View Full Version : ریاض الصالحین باب، 21،22،23
نیکی اورتقویٰ پر تعاون کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے سے تعاون کرو۔''
(سورة المائدة:2)
اور فرمایا:
''قسم ہے زمانے کی! یقیناً انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔''
(سورة العصر :1۔3)
امام شافعی فرماتے ہیں: "بلا شبہ تمام لوگ یا ان میں سے اکثر اس سورت میں غور و فکر اور تدبر کرنے میں غفلت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 177
حضرت ابو عبد الرحمن زید بن خالد جہنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کو تیار کیا تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے جہاد کرنے والے کے گھر میں بھلائی کے ساتھ جانشینی کی تو یقیناً اس نے بھی جہاد کیا''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (496۔فتح) و مسلم (1895)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 178
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہذیل قبیلے کی شاخ بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: ''ہر دو آدمیوں میں سے ایک ضرور جائے اور ثواب دونوں کے درمیان ہوگا (یعنی وہ دونوں اجر کے مستحق ہوں گے)۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1896)
حدیث نمبر 189
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینے کے قریب) روحاء کے مقام پر ایک قافلے کو ملے، تو آپ نے پوچھا: ''کون لوگ ہیں؟" انھوں نے کہا: "مسلمان ہیں۔" پھر انھوں نے پوچھا: "آپ کون ہیں؟" آپ نے فرمایا: ''اللہ کا رسول!'' پس ایک عورت نے آپ کی طرف ایک بچہ اٹھا کر پوچھا: "کیا اس کے لیے بھی حج ہے؟" آپ نے فرمایا: ''ہاں! تمہارے لیے اجر ہے''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1336)
حدیث نمبر 180
حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''مسلمان امانت دار خزانچی جو اس پر عمل کرے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور وہ خوش دلی سے اس کو مکمل اور پورا پورا مال دے جس کے بارے میں دینے کے لیے اسے حکم دیا گیا تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہو گا۔''
(متفق علیہ)
ایک اور روایت میں ہے: ''جس اور جتنی چیز کا اسے حکم دیا جاتا ہے وہ اسے دے دے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3023۔فتح) و مسلم (1023)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب 22
خیر خواہی کابیان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''مومن تو سب بھائی بھائی ہیں۔''
(سورة الحجرات: 10)
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا: ''اور میں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں۔''
(سورة الاعراف :62)
اور حضرت ہود کا قول نقل فرمایا: ''میں تمہارے لیے خیر خواہ اور امانت دار ہوں۔''
(سورة الاعراف: 68)
حدیث نمبر 181
حضرت ابو رقیہ تمیم بن اوس داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دین خیر خواہی کرنے کا نام ہے۔'' ہم نے کہا: "کس کی خیر خواہی؟" آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(55)
(یہ حدیث بہت بڑی اصل ہے اسی لیے علماء نے اس حدیث کو ان احادیث میں شمارکیا ہے جن پر اسلام کا مدار ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 182
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے قائم کرنے، زکوٰة کے ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1371۔فتح) مسلم (56)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 183
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری(561۔57۔فتح)'ومسلم(45)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
باب 23
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اور تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے جو نیکی و بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کاحکم دے اور برائی سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔''
(سورہ آل عمران :104)
اور فرمایا:
''تم بہترین امت ہو جنھیں لوگوں کی ہدایت کے لئے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔''
(سورة آل عمران :110)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اے پیغمبر! عفو اختیار کرو۔ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔''
(سورة الأعراف :199)
اور فرمایا:
''مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔''
(سورة التوبہ:71)
اور فرمایا:
''بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی، یہ اس سبب سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرنے والے تھے۔ (اس طرح کہ) وہ ایک دوسرے کو ان برائیوں سے نہیں روکتے تھے۔ جن کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔ البتہ برا ہے جو وہ (دعوت حق میں شامل) کرتے تھے۔''
(سورة المائدة :78۔79)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''کہہ دیجئے! کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہیے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔''
(سورة الکھف: 29)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''جس چیز کا تجھے حکم دیا جاتا ہے اسے کھول کر بیان کردیں۔''
(سورة الحجر: 94)
اورفرمایا:
''ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو برائی سے روکتے تھے اور ظالموں کی سخت عذاب کے ساتھ گرفت کی، یہ سبب اس کے جو وہ نافرمانی تھے۔''
(سورة الأعراف:165)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نمبر 184
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''تم میں سے جو شخص کسی برائی کو ہوتا دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے (یعنی رو ک دے) اگر وہ (ہاتھ سے روکنے کی) استطاعت نہیں رکھتا تو زبان سے (اس برائی کو واضح کرے) اور اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اپنے دل سے (اسے برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم(49)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 185
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جو نبی بھی بھیجا اس کی امت میں اس کے حواری اور ساتھی تھے جو اس کی سنت پر عمل اور اس کے حکم کی اقتدا کرتے تھے، پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی باتیں کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ ایسے کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص اپنے ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا وہ مومن ہے اور جو شخص اپنے دل سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور جو شخص اپنی زبان سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(50)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 186
حضرت ابو ولید عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (ہرحال میں) سمع و طاعت پر بیعت کی، خواہ ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں، سہولت میں ہوں یا سختی میں اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور ہم حکمرانوں سے اقتدار کے معاملے میں نہیں لڑیں گے مگر یہ کہ تم ان میں صریح کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں حق کہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (513۔فتح) و مسلم (1709)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 187
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا ہے، اور اس شخص کی مثال جو ان حدود میں مبتلا ہونے والا ہے، ان لوگوں کی طرح ہے جنھوں نے کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصوں کے بارے میں قرعہ اندازی کی، پس ان میں سے بعض تو اس کے اوپر والے حصے میں اور بعض نچلے حصے میں بیٹھ گئے اور نچلے حصے والوں کو جب بھی پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنی اوپر والی منزل والوں کے پاس سے گزرتے، لہٰذا انھوں (نچلے حصے والوں نے) نے کہا: "اگر ہم اپنے ہی حصے میں ایک سوراخ کرلیں۔ (اور نیچے سے پانی حاصل کرلیں) اور اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ پہنچائیں (تو کیا ہی اچھا ہو) تو اگر انھوں (اوپر والوں) نے انہیں اپنے حال اور منصوبے پر چھوڑ دیا تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر وہ ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں گے تو وہ خود بھی اور باقی سب بھی بچ جائیں گے۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (1325۔فتح)
حدیث نمبر 188
ام المومنین ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ حذیفہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''یقیناً تم پر عنقریب ایسے حکمران بنائے جائیں گے کہ تم ان کے بعض اعمال کو پسند کرو گے اور بعض کو ناپسند کرو گے، پس جس شخص نے (ان کے ناپسندیدہ کاموں کو) ناپسند کیا تو وہ (گناہ سے) بری ہوگیا اورجس نے انکار کیا تو وہ (اس معصیت سے) بچ گیا لیکن جو راضی ہوگیا اور پیروی کی (تو وہ ہلاک ہوگیا)" صحابہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان (حکمرانوں) سے قتال نہ کریں؟" آپ نے فرمایا: ''نہیں جب تک وہ تم میں نماز کو قائم رکھیں۔''
اس کے معنی ہیں کہ جس نے دل سے برا سمجھا اور اس میں ہاتھ یا زبان سے انکار کی طاقت نہیں تھی تو وہ گناہ سے بری ہو گیا اور ا س نے اپنا فرض ادا کردیا اور جس نے اپنی طاقت کے مطابق انکار کیا تو وہ اس معصیت سے بچ گیا اور جو ان کے فعل سے راضی ہوگیا اور ان کی متابعت کی تو وہ گنہگار ہے۔
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (1854)(63)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 189۔
ام المومنین ام حکم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز بڑی گھبراہٹ کے عالم میں میرے پاس تشریف لائے۔ اور آپ اس وقت یہ فرمارہے تھے: ''اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، عربوں کے لیے اس شر کی وجہ سے ہلاکت ہے جو قریب آچکا، آج یا جوج ماجوج کی دیوار سے اتنا حصہ کھول دیا گیا ہے۔'' آپ نے انگشتِ شہادت اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر دکھایا (کہ اتناسوراخ ہو گیا ہے) میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے جبکہ ہمارے اندر نیک لوگ بھی ہوں گے؟" آپ نے فرمایا: ''ہاں! جب برائی اور فسق وفجور عام ہوجائے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3816۔فتح) و مسلم(2880)(2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 190
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔'' صحابہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے وہاں بیٹھے بغیر چارہ نہیں، ہم وہاں بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر تم نے وہاں ضرور ہی بیٹھنا ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔'' انھوں نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول! راستے کا حق کیا ہے؟" آپ نے فرمایا: ''نگاہوں کو پست رکھنا، تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹانا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (1125،فتح) و مسلم(2121)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 191
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتارا اور پھینک دیا۔ اور فرمایا: ''تم میں سے کوئی ایک آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے۔ اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے۔''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اس آدمی سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی اٹھالو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، اس نے کہا: "نہیں اللہ کی قسم! میں اس چیز کو کبھی نہیں اٹھاؤں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا۔"
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(2090)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 192۔
حضرت ابو سعید حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عائذ بن عمرو عبید اللہ بن زیاد کے پاس گئے تو فرمایا: ''اے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''بلاشبہ وہ حکمران بدترین ہیں جو اپنی رعایا پر سختی کرتے ہیں۔'' پس تو ان میں سے ہونے سے بچ۔ اس نے انہیں کہا آپ بیٹھئے آپ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بھوسا ہیں (یعنی تمہاری کیا حیثیت ہے؟) انھوں نے کہا: "کیا آپ کے صحابہ میں سے کچھ ایسے بھی تھے کہ انہیں بھوسا کہا جاسکے؟ بھوسا تو وہ لوگ ہیں۔ جو ان کے بعد ہوں گے اور جو ان کے علاوہ ہوں گے۔"
(مسلم)
توثیق الحدیث؛أخرجہ مسلم(1830)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 193
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور ضرور برائی سے روکو یا پھر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے پھر تم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی۔''
(ترمذی۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: حسن بشواھدہ۔ أخرجہ الترمذی (2169)
اس حدیث کو امام ترمذی نے ضعیف اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے،لیکن اس میں موجود عبد اللہ بن عبد الرحمن انصاری راوی متابعت کے وقت مقبول ہے اور اس حدیث کے دوشاہد ہیں: (1) ابن عمر کو طبرانی نے اوسط میں بیان کیا ہے (4393۔مجمع البحرین)۔ (2) اور دوسرا شاہد ابو ہریرہ سے ہے (4393،مجمع البحرین) ان دنوں سندوں میں اگرچہ کلام ہے لیکن یہ معتبر ہیں۔ تو حذیفہ کی حدیث ان دونوں شواہد کے ساتھ حسن ہے (واللہ اعلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 194
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔''
(ابوداؤد، ترمذی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: صحیح بشواھدہ۔ أخرجہ أبو داؤد (4344)، والترمذی (2174)، و ابن ماجہ (4011)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 195
حضرت ابو عبداللہ طارق بن شہاب بجلی احمسی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سوال کیا جب آپ رکاب میں اپنا قدم مبارک رکھ چکے تھے۔ کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا۔''
(نسائی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
توثیق الحدیث: أخرجہ النسائی (1617)، و أحمد (314)، اِسنادہ صحیح کما قال المصنف رحمة اللَّہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 196
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بنی اسرائیل میں جو پہلا نقص داخل ہوا وہ یہ تھا کہ اگر ایک آدمی کسی دوسرے آدمی سے ملاقات کرتا تو اسے کہتا: "اے شخص! اللہ سے ڈرو اور جو (برا) کام تو کرتا ہے اسے چھوڑ دے، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں، پھر وہ اسے کل ملتا تو وہ اپنی اسی حالت پر ہوتا تو پھر اس کی یہ حالت اسے اس کا ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہم مجلس بننے سے نہ روکتی۔ جب انھوں نے ایسے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کردیا۔'' پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: ''بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی زبانی لعنت کی گئی، یہ اس سبب سے جو انھوں نے نافرمانی کی اور و ہ زیادتی کرنے والے تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے، وہ یقیناً برا ہے۔ جو وہ کرتے تھے۔ تم اکثر لوگوں کو دیکھو گے کہ یہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ البتہ برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا'' آپ نے (فاسِقون) تک تلاوت فرمائی، پھر فرمایا: ''ہرگز نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو، تم ان کو زبردستی حق کی طرف موڑو اور ان کو حق پر مجبور اور پابند رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کے دلوں کو ایک جیسا کردے گا، پھر تم پر لعنت کرے گا۔ جیسے ان پر لعنت کی۔''
(ابوداؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے کہا کہ حدیث حسن ہے)
یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں ۔ اور ترمذی کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علماء نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے، پھر وہ (عالم) بھی ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگ گئے، ان کے ساتھ کھانے پینے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کردیا اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبانی ان پر لعنت فرمائی۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرنے والے تھے۔'' پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سیدھے) بیٹھ گئے جب کہ (پہلے) آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ''نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (تمہاری نجات نہیں) حتیٰ کہ تم انہیں حق کی طرف موڑو۔''
توثیق الحدیث: ضیعف أخرجہ أبوداؤد (4336) والترمذی(3047)، و ابن ماجہ
(4006) و غیرھم۔
اس کی سند منقطع ہے کیونکہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبد اللہ بن مسعود سے نہیں سنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 197
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو ''اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کو لازم پکڑو، جب تم خود ہدایت پر ہوگے تو گمراہ لوگ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے'' اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔
(ابوداؤد، ترمذی، نسائی۔ اسانید صحیح ہیں)
توثیق الحدیث: صحیح: أخرجہ أبو داؤد (4338) والترمذی (2168) و ابن ماجہ (4005) باسناد صحیح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.