life
08-10-2012, 05:54 AM
بے یقینی کی ایک نظم
نہ کوئی عہد نہ پیمان
نہ وعدہ ایسا
نہ ترا حسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش
نہ میرے ہاتھ میں تاثیر زلیخائی ہے
رقص گر ہے یہ جہاں اور نہ میں سنڈریلا ہوں
نہ تو شہزادہ ہے
ہم تو بس رزم گہِ ہستی میں
دومبارز دل ہیں
اس تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے
ایک ہی تھال سے چننی ہے ہمیں نانِ جویں
ایک ہی سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے
اور اس کشمکش رزق میں موہوم کشائش کی کلید
جس قدر میری قناعت میں ہے
اتنی تیری فیّاضی میں
میں تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کرکے
تیرے ہمراہ میں سُورج کی تمازت دیکھوں
اس سے آگے نہیں سوچا دل نے
پھر بھی احوال یہ ہے
اِک بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے
ایک دھڑکا ہے کہ خوں سرد کیے رہتا ہے
نہ کوئی عہد نہ پیمان
نہ وعدہ ایسا
نہ ترا حسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش
نہ میرے ہاتھ میں تاثیر زلیخائی ہے
رقص گر ہے یہ جہاں اور نہ میں سنڈریلا ہوں
نہ تو شہزادہ ہے
ہم تو بس رزم گہِ ہستی میں
دومبارز دل ہیں
اس تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے
ایک ہی تھال سے چننی ہے ہمیں نانِ جویں
ایک ہی سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے
اور اس کشمکش رزق میں موہوم کشائش کی کلید
جس قدر میری قناعت میں ہے
اتنی تیری فیّاضی میں
میں تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کرکے
تیرے ہمراہ میں سُورج کی تمازت دیکھوں
اس سے آگے نہیں سوچا دل نے
پھر بھی احوال یہ ہے
اِک بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے
ایک دھڑکا ہے کہ خوں سرد کیے رہتا ہے