریم میں اور احادیث نبوی میں بڑے شوق آفرین انداز میں کسبِ مال اکتساب دولت اور حصول منفعت کی دعوت د ی گئی ہے۔ ارشادِ گرامی ہے۔’’ فاذ اقضیتِ الصلٰوۃ فانتشر وافی الارض وا بتغوا من فضل اللّٰہ ۔‘‘ یعنی جب نماز سے فارغ ہو جائو تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو۔ چنانچہ اس آیت میں مال کو فضلِ الٰہی فرما کر اس کی عزت افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح سورۂ فاطر میں ارشاد ہے:
’’وتریٰ الفلک فیہ موا خرلِتَبتغُو امن فضلہ و لعلکم تشکرون ۔

life
08-14-2012, 02:40 AM
یعنی تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ وہ پانی کو چیر کر جا رہی ہیں۔ تا کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تا کہ اس کا شکر ادا کر سکو۔
یہاں بھی مال کو اپنا فضل فرمایا ہے سورۂ نساء میں مال کو زندگی کا سہارا کہا گیا ہے اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے اموال احمقوں اور نادانوں کے سپرد نہ کردو تا کہ وہ سوئے تصرف سے تمہیں زندگی کے اس سہارے سے محروم نہ کر دیں۔ ارشادِ خدا وندی ہے۔
ولا تُئوتُو السفہا ء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً۔(النّسآء۔۵)
احادیث طیبہ میں بھی مسلمانوں کو کسبِ حلال کی رغبت دلائی گئی ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’ طَلب الحلالِ واجب عَلٰے کُل مسلم ۔‘‘ رزق حلا ل کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایک اور مقام پر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ طوبٰی لمن طاب کسبہ و صلحت سریر تہ و کرمت علانیۃ وعزل عن الناس شرّہ۔‘‘
وہ انسان بڑا فیروز بخت اور ارجمند ہے جس نے پاکیز ہ مال کمایا ۔ جس کا باطن نیک اور جس کا ظاہر محترم ہے۔ اور اس نے لوگوں کو اپنی شرانگیزی سے محفوظ کر دیا۔

life
08-14-2012, 02:41 AM
آپ نے ایک صحابی کے ہاتھ کو دیکھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے سے سُوج گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : ’’ تلک ےَدُ‘ یحبہا اللّٰہ ورَسُولہ ۔‘‘ یعنی کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے ہے ۔ ان احادیث اور آیات سے واضح ہو گیا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسبِ مال سے روکتا نہیں ہے، بلکہ رغبت دلاتا ہے اور ان کی جدوجہد کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن اسکے باوجو د وہ مال کمانے کی کھلی اجازت نہیں دیتا بلکہ اکتسابِ مال کے بعض ذرائع کو جائز قرار دیتا ہے اور بعض کو ناجائز ۔ وسائل معاش میں جائز اور ناجائز، حلال اور حرام کی اساس یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع جن میں دوسرے شخص کی ضرورت ، مجبوری ، سادہ لوحی یا نا تجربہ کاری سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہو یا دھوکہ دہی یا جبر سے کسی کا مال ہتھیا لیا گیا ہو، وہ تمام وسائل شریعت میں ممنوع اور خلافِ قانون ہیں ۔ سُود ، جؤا ، ذخیرہ اندوزی ، رشوت ، بلیک مارکیٹنگ ، اور دیگر ہر قسم کی دھاندلیاں اسلام کے نزدیک حرام ہیں۔ ان ذرائع سے کمایا ہوا روپیہ اگر خدا کی راہ میں بھی خرچ کر دیا جائے تو اس کی پذیرائی نہیں ہوتی ۔ ایسے رزق سے جسم میں قطرہ خون بنتا ہے جو گوشت پوست کی صورت اختیار کرتا ہے۔ ارشادِ مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق وہ جہنم میں جلایا جائے گا۔ حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ لا یغبطن جامع المال من غیر حلّہ اوقال من غیر حقہ فانہ ان تصدّق بہ لم ےُقبل منہ وما بقی کان زادہ الی النار ۔ ‘‘
وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہو گا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی ۔ اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لئے زادِ راہ ثابت ہو گا۔

life
08-14-2012, 02:41 AM
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ یا کعب بن عجرۃ انہ لاید خل الجنۃ لحمُ‘ بَنَتَ من سُحتٍ۔‘‘
اے کعب بن عجرہ ، وہ گوشت جو حرام رزق سے پیدا ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
دولت کی کثرت اور فراوانی قلب و ذہن میں بسا اوقات بڑے ناخوشگوار تاثرات پیدا کر دیتی ہے۔ کم ظرف انسان دولت ہی کو شرفِ انسانی کا معیار سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو دولت میں ان سے فروتر ہو، ان کی نگاہوں میں گھٹیا اور حقیر دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ ہر شخص جو ان سے زیادہ دولت مند ہوتاہے وہ انہیں معظم و محترم نظر آنے لگتا ہے۔ دولت کی حرص تیز تر ہو جاتی ہے ۔ وہ دولت آفرین ہاتھوں کو صحیح معاوضہ دینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر معصوم عصمتوں کو داغدار اورمحترم حقوق کو زک پہنچانے سے باز نہیں آتا ۔ وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ زیرک اور دانش ور شمارکرنے لگتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ فتور بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہی برگزیدہ خلائق ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتاہے بارگاہِ الٰہی سے اسے سندِ جواز حاصل ہے۔ وہ ملکی دولت کے سارے سوتوں کا رخ زور و جبر سے یا مکرو فریب سے اپنی طرف پھیرنے میں سر گرم ہو جاتاہے۔ اس کی آتشِ جوع ہر دم بھڑکتی رہتی ہے، اس کی تشنہ لبی میں ثروت کی بے پناہ کثرت کے باوجود کوئی کمی نہیں آتی ۔ اسلام ایسے انسان کو اپنے معاشرے میں ہرگز گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماننے والوں کی ابتداء سے ہی ایسی تربیت کرتا ہے اور ان کو ایسی راہ پر گامزن کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایسا کوئی مر حلہ نہ آئے جب وہ دوسرے انسانوں کی شرافت اور احترام کو صرف دولت کے معیار پر پرکھنے کا خوگر ہو جائے ۔ وہ تمام وسائل جن کی وجہ سے دولت کا بہائو کسی فرد واحد یا معاشرہ کے ایک مخصوص طبقہ کی طرف مُڑ جاتا ہے ، اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے ۔ وہ ممالک جہاں سرمایہ داری کا عفریت اپنے ہم وطنوں کا خون چوس رہا ہے ۔ اور ضرورت مندوں کی ہڈیوں کو چبا رہا ہے ۔ اگر ان کے حالات کو آپ بنظرِ غائر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ دولت کی اس غیر متوازن بلکہ ظالمانہ تقسیم میں ان وسائلِ معاش کا ہی عمل دخل ہے ، جنہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔ جو قوم یا جس ملک کے باشندے اسلامی وسائلِ معاش کی اس تقسیم پر ایمان رکھتے ہیں ، اور حرام ذرائع سے ایک پائی کمانا بھی جرم تصور کرتے ہیں ۔ وہاں کے معاشرہ میں دولت کی یہ ظالمانہ تقسیم آپ کو نظر نہیں آئے گی۔

life
08-14-2012, 02:41 AM
دوسرے مذہبوں کے برعکس اسلام کا اندازِ اصلاح یہ نہیں کہ پہلے غلاظت کے ڈھیڑوں کو جمع ہونے کی کھلی چھٹی دے ۔ اور جب ان کی عفونت سے دماغ پھٹنے لگے، تو ان غلاظت کے ڈھیروں کو دور کرنے کی مجنونانہ مہم میں تخریب کاری کو روا رکھنا شروع کر دے۔ ابتدا میں مرض کا سدِ باب نہ کیا۔ جب جسم کے ہر حصے کو وہ متاثر کر چکیں تو پھر اس کے علاج کے لئے قطع و برید کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسلام ان راستوں کو ہی بند کر دیتا ہے اور ان دروازوں کو ہی مسدود قرار دیا ہے جہاں سے اس قسم کی خرابیاں معاشرے میں داخل ہوتی ہیں۔ اگر ایک سُود کو کسی ملک میں حتمی طور پر بند کر دیا جائے تو وہاں چند دنوں میں سرمایہ داری کا ظالمانہ نظام دم توڑ دے گا۔ اگر رشوت ، جوا بازی ، ذخیرہ اندوزی کی لعنتوں سے کوئی قوم اپنا دامن بچا لے تو معاشی نا ہمواریاں اور خوفناک نشیب و فراز کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اسلام نے وہ تمام راہیں بند کر دیں جن کے ذریعے سرمایہ داری کو غذا پہنچتی ہے۔ اور اس کا دیو انسانی شرافت کے مقدس اور نورانی میناروں کو پامال کرنے کی تدبیریںسوچنے لگتا ہے۔

life
08-14-2012, 02:42 AM
پاکستان میں بھٹو حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے بائیس خاندانوں کے خلاف بڑا شور مچایا گیا۔ ان کو وطن کا غدار ، غریبوں کے حق غضب کرنے والا، محنت کش طبقہ کا خون چوسنے والا اور معلوم نہیں کن کن القاب و خطابات سے نوازا گیا۔ لیکن اس تحریک کے علمبردار وں کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ ان اسباب و عوامل کا تجزیہ کریں جن کی وجہ سے بائیس خاندان معرضِ وجود میں آے ۔ کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پاکستان کی معاشی حالت زبوں سے زبوں تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف بائیس (۲۲) خاندان تھے اب کئی سو بلکہ کئی ہزار قسم کے مگر مچھ پیدا ہو گئے۔ جو عوام کی ہڈیوں کو چبانا اپنا پیدائشی حق تصور کرنے لگے ہیں ۔ جب تک حکومت ایسے بالغ نظر اور تعلیماتِ اسلامی پر یقین محکم رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ آئے گی، اصلاحِ احوال کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں خدا نخواستہ اگر یہ لوگ سینکڑوں سال تک بھی ایوانِ اقتدار میں فروکش رہیں تو یہ عوام کی حالت کو سُدھار نہیں سکتے ۔

life
08-14-2012, 02:42 AM
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب مقدس نازل ہوئی تھی اس میں بار بار سرمایہ دارانہ ذہن کی سفاکیوں ، فتنہ انگیزیوں اور مفسدہ پردازیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشا د خدا وندی ہے :
’’ واذ ااردنا ان نہلک قریۃ امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فد مرناہا تد میرا ۔‘‘ (بنیٓ اسرآئیل۔۱۶)
’’یعنی جب دولت مند اور متمو ل طبقہ فسق و فجور کا بازار گرم کر دیتا ہے تو ان پر نزولِ عذاب لازم ہو جاتا ہے اور ہم انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔
سورہ سبا میں ہے کہ دولت کی فراوانی کے باعث ان کے امراء و اغنیاء کے ذہن اتنے بانجھ ہو گئے تھے کہ جو انبیاء اپنی صداقت کی روشن نشانیاں لے کر مبعوث کئے گئے تھے اور جن کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں ان کی بدکاریوں کے ہولناک انجام سے بروقت متنبہ کریں۔ انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اپنی غلط فہمی کا برملا اظہار کر دیا کہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہے ۔ ان کے بیٹوں کی تعداد کافی ہے ، کوئی طاقت انہیں سزا نہیں دے سکتی ۔ ارشاد ربانی ہے :
’’ وما ارسلنا فی قریۃ من نذیر الا قال متر فوہا انا بما ارسلتم بہ کافرون وقا لوا نحن اکثر ا موالا وادلاد ومانحن بمعذ بین (سبا۔۳۵)
’’ یعنی جب ہم کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجتے ہیں تو وہاں کا دولت مند طبقہ برملا کہہ دیتا ہے کہ اے رسولو! ہم تمہاری دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دولت کی انبار ہیں اور اولاد کثیر ہے۔ ہمیں کوئی عذاب نہیں دیا جا سکتا۔

life
08-14-2012, 02:42 AM
اس لئے اسلامی معاشرے میں سرمایہ داروں کے پنپنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کے ساتھ بر سرِ پیکار ہونے کی جو حماقت اشتراکیت نے کی ہے، اسلام کا دامن اس سے بھی یکسر منزہ ہے۔ روس میں اشتراکی انقلاب کو برپا ہوئے پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ انفرادی ملکیت کو ختم کرنے کے لئے بڑے ہی پاپڑ بیلے گئے ہیں، اور مظالم کی انتہا کر دی گئی ہے۔ صرف روس میں نجی جائداد کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے کروڑوں روسیوں کا خون بہایا گیا ہے۔ لیکن انسانی فطرت کو مسخ کرنے یا بدلنے کی مہم میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی ۔ اسلام جس طرح عقیدہ ، تحریر اور تقریر کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے بلکہ اس کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح وہ انسان کی حریت عملی پر بھی بے جا پابندیاں لگانے کا قائل نہیں ۔ جب تک کوئی شخص اسلام کی وضع کردہ حدود کو پامال نہیں کرتا، وہ اپنی تخلیقی ، تعمیری قوتوں کو بروئے کار لانے میں بالکل آزاد ہے اور اسلام اس کو اس آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اور وہ اپنے عمل سے جو جائز ثمرات حاصل کرے گا ، اسکی حفاظت کا اس سے عہد کرتا ہے۔ اگر مملکت اسلامیہ کا کوئی شہری قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے جائز اور حلال ذرائع سے دولت کماتا ہے ۔ تو اسلام ایسے شخص کو معاشرہ کا بہترین فرد شمار کرتا ہے۔ لیکن اس طرح کی کمائی ہوئی دولت کو بھی ایسے حکیمانہ انداز سے ایک ہاتھ سے لے کر متعدد اشخاص میں بانٹ دیتا ہے کہ دولت کی فراوانی سے جن بُرے نتائج کے ظہورکا خطرہ ہوتا ہے ، ان کا سدِ باب بھی ہو جاتا ہے اور کسی کی دل شکنی اور دل آزاری بھی نہیں ہوتی ۔ اور کسی کے جوش عمل میں بھی کوئی ضعف پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہے اسلام کا نظامِ وراثت اور وصیت جس میں متوفی کی متروکہ ، منقولہ اور غیر منقولہ دولت اس کے بیٹوں ، اس کی بیٹیوں ، اس کی بیوی ، اس کے ماں باپ اور بعض حالتوں میں کئی دوسرے قریبی رشتہ داروں میں بٹ جاتی ہے۔ وصیت کے ذریعے وہ اپنی متروکہ دولت کی ایک تہائی غیر وارثوں کو بھی دے سکتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ صرف بڑا بیٹا جدی جائداد کا وارث ہو اور باقی اولاد کو محروم کر دیا جائے ۔ یاصرف بیٹوں کو وراثت میں حصہ ملے اور بیٹیوں کو محروم کر دیا جائے ۔ یا کوئی شخص کسی تُرنگ میں آکر اپنے وارثوں کو محروم کر دے اور غیر وارث کو ساری جائداد کا مالک بنا دے ۔ جس طرح یورپ کے مہذب و شائستہ لوگ ساری جائداد اپنے کتوں اور بلیوں کے نام وصیت کر جاتے ہیں، اور اپنے وارثوں کو محروم کر دیتے ہیں ۔

life
08-14-2012, 02:43 AM
ہر ملک میں خواہ وہ معاشی طور پر ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو، ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو بعض ناگزیر وجوہات کے باعث افلاس و تنگ دستی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے صاحبِ حیثیت لوگوں پر ڈالی ہے ۔ جہاں اپنی عبادت کا ذکر کیا ہے وہاں حاجت مند طبقہ کی اعانت کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف رسومِ عبادت کا بجا لانا ہی نیکی نہیں ہے بلکہ صدق دل سے ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے اپنے رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں میں مال تقسیم کرنا حقیقی نیکی ہے۔
’’ لیس البر ان تُو لو ا وجو ہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البِرَّ مَن اَ مَنَ بِاللّٰہ والیوم الآخر والملائکۃ والکتاب والنبیین واٰتی المال علی حبہ ذوی القربیٰ والیتمیٰ و المساکین وابن السبیل والسا ئلین و فی الرقاب ۔ ‘‘ (البقرہ۔۱۷۷)
’’ نیکی بس یہی نہیں کہ نماز میں تم اپنا رُخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ، بلکہ نیکی کا کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور سب نبیوں پر اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی محبت کے باعث رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں، مسافروں ، مانگنے والوں کو دے اور غلاموںکو آزاد کرائے۔‘‘

life
08-14-2012, 02:43 AM
سورہ مدثر میں بڑے مؤثر پیرائے میں اس حقیقت کو ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ اہلِ جنت اہلِ جہنم سے پوچھیں گے ۔ ’’ ماسلکَکُم فی سقر ۔ ‘‘ تمہیں کون سا جرم دوزخ میں لے گیا۔ تو وہ جواب دے گے ۔ ’’ قالُولم نک من المصلین ولم نک نطعم المسٰکین ۔‘ ‘ ( المدثر۴۲) کہ ہم اس جرم کی پاداش میں دوزخ کا ایندھن بنا دیی گئے ہیں کہ ہم اپنے پروردگار کی جناب میں سجدہ نہیں کرتے تھے ، نیز ہم مسکینوں اور غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔ ‘‘ گویا قرآن کریم کی نظر میں نماز ادا نہ کرنا اور کسی غریب کی ضروریاتِ زندگی کو بہم نہ پہنچانا دونوں یکساں نوعیت کے گناہ ہیں۔
بلکہ سورۂ ماعون میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ جو شخص یتیموں کی توہین کرتاہے ان کو اپنے ہاں سے دھکے دے کر نکال دیتا ہے۔ اور مساکین و غرباء کی بنیادی ضرورتوں کو بہم پہنچانے کی ترغیب نہیں دلاتا، وہ قیامت پر یقین ہی نہیں رکھتا۔
’’ ارائیت الّذی یکذّبُ بالدین فذلک الّذی ید عُّ الیتیم ولا یحضُ علٰے طعام المسکین ۔‘‘(الماعون۔پارہ ۳۰)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دیی ہوئے رزق سے غریبوں کی امداد نہیں کرتے اور ان کی ضرورت کی بہم رسانی میں اپنا فرض ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں قرآن حکیم کے دل دہلانے والے ارشادات سماعت فرمائیی ۔ ارشاد ہے :

life
08-14-2012, 02:43 AM
’خُذ وہ فُغلُّوہ ثم الجحیم صلّو ہ ثم فی سِلسِلَۃ ذرعہا سبعون ذراعا فاسلکوہ انہ کان لا یومن باللّٰہ العظیم ولا یحض علے طعام المسکین۔ (الحاقۃ)
’’ اس ( نابکار )کو پکڑ لو ۔ اس کی گردن میں طوق ڈال دو ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو، پھر اسے ستر گز لمبے زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ (بد بخت )خدا وندِ عظیم پر ایمان نہیں لایا تھا۔ اور نہ ہی وہ غریبوں کی خوراک مہیا کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا ۔‘‘
ان آیات میں جو رُعب اور جلا ل ہے ، اس سے دل کانپ اٹھتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک منصف مزاج انسان پر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔ کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کی مادی ضروریات کو انتہائی اہمیت دی ہے اور جو شخص اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، وہ قیامت کا منکر ہے اور اور اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں رکھتا۔ اور اس کا ان برکتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔جو اسلام کے زیرِ سایہ انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ اسلام نے صرف پند و موعظت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قانونی طور پر ضرورت مند لوگوں کی کفا لت کو اسلامی معاشرہ پر لازم قرار دے دیا ہے، جس کی ادائیگی ہر شخص پر حسبِ حیثیت لازم ہے۔ اس کے علاوہ مختلف دلنشین اسالیب سے ضرورت مند لوگوں کی امداد کا دلوں میں شوق پیدا کر دیا کہیں فرمایا کہ ان لوگوں کو امداد کے لئے جو تم خرچ کرتے ہو وہ گویا تم اپنے پروردگار کو قرض دے رہے ہو،جو تمہیں یقینا واپس ملے گا کہیں فرمایا کہ تم اگر اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کے لئے ایک روپیہ خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض کم از کم دس گُنا تمہیں عنایت فرمائے گا۔ اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ ذرا اس آیت کو بھی گوش و ہوش سے سماعت فرمائیی ۔ اس آیت کو سننے کے بعد اور اس کو سمجھ لینے کے بعد دل میں ایسا ولولہ اٹھتا ہے کہ ہر چیز اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کو لُٹا دینے کو جی چاہتا ہے۔

life
08-14-2012, 02:43 AM
’’ مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃٍ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ ٍ مأتۃ حبَّۃ ِ واللّٰہ یضٰعف لمن یشا ئواللہ واسع علیم۔(البقرۃ)
’’ یعنی ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو ، جو اُگے اور اس میں سات خوشے لگیں اور ہر خوشہ میں سو دانے ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ کر دیتا ہے ، جس کے لئے چاہتا ہے۔ ‘‘
یہی وہ پاکیزہ تعلیمات تھیں ، یہی وہ صحیح تربیت تھی ، یہی وہ قرآن کا اعجاز تھا، اور یہی وہ اسلام کا روح پر ورنظام تھا۔ جس نے ان قوموں کی کایا پلٹ دی ، جنہوں نے اس کو قبول کیا اور ان ملکوں کو جنت نظیر بنا دیا ، جہاں اس کی برکتوں والا پرچم لہرایا۔
قرآنِ کریم کی اعجاز آفرینی آج بھی اپنے شباب پر ہے ۔ اسلام کی برکتوں اور سعادتوں کا چشمہ شیریں آج بھی اُبل رہا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائے رحمۃ للعالمینی اتنی وسیع ہے کہ ستم رسیدہ ، افلاس گزیدہ انسانیت کو اس کے ظلِ عافےّت میں پناہ مل سکتی ہے بشرطیکہ ہم منافقت کو ترک کر دیں۔ شک وارتیاب کی دلدل سے اپنے آپ کو نکال لیں۔ ایمان صادق اور یقین محکم سے ان تعلیمات کو اپنا لیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ہمارے لئے بلکہ ساری انسانیت کے لئے نازل فرمائی ہیں ۔ جس مبارک ہستی کا ہم یوم میلاد ہر سال مناتے ہیں اس کے ساتھ محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لائے ہوئے دین پر خود عمل پیرا ہوں اور دوسروں کے لئے راہِ حق پر گامزن ہونے کا دلکش نمونہ پیش کریں اس محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ اس کے احکام کی تبلیغ کے لئے کون سا ستم ہے جو محبوب رب العالمین نے برداشت نہیں کیا،کون سی مصیبت ہے جسے گوارا نہیں کیا۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس پائوں میں کانٹے چبھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کے لئے کفار نے انگنت منصوبے بنائے ، اپنے وطن سے نکالا، بارہا مدینہ طیبہ پر چڑھائی کی ۔ ان جنگوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابہ اور عزیز رشتہ دار شہید ہوئے ۔ ان تمام آلام و مصائب کو اس رحمت عالمیان نے بخوشی گوارا کیا تا کہ اللہ تعالیٰ کا نام اونچا ہو اور اس کا دین پھیلے تا کہ انسانیت کی نکبت اور زبوں حالی کا دور ختم ہو، اور صبح صادق طلوع ہو۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے رشتہ پر نازکرتے ہیں۔ تو ہمارا یہ فرضِ اولین ہے کہ ہم سب راعی اور رعایا،

life
08-14-2012, 02:44 AM
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کو اس عزم کے ساتھ منائیں کہ ہم دینِ حق کی جو شمع اس سہانی گھڑی میں فروزاں کی گئی تھی اس سے اپنی تاریک دنیا کو بھی منور کریں گے ۔ ظلم ، جہالت اور گمراہی کا اندھیرا جہاں جہاں خیمہ زن ہے ، اس کا قلع قمع کر دیں گے۔ آج کی مادیت گزیدہ انسانیت کو اسلام کے تریاق کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پاکستان اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہو کر اخلاقی بلندی ، رُوحانی بالیدگی ، اور معاشی خوشحالی کا مُرقّع زیبا نہ بن جائے ۔

life
08-14-2012, 02:45 AM
"جناب غلام مصطفی ظہیر امن پوری"


متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “
” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )

1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون
” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “
( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )

life
08-14-2012, 02:45 AM
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین
” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )

life
08-14-2012, 02:46 AM
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین
” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )

life
08-14-2012, 02:46 AM
روایت میں ہے :
فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء
” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )


4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون
” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )

life
08-14-2012, 02:46 AM
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی
” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “
( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔

life
08-14-2012, 02:47 AM
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی
” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “
( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔
حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔

life
08-14-2012, 02:47 AM
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی
” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “
( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔

8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم
” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “
( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح )

life
08-14-2012, 02:47 AM
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا :
ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ....
” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )

life
08-14-2012, 02:47 AM
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام
” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔
! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )
” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “

life
08-14-2012, 02:48 AM
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی
” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )

life
08-14-2012, 02:48 AM
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا :
انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی
” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “
( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح

life
08-14-2012, 02:48 AM
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ
” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “
( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )

life
08-14-2012, 02:49 AM
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ
” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )

سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ :
ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ
” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “
( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )

life
08-14-2012, 02:49 AM
( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )
شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ
اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )

سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ
” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )

life
08-14-2012, 02:49 AM
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات
” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “
( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔

life
08-14-2012, 02:49 AM
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات
” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “
( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔

life
08-14-2012, 02:50 AM
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب
” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “
( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟

life
08-14-2012, 02:50 AM
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر
” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )

ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں :
لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر
” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )

life
08-14-2012, 02:50 AM
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب
کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ
” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )
یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔

life
08-14-2012, 02:50 AM
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں :
سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا
” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “
( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )

life
08-14-2012, 02:51 AM
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا :
رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ
” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔

life
08-14-2012, 02:51 AM
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے :
” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “
” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔
لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے :
یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء
” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )

life
08-14-2012, 02:51 AM
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے :
ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی
” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )
نیز فرمایا :
لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ
” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )

سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم
” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )

life
08-14-2012, 02:52 AM
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال
” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “
( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم

life
08-26-2012, 02:07 AM
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت


جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی مجرمانہ قرارداد طے ہو چکی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے رب تبارک تعالیٰ کی وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے، اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کا تعین بھی فرما دیا کہ آپ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔(1)
اس اطلاع کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک دوپہر کے وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پراگرام اور مرحلے طے فرما لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھانکے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا؛ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اجازت طلب کی۔ آپ کو اجازت دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: " تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو"۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: " بس آپ کی اہل خانہ ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول!"۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے"۔ ابوبکر نے کہا: ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"۔ (2)
اسکے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔

life
08-26-2012, 02:08 AM
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا گھیراؤ

ادھر قریش کے اکابر مجرمین نے اپنا سارا دن مکّے کی پارلیمان دارالندوہ کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزارا اور اس مقصد کیلئے ان اکابر مجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کئے---- انکے نام یہ ہیں۔
1- ابو جہل بن ہشام
2- عقبہ بن ابی معیط
3- امیّہ بن خلف
4- طعیمہ بن عدی
5- ابیّ بن خلف
6- حَکم بن عاص
7- نضر بن حارث
8- زمعہ بن الاسود
9- ابو لہب

life
08-26-2012, 02:08 AM
9- ابو لہب
10- نبہ بن الحجاج
11- اور اسکا بھائی منبّہ بن الحجاج(3)
ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ جب رات ذرا تاریک ہو گئی تو یہ لوگ گھات لگا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھ گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں۔(4)
ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہو کر رہے گی یہاں تک کہ ابو جہل نے بڑے متکبرانہ اور پر غرور انداز میں مذاق و استہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا: " محمد کہتا ہے کہ تم لوگ اگر اسکے دین میں داخل ہو کر اسکی پیروی کرو گے تو عرب اور عجم کے بادشاہ بن جاؤگے، پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لئے اردن کے باغات جیسی جنّتیں ہونگی۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو انکی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئینگے۔ پھر تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤگے اور تمہارے لئے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے۔(5)
بہرحال اس سازش کے نفاذ کیلئے آدھی رات کا وقت مقرر تھا اسلئے یہ لوگ جاگ کر رات گزار رہے تھے اور وقت مقررہ کے منتظر تھے، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے، اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جسے بچانا چاہے اسکا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا اور جسے پکڑنا چاہے کوئی اسکو بچا نہیں سکتا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر وہ کام کیا جسے ذیل کی آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

ترجمہ: وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف سازش کر رہے تھے، تاکہ تمہیں قید کردیں یا قتل کر دیں یا نکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والا ہے۔
سورۃ الانفال: 30

life
08-26-2012, 02:08 AM
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا گھر چھوڑتے ہیں

بہرحال قریش اپنے پلان کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے؛ چانچہ اس نازک ترین لمحے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور میری یہ سبز حضرمی (6) چادر اوڑھ کر سورہو۔ تمہیں انکے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گا"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی چادر اوڑھ کر سو یا کرتے تھے۔(7)
اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے،مشرکین کی صفیں چیریں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر انکے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے۔

وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ

life
08-26-2012, 02:08 AM
ترجمہ: ہم نے انکے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور انکے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے ہیں۔
سورۃ یٰسین: 36
اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا جس کے سر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی نہ ڈالی ہو۔ اس کے بعد آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔(8)
ادھر محاسرین وقت سفر کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی و نامرادی کا علم ہوگیا۔ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: محمّد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا۔ اس نے کہا آپ لوگ ناکام و نامراد ہوئے۔ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔انہوں نے کہا بخدا! ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اسکے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔
لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ کہنے لگے: خدا کی قسم! یہ تو محمّد سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر انکی چادر موجود ہے۔چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں، حضرت علی نے کہا مجھے معلوم نہیں۔(9)

life
08-26-2012, 02:08 AM
گھر سے غار تک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 27 صفر 14 سنہ نبوت مطابق 12-13 ستمبر سنہ 622ء (10) کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان و مال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔
چونکہ نبی صلی علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر پہلے ان کی نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ راستہ اختیار کیا جو اسکے بالکل الٹ تھا یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کافاصلہ کیااور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے۔ یہ نہایت بلند، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہو گئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نشان قدم چھپانے کیلئے پنجوں کے بل چل رہے تھے اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زخمی ہو گئے۔بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا لیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جا پہنچے جو تاریخ میں غار ثور کے نام سے معروف ہے۔(11)
1- ابن ہشام 1/482، زاد المعاد 2/52
2- صحیح بخاری ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 1/553

life
08-26-2012, 02:08 AM
2- صحیح بخاری ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 1/553
3- زاد المعاد 2/52
4- ابن ہشام 1/482
5- ایضا" 1/483
6- حضر موت(جنوبی یمن) کی بنی ہوئی چادر حضرمی کہلاتی ہے۔
7- ابن ہشام1/482-483
8- ایضا" 1/483۔ زادالمعاد 2/52
9- ایضا" ایضا"
10- رحمتہ للعالمین1/95۔ صفر کا یہ مہینہ چودھویں سنہ نبوت کا اس وقت ہوگا جب سنہ کا آغاز محرم کے مہینے سے مانا جائے۔ اور اگر سنہ کی ابتداء اسی مہینے سے کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوّت سے مشرّف کیا گیا تھا تو صفر کا یہ مہینہ قطعی طور پر تیرھویں سنہ نبوت کا ہوگا۔ عام اہل سئیر نے کہیں پہلا حساب اختیار کیا ہے، اور کہیں دوسرا جسکی وجہ سے وہ واقعات کی ترتیب میں خبط اور غلطی میں پڑ گئے ہیں ہم نے سنہ کا آغاز محرم سے مانا ہے۔
11- رحمتہ للعالمین 1/95 مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص 167

life
08-26-2012, 02:08 AM
ار میں


غار کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کیلئے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں، اگر اسمیں کوئی چیز ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مجھے اس سے سابقہ پیش آئےگا۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا۔ ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں اپنا تہہ بند پھاڑ کر بند کیا لیکن دو سوراخ باقی بچ رہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں پر اپنے پاؤں رکھ دئیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اندر تشریف لے آئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لیگئے اور حضرت ابوبکر صدیق کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ نہ جائیں۔ لیکن ان کے آنسو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ٹپک گئے( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی) آپ نے فرمایا: "ابوبکر تمہیں کیا ہوا؟" عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور تکلیف جاتی رہی۔(12)
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار کی راتیں چھپ کر گزاریں۔(13)
اس دوران ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی یہیں رات گزارا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک، سخن فہم نوجوان تھے۔ سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے اور مکّہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔ پھر آپ دونوں کے خلاف سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہو جاتی تو اسکی خبر لیکر غار میں پہنچ جاتے۔
ادھرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لیکر ان کے پاس پہنچ جاتے، اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہو کر دودھ پی لیتے پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔(14) (مزید یہ کہ) عامر بن فہیرہ،حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکّے جانے کے بعد انہیں کے نشانات پر بکریاں ہانکتے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔ (15)

life
08-26-2012, 02:09 AM
قریش کی تگ و دو

ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبہ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہو گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اتارا اور آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ تک لے گئے، اور ایک گھڑی حراست میں رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے۔(16)
لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا: تمہارے ابّا کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بخدا مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابّا کہاں ہیں۔ اس پر کمبخت خبیث ابو جہل نے ہاتھ اٹھا کر انکے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گر گئی۔(17)
اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس بلا کر یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کیلئے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں۔ چنانچہ مکّے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جا رہا ہو نہایت کڑا مسلّح پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح یہ اعلان عام بھی کر دیا گیا کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرےگا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کو گرانقدر انعام دیا جائیگا۔(18) اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشاناتِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں، وادیوں اور نشیب و فراز میں ہر طرف بکھر گئے؛ لیکن نتیجہ اوت حاصل کچھ نہ رہا۔
تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا، سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آ رہے ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ان میں سے کوئی شخص اگر اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ابوبکر! خاموش رہو،(ہم) دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے"۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔

life
08-26-2012, 02:09 AM
مَا ظَنَّکَ یَا ابَابَکر بِاَثنیَن اَللہُ ثَا لِثُھُماَ

ترجمہ: ابوبکر! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں* تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔(19)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرّف فرمایا۔ چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس چلے گئے جب آپ کے درمیان اور انکے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔

(11 رحمتہ للعالمین 1/95، مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص 167
(12) یہ بات رزین نے حجرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ زہر پھوٹ پڑا( یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا) اور یہی موت کا سبب بنا۔ دیکھئے مشکاۃ 3/556 باب مناقب ابی بکر
(13) فتح الباری 7/336
(14) صحیح بخاری 1/553،554

life
08-26-2012, 02:09 AM
(15) ابن ہشام 1/486
(16) رحمتہ للعالمین 1/96
(17) ابن ہشام 1/487
(18) صحیح بخاری 1/554
(19) ایضا" 1/516، 558۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ابوبکر صدیق کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا بلکہ اس کا واحد سبب یہی تھا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کا غم فزوں تر ہو گیا اور آپ نے کہا: " اگر میں مارا گیا تو محض ایک آدمی ہوں لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دئیے گئے تو پوری امّت ہی غارت ہو جائیگی۔ اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا غم نہ کرو یقینا" اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص 168۔

life
08-26-2012, 02:10 AM
عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم غیروں کی نظر میں


عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم غیروں کی نظر میں
غیرمسلم دانشوروں اور مفکروں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف و خراج عقیدت ۔

میکائل ہارٹ :
دنیائے سب سے زیادہ ذی اثر شخصیات کی لسٹ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے رکھنا بعض لوگوں کو حیرت میں ڈال دے گا اور وہ معترض ہوں گے لیکن تاریخ میں واحد یہ شخصیت گرامی ہیں کہ مذہبی اور دنیاوی طور پر انتہائی کامیاب ہوئے ۔

معمولی لوگوں میں پیدا ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک کی بنیاد رکھی اور اسے رائج کیا ۔ اور انتہائی ذی اثر شخصیات میں سے نمایاں سیاسی لیڈر بنے ۔ جس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکمراں بنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دین الٰہی کی بالادستی چاہتے تھے ۔

ای ۔ ڈی ۔ منگھم :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے عظیم نہیں تھے کہ وہ امن کے علمبردار تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے کامیاب ترین پیغمبر تھے ۔ جتنے اذہان و قلوب آپ نے مسخر کئے کسی اور نے نہیں کئے ۔

life
08-26-2012, 02:10 AM
لین پول :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بے مثل صلاحیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو متاثر کر سکتے تھے اس بے پناہ صلاحیت کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیر کی سربلندی کے لیے کیا ۔

ایل ۔ وی ۔ واگلیزی :
تعصب اور لاعلمی کی وجہ سے اگر دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مذہبی راہنما قبول کرنے سے کترائی ہے تو میں بھی پورے یقین سے دعویٰ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نہ ایک دن سب سے بڑے سماجی مصلح کی حیثیت سے دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔

اے ۔ جی ۔ لیونارڈ :
جسمانی اور اخلاقی پاکیزگی کے نقطہ نظر سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر نوع سے ایک جوہر تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی ، ذہنی اور روحانی پاکیزگی کی تعلیم فرماتے تھے آپ کی تعلیمات رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ جس سرعت سے اسلام کی فتح ہوئی وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاءنہایت اعلیٰ درجہ کے انسان رہے ہوں گے مذہب کو کامیابی اس کے راہنماؤں کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے ۔

life
08-26-2012, 02:10 AM
پروفیسر گسب :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا تمام نسل انسانی پر بڑا احسان ہے یہ حقیقت ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے اور عظیم انسان تھے ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا ۔

گبن یورپی مؤرخ :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے چاروں خلیفوں کے اطوار یکساں صاف اور ضرب المثل تھے ۔ عیسائی اس بات کو یاد رکھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں میں ایسا دینی جذبہ پیدا کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیروکاروں میں بھی یہ جذبہ تلاش کرنا بے سود ہے ۔

اس کی بدولت نصف صدی سے کم عرصہ میں بھی اسلام بہت سی عالیشان اور سرسبز سلطنتوں پر غالب آگیا ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکایا جا رہا تھا تو ان کے پیروکار انہیں بچانے کی بجائے بھاگ گئے اور اس کے برعکس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اپنے مظلوم پیغمبر کے گردوپیش رہے اور ان کے بچاؤ کے لیے اپنی جانیں ، گھر بار تک خطرہ میں ڈال کر انہیں دشمنوں پر غالب کردیا ۔

life
08-26-2012, 02:11 AM
ڈاکٹر گستاؤلی بان فرانسی :
جس وقت ہم فتوحات عرب پر نظر ڈالیں گے اور ان کی کامیابی کے اسباب کو ابھار کر دکھائیں گے تو معلوم ہو گا کہ اشاعت مذہب میں تلوار سے مطلق کام نہیں لیا گیا ۔ کیونکہ مسلمان ہمیشہ مفتوح اقوام کو اپنے مذہب کی پابندی میں آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگر اقوام نے دین اسلام کو قبول کیا تو اس وجہ سے کہ اپنے قدیم حاکموں کی نسبت ان مسلمانوں کے حاکم میں انصاف پایا گیا ۔ اور ان کے مذہب کو اپنے مذہب سے زیادہ سچا اور سادہ پایا ۔

جون ڈیون پورٹ :
یہ خیال کہ قرآنی مذہب تلوار کے ذریعے سے شائع ہوا تھا بالکل غلط ہے کیونکہ ہر ایک منصف مزاج اور غیر متعصب یہ معلوم کر سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب نے انسان کی قربانی اور خون ریزی کی جگہ نماز و زکوٰۃ قائم کی ، ہمیشہ کے جھگڑوں کی جگہ باہمی اخلاق و محبت کی بنیاد ڈالی ۔ حقیقت میں یہ مذہب اہل مشرق کے لیے سرتاپا برکت تھا ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس قدر خون ریزی نہیں کی جس قدر موسیٰ علیہ السلام کو بت پرستی کی بیخ کنی کے لیے کرنی پڑی ۔

life
08-26-2012, 02:11 AM
مہاتما گاندھی :
اسلام دین باطل نہیں ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئیے تا کہ میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں ، میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا ۔ بلکہ اس کی اشاعت کا ذمہ دار رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان ، ایثار ، اور اوصاف حمیدہ تھے ۔ ان اوصاف حمیدہ نے لوگوں کے دلوں میں محبت ، اخلاق ، بھائی چارہ کا عظیم جذبہ بیدار کر دیا ۔ یورپی اقوام جنوبی افریقہ میں اسلام کو سرعت کے ساتھ پھیلتا دیکھ کر خوف زدہ ہیں ۔

آکسفورڈ عالم :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس کے سوانح نگاروں میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے ۔

life
08-26-2012, 02:11 AM
مسٹری کونٹ ہنری :
عقل حیران ہے کہ قرآن حکیم جیسا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل امی تھا ۔ ( e ) تمام مشرق نے اقرار کر لیا ہے کہ نوع انسانی لفظ و معنی ہر لحاظ سے اس کی نذیر پیش کرنے سے عاجز ہے ۔

پادری دال ریلین بی ڈی :
مسلمانوں کا مذہب جو قرآن کا مذہب ہے ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔

life
08-26-2012, 02:11 AM
لین پول :
روئے زمین پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دور اندیش اور صاحب بصیرت انسان کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا ۔

جارج برنارڈشا :
ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت و تعصب کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی ۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے خلاف منظم تحریک چلائی یہ سب راہب اور منصف غلط کار تھے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے ۔

میری یہ خواہش ہے کہ اس صدی کے آخر تک برطانویوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مجموعی طور پر اپنا لینی چاہئیں انسانی زندگی کے حوالے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار و نظریات سے احتراز ممکن نہیں ۔

life
08-26-2012, 02:11 AM
پنولین :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے پندرہ برس کے عرصہ میں عرب کے لوگوں نے بتوں اور جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی مٹی کے بت اور دیوتا مٹی میں ملا دئیے ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سبب ہوا ۔

جی ایم دیکارٹ :
انسانی تاریخ میں کسی قوم کا نامہ اعمال اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اتنا سیاہ نہیں جتنا کہ یہودیوں کا ہے مغربی مؤرخ اور عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہودیوں پر مظالم کا پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے حالانکہ اس پراپیگنڈہ میں نہ صداقت ہے نہ غیر جانبداری ۔

یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کیا اس کے بعد مہاجر اور انصار میں تفرقے اور عناد کا بیج بونے کی کوشش کی مگر دنیا کا کوئی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ایسے معاشرے اور سماج کی بنیاد نہ رکھ سکا ۔ جو مثالی ہو اور آنے والے وقت کے لیے مشعل راہ ہو ۔

life
08-26-2012, 02:12 AM
واشنگٹن ارونک :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظیم سپہ سالارا اور شجاع تھے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اپنے دین کو فروغ دینا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکمران بنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دین الٰہی کی بالادستی چاہتے تھے ۔

ڈی ۔ ایس مارکولیوتھ :
جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو ان کا مشن ادھورا نہیں تھا بلکہ اپنے روحانی اور سیاسی مشن کی تکمیل انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کر لی تھی

life
08-26-2012, 02:12 AM
بی سمتھ :
کسی مذہبی راہنما اور مذہب کی حقیقت کا اندازہ اس کے نام لیواؤں اور پیروکاروں کے اعمال سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 632 ءمیں خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے زمانے میں یروشلم فتح ہوا مسلمانوں کا اس پر قبضہ ہوا یروشلم میں کسی گھر یا مکان کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ۔ سوائے میدان کار زار کے ، اور کہیں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا گیا ۔

آرڈبلیو سٹو ہارٹ :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے خصوصاً دن میں پانچ بار ، فیض ، دہلی ، حجاز ، ایران ، کابل ، مصر ، شام.... ( الغرض پوری دنیا ) میں جب دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں تو تسلیم کر لیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سچا ہے زندہ ہے اور زندہ رہے گا ۔

پنڈت ہری چنداختر :
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کسی نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دریتیم
اور بندوں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
کہہ دیا لاتقنطوا اختر کسی نے کان میں
آدمیت کا عرض ساماں مہیا کر دیا
اور دل کو سر بسر محو تمنا کر دیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا

life
08-26-2012, 02:12 AM
جناب ضیاءالرحمن عباسی

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم: عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم غیروں کی نظر میں

life
08-26-2012, 02:12 AM
فضائلِ درودوسلام و توصیف و ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ. يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاOالاحزاب، 33 : 56)


’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘

درود وسلام اور عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اس کے بعد مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر درود و سلام بھیجو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ جو بطورِ خاص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان، علو مرتبت اور مقام رفیع کے اظہار کے لئے نازل کی گئی ہے اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے خبر دی ہے کہ

اِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.

’’بیشک اﷲتعالیٰ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘

اسکے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے حضرت ابو العالیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ

صَلٰوۃُ اﷲ ثَنَآءُ ہُ عَلَيہِ عِندَ المَلٰئِکَۃِ ’’اﷲ تعالیٰ ملائکہ کے اجتماع میں اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے۔‘‘

life
08-26-2012, 02:12 AM
اِس خبر میں اﷲ رب العزت نے پہلے اپنا اور ملائکہ کا عمل بیان فرما کر ہمیں حکم دیا ہے کہ

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
’’اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک اس مقام کے سوا کسی جگہ پر بھی ایسا حکم نہیں دیا کہ حکم دینے سے پہلے وہ خبر دے کہ میں خود یہ کام کرتا ہوں اے مومنو! تم بھی یہ عمل کیا کرو، اس سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ

1۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عظمت و خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نصیب ہے جس کی کوئی اور مثال نہ پورے قرآن پاک میں ہے اور نہ ہی تمام انبیاء علیھم السلام میں سے کسی نبی اور رسول کے بارے میں اس طرح کی کوئی آیت نازل ہوئی۔

life
08-26-2012, 02:13 AM
2۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی عظمت کے اظہار کے لئے جو عمل منتخب کیا اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ خود شریک نہ ہوا بلکہ یہ عمل فرشتوں سے کروایا مگر جب اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرنے کا وقت آیا تو دنیا والوں کو واضح طور پر مطلع کر دیا کہ سنو! میرے محبوب کی شان ملاء اعلیٰ میں کیا ہے۔ وہاں پر ہر لمحہ، ہر گھڑی ایک ذکر ہوتا ہے جو اﷲ بھی کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔ اور وہ ذکر ، ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود تو اپنا ذکر نہیں کرتا اور نہ اپنی تسبیح بیان کرتا ہے بلکہ وہ صرف ایک ہی ذکر کرتا ہے جس کے متعلق قرآن حکیم میں کئی مقامات پر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر لحظہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرتا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا :

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَo(الم نشرح، 94 : 4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملاکر دنیا و آخرت ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

life
08-26-2012, 02:13 AM
اور دوسرے مقام پر فرمایا :

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.(الاحزاب، 33 : 56)
’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں‘‘

امام بخاری نے حضرت ابو العالیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ

صَلٰوۃُ اﷲ ثَنَآءُ ہُ عَلَيہِ عِندَ المَلٰئِکَۃِ ’’اﷲ تعالیٰ ملائکہ کے اجتماع میں اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے۔‘‘

life
08-26-2012, 02:13 AM
کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وہی جانے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی شان کے مطابق علم تھا کہ میں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا ہے لہٰذا پہلے ہی یہ نام رکھ دیا ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)‘‘ یعنی وہ ذات جس کی بار بار او بے حدو حساب تعریف کی جائے۔

مذکورہ حدیث میں صَلٰوۃُ اﷲ ثَنَآءُ ہُ عَلَيہِ عِندَ المَلٰئِکَۃِ (ملائکہ کے سامنے شان بیان کرنا) سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے بے حد و حساب اجتماع میں اﷲ پاک ان کے سامنے اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرتا ہے گویا سارا عرش، مالائے اعلیٰ اور پوری کائنات گوشۂ درود ہے جس میں اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو بلا کر ارشاد فرماتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ اور مومنین کو بھی حکم دیتا ہے ۔ مومنو ! میرے محبوب کی ثناء کیا کرو، اور ہمیشہ کیا کرو (ہمیشگی کا معنی خود اللہ تعالی کے عمل سے ثابت ہے) اور سلام ایسے پڑھا کرو جیسا کہ سلام پڑھنے کا حق ہے۔ یعنی پوری تعظیم و تکریم کے ساتھ سلام پیش کیا کرو۔

life
08-26-2012, 02:13 AM
فرشتوں کو درود میں ساتھ ملانے اور مومنو کو حکمِ درود وسلام کا سبب

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اﷲتعالیٰ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ فرشتوں کو بھی ساتھ ملائے کیا اس کا اپنا درود بھیجنا اور ثناء و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنا کافی نہیں ہے؟

اس سوال کا جواب امام رازی رحمۃ اللہ علیہ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ جن پر باری تعالیٰ ہر وقت درود بھیجتا رہتا ہے انہیں کسی اور کی کیا محتاجی ہے وہ فرشتوں کو اس لئے ساتھ ملاتا ہے تاکہ فرشتوں کو بھی ایسا کرنے سے شرف و عزت ملے جب اﷲ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو آقا علیہ السلام کو عزت ملتی ہے مگر جب فرشتے اور مخلوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ثناء و توصیفِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں تو اس سے خود یہ عمل کرنے والوں کو عزت ملتی ہے۔ ان کی اپنی شان بلند ہوتی ہے۔

حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ’’جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے اپنے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔‘‘ یعنی اس کی اپنی بخشش ہوتی ہے، اس کے لئے جنت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

life
08-26-2012, 02:14 AM
دوسری حدیث میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ’’جو مجھ پر جتنی کثرت سے درود پڑھتا ہے قیامت کے دن اس کو اتنی ہی میری قربت نصیب ہو گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایسا فرمان نہیں ملتا کہ تمہارے درود و سلام سے میری عزت و تکریم بلند ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائدہ صرف اﷲ تعالیٰ کے درود کا ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا درود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ایک سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی آیت کے تحت فرمایا ہے کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے آقا علیہ السلام پر درود بھیجنے اور ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل کیا تاکہ مومن بھی شفقت و رحمت کے مستحق ٹھہریں۔

life
08-26-2012, 02:14 AM
درود شریف قطعی القبول عمل

یاد رکھیں! کوئی عمل اور عبادت ایسی نہیں جس کا قبول ہونا حتمی اور قطعی ہو جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، جہاد و دیگر اعمال صالحہ اور ہر عبادت ظنی القبول ہے چاہے مولا قبول کرے چاہے نہ کرے مگر درود و سلام ایسا عمل ہے جو قطعی القبول ہے ادھر درود پڑھنے والے نے درود پڑھا اور ادھر اسی لمحے اسے شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ بڑے سے بڑ ے فاسق وفاجر اور بڑے سے بڑے گناہ گار کا نیک عمل رد کر دیا جاتا ہے مگر درود و سلام بر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز رد نہیں ہوتا کیونکہ اس کا عامل اور کرنے والا اس بندے کی اپنی ذات نہیں بلکہ خدا تعالی کی ذات ہوتی ہے اسی لئے یہ قطعی القبول ہے۔ کیونکہ جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو ہمارے آقا محمد مصطفی پر اپنی شان کے لائق درود بھیج ۔ تو اللہ تعالی تو یہ عمل پہلے ہی سے کر رہا ہوتا ہے ۔ سو بندے کی دعائے درود بھی فوراً اس عمل کا حصہ بنتی ہے اور شرف قبولیت پا جاتی ہے۔

life
08-26-2012, 02:14 AM
درودوسلام کا اجر وثواب

ایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک بار حضور نبی اکرم سےعرض کی کہ یا رسول اللہ ! مجھے اللہ تعالی نے ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ میں کائنات کے درختوں کے پتے گن سکتا ہوں، میں بارش کے پانیوں* کے قطرے گن سکتا ہوں اور میں زمین کے ذرات تک گن سکتا ہوں۔ لیکن یارسول اللہ ایک چیز ایسی ہے جو میں نہیں* گن سکتا۔ اور وہ یہ ہے کہ جب آپکا کوئی امتی آپ پر درود بھیجتا ہے اور اللہ تعالی کی رحمت جب اس امتی پر برستی ہے ۔ میں اس رحمت کی وسعت کو اپنے احاطہء شمار میں نہیں لاسکتا۔
یعنی وہ رحمت اتنی بےبہا ہوتی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام بھی گن نہیں سکتے۔

اسی طرح ایک اور حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے

عن عبدالرحمٰن بن عوف، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : إني لقيت جبرائيل عليه السلام فبشرني و قال : إن ربک يقول : من صلي عليک صليت عليه، و من سلم عليک سلمت عليه، فسجدت ﷲ عزَّوجلّ شکرًا.

life
08-26-2012, 02:14 AM
( حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 735، رقم : 2019 ،2. عبد بن حميد، المسند، 1 : 82، رقم : 157 ،3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 371، رقم : 3753 ،4. هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 287، 5. منذري، الترغيب و الترهيب، 2 : 343، رقم : 5261 )

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک میں جبرئیل علیہ السلام سے ملا تو اس نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ بے شک آپ کا رب فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے میں بھی اس پر درود و سلام بھیجتا ہوں پس اس بات پر میں اﷲ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا۔‘‘

اب اگر ایک امتی شریعت کا فرائض و واجبات کی ادائیگی کے بعد ساری زندگی صرف دردوسلام کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اور تعریف و ثنائے مصطفیٰ* میں ہی ساری زندگی گذار دے تو اندازہ کر لیں کہ اللہ تعالی کے ہاں اسکے درجات کا عالم کیا ہوگا۔

جیسا کہ حضرت علامہ اقبال سے کسی نے “حکیم الامّت“ کا مقام حاصل کرنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم پر ایک کروڑ بار درودوسلام پڑھا تھا۔

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

سبحان اللہ ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں* اپنے محبوب پر زیادہ سے زیادہ درودوسلام پڑھنے اور حضور نبی اکرم کی تعریف و ثناء میں عمر گذار دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

life
08-26-2012, 02:19 AM
غم کا سال
(الرحیق المختوم صفحہ نمبر 165 تا 168)


ابوطالب کی وفات:
ابوطالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شِعَب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب سنہ ۱۰ نبوی میں ہوئی ﴿۱﴾۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے صرف تین دن پہلے ماہ رمضان میں وفات پائی۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیَّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں ابوجہل بھی موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘چچا جان: آپ لااِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کر سکوں۔’’ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: ‘‘ابوطالب! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رُخ پھیر لو گے؟’’
پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابوطالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ‘‘عبدالمطلب کی ملت پر’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔’’ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿آیت﴾ ﴿۲﴾
ترجمہ:
‘‘نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔’’
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی:
﴿آیت﴾
‘‘آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔’’

life
08-26-2012, 02:19 AM
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
﴿۱﴾ سیرت کے مآخذ میں بڑا اختلاف ہے کہ ابوطالب کی وفات کس مہینے میں ہوئی۔ ہم نے رجب کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ بیشتر مآخذ کا اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعب ابی طالب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ہوئی اور محصوری کا آغاز محرم سہ ۷ نبوی کی چاند رات سے ہوا تھا۔ اس حساب سے ان کی موت کا زمانہ رجب سہ ۱۰ نبوی ہی ہوتی ہے۔
﴿۲﴾ صحیح بخاری بات قصتہ ابی طالب ۵۴۸/۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابوطالب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حمایت و حفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے، لیکن وہ بذاتِ خود اپنے بزرگ آباؤ اجداد کی ملّت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پا سکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ‘‘آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ اپنے چچا کے کیا کام آسکے؟ کیونکہ وہ آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے ﴿دوسروں پر﴾ بگڑتے ﴿اور ان سے لڑائی مول لیتے﴾ تھے۔’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔’’ ﴿۳﴾
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ممکن ہے قیامت کے دن انھیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انھیں جہنم کی ایک کم گہری جگہ میں رکھ دیا جائے کہ آگ صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ کے۔’’ ﴿۴﴾

life
08-26-2012, 02:19 AM
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جوارِ رحمت میں:
جناب ابوطالب کی وفات کے دو ماہ بعد یا صرف تین دن بعد.... علی اختلاف الاقوال.... حضرت اُمّ المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا بھی رحلت فرما گئیں۔ ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت وہ ۶۵ برس کی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔ ﴿۵﴾
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفات میں رہیں اور اس دوران رنج و قلق کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تڑپ اٹھتیں، سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت پہنچاتیں، تبلیغِ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک کار رہتیں۔ اور اپنی جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی و غمگساری کرتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

life
08-26-2012, 02:19 AM
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۳۔۴ : صحیح بخاری باب قصتہ ابی طالب ۵۴۸/۱
۵ : رمضان میں وفات کی صراحت ابنِ جوزی نے تلقیح الفہوم ص ۷ میں اور علامہ منصور پوری نے رحمتہ اللعالمین ۱۶۴/۲ میں کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں، جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انھوں نے میری تصدیق کی جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انھوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد دی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔ ’’ ﴿۶﴾
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ‘‘اے اللہ کے رسول ﴿ صلی اللہ علیہ وسلم﴾! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ تشریف لا رہی ہیں۔ ان کے پاس ایک برتن ہے۔ جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور و شغب ہو گا نہ درماندگی و تکان۔’’ ﴿۷﴾

life
08-26-2012, 02:20 AM
یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں غم و الم کے احساسات موجزن ہو گئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و الم میں اور اضافہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مایوس ہو کر طائف کی راہ لی کہ ممکن ہے وہاں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں، لیکن وہاں نہ کوئی پناہ دہندہ ملا نہ مددگار، بلکہ اُلٹے انھوں نے سخت اذیت پہنچائی اور ایسی بدسلوکی کی کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے ویسی بدسلوکی نہ کی تھی۔

life
08-26-2012, 02:20 AM
یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہو گا کہ اہلِ مکہ نے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ظلم و جور کا بازار گرم کر رکھا تھا اسی طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقا کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمدم و ہمراز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے، لیکن بَرکِ غماد پہنچے تو ابنِ دغنہ سے ملاقات ہو گئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس لے آیا۔ ﴿۸﴾
ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ابوطالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزو بھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مٹی ڈال دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپ کے سر پر پڑی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی نے اُٹھ کر مٹی دھوئی۔ وہ دھوتے ہوئے روتی جا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جا رہے تھے: ‘‘بیٹی! روؤ نہیں، اللہ تمھارے ابا کی حفاظت کرے گا۔’’ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے جا رہے تھے کہ ابوطالب کا انتقال ہو گیا۔ ﴿۹﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-26-2012, 02:21 AM
﴿۷﴾ صحیح بخاری باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ و فضلہا ۵۳۹/۱
﴿۸﴾ اکبر شاہ نجیب آبادی نے صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا تھا۔ دیکھئے تاریخِ اسلام ۱۲۰/۱، اصل واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ ابنِ ہشام ۳۷۲/۱ تا ۳۷۴ ۔ اور صحیح بخاری ۵۵۲/۱، ۵۵۳ میں مذکور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح کے پے درپے آلام و مصائب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کا نام عام الحزن یعنی غم کا سال رکھ دیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہو گیا۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے شادی:
اسی سال، شوال سنہ ۱۰ نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی۔ یہ ابتدائی دور میں مسلمان ہو گئی تھیں اور دوسری ہجرتِ حبشہ کے موقع پر ہجرت بھی کی تھی۔ ان کے شوہر کا نام سکران رضی اللہ عنہ بن عمرو تھا۔ وہ بھی قدیم الاسلام تھے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے انہی کی رفاقت میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی لیکن وہ حبشہ ہی میں اور کہا جاتا ہے کہ مکہ واپس آکر انتقال کر گئے، اس کے بعد جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کی عدت ختم ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شادی کا پیغام دیا اور پھر شادی ہو گئی۔ یہ حصرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد پہلی بیوی ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی۔ چند برس بعد انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔ ﴿۱۰﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-26-2012, 02:21 AM
طائف کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ایک بہت اہم سفر ہے جس سے ہم بہت سبق اور نصیحتیں حاصل کر سکتے ہیں آئیے ہم مل کر اس سفر کا مطالعہ کرتے ہیں::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف

مکہ مکرمہ میں دس سال تک لگاتار تبلیغ دین کرنے کے باوجود حالات حوصلہ افزا نہیں ہوئے ، ابوطالب جیسے مشفق چچا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی مہربان رفیق زندگی کے سفر آخرت سے مکہ میں تبلیغ تو الگ وہاں رہنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے محال ہوچکا تھا چنانچہ شوال سنہ 10 نبوت کے آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے ۔ یہ مکے سے نجران کی جانب90 کلومیٹر دور پہاڑوں پر واقع خوشگوار آب و ہوا والا شہر ہے ۔ آپ نے یہ مسافت جاتے ہوئے پیدل طے فرمائی تھی ۔ آپ کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ راستے میں جس قبیلے سے بھی گزر ہوتا ۔ اسے آپ اسلام کی دعوت دیتے تھے لیکن کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی ۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ۔ آ پ نے ان تینوں کو اسلام کی مدد کرنے اور اللہ و رسول کی اطاعت کی دعوت دی ۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے گااگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو تو ۔ دوسرے نے کہا کیا اللہ کو تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ۔ اگر تم واقعی نبی ہو تو تمہاری بات رد کرنامیرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھاہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیئے ۔ یہ جواب سن کر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صرف اتنا فرمایا ” تم لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اسے اپنے تک ہی محدود رکھنا ۔

life
08-26-2012, 02:22 AM
رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن قیام فرمایا ۔ اس دوران آپ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور ہرایک سے گفتگو فرمائی لیکن سب کاایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاوکچھ دنوں کے بعد انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہہ دے دی ۔ چنانچہ آپ نے واپسی کاقصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے ، اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے ۔ اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی ۔ پھر گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ پتھر بھی چلنے لگے ۔ جس سے آپ کی ایڑیوں پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہوگئے ۔ ادھر حضرت زید بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے ۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی ۔ بدقماشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ آپ عتبہ اور شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ۔ یہ باغ طائف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع تھا ۔ جب آپ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی ۔ اور آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے ۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ کس قدر دلفگار تھے اور آپ کے احساسات پر حزن و الم اور ہم و غم کا کس قدر غلبہ تھا ۔

life
08-26-2012, 02:22 AM
دعائے مستضعفیناللھم اني اشکوا اليک ضعف قوتي وقلة حيلتي وھواني علي الناس برحمتک يا رب العالمين انت رب المستضعفين وانت ربي الي من تکلني الي بعيد يتجھمني او الي عدو ملکتہ امري ان لم يکن بک غضب علي فلا ابالي ولکن عافيتک اوسع لي من ذنوبي اسئلک بنور وجھک الذي اشرقت لہ الظلمت وصلح عليہ امر الدنيا والاخرة من ان يحل بي سخطک او ينزل علي عذابک لک العتبي حتي ترضي ولاحول ولا قوة الا بک

بار الٰہا! میں تجھ سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ پیش کرتاہوں ۔ اے ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا رب ہے ۔ اور تو میرا بھی رب ہے ۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ۔ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ لیکن تیری عافیت کی نظر کرم میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں ” جس سے تاریکیاں روشن ہیں اور جس کی برکت سے دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں “ کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرنے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو ، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں “ ( ابوداود فی الادب ( 301/5 حدیث رقم 5052 من حدیث علی ) قال المناوي في شرح ھذا الحديث ” ھذا يسمي دعاءالطائف ذالک ان النبي صلي اللہ عليہ وسلم لما مات ابوطالب اشتد اذي قومہ فخرج الي الطائف رجائ ان ياووہ وينصروہ فاذاقوہ اشد من قومہ)

life
08-26-2012, 02:22 AM
ابنائے ربیعہ کے باغ میںادھر آپ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت زار میں دیکھا تو ان کے جذبہ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا ، بلا کر کہا کہ اس انگور کا ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آو ۔ جب اس نے انگور آپ کی خدمت میں پیش کیے تو آپ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اورکھانا شروع کردیا ۔ عداس نے کہا یہ جملہ تواس علاقے کے لوگ نہیں بولتے ۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کاباشندہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا اچھاتوتم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو ۔ تو اس نے پوچھا آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں ؟ فرمایا وہ میرے بھائی تھے ۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ یہ سن کر عداس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ کے سر ، ہاتھوں اورپاوں کو بوسہ دیا ۔ یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا لو : اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا ۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا ۔ یہ کیا معاملہ تھا ۔ اس نے کہا میرے آقا روئے زمین پر اس شخص سے بہترکوئی اور نہیںہے ۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ان دونوں نے کہا ۔ دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے ۔ کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے ۔

life
08-26-2012, 02:22 AM
مکے کی طرف روانگیقدرے ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پہر چل پڑے ۔ غم و الم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا ۔ قرن منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا ۔ وہ آپ سے یہ گزارش کرنے آیا تھا کہ آپ حکم دیں تو وہ ان مجرموں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے ۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عز وجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کردے گا ۔ جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی ۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی ۔

صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے بھی زیادہ سنگین رہا ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے سب سے سنگین مصیبت طائف کے دن ہوئی جب وہاں کے سرداروں نے میری تکذیب کی ، اورمجھے طائف سے باہر نکلنا پڑا حتی کہ قرن الثعالب پہنچ کرجبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے پہاڑوں کے فرشتے کو مجھ پر پیش کیا اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ حکم دیں تو انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں تو میں نے کہا نہیں مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گاجوصرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔

life
08-26-2012, 02:22 AM
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب میں آپ کی یگانہ روزگار شخصیت اور ناقابل ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ بہرحال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپ کا دل مطمئن ہوگیااور غم و الم کے بادل چھٹ گئے ۔ چنانچہ آپ نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی نخلہ میں جا فروکش ہوئے ۔ یہاں دو جگہیں قیام کے لائق ہیں ۔ ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ ، کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے ۔ لیکن کسی ماخذ سے پتہ نہیں چل سکا کہ آپ نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا ۔
جنوں کا ایمان لاناوادی نخلہ میں آپ کا قیام چند دن رہا ۔ اس دوران میں حق تعالیٰ نے آپ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی جس کاذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ الاحقاف میں اور دوسرے سورہ جن میں ۔ سورہ الاحقاف کی آیات یہ ہیں ۔
واذ صرفنا اليک نفرا من الجن يستمعون القران فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضي ولو الي قومھم منذرينo قالوا يقومنا انا سمعنا کتابا انزل من بعد موسي مصدقا لما بين يديہ يھدي االي الحق والي طريق مستقيمo قالوا يقومنا اجيبوا داعي اللہ وامنوا بہ يغفرلکم من ذنوبکم ويجرکم من عذاب اليمo
اور یاد کرو! جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا تاکہ وہ قرآن سنیں‘ پس جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو آپس میں کہنے لگے خاموش ہو جاؤ ‘پھر جب وہ پڑھا جاچکاتو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے واپس پلٹ گئے ( 29 ) کہنے لگے اے ہماری قوم ! بے شک ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہبری کرتی ہے ( 30 ) اے ہماری قوم! داعی الی اللہ کی بات مانو‘ اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے معاف فرما دے گا اور تمہیں عذاب الیم سے پناہ دے گا ( 31 ) اور جو شخص اللہ کے داعی کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں عاجز نہیں کر سکتا‘اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مددگارہوں گے‘ یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ( 32 )

life
08-26-2012, 02:23 AM
یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ۔ ان کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہیں ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ عزوجل نے آپ کو اطلاع دی تب آپ واقف ہوئے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعدان کی آمدو رفت ہوتی رہی ۔

جنوں کی آمد اور قبول اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ کی جانب سے دوسری مدد تھی ۔ جو اس نے اپنے غیب مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بین السطور سے نبی پاک کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں ۔ اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میںحائل نہیں ہوسکتی ۔

چنانچہ ارشاد ہے ۔
ومن لا يجب داعي اللہ فليس بمعجز في الارض وليس لہ من دونہ اوليآء اولئک في ضلال مبين ( 46 : 32 )
اور جو شخص اللہ کے داعی کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں عاجز نہیں کر سکتا‘اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مددگارہوں گے‘ یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ( 32 )

life
08-26-2012, 02:23 AM
مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ الاحقاف سنہ10 نبوت کے آخر یاسنہ11 کے شروع میں نازل ہوئی ۔ اس میں جنوں کے نبی سے قرآن سن کر ایمان لانے کا ذکر ہے‘ جب آپ طائف تشریف لے گئے تھے تو واپسی پر وادی نخلہ میں چندروز ٹھہرے ۔ انہی ایام میں ایک روز آپ رات کو نماز میں قرآن کی تلاوت فرمارہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا ‘ انہوں نے قرآن سنا ایمان لائے اور واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی کہ انسان چاہے تمھاری دعوت سے بھاگ رہے ہوں مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں اور وہ اپنی جنس میں اسے پھیلا رہے ہیں ۔ طائف کا یہ سفر ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا !

اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم و الم اور حزن و مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپ پر چھائے ہوئے تھے ۔ آپ نے عزم مصمم کرلیاکہ اب مکے پلٹناہے اور نئے سرے سے دعوت اسلام اور تبلیغ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے ۔ یہی موقعہ تھا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی تھی کہ آپ مکے کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں نے آپ کو نکال دیا ہے ۔ اور جواب میں آپ نے فرمایا اے زید تم حالت دیکھ رہے ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا ۔ اپنے دین کی مدد کرے گااور اپنے نبی کو یقینا غالب فرمائے گا ۔

life
08-26-2012, 02:23 AM
رسول برحق کی بات پوری ہوئی
حق تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب کی یہ بات کیسے پوری فرمائی : ملاحظہ فرمائیے!
فتح مکہ کے بعد جب قبول اسلام کی لہر چلی تو طائف کے ان لوگوں میں بھی اسلام نے اپنا گھر کرلیا چنانچہ عروہ بن مسعود اورعبدیالیل کی بارگاہ نبوت میں حاضری کا تذکرہ یوں ملتا ہے ۔

عروہ بن مسعود ثقفی کی حاضری
غزوہ حنین کے بعدثقیف میں سے سب سے پہلے جو شخص اسلام کی غرض سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا وہ عروہ بن مسعود ثقفی تھا ۔ یہ اپنی قوم کا سردار تھا اور صلح حدیبیہ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تھا ۔ جنگ ہوازن و ثقیف کے بعد مدینہ منورہ حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا ۔ عروہ کی اس وقت دس بیویاں تھیں ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار رکھنے اور باقی کو فارغ کردینے کا حکم دیا ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ واپس ہوتے وقت اس نے اپنی قوم کو تبلیغ کرنے کی اجازت چاہی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خدشات ظاہر فرمائے تو اس نے کہا قوم میرا بڑا احترام کرتی ہے اس لیے کوئی خدشہ نہیں چنانچہ انہوں نے واپس آکر تبلیغ شروع کردی ۔ ایک دن اپنے بالاخانے میں نماز ادا کررہے تھے کہ کسی شقی القلب نے تیر مارا جس سے وہ زخمی ہوگئے اور اسی وجہ سے شہید ہوگئے ۔ لیکن جو آواز انہوں نے قوم کے کانوں تک پہنچائی تھی وہ دلوں پر اثر کیے بغیر نہ رہی ۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ قوم نے اپنے چند سرداروں کو منتخب کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ اسلام کی نسبت پوری واقفیت حاصل کریں ۔

life
08-26-2012, 02:23 AM
ثقفی قبیلے کا وفد
سردار عبدیالیل کا قبول اسلام

چنانچہ اسی وفد ثقیف کاسردار عبدیا لیل تھا جس کو سمجھانے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ10 نبوت میں طائف کا سفر کیا تھا ۔ اور اس نے آپ کی بات سننے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگادیا تھا جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ کو طائف سے نکال دیا تھا ۔ اس وقت نبی پاک نے ان کیلئے بددعا نہیں فرمائی تھی بلکہ اس امید کااظہار کیا تھا کہ اگر یہ لوگ نہیں تو ان کی نسلیں اسلام قبول کریں گی ۔ اب وہی دشمن اسلام خود بخود اسلام کیلئے اپنے دل میں جگہ پاتے اور بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یہ اہل ثقیف میری قوم کے لوگ ہیں ۔ کیامیں انہیں اپنے ہاں ٹھہرا لوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں انہیں ایسی جگہ اتارو جہاں قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑے ۔ تب ان کے خیمے مسجد میں لگائے گئے ۔ جہاں سے یہ لوگ قرآن بھی سنتے تھے اور لوگوں کو نماز پڑھتے بھی دیکھتے تھے ۔ اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی صداقت گھر کرگئی ۔ اگلی صبح وہ لوگ خدمت اقدس میں آئے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے ترک نماز کی رخصت چاہی ۔ آپ نے فرمایا اس دین میں کوئی بھلائی نہیںجس میں نماز نہیں ۔ پھر انہوں نے کہا ہمیں جہاد کیلئے نہ بلایا جائے اور نہ ہی ہم سے زکوٰۃ وصول کی جائے ۔ آپ نے خاموشی اختیار کیے رکھی کہ اسلام کے اثر سے یہ کام وہ خود بخود کرلیں گے ۔ اس طرح صرف دس سال کے اندراندراسلام کی وہ وعوت جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کیلئے10 نبوت میں طائف تشریف لے گئے تھے آج طائف میں بہار پیدا کرنے لگ گئی ۔ وللہ الحمد

life
08-26-2012, 02:23 AM
مکہ میں داخلہ اور پناہ کا حصول
ہم ایک بار پھر وہاں چلتے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ وسلم طائف والوں کے ظلم و ستم سے چور باغ ربیعہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ اب آپ مکے کی طرف روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کرکوہ حرا کے دامن میں ٹھہر گئے ۔ پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے بنو زہرہ کے سردار اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپ کو پناہ دے دے ۔ مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کااختیار نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ نے سہیل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا مگر اس نے بھی معذرت کرلی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہیں ہوتی ۔ اس کے بعد آپ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا ۔ مطعم نے کہا ہا ں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاو کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دے دی ہے ۔ اس کے بعد مطعم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر تشریف لے آئیں ۔ پیغام پانے کے بعد آپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے ۔ اس کے بعد مطعم نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دے دی ہے ۔ اب انہیں کوئی تنگ نہیں کرسکتا ۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حجر اسود کے پاس پہنچے اسے بوسہ دیا ۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے گھر پلٹ آئے ۔ اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپ کے گرد حلقہ باندھے رکھا تاآنکہ آپ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے ۔

life
08-26-2012, 02:24 AM
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطعم بن عدی کے اس حسن سلوک کو کبھی فراموش نہیں کیا ۔ چنانچہ بدر میں جب کفار کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی ۔ اور بعض قیدیوں کی رہائی کیلئے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا لوکان المطعم ابن عدی حیا ثم کلمنی فی ھٰولاءالنتنی لترکتھم لہ ( بخاری ) اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ۔ پھر وہ مجھ سے ان بدبو دار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا ۔

طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا اس کے بدلے میں حق تعالی نے آپ کو بہت کچھ عطا فرمایا معراج کاسفر انہی دکھوں کے مداوے کیلئے بھی تھا پھر ہجرت کے واقعات پیش آئے گویا ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ثابت ہوا ۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بہترنتائج والا ہوگا ۔

” قسم ہے چڑھتے دن کی
اور قسم ہے رات کی جب وہ پرسکون جائے
نہ تو تمھارے رب نے تمھیں چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوا
یقیناً تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے
اور قریب ہے کہ تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاو گے




سبحان اللہ کتنا مبارک سفر تھا اور کتنے صبر کا مظاہرہ کیا ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اللہ تعالی نے کتنا اچھا انعام دیا ہمارے نبی کو۔یہ مضمون الشیخ حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی کا لکھا ہوا ہے

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.