View Full Version : سرشاری
سرشاری
ہاں، یہ وہ موسم تو وہ ہے
کہ جس میں نظر چُپ رہے
اور بدن بات کرتا رہے
اُس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میں
چہرہ میرا
پھول کی طرح ہلکورے لیتا رہے
پنکھڑی پنکھڑی
اُس کے بوسوں کی بارش میں
پیہم نکھرتی رہے
زندگی اس جنوں خیز بارش کے شانوں پہ سرکو رکھے
رقص کرتی رہے
بےنگِاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پَرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
اَن بُنے سے لفظوں پَر اُنگلیاں گھُماتے ہیں
یا سوالنامے کو دیکھتے ہی جاتےہیں
ہر طرف کَن اَنکھیوں سے بچ بَچا کے تَکتے ہیں
دُوسروں کے پَرچوں کو رَہنما سمجھتے ہیں
شاید اِس طرح کوئی راستہ ہی مِل جائے
بےنِشاں خوابوں کا کچھ پَتا ہی مِل جائے
مجُھ کو دیکھتے ہیں تو
یُوں جواب کاپی پَر ہاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے اِنکو پَرچے کے سب جواب آتے ہیں
اِس طرح کے مَنظر میں
اِمتہان گاھوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقَل کرنے والوں کے
نِت نئے طریقوں سے
آپ لطُف لیتا تھا! دوستوں سے کہتا تھا
کِس طَرف سے جانے یہ!
آج دِل کے آنگن میں ایک سوال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا ایک سوال لایا ہے
وقت کِی عدالت میں
زندگی کِی صُورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں ایک سوالنامہ ہے
کِس نے یہ بنایا ہے
کِس لیے بنایا ہے
کچُھ سمجھ میں آیا ہے
زِندگی کے پَرچے کے
سب سوال لازِم ہیں..سب سوال مشکِل ہیں
بے نِگاہ آنکھوں سے دیکھتا ھُوں پَرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
اَن بُنے سے لفظوں پَر اُنگلیاں گُھماتا ھُوں
ہاشِیے لگاتا ھُوں
دائرے بناتا ھُوں
یا سوالنامے کو دیکھتا ہی جاتا ھُوں
SHAYAN
08-17-2012, 12:46 AM
Buht Khoob
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.