View Full Version : ریاض الصالحین باب29 مسلمانوں کی ضرورتیں پو
ریاض الصالحین باب29 مسلمانوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا بیان
باب 29
مسلمانوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''تم بھلائی کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''
(سورة الحج:77)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 244
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (کسی ظالم کے) سپرد کرتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی روز قیامت پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور فرما دے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (975،فتح)، و مسلم (2580)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 245
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، تو اللہ تعالیٰ اس سے روز قیامت کی تکلیفوں سے کوئی تکلیف دور فرمادے گا۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ جو شخص کسی راہ پر چلتا ہے جس میں وہ (دینی) علم حاصل اور تلاش کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں اس کی درس وتدریس کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان (فرشتوں) سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے چھوڑ دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(2699)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
باب 30
شفاعت کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس نے کوئی اچھی سفارش کی، اس کے لیے بھی اس میں حصہ ہوگا۔''
(سورة النساء:85)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 246
حضرت ابو موسٰی اشعری بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی ضرورت مند نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ شرکائے مجلس کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: ''(اس آدمی کی) سفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے۔''
(متفق علیہ)
ایک اور روایت میں ہے: ''جو وہ چاہتا ہے''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2993۔فتح)، و مسلم (2627)۔ والروایة الأخری عند البخاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 247
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت بریرہ اور ان کے خاوند کے قصے میں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بریرہ) کو فرمایا: ''اگر تم اس (مغیث) سے رجوع کر لو؟'' انہوں (بریرہ) نے جواب دیا: "اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے (رجوع کرنے کا) حکم فرماتے ہیں؟" آپ نے فرمایا: ''میں تو صرف سفارش کر تاہوں۔'' اس (بریرہ) نے کہا: "مجھے اس (مغیث) کی کوئی حاجت نہیں۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(4089۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
باب 31
لوگوں کے درمیان صلح کروانا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ان کی اکثر سرگوشیوں (مشوروں) میں کوئی بھلائی نہیں مگر جو حکم کرے صدقہ کرنے کا، بھلائی کا یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا۔'' (سورة النساء :114)
اور فرمایا: ''صلح بہتر ہے'' (سورة النساء: 12
اور فرمایا: ''اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو'' (سورة الأنفال:1)
مزید فرمایا: ''مومن تو بھائی بھائی ہیں پس تم بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔'' (سورة الحجرات: 10)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 248
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے ہر اس دن میں جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ تمہارا دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے، تمہارا کسی آدمی کی اس کی سواری کے بارے میں مدد کرنا کہ تم اسے اس پر سوار کرادو، یا اس کا سامان رکھوا دو یہ صدقہ ہے، اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ ہر قدم جو تم نماز کے لیے اٹھاؤ صدقہ ہے۔ اور تمہارا راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹادینا صدقہ ہے۔ (متفق علیہ)
(تعدل بینھما) کے معنی ہیں ''تم دو آدمیوں کے درمیان عدل سے صلح کرا دو۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3095۔فتح)، و مسلم(1009)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 249
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے۔ پس وہ بھلائی کی بات آگے پہنچاتا ہے یا پھر بھلائی کی بات کرتا ہے۔'' (متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے، وہ (حضرت ام کلثوم) بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں رخصت دیتے ہوئے نہیں سنا جن کے بارے میں لوگ کہتے ہیں: لڑائی کے بارے میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں، مرد کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے خاوند سے بات چیت کرنا۔
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (2995۔فتح) و مسلم (2605)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 250
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑنے والے آدمیوں کی اونچی آوازیں سنیں، ان میں سے ایک دوسرے سے قرضے میں کچھ کمی اور نرمی کی درخواست کررہا تھا۔ اور وہ (دوسرا) کہہ رہا تھا: "اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا،" پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ''وہ شخص کہاں ہے جو اللہ کی قسم کھا رہا تھا کہ وہ نیکی نہیں کرے گا؟'' اس آدمی نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول اللہ! میں ہوں (اور فوراً عرض کیا) اسے اس چیز کا اختیار ہے جسے وہ پسند کرے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (3075۔فتح) و مسلم (1557)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
آیت نمبر 251
حضرت ابو العباس سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ عمرو بن عوف کی اولاد کے درمیان کچھ جھگڑا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے ساتھ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو وہاں (ضیافت کے لیے) روک لیا گیا اور نماز کا وقت ہو گیا۔ پس حضرت بلال حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: "اے ابو بکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہاں روک لیا گیا ہے اور نماز کا وقت بھی ہوگیا ہے، کیا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟" انہوں نے فرمایا: ''ہاں! اگر تم چاہتے ہو۔" پس بلال نے نماز کے لیے اقامت کہی اور ابوبکر آگے بڑ ھے، تکبیر(تحریمہ) کہی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں میں چلتے ہوئے تشریف لے آئے اور ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ پس لوگوں نے (حضرت ابوبکر کو مطلع کرنے کے لیے) تالیاں بجانا شروع کردیں، لیکن ابوبکر نماز میں کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ تاہم جب لوگوں کی تالیاں زیادہ ہو گئیں تو وہ متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاچکے ہیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ فرمایا۔ لیکن ابوبکر نے اپنا ہاتھ اُٹھایا، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے حتیٰ کہ صف میں کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''لوگو! تمہیں کیا ہے کہ جب نماز میں کوئی چیز پیش آجاتی ہے تو تم تالیاں بجانا شروع کردیتے ہو؟ تالیاں بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے، جب کسی کو نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو وہ (سبحان اللہ) کہے، اس لیے کہ جو بھی (سبحان اللہ) کہتے ہوئے سنے گا۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ (پھر فرمایا) اے ابو بکر! تمہیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے منع کیا جبکہ میں نے تمہیں اشارہ بھی کردیا تھا؟''
ابو بکر نے عرض کیا:
"ابو قحافہ کے بیٹے ابوبکر کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لوگوں کو نماز پڑھائے''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2/167۔فتح)، و مسلم (421)
باب 32
ضعیف، فقیر اور گمنام مسلمانوں کی فضیلت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور روکے رکھ اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام، طالب ہیں اس کی رضا کے اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر۔'' (سورة الکھف :28)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 252
حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ (پھر خود ہی فرمایا)ہر کمزور، جسے کمزور خیال کیا جاتا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالے تو وہ اللہ اسے پوری کردیتا ہے۔ (پھر فرمایا) کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ۔۔ ہر تندخُو سرکش، بخیل یا اترا کر چلنے والا اور متکبر شخص۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (8/662۔فتح)، و مسلم (2853
حدیث نمبر 253
حضرت ابو العباس سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے پوچھا: ''تمہارا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس نے کہا: یہ تو کوئی اشرف (معزز) لوگوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجے تو اس کا نکاح کردیا جائے اور اگر سفارش کرے تو سفارش قبول کی جائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر ایک اور آدمی وہاں سے گُزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے متعلق بھی دریافت فرمایا کہ: ''تمہارا اس آدمی کے بار ے میں کیا خیال ہے۔؟'' اس نے کہا: "اے اللہ کے رسول! یہ تو غریب مسلمانوں میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح نہ کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے۔ اور اگر کوئی بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ (فقیر آدمی) اس (امیر آدمی) جیسے دنیا بھر کے آدمیوں سے بہتر ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1329۔فتح)
(یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں صرف صحیح بخاری میں ہے)
حدیث نمبر 254
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جنت اور دوزخ کا آپس میں جھگڑا ہوا تو دوزخ نے کہا: "میرے اندر سرکش اور متکبر انسان ہوں گے۔" جنت نے کہا: "میرے اندر ضعفاء اور مساکین لوگ ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمادیا کہ "بلاشبہ تُو جنت میری رحمت ہے، میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کردوں گا۔ اور بلاشبہ تُو جہنم میرا عذاب ہے اور میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کا بھرنا میری ذمہ داری ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2847) بمعناہ، واللفظ لأحمد فی المسند (793)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 255
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بلاشبہ روز قیامت ایک موٹا تازہ بڑا آدمی آئے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہو گا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (4268۔فتح)، و مسلم (2785)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 256
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت یا کوئی نوجوان مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مفقود پایا تو آپ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا، صحابہ کرام نے بتایا کہ وہ تو فوت ہو گئی (یا فوت ہوگیا)۔ آپ نے فرمایا: ''تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ '' گویا انہوں نے اس (عورت یا نوجوان کی موت) کے معاملے کو حقیر سمجھا۔ آپ نے فرمایا: ''مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتاؤ'' پس انہوں نے آپ کو اس کی قبر کے بارے میں بتایا تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا: ''یہ قبریں اپنے رہنے والوں پر تاریکی سے بھری ہوئی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان پر نماز جنازہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں ان کیلئے روشن فرما دیتا ہے۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (5521'553۔فتح)، و مسلم (956) واللفظ لہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 257
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کتنے ہی پراگندہ بالوں والے، غبار آلودہ اشخاص (ایسے) ہیں جنہیں دروازوں ہی سے پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو وہ اسے پوری فرما دیتا ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2622)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 258
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں جنت کے دوازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں میں اکثر مساکین تھے اور دولت مند روکے گئے تھے، تاہم جہنمیوں کو جہنم میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ پھر میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہواتو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2989۔فتح) و مسلم (2736)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 259
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''گود میں صرف تین بچوں نے کلام کیا، عیسیٰ ابن مریم اور صاحب جریج رحمۃ اللہ علیہ۔ جریج رحمۃ اللہ علیہ ایک عبادت گزار آدمی تھے۔ انہوں نے عبادت کے لیے ایک معبد خانہ بنایا ہوا تھا۔ وہ اس میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک دن ان کی والدہ ان کے پاس آئیں۔ پس والدہ نے کہا: "اے جریج!" انہوں نے کہا: "اے میرے رب! میری ماں (مجھے بلا رہی ہے۔) اور میری نماز (جو میں پڑھ رہا ہوں)۔" پس وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ان کی والدہ چلی گئیں، پس جب اگلا روز ہوا تو وہ پھر آئیں اور وہ نماز پڑھ رہے تھے، ان کی والدہ نے پھر کہا: "اے جریج!" انہوں نے کہا: "اے میرے رب! (ایک طرف) میری والدہ اور (دوسری طرف) میری نماز (میں کیا کروں؟)" وہ پھر اپنی نماز میں مشغول رہے۔ پس جب تیسرا روز ہوا تو وہ پھر آئیں اور وہ (بھی حسب سابق) نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے کہا: "اے جریج!" انہوں نے پھر کہا: اے میرے رب! میری والدہ (بلا رہی ہے) اور میری نماز۔" پس وہ اپنی نمازمیں مصروف رہے تو والدہ نے کہا: اے اللہ! اسے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔" پس بنو اسرائیل نے جریج اور ان کی عبادت کے چرچے شروع کردیے۔ ایک بدکار عورت تھی جس کے حسن وجمال کی مثال دی جاتی تھی، اس عورت نے کہا: "اگر تم چاہو تو میں اسے آزمائش میں ڈال دوں۔" پس وہ عورت ان کے سامنے آئی لیکن انہوں نے اس عورت کی طرف کوئی توجہ ہی نہ کی، پھر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو اس کی کٹیا میں آتا جاتا تھا۔ اس عورت نے اس چرواہے کو اپنے اوپر قدرت دی اور اس نے اس سے بدکاری کی جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔ اور جب اس نے بچے کو جنم دیا تو اس نے کہا: "یہ (بچہ تو) جریج کا ہے۔" (یہ سن کر) لوگ جریج کے پاس آئے۔ انہیں معبد خانے سے نیچے اتارا اور ان کے معبد خانے کو گرا دیا اور انہیں مارنے لگے۔ انہوں نے پوچھا: "تمہیں کیا ہو گیا، بات کیا ہے؟" لوگوں نے کہا: "تم نے اس بدکار اور زانیہ عورت کے ساتھ زنا کیا۔ اور اس نے تمہارے لیے ایک بچے کو جنم دیا۔" انہوں نے پوچھا: "بچہ کہاں ہے؟" پس وہ لوگ اسے لے کر آئے۔ تو انہوں (جریج) نے کہا: "مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو۔ انہوں نے نماز پڑھی، جب وہ فارغ ہوئے تو بچے کے پاس آئے اور اس کے پیٹ میں ایک کچوکا لگایا اور پوچھا: "اے لڑکے! تمہارا باپ کون ہے؟" بچے نے کہا: "فلاں چرواہا۔" پس یہ سنتے ہی وہ سب جریج کی طرف متوجہ ہوئے، انہیں بوسہ دیتے چھوتے اور کہنے لگے: "ہم آپ کا معبد خانہ سونے سے بنا دیتے ہیں۔" (جریج نے انکار کیا اور کہا) بلکہ اسے پہلی حالت کی طرح مٹی کا بنا دو۔ پس انہوں نے ایسا ہی کردیا۔ (تیسرا بچہ جس نے گود میں گفتگو کی، (اس کے متعلق خبر دیتے ہوئے آپ نے فرمایا) ایک وقت ایک بچہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا۔ کہ ایک آدمی اپنی تیز رفتار سواری پر سوار ہوکر عمدہ پوشاک پہنے ہوئے گزرا، تو اس کی ماں نے کہا: "اے اللہ! میرے اس بیٹے کو اس جیسا بنانا۔" یہ سنتے ہی بچے نے پستان کو چھوڑا، اس آدمی کی طرف متوجہ ہوا اور اسے دیکھا تو کہا: "اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا، وہ پھر اپنے پستان کی طرف متوجہ ہوا اور دودھ پینے لگا۔''
راوی حدیث کہتے ہیں گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہاہوں کہ آپ اس کے دودھ پینے کی کیفیت اپنی انگشت شہادت اپنے منہ میں ڈال کر اور اسے چوس کر بیان فرما رہے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ''لوگ ایک لونڈی کے پاس سے گزرے جسے لوگ ما ر رہے تھے۔ اور وہ کہہ رہے تھے تم نے زنا کیا ہے اور چوری کی ہے اور وہ کہہ رہی تھی ''حسبی اللہ و نعم الوکیل'' (مجھے میرا اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے) بچے کی ماں نے کہا: "اے اللہ! میرے بیٹے کو اس لونڈی جیسا نہ بنانا، بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس لونڈی کی طرف دیکھا تو کہا: "اے اللہ! مجھے اس لونڈی جیسا ہی بنانا۔" پس اس وقت دونوں ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے۔ ماں نے کہا: "ایک خوش اطوار آدمی گزرا تو میں نے کہا: "اے اللہ! میرے بیٹے کو اس طرح کا بنانا لیکن تم نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ اور لوگ اس لونڈی کو لے کر گزرے۔ اوروہ اسے مار رہے تھے۔ اور کہہ رہے تھے، کہ تم نے زنا کیا ہے۔ اور چوری کی ہے۔ پس میں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا، لیکن تم نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا ہی بنانا (آخر یہ کیا بات ہے؟) بچے نے کہا: وہ (خوش اطوار) آدمی بڑا سرکش اور متکبر شخص تھا، ا س لیے میں نے دعا کی یا اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ اور یہ لونڈی جس کے بارے میں لوگ کہہ رہے تھے کہ تو نے زنا کیا ہے حالانکہ اس نے زنا نہیں کیا تھا۔ اور وہ کہہ رہے تھے کہ تو نے چوری کی ہے حالانکہ اس نے چوری نہیں کی تھی۔ پس میں نے اس کے لیے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس جیسا (پاک دامن) بنانا'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(4766،فتح)'ومسلم(2550)(8)
باب 33
یتیموں، لڑکیوں، تمام ضعیفوں، مسکینوں اور خستہ حال لوگوں کے ساتھ نرمی کرنے، اور ان پر احسان اور شفقت کرنے اور ان کے ساتھ تواضع اور نرمی سے پیش آنے کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اپنے بازو مومنوں کیلئے جھکادیں۔'' (سورة الحجر: 88)
اور فرمایا: ''اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھو جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ اس کی رضا طلب کرتے ہوئے اور تیری آنکھیں ان سے تجاوز نہ کریں، زندگانی دنیا کی رونق کی تلاش میں'' (سورة الکھف: 28)
اور فرمایا: ''سو جو یتیم ہوا سے مت دبائیں اور جو مانگتا ہو اسے مت جھڑکیں۔'' (سورة الضحی: 9،10)
نیز فرمایا: ''کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو جزا کے دن کو جھٹلاتا ہے، پس یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے او مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا۔'' (سورة الماعون: 1۔3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 260
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ (غریب) افراد تھے۔ مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "انہیں دور ہٹا دیں کہیں یہ ہم پر جری نہ ہوجائیں" حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں تھا، ابن مسعود، ہذیل کے ایک آدمی، بلال اور دو آدمی اور تھے مجھے ان کے نام معلوم نہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جی میں وہ آیا جو اللہ تعالیٰ نے چاہا، پس آپ نے اپنے دل میں کچھ سوچا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ''آپ انہیں اپنے سے دور مت کریں جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے صبح وشام اسے پکارتے ہیں۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2413)(46)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 261
حضرت ابو ہبیرہ عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ (یہ بیعت الرضوان والوں میں سے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان چند افراد کی موجودگی میں حضرت سلمان، صہیب اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: "اللہ تعالیٰ کی تلواروں نے اللہ تعالیٰ کے دشمن (یعنی ابو سفیان) سے اپنا حق وصول نہیں کیا" حضرت ابوبکر نے فرمایا: ''کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو؟" وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہیں بتایا، تو آپ نے فرمایا: ''اے ابوبکر! شاید تم نے انہیں ناراض کردیا؟ اگر تم نے انہیں ناراض کیا۔ تو تم نے اپنے رب کو ناراض کردیا۔" (جب یہ سنا تو) ابوبکر ان کے پاس (فوراً واپس) گئے اور کہا: "بھائیو! کیا میں نے تمہیں ناراض کردیا ہے؟" انہوں نے کہا: "نہیں! اے ہمارے بھائی! اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2504)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 262
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے'' اور آپ نے اپنی انگشت شہادت اور درمیان والی انگلی کے درمیان کشادگی فرمائی۔'' (بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(43919۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 263
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یتیم کی کفالت کرنے والا، وہ یتیم اس کا قریبی ہو یا اجنبی، میں اور وہ ان دو (انگلیوں) کی طرح جنت میں ہوں گے۔'' حدیث کے راوی مالک بن انس نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔ (مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (2983)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 264
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسکین وہ نہیں ہے جسے کھجور اور دو کھجوریں اور لقمہ اور دو لقمے دے دیئے جائیں، بلکہ مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے۔'' (متفق علیہ)
صحیحین کی ایک روایت ہے: ''مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے پاس چکر لگائے اور وہ لقمہ دو لقمے اور کجھور دو کھجوریں اسے (دے کر) واپس لوٹا دیں، لیکن مسکین تو وہ ہے جو اتنی دولت نہیں پاتا کہ ''اسے (لوگو ں سے) بے نیاز کردے اور اس کے بارے میں پتا بھی نہ چلے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3493۔فتح)، و مسلم (1039)(102)، والروایة الثانیة عند البخاری (2403۔فتح) و مسلم (1039)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 265
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بیواؤں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔'' اور میر اخیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: ''اور وہ اس عبادت گزار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو افطار (ناغہ) نہیں کرتا۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (4979۔فتح)، و مسلم (2982)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 266
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' بدترین کھانا، ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں (اس) آنے والے (ضرورت مند) کو تو روک دیا جائے۔ اور جو (عدم ضرورت کی وجہ سے) انکار کردے اسے بلایا جائے۔ اور جس شخص نے دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔'' (مسلم)
اور صحیحین کی ایک اور روایت جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میں ہے: ''بدترین کھانا ولیمے کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقراء کو چھوڑدیا جائے۔
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1432)(110) و لفظ الصحیحین عند البخاری (2449۔فتح)، و مسلم (1432)(107)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 267
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے دو بچیوں کی اچھی طرح سے تربیت کی حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجائیں تو روز قیامت وہ اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے۔'' (اور آپ نے اپنی دو انگلیاں ملائیں۔) (مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(2631)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 268
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، وہ سوال کررہی تھی، میرے پاس صرف ایک کھجور تھی وہ میں نے اسے دے دی، اس نے وہ دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی تقسیم کرکے دے دی اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ کھڑی ہوئی اور چلی گئی۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس کے متعلق بتایا تو آپ نے فرمایا: ''جس شخص کو ان بیٹیوں کے کسی معاملے میں آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ (بیٹیاں) اس شخص کیلئے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی۔'' (متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (2833۔فتح)، و مسلم(2629
حدیث نمبر 269۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجوریں اسے کھانے کیلئے دیں۔ اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تاکہ اسے کھائے لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیلئے مانگ لی۔ پس اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا (فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔'' (مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (2630)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 270
حضرت ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے اللہ! میں دو ضعیفوں (ایک) یتیم اور (دوسری) عورت کے حق سے لوگوں کو بہت ڈراتا ہوں'' (حدیث حسن ہے امام نسائی نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔) (حرج) کا مطلب ہے کہ میں ان دونوں کے حقوق کو ضائع کرنے والے کو گناہ گار سمجھتا ہوں اور میں اسے اس سے نہایت سختی کے ساتھ ڈراتا اور تاکید کے ساتھ روکتاہوں۔
توثیق الحدیث: حسن۔ أخرجہ النسائی فی (الکبریٰ) (4959۔تحفہ الأشراف)، و ابن ماجہ (3678)، و أحمد (4392)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 271
حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد کو یہ گمان ہوا کہ انہیں باقی صحابہ پر فضیلت حاصل ہے۔ پس نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنے انہی کمزوروں کی وجہ سے مدد کیے اور رزق دیے جاتے ہو۔''
امام بخاری نے اس کو اسی طرح مرسل بیان کیا ہے، اس لیے کہ معصب بن سعد تابعی ہیں اور حافظ ابوبکر برقانی نے اسے اپنی ''صحیح ''میں مصعب عن ابیہ کے ساتھ متصل بیان کیا ہے۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (886۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 272
حضرت ابو الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''تم میرے لیے ضعفاء کو تلاش کرو، کیونکہ تم اپنے ضعفاء کی وجہ سے مدد کیے اور رزق دے جاتے ہو۔''
(ابو داؤ د نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
توثیق الحدیث: صحیح أخرجہ أبو داؤد (2594)۔ والترمذی (1706) والنسائی (456۔46)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 4
سچائی کابیان
سچ کے معنی ہیں ظاہر وباطن میں موافقت ہونا، قول و عمل میں موافقت ہونا اور خبر کا واقعہ کے مطابق ہونا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ''۔
(سورۃ التوبہ: 119)
اور فرمایا: ''سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں۔''
(سورۃ الاحراب:35)
اور فرمایا: ''اگر وہ اللہ تعالیٰ سے سچ بولتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔''
(سورۃ محمد:21)
۔۔
حدیث نمبر 54
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یقینا سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور یقیناً جھوٹ بدکاری کی طر ف رہنمائی کرتا ہے اور بدکاری جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی یقیناً جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (50710۔فتح)، و مسلم (2606)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
حدیث نمبر 55
حضرت ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ یاد کیے: ''وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے شک میں ڈال دے اور اس چیز کو اختیار کر جو تجھے شک وشبہ میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان ہے اور جھوٹ شک اور بے چینی ہے۔''
(ترمذی۔ حدیث صحیح ہے)
توثیق الحدیث:اخرجہ الترمذی (2518)، والنسائی (3278۔328)، واحمد (2001)
حدیث نمبر 56
حضرت ابوسفیان صخر بن حرب کی وہ طویل حدیث جس میں ہرقل کا واقعہ ہے۔ ہر قل نے ابوسفیان سے کہا: "وہ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟" ابوسفیان کہنے لگے کہ میں نے کہا: "وہ فرماتے ہیں: ''تم صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرو اور تمہارے آباؤ اجداد جو کہتے ہیں اسے چھوڑ دو، وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث اخرجہ البخاری (311۔32۔ فتح)، و مسلم (1773)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
حدیث نمبر 57
ابو ثابت،بعض نے کہا ابو سعید اور بعض کے نزدیک ابو ولید سہل بن حنیف جو بدری صحابی ہیں، ان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگی تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مقام تک پہنچادے گا، اگر چہ اسے اپنے بستر پر موت آئے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث اخرجہ مسلم (1909)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 58
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ وہ شخص میرے ساتھ جہاد پر نہ جائے جس نے کسی عورت سے نئی نئی شادی کی ہو اور وہ اس سے جماع کرنا چاہتا ہو لیکن ابھی اس نے کیا نہ ہو، اور وہ شخص بھی میرے ساتھ نہ جائے جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ ڈالی ہو اور وہ شخص بھی میرے ساتھ نہ جائے جس نے بکریاں یا اونٹنیاں خریدی ہوں وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ پس اس پیغمبر نے جہاد کے لیے سفر شروع کیا، تو وہ بستی کے قریب نماز عصر کے وقت، یا اس کے قریب پہنچے تو سورج سے مخاطب ہو کر کہا: تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں، اے اللہ! اسے ہمارے لیے روک لے! پس اسے روک لیا گیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح نصیب فرمائی۔ پس اس نبی نے غنیمتیں جمع کیں تو آگ آئی تاکہ انہیں کھالے لیکن اس نے انہیں نہ کھایا۔ پس انھوں نے فرمایا: "یقیناً تم میں خیانت ہے۔ لہٰذا تم میں سے ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی آئے اور میری بیعت کرے۔ چنانچہ ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا۔ پس انھوں نے کہا: تمہارے قبیلے میں خیانت ہے، تمہارے قبیلے کا ہر شخص میری بیعت کرے گا (یعنی میر ے ساتھ ہاتھ ملائے گا) پس دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا، فرمایا: تم میں خیانت ہے۔ چنانچہ وہ گائے کے سر جیسا سونے کا ایک سر لائے۔ اسے لاکر رکھ دیا۔، آگ آئی اور اسے کھاگئی۔ آپ نے فرمایا: ''ہم سے پہلے کسی قوم کے لیے غنیمتیں حلال نہیں تھیں ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا تو اسے ہمارے لیے حلال کردیا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث اخرجہ البخاری (2206۔فتح) 'ومسلم (ٔ1747)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 59
حضرت ابو خالد حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دونوں سودا کرنے والوں کو اختیار حاصل ہے۔ جب تک وہ دونوں جدا نہ ہوں، پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور حقیقت بیان کردیں تو پھر ان کے سودے میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی چیز کو چھپائیں، تو پھر ان کے سودے سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث اخرجہ البخاری (3094۔فتح) و مسلم (1532)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
باب 5
مراقبے (محاسبے) کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''وہ تجھے دیکھتا ہے۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان میں تیرا گھومنا پھرنا بھی (دیکھتا ہے)۔''[
(سورۃ الشعراء: 218،219)
اور فرمایا: ''وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔''
(سورۃ الحدید :4)
اور فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ سے آسمانوں اور زمین کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں۔''
(سورۃ آل عمران :5)
اور فرمایا: ''بے شک تیرا رب البتہ گھات میں ہے۔''
(سورۃ الفجر :14)
اور فرمایا: ''وہ (اللہ تعالیٰ) آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ چیزوں کو خوب جانتا ہے۔''
(سورۃ غافر: 19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 60
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے پاس آیا۔ جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے آثار تھے نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دیے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھ لیا اور کہا: "اے محمد! مجھے اسلام کے متعلق بتائیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر تمہیں استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔" اس نے کہا: "آپ نے سچ فرمایا"۔ ہم نے اس کی بات پر تعجب کیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال بھی کرتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا: "مجھے ایمان کے متعلق بتائیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ''۔ اس نے کہا: "آپ نے سچ فرمایا،" پھر اس نے کہا: "مجھے احسان کے بارے میں بتائیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔'' اس نے کہا: "مجھے قیامت کے متعلق بتائیں"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے بارے میں مسئول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سائل (اس پوچھنے والے) سے زیادہ نہیں جانتا'' پھر اس نے کہا: "مجھے اس کی کچھ نشانیاں بتا دیجیے" آپ نے فرمایا: ''لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے بدن، ننگے پاؤں، فقیر قسم کے لوگ، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔'' پھر وہ (سائل) چلا گیا۔ پھر میں (حضرت عمر) ایک عرصہ ٹھہرا رہا۔ پھر آپ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا؟'' میں نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں"۔ آپ نے فرمایا: ''وہ جبرائیل علیہ اسلام تھے، جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث اخرجہ مسلم(8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 60
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے پاس آیا۔ جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے آثار تھے نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دیے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھ لیا اور کہا: "اے محمد! مجھے اسلام کے متعلق بتائیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر تمہیں استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔" اس نے کہا: "آپ نے سچ فرمایا"۔ ہم نے اس کی بات پر تعجب کیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال بھی کرتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا: "مجھے ایمان کے متعلق بتائیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ''۔ اس نے کہا: "آپ نے سچ فرمایا،" پھر اس نے کہا: "مجھے احسان کے بارے میں بتائیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔'' اس نے کہا: "مجھے قیامت کے متعلق بتائیں"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے بارے میں مسئول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سائل (اس پوچھنے والے) سے زیادہ نہیں جانتا'' پھر اس نے کہا: "مجھے اس کی کچھ نشانیاں بتا دیجیے" آپ نے فرمایا: ''لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے بدن، ننگے پاؤں، فقیر قسم کے لوگ، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔'' پھر وہ (سائل) چلا گیا۔ پھر میں (حضرت عمر) ایک عرصہ ٹھہرا رہا۔ پھر آپ نے فرمایا: ''اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا؟'' میں نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں"۔ آپ نے فرمایا: ''وہ جبرائیل علیہ اسلام تھے، جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث اخرجہ مسلم(8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 61
حضرت ابوذر جندب بن جنادہ اور ابو عبد الرحمن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور گناہ کے پیچھے (یعنی بعد) نیکی کرو۔ وہ نیکی اس (گناہ) کو مٹادے گی اور لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔''
(ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: (صحیح بشواھدہ :کما بینتہ فی "صحیح کتاب الاذکار و ضعیفہ" (9941262)،اخرجہ الترمذی (1987)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
حدیث نمبر 62
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوری پر سوار) تھا کہ آپ نے فرمایا: ''اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں (انہیں یادر کھنا) تو اللہ تعالیٰ (کے دین) کی حفاظت کر، وہ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ جان لے کہ اگر ساری دنیا تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ سب تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے بجز اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمام تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، (کیونکہ) قلم اٹھا لیے گئے اور صحائف خشک ہو گئے۔''
(ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)
اور ترمذی کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے :'' تو اللہ (کے حقوق)کا خیال رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا، تو خوش حالی میں اللہ کو پہچان وہ تجھے تنگی میں پہچانے گا اور جان لو کہ جو تجھ سے چوک جائے وہ تجھے ملنے والا نہیں اورجو تجھے پہنچنے والا ہے وہ تجھ سے چوک نہیں سکتا اور جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے۔ غم سے نجات کرب و تکلیف کے ساتھ ہے اور یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔''
توثیق الحدیث: صحیح کما بینتہ فی "صحیح کتاب الاذکار وضعیفہ" (10001268)،اخرجہ الترمذی (2514)
(یہ عظیم الشان حدیث ہے اور دین کے بنیادی اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ ابن جوزی اپنی کتاب "صید الخاطر" میں لکھتے ہیں: "میں نے اس حدیث میں غور و فکر کیا تو اس نے مجھے دہشت زدہ کردیا اور قریب تھاکہ میں ناسمجھ ہی رہتا (اس حدیث سے لاعلمی کی صورت میں) بڑا ہی قابل افسوس ہے وہ شخص جو اس حدیث سے لاعلم رہا اور اس کے معانی سمجھنے میں کم فہمی کا شکار رہا۔"
اور اس حدیث کی عظمت کا اعتراف امام ابن رجب نے اپنی کتاب ''نور الاقتباس'' میں بھی کیا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
حدیث نمبر 63
حضرت انس نے فرمایا: تم یقیناً بہت سے ایسے اعمال کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں (یعنی معمولی ہیں) جبکہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مہلک شمار کرتے تھے۔
(بخاری)
امام بخاری نے کہا: (الموبقات) کا مطلب ہے ہلاک کرنے والے۔
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (32911۔ فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 64
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ کو بھی غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب مومن شخص ایسے کام کا ارتکاب کرتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام قرار دیا ہے''
(متفق علیہ)
(الغیرہ) کی غین پر زبر، اس کے معنی ہیں ''خودداری اور حمیت۔''
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (3189۔فتح) و مسلم (2761)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 65
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک برص کا مریض تھا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانے کا ارادہ فرمایا، تو ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا، پس وہ برص کے مریض کے پاس آیا تو کہا: "تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟" اس نے کہا: اچھا رنگ، خوبصورت جلد اور مجھ سے وہ چیز (برص کی بیماری) دور ہوجائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔"
پس اس فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی وہ بیماری جاتی رہی اور اسے خوبصوت رنگ دے دیا گیا، فرشتے نے مزید پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: "اونٹ یا کہا گائے (اس بارے میں راوی کو شک ہے) پس اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور (فرشتے نے) یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت فرمائے۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: "تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟" اس نے کہا: "خوبصورت بال اور یہ کہ میرا گنجا بن دور ہو جائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھے پسند نہیں کرتے۔" پس اس فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو اس کا گنجا پن جاتا رہا اور اسے خوبصورت بال دے دیے گئے۔ فرشتے نے مزید پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: گائے، پس اسے حاملہ گائے دے دی گئی اور (فرشتے نے) یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت فرمائے۔
پھروہ نابینا کے پاس گیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت لوٹادے ، تاکہ میں لوگوں کو دیکھوں۔ پس فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت لوٹا دی۔ پھر فرشتے نے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا:بکریاں۔ پس اسے ایک بچہ جننے والی بکری دے دی گئی۔ پس ان دونوں (برص زدہ و گنجے) کے ہاں بھی دونوں جانوروں کی اولاد خوب بڑھی اور اس کے ہاں بھی بکری نے خوب بچے دیے، تو اس طر ح اس (برص والے) کے پاس اونٹوں کی ایک وادی ہو گئی اور اس (گنجے) کے پاس گایوں کی وادی اور اس (اندھے) کے پاس بکریوں کی ایک وادی ہو گئی۔
پھر وہی فرشتہ برص والے کے پاس اس کی (پہلی) صو رت و ہئیت میں آیا اور کہا کہ میں مسکین آدمی ہوں، سفر میں میرے وسائل ختم ہو گئے ہیں، آج میرے لیے گھر پہنچنا اللہ تعالیٰ کی مدد اور تیری کرم نوازی کے بغیر ممکن نہیں، میں تجھے اس ذات کا وسیلہ دے کر ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس نے تجھے اچھا رنگ اور خوبصورت جلد عطا کی اور بہت سا مال دیا۔ (مجھے اونٹ دو) تاکہ میں اس کے ذریعے سفر میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں۔ اس شخص نے کہا: "مجھ پر بہت سے حقوق ہیں۔" یہ سن کر فرشتے نے کہا: "ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ شاید میں تجھے پہچانتا ہوں۔ کیا تو پہلے برص زدہ نہیں تھا؟ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو ایک فقیر شخص تھا، اللہ تعالیٰ نے تجھے مال عطا کیا۔" اس نے کہا: "یہ مال تو مجھے باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے" (یعنی میں جدی پشتی امیر ہوں) فرشتے نے کہا: "اگر تو جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کردے جیسا تو پہلے تھا۔" پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس اس کی (پہلی) صورت و ہئیت میں آیا، تو اسے بھی وہی کچھ کہا جو اس نے برص والے سے کہا تھا۔ اس گنجے نے بھی اسے وہی جواب دیا جو اس برص والے نے دیا تھا، فرشتے نے اس سے بھی وہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کردے جیسا تو پہلے تھا۔
پھر وہ نابینا کے پاس اس کی (پہلی) صورت و ہئیت میں آیا اور کہا: "میں مسکین آدمی ہوں۔ مسافر ہوں سفر میں میرے وسائل ختم ہوگئے ہیں، اب اللہ تعالیٰ کی مدد اور تیرے تعاون کے بغیر میرے لیے گھر پہنچنا ممکن نہیں، میں تجھ سے اس ذات کے واسطے سے ایک بکری مانگتا ہوں جس نے تیری بینائی لوٹائی، تاکہ میں اس کے ذریعے سے اپنے سفر میں منزل مقصود تک پہنچ جاؤں" اس شخص نے کہا: واقعتاً میں اندھا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بینائی لوٹا دی، پس تم جتنا چاہو مال لے جاؤ اور جتنا چاہو، چھوڑ دو، اللہ کی قسم! میں آج تجھ سے اس بارے میں جھگڑا نہیں کروں گا جو تو اللہ کے لیے لے لے گا۔" فرشتے نے کہا: "تو اپنا مال اپنے پاس رکھ، تمہاری تو صرف آزمائش کی گئی تھی (تم اس میں کامیاب رہے) پس اللہ تجھ سے راضی ہو گیا اور تیرے دوسرے دونوں ساتھیوں پر تیرا رب ناراض ہوگیا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (5006'501۔فتح) و مسلم (2964)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
حدیث نمبر 66
حضرت ابو یعلٰی شداد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عقل مند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے (یا اپنے آپ کو پست کرلے) اورموت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز (کم ہمت، بے وقوف) وہ شخص ہے جو نفسانی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے بڑی تمنائیں وابستہ کرے۔''
(ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
اما م ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر علماء نے کہا ہے کہ (دان نفسہ) کے معنی ہیں ''اپنا محاسبہ کرے۔''
توثیق الحدیث :ضعیف،اخرجہ الترمذی (2459)، و ابن ماجہ (4260)،احمد (1244) والحاکم (571)
امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا: ''یہ امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے'' لیکن امام ذہبی نے اس کے تعاقب میں فرمایا: ''نہیں اللہ کی قسم! اس کا راوی ابوبکر ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔" شارح کتاب کہتے ہیں: "اس حدیث کا مدار اسی راوی پر ہے لہٰذا اس کی اسناد سخت ضعیف ہیں۔'' بہیقی شعب الایمان (10545) میں حضرت انس سے مروی حدیث اس کی شاہد ہے لیکن اس کا راوی عوب بن عمارہ ضعیف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 67
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انسان کا بے مقصد اور غیر ضروری باتوں کو چھوڑ دینا اس کے حسنِ اسلام کی علامت میں سے ہے۔''
(ترمذی وغیرہ ۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: صحیح لغیرہ اخرجہ الترمذی (2419) و ابن ماجہ (3976)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
حدیث نمبر 68
حضرت عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آدمی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا تھا۔''
(ابوداؤد)
توثیق الحدیث: ضعیف،اخرجہ ابوداود (2147) و ابن ماجہ (1986) واحمد (201) والبیھقی (3057)
اس کی اسناد ضعیف ہیں اس لیے کہ اس روایت میں عبد الرحمن المسلی ہے اس کے حالات معلوم نہیں جیسا کہ امام ذہبی نے "میزان'' میں بیان کیا ہے الشیخ احمد شاکر نے مسند (122) پر اپنی تعلیق میں بیان کیا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہیں ،داؤدبن یزید الاودی قوی نہیں، یعنی ضعیف راوی ہے اس پر کلام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.