PDA

View Full Version : ریاض الصالحین


life
08-07-2012, 04:38 AM
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (4494۔فتح)، ومسلم (2743)
اس کتاب کی پروف ریڈنگ محترم احمد غزنوی نے کی ہے۔




بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
امام نووی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب، "ریاض الصالحین" سلسلہ وار مطالعے کیلئے پیشِ خدمت ہے۔
کتاب کا مختصر تعارف۔

یہ کتاب صحیحین، سننِ اربعہ و مسانید اور دیگر اہم کتبِ احادیث سے منتخب کردہ احادیث پر مشتمل ہے۔ ہر باب کے ذیل میں موضوع سے متعلق آیات و احادیث یکجا کی گئی ہیں۔ ہر دور میں عام مسلمانوں کیلئے اس کتاب کی افادیت مسلمہ رہی ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ کی تخریج بھی ساتھ ساتھ کی گئی ہے اور ضرورت پر حدیث کے ماخذ سے رجوع کرنا ممکن ہے۔ مزید کچھ نہیں کہتا، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوجائے گا ان شاء اللہ۔ کہ یہ ان مفید کتب میں سے ہے جن کی ہر مسلم گھرانےمیں موجودگی ضروری ہے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

ریاض الصالحین ۔۔ حصہ اول ۔۔۔۔ سلسلہ وار مطالعہ

--------------------------------------------------------------------------------

ریاض الصالحین (جلد اول)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

باب اول: تمام ظاہری اور باطنی اعمال، اقوال اوراحوال میں اخلاص اور حسن نیت کا بیان:

آیاتِ قرآنی

جہاں تک عمل پر مضبوطی سے قائم رہنے اور احکامات الہٰی کو مضبوطی سے تھامنے کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

''ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو''۔
(سورۃ البقرۃ :63)

نیز فرمایا:
''تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کر یں۔''
(سورۃ الاعراف:145)

مزید فرمایا:
''اے یحییٰ میری کتاب کو قوت ومضبوطی سے تھام لو۔''
(سورۃ مریم: 12)

life
08-07-2012, 04:38 AM
اور اچھے اعمال میں جلدی کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''میرے ذکر میں سستی نہ کرنا۔''
(سورۃ طٰہٰ:42)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''انہیں (امم سابقہ کو) صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، نما ز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور (جان لیں کہ) یہی سیدھا اور سچا دین ہے۔''
(سورۃ البینۃ :5)

life
08-07-2012, 04:39 AM
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور اللہ تعالیٰ کو (تمہاری قربانیوں سے) نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون ہی، اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔''
(سورۃ الحج :37)

life
08-07-2012, 04:39 AM
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''آپ (ان سے) کہہ دیں کہ خواہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہرکرو، اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے۔''
(آل عمران :69)

life
08-07-2012, 04:39 AM
حدیث نمبرایک (1)

1۔ امیر المومنین حضرت ابو حفص عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب قریشی عدوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''اعمال کا دارو مدار صرف نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا، پس جس شخص کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو گی، تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خاطر ہوگی اور جس نے حصولِ دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت انہی مقاصد کے لیے ہوگی جن کی خاطر اس نے ہجرت کی۔''

توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (91۔ فتح)، مسلم ( 1907)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:40 AM
حدیث نمبر دو (2)

2۔ ام المومنین ام عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک لشکر خانہ کعبہ پر لشکر کشی کرے گا، پس جب وہ بیدار(1) (کسی چٹیل میدان) میں پہنچے گا تو ان کے اول وآخر سب کو زمین میں دھنسا دیا جا ئے گا۔'' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ''میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان کے اول وآخر سب کو کیسے دھنسا دیا جائے گا جب کہ ان میں بازار والے بھی ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جوان میں سے نہیں ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ان کے اول وآخر سب کو دھنسا دیا جائے گا، پھر (روز قیامت) انہیں انکی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔''

(متفق علیہ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

life
08-07-2012, 04:40 AM
1: ''بیدار" معنی وہ چٹیل میدان جہاں کوئی چیز نہ اُگتی ہو۔ حدیث کے بعض راویوں نے اس میدان کی وضاحت کی ہے، صحیح مسلم میں اسے بیدائے مدینہ کہا گیا ہے۔ جس سے وہ معروف جگہ مراد ہے۔ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ نیز وہ اونچی جگہ جو ذوالحلیفہ سے آتے ہوئے مکہ کی طرف ہے۔ "الخسف" کے معنی ہیں ''زمین میں دھنس جانا'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا

(سورۃ العنکبوت:آیت 40)

نیز فرمایا:

''ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا''

(سورۃ القصص :81)

life
08-07-2012, 04:41 AM
اور سورہ ہود میں ارشاد ربانی ہے:

''گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلا نے سے روکتے بجز چند لوگوں کے جن کو ہم نے ان میں سے عذاب سے بچا لیا تھا اور جو لوگ ظالم تھے وہ انہی باتوں کے پیچھے تھے جن میں عیش وآرام تھا اور وہ مجرم تھے۔ اور آپ کے رب کا یہ دستور نہیں کہ بستیوں کو ناحق ہلا ک کردے حالانکہ انکے رہنے والے نیکوکار اور مصلح ہوں''

( سورۃ ھود 112۔117)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:42 AM
حدیث نمبر تین (3)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ اور جب تمہیں دشمن کے ساتھ قتال کرنے کے لیے نکلنے کے لیے کہا جائے تو پھر نکل کھڑے ہو۔''
(متفق علیہ)

اس کے معنی ہیں کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ وہ دارالاسلام بن گیا ہے

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (2268۔ فتح)، ومسلم (1864) واللفظ لہ، و فی الباب عن ابن عباس عند البخاری (36۔ فتح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:42 AM
حدیث نمبر چار (4)

حضرت ابو عبداللہ جابر بن عبد اللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے تو آپ نے فرمایا: ''یقینا مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جتنا بھی سفر کیا اور جو بھی وادی طے کی وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں، انہیں تو مرض نے روکے رکھا۔'' اور ایک روایت میں ہے۔ ''وہ تمہا رے ساتھ اجر میں شریک رہے ہیں۔ ''

(مسلم)

life
08-07-2012, 04:43 AM
اور بخاری میں روایت اس طرح ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۃ تبوک سے لوٹے تو آپ نے فرمایا:'' یقینا کچھ لوگ ہمارے پیچھے مدینے میں رہے کہ ہم جس گھاٹی یا وادی سے گزرے(اجر و ثواب کے لحاظ سے) وہ ہمارے ساتھ تھے، انہیں توعذر نے روکے رکھا۔''

توثیق الحدیث: حدیث جابر اخرجہ مسلم (1911)، و حدیث انس
اخرجہ البخاری ( 466۔47۔ فتح)

life
08-07-2012, 04:43 AM
مصنف نے حدیث کے آخر میں "متفق علیہ'' نہیں لکھا حالانکہ امام بخاری اور امام مسلم اور دونوں نے اسے روایت کیا ہے مگر ان دونوں نے تھوڑے سے اختلاف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اگرچہ یہ الفاظ کا اختلاف مطلق طور پر کوئی باعث نقصان نہیں لیکن مصنف نے انہیں'' متفق علیہ'' اس لیے نہیں لکھا کہ جمہور اہل حدیث صرف اسی حدیث کو ''متفق علیہ'' سمجھتے ہیں جس کی سند اور متن دونوں پر شیخین کا اتفاق ہو۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ''النکت علی مقدمہ ابن الصلاح'' میں اس کی وضاحت کی ہے۔

''اے ایماندارو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہترہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔''

(سورۃالحجرات آیت11)

''اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔''

(سورۃالنساء :95)

life
08-07-2012, 04:44 AM
حدیث نمبر پانچ (5)

حضرت ابو یزید معن بن یزید بن اخنس (یہ معن، ان کے والد یزید اور دادا اخنس تینوں صحابی ہیں) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار صدقہ کرنے کے لیے نکالے اور انہیں مسجد میں کسی آدمی کے پاس رکھ آئے ( تاکہ وہ کسی مستحق کو دے دے ) پس میں مسجد میں آیا اور انہیں گھر لے آیا، پس انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تو یہ ارادہ نہیں کیا تھا۔ (کہ یہ دینار تم لے آؤ ) پس میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور آپ کو اس مسئلے کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا: اے یزید! تجھے تیری نیت کا ثواب مل گیا اور اے معن ! جو تو نے لے لیا وہ تیرا ہے۔''

(بخاری)
توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری ( 2913۔ فتح) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:44 AM
حدیث نمبر چھ (6)

6۔ ابو اسحٰق سعد بن ابی وقاص مالک بن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی القرشی الزہری، جو ان دس صحابہ میں سے ایک ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی خوشخبری دے دی گئی، وہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور مجھے اس وقت شدید درد تھا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کس قدر شدید درد ہے اور میں مالدار آدمی ہوں لیکن میری وارث صرف میری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں'' میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آدھا مال؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں'' پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: ''تیسرا حصہ صدقہ کرلو لیکن تیسرا حصہ بھی کثیر یا بڑا ہے کیونکہ اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کیلیئے جو بھی خرچ کرو گے تو اس پر تمہیں اجر ملے گا، حتی کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے (اس پر بھی ثواب ملے گا)''۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے ساتھیوں کے (مکے سے) چلے جانے کے بعد پیچھے (مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا۔ (میں ہجرت نہیں کروں گا)؟ آپ نے فرمایا: ''پیچھے چھوڑ دیے جانے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس سے تمہارے درجات بلند ہوں گے۔ نیز ممکن ہے کہ تمہیں پیچھے رہنے کی مہلت مل جائے اور کچھ لوگ تم سے فائدہ حاصل کر لیں دوسرے لوگوں (کافروں) کو تم سے نقصان پہنچے۔ اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت کو پورا فرما اور انہیں انکی ایڑیوں پر نہ لوٹا لیکن قابل رحم سعد بن خولہ (یہ سعد بن ابی وقاص کے علاوہ ہیں)"۔ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کی دعا فرماتے تھے۔ اس لیے کہ وہ مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے تھے۔

(متفق علیہ )
توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری ( 1653۔ فتح) ومسلم (1628)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:44 AM
حدیث نمبر سات ( 7)

7۔ حضرت ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: ''اللہ تعالیٰ تمہار ے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ ''(مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم ( 2564) (33)

life
08-07-2012, 04:44 AM
حدیث نمبر آٹھ (8)

8۔ حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص شجاعت و بہادری کی خاطر، ایک (خاندانی) حمیت کی خاطر، ایک ریا کاری کی خاطر لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ تعالیٰ کی خاطر کون لڑتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہے۔''

(متفق علیہ )
توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری ( 2221۔ فتح )، و مسلم (1904) واللفظ لہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:45 AM
حدیث نمبر نو (9)

9۔ حضرت ابو بکرہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں سونت کر مد مقابل آجاتے ہیں تو پھر یہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں'' میں (راوی) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس لیے جہنمی ہے) مقتول جہنمی کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ''اس لیے کہ وہ بھی اپنے سا تھی (مد مقابل) کے قتل کا حریص تھا۔''

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (851۔فتح ) واللفظ لہ، ومسلم (2888)

دل میں پیدا ہونے والے وساوس قابل مواخذہ نہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے:

''جو تمہارے دلوں میں ہے اسے ظاہر کرو یا چھپا ئو اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے گا''
( سورۃالبقرہ 284)

تو یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرما ن سے منسوخ ہے:
'' اللہ تعالیٰ انسان کو اسکی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس کے لیے (اس کے فائدے میں) جو اس نے کمایا (نیکی) اور اس پر (اس کے لیے نقصان دہ) جو اس نے کمایا (گناہ)۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:46 AM
حدیث نمبر دس (10)

10۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز اسکی گھر یا بازار میں پڑھی ہو ئی نماز سے بیس سے کچھ زائد درجے فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص وضو کرتا ہے، اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر نماز کے لیے مسجد میں آتا ہے اور نماز ہی اسے مسجد کی طرف لے جاتی ہے تو پھر وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے تو ہر قدم کے بد لے اس کا ایک در جہ بلند اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے ۔ حتٰی کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پس جب مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ حالت نماز میں شمار ہوتا ہے۔ جب تک نماز اسے وہاں روکے رکھتی ہے اور فرشتے تمہارے ایک پر رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی تھی۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رجوع فرما (اور یہ دعائیں جاری رہتی ہیں) جب تک وہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، جب تک وہ بے وضو نہ ہو'' ۔

(متفق علیہ) یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (5641۔ فتح)، و مسلم (649،272)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:46 AM
حدیث نمبر گیارہ (11)

11۔ حضر ت ابو العباس عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ رکھی ہیں (پھر آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ) جس شخص نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اسے کر نہیں سکا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاں ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اسے کر بھی لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ ثواب لکھ لیتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے لیکن اسے کرتا نہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنے ہاں ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر کوئی شخص ارادے کے مطابق اس برائی کو کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک ہی برائی لکھتا ہے''
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (323۔ فتح)، و مسلم ( 131)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:46 AM
حدیث نمبر بارہ ( 12)

12۔ حضرت ابو عبدالرحمن عبداللہ بن عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہوئے سنا: تم سے پہلے لوگوں میں سے تین آدمی سفر پر روانہ ہوئے حتٰی کہ رات ہو گئی اور وہ رات گزارنے کے لئے ایک غار میں داخل ہو گئے، پس تھوڑی ہی دیر کے بعد پہاڑ سے ایک چٹان لڑھک کر نیچے آئی اور اس نے غار کے منہ کو بند کردیا، پس انھوں نے سوچ بچار کے بعد کہا: اس چٹان سے نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے اعمال صالحہ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا: یا اللہ ! میرے بوڑھے والدین تھے اور میں شام کو سب سے پہلے انہیں دودھ پلاتا تھا، اور اہل و عیال نیز خادم وغلام کو بعد میں پلاتا تھا، ایک روز میں درختوں کی تلاش میں دور نکل گیا، جب شام کو واپس گھر آیا تو وہ دونوں سو چکے تھے، میں نے انکے لیے دودھ دوہا اور لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ سو رہے تھے، میں نے انہیں جگانا پسند کیا نہ ان سے پہلے اہل وعیال یا خادم وغلام کو دودھ پلانا پسند کیا، پس میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور بچے بھوک کی شدت کی وجہ سے میرے قدموں میں بلکتے اور چیختے چلاتے رہے۔ پس جب وہ بیدار ہو ئے تو انھوں نے اپنا شام کا دودھ پیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کا م میں نے تیری رضا جوئی کے لیے کیا تھا تو پھر ہمیں اس چٹان کی مصیبت سے نجات عطا فرما۔ پس پتھر تھوڑا سا سرکا لیکن ابھی وہ نکل نہیں سکتے تھے۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ ! میرے چچا کی ایک بیٹی تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی، (ایک دوسری روایت میں ہے کہ میں اس سے اس قدر محبت کرتا تھا، جس قدر مردوں کی عورتوں سے ہوسکتی ہے) پس میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔ لیکن جب ایک مرتبہ وہ قحط سالی سے دوچار ہوئی تو میرے پاس آئی، میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ میرے ساتھ خلوت اختیار کرے۔ چنانچہ وہ اس پر تیار ہوگئی حتیٰ کہ جب میں نے اس پر قابو پالیا۔ (ایک اور روایت میں ہے کہ جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا) تو اُس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر (یعنی پردہ بصارت) کو بے حق نہ توڑ۔ (پس یہ سنتے ہی) میں اس سے دور ہو گیا حالانکہ وہ مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب اورپیاری تھی اور سونے کے دینار جو میں نے اسے دیے تھے، وہ بھی چھوڑ دیے۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو پھر ہم جس مصیبت سے دوچار ہیں، ہمیں اس سے نجات دے۔ پس وہ چٹان تھوڑی سی اور سرک گئی لیکن وہ اب بھی اس غار سے نکل نہیں سکتے تھے۔ اب تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ! میں نے کچھ مزدوروں کو اجرت پر رکھا تھا، اور میں نے تمام مزدوروں کو اجرت دے دی سوائے ایک آدمی کے جو اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ پس میں نے اس کی اجرت کے پیسوں کو کاروبار میں لگا دیا ۔ حتیٰ کہ اس سے بہت سا مال بن گیا۔ پس کچھ مدت کے بعد وہ میرے پاس آیا تو اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! میری اجرت مجھے ادا کردے۔ میں نے کہا: یہ اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام جو تجھے نظر آرہے ہیں، یہ سب تیری اجرت ہے اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا۔ چنا نچہ اس نے سارا مال لے لیا اور ہا نک کر لے گیا اور اس میں سے کو ئی چیز بھی نہ چھوڑی ۔ اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو پھر ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ پس وہ چٹان سر ک گئی اور وہ سب با ہر نکل کر چل دیے''۔

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (4494۔فتح)، ومسلم (2743)
اس کتاب کی پروف ریڈنگ محترم احمد غزنوی نے کی ہے۔

life
08-07-2012, 04:47 AM
باب نمبر۔ 2
توبہ کا بیان

علماء نے کہا ہے کہ توبہ گناہ سے واجب ہے، اگر گناہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندے ہی کے درمیان ہے، کسی دوسرے بندے کے متعلق نہیں تو ایسے گناہ سے توبہ کی تین شرطیں ہیں :

(1)۔ گناہ سے کنارہ کشی کرے۔
(2)۔ اس پر نادم ہو۔
(3)۔ پختہ عزم و ارادہ کرے کہ آئندہ یہ گناہ کبھی نہیں کرے گا۔
اگر ان میں سے ایک شرط بھی کم ہوئی تو، توبہ صحیح نہیں ہوگی۔

اور اگر گناہ کا تعلق کسی دوسرے آدمی سے ہو (یعنی حقوق العباد سے متعلق ہو) تو پھر اسکی توبہ کے لیے چار شرطیں ہیں ، تین تو پہلی جو بیان کی گئی ہیں ۔ اور چوتھی یہ کہ صاحب حق کا حق ادا کرے، اگر کسی کا مال وغیرہ ہو تو اسے ادا کرے، اگر کسی پر تہمت لگائی ہو تو پھر اسکی حد اپنے اوپر لگوائے یا پھر اس سے معافی مانگے اور اگر غیبت کی ہو تو اسے اس سے معاف کرائے۔

اور یہ ضروری ہے کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرے، اگر وہ شخص بعض گناہوں سے توبہ کرے تو اہل حق کے نزدیک اس گناہ کے متعلق اس کی توبہ صحیح ہوگی اور جن سے توبہ نہیں کی ہوگی وہ گناہ اس کے ذمے باقی ہوں گے۔ وجوبِ توبہ پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل اور امت کا اجماع ہے۔

life
08-07-2012, 04:48 AM
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اے مومنو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ''
اور فرمایا:
''اور یہ کہ تم اپنے رب کی طرف استغفار کرو، پھر اسکی طرف رجوع کرو''
(سورۃ النور :31)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے مومنو! اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرو۔''
(سورۃ التحریم :8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

life
08-07-2012, 04:48 AM
حدیث نمبر تیرہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''اللہ تعالیٰ کی قسم! میں دن میں ستر سے زائد مرتبہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی بخشش مانگتا اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں ''

(بخاری)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (10111۔ فتح)۔

life
08-07-2012, 04:48 AM
پس ایسے لوگوں کی خطائیں اللہ نیکیوں میں تبدیل کردے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔'' اور یہ مقام مغفرت ہے۔
(سورۃ: الفرقان: 70)

''پس آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے''۔
(سورۃ البقرہ:37)

life
08-07-2012, 04:49 AM
''پس آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے''۔
(سورۃ البقرہ:37)

جدِ انبیاء ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا اور فرمایا:
''اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، تُو توبہ قبول فرمانے والا رحم وکرم کرنے والا ہے''
(سورۃ
؛ البقرۃ :128)

life
08-07-2012, 04:49 AM
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
''پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا: بے شک آپکی ذات منزہ ہے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ۔''
(سورۃ الاعراف:143)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:49 AM
حدیث نمبر چودہ

14: حضرت اغر بن یسار مزنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ''اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو اور اس سے بخشش طلب کرو۔ کیونکہ میں ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں ۔''

life
08-07-2012, 04:50 AM
(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ مسلم (2702) (42) دون قولہ: (واستغفروہ) وبزیاہ (اِلیہ) بعد (فی الیوم)

''اور اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرو (تو بہترہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں ''
(سورۃ التحریم:4)

''اے مومنو! تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم کامیاب ہوسکو''
(سورۃ النور:31)

''وہ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی حالت کو درست کیا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا اور خاص اللہ کے فرمانبردار ہوگئے تو ایسے لوگ مومنوں کے زمرے میں ہوں گے اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بڑا ثواب دے گا۔''
(سورۃ النساء:146)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:50 AM
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

حدیث نمبر پندرہ

15۔ "حضرت ابو حمزہ انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل میں اپنا اونٹ گم کردیا ہواور پھر اس نے اسے پالیا ہو۔''

(متفق علیہ)

life
08-07-2012, 04:50 AM
اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہو تا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر سوار ہو کہ اچانک وہ سواری اس سے چھوٹ جائے اور اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو، وہ اس سے مایوس ہو کر کسی درخت کے سائے تلے آکرلیٹ جائے جبکہ وہ اپنی سواری سے (مکمل طور پر) مایوس ہوچکا ہو کہ اتنے میں اچانک سواری اس کے سامنے آکھڑی ہواور وہ اس کی مہار تھام کر خوشی کی شدت میں کہہ دے: "اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں "۔ شدتِ فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (10211۔فتح) ،و مسلم (2747) (8)۔ والروایہ الثانیہ عند مسلم (2747) (7)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:51 AM
حدیث نمبر سولہ

16: حضرت ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے اور وہ دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے (یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) حتٰی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث: اخرجہ مسلم (2759)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:51 AM
حدیث نمبر سترہ

17: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔''

(مسلم)
توثیق الحدیث اخرجہ مسلم (2703)۔

''جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔''

(سورۃ الانعام:158)

life
08-07-2012, 04:51 AM
حدیث نمبر اٹھارہ

18: حضرت ابو عبد الرحمن بن عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''یقیناً اللہ عزوجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرما لیتا ہے جب تک وہ حالت نزع کو نہ پہنچ جائے''۔

(ترمذی، حدیث حسن ہے)
توثیق الحدیث: صحیح بشواھدہ۔ا خرجہ الترمذی (3537)، وابن ماجہ (4252)، واحمد (6160 و6408)، والبغوی فی (شرح السنہ) (1306)، وابن حبان (2449)، والحاکم (2574)۔

life
08-07-2012, 04:52 AM
عبد الرحمن بن ثابت کے علاوہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور وہ صدوق ہے اور کبھی غلطی کرتا ہے اور اس کی حدیث احسن درجے کی ہے۔ حضرت ابوذر اور بشیر بن کعب کی حدیث اس کے شواہد میں سے ہے، گویا امام نووی نے اسی لیے شرح مسلم (2517) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

''اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور تو بہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی تو بہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے۔''
(سورۃ النساء:17)

life
08-07-2012, 04:52 AM
پس جس نے موت سے پہلے توبہ کرلی تو گویا اس نے جلد توبہ کرلی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

''انکی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اور ان کی بھی توبہ قبول نہیں جو کفر ہی پر مرجائیں ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔''
(سورۃ النساء:18)

life
08-07-2012, 04:52 AM
ترجمہ :''اور ہم نے نبی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ارادے سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ (جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے؟ پہلے سرکشی کرتا اور مفسدوں میں داخل رہا؟ سو آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔''

(سورۃ یونس: 90۔92)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:53 AM
حدیث نمبر اُنیس

19: حضرت زربن حبیثس بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت صفوان بن عسال کے پاس موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھنے کیلئے آیا، تو انھوں نے کہا: "اے زر! کیسے آئے ہو؟" میں نے کہا: "علم حاصل کرنے کیلئے"۔ انھوں نے فرمایا: "فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں ، اس (علم دین) سے خوش ہو کر جو وہ حاصل کرتا ہے۔ پس میں نے کہا: پیشاب اور پاخانے کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں میرے سینے میں تردد سا ہے، چونکہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں اس لیے آپ سے مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہوں ، کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟" انھوں نے فرمایا: ہاں ! آپ ہمیں حکم فرماتے تھے۔ جب ہم مسافر ہوتے کہ ہم جنابت کے علاوہ تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں ۔ لیکن پیشاب، پاخانہ اور نیند کی صورت میں (جرابوں پر مسح کرتے تھے، انہیں اتارتے نہیں تھے)۔ میں نے ان (صفوان) سے دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت کے بارے میں بھی کچھ کہتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں ! ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پس ہم آپ کے پاس ہی تھے کہ ایک دیہاتی نے بہ آواز بلند آپ کو صدا دی: "اے محمد!" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دیا: ''ہاں ! میں یہاں ہوں ۔'' پس میں نے اس دیہاتی سے کہا: "افسوس ہے تجھ پر! اپنی آواز پست کر، اس لیے کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہواور تمہارے لیے اس طرح بلند آواز سے بولنا جائز نہیں ۔" اس نے کہا: "اللہ کی قسم! میں آواز پست نہیں کروں گا۔ اس دیہاتی نے مزید کہا: (اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے۔) جو کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن اس کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آدمی جن سے محبت کرتا ہے، روز قیامت وہ انہی کے ساتھ ہو گا۔" پس آپ ہم سے باتیں کرے رہے حتیٰ کہ آپ نے مغرب کی جانب ایک دروازے کا ذکر فرمایا' جس کی چوڑائی کی مسافت چالیس یا ستر سال ہے یا فرمایا کہ اس کی چوڑائی اتنی ہے کہ ایک سوار چالیس یا ستر سال چلتا رہے۔ (اس حدیث کے) ایک راوی سفیان نے کہا (کہ آپ نے فرمایا): ''وہ دروازہ شام کی جانب ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس روز پیدا فرمایا جب اس نے آسمان و زمین کو تخلیق فرمایا اور وہ اسی وقت سے توبہ کے لیے کھلا ہے وہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک سورج اس (مغرب) سے طلوع نہ ہو (سو رج جب مغرب سے طلوع ہوگا تو قیامت آجائے گی)۔''

(ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)
توثیق الحدیث: صحیح بطرقہ اخرجہ الترمذی (3535 و 3536)، وابن ماجہ (4070)، واحمد (2394۔ 240'241) والطیالسی (2767۔ منحہ المعبود)، والحمیدی فی مسندہ (881)،وعبدالرزاق فی (المصنف)، (793۔795)، وابن حیان (186۔موارد)، والطبرانی (الکبیر) (7352۔ 7353۔ 7359۔ 7360۔ 7361۔ 7365۔ 7388)، وابن نعیم فی (الحلیہ) (3087)، وابن خزیمہ (193)، والبغوی فی (شرح السنہ) (1315)، و (معالم التنزیل) (1442)، وابن جریر الطبری فی (جامع البیان) (728)، والبیھقی (2761)، وابن عدی فی (الکامل (18065)

یہ سب عاصم بن ابو نجود کے طریق سے زربن حبیش سے اور وہ صفوان بن عسال سے روایت کرتے ہیں ۔ شارح کہتے ہیں کہ اس کی سند احسن ہے، عاصم کے علاوہ سب راوی ثقہ ہیں وہ حسن الحدیث ہے۔ زبیدالیامی نے اس کی متابعت کی ہے۔ یہ زبید بن حارث یامی ہیں جو ثقہ، ثبت اور عابد ہیں لہٰذا حدیث صحیح ہے۔

life
08-07-2012, 04:53 AM
علم حاصل کرنے کی ترغیب۔

اگر دین کے بارے میں کسی مسئلے کا علم نہ ہو تو پھر اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو۔''
(سورۃ النحل:43)

سائل عالم سے دلیل کا مطالبہ کرسکتا ہے کہ آیا یہ مسئلہ نص سے ثابت ہے یا آپ نے اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے اور عالم کو چاہیے کہ اس پوچھنے سے ناراض نہ ہو' کیونکہ جو فتویٰ یادلیل ہو وہ صدق اور اخلاص پر مبنی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''کہہ دیجئے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو''۔

(سورۃ البقرہ: 111)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:53 AM
حدیث نمبر بیس

20: حضرت ابو سعید سعد بن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے قتل کیے تھے، پس اس نے زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک راہب (پادری) کے بارے میں بتایا گیا، پس وہ اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس (میں ) نے ننانوے آدمی قتل کیے ہیں ، کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس (راہب) نے کہا: "نہیں "، پس اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس طرح اس نے سو آدمیوں کے قتل کی تعداد کو مکمل کیا۔ اس نے پھر کسی بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس نے سو آدمی قتل کیے ہیں ، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس (عالم) نے کہا: ہاں ! اور کون ہے جو اس کے اور اس کی توبہ کے درمیان حائل ہو؟ ایسے کرو تم فلاں جگہ چلے جاؤ کیونکہ وہاں کے لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، پس تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور سنو اپنی زمین کی طرف واپس نہ آنا، کیو نکہ وہ برائی کی زمین ہے۔ پس وہ اس (بستی) کی طرف روانہ ہو گیا، ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ اسے موت آگئی (اب اس کی روح قبض کرنے کیلئے) رحمت اور عذاب کے فرشتے آگئے اور دونوں کے درمیا ن جھگڑا شروع ہو گیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: "وہ تائب ہو کر آیا تھا اور اللہ کی طرف دل کی توجہ سے آیا تھا" (ہم اس کی روح قبض کریں گے) عذاب کے فرشتوں نے کہا: "اس نے کبھی نیکی وبھلائی کا کام کیا ہی نہیں (لہٰذا یہ جہنمی ہے)۔ پس ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اپنے درمیان حکم (فیصلہ کنندہ) بنالیا۔ اس نے کہا: "دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کی پیمائش کرو، وہ ان دونوں میں سے جس کے قریب ہو گا وہی اس کا حکم ہو گا۔ پس انھوں نے اسے ناپا تو اس کو اس زمین کے زیادہ قریب پایا جس طرف جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ لہٰذا رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح کو قبض کرلیا۔''
(متفق علیہ)

life
08-07-2012, 04:54 AM
نیز صحیح ہی کی ایک روایت ہے۔ ''وہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب تھا۔ لہٰذا اسے اس بستی کے نیک لوگوں میں سے کردیا گیا۔''

صحیح ہی کی ایک روایت میں سے ہے :''اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آرہا تھا) کہا کہ دور ہوجا اور اس زمین کو (جس طرف جارہا تھا) کہا کہ قریب ہوجا اور پھر فرمایا کہ ان دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کو ناپو، (جب انھوں نے ناپا) تو انھوں نے اسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب پایا تو اسے بخش دیا گیا'' اور ایک روایت میں ہے: ''وہ اپنے سینے کے سہارے سَرک کردوسری طرف ہوگیا۔''

توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:55 AM
حدیث نمبر اکیس (21)

عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور یہ (عبداللہ) حضرت کعب کے بیٹے تھے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے جب وہ (کعب) نابینا ہو گئے تھے۔ عبداللہ کہتے ہیں ۔ میں نے کعب کو اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی جہاد کیا میں آپ سے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے اگرچہ میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے ر ہا تھا لیکن اس میں پیچھے رہ جانے والے کسی ایک پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام قریش کے ایک قافلے کے تعاقب میں نکلے تھے حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے دشمنوں کو کسی وعدے کے بغیر ہی ایک دو سرے سے ملا دیا۔ میں عقبہ کی رات (منیٰ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم نے سلام پر عہد وفا باندھا تھا۔ اور میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے لیے اس (عقبہ کی را ت) کی جگہ بدر کی حاضری ہواگر چہ بدر کا چرچا لوگوں میں اس (عقبہ) سے زیادہ ہے۔ جب میں غزوہ تبوک کے مو قع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ میں اتنا قوی اور خوش حال کبھی نہیں تھا جتنامیں اس غزوے سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا، اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی بھی دو سواریاں اکٹھی نہیں تھیں حتیٰ کہ اس غزوہ میں میرے پاس دو سواریاں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو اس میں کسی اور سمت کا توریہ فرماتے تھے (یعنی اصل سمت چھپاتے تھے) حتٰی کہ یہ غزوہ تبوک ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ شدید گرمی میں کیا، سفر دور دراز اور ایسے بیابان کا تھا جہاں پانی بھی کم تھا۔ اور مدمقابل بہت بڑا لشکر تھا، اس لیے آپ نے مسلمانوں کے معاملے کو ان کے سامنے واضح کردیا تاکہ وہ اس کے مطابق خوب تیاری کرلیں ۔ آپ نے سمت کا بھی تعین فرما دیا تھا۔ جہاں آپ جانا چاہتے تھے۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں تھے اور کوئی ایسی کتاب یعنی رجسٹر نہیں تھا جس میں ان کے نام لکھ کر محفوظ کیے ہوتے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ اگر کوئی آدمی غزوے سے غائب رہتا تو وہ یہی گمان کر تا کہ وہ آپ سے مخفی رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت فرمایا جب پھل پک چکے تھے اور ان کا سایہ بھی خوشگوار تھا اور مجھے یہ چیزیں بڑی مرغوب تھیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کی، میں بھی صبح کو آتا تا کہ آپ کے ساتھ تیاری کروں لیکن میں کچھ کیے بغیر ہی واپس چلا جا تا اور اپنے دل میں کہتا: میں اس پر پوری طرح قادر ہوں جب چا ہوں گا تیاری کر لوں گا۔ پس میری یہی صور ت حا ل رہی حتیٰ کہ با قی لوگ اپنی تیاری میں مصروف رہے۔ پس ایک روز ایسا ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان آپ کے ساتھ جہا د کے لئے روا نہ ہوگئے اور میں نے اپنی تیاری کے بارے میں کچھ بھی نہ کیا تھا۔ میں پھر صبح کو آیا اور واپس چلا گیا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر پا یا۔ پس یہ کیفیت دراز ہو تی گئی اور صحابہ کرام تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور جہا د کا معاملہ بھی آگے بڑھتا گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی سفر کا آغاز کردوں گا اور انہیں جاملوں گا، کاش! میں ایسا کرلیتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد جب میں لوگوں کی طرف آتا تو مجھے بس وہی لوگ نظر آتے جو اپنے نفاق کی وجہ سے مطعون تھے۔ یا وہ لوگ نظر آتے جو لوگ ضعیف تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور تھے۔ پس یہ صورت حال مجھے محزون ومغموم کردیتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد نہیں فرمایا حتٰی کہ آپ تبوک پہنچ گئے، آپ تبوک میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ نے فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟'' بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! اسکی دو چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے نے اسے روک لیا ہے تو معاذ بن جبل نے اسے جواب دیا تم نے برا کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم نے تو اس میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اتنے میں آپ نے ایک سفید پوش شخص کو ریگستان سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: ''ابو خیشمہ ہو۔'' پس وہ ابو خشمہ انصاری ہی تھے، جنھوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں : "جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لارہے ہیں تو مجھ پر غم طاری ہونے لگا اور میں جھوٹ کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگا اور میں کہتا کہ میں کل آپ کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا؟ میں نے اس بارے میں اپنے گھر کے ہر عقلمند شخص سے مدد کی درخواست کی۔ اور جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لانے والے ہیں تو تمام باطل خیالا ت مجھ سے زائل ہو گئے حتٰی کہ میں سمجھ گیا کہ میں آپ سے اس طر ح کی کسی چیز کے ذریعے بچ نہیں سکوں گا تو پھر میں نے سچ بولنے کا پختہ ارا دہ کرلیا۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپکا یہ معمول تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا تے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرماتے اور پھر لوگوں کیلئے تشریف رکھتے۔ پس جب آپ نے ایسے کرلیا تو منا فق لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کرنے لگے اور حلف اٹھا نے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زائد تھے۔ پس آپ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی، ان کے لیے مغفر ت طلب کی اورانکی اندرونی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا، حتٰی کہ میں بھی حاضر خدمت ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے جس طرح کوئی ناراض آدمی مسکراتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: ''آگے آجاؤ۔ '' میں آگے بڑھا حتٰی کہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ''تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری نہیں خریدلی تھی؟ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اہل دنیا کی مجلس میں ہوتا تو میں کسی عذر کے ذریعے اسکی ناراضی سے بچ نکلتا، کیونکہ مجھے فصاحت و بلاغت کا بڑا ملکہ حاصل ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر میں آج کسی جھوٹی بات کے ذریعے سےآپ کو راضی کر لوں تو ممکن ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (صحیح صورت حال بتا کر) مجھ سے ناراض کردے اور اگر آپ سے سچی بات کردوں تو اس وجہ سے آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اس میں اللہ تعالیٰ کے اچھے انجام کی امید ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں کبھی اتنا طاقتور اور خوشحال نہیں تھا، جتنا اس وقت تھا، جب میں آپ سے پیچھے رہا۔" وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص نے سچ کہا ہے۔ پس تم یہاں سے کھڑے ہو جاؤ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمادے۔ (میں اٹھ کر چلا گیا تو) بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئے اور انھوں نے مجھے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو، تم اس چیز سے عاجز تھے کہ تم بھی غزوے سے پیچھے رہ جانے والوں کی طرح کوئی عذر پیش کردیتے اور تمہارے گناہ کی معافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ کہ ان لوگوں نے مجھے اس قدر شدید ملامت کی کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دربارہ حاضر ہو کر اپنے پہلے بیان کی تکذیب کردوں ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کہ میرے جیسا معاملہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح کے معاملہ میں تمہارے ساتھ دو آدمی اور بھی ہیں ، انھوں نے بھی ایسے ہی کہا جیسے تم نے کہا اور انہیں بھی وہی کچھ کہا گیا ہے جو تمہیں کہا گیا ہے۔ میں نے کہا وہ دو کون ہیں ؟ انھوں نے کہا: مرارہ بن ربیع العمری اور ہلال بن امیہ الواقفی۔ انھوں نے میرے سامنے جن دو آدمیوں کا ذکر کیا وہ نیک تھے، دونوں بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا، پس جب انھوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں اپنے سا بقہ مو قف پر قا ئم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں میں سے خصوصاً ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کردیا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہم سے کنارہ کش ہو گئے یا یوں فرمایا کہ لوگ ہمارے لیے بیگانے سے ہو گئے حتٰی کہ مجھے تو زمین بھی غیر مانوس سی معلوم ہونے لگی اور میرے لیے یہ زمین بھی وہ نہیں رہی تھی۔ جسے میں پہچانتا تھا۔ پس ہم نے اسی کیفیت میں پچاس راتیں گزاریں ۔ میرے جو دوسرے ساتھی تھے وہ تو ہمت ہار بیٹھے اور گھروں میں بیٹھے روتے رہے جبکہ میں ان سے جوان اور قوی تھا۔ پس میں گھر سے باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو تا، بازار وں میں چکر لگاتا لیکن صورت حال یہ تھی کہ مجھ سے کوئی بھی کلام نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو تا جب آپ نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو آپ کو سلام کر تا اور اپنے دل میں سوچتا کیا آپ سلام کے جواب میں اپنے مبارک لبوں کوحرکت دیتے ہیں یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور دُزدیدہ نظر وں سے آپ کو دیکھتا، پس جب میں اپنی نماز میں متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ مجھ سے اعراض فرمالیتے حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی بے رخی میرے ساتھ لمبی ہوتی گئی۔ تو میں ایک روز ابو قتادہ کے با غ کی دیوار پھاند کر اندر چلا گیا، وہ میرے چچا زاد اور تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھے، میں نے انہیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: "اے ابو قتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم میرے بارے میں نہیں جانتے، کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ؟ وہ خاموش رہا، میں نے دوبارہ قسم دے کر پوچھا تو وہ پھر بھی خاموش رہا 'میں نے تیسری بار پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ پس میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، میں واپس مڑا اور دیوار پھاند کر باہر چلا آیا، میں مدینے کے بازار میں جارہا تھا کہ میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے کے لیے آیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ کعب بن مالک کے بارے میں مجھے کون بتائے گا؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے، حتیٰ کہ وہ میرے پاس آگیا اور شاہِ غسان کا ایک خط مجھے دیا، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اور اس لیے اسے فوراً پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: "امابعد! ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم پر ظلم کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں ذلت اورحق تلفی والے گھر میں رہنے کے لیے نہیں بنایا، پس تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تم سے پوری ہمدردی کریں گے۔ میں نے جس وقت اسے پڑھا تو میں نے کہا یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے فو راً اسے تنور میں جھونک کر جلا دیا حتیٰ کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور (میرے بارے میں ) کوئی وحی بھی نہ آئی تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیارکرنے کا حکم فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کر وں ؟ اس نے کہا: نہیں ! بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے ان دونوں ساتھیوں کو بھی آپ نے یہی پیغام بھجوایا۔ پس میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کافیصلہ فرما دے۔ ہلا ل بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہلال تو بہت بو ڑھا آدمی ہے، اس کا کوئی خادم بھی نہیں ، اگر میں ان کی خدمت کروں تو کیا آپ ناپسند فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ، لیکن وہ تم سے قربت (جماع) نہ کرے۔'' اسکی بیوی نے کہا: "اللہ کی قسم! اس میں تو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ اور اللہ کی قسم! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج کے دن تک وہ تو رو رہا ہے۔" پس میرے بعض گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لو جیسا کہ آپ نے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کو انکی خدمت کرنے کی اجازت عطا فرما دی ہے۔ میں نے کہا: میں اس بارے میں رسول اللہ سے اجازت طلب نہیں کروں گا معلوم نہیں جب میں آپ سے اجازت طلب کروں توآپ کیا جواب دیں گے، کیونکہ میں تو نوجوان آدمی ہوں

life
08-07-2012, 04:55 AM
حدیث نمبر اکیس (21)

عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور یہ (عبداللہ) حضرت کعب کے بیٹے تھے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے جب وہ (کعب) نابینا ہو گئے تھے۔ عبداللہ کہتے ہیں ۔ میں نے کعب کو اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی جہاد کیا میں آپ سے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے اگرچہ میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے ر ہا تھا لیکن اس میں پیچھے رہ جانے والے کسی ایک پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام قریش کے ایک قافلے کے تعاقب میں نکلے تھے حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے دشمنوں کو کسی وعدے کے بغیر ہی ایک دو سرے سے ملا دیا۔ میں عقبہ کی رات (منیٰ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم نے سلام پر عہد وفا باندھا تھا۔ اور میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے لیے اس (عقبہ کی را ت) کی جگہ بدر کی حاضری ہواگر چہ بدر کا چرچا لوگوں میں اس (عقبہ) سے زیادہ ہے۔ جب میں غزوہ تبوک کے مو قع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ میں اتنا قوی اور خوش حال کبھی نہیں تھا جتنامیں اس غزوے سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا، اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی بھی دو سواریاں اکٹھی نہیں تھیں حتیٰ کہ اس غزوہ میں میرے پاس دو سواریاں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو اس میں کسی اور سمت کا توریہ فرماتے تھے (یعنی اصل سمت چھپاتے تھے) حتٰی کہ یہ غزوہ تبوک ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ شدید گرمی میں کیا، سفر دور دراز اور ایسے بیابان کا تھا جہاں پانی بھی کم تھا۔ اور مدمقابل بہت بڑا لشکر تھا، اس لیے آپ نے مسلمانوں کے معاملے کو ان کے سامنے واضح کردیا تاکہ وہ اس کے مطابق خوب تیاری کرلیں ۔ آپ نے سمت کا بھی تعین فرما دیا تھا۔ جہاں آپ جانا چاہتے تھے۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں تھے اور کوئی ایسی کتاب یعنی رجسٹر نہیں تھا جس میں ان کے نام لکھ کر محفوظ کیے ہوتے۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ اگر کوئی آدمی غزوے سے غائب رہتا تو وہ یہی گمان کر تا کہ وہ آپ سے مخفی رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت فرمایا جب پھل پک چکے تھے اور ان کا سایہ بھی خوشگوار تھا اور مجھے یہ چیزیں بڑی مرغوب تھیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کی، میں بھی صبح کو آتا تا کہ آپ کے ساتھ تیاری کروں لیکن میں کچھ کیے بغیر ہی واپس چلا جا تا اور اپنے دل میں کہتا: میں اس پر پوری طرح قادر ہوں جب چا ہوں گا تیاری کر لوں گا۔ پس میری یہی صور ت حا ل رہی حتیٰ کہ با قی لوگ اپنی تیاری میں مصروف رہے۔ پس ایک روز ایسا ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان آپ کے ساتھ جہا د کے لئے روا نہ ہوگئے اور میں نے اپنی تیاری کے بارے میں کچھ بھی نہ کیا تھا۔ میں پھر صبح کو آیا اور واپس چلا گیا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر پا یا۔ پس یہ کیفیت دراز ہو تی گئی اور صحابہ کرام تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور جہا د کا معاملہ بھی آگے بڑھتا گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی سفر کا آغاز کردوں گا اور انہیں جاملوں گا، کاش! میں ایسا کرلیتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد جب میں لوگوں کی طرف آتا تو مجھے بس وہی لوگ نظر آتے جو اپنے نفاق کی وجہ سے مطعون تھے۔ یا وہ لوگ نظر آتے جو لوگ ضعیف تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور تھے۔ پس یہ صورت حال مجھے محزون ومغموم کردیتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد نہیں فرمایا حتٰی کہ آپ تبوک پہنچ گئے، آپ تبوک میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ نے فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟'' بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! اسکی دو چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے نے اسے روک لیا ہے تو معاذ بن جبل نے اسے جواب دیا تم نے برا کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم نے تو اس میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اتنے میں آپ نے ایک سفید پوش شخص کو ریگستان سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: ''ابو خیشمہ ہو۔'' پس وہ ابو خشمہ انصاری ہی تھے، جنھوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں : "جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لارہے ہیں تو مجھ پر غم طاری ہونے لگا اور میں جھوٹ کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگا اور میں کہتا کہ میں کل آپ کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا؟ میں نے اس بارے میں اپنے گھر کے ہر عقلمند شخص سے مدد کی درخواست کی۔ اور جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لانے والے ہیں تو تمام باطل خیالا ت مجھ سے زائل ہو گئے حتٰی کہ میں سمجھ گیا کہ میں آپ سے اس طر ح کی کسی چیز کے ذریعے بچ نہیں سکوں گا تو پھر میں نے سچ بولنے کا پختہ ارا دہ کرلیا۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپکا یہ معمول تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا تے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرماتے اور پھر لوگوں کیلئے تشریف رکھتے۔ پس جب آپ نے ایسے کرلیا تو منا فق لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کرنے لگے اور حلف اٹھا نے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زائد تھے۔ پس آپ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی، ان کے لیے مغفر ت طلب کی اورانکی اندرونی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا، حتٰی کہ میں بھی حاضر خدمت ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے جس طرح کوئی ناراض آدمی مسکراتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: ''آگے آجاؤ۔ '' میں آگے بڑھا حتٰی کہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ''تجھے کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری نہیں خریدلی تھی؟ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اہل دنیا کی مجلس میں ہوتا تو میں کسی عذر کے ذریعے اسکی ناراضی سے بچ نکلتا، کیونکہ مجھے فصاحت و بلاغت کا بڑا ملکہ حاصل ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر میں آج کسی جھوٹی بات کے ذریعے سےآپ کو راضی کر لوں تو ممکن ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (صحیح صورت حال بتا کر) مجھ سے ناراض کردے اور اگر آپ سے سچی بات کردوں تو اس وجہ سے آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اس میں اللہ تعالیٰ کے اچھے انجام کی امید ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں کبھی اتنا طاقتور اور خوشحال نہیں تھا، جتنا اس وقت تھا، جب میں آپ سے پیچھے رہا۔" وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص نے سچ کہا ہے۔ پس تم یہاں سے کھڑے ہو جاؤ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمادے۔ (میں اٹھ کر چلا گیا تو) بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئے اور انھوں نے مجھے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو، تم اس چیز سے عاجز تھے کہ تم بھی غزوے سے پیچھے رہ جانے والوں کی طرح کوئی عذر پیش کردیتے اور تمہارے گناہ کی معافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں ۔ کہ ان لوگوں نے مجھے اس قدر شدید ملامت کی کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دربارہ حاضر ہو کر اپنے پہلے بیان کی تکذیب کردوں ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کہ میرے جیسا معاملہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح کے معاملہ میں تمہارے ساتھ دو آدمی اور بھی ہیں ، انھوں نے بھی ایسے ہی کہا جیسے تم نے کہا اور انہیں بھی وہی کچھ کہا گیا ہے جو تمہیں کہا گیا ہے۔ میں نے کہا وہ دو کون ہیں ؟ انھوں نے کہا: مرارہ بن ربیع العمری اور ہلال بن امیہ الواقفی۔ انھوں نے میرے سامنے جن دو آدمیوں کا ذکر کیا وہ نیک تھے، دونوں بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا، پس جب انھوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں اپنے سا بقہ مو قف پر قا ئم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں میں سے خصوصاً ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کردیا۔ وہ (کعب) بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہم سے کنارہ کش ہو گئے یا یوں فرمایا کہ لوگ ہمارے لیے بیگانے سے ہو گئے حتٰی کہ مجھے تو زمین بھی غیر مانوس سی معلوم ہونے لگی اور میرے لیے یہ زمین بھی وہ نہیں رہی تھی۔ جسے میں پہچانتا تھا۔ پس ہم نے اسی کیفیت میں پچاس راتیں گزاریں ۔ میرے جو دوسرے ساتھی تھے وہ تو ہمت ہار بیٹھے اور گھروں میں بیٹھے روتے رہے جبکہ میں ان سے جوان اور قوی تھا۔ پس میں گھر سے باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو تا، بازار وں میں چکر لگاتا لیکن صورت حال یہ تھی کہ مجھ سے کوئی بھی کلام نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو تا جب آپ نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو آپ کو سلام کر تا اور اپنے دل میں سوچتا کیا آپ سلام کے جواب میں اپنے مبارک لبوں کوحرکت دیتے ہیں یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور دُزدیدہ نظر وں سے آپ کو دیکھتا، پس جب میں اپنی نماز میں متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ مجھ سے اعراض فرمالیتے حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی بے رخی میرے ساتھ لمبی ہوتی گئی۔ تو میں ایک روز ابو قتادہ کے با غ کی دیوار پھاند کر اندر چلا گیا، وہ میرے چچا زاد اور تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھے، میں نے انہیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا: "اے ابو قتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم میرے بارے میں نہیں جانتے، کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ؟ وہ خاموش رہا، میں نے دوبارہ قسم دے کر پوچھا تو وہ پھر بھی خاموش رہا 'میں نے تیسری بار پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ پس میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، میں واپس مڑا اور دیوار پھاند کر باہر چلا آیا، میں مدینے کے بازار میں جارہا تھا کہ میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے کے لیے آیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ کعب بن مالک کے بارے میں مجھے کون بتائے گا؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے، حتیٰ کہ وہ میرے پاس آگیا اور شاہِ غسان کا ایک خط مجھے دیا، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اور اس لیے اسے فوراً پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: "امابعد! ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم پر ظلم کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں ذلت اورحق تلفی والے گھر میں رہنے کے لیے نہیں بنایا، پس تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تم سے پوری ہمدردی کریں گے۔ میں نے جس وقت اسے پڑھا تو میں نے کہا یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے فو راً اسے تنور میں جھونک کر جلا دیا حتیٰ کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور (میرے بارے میں ) کوئی وحی بھی نہ آئی تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیارکرنے کا حکم فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کر وں ؟ اس نے کہا: نہیں ! بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے ان دونوں ساتھیوں کو بھی آپ نے یہی پیغام بھجوایا۔ پس میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کافیصلہ فرما دے۔ ہلا ل بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہلال تو بہت بو ڑھا آدمی ہے، اس کا کوئی خادم بھی نہیں ، اگر میں ان کی خدمت کروں تو کیا آپ ناپسند فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں ، لیکن وہ تم سے قربت (جماع) نہ کرے۔'' اسکی بیوی نے کہا: "اللہ کی قسم! اس میں تو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ اور اللہ کی قسم! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج کے دن تک وہ تو رو رہا ہے۔" پس میرے بعض گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لو جیسا کہ آپ نے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کو انکی خدمت کرنے کی اجازت عطا فرما دی ہے۔ میں نے کہا: میں اس بارے میں رسول اللہ سے اجازت طلب نہیں کروں گا معلوم نہیں جب میں آپ سے اجازت طلب کروں توآپ کیا جواب دیں گے، کیونکہ میں تو نوجوان آدمی ہوں

life
08-07-2012, 04:55 AM
پس اس طرح دس راتیں (مزید) گزرگئیں اور جب سے لوگوں کو ہم سے کلام کرنے سے روکا گیا تھا، تب سے اب تک ہماری پچاس راتیں مکمل ہو گئیں پھر میں نے پچاسویں رات کو صبح کے وقت اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز فجر ادا کی، پس ابھی میں اس حال میں بیٹھا تھا جس کا ذکر اللہ نے ہمارے بارے میں فرمایا ہے کہ میرا دل گھٹنے لگا اور زمین فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو چکی تھی۔ کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑی پر چڑھا ہوا بہ واز بلند کہہ رہا تھا: "اے کعب بن ما لک! خو ش ہوجاؤ" میں اسی وقت سجدے میں گر پڑا اور میں سمجھ گیا کہ آزمائش کا وقت ختم ہوگیا اور تکلیف دور ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کو بتایا کہ اللہ عزوجل نے ہماری توبہ قبول فرمالی، پس لوگ ہمیں خوشخبری دینے کیلئے آنا شروع ہوگئے۔ خوشخبری دینے والے میرے ان دو ساتھیوں کی طرف بھی گئے اور ایک شخص تیزی سے گھو ڑا دوڑاتا ہوامیری طرف آیا، اور اسلم قبیلے کا ایک شخص دوڑتا ہوا میری طرف آیا اور پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا، اسکی آواز گھوڑے سے بھی زیادہ تیز تھی۔ پس جب وہ شخص میرے پاس آیا جس کی زبان سے میں نے خوشخبری سنی تھی تو میں نے خوشخبری سنانے کے بدلے میں اپنے دونوں کپڑے اتارکر اسے پہنا دیے، اللہ کی قسم! اس روز میرے پاس انکے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی، میں نے دوکپڑے اُدھار لیے اور پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا قصد کر کے روانہ ہوا۔ لوگ مجھے جوق در جوق ملے اور میری توبہ کی قبولیت پر مجھے مبارکباد دیتے اور مجھے کہتے مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمالی حتٰی کہ میں مسجد میں داخل ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے، طلحہ بن عبیداللہ جلدی سے لپکے، مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی، اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ کعب طلحہ کی اس بات کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔ کعب بیان کرتے ہیں ۔ کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا

life
08-07-2012, 04:56 AM
اور آپ کا چہرہ مبارک اس وقت خوشی سے دمک رہا تھا: ''تمہیں یہ دن مبارک ہو جو تمہاری زندگی کا بہترین دن ہے، جب سے تمہاری ماں نے تجھے جنم دیا ہے'' میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: '' نہیں ، بلکہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہے ''۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بہت زیادہ خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح چمکتا جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور اس کیفیت سے ہم آپ کی خوشی پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قبولیت توبہ کی وجہ سے میں چاہتا ہوں ۔ کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کردوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے مال میں سے کچھ اپنے پاس رکھ لے یہ تیرے لیے بہتر ہے۔''میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچائی کی بدولت نجات عطا فرمائی ہے اور یہ بھی میری توبہ کا حصہ ہے کہ (عہد کرتا ہوں ) جب تک زندگی باقی ہے میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔ پس اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عہد صدق کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی پر اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کے صلے میں وہ بہتر انعام فرمایا ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا، اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدِ صدق کیا ہے آج تک میں نے جھوٹ نہیں بولا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا۔ (وہ بیان کرتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے (اس موقع پر) یہ آیات نازل فرمائیں :
"یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر رجوع فرمایا جنھوں نے تنگی کے وقت میں اس (نبی) کی پیروی کی، بعد اس کے کہ قریب تھا ان میں سے کچھ لوگوں کے دل پھر جائیں ۔ پھر رجوع کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر، بے شک وہ بہت شفیق اور نہایت مہربان ہے۔ اور ان تین شخصوں پر بھی رجوع فرمایا۔ جو پیچھے رہ گئے تھے۔ یہاں تک کہ جب ان پر زمین باوجود فراخی کے تنگ ہوگئی اور خود ان کے اپنے نفس بھی ان پر تنگ ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے بچانے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کریں ۔ یقیناً اللہ بہت رجوع کرنے والا نہایت مہربان ہے، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔''
(سورۃ التوبہ آیات : 117،118،119)

life
08-07-2012, 04:56 AM
حضرت کعب بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مجھے جب سے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جتنے بھی انعامات کیے ہیں ان میں سے سب سے بڑا انعام میرے نزدیک یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولا، جھوٹ نہیں بولا، اگر میں بھی جھو ٹ بول دیتا تو میں بھی ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوئے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی تو جس طرح جھوٹ بولنے والوں کا ذکرِ شر کیا ویسے کسی کا بھی نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم ان کی طرف لوٹ کر آؤ گے تو یہ تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض کر لو، پس ان سے اعراض فرماؤ یہ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بسبب اس کے جو یہ کمائی کرتے رہے۔ یہ تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے را ضی ہو جاؤ پس اگر تم ان سے راضی بھی ہوگئے تو بے شک اللہ تعالیٰ نا فرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔''
حضرت کعب بیان کرتے ہیں : ہم تینوں ان لوگوں کے معاملے سے مؤخر کردیے گئے تھے جن کی قسموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا تھا، ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معاملے کو مؤخر فرمادیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فیصلہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اور ان تین شخصوں پر (بھی رجوع فرمایا) جو پیچھے رہ گئے تھے۔''
(سورۃ التوبہ آیت 118)

life
08-07-2012, 04:56 AM
اور یہ جو ہمارے پیچھے رہ جانے کا ذکر ہے، یہ ہمارا غزوے سے پیچھے رہ جانے کے بارے میں نہیں بلکہ یہ تو ہمارے اس معاملے کو ان لوگوں سے مؤخر کرنے کے بارے میں ہے جنھوں نے قسمیں اٹھائیں اور آپ کے سامنے عذر پیش کیے، جنہیں آپ نے قبول فرمالیا تھا۔
(متفق علیہ)

اور ایک دوسر ی روایت میں ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے جمعرات کے روز روانہ ہو ئے تھے اور آپ جمعرات کے روز ہی روانہ ہونا پسند فرماتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ سفر سے چاشت کے وقت واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر وہاں بیٹھ جاتے''۔
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (1138۔116۔ فتح)، و مسلم (2789)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:57 AM
حدیث نمبر بائیس (22)

حضرے ابو نجید (نون پر پیش اور جیم پر زبر) عمران بن حصین خزاعی سے روایت ہے کہ جہینہ قبلے کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا ہے جس سے حد (سزا) واجب ہوجاتی ہے، لہٰذا آپ اسے مجھ پر قائم فرمادیجیے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلایا اور اسے فرمایا: ''اس سے اچھی طرح سلوک کرنا اور جب بچے کو جنم دے لے تو پھر اسے لے آنا''۔ اس نے ایسے ہی کیا (یعنی وہ اسے لے آیا) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اس کے کپڑے اس پر مضبوطی سے باندھ دیے گئے اور آپ کے حکم پر اسے رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی تو حضرت عمر نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے تو زنا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''یقیناً اس عورت نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے اہل مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کردیا جائے تو ان کو بھی کافی ہو جا ئے۔ کیا تم نے اس سے بھی کوئی افضل چیز دیکھی ہے کہ اس نے تو اللہ عزوجل کی رضا کے لیے اپنی جان تک قربان کردی؟''

(مسلم)
توثیق الحدیث:اخرجہ مسلم (1696)

life
08-07-2012, 04:57 AM
حدیث نمبر تئیس (23)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں ۔ اس کے منہ کو (قبر کی) مٹی ہی بھر ے گی اور اللہ تعالیٰ اس پر رجوع فرماتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے''۔

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (25311۔فتح)، و مسلم (1049)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

life
08-07-2012, 04:58 AM
حدیث نمبر چوبیس (24)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ سبحانہ و تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے، ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ (قتل ہو نے والا شخص) اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے۔ اور شہید کردیا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس (کافر) قاتل پر بھی توجہ فرماتا ہے اور وہ مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے۔''

(متفق علیہ)
توثیق الحدیث:اخرجہ البخاری (396۔فتح)، مسلم (1890)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.