View Full Version : ریاض الصالحین باب 15-16
باب 16
سنت اور اس کے آداب کی حفاظت کرنے کا حکم:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
''رسول تمہیں جو دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ۔''
(سورة الحشر:7)
اور فرمایا:
''وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتا، وہ تو وحی ہی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے۔"
(سورة نجم آیات 3،4)
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:
''کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا''
(سورة آل عمران:31)
اور فرمایا:
''یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے۔''
(سورة الأحزاب:21)
اور فرمایا:
''تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تجھے اپنا حاکم (ثالث) نہ مان لیں پھر تیرے فیصلے پر وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور خوش دلی سے اسے تسلیم کرلیں۔''
(سورة النساء آیت 65)
اور فرمایا:
''اگر کسی چیز کی بابت تمہارا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو تم اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔''
(سورةالنساء:59)
علماء نے کہا کہ اس کے معنی ہیں کہ کتاب و سنت کی طرف لوٹاؤ (یعنی اس کی روشنی میں جائز اور ناجائز کافیصلہ کرو)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی۔''
(سورةالنساء:80)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''یقیناً آپ سیدھے راستے کی طر ف راہنمائی کرتے ہیں۔
(سورة الشوری:52)
اور فرمایا:
''آپ (رسول) کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس امر سے ڈر جانا چاہیے کہ وہ کسی آزمائش سے دوچار نہ ہوجائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپہنچے۔''
(سورة النور:63)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور حکمت کوجو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں۔''
(سورةالأحزاب :34)
حدیث نمبر 156
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں جو باتیں تمہیں بیان کرنے سے چھوڑ دوں تو تم مجھے ان کے بارے میں (کرید کرنے سے) چھوڑ دو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ وہ کثرت سے سوال کرتے تھے۔ اور اپنے انبیاء (علیہم السلام) سے اختلاف کرتے تھے۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو تم اس سے اجتناب کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (25113۔ فتح) و مسلم(1337)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 157
حضرت ابونجیح عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہایت مؤثر اوربلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس سے دل ڈر گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ہم نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، لہٰذا آپ ہمیں وصیت فرمائیں۔" آپ نے فرمایا: ''میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور سمع و طاعت (سننے و ماننے) کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی غلام امیر مقرر ہوجائے اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین اور مہدیین کے طریقے کو لازم پکڑنا اور اسے داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑلینا، دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا، کیونکہ دین میں ہر نیا کام گمراہی ہے۔''
(ابوداؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے)
توثیق الحدیث: صحیح لغیرہ، أخرجہ أبو داود (4607) والترمذی (2676)، و ابن ماجہ (43'44)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 158
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کردے۔'' پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟" آپ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقیناً (جنت میں جانے سے) انکار کردیا۔''
(بخاری)
توثیق الحدیث:(24913،فتح)
حدیث نمبر 159
حضرت ابو مسلم، اور بعض نے کہا: ابو ایاس سلمہ بن عمرو اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ نے فرمایا: ''اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔" اس نے کہا: "میں طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا: ''تو طاقت نہ ہی رکھے۔'' اسے (دائیں ہاتھ سے کھانے سے) صرف تکبر نے روکا، پھر (اس کے بعد) وہ دائیں ہاتھ کو اپنے منہ تک نہیں اٹھا سکا۔
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2021)
حدیث نمبر 160
حضرت ابو عبد اللہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''تم اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست کرلو۔ ورنہ اللہ تمہارے درمیان مخالفت پیدا فرمادے گا۔''
(متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح برابر اور سیدھا فرماتے تھے کہ حتیٰ کہ ایسے معلوم ہوتا کہ اگر آپ ان کے ساتھ تیروں کو سیدھا فرما رہے ہیں۔ اور آپ صفیں سیدھی فرماتے رہے حتیٰ کہ آپ نے محسوس فرما لیا۔ کہ ہم نے آپ سے یہ مسئلہ سمجھ لیا ہے۔ پھر ایک روز آپ تشریف لائے اور (مصلے پر) کھڑے ہو گئے۔ قریب تھا کہ آپ تکبیر (اللہ اکبر) فرماتے، آپ نے اچانک ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں ضرور سیدھی کرلو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف پید افرمادے گا۔'' (یعنی تمہارے چہروں کو بدل دے گا۔)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (2062۔207۔فتح) و مسلم (436) والروایة الثانیة عند مسلم (436)(128)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 161
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت مدینے میں ایک گھر اپنے مکینوں سمیت جل گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں بتایا گیا۔ تو آپ نے فرمایا: ''یہ آگ تمہاری دشمن ہے۔ لہٰذا جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (8511۔فتح) و مسلم (2016)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 162
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے بھیجا ہے، اس کی مثال بارش کی مانند ہے جو زمین پر برستی ہے۔ اس زمین کا کچھ حصہ تو اچھا تھا۔ اس نے پانی کو جذب کرلیا اور اس نے گھاس اور بہت سا سبزہ اگایا جبکہ اس زمین کا ایک حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو اپنے اندر جذب تو نہیں کیا بلکہ روک لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، انھوں نے اس سے پیا پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا۔ اس زمین کا ایک ٹکڑا ایسا بھی تھا کہ وہ صرف چٹیل میدا ن تھا، وہ پانی روکتا تھا نہ گھاس اُگاتا تھا۔ پس یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے جس علم کے ساتھ مجھے معبوث فرمایا اس سے نفع اٹھایا، خود بھی اس علم کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور (یہ دوسری) مثال اس شخص کی ہے جس نے اس (ہدایت اور علم) کی طرف اپنا سر بھی نہیں اٹھایا (یعنی توجہ ہی نہیں کی) اور اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کو قبول بھی نہیں کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔''
(متفق علیہ)
(فقہ) قاف کے پیش کے ساتھ مشہور ہے۔ بعض کے نزدیک قاف کے زیر کے ساتھ ہے اس کا معنی ہے کہ وہ فقیہ ہو گیا۔
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (1751۔فتح) و مسلم (2282)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 163
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری اور تمہاری مثال اس ایک آدمی جیسی ہے۔ جس نے آگ جلائی تو پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور وہ ان کو اس (آگ) سے دور ہٹاتا ہے۔ اور میں بھی تمہاری کمر سے پکڑ پکڑ کر تمہیں آگ سے بچا رہا ہوں۔ لیکن تم میرے ہاتھوں سے چھوڑتے جاتے (اور آگ میں گرتے جاتے) ہو''
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم (2285)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 164
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھانے کے بعد) انگلیاں اور پیالہ، پلیٹ چاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا: ''تم نہیں جانتے کہ اس میں سے کس میں برکت ہے۔''
(مسلم)
اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اسے اٹھالے۔ اور اس کے ساتھ لگی ہوئی مٹی وغیرہ کو صاف کرکے کھالے، اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو رومال وغیرہ سے صاف نہ کرے۔ حتیٰ کہ اپنی انگلیوں وغیرہ کو چاٹ لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔''
صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے: ''شیطان تمہارے پاس ہر چیز میں حاضر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ کھانے کے وقت بھی حاضر ہوتا ہے۔ اگر تم میں کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس کے ساتھ لگی ہوئی مٹی وغیرہ کو دور کرکے (یعنی اسے صاف کرلے) کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑدے۔''
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2033)، والروایة الثانیة عندہ (2033) (134)، والروایة الثالثة عندہ (2033)(135)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 165
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں وعظ و نصیحت فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: ''اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کی طرف ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون پیدا کیے جاؤ گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ تخلیق کی ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے۔ ہم یقیناً پورا کرنے والے ہیں۔ (الانبیاء :103) سنو! روز قیامت سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔ اور سنو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، انہیں بائیں جانب (یعنی جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا۔ تو میں کہوں گا: "اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ مجھے بتایا جائے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا بدعتیں جاری کی تھیں، پھرمیں بھی کہوں گا جیسے اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی) نے کہا: ''میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا اور جب آپ نے مجھے بلالیا تو آپ ہی ان پر نگران تھے اورآپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ ہی کے بندے اور اگر انہیں بخش دیں تو یقیناً آپ غلبے والے حکمت والے ہیں۔''
(سورة: المائدة:117۔118)
"پھر مجھے بتا یا جائے گا کہ یہ لوگ دین اسلام سے مرتد ہوتے رہے جب سے آپ ان سے جدا ہو گئے تھے۔''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (3872866۔فتح) و مسلم (2860)(58)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 166
حضرت ابو سعید عبد اللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خذف (انگلی اور انگوٹھے سے کنکری پھینکنے)سے منع فرمایا ہے فرمایا: ''بے شک وہ کنکری شکار کو قتل کرتی ہے نہ دشمن کو زخمی، البتہ وہ آنکھ کو پھوڑ دیتی ہے اور دانت کو توڑ دیتی ہے۔''
(متفق علیہ)
ایک اور روایت میں ہے کہ ابن مغفل کے قریبی رشتہ دار نے انگلی پر کنکری رکھ کر چلائی تو انہوں نے اسے اس کام سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ''یہ کسی شکار کاشکار نہیں کرتی۔'' اس (رشتہ دار) نے پھر کنکری پھینکی تو انھوں (ابن مغفل) نے فرمایا: "میں تجھے بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے اورتم پھر یہ پھینک رہے ہو! میں تجھ سے کبھی کلام نہیں کروںگا۔"
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری (59910۔ فتح) و مسلم (1954) والروایة الثانیة عند مسلم (1954)(56)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 167
عابس بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا اور وہ فرمارہے تھے: "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔"
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:أخرجہ البخاری(4753۔فتح)'و مسلم(1270)
.................................................. ................
.................................................. ................
باب 17
اللہ کے حکم کی تعمیل واجب ہے اور جسے اس کی دعوت دی جائے اور نیکی کا حکم دیا جائے یا برائی سے منع کیا جائے تو اسے کیا کہنا چاہیئے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''(اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) تیرے رب کی قسم! وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ تمہیں اپنے باہمی جھگڑوں میں حکم (ثالث) نہ مان لیں اور پھر تیرے فیصلے پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کرلیں۔"
(سورةالنساء :65)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''ایمان والوں کا قول تویہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا''
(سورة النور: 51)
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حدیث نمبر 168
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی:
''اللہ ہی کے لیے ہے۔ جو آسمانوں اورزمین میں ہے۔ اور اگر تم ظاہر کرو وہ جو تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس پر تمہارا محاسبہ کرے گا۔''
(سورة البقرہ: 284)
تو یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر نہایت گراں گزری، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ اور عرض کرنے لگے: "اے اللہ کے رسول! ہمیں ایسے اعمال کا حکم دیا گیا جن کی ہم میں طاقت تھی (جیسے) نماز، جہاد، روزہ اور صدقہ (وہ ہم نے کیے، لیکن) اب آپ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو ہماری طاقت سے باہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم بھی اسی طرح کہنا چاہتے ہو جس طرح تم سے پہلے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی، بلکہ تم کہو ہم نے سنا اور اطاعت کی، اے ہمارے رب! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں۔ اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔'' جب انھوں نے کہا۔ (ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف پھرناہے) اور ان کی زبانیں اس کے ساتھ رواں ہوگئیں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
''رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنین اس (وحی) پر ایمان لائے جو رسول کی طرف نازل کی گئی ان کے رب کی طرف سے۔ سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور انھوں نے کہا۔ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اے ہمارے رب! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں۔ اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے''
(سورہ البقرہ آیت : 285)
جب انھوں نے ایسا کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس حصے کو (جو ان پر گراں گزرا تھا) منسوخ کردیا۔ اور یہ آیت نازل فرمادی:
''اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو اچھے کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جو برے کام کرے گا اس کا وبال اسی کو ہوگا۔ اے ہمارے رب! ہماری بھول اور خطاؤں پرہماری گرفت نہ فرما'' (اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہاں! ٹھیک ہے") اے ہمارے رب ہم پر اس طرح بوجھ نہ ڈالنا جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ (''اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہاں! ٹھیک ہے) اور ہمیں معاف فرمادے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔'' (اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ہاں! ٹھیک ہے")
(سورہ البقرہ آیت: 286)
(مسلم)
توثیق الحدیث:أخرجہ مسلم(125)
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.