View Full Version : اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ریاض الصالحین باب 25-24
باب 24
جو شخص نیکی کا حکم دے یا بُرائی سے منع کرے لیکن اس کا اپنا قول اس کے فعل کے مخالف ہو تو اس کی بڑی سخت سزا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، پس کیا تم نہیں سمجھتے؟۔''
(سورة البقرة :44)
اور فرمایا:
''اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو۔ جو تم کرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات بڑی ناراضی والی ہے کہ تم وہ باتیں کہو جو تم نہ کرو۔''
(سورة الصف: 2،3)
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب کا یہ قول نقل فرمایا کہ:
''میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں جس چیز سے روکتا ہوں میں خود وہ کرکے تمہاری مخالفت کروں۔''
(سورة ھود :88)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 198
حضرت ابو زید اسامہ بن زید حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''ایک شخص کو روز قیامت لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیاجائے گا، اس کی انتڑیاں نکل آئیں گی اور وہ ان کو لے کر اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی میں چکر لگاتا ہے۔ اتنے میں جہنمی اس کے پاس جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے۔ اے فلاں ! تجھے کیا ہوا؟ کیا تم نیکی کا حکم نہیں کرتے تھے اوربرائی سے نہیں روکتے تھے؟ وہ کہے گا: ہاں! یقیناً میں نیکی کا حکم تو کرتا تھا۔ لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا۔ اور برائی سے (دوسروں کو) منع تو کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3316۔فتح) و مسلم (2989)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 25
ادائے امانت کا حکم
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں امانت والوں کو ادا کرو۔''
(سورة النساء آیت5
اور فرمایا:
''ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اورپہاڑوں پر پیش کیا، پس انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور سخت نادان ہے۔''
(سورة الأحزاب :72)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 199
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب وہ بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو (اس میں) سے خیانت کرے۔''
(متفق علیہ)
ایک اور روایت میں ہے: ''اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (891۔فتح) و مسلم (59)، والروایة الثانیة عند مسلم (59)(109)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 200۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان فرمائیں، میں نے ان میں سے ایک تو دیکھ لی ہے۔ او دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ نے ہمیں بیان فرمایا تھا: ''امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (یعنی اسے فطرت کا حصہ بنایا گیا) پھر قرآن نازل ہوا تو لوگوں نے اسے (امانت کو) قرآن اور سنت سے جانا''۔ پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں ہمیں بتایا تو فرمایا: ''آدمی سوئے گا اور اس کے دل سے امانت قبض کرلی جائے گی، پس اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا، پھر وہ سوئے گا تو اس کے دل سے امانت قبض کرلی جائے گی، پس اس کا اثر آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا جیسے ایک انگارہ ہو جسے تو اپنے پاؤں پر لڑھکائے تو اس سے چھالہ نمودار ہو جائے، پس تو اسے ابھرتا ہوا تو دیکھتا ہے لیکن اس میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔'' پھر آپ نے ایک کنکری پکڑی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا (پھر فرمایا): ''پس لوگ صبح کے وقت باہم خرید وفروخت کرتے ہوں گے، ان میں سے کوئی ایک بھی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا حتیٰ کہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کی اولاد میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ حتیٰ کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ کس قدر مضبوط، ہوشیار اور عقلمند ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔'' راوی حدیث حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ یقیناً مجھ پر ایسا وقت بھی آیا کہ مجھے پروا نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کر رہا ہوں اس لیے کہ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین مجھ پر (میری چیز) لوٹا دے گا اور اگر وہ عیسائی یا یہودی ہو گا تو اس کا ذمہ دار مجھ پر (میری چیز) لوٹا دے گا۔ جہاں تک آج کا تعلق ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں فلاں شخص سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (33311۔فتح)، و مسلم (143)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 201
حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (روز قیامت) لوگوں کو جمع فرمائے گا۔ پس مومن کھڑے ہونگے حتیٰ کہ جنت ان کے قریب کردی جائے گی، پس وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: "ابا جان! ہمارے لیے جنت کھلوائیے۔" وہ فرمائیں گے: "تمہارے باپ کی غلطی نے ہی تو تمہیں جنت سے نکلوایا تھا لہٰذا میں اس کا اہل نہیں ہوں (کہ جنت کھلواؤں) تم میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔" پس وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں میں خلیل تو تھا۔ لیکن میں اس بلند درجے کا اہل نہیں ہوں۔ لہٰذا تم موسیٰ کے پاس جاؤ۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔" پس وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں، تم عیسیٰ کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔" پس عیسیٰ (علیہ السلام) یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں۔ پس وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوں گے اور آپ کو اجازت دی جائے گی۔ امانت اور رحم (صلہ رحمی) کو بھیجا جائے گا تو وہ دونوں پل صراط کے دونوں جانب دائیں بائیں کھڑی ہو جائیں گی (پھر لوگ پل صراط سے گزرنا شروع ہو جائیں گے) پس تمہارا اول اور پہلا گروہ تو بجلی کی طرح نہایت تیزی سے گزر جائے گا۔'' راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، بجلی کی طرح گزرنے سے کون سی چیز مراد ہے۔؟" آپ نے فرمایا: ''کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ بجلی کس طرح سے پلک جھپکنے میں گزر جاتی اور واپس آجاتی ہے۔؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح، پھر پرندے کے گزرنے کی طرح (لوگ پل صراط سے گزر جائیں گے) اور کچھ طاقت ور آدمی کی تیز چال کی طرح اور یہ سب اپنے اپنے اعمال کے حساب سے وہاں سے گزریں گے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط پر کھڑے ہوں گے اور فرماتے ہوں گے اے میرے رب! بچا بچا حتیٰ کہ بندوں کے اعمال عاجز آجائیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا جو چلنے کی استطاعت نہیں رکھے گا، وہ صرف گھسٹ کر چلے گا۔ پل صرا ط کے دونوں طرف آنکڑے لٹکے ہوئے ہوں گے۔ جنہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جس کے بارے میں انہیں پکڑنے کا حکم دیا جائے وہ اسے پکڑلیں۔ پس بعض (گزرنے والے) زخمی تو ہوں گے۔ لیکن بہر حال وہ کامیاب ہوجائیں گے۔ اور بعض کو اندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔''
(ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابرہے۔
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (195)
حدیث کے آخر میں حضرت ابوہریرہ نے جو جہنم کی گہرائی کے بارے میں بیان کیا ہے وہ وعدہ مدرج ہے یعنی حضرت ابو ہریرہ کا قول ہے مرفوع نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 201
حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (روز قیامت) لوگوں کو جمع فرمائے گا۔ پس مومن کھڑے ہونگے حتیٰ کہ جنت ان کے قریب کردی جائے گی، پس وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: "ابا جان! ہمارے لیے جنت کھلوائیے۔" وہ فرمائیں گے: "تمہارے باپ کی غلطی نے ہی تو تمہیں جنت سے نکلوایا تھا لہٰذا میں اس کا اہل نہیں ہوں (کہ جنت کھلواؤں) تم میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔" پس وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں میں خلیل تو تھا۔ لیکن میں اس بلند درجے کا اہل نہیں ہوں۔ لہٰذا تم موسیٰ کے پاس جاؤ۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔" پس وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں، تم عیسیٰ کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔" پس عیسیٰ (علیہ السلام) یہی فرمائیں گے کہ میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں۔ پس وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوں گے اور آپ کو اجازت دی جائے گی۔ امانت اور رحم (صلہ رحمی) کو بھیجا جائے گا تو وہ دونوں پل صراط کے دونوں جانب دائیں بائیں کھڑی ہو جائیں گی (پھر لوگ پل صراط سے گزرنا شروع ہو جائیں گے) پس تمہارا اول اور پہلا گروہ تو بجلی کی طرح نہایت تیزی سے گزر جائے گا۔'' راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، بجلی کی طرح گزرنے سے کون سی چیز مراد ہے۔؟" آپ نے فرمایا: ''کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ بجلی کس طرح سے پلک جھپکنے میں گزر جاتی اور واپس آجاتی ہے۔؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح، پھر پرندے کے گزرنے کی طرح (لوگ پل صراط سے گزر جائیں گے) اور کچھ طاقت ور آدمی کی تیز چال کی طرح اور یہ سب اپنے اپنے اعمال کے حساب سے وہاں سے گزریں گے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط پر کھڑے ہوں گے اور فرماتے ہوں گے اے میرے رب! بچا بچا حتیٰ کہ بندوں کے اعمال عاجز آجائیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا جو چلنے کی استطاعت نہیں رکھے گا، وہ صرف گھسٹ کر چلے گا۔ پل صرا ط کے دونوں طرف آنکڑے لٹکے ہوئے ہوں گے۔ جنہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جس کے بارے میں انہیں پکڑنے کا حکم دیا جائے وہ اسے پکڑلیں۔ پس بعض (گزرنے والے) زخمی تو ہوں گے۔ لیکن بہر حال وہ کامیاب ہوجائیں گے۔ اور بعض کو اندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔''
(ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابرہے۔
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (195)
حدیث کے آخر میں حضرت ابوہریرہ نے جو جہنم کی گہرائی کے بارے میں بیان کیا ہے وہ وعدہ مدرج ہے یعنی حضرت ابو ہریرہ کا قول ہے مرفوع نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 202
حضرت ابو خبیب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب (میرے والد) حضرت زبیر جنگ جمل والے دن کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا، پس میں آپ کے پہلو میں کھڑا ہوگیا تو انھوں نے فرمایا: ''بیٹا! آج جو لوگ قتل ہوں گے وہ ظالم ہوں گے یا مظلوم اور میں اپنے بارے میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ میں آج مظلوم کی حیثیت سے قتل کیا جاؤں گا اور مجھے اپنے قرض کے بارے میں بہت فکر ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ ہمارا قرض ہمارے مال میں سے کچھ چھوڑے گا؟ پھر فرمایا: '' بیٹے ہمارے مال کو فروخت کردینا اور میرا قرض ادا کردینا اور تہائی مال کی وصیت فرمائی اور تہائی میں سے تہائی مال کی وصیت عبداللہ کے بیٹوں کے لیے فرمائی، پھر فرمایا: ''اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچ جائے، تو پھر اس میں تہائی تمہارے بیٹوں کیلئے ہے۔ ہشام (حدیث کے راوی) کہتے ہیں کہ عبداللہ کے بیٹے خبیب اور عباد، حضرت زبیر کے بعض بیٹوں کے ہم عمر تھے۔ اور اس وقت حضرت زبیر کے نو بیٹے اور نوبیٹیاں تھیں۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے قرض کی ادائیگی کے بارے میں وصیت فرمانے لگے، تو کہا: "بیٹا! تم اس مسئلے میں کہیں عاجز آجاؤ تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا۔" عبداللہ کہتے ہیں: "اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ کی مولیٰ سے کیا مراد ہے؟ حتیٰ کہ میں نے پوچھ ہی لیا کہ اباجان! آپ کا مولیٰ کون ہے؟ انھوں نے کہا: ''اللہ'' عبد اللہ کہتے ہیں: "اللہ کی قسم! ان کے قرض کی ادائیگی میں جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی تو میں یہی کہتا: اے زبیر کے مولیٰ! ان کے قرض کی ادائیگی فرمائیں۔ پس وہ ادا فرمادیتا۔ عبداللہ نے بیان فرمایا کہ حضرت زبیر اس جنگ میں قتل ہوگئے تو انھوں نے کوئی درہم و دینار ترکے میں نہ چھوڑا علاوہ کچھ زمینوں کے اور غابہ کی زمین بھی انہی میں سے تھی، نیز مدینے میں گیارہ گھروں، بصرہ میں دو گھروں اور مصر میں ایک گھر۔ حضرت عبد اللہ نے بیان کیا کہ آپ کے ذمے جو قرض تھا وہ اس طرح تھا۔ کوئی شخص ان کے پاس مال لے کر آتا اور آپ کے پاس بطور امانت رکھ دیتا تو حضرت زبیر فرماتے نہیں! یہ بطور امانت نہیں بلکہ یہ (میرے ذمے) قرض ہے، اس لیے کہ مجھے اس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے، آپ کبھی کسی امارت (گورنری) پر فائز ہوئے نہ کبھی کسی ٹیکس یا کچھ اور کوئی چیز وصول کرنے کی ذمہ داری قبول کی آپ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے رہے۔ عبداللہ کہتے ہیں: میں نے ان کے قرض کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ تھا، پس حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر سے ملے تو کہا: "بھتیجے! میرے بھائی کے ذمے کتنا قرض ہے؟" عبداللہ کہتے ہیں: "میں نے اسے چھپایا اور کہا: "ایک لاکھ،" حکیم نے کہا۔ اللہ کی قسم میں نہیں سمجھتا کہ تمہارا مال اتنی مالیت کا ہو کہ قرض کی ادائیگی ہو سکے، حضرت عبداللہ نے کہا: "اگر قرض بائیس لاکھ ہو تو پھر تمہارا کیا خیال ہے؟" انھوں نے کہا: "میں نہیں سمجھتا کہ تم میں اتنی طاقت ہو۔ اگر تم اس سے عاجز ہو تو میری مدد طلب کرنا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ زبیر نے غابہ کی زمین ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی۔ لیکن عبداللہ نے اسے سولہ لاکھ میں فروخت کیا۔ پھر وہ کھڑے ہوگئے۔ اور اعلان کیا کہ جس کا زبیر پر قرض ہو تو وہ ہمیں غابہ کے مقام پر ملے۔ عبداللہ بن جعفر ان کے پاس آئے۔ ان کا زبیر پر چار لاکھ قرض تھا، انھوں نے حضرت عبداللہ سے کہا: "اگر تم چاہو تو میں اسے تمہیں معاف کردوں؟" عبداللہ نے کہا: "نہیں ! پھر انھوں (عبداللہ بن جعفر) نے کہا: "اگر تم چاہوتو مجھے تاخیر سے دے دینا۔" عبداللہ نے کہا: "نہیں،" انہوں نے کہا "تب مجھے (نقد کی بجائے) زمین کا ایک ٹکڑا دے دیا جائے" عبد اللہ نے کہا: "یہاں سے یہاں تک زمین کا حصہ تمہارے لیے ہے۔" پس عبداللہ بن زبیر نے زمین کا (باقی) حصہ فروخت کیا اور حضرت زبیر کا قرض اتار دیا اور ساڑھے چار حصے باقی رہ گئے۔ پھر عبداللہ بن زبیر حضرت معاویہ کے پاس آئے، اس وقت ان کے پاس عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بیٹھے ہوئے تھے، پس معاویہ نے حضرت عبداللہ سے پوچھا کہ غابہ کی زمین کی کتنی قیمت لگی؟ انہوں نے کہا: "ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ" انہوں نے پوچھا کہ "باقی کتنے حصے رہ گئے؟" ابن زبیر نے جواب دیا کہ: "ساڑھے چار" منذر بن زبیر نے کہا: "ان میں سے ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں لے لیا۔" عمرو بن عثمان نے کہا: "ان میں سے ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں لے لیا" اور ابن زمعہ نے کہا: "ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں لے لیا۔" حضرت معاویہ نے پوچھا: "اب اس میں سے کتنے حصے باقی رہ گئے؟" انھوں نے کہا: "ڈیڑھ" حضرت معاویہ نے کہا: "اسے میں نے ڈیڑھ لاکھ میں لے لیا۔" حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن جعفر نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کو چھ لاکھ میں فروخت کیا۔ جب عبد اللہ بن زبیر (اپنے باپ) حضرت زبیر کے قرض کی ادائیگی سے فارغ ہوئے تو حضرت زبیر کے دوسرے بیٹوں نے کہا: "ہمارے درمیان ہماری میراث تقسیم کرو" حضرت عبداللہ نے کہا: "اللہ تعالیٰ کی قسم! میں تمہارے درمیان میراث تقسیم نہیں کروں گا حتیٰ کہ میں حج کے موسم پر چار سال مسلسل اعلان کر وں گا کہ سن لو! جس کسی کا (میرے والد) حضرت زبیر پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اس کا قرض ادا کریں گے۔" پس وہ ہر سال حج کے موقع پر یہ اعلان کرتے۔ پس جب چار سال گزر گئے تو انھوں نے وہ بقیہ مال ان (ورثاء) کے درمیان تقسیم کردیا اور تہائی مال بھی وصیت کے مطابق ادا کردیا۔ حضرت زبیر کی چار بیویاں تھیں پس ہر بیوی کو بارہ بارہ لاکھ ملے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا تمام مال پانچ کروڑ دو لاکھ کا تھا۔
(بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2276۔228۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
ریاض الصالحین باب 27، 28
باب 27
مسلمانوں کی حرمات کی تعظیم، ان کے حقوق اور ان پر شفقت اور رحمت کرنے کابیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''جو شخص اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم کرے گا، پس وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے۔''
(سورة الحج:30)
اور فرمایا:
''جو اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرے گا پس یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔''
(سورة الحج:32)
اور فرمایا:
''اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں۔''
(سورة الحجر: 88)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''جس نے بغیر کسی جان (کے قصاص) یا زمین میں فساد کے کسی جان کو (ناجائز) قتل کیا پس اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اور جس نے کسی ایک جان کو (بچا کر) زندہ کردیا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ کردیا۔''
(سورة المائدة :32)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 222
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن مومن کے حق میں عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔'' پھر آپ نے اپنے ایک پاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(45010۔فتح)، و مسلم (2585)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 222
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن مومن کے حق میں عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔'' پھر آپ نے اپنے ایک پاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(45010۔فتح)، و مسلم (2585)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 223
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص ہماری کسی مسجد میں سے یا ہمارے کسی بازار میں سے گزرے اور اس کے پاس کوئی تیر ہو تو وہ اسے اچھی طرح سنبھال کر رکھے یا پھر اسے اس کے پیکاں کی طرف سے پکڑلے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچ جائے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری(5471۔فتح)'ومسلم(2615)(124)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 224
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے میں، رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کا ایک عضو درد کرتا ہے تو اس کا باقی سارا جسد اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (43810۔فتح)، و مسلم (2586)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 225
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی کو بوسہ دیا اور اقرع بن حابس آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت اقرع نے کہا: "میرے دس بچے ہیں اور میں نے اس میں سے کبھی کسی ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: ''جو کسی پر رحم نہیں کرتا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (42610۔فتح)، و مسلم(2318)
۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 226
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کچھ اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا: کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں!" انھوں نے کہا: لیکن اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم تو بوسہ نہیں دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحمت و شفقت نکال دی ہے تو پھر میں کیا اختیار رکھتا ہوں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (42610۔فتح)، و مسلم (2317)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 227
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(43810۔فتح)'ومسلم(2319)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 228
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی ایک لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ ہلکی (مختصر) پڑھائے، اس لیے کہ ان (نمازیوں) میں ضعیف، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی ایک خود نماز پڑھے تو پھر جتنی چاہے لمبی پڑھے۔''
(متفق علیہ)
ایک اور روایت میں ہے: ''اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1992۔فتح)، و مسلم (467) (184)، والروایة الثانیة عند مسلم (467)(185)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 229
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ایسا عمل چھوڑ دیتے تھے، جسے کرنا آپ پسند کرتے تھے، صرف اس اندیشے سے کہ کہیں لوگ بھی اسے کرنے لگ جائیں اور پھر وہ ان پر فرض کردیا جائے۔
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (103،فتح) و مسلم (718)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 230
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر مہربانی کرتے ہوئے انہیں وصال (افطار کیے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا ''تو انھوں نے کہا: "آپ خود تو وصال کرتے ہیں؟" آپ نے فرمایا: ''میں تمہاری طرح تو نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2024۔فتح)، و مسلم (1105)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 231
حضرت ابو قتادہ حارث بن ربعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو میرا ارادہ ہوتا ہے کہ میں ا سے لمبا کروں اتنے میں میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں اپنی نماز میں اختصار کرتا ہوں، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ میں اس کی ماں کومشقت میں ڈالوں۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2012۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 232
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان اور عہد میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے۔ اس لیے کہ وہ جس سے بھی اس کا مطالبہ کرے گا، اسے پکڑ لے گا اور پھر اسے اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دے گا۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(657)(262)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 332
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (کسی ظالم کے)سپرد کرتا ہے، جو اپنے بھائی کی حاجت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی تکلیف دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے روز قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی کوئی تکلیف دور کردے گا۔ اور جس شخص نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی کرے گا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (975۔فتح)، و مسلم (2580)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 234
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کابھائی ہے، وہ اس کی خیانت کرتا ہے نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے۔ (اور نہ اسے جھوٹا قرار دیتا ہے) اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، ایک مسلمان کی عزت، اس کا مال اور اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ تقویٰ یہاں (دل میں) ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔''
(ترمذی۔ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: صحیح أخرجہ الترمذی (1927)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 235
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم آپس میں ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکا دو، باہم بغض رکھو نہ ایک دوسرے سے بے رخی کرو اور نہ ہی تم ایک دوسرے کے سودے پر سوداکرو، بلکہ اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے اور نہ اسے بے یار و مدد گار چھوڑے۔ تقویٰ یہاں ہے'' آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے تین بار ایسے فرمایا، پھر فرمایا: ''کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان پر خون، مال اور عزت حرام ہے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(2564)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 236
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی ایک مومن نہیں حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرے۔''
(متفق علیہ)
اس حدیث کی توثیق کے لیے حدیث نمبر (183) ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
~wish munda~
08-09-2012, 01:40 AM
MashAllah JazakAllah Khair
Allah Pak is pay Amal Kernay Ki Tufeeq Ata fermAey
حدیث نمبر 237۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔'' ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں لیکن یہ بتائیں کہ اگر وہ ظالم ہو تو پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟" آپ نے فرمایا: ''تم اسے ظلم کرنے سے روک دو، اس لیے کہ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (985۔فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 238
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا، جنازوں میں شرکت کرنا، دعوت قبول کرنا۔ اور چھینکنے والے کو (اگر وہ الحمدللہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کہہ کر) چھینک کا جواب دینا۔''
(متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ''ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب تم اسے ملو تو اسے سلام کرو، جب تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کر و، جب تم سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کے ساتھ خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر جواب دو، جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو اور جب فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو"۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1123۔فتح)، و مسلم (2162) والروایة الثانیة عند مسلم (2162)(5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 238
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا، جنازوں میں شرکت کرنا، دعوت قبول کرنا۔ اور چھینکنے والے کو (اگر وہ الحمدللہ کہے تو یرحمک اللّٰہ کہہ کر) چھینک کا جواب دینا۔''
(متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ''ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب تم اسے ملو تو اسے سلام کرو، جب تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کر و، جب تم سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کے ساتھ خیر خواہی کرو، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر جواب دو، جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو اور جب فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو"۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1123۔فتح)، و مسلم (2162) والروایة الثانیة عند مسلم (2162)(5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 239
حضرت ابو عمارہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کے کرنے کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا: ''مریض کی عیادت کرنے، جنازے میں شرکت کرنے، چھینکنے والے کو جواب دینے، قسم اٹھانے والے کی قسم کو پورا کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، داعی کی دعوت قبول کرنے اور سلام کو پھیلانے کا ہمیں حکم فرمایا۔ سونے کی انگوٹھیاں پہننے، چاندی کے برتنوں میں پینے، سرخ ریشمی گدوں کے استعمال سے، قسی کے کپڑے پہننے سے، حریر (ریشم)، استبرق (دبیز ریشم) اور دیباج (ریشمی کپڑے) کے استعمال سے منع فرمایا''
(متفق علیہ)
اور ایک اور روایت میں ہے کہ پہلی سات باتوں میں گم شدہ چیز کی تشہیر کرنے کا حکم دیا۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(1123،فتح) و مسلم (2066)
..... ...
باب 28
مسلمانوں کے عیوب چھپانے اور بغیر ضرورت کے ان کی اشاعت کے ممنوع ہونے کا بیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بلاشبہ وہ لوگ جو اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیلانا پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔''
(سورة النور :19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 240
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر کوئی بندہ کسی بندے کی دنیا میں ستر پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخر جہ مسلم(2590)(72)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 241
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''میری پوری امت درگزر کے قابل ہوگی سوائے ان لوگو ں کے جو کھلم کھلا گناہ کرنے والے ہوں گے۔ اور بے شک یہ بھی کھلم کھلا گناہ ہے کہ آدمی رات کو کوئی کام کرے پھر صبح کو باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا، وہ لوگوں سے کہتا پھرے اے فلاں! میں نے گذشتہ رات یہ یہ کیا، حالانکہ اس نے رات اس طرح گزاری تھی کہ اس کے رب نے ا س کی پردہ پوشی کی ہوئی تھی اور صبح کو وہ پردہ چاک کررہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈال دیا تھا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (48610۔فتح)، و مسلم (2990)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 242
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب لونڈی زنا کرے اور اس کا گناہ ظاہر ہو جائے تو وہ (اس کا مالک) اس پر حد جاری کرے اور اس کو ملامت وغیرہ نہ کرے (یعنی اس پر کوئی سختی نہ کرے) پھر اگر دوسری بار بھی زنا کرے تو پھر اس پر حد جاری کرے اور اس پر کوئی سختی نہ کرے اور اگر تیسری مرتبہ بھی زنا کرے تو اسے بیچ ڈالے خواہ بالوں کی رسی کے بدلے ہی کیوں نہ ہو۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1785۔فتح)، و مسلم (1703)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 243
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی۔ تو آپ نے فرمایا: ''اسے مارو پیٹو۔'' ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ پس ہم میں سے کوئی اپنے ہاتھ سے، کوئی اپنے جوتے سے اور کوئی اپنے کپڑ ے سے اسے مار رہا تھا۔ پس جب وہ چلا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ تجھے رسوا کرے۔ آپ نے فرمایا: ''تم ایسے نہ کہو۔ اور اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(7512۔فتح)
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.