life
08-12-2012, 07:33 AM
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ
نام ونسب : ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی۔
پیدائش : حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابو سفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ کی والدہ ہندؓ بنت عتبہ ،والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ایک قیافہ شناس کے اقوال نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ جبکہ آپ رضی اللہ نوعمر ہی تھے آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ کی طرف دیکھ کہ کہا : میرا بیٹا بڑے سروالا ہے اور اس قابل ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے “۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگیں : آپ صرف اپنی قوم کی سرداری کی بات کررہے ہیں ۔ اس کی ماں اس کو روئے اگر یہ پورے عالم عرب کا قائد اور سردار نہ بنے ۔ ایک قیافہ شناس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے ہی تھے تو کہنے لگا ” یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا “ ۔
اسلام کے دامن رحمت میں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے نیز آپ رضی اللہ عنہ کے والد ان معرکوں میں قریش کے صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ فتح مکہ میں چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ،اس لئے حالات سازگار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قبول اسلام کاا علان کردیا ۔ اس سے پہلے قبول اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ” میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ ( طبقات ابن سعد ؒ)
خدمت نبوی ﷺ میں: اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کے تعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دار الامن قراردے دیا تھا ، نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت معاویہؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دربار نبوی میں حاضری کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروز کتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا “ ( جامع السیر )
کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ
نام ونسب : ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی۔
پیدائش : حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابو سفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ کی والدہ ہندؓ بنت عتبہ ،والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ایک قیافہ شناس کے اقوال نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ جبکہ آپ رضی اللہ نوعمر ہی تھے آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ کی طرف دیکھ کہ کہا : میرا بیٹا بڑے سروالا ہے اور اس قابل ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے “۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگیں : آپ صرف اپنی قوم کی سرداری کی بات کررہے ہیں ۔ اس کی ماں اس کو روئے اگر یہ پورے عالم عرب کا قائد اور سردار نہ بنے ۔ ایک قیافہ شناس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے ہی تھے تو کہنے لگا ” یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا “ ۔
اسلام کے دامن رحمت میں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے نیز آپ رضی اللہ عنہ کے والد ان معرکوں میں قریش کے صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ فتح مکہ میں چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ،اس لئے حالات سازگار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قبول اسلام کاا علان کردیا ۔ اس سے پہلے قبول اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ” میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ ( طبقات ابن سعد ؒ)
خدمت نبوی ﷺ میں: اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کے تعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دار الامن قراردے دیا تھا ، نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت معاویہؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دربار نبوی میں حاضری کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروز کتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا “ ( جامع السیر )