View Full Version : محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ایک خطبہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
برادران اسلام! نہ سعدی کی شوخی ، نہ جامی کا سوز ، نہ غزالی کا ذوق و وجداں، نہ خسرو کا دردِ عشق، نہ رومی کی ژرف نگاہی ، نہ اقبال کی ادائے دلبرانہ اور اندازِ قلندرانہ ، یہ سرا پا نقص اور مدحتِ سید الا نبیاء علیہ اطیب التحیتہ والثناء میں زبان کھولے تو کیسے ؟
وادیٔ ایمن کا یہ نخلِ بلند اور اس پر ہو شربا تجلیات کا جھُرمٹ ، یہ بحر کرم اور اس کی بے پناہ فیاضیاں، یہ مہر عالم افروز اوراس کی نور افشاں کرنیں، یہ مرقع حسنِ ازل اور اسکی عالمگیر دلربائیاں ’’ فاطر السمٰوٰت والارض، کا یہ شاہکارِ جمیل جو اپنی شانِ بندگی میں بے مثال اور اپنی شانِ محبوبی میں بے نظیر ۔ جس نے زندگی کو رموزِ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس نے انسان کو انسانیت کی خلعت زیبا سے نوازا، ایسے محبوب دلربا کی تعریف اور یہ دل باختہ قلم ! اس جمالِ حقیقی کا بیان اور کج مج زبان ۔ اس پیکر جو دو سخا کی ثنا اور یہ شکستہ دل ، بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔
لیکن اگر اس آئینہ حق نما کی توصیف نہ کریں ، تو کس کی کریں ! اس سراپا زیبائی کا تذکارِ حسن نہ ہو تو کیا ہو؟ اللہ رب العزت کے محبوب بندے کے عشق میں اگر گیت نہ گائیں تو کس کے گائیں۔ اس محسن کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا میں زبان زمزمہ سنج نہ ہو، تو پھرس کا مصرف کیا ہے۔ اگر قلم اس کی مدحت میں نغمہ سرا نہ ہو ، تو آخر وہ کیا کرے ؟ عقل اگر اس کی عظمتوں کو خراجِ عقیدت پیش نہ کرے ، تو کس کی عقیدت کا دم بھرے ۔ دل اگر اس کے عشق کا دیپ روشن نہ کرے اور اس کے درد اور سوز فراق میں نہ جلے تو اس کی ضرورت کیا ہے؟
راز دان طریقت و شریعت حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے ہی سب کے دل کی بات اپنے مخصوص انداز میں کہہ چکے ہیں۔
فَمَن شَائَ فَلیذ کُر جمال بثنیۃٍ
وَمَن شَائَ فَلیغزَ ل بِحُبِّ الزَّیانِب
’’ جس کا جی چاہے وہ بثنیہ کے حسن و جمال کا ذکر کرتا رہے اور جس کا جی چاہے دوسرے محبوبوں کے عشق کے گیت گائے ۔ ‘‘
سَأذ کرُ حُبِّی لِلحَبِیبِ مُحَمَّدٍ
اِذَا وَصَفَ العُشاقُ حُبَّ الحَبائِب
’’دوسرے عشاق اپنے معشوقوں کی توصیف میں رطب اللسان رہا کریں۔ میں تو اپنے حبیب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستانِ محبت ہی بیان کرتا رہوں گا۔ ‘‘
اب پھر بہار آ رہی ہے ۔عندلیبیں اور قمریاں پھر نواسنج ہونے والی ہیں۔ ربیع الاول کا چاند طلوع ہو رہا ہے۔ کئی حسین یادوں کو تازہ کرے گا۔ ان مبارک لمحوں کا ذکر چھڑے گا جب انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوا تھا۔ جب مظلوموں کا غمگسار تشریف فرما ہوا تھا۔ جب آمنہ کے کچے کوٹھے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے سمٹ آئے تھے اور ان خزانوں کو باذنِ الٰہی بانٹنے والا بلکہ لٹانے والا بڑی آن بان سے رونق افروز ہوا تھا۔
آئو ! سازِ محبت کو مضرابِ شوق سے چھیڑیں۔
آئو ! اس مہِ کامل کی تابانیوں کا ذکر کریں۔
آئو ! اس جہانِ بہار کے گیت گائیں اور روحِ کائنات کی لطافتوں کو آشکارا کریں۔
آئو ! خالق ذوالجلال کی اس نعمتِ عظمیٰ کو پہچانیں اور اس کی قدر کریں اگر اس کا عرفان نصیب ہو گیا تو دل و دماغ اور زبان سب مل کر اپنے پروردگار کا شکر ادا کریں اور جب حتی المقدور حق شکر ادا ہو گا تو اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ اس کی رحمت مائل بہ کرم ہوگی ۔ دل کی اجڑی ہوئی بستی آباد ہو جائے گی ۔ خود فراموشی اور خود شناسی خدا شناسی میں بدل جائے گی ۔ ’’ نَفَختُ فِیہِ مِن رُوحِی ۔‘‘ کی جلوہ سامانیاں بے نقاب ہو جائیں گی ۔
آئو ! پہلے اس سرِّنہاں کو خود سمجھیں ، پھر لوگوں کو سمجھائیں، اس نوید یمن و سعادت کو پہلے خود سنیں، پھر ترستی ہوئی دنیا کو سنائیں۔ اور انہیں بتائیں کہ جس کی تبسم ریزیوں سے من کی دنیا میں چمن آباد ہیں اس کی حکیمانہ تعلیمات سے تن کی دنیا کی حرماں نصیبیاں بھی دُور ہو سکتی ہیں ۔ جس کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو جانے سے عاقبت محمود ہوتی ہے۔ اس کے قدم ناز کے نقوش کو خضر راہ بنا کر ہم اس دنیا کو بھی فردوسِ بریں بنا سکتے ہیں ۔ جس نے روز محشر میں سرخرو ہونے کا راستہ بتایا ہے ۔ اس کی ہدایت پر عمل کر کے ہم مادی زندگی کے خار زاروں کو بھی گلستان بنا سکتے ہیں۔ اس کی اتباع سے ہم اپنے ربِّ کریم کو بھی راضی کر سکتے ہیں اور عروس گیتی کی اُلجھی ہوئی زلفوں کو بھی سنوار سکتے ہیں۔
آج کی صحبت میں مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ معاشیات کے سنگلاخ میدانوں اور اداس وادیوں میں جب اس رحمتوں اور برکتوں والے نبی مکرم نے قدم رنجہ فرمایا تو وہاں کس طرح عزت نفس کے چراغ روشن ہو گئے ۔ کس طرح حریتِ فکر و عمل کے پرچم لہرانے لگے۔ کس طرح عدل و احسان کے پھول کھلنے لگے اور انسان کی محرومیوں کا کس خوبی اور خوبصورتی سے درمان کر دیا گیا۔
انسان نہ صرف روح کا نام ہے نہ فقط جسم کا بلکہ دونوں کے مجموعے کو انسان کہا جاتا ہے۔ اس لئے نوعِ انسانی کا عالمگیر اور ابدی دین وہی ہو سکتا ہے جو روح اور جسم دونوں کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ جو دونوں کی نشو ونما اور بالیدگی کا ضامن ہو، دونوں میں باہمی کشمکش اور محاذ آرائی کو ختم کرے اور ان میں ایسی ہم آہنگی پیدا کر دے کہ دونوں ایک ہی راہ پر ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔ مذہب کے نام پر جو نظام ہا ئے حیات اس وقت موجود ہیں وہ مادی نظام ہائے فکر سے مات کھا چکے ہیں۔ اب یا تو وہ نجی زندگی کی چار دیواری میں پناہ گزیں ہیں اور پناہ گزینوں کی طرح ایک بے اثر اور غیر آبرو مندانہ زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ اور یاانہوں نے مادی نظاموں کے باطل افکار کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ اپنے ماننے والوں سے اب وہ یہ تقاضا نہیں کر سکتے کہ وہ بے راہ روی کو چھوڑ دیں، ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس مذہب کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے رکھیں ، اس کے بعد جو جی میں آے کریں۔ شراب پئیں ، جؤا کھیلیں، قمار بازی کے لئے عالیشان زینہ تعمیر کریں، شبینہ کلبوں میں دادِ عیش دیں، ننگے ناچ ناچیں، حیوانی جذبات کی تسکین کے لئے بے شک وہ غیر حیوانی طریقے اختیار کریں۔ حتیٰ کہ مرد مرد کے ساتھ برملا شادیاں رچائیں، انہیں قانونی جواز اور عدالتی تحفظ میسر آ جائے ۔ وہ سُودی کاروبار کریں، جس طرح جی میں آئے ضرورت مندوں کا خون چوستے رہیں۔ مذہب کوئی مزاحمت نہ کرے گا۔ مغربی یورپ اور امریکہ وغیرہ میں عیسائیت کی بے بسی اور مجبوری کو دیکھ کر باشعور انسان کی آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔
رہے موجودہ دور کے مادی نظام ، تو ان کے علمبردار وں کے نزدیک انسان کے انسانی پہلو کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ انہوں نے اس کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ رہا انسان کا حیوانی پہلو تو اس میں بھی سرمایہ داری اور اشتراکیت کے نظاموں میں جو خوفناک تصادم برپا ہے، اس نے انسانیت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے بلکہ اس کی ہڈیاں پیس کر رکھ دی ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کے لئے اپنے جنگی ذخائر میں ہر آن مہلک ترین اسلحہ کا اضافہ کرتے جا رہے ہیں جب بھی کسی نے بٹن دبایا، تو دنیا بھر میں ایک کہرام مچے گا جو مشرق و مغرب دونوں کو تباہ و برباد کر دے گا۔
نظام سرمایہ داری اگر انسان کی محنت اور عرق ریزی کو کوئی وقعت نہیں دیتا تو اشتراکی کیمپ انسان کی حریت ضمیر اور آزادی فکر کو برداشت نہیں کرتا اور اسے آ ہنی زنجیروں میں جکڑ دینے کے در پے ہے۔
اس ہنگامۂ دارو گیر میں کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے ، تو وہ سید کائنات فخرِ موجودات محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین فطرت ہے، جسے ہم اسلام کے نام سے پہچانتے ہیں میں یہاں بڑے اختصار کے ساتھ ان خطوط کا اجمالی تذکرہ کروںگا جو اس دین حنیف نے انسانی زندگی کو متوازن ، خوشحال ، پاکیزہ اور بابرکت بنانے کے لئے پیش کئے ہیں۔
دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے انسان کی جسمانی زندگی ، اس کے تقاضوں اور اس کی مادی ضرورتوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا ، یہ نہیں کہا کہ آخرت کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ترک دنیا ناگزیر ہے ۔ اپنے ماننے والوں کو جنگلوں ، پہاڑوں ، ویران جزیروں میں بھاگ جانے کی ہرگز اجازت نہیں دی ۔ اسلام کے نزدیک انسان میں مستور ممکنہ قوتیں فقط اسی وقت بیدار ہوتی ہیں جب وہ کشمکش حیات میں بھرپور حصہ لیتا ہے ۔ اس کی توانائیوں کی آزمائش کے لئے حادثات سے ٹکرانا ضروری ہے۔ زندگی کی گراں باریوں سے نجات حاصل کر کے کسی گوشۂ عافیت میںپناہ لینا مومن کے لئے جائز نہیں، اس کے ہادیٔ برحق نے وضاحت سے فرما دیا۔ ’’ لارہبانیۃ فی الاسلام ‘‘ اس لئے قرآن کریم میں اور احادیث نبوی میں بڑے شوق آفرین انداز میں کسبِ مال اکتساب دولت اور حصول منفعت کی دعوت د ی گئی ہے۔ ارشادِ گرامی ہے۔’’ فاذ اقضیتِ الصلٰوۃ فانتشر وافی الارض وا بتغوا من فضل اللّٰہ ۔‘‘ یعنی جب نماز سے فارغ ہو جائو تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو۔ چنانچہ اس آیت میں مال کو فضلِ الٰہی فرما کر اس کی عزت افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح سورۂ فاطر میں ارشاد ہے:
’’وتریٰ الفلک فیہ موا خرلِتَبتغُو امن فضلہ و لعلکم تشکرون ۔
یعنی تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ وہ پانی کو چیر کر جا رہی ہیں۔ تا کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تا کہ اس کا شکر ادا کر سکو۔
یہاں بھی مال کو اپنا فضل فرمایا ہے سورۂ نساء میں مال کو زندگی کا سہارا کہا گیا ہے اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے اموال احمقوں اور نادانوں کے سپرد نہ کردو تا کہ وہ سوئے تصرف سے تمہیں زندگی کے اس سہارے سے محروم نہ کر دیں۔ ارشادِ خدا وندی ہے۔
ولا تُئوتُو السفہا ء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً۔(النّسآء۔۵)
احادیث طیبہ میں بھی مسلمانوں کو کسبِ حلال کی رغبت دلائی گئی ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’ طَلب الحلالِ واجب عَلٰے کُل مسلم ۔‘‘ رزق حلا ل کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایک اور مقام پر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ طوبٰی لمن طاب کسبہ و صلحت سریر تہ و کرمت علانیۃ وعزل عن الناس شرّہ۔‘‘
وہ انسان بڑا فیروز بخت اور ارجمند ہے جس نے پاکیز ہ مال کمایا ۔ جس کا باطن نیک اور جس کا ظاہر محترم ہے۔ اور اس نے لوگوں کو اپنی شرانگیزی سے محفوظ کر دیا۔
آپ نے ایک صحابی کے ہاتھ کو دیکھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے سے سُوج گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : ’’ تلک ےَدُ‘ یحبہا اللّٰہ ورَسُولہ ۔‘‘ یعنی کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے ہے ۔ ان احادیث اور آیات سے واضح ہو گیا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسبِ مال سے روکتا نہیں ہے، بلکہ رغبت دلاتا ہے اور ان کی جدوجہد کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن اسکے باوجو د وہ مال کمانے کی کھلی اجازت نہیں دیتا بلکہ اکتسابِ مال کے بعض ذرائع کو جائز قرار دیتا ہے اور بعض کو ناجائز ۔ وسائل معاش میں جائز اور ناجائز، حلال اور حرام کی اساس یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع جن میں دوسرے شخص کی ضرورت ، مجبوری ، سادہ لوحی یا نا تجربہ کاری سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہو یا دھوکہ دہی یا جبر سے کسی کا مال ہتھیا لیا گیا ہو، وہ تمام وسائل شریعت میں ممنوع اور خلافِ قانون ہیں ۔ سُود ، جؤا ، ذخیرہ اندوزی ، رشوت ، بلیک مارکیٹنگ ، اور دیگر ہر قسم کی دھاندلیاں اسلام کے نزدیک حرام ہیں۔ ان ذرائع سے کمایا ہوا روپیہ اگر خدا کی راہ میں بھی خرچ کر دیا جائے تو اس کی پذیرائی نہیں ہوتی ۔ ایسے رزق سے جسم میں قطرہ خون بنتا ہے جو گوشت پوست کی صورت اختیار کرتا ہے۔ ارشادِ مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق وہ جہنم میں جلایا جائے گا۔ حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ لا یغبطن جامع المال من غیر حلّہ اوقال من غیر حقہ فانہ ان تصدّق بہ لم ےُقبل منہ وما بقی کان زادہ الی النار ۔ ‘‘
وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہو گا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی ۔ اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لئے زادِ راہ ثابت ہو گا۔
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ یا کعب بن عجرۃ انہ لاید خل الجنۃ لحمُ‘ بَنَتَ من سُحتٍ۔‘‘
اے کعب بن عجرہ ، وہ گوشت جو حرام رزق سے پیدا ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
دولت کی کثرت اور فراوانی قلب و ذہن میں بسا اوقات بڑے ناخوشگوار تاثرات پیدا کر دیتی ہے۔ کم ظرف انسان دولت ہی کو شرفِ انسانی کا معیار سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو دولت میں ان سے فروتر ہو، ان کی نگاہوں میں گھٹیا اور حقیر دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ ہر شخص جو ان سے زیادہ دولت مند ہوتاہے وہ انہیں معظم و محترم نظر آنے لگتا ہے۔ دولت کی حرص تیز تر ہو جاتی ہے ۔ وہ دولت آفرین ہاتھوں کو صحیح معاوضہ دینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر معصوم عصمتوں کو داغدار اورمحترم حقوق کو زک پہنچانے سے باز نہیں آتا ۔ وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ زیرک اور دانش ور شمارکرنے لگتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ فتور بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہی برگزیدہ خلائق ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتاہے بارگاہِ الٰہی سے اسے سندِ جواز حاصل ہے۔ وہ ملکی دولت کے سارے سوتوں کا رخ زور و جبر سے یا مکرو فریب سے اپنی طرف پھیرنے میں سر گرم ہو جاتاہے۔ اس کی آتشِ جوع ہر دم بھڑکتی رہتی ہے، اس کی تشنہ لبی میں ثروت کی بے پناہ کثرت کے باوجود کوئی کمی نہیں آتی ۔ اسلام ایسے انسان کو اپنے معاشرے میں ہرگز گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماننے والوں کی ابتداء سے ہی ایسی تربیت کرتا ہے اور ان کو ایسی راہ پر گامزن کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایسا کوئی مر حلہ نہ آئے جب وہ دوسرے انسانوں کی شرافت اور احترام کو صرف دولت کے معیار پر پرکھنے کا خوگر ہو جائے ۔ وہ تمام وسائل جن کی وجہ سے دولت کا بہائو کسی فرد واحد یا معاشرہ کے ایک مخصوص طبقہ کی طرف مُڑ جاتا ہے ، اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے ۔ وہ ممالک جہاں سرمایہ داری کا عفریت اپنے ہم وطنوں کا خون چوس رہا ہے ۔ اور ضرورت مندوں کی ہڈیوں کو چبا رہا ہے ۔ اگر ان کے حالات کو آپ بنظرِ غائر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ دولت کی اس غیر متوازن بلکہ ظالمانہ تقسیم میں ان وسائلِ معاش کا ہی عمل دخل ہے ، جنہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔ جو قوم یا جس ملک کے باشندے اسلامی وسائلِ معاش کی اس تقسیم پر ایمان رکھتے ہیں ، اور حرام ذرائع سے ایک پائی کمانا بھی جرم تصور کرتے ہیں ۔ وہاں کے معاشرہ میں دولت کی یہ ظالمانہ تقسیم آپ کو نظر نہیں آئے گی۔
دوسرے مذہبوں کے برعکس اسلام کا اندازِ اصلاح یہ نہیں کہ پہلے غلاظت کے ڈھیڑوں کو جمع ہونے کی کھلی چھٹی دے ۔ اور جب ان کی عفونت سے دماغ پھٹنے لگے، تو ان غلاظت کے ڈھیروں کو دور کرنے کی مجنونانہ مہم میں تخریب کاری کو روا رکھنا شروع کر دے۔ ابتدا میں مرض کا سدِ باب نہ کیا۔ جب جسم کے ہر حصے کو وہ متاثر کر چکیں تو پھر اس کے علاج کے لئے قطع و برید کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسلام ان راستوں کو ہی بند کر دیتا ہے اور ان دروازوں کو ہی مسدود قرار دیا ہے جہاں سے اس قسم کی خرابیاں معاشرے میں داخل ہوتی ہیں۔ اگر ایک سُود کو کسی ملک میں حتمی طور پر بند کر دیا جائے تو وہاں چند دنوں میں سرمایہ داری کا ظالمانہ نظام دم توڑ دے گا۔ اگر رشوت ، جوا بازی ، ذخیرہ اندوزی کی لعنتوں سے کوئی قوم اپنا دامن بچا لے تو معاشی نا ہمواریاں اور خوفناک نشیب و فراز کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اسلام نے وہ تمام راہیں بند کر دیں جن کے ذریعے سرمایہ داری کو غذا پہنچتی ہے۔ اور اس کا دیو انسانی شرافت کے مقدس اور نورانی میناروں کو پامال کرنے کی تدبیریںسوچنے لگتا ہے۔
پاکستان میں بھٹو حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے بائیس خاندانوں کے خلاف بڑا شور مچایا گیا۔ ان کو وطن کا غدار ، غریبوں کے حق غضب کرنے والا، محنت کش طبقہ کا خون چوسنے والا اور معلوم نہیں کن کن القاب و خطابات سے نوازا گیا۔ لیکن اس تحریک کے علمبردار وں کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ ان اسباب و عوامل کا تجزیہ کریں جن کی وجہ سے بائیس خاندان معرضِ وجود میں آے ۔ کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پاکستان کی معاشی حالت زبوں سے زبوں تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف بائیس (۲۲) خاندان تھے اب کئی سو بلکہ کئی ہزار قسم کے مگر مچھ پیدا ہو گئے۔ جو عوام کی ہڈیوں کو چبانا اپنا پیدائشی حق تصور کرنے لگے ہیں ۔ جب تک حکومت ایسے بالغ نظر اور تعلیماتِ اسلامی پر یقین محکم رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ آئے گی، اصلاحِ احوال کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں خدا نخواستہ اگر یہ لوگ سینکڑوں سال تک بھی ایوانِ اقتدار میں فروکش رہیں تو یہ عوام کی حالت کو سُدھار نہیں سکتے ۔
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب مقدس نازل ہوئی تھی اس میں بار بار سرمایہ دارانہ ذہن کی سفاکیوں ، فتنہ انگیزیوں اور مفسدہ پردازیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشا د خدا وندی ہے :
’’ واذ ااردنا ان نہلک قریۃ امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فد مرناہا تد میرا ۔‘‘ (بنیٓ اسرآئیل۔۱۶)
’’یعنی جب دولت مند اور متمو ل طبقہ فسق و فجور کا بازار گرم کر دیتا ہے تو ان پر نزولِ عذاب لازم ہو جاتا ہے اور ہم انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔
سورہ سبا میں ہے کہ دولت کی فراوانی کے باعث ان کے امراء و اغنیاء کے ذہن اتنے بانجھ ہو گئے تھے کہ جو انبیاء اپنی صداقت کی روشن نشانیاں لے کر مبعوث کئے گئے تھے اور جن کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں ان کی بدکاریوں کے ہولناک انجام سے بروقت متنبہ کریں۔ انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اپنی غلط فہمی کا برملا اظہار کر دیا کہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہے ۔ ان کے بیٹوں کی تعداد کافی ہے ، کوئی طاقت انہیں سزا نہیں دے سکتی ۔ ارشاد ربانی ہے :
’’ وما ارسلنا فی قریۃ من نذیر الا قال متر فوہا انا بما ارسلتم بہ کافرون وقا لوا نحن اکثر ا موالا وادلاد ومانحن بمعذ بین (سبا۔۳۵)
’’ یعنی جب ہم کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجتے ہیں تو وہاں کا دولت مند طبقہ برملا کہہ دیتا ہے کہ اے رسولو! ہم تمہاری دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دولت کی انبار ہیں اور اولاد کثیر ہے۔ ہمیں کوئی عذاب نہیں دیا جا سکتا۔ ‘‘
اس لئے اسلامی معاشرے میں سرمایہ داروں کے پنپنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کے ساتھ بر سرِ پیکار ہونے کی جو حماقت اشتراکیت نے کی ہے، اسلام کا دامن اس سے بھی یکسر منزہ ہے۔ روس میں اشتراکی انقلاب کو برپا ہوئے پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ انفرادی ملکیت کو ختم کرنے کے لئے بڑے ہی پاپڑ بیلے گئے ہیں، اور مظالم کی انتہا کر دی گئی ہے۔ صرف روس میں نجی جائداد کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے کروڑوں روسیوں کا خون بہایا گیا ہے۔ لیکن انسانی فطرت کو مسخ کرنے یا بدلنے کی مہم میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی ۔ اسلام جس طرح عقیدہ ، تحریر اور تقریر کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے بلکہ اس کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح وہ انسان کی حریت عملی پر بھی بے جا پابندیاں لگانے کا قائل نہیں ۔ جب تک کوئی شخص اسلام کی وضع کردہ حدود کو پامال نہیں کرتا، وہ اپنی تخلیقی ، تعمیری قوتوں کو بروئے کار لانے میں بالکل آزاد ہے اور اسلام اس کو اس آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اور وہ اپنے عمل سے جو جائز ثمرات حاصل کرے گا ، اسکی حفاظت کا اس سے عہد کرتا ہے۔ اگر مملکت اسلامیہ کا کوئی شہری قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے جائز اور حلال ذرائع سے دولت کماتا ہے ۔ تو اسلام ایسے شخص کو معاشرہ کا بہترین فرد شمار کرتا ہے۔ لیکن اس طرح کی کمائی ہوئی دولت کو بھی ایسے حکیمانہ انداز سے ایک ہاتھ سے لے کر متعدد اشخاص میں بانٹ دیتا ہے کہ دولت کی فراوانی سے جن بُرے نتائج کے ظہورکا خطرہ ہوتا ہے ، ان کا سدِ باب بھی ہو جاتا ہے اور کسی کی دل شکنی اور دل آزاری بھی نہیں ہوتی ۔ اور کسی کے جوش عمل میں بھی کوئی ضعف پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہے اسلام کا نظامِ وراثت اور وصیت جس میں متوفی کی متروکہ ، منقولہ اور غیر منقولہ دولت اس کے بیٹوں ، اس کی بیٹیوں ، اس کی بیوی ، اس کے ماں باپ اور بعض حالتوں میں کئی دوسرے قریبی رشتہ داروں میں بٹ جاتی ہے۔ وصیت کے ذریعے وہ اپنی متروکہ دولت کی ایک تہائی غیر وارثوں کو بھی دے سکتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ صرف بڑا بیٹا جدی جائداد کا وارث ہو اور باقی اولاد کو محروم کر دیا جائے ۔ یاصرف بیٹوں کو وراثت میں حصہ ملے اور بیٹیوں کو محروم کر دیا جائے ۔ یا کوئی شخص کسی تُرنگ میں آکر اپنے وارثوں کو محروم کر دے اور غیر وارث کو ساری جائداد کا مالک بنا دے ۔ جس طرح یورپ کے مہذب و شائستہ لوگ ساری جائداد اپنے کتوں اور بلیوں کے نام وصیت کر جاتے ہیں، اور اپنے وارثوں کو محروم کر دیتے ہیں ۔
ہر ملک میں خواہ وہ معاشی طور پر ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو، ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو بعض ناگزیر وجوہات کے باعث افلاس و تنگ دستی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے صاحبِ حیثیت لوگوں پر ڈالی ہے ۔ جہاں اپنی عبادت کا ذکر کیا ہے وہاں حاجت مند طبقہ کی اعانت کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف رسومِ عبادت کا بجا لانا ہی نیکی نہیں ہے بلکہ صدق دل سے ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے اپنے رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں میں مال تقسیم کرنا حقیقی نیکی ہے۔
’’ لیس البر ان تُو لو ا وجو ہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البِرَّ مَن اَ مَنَ بِاللّٰہ والیوم الآخر والملائکۃ والکتاب والنبیین واٰتی المال علی حبہ ذوی القربیٰ والیتمیٰ و المساکین وابن السبیل والسا ئلین و فی الرقاب ۔ ‘‘ (البقرہ۔۱۷۷)
’’ نیکی بس یہی نہیں کہ نماز میں تم اپنا رُخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ، بلکہ نیکی کا کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور سب نبیوں پر اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی محبت کے باعث رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں، مسافروں ، مانگنے والوں کو دے اور غلاموںکو آزاد کرائے۔‘‘
سورہ مدثر میں بڑے مؤثر پیرائے میں اس حقیقت کو ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ اہلِ جنت اہلِ جہنم سے پوچھیں گے ۔ ’’ ماسلکَکُم فی سقر ۔ ‘‘ تمہیں کون سا جرم دوزخ میں لے گیا۔ تو وہ جواب دے گے ۔ ’’ قالُولم نک من المصلین ولم نک نطعم المسٰکین ۔‘ ‘ ( المدثر۴۲) کہ ہم اس جرم کی پاداش میں دوزخ کا ایندھن بنا دیی گئے ہیں کہ ہم اپنے پروردگار کی جناب میں سجدہ نہیں کرتے تھے ، نیز ہم مسکینوں اور غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔ ‘‘ گویا قرآن کریم کی نظر میں نماز ادا نہ کرنا اور کسی غریب کی ضروریاتِ زندگی کو بہم نہ پہنچانا دونوں یکساں نوعیت کے گناہ ہیں۔
بلکہ سورۂ ماعون میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ جو شخص یتیموں کی توہین کرتاہے ان کو اپنے ہاں سے دھکے دے کر نکال دیتا ہے۔ اور مساکین و غرباء کی بنیادی ضرورتوں کو بہم پہنچانے کی ترغیب نہیں دلاتا، وہ قیامت پر یقین ہی نہیں رکھتا۔
’’ ارائیت الّذی یکذّبُ بالدین فذلک الّذی ید عُّ الیتیم ولا یحضُ علٰے طعام المسکین ۔‘‘(الماعون۔پارہ ۳۰)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دیی ہوئے رزق سے غریبوں کی امداد نہیں کرتے اور ان کی ضرورت کی بہم رسانی میں اپنا فرض ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں قرآن حکیم کے دل دہلانے والے ارشادات سماعت فرمائیی ۔ ارشاد ہے :
’خُذ وہ فُغلُّوہ ثم الجحیم صلّو ہ ثم فی سِلسِلَۃ ذرعہا سبعون ذراعا فاسلکوہ انہ کان لا یومن باللّٰہ العظیم ولا یحض علے طعام المسکین۔ (الحاقۃ)
’’ اس ( نابکار )کو پکڑ لو ۔ اس کی گردن میں طوق ڈال دو ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو، پھر اسے ستر گز لمبے زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ (بد بخت )خدا وندِ عظیم پر ایمان نہیں لایا تھا۔ اور نہ ہی وہ غریبوں کی خوراک مہیا کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا ۔‘‘
ان آیات میں جو رُعب اور جلا ل ہے ، اس سے دل کانپ اٹھتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک منصف مزاج انسان پر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔ کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کی مادی ضروریات کو انتہائی اہمیت دی ہے اور جو شخص اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، وہ قیامت کا منکر ہے اور اور اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں رکھتا۔ اور اس کا ان برکتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔جو اسلام کے زیرِ سایہ انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ اسلام نے صرف پند و موعظت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قانونی طور پر ضرورت مند لوگوں کی کفا لت کو اسلامی معاشرہ پر لازم قرار دے دیا ہے، جس کی ادائیگی ہر شخص پر حسبِ حیثیت لازم ہے۔ اس کے علاوہ مختلف دلنشین اسالیب سے ضرورت مند لوگوں کی امداد کا دلوں میں شوق پیدا کر دیا کہیں فرمایا کہ ان لوگوں کو امداد کے لئے جو تم خرچ کرتے ہو وہ گویا تم اپنے پروردگار کو قرض دے رہے ہو،جو تمہیں یقینا واپس ملے گا کہیں فرمایا کہ تم اگر اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کے لئے ایک روپیہ خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض کم از کم دس گُنا تمہیں عنایت فرمائے گا۔ اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ ذرا اس آیت کو بھی گوش و ہوش سے سماعت فرمائیی ۔ اس آیت کو سننے کے بعد اور اس کو سمجھ لینے کے بعد دل میں ایسا ولولہ اٹھتا ہے کہ ہر چیز اپنے ضرورت مند بھائیوں کی امداد کو لُٹا دینے کو جی چاہتا ہے۔
’’ مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃٍ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ ٍ مأتۃ حبَّۃ ِ واللّٰہ یضٰعف لمن یشا ئواللہ واسع علیم۔(البقرۃ)
’’ یعنی ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو ، جو اُگے اور اس میں سات خوشے لگیں اور ہر خوشہ میں سو دانے ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ کر دیتا ہے ، جس کے لئے چاہتا ہے۔ ‘‘
یہی وہ پاکیزہ تعلیمات تھیں ، یہی وہ صحیح تربیت تھی ، یہی وہ قرآن کا اعجاز تھا، اور یہی وہ اسلام کا روح پر ورنظام تھا۔ جس نے ان قوموں کی کایا پلٹ دی ، جنہوں نے اس کو قبول کیا اور ان ملکوں کو جنت نظیر بنا دیا ، جہاں اس کی برکتوں والا پرچم لہرایا۔
قرآنِ کریم کی اعجاز آفرینی آج بھی اپنے شباب پر ہے ۔ اسلام کی برکتوں اور سعادتوں کا چشمہ شیریں آج بھی اُبل رہا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائے رحمۃ للعالمینی اتنی وسیع ہے کہ ستم رسیدہ ، افلاس گزیدہ انسانیت کو اس کے ظلِ عافےّت میں پناہ مل سکتی ہے بشرطیکہ ہم منافقت کو ترک کر دیں۔ شک وارتیاب کی دلدل سے اپنے آپ کو نکال لیں۔ ایمان صادق اور یقین محکم سے ان تعلیمات کو اپنا لیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ہمارے لئے بلکہ ساری انسانیت کے لئے نازل فرمائی ہیں ۔ جس مبارک ہستی کا ہم یوم میلاد ہر سال مناتے ہیں اس کے ساتھ محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لائے ہوئے دین پر خود عمل پیرا ہوں اور دوسروں کے لئے راہِ حق پر گامزن ہونے کا دلکش نمونہ پیش کریں اس محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ اس کے احکام کی تبلیغ کے لئے کون سا ستم ہے جو محبوب رب العالمین نے برداشت نہیں کیا،کون سی مصیبت ہے جسے گوارا نہیں کیا۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس پائوں میں کانٹے چبھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کے لئے کفار نے انگنت منصوبے بنائے ، اپنے وطن سے نکالا، بارہا مدینہ طیبہ پر چڑھائی کی ۔ ان جنگوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابہ اور عزیز رشتہ دار شہید ہوئے ۔ ان تمام آلام و مصائب کو اس رحمت عالمیان نے بخوشی گوارا کیا تا کہ اللہ تعالیٰ کا نام اونچا ہو اور اس کا دین پھیلے تا کہ انسانیت کی نکبت اور زبوں حالی کا دور ختم ہو، اور صبح صادق طلوع ہو۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے رشتہ پر نازکرتے ہیں۔ تو ہمارا یہ فرضِ اولین ہے کہ ہم سب راعی اور رعایا،
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کو اس عزم کے ساتھ منائیں کہ ہم دینِ حق کی جو شمع اس سہانی گھڑی میں فروزاں کی گئی تھی اس سے اپنی تاریک دنیا کو بھی منور کریں گے ۔ ظلم ، جہالت اور گمراہی کا اندھیرا جہاں جہاں خیمہ زن ہے ، اس کا قلع قمع کر دیں گے۔ آج کی مادیت گزیدہ انسانیت کو اسلام کے تریاق کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پاکستان اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہو کر اخلاقی بلندی ، رُوحانی بالیدگی ، اور معاشی خوشحالی کا مُرقّع زیبا نہ بن جائے ۔
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “
” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون
” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “
( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین
” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام
” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، پس میں آیا ، میں نے انبیاءعلیہم السلام کی آمد کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت میں ہے :
فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء
” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )
4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون
” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی
” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “
( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی
” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “
( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔
حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی
” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “
( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم
” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “
( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا :
ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ....
” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام
” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔
! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )
” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی
” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا :
انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی
” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “
( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ
” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “
( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ
” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )
سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ :
ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ
” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “
( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )
شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ
اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )
سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ
” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات
” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “
( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے ، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے :
انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ
” یقینا میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں ۔ “
( موطا امام مالک : 956/2 ، مسند احمد : 325/2 ، ابوداؤد : 5017 ، مستدرک حاکم : 390/4 ، وسندہ صحیح )
اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں ، باقی رہیں گے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب
” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “
( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر
” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )
ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں :
لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر
” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب
کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ
” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )
یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں :
سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا
” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “
( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا :
رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ
” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے :
” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “
” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔
لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے :
یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء
” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے :
ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی
” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )
نیز فرمایا :
لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ
” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم
” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال
” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “
( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.