View Full Version : Read online Urdu novel-Abhi-Aik Kahawab baqaihaا-Nighat seema
Zafina
08-01-2012, 12:14 AM
ابھی اک خواب باقی ہے۔۔۔۔۔۔نگہت سیما
’مارچ کا مہینہ تھا اور غالباً پندرہ تاریخ۔‘‘
اُس نے انگلیوں پر حساب لگایا۔
ہاں، پندرہ تاریخ ہی تو تھی۔ آج سے ٹھیک چار سال پہلے مارچ کی اسی تاریخ کو وہ اس گھر سے رخصت ہوئی تھی اور آج چار سال بعد وہ اسی تاریخ کو ایک بار پھر اسی گھر میں واپس آ گئی تھی۔ اور کون جانے اب اُسے ہمیشہ اسی گھرمیں رہنا پڑے۔
اس نے ٹیرس سے نیچے جھانکا۔ لان کے اطراف میں کھلے پھول بتا رہے تھے کہ موسم بہار آ چکا ہے اور لان کے بیچوںبیچ پلاسٹک کی سفید کرسیوں پر وہ سب بیٹھے تھے۔ دونوں بھابیاں اور ان کی بہنیں اور پتہ نہیں کون کون تھا۔ چھوٹے دونوں بچے لان میں ایک طرف فٹ بال سے کھیل رہے تھے۔
جب اُس کی شادی ہوئی تھی تو بڑے بھیا کا بوبی صرف دو سال کا تھا اور چھوٹے بھیا کی پنکی ایک سال کی۔ اور اب۔۔۔۔۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ دور سے وہ دونوں صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اب۔ بچپن میں تو دونوں بہت پیارے تھے۔ یکایک اس کے دل میں انہیں دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہ ایک گہری سانس لے کر پیچھے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
اسے آئے بارہ تیرہ گھنٹے تو ہو چکے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر حساب لگایا۔ پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ حالانکہ وہ ایلیا اسفند یار تھی جو منٹوں میں زبانی بڑی بڑی رقمیں جمع کر لیتی تھی اور اسفند یار بڑے فخر سے کہتے تھے۔
’’میری ایلی تو جینئس ہے۔ اور تم دونوں نالائق۔۔۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم کوئی تیر مار لو گے۔‘‘
لیکن یہ تو تب کی بات تھی جب وہ صرف سات سال کی تھی، بڑے بھیا پندرہ سال کے اور چھوٹے بھیا تیرہ سال کے۔ وہ چھوٹے بھیا سے پورے چھ سال چھوٹی تھی اور اسفندیار کی بے حد لاڈلی۔
آج صبح جب اس نے لاہور ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھا تھا تو صبح کے تین بجے تھے یا شاید چار۔ باہر ملگجا اندھیرا تھا۔ اس ملگجے اندھیرے میں اس نے بڑے بھیا کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کچھ زیادہ تو نہیں بدلے تھے۔ ویسے ہی ینگ اور ایکٹو لگ رہے تھے۔ اتنے ہی اسمارٹ وہ تب بھی تھے، آج سے چار سال پہلے جب وہ سولہ سال کی تھی تو وہ چوبیس سال کے تھے اور ایک دو سولہ بچے کے باپ بن چکے تھے۔ اب بھی وہ اس ملگجے اندھیرے میں اسے اتنے ہی ینگ لگے تھے جیسے ان کے پاس سے گزرا ہی نہ تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔۔۔۔۔ سب ویسا ہی تھا شاید۔۔۔۔۔ جب وہ یہاں سے گئی تھی تب بھی دونوں بھابیاں سرِ شام لان میں آ بیٹھتی تھیں اور ان کی بہنیں بھی۔ کبھی شابی بھابی کی دونوں بہنیں ہوتیں کبھی ایک اور روشی بھابی کی بہن تو مستقل یہاں ہی رہتی تھی، پڑھائی کی غرض سے سال کے نو مہینے تو شابی بھابی کی بہنیں ادھر ہی ہوتی تھیں۔ جب روشی بھابی اپنی بہن کو ہاسٹل سے گھر لائی تھیں یہ کہہ کر کہ بہن کا گھر ہوتے ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت ہے تو شابی بھابی نے مارے حسد کے اپنی بہن کو بھی بلا لیا تھا۔
’’بوبی اکیلے مجھ سے نہیں سنبھالا جاتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو وشی کو بلا لوں کچھ دنوں کے لئے؟‘‘ اُس نے اسفند یار سے پوچھا تھا اور اسفند یار نے خوشی سے اجازت دے دی تھی۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ کیوں نہیں۔‘‘
سب کے لئے اس بڑے حویلی نما گھر میںجگہ تھی صرف اس کے لئے نہیں تھی۔ اُس نے پلکوں پر اٹکے آنسو کو انگلی کی پور پر لے کر جھٹکا۔
ہاں۔۔۔۔۔ صرف ایلیا اسفند یار کے لئے اس گھر میں جگہ نہیں تھی۔
…٭٭٭…
جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلی تھی تو شاید صبح کے چار بجے تھے اور اب شام کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے پھر انگلیوں پر گنا۔ بارہ گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے اور کسی نے اس کی خبر تک نہیں لی تھی، کوئی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ صبح بڑے بھیا نے اس کا بیگ کمرے میں رکھتے ہوئے کہا تھا
Zafina
08-01-2012, 12:15 AM
’’ابھی سب سو رہے ہیں۔۔۔۔۔ تم بھی آرام کرو۔ تھکی ہوئی ہو گی۔ اتنی لمبی فلائٹ تھی۔‘‘
ہاں، تھکن تو وہ بے حد محسوس کر رہی تھی۔ جہاز میں بھی باوجود کوشش کے اسے نیند نہیں آ سکی تھی۔
وہ چار سال بعد وطن جا رہی تھی، پتہ نہیں کیسا ہو گا وہاں۔ سب ویسے ہی ہوں گے یا بدل چکے ہوں گے؟۔۔۔۔۔ بوبی اور پنکی تو ذرا بڑے ہو گئے ہوں گے۔ زین کیسا ہو گا، شابی بھابی جیسا یا بھیا جیسا، بوبی تو سارے کا سارا بھیا پر گیا ہے۔
چھوٹی امی کیا اب بھی اتنی ہی سرد مہر ہوں گی یا بدل گئی ہوں گی؟ اب تو خود ان کی بیٹی بڑی ہو گئی ہو گی۔ شاید ان کا دل نرم پڑ گیا ہو۔ وہ نو سال کی تھی جب چھوٹی امی کے ہاں انوشہ پیدا ہوئی تھی اور اب وہ گیارہ سال کی ہو گی۔ اور بدر اس سے ایک سال ہی تو چھوٹا تھا۔ وہ تو دس سال کا ہو گا۔ کتنا کیوٹ سا تھا وہ۔ اور وہ آرب مصطفی، وہ پتہ نہیں ابھی تک ہمارے گھر میں رہتا ہو گا یا چلا گیا ہو گا۔ کس قدر لڑاکا تھا۔ چھوٹی امی کا بھائی جسے وہ اپنے ساتھ ہی لائی تھیں۔ ایک بار شابی بھابی نے اسے بتایا تھا کہ چھوٹی امی نے اسی شرط پر شادی کی ہے ابی سے کہ وہ آرب مصطفی کو ساتھ ہی رکھیں گی۔ کیونکہ ان کے والدین نہیں تھے اور چھوٹی امی ہی اس کے لئے سب کچھ تھیں۔ ابی جان، پتہ نہیں وہ اب بھی اس سے ویسی ہی محبت کرتے ہوں گے جیسے امی جان کی زندگی میں کرتے تھے یا پھر۔۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی تو خود کو ماضی کی یادوں سے آزاد نہیں کرا سکی تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ چار سال بعد وطن آ رہی ہے تو سب ہی اسے لینے آئے ہوں گے۔ لیکن صرف بڑے بھیا کو دیکھ کر اسے ازحد مایوسی ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو بے بی؟۔۔۔۔۔۔ ‘‘ بڑے بھیا کے لہجے میں ہمیشہ جیسی نرمی تھی۔ ’’ایاز کیسا ہے؟‘‘
’’ٹھیک۔۔۔۔۔ ہے۔‘‘ اُس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی تھی۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس نے تو ایک ماہ سے ایاز کو دیکھا تک نہیں تھا۔ ایک ماہ پہلے وہ اسے واشنگٹن سٹی میں نینا عادل کے فلیٹ میں چھوڑ کر ایسا گیا تھا کہ پھر اس سے بات تک نہیں کی تھی۔ اس کا ٹکٹ، اس کی تیاری سب نینا نے ہی کی تھی۔ نینا نے اسے بتایا تھا کہ ایاز نے فون پر اس سے بات کی ہے اور ایسا کرنے کو کہا ہے۔
…٭٭٭…
ایک ماہ پہلے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی کھولتے ہوئے اس نے سوچا تھا، آج کتنی سردی ہے یہاں۔۔۔۔۔ وہاں ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر کے ہر کمرے میں گیس کے ہیٹر جل رہے ہوں گے اور شاید ماڈل ٹائون کی کشادہ سڑکیں کہر میں ڈوبی ہوں گی۔ وہ کتنی ہی یر ماضی میں کھوئی رہی تھی ۔۔۔۔۔ یا پھر سٹنگ روم میں سب بیٹھے مونگ پھلی اور چلغوزے کھا رہے ہوں گے۔ اور شاید کسی نے ایلیا اسفندیار کو یاد بھی نہ کیا ہو۔ ابی جان نے بھی نہیں کہ ان کے پاس انوشہ جو آ گئی ہے اور کیا انوشہ کو پا کر ایلیا اُن کے دل سے اُتر گئی تھی؟
وہ ایلیا اسفندیار جسے وہ اپنی اولادوں میں سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ شاید وہ ان کے دل سے اتر ہی گئی تھی۔ شاید بیٹیاں مائوں کے ہونے سے ہی باپوں کے دلوں میں رہتی ہیں۔ اس کی امی جان بھی تو ایک دن اچانک چلی گئی تھیں۔ رات جب وہ اسے یار کر کے اپنے کمرے میں گئی تھیں تو اچھی بھلی تھیں۔ لیکن صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو چھوٹے بھیانے روتے ہوئے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے بتایا تھا کہ امی جان کو رات شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔
’’بے بی! تم امی کے لئے دعا کرنا!‘‘
چھوٹے بھیا نے اُسے ناشتہ کروایا تھا۔ حالانکہ اس کا ناشتہ کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن ہر روز کی طرح اس نے ضد نہیں کی تھی اور چپ چاپ ناشتہ کر لیا تھا۔ پھر اسی دوپہر کو امی جان واپس آ گئی تھیں۔۔۔۔۔ خاموش، بند آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اُس نے کتنا ہی پکارا۔ ہاتھ پکڑ کر، ان کی ناک پر ہاکھ رکھ کر، آنکھوں کو چوم کر۔ لیکن وہ تو بولتی ہی نہیں تھیں۔ بڑے بھیا نے اسے گود میں بھرکر بتایا۔
’’بے بی!ہماری امی جان فوت ہو گئی ہیں اور اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔‘‘
’’کیا میں اللہ میاں کے پاس نہیں جا سکتی بھیا؟‘‘
ان دنوں وہ کتنی ضدی ہو گئی تھی۔ ہر وقت روتی اور اللہ میاں کے پاس جانے کی ضد کرتی تھی۔
پھر جس روز اس کی آٹھویں سالگرہ تھی اور بڑے بھیا نے اُسے چاکلیٹ کا پیکٹ گفٹ دیا تھا، اسی روز اسفند یار چھوٹی امی کو لائے تھے۔ اور ان کے ساتھ آرب مصطفی بھی تھا۔ بڑے بھیا کا
Zafina
08-01-2012, 12:15 AM
م عمر ہی ہو گا۔۔۔۔۔ اور پھر ایاز ملک کی دھاڑ اُسے ماڈل ٹائون کے اس بڑے سارے گھر سے باہر لے آئی تھی۔
’’میں نے تمہیں کافی بنانے کو کہا تھا۔‘‘
جب کھڑکی بند کر کے وہ کافی کا کپ لے کر ایاز ملک کے پاس گئی تھی تو ایاز ملک نے گرما گرم کافی کا کپ اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر دے مارا۔ گرم کافی کے چھینٹے اس کے پائوں پر پڑے تھے۔
’’ایلیا اسفندیار! آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کس جرم کی پاداش میں تم مجھ پر مسلط کی گئی ہو۔‘‘
یہ کتنی عجیب بات تھی کہ شادی کے چار سال بعد بھی وہ ایلیا اسفندیار ہی تھی، ایلیا ایاز ملک نہیں۔۔۔۔۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ پچھلے چار سالوں سے وہ بھی یہی ایک بات سوچ رہی تھی کہ آخر کس جرم کی پاداش میں اسے ایاز ملک جیسے شخص کے حوالے کیا گیا تھا۔ اُس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو بڑی نرمل اور بڑی سیدھی سادھی تھی۔ چھوٹی امی کے آنے پر وہ خود ہی اسفند یار سے دور ہو گئی تھی۔ وہ کبھی ان کے قریب نہیں جاتی تھی کہ چھوٹی امی کو برا لگے گا۔ چھپ چھپ کر اپنے ابی جان کو انوشہ سے لاڈ کرتے دیکھتی تھی۔ اُس نے کبھی اسفندیار تو کجا بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کو بھی نہیں بتایا تھا کہ چھوٹی امی کبھی کبھی اُسے کتنی بے دردی سے مارتی ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ تو روزانہ ہی کرتی ہیں۔ پھر اُسے اس آدمی کے حوالے کر کے کس نامعلوم جرم کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا ہی تو تھی کہ ان چار سالوں میں ایک بار بھی اسفندیار کا فون نہیں آیا تھا۔ باپ، بیٹیوں کو رخصت کر کے یوں بھول تو نہیں جایا کرتے جس طرح ابی جان نے اسے بھلا دیا تھا۔
’’جی چاہتا ہے تمہیں تین حرف کہہ کر اپنی زندگی سے نکال باہر کروں۔ لیکن میرے ڈیڈ۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے دائیں ہاتھ کا مُکا بنا کر ٹیبل پر مارا تھا اور وہاں پڑی کتابیں اور اخبار اٹھا کر نیچے پھینک دیئے تھے۔ وہ اپنے غصے کا اظہار اس طرح ہی کرتا تھا۔ چیزیں پھینک کر اور توڑ کر۔
’’آپ مجھے پاکستان واپس کیوں نہیں بھیج دیتے؟‘‘ چار سالوں کی خاموشی کے بعد اس نے زبان کھولی تھی۔ اور یہ دراصل وہ نہیں، نینا عادل بول رہی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کی سگی تایا زاد تھی لیکن اسے ایلیا اسفندیار سے ہمدردی تھی۔
’’ایلی! تم ایاز سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ تمہیں واپس پاکستان بھجوا دے۔‘‘ اُس نے کئی بار کہا تھا اور آج صبح بھی وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’ایلی! اس طرح تو تم مر جائو گی۔ تم ایاز سے کہو۔ یا پھر میں کہتی ہوں۔ میرے خدا! تم چار سال سے اس اذیت میں ہو۔ کاش میں پہلے یہاں آ جاتی۔‘‘ نینا عادل ورجینیا میں تھی اور کوئی سات ماہ پہلے واشنگٹن سٹی آئی تھی۔
’’پاکستان واپس۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے قہقہہ لگایا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔ چار سال سے تم میرے سر پر مسلط ہو، عذاب بنی ہوئی ہو۔ لیکن اس کے لئے تمہیں خود ڈیڈ سے کہنا ہو گا کہ تم پاکستان آنا چاہتی ہو۔‘‘ اس نے اس کی کلائی کو دائیں ہاتھ کی گرفت میں لے کر تقریباً مروڑ ڈالا تھا۔
’’اور تم کہو گی۔۔۔۔۔ تم ڈیڈ سے کہو گی۔۔۔۔۔ آج ہی۔‘‘
اس نے اس کی کلائی چھوڑ کر اسی وقت نمبر ملایا تھا۔ لیکن ڈیڈ سے اس کی بات نہیں ہو سکی۔
اگلی صبح جب وہ ناشتہ بنا رہی تھی تو نہ جانے کس کا فون آیا تھا کہ ایاز ملک نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور فوراً ہی کہیں جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اٹیچی دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کہیں زیادہ دنوں کے لئے جا رہا ہے۔
’’تم اپنے کچھ کپڑے لے لو۔۔۔۔۔ میں ٹیکساس جا رہا ہوں۔ تمہیں نینا آپی کے پاس چھوڑ جائوں گا۔‘‘
پھر اسے نینا عادل کے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
’آپی! اس کی بات ڈیڈ سے کرا دیجئے گا۔ اور اگر وہ کہیں تو پھر پاکستان کے لئے ٹکٹ وغیرہ لے کر اسے پاکستان روانہ کر دیجئے گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔۔ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’ٹیکساس جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے زیادہ دن لگ جائیں۔ اور ایلیا اپنی فیملی کے لئے اُداس ہو رہی ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔‘‘ نینا عادل کا اچھا بہت معنی خیز تھا۔ ’’اورٹیکساس میں تمہیں کیا کام ہے؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔‘‘ ایاز نے سر کھجایا۔ ’’دراصل میرا فرینڈ بیمار ہے۔ وہاں ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ کچھ دیر پہلے ہی فون آیا تھا۔‘‘
نینا عادل کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ پھر وہ انہیں لائونج میں چھوڑ کر اندر نینا کے بیڈ روم میں چلی آئی تھی۔ نینا عادل جو ایاز ملک کے سگے تایا کی بیٹی تھی، اس سے بے حد مختلف تھی۔ اس نے
Zafina
08-01-2012, 12:16 AM
ایلیا کو بتایا تھا کہ ورجینیا آنے کے صرف تین سال بعد اس کا ہسبنڈ ایک حادثے میں اپنی ٹانگیں کٹوا بیٹھا تھا اور اس نے چار سال اس اجنبی شہر میں تنہا اس کی خدمت کی۔ اور پھر چار سال بعد وہ مر گیا تب بھی وہ پاکستان واپس نہیں گئی۔ کیونکہ اس کے دو بیٹے تھے اور اسے ان کے مستقبل کے لئے جنگ کرنا تھی۔ اب اس کا بڑا بیٹا پندرہ سال کا اور چھوٹا گیارہ سال کا تھا۔
’’میں نے بہت محنت کی ہے ایلیا! اور بہت تھکی ہوں۔ کبھی سوچتی ہوں یہاں رہنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ کبھی سوچتی ہوں شاید غلط تھا۔ لیکن وہاں پاکستان میں بھی کون تھا میرا۔ ایک چچا جان اور چچی۔ میرے ڈیڈ تو میری شادی سے چند ماہ پہلے ہی وفات پا گئے تھے اور ماما میرے بچپن میں۔۔۔۔۔ سو مجھے تویہاں ہی رہنا تھا، اپنے بچوں کے لئے۔ میرے پاس یہ تھے۔ لیکن تمہارے پاس تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ کوئی آسرا نہیں ہے۔ اور یہاں اکیلے اس طرح جینا آسان نہیں ہے ایلی! پھر وہاں پاکستان میں تمہارا بھرا پُرا گھر ہے۔ تم ایاز سے کہو تمہیں پاکستان بھیج دے۔ جب وہ تمہیں پسند نہیں کرتا، تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتا، تمہیں پل پل اذیت دیتا ہے، تمہیں اپنے بچوں کی ماں نہیں بنانا چاہتا تو پھر کیوں رہ رہی ہو تم؟۔۔۔۔۔ میں چچا جان سے سب کہہ دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں، پلیز۔‘‘ اس نے نینا کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔ ’’آپ انکل سے کچھ نہ کہیں۔‘‘
ایاز ملک نے نینا عادل کے واشنگٹن آنے کے دوسرے دن ہی اُسے سمجھایا تھا۔
’’خبردار! جو تم نے نینا سے کوئی بات کی۔‘‘
اور اُس نے نینا سے کچھ نہیں کہا تھا۔ لیکن نینا تو خود ہی جان گئی تھی سب کچھ۔
’’کیا کیتھی آئی ہے یہاں؟‘‘ ایک روز ایاز ملک اپنے آفس میں تھا، نینا عادل نے اس روز اپنے کام سے چھٹی کی تھی اور اپنے بچوں کو ان کے سکول چھوڑ کر اس کے پاس آ گئی تھی۔ وہ نینا کے منہ سے کیتھی کا نام سن کر حیران رہ گئی تھی۔
’’یہ کیتھی کون ہے؟‘‘
’’کیتھرائن ہے۔۔۔۔۔ آجی کی دوست۔۔۔۔۔ آجی دراصل اسی سے تو شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن چچا جان نے اس کی شادی تم سے کر دی اور حقیقتاً تم اتنی پیاری ہو کہ ایاز کیتھی کو بھول گیا ہو گا۔ تمہارے ساتھ کیسا ہے وہ؟۔۔۔۔۔ اور یہ تم دونوں ابھی تک اکیلے کیوں ہو؟۔۔۔۔۔ چچی جان نے بطورِ خاص مجھ سے کہاتھا کہ جب واشنگٹن جائوں تو تم سے پوچھوں۔ آجی اکلوتا ہے نا اور چچا جان اور چچی جان دونوںکو بہت شوق ہے کہ اس کے بچے ہوں۔ پہلے تو آجی بھی کہتا تھا کہ اس کے ڈھیر سارے بچے ہوں گے۔‘‘
نینا عادل ہنسی تھی۔ لیکن وہ یونہی ساکت بیٹھی رہی۔ اب وہ سولہ سال کی معصوم لڑکی تو نہیں تھی کہ نہ جان سکتی کہ ایاز ملک اسے ماں بننے کا اعزاز نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس معاشرے میں رہ کر وہ اتنا تو جان ہی چکی تھی اب۔
’’ایلیا! تم چپ کیوں ہو؟ کیا آجی۔۔۔۔۔؟‘‘ اور اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ آنکھوں میں چمکتے آنسوئوں کے قطروں نے سب کہہ دیا۔ نینا عادل حیران سی اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’تم تین سال اور تین ماہ میں اسے فتح نہیں کر سکیں۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں حُسن کی دولت سے دل کھول کر نوازا ہے۔‘‘
پھر نینا عادل نے کتنا ہی چاہا تھا کہ وہ سب کچھ انکل آفتاب ملک کو بتا دے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی تھی۔ حالانکہ مہینے دو مہینے بعد ان کا فون ضرور آتا تھا، صرف اس لئے۔ ایاز تو خود ہی آفس میں ان سے بات کر لیتا تھا۔ ان بیتے چار سالوں میں ایک بار وہ خود آ کر مل بھی گئے تھے۔ تین ماہ کا وہ عرصہ جب وہ اور آنٹی یہاں رہ رہی تھیں اس کے لئے ایک خواب جیسا تھا۔ ایاز کتنی نرمی اور محبت سے بات کرنے لگا تھا۔ مگر ان کے جاتے ہی۔۔۔۔۔
’’تم جانتی ہو ایلیا! ایاز کس کے پاس جا رہا ہے؟‘‘ اُسے رخصت کر کے جب نینا عادل اس کے سامنے آ کر بیٹھی تھی تو ازحد افسردہ لگ رہی تھی۔ ’’کیتھی کے پاس۔ وہ کچھ بیمار ہے۔ اور دیکھنا، ایک دن وہ اس سے شادی بھی کر لے گا۔‘‘ لیکن وہ یونہی بے حس سی بیٹھی رہی تھی۔
’’میں نے کہا ہے اس سے کہ تم اسے قبول نہیں ہو تو وہ تمہیں فارغ کر دے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ تم اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کر سکتی ہو۔ کسی اچھے انسان کے ساتھ۔ لیکن پتہ ہے، وہ ڈرتا ہے چچا جان سے۔۔۔۔۔ چچا جان نے اپنی قسم دے رکھی ہے اُسے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میں چچا جان کو راضی کر لوں تو وہ اسی وقت۔۔۔۔۔‘‘
ایلیا کے دل میں ایک ارتعاش سا پیدا ہوا تھا۔ لیکن وہ ساکت بیٹھی رہی تھی۔
’’خیر، یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ پہلے میں تمہاری چچا جان سے بات کرا دوں گی۔‘‘
Zafina
08-01-2012, 12:16 AM
اور پھر نینا عادل نے ہی اس کی بات انکل آفتاب سے کروائی تھی۔
’’اچھا۔۔۔۔۔ اچھا، تم اُداس ہو۔‘‘ وہ ہنسے تھے۔ ’’تو آ جائو۔ لیکن اُس ناہنجار نے تو کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’نہیں انکل!‘‘اس نے بہ مشکل اپنے آنسو پیئے تھے۔ پتہ نہیں انکل آفتاب ہمیشہ ہی ایاز ملک سے بدگمان کیوں رہتے تھے۔ شاید وہ جانتے تھے۔
ٹھیک ایک ماہ بعد نینا عادل نے اس کے ہاتھ میں پاکستان کا ٹکٹ تھمایا تھا۔
’’دو دن بعد تمہاری فلائٹ ہے۔ میں نے آجی کو بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں آ سکتا۔ تمہیں کچھ خریدنا ہو یا اپنے اپارٹمنٹ سے سامان لانا ہو تو حذیفہ کے ساتھ چلی جانا۔‘‘ اس نے اپنے بڑے بیٹے کا نام لیا تھا۔ ’’میں آج بہت بزی ہوں۔ یہ کمبخت پیسہ دیتے ہیں لیکن کام بھی گدھوں کی طرح لیتے ہیں۔‘‘
لیکن اُسے کیاخریدناتھا بھلا۔ اور پھر اس کے پاس رقم بھی کہاں تھی۔ اور اپنا ضروری سامان تو وہ پہلے ہی جا کر لے آئی تھی۔ چند جوڑے کپڑے ہی تو تھے بس۔ زیور کے نام پر دو چوڑیاں ہاتھوں میں تھیں اور ایک لاکٹ سیٹ تھا جو وہ وہاں سے پہن کر آئی تھی۔
’’آجی سے بات کرو گی۔۔۔۔۔؟‘‘ شام کو جب نینا آفس سے آئی تو اس نے پوچھا تھا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ میں بھلا کیا کروں گی؟‘‘ ان چار سالوں میں بھلا کہاں اس نے خود سے ایاز ملک سے بات کی تھی جو اب کرتی۔
’’ایلی۔۔۔۔۔!‘‘ نینا نے اس کے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا تھا۔ ’’تم جب پاکستان جائو تو سب کچھ بتا دینا اپنے والدین کو اور اپنی زندگی مزید برباد مت کرنا۔ آجی سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ وہ بچپن سے ہی ایسا ہے۔ ضدی اور اکھڑ سا۔ جس بات پر اڑ جائے، اڑ جاتا ہے۔ ورنہ تم میں کیا نہیں ہے۔ اور نہیں تو اپنی امی کو تو بتا سکتی ہو نا سب کچھ۔‘‘ اُسے خاموش دیکھ کر نینا عادل نے کہا تھا۔
’’میری امی، میری اسٹیپ مدر ہے۔‘‘ اس نے پہلی بار نینا عادل کو بتایا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔ تب ہی تو۔‘‘ نینا عادل نے ہونٹ سکیڑے تھے۔ ’’اتنی کم عمری میں تمہیں اس بندھن میں باندھ دیا گیا۔ سولہ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے شادی کی۔‘‘
’’اُس روز میں اپنے سکول سے رزلٹ کارڈ لینے گئی تھی اپنی فرینڈ کے ساتھ۔ میرے بہت اچھے نمبر تھے۔ اور بڑے بھیا نے کہا تھا وہ مجھے کنیئرڈ کالج میں داخلہ دلوا دیں گے۔ لیکن جب واپس آئی تو بوا خیرن نے کہا، مجھے ابی جان ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں۔‘‘
اُس روز اس نے پہلی بار نینا عادل کو اپنی شادی کا احوال بتایا تھا۔ نینا دھیان سے سن رہی تھی۔
’’اور جب میں ڈرائنگ روم میں آئی تو وہاں میں نے آفتاب انکل کو بھی ابی جان کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنے ہوش میں صرف دو بار انہیں دیکھا تھا۔ ایک بار بڑے بھیا اور ایک بار چھوٹے بھیا کی شادی پر۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میری امی کی ڈیتھ پر وہ ہمارے گھر میں تین چار دن رہے تھے اپنی مسز کے ساتھ۔ لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آیا تھا۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے۔ میں سلام کر کے کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی۔ میرے ہاتھ میں میرا رزلٹ کارڈ تھا۔
’’ادھر بیٹھو، میرے پاس آ کر۔‘‘
میں جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے میرا رزلٹ کارڈ لے کر دیکھا تھا۔ مجھے مبارکباد دی اور پانچ سو روپے دیئے۔ پھر ابی جان کی طرف دیکھا تھا۔
’’بہتر تو تھا اسفند! کہ تم اسے کم از کم انٹر کرنے دیتے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ابی جان کے چہرے پر سختی تھی۔ ’’اگر تمہیں انکار ہے تو پھر میں کل ہی اس کا نکاح پڑھا دیتا ہوں زریاب خان سے۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ میں نے انکار کب کیا ہے؟ تم تیاری کرو۔ آج پیر ہے نا۔ آج سے ٹھیک چھ دن بعد میں اتوار کو بارات لے کر آ رہا ہوں۔ بلکہ تیاری بھی کیا کرنا ہے، اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس۔‘‘
’’تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا آفتاب! بعد میں نہ کہنا دوست نے دھوکا دیا۔ میں نے تمہیں ساری بات بتادی ہے اور زریاب کو انکار نہیں۔ وہ تمہاری بھابی کی بات ٹال نہیں سکتا۔‘‘
میں ہونق سی بیٹھی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تب انکل آفتاب نے ابی جان سے کہاتھا بلکہ درخواست کی تھی۔
’’اسفند! کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں اپنی بیٹی سے کچھ دیر تنہائی میں بات کر لوں؟‘‘ ابی جان اُٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ تم بات کرو۔ میں تمہاری بھابی کو بتا دوں۔ کہیں وہ چلی ہی نہ گئی ہو۔ آج اُسے پنڈی جانا تھا۔‘‘
Zafina
08-01-2012, 12:16 AM
تب آفتاب انکل مجھ سے میری دلچسپیاں پوچھتے رہے اور باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا تھا۔
’’تمہیں اپنے گھر میں سب سے اچھا کون لگتا ہے؟‘‘
’’بڑے بھیا۔‘‘ میں نے فوراًکہا تھا۔ ’’اور بوبی اور پنکی بھی اچھے لگتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ آرب مصطفی؟۔۔۔۔۔ وہ کیسا ہے؟‘‘
’’بہت لڑاکا ہے۔۔۔۔۔ بھیا سے بچپن میں بہت لڑتا تھا، اس لئے مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا۔ ویسے ہے بھی سڑیل سا۔ اس کی چھوٹے بھیا، بڑے بھیا کسی سے بھی دوستی نہیں ہے۔ سب سے جلتا ہے وہ۔ اور چھوٹی امی اسے کسی سے بات بھی نہیں کرنے دیتیں۔ حالانکہ بڑے بھیا نے تو چاہا تھا کہ دوستی کر لیں اس سے۔ لیکن انکل! اس نے بڑے بھیا کو بالکل لفٹ نہیں کروائی۔ اور مجھے تو زہر لگتا ہے وہ۔ اس نے شاید انوشہ کو بھی منع کر دیا ہے۔ وہ بھی مجھ سے بات نہیں کرتی۔‘‘
تب آفتاب انکل نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’آج سے میں نے تمہیں اپنی بیٹی بنا لیا ہے۔ تمہیں اپنے بیٹے کی دلہن بنا کر اپنے گھر لے جائوں گا۔‘‘
میری پلکیں جھک گئی تھیں۔ مجھے آفتاب انکل سے بے تحاشا شرم آئی تھی اور وہ ہنس دیئے۔ میں صرف سولہ سال کی تھی۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ شادی سے متعلق میرے ذہن میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ ایک خوبصورت مرد کا ساتھ، اچھے اچھے کپڑے، گہنے اور سیر و تفریح۔ میں نے شابی بھیا کو بڑے بھیا کی سنگت میں بہت خوش دیکھا تھا۔ شابی بھابی میرے ابی کی کزن کی بیٹی تھیں۔ بڑے بھیا ایک بار جھنگ گئے تھے تو ان کے لبوں پر ہر وقت شابی بھابی کا ہی نام رہنے لگا تھا۔ ان کی والدہ کو وہ خالہ جان کہتے تھے۔
’’خالہ جان کی بیٹی شہاب بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔ بہت خوب صورت، سلیقہ مند۔ اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔‘‘
’’یہ شہاب کیا نام ہوا؟‘‘ چھوٹے بھیا نے مذاق اُڑایا تھا۔ ’’تصور میں قدرت اللہ شہاب آ جاتے ہیں۔‘‘
لیکن بڑے بھیا کو تو جانے خالہ نے کیا گھول کر پلایا تھا کہ انہوں نے شادی کی رٹ لگا دی۔ اور ابھی پڑھ ہی رہے تھے کہ شادی کر لی۔ خالہ جان نے ابھی جان کو بھی ہاتھ میں کر لیا تھا کہ جو وہ فوراً ہی رضامند ہو گئے۔ اور چھوٹے بھیا کیوںپیچھے رہتے۔ بڑے بھیا کی شادی کے دو سال بعد وہ بھی اپنی ایک کلاس فیلو پر مر مٹے۔ اور یوں روشی بھابی بھی اس گھر میں آ گئیں۔ چھوٹی امی نے غیرت دلائی۔
’’لو۔۔۔۔۔ بہن ابھی بیٹھی ہے اور بھائی شادی رچا بیٹھے۔‘‘
’’بہن کا جب وقت آئے گا تو اس کی شادی ہو جائے گی۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘ چھوٹے بھیا منہ پھٹ تھے۔
’’چھوٹے بھیا کی جب شادی ہوئی تو میں آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی۔۔۔۔۔ میں تو خوش تھی نینا عادل! کہ میری شادی ہو رہی ہے۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ ایک سزا ہے جو مجھے بھگتنی ہے۔ چھوٹی امی راولپنڈی جا چکی تھیں۔ ابی جان نے آفتاب انکل کو بتایا۔
’’دراصل ان کی رشتے کی چچا کا انتقال ہو گیا ہے اور انہیں جانا تھا۔ لیکن خیر، تین چار دن تک آ جائیں گی۔ تم اتوار کو بارات لا سکتے ہو۔‘‘
انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
’’ہائے، اتنی جلدی۔‘‘ ابی جان نے آفتاب انکل کے جانے کے بعد سب کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔ بڑے بھائی نے احتجاج کیا۔
’’ایلی ابھی بہت چھوٹی ہے ابی جان!‘‘
’’کوئی چھوٹی نہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی چاند چڑھائے، میں اسے عزت و آبرو کے ساتھ رخصت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے دونوں بھابیوں سے کہا تھا کہ وہ ان چنددنوں میں کچھ کپڑوں کی شاپنگ کر لیں میرے لئے۔
پھر شابی بھابی اور روشی بھابی نے سات آٹھ ریڈی میڈ جوڑے خرید لئے۔ ابی جان، شابی بھابی کو ساتھ لے کر ایک سیٹ اور چوڑیاں بھی لے آئے تھے۔ مجھے اپنا ویڈنگ ڈریس کچھ خاص پسند تو نہیں آیا تھا لیکن خاموش رہی۔ ابی جان نے ایک ہوٹل میں بارات کے استقبال کا انتظام بھی کر لیا تھا۔
’’بارات کے ساتھ کچھ زیادہ لوگ نہیں ہوں گے۔ صرف پچاس ساٹھ۔‘‘ انہوں نے بڑے بھیا کو بتایا تھا۔
جس روز چھوٹی امی راولپنڈی سے آئی تھی، اس روز روشی بھابی لائونج میں ڈھولکی رکھے گانے گا رہی تھیں اور میں پاس ہی پیلا دوپٹہ اوڑھے بیٹھی تھی۔ روشی بھابینے چھوٹے بھیا سے کہہ کہہ کر
Zafina
08-01-2012, 12:17 AM
ڈھولکی منگوائی تھی کہ کچھ تو پتہ چلے کہ اس گھر میں شادی ہو رہی ہے۔ چھوٹی امی انوشہ کا ہاتھ تھامے لائونج میں حیران سی کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھیں اور چھوٹی بھابی انہیں دیکھ کر بھی انجان بنی ہوئی تھیں۔
’’یہ ڈھولکی کس خوشی میں بجائی جا رہی ہے؟‘‘
’’شادی ہو رہی ہے۔‘‘
’’کس کی؟۔۔۔۔۔ کیا اپنے میاں کی کروا رہی ہو؟‘‘
’’میرا میاں بے چارہ ایک ہی کر کے رچ گیا ہے۔‘‘ چھوٹی بھابی بہت موڈ میں تھیں۔ چھوٹے بھیا نے کل ہی انہیں کنگن بنوا ک دیئے تھے۔
’’ایلی کی شادی ہے۔‘‘ شابی بھابی نے بالآخر ان کا تجسّس دور کیا تھا۔
’’ایلی کی؟۔۔۔۔۔ لیکن ایسی کیا جلدی تھی اسفند کو؟۔۔۔۔۔ کہا تو تھا میں نے، زری کی بیوی کا چالیسواں ہو جائے تو رخصتی کریں گے۔ لوگ کیا کہیں گے بیوی کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور دوسری لے آیا۔‘‘
’’لیکن چھوٹی امی! ایلی کی شادی آپ کے خالہ زاد بھائی زریاب خان سے نہیں بلکہ آفتاب انکل کے بیٹے سے ہو رہی ہے۔‘‘
ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’اور وہ جو زریاب خان کو میں نے زبان دی تھی؟‘‘
’’زریاب خان کو زبان دیتے آپ کو انوشہ کا خیال نہیں آیا تھا؟۔۔۔۔۔ ایلی بھی انوشہ جیسی ہی ہے۔ کیا انوشہ کی شادی آپ ساٹھ سالہ بڈھے سے کر سکتی ہیں؟‘‘
بڑے بھیا کم بولتے تھے لیکن جب بولتے تھے تو چھوٹی امی بول نہیں پاتی تھیں ان کے سامنے۔
’’اتنا ظلم نہ کیجئے چھوٹی امی! کہ آسمان بھی رو پڑے۔‘‘
میں تو ساکت بیٹھی تھی۔ اگر آفتاب انکل مجھے ابی جان سے نہ مان لیتے تو۔۔۔۔۔ زریاب خان کے تصور سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک بار دیکھاتھا میں نے اُسے جب وہ چھوٹی امی سے ملنے آیا تھا۔
امی اس وقت تو چپ کر گئی تھیں۔ لیکن بعد میں ابی جان سے خوب لڑی تھیں۔ لیکن ابی جان نے ان کی لڑائی کی پرواہ نہیں کی تھی اور میں ایاز ملک کی دلہن بن کر ساہیوال آ گئی تھی۔
ساہیوال میں آفتاب انکل کی حویلی اتنی بڑی تھی، اتنے سارے ملازم تھے۔ انکل اور آنٹی بہت چاہتے تھے مجھے۔ لیکن ایاز ملک بہت اُکھڑا اُکھڑا سا رہتا تھا۔ کچھ ناراض اور خفا خفا سا۔ شادی کے صرف پندرہ دن بعد وہ یہاں آ گیا تھا اور میں ادھر حویلی میں ہی رہی۔
پھر چار ماہ بعد اس نے مجھے یہاں بلا لیا اور یہاں آتے ہی پہلی رات اس نے مجھ سے کہہ دیا کہ میں اس پر مسلط کی گئی ہوں اور وہ اپنے ڈیڈ کی وجہ سے یہ گلے پڑا ڈھول بجانے پر مجبورہے۔ ورنہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
نینا عادل نے بہت خاموشی سے اس کی ساری بات سنی تھی اور تاسف سے اسے دیکھا۔
’’یہ سب تمہاری اسٹیپ مدر کی سازش لگتی ہے۔ انہوں نے یقینا تمہارے فادر کو تمہارے خلاف ورغلایا ہو گا اور وہ تمہاری شادی زریاب خان سے کرنے لگے ہوں گے۔ اور بالکل فلمی انداز میں چچا جان نے انٹری دے کر تمہیں اس خونخوار شخص سے بچا لیا اور اپنے شہزادے کے لئے مانگ لیا۔ یہ الگ بات کہ یہ شہزادہ تمہارے لئے ولن ثابت ہو رہا ہے۔‘‘
نینا عادل ہنسی تھی۔ لیکن وہ ہنس بھی نہیں سکی تھی۔
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا نینا عادل! کہ میں یہاں ہی رہ جائوں؟۔۔۔۔۔ کہیں جاب کر لوں؟۔۔۔۔۔ ایاز ملک سے دور کہیں۔۔۔۔۔؟‘‘
’’نہیں میری جان!۔۔۔۔۔ اکیلی لڑکی ہر جگہ غیر محفوظ ہے۔ میں تمہیں کیا بتائوں، میں نے کیا کیا نہیں سہا۔ وہاں ورجینیا میں سیٹل تھی میں۔ تنخواہ بھی یہاں سے زیادہ تھی۔ لیکن پھر میرا باس میرے پیچھے پڑ گیا۔ مجھ دو بچوں کی ماں کے پیچھے۔ یہاں بڑی عجب دنیا ہے ایلیا!۔۔۔۔۔ وہاں پاکستان میں تمہارے لئے تحفظ ہے۔ وہاں تمہارے بھائی ہیں۔ سگے بھائی۔ ایاز میرا سگا بھائی نہیں ہے لیکن پھر بھی بھائی ہی سمجھا ہے اسے۔ میں نے اسے بتایا اپنے باس کے متعلق۔ اس نے کہا میں فوراً واشنگٹن آ جائوں۔ پھر اس نے میری جاب اور اس اپارٹمنٹ کا انتظام کیا۔ تمہارے ساتھ وہ جیسا بھی ہے، میرا تو بھائی ہے۔ احترام کرتا ہے میرا اور مجھ سے بھائیوں جیسی محبت کرتا ہے۔ تم نے ایک ہی حویلی میں بچپن کے دن گزارے ہیں، اکٹھے۔ تمہارے لئے بہتر
Zafina
08-01-2012, 12:17 AM
ہے کہ تم پاکستان چلی جائو۔ اپنوں میں۔ آجی میری ہر بات مانتا ہے۔ لیکن تمہارے معاملے میں میری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔‘‘
…٭٭٭…
اُس کی فلائٹ لاہور کی تھی۔
آفتاب انکل نے لاہور فون کر کے فلائٹ نمبر وغیرہ بتا دیا تھا۔
’’کچھ دن اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ لو۔۔۔۔۔ جب ساہیوال آنا ہو، فون کر دینا، لے جائوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
وہ بڑے بھیا کے ساتھ ایئرپورٹ سے گھر آ گئی تھی۔ اور بڑے بھیا نے اسے کمرے میں چھوڑ دیا تھا۔ فرسٹ فلور کا یہ وہی کمرہ تھا جس میں شادی سے پہلے وہ رہتی تھی۔ لیکن اب کس قدر نامانوس لگ رہا تھا۔ کمرے میں دو دروازے تھے۔ ایک باہر لائونج میں کھلتا تھا اور دوسرا ٹیرس پر۔۔۔۔۔ اس وقت وہ ٹیرس میں رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔ نیچے لان سے بچوں کی ہنسی اور شور کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ اُٹھی اور واپس کمرے میں آ گئی۔ لائٹ جلا کر کمرے کا جائزہ لیا، ایک بیڈ، ایک ٹو سیٹر صوفہ، ایک رائٹنگ ٹیبل اور چیئر۔ نہ ٹیبل پر کچھ کتابیں تھیں اور نہ ہی وارڈروب میں کسی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔
’پتہ نہیں میرے بعد اس کمرے میں کون رہ رہا تھا۔‘
اُس نے بیگ کھول کر اپنے کپڑے وارڈروب میں لٹکائے۔ یکایک اُس کے پیٹ میں اینٹھن ہوئی۔ بھوک۔۔۔۔۔ ہاں، اُسے بھوک لگ رہی تھی۔ جہاز میں بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بس چائے اور ایک سلائس لیاتھا۔ اور کیا کسی کو خیال نہیں کہ اسے اس گھر میں آئے بارہ گھنٹے ہو گئے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ تھکی ہوئی تھی اور سو گئی تھی۔ لیکن اب اسے جاگے ہوئے بھی چار پانچ گھنٹے ہو گئے تھے۔
’شاید وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں سو رہی ہوں۔ مجھے خود ہی باہر جانا چاہئے۔ آخر یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔ میرے باپ کا گھر۔‘
اس گھر سے ان چار سالوں میں کسی نے اُسے فون نہیں کیا تھا۔ سوائے بڑے بھیا کے۔ اور بڑے بھیا نے بھی کتنی بار فون کیا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ بار۔ کسی نہ کسی عید پر، پنے دوسرے بچے کی پیدائش پر اور بس۔
اُس نے ایک جوڑا نکالا اور واش روم میں گھس گئی۔ یہ جوڑا اُسے نینا عادل نے دیا تھا آتے ہوئے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی دو تین جوڑے دیئے تھے۔ اس کے کپڑے دیکھ کر انہیں تاسف ہوا تھا۔ وہی پاکستان سے لائے ہوئے ریشمی جوڑے، چند شرٹس اور ایک دو جینز۔
’’یہ اتنی لمبی لمبی قمیضوں کا تو اب فیشن ہی نہیں رہا ایلا جان!۔۔۔۔۔۔ افوہ، آجی نے تمہیں کس جرم کی سزا دی ہے۔‘‘ اُنہیں ایاز پر بہت غصہ تھا۔
’’ایک دفعہ ٹیکساس سے آئے تو۔ میں کان کھینچوں گی اس کے۔‘‘
اور اب کیا فائدہ۔ اب تو وہ جا رہی تھی۔
…٭٭٭…
شاور لے کر گیلے بال یونہی پشت پر کھلے چھوڑکر وہ کمرے سے نکلی۔ لائونج میں کوئی نہیںتھا۔ حالانکہ جب وہ پاکستان سے گئی تھی تو بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کے بیڈ رومزاوپر ہی تھے۔ شاید سب نیچے ہیں۔ کمروں کے بنددروازے دیکھ کر وہ ہولے ہولے سے سیڑھیاں اُترنے لگی۔یہ سیڑھیاں گرائونڈ فلور کے ٹی وی لائونج میں جاتی تھیں۔ نیچے سے ٹی وی کی آواز آ رہی تھی۔ شاید کوئی نیچے بیٹھا ہے۔ شاید ابیجان یا پھر کوئی اور۔ بھابیاں تو باہر لان میں تھیں۔
وہ گھبرائی گھبرائی سی نیچے اُتر رہی تھی۔ سامنے ہی صوفے پر چھوٹی امی بیٹھی تھیں اور ان کے ساتھ شاید انوشہ تھی۔ وہ تھی تو گیارہ سال کی لیکن اپنی عمر سے بڑی لگ رہی تھی۔ جب وہ اس گھر سے گئی تھی تو وہ سات سال کی تھی۔
’’السلام علیکم چھوٹی امی!‘‘
Zafina
08-01-2012, 12:18 AM
جب اس نے بالکل ان کے سامنے آ کر انہیں سلام کیا تو انہوں نے نخوت سے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
’’آئی ہو تم۔۔۔۔۔ کیسی ہو؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘
چھوٹی امی کے لہجے میں وہی چار سال پہلے والی سرد مہری تھی۔ لگتا تھا جیسے وہ چار سال بعد نہیں آئی بلکہ ابھی ابھی کہیں گئی ہو اور واپس آ گئی ہو۔
اُس نے انوشہ کی طرف دیکھا۔ اس کا جی چاہا وہ اسے گلے سے لگا لے۔ یہ لڑکی اُس کی بہن تھی۔۔۔۔۔ بہن۔
’’انوشہ۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے ہاتھ آگے بڑھائے تھے۔ لیکن انوشہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں آگے کر دی تھیں۔ کیونکہ اس کے دائیں ہاتھ میں ریموٹ تھا۔
’’ہائے۔۔۔۔۔‘‘ وہ چیونگم چبا رہی تھی۔ اور وہ جواباً کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
’’اور سب لوگ کہاں ہیں؟‘‘ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
’’کہاں ہونا ہے؟۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی تو اس وقت اپنے آفس میں ہوں گے۔ آتے ہی ہوں گے۔ اور تمہارے ابی کچھ دیر پہلے آئے ہیں، آرام کر رہے ہیں۔‘‘
اُس کے دل کودھچکا سا لگا۔ کیا ابی جان کا جی نہیں چاہا ہو گا کہ وہ فوراً ہی مجھ سے ملیں۔ وہ کتنا تڑپ رہی تھی انہیں دیکھنے کو۔
’’اور تمہاری بھابیاں معہ بچگان کے باہرلان میں بیٹھی ہوں گی اور چغلیاں کھا رہی ہوں گی۔‘‘
اُس نے دیکھا، انوشہ نے برا سا منہ بنایا تھا۔ انوشہ نے جینز پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور بال کٹے ہوئے تھے، چھوٹے چھوٹے سے۔ گویا ان چار سالوں میں پاکستان میںلوگ کافی ایڈوانس ہو گئے ہیں اور ابی جان بھی۔ ورنہ وہ تو سکول چادر اوڑھ کر جاتی تھی۔
تب ہی کچن کے دروازے سے خیرن بوا آتی دکھائی دیں۔ وہ بے تابانہ ان کی طرف بڑھی تھی۔
’’میری بچی۔۔۔۔۔!‘‘ خیرن بوا نے اسے گلے سے لگا کر اس کی پیشانی پر چٹ چٹ کئی بوسے دے ڈالے تھے۔ اُسے لگا تھا پہلی بار جیسے وہ اپنوں میں آئی ہے۔ اندر دل جیسے پگھلنے لگا تھا۔
’’کیسی ہیں آپ خیرن بوا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ ان سے الگ ہوئی تو آواز بھرا رہی تھی اور آنکھیں نم تھیں۔
’’بہت سوئیں بیٹا!‘‘ خیرن بوا بھی میلے دوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔
’’نہیں بوا! میں تو بہت دیر سے جاگ رہی ہوں۔‘‘
’’لو۔۔۔۔۔ بی بی تو کہہ رہی تھیں، ابھی انوشہ گئی تھی تمہارے کمرے میں۔ سو رہی تھیں تم۔‘‘
’’میں خیرن بوا؟۔۔۔۔۔‘‘ انوشہ نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں تو ابھی کراٹے سینٹر سے آئی ہوں۔ اور میں تو نہیں گئی ایلیا کے کمرے میں۔‘‘
’’بڑی بہن ہے تمہاری۔ باجی کہو۔‘‘ چھوٹی امی نے خوامخواہ اسے ڈانٹا۔
’’لیکن مجھے یادہے اس روز آپ کہہ رہی تھیں کہ ایلیا آ رہی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں اسے باجی باجی کہہ کر اس کے پیچھے بھاگنے کی۔‘‘
خیرن بوا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن فوراً ہی انہوں نے منہ پھیر کر ایلیا سے کہا۔
’’ایلی بیٹا! تمہیں تو بھوک لگی ہو گی۔ میں کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔‘‘
’’نہیں بوا!۔۔۔۔۔ کھانا اب رات میں ہی کھائوں گی۔ بس چائے کے ساتھ کچھ دے دیجئے۔‘‘
’’پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہوں گے۔‘‘ انوشہ نے اب ریموٹ نیچے رکھ دیا تھا اور دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے ایلیا کا دل جو اس کی طرف سے برا ہوا تھا، اب صاف ہو گیا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ خوامخواہ ہنسی۔ ’’لیکن چائے کے ساتھ کچھ کھا لوں گی تو بھوک کو سہارا مل جائے گا۔ آپ سب چائے پی چکے؟‘‘
’’میرا خیال ہے، چائے پی جا چکی ہے۔‘‘ انوشہ نے جواب دیا۔ ’’کیونکہ جب میں آئی تو بوا ٹیبل سے چائے کے برتن اٹھا رہی تھیں۔‘‘
’’نوشی! تم اُٹھو اب یہاں سے۔۔۔۔۔ تمہارا ٹیوٹر آنے والا ہو گا۔‘‘ چھوٹی امی کی پیشانی پر شکنیں تھیں۔
Zafina
08-01-2012, 12:18 AM
وہ چار سال بعد آئی تھی پھر بھی چھوٹی امی کی پیشانی پر اسے دیکھ کر پہلے کی طرح ہی شکنیں پڑ گئی تھیں۔ جب وہ ذرا سمجھ دار ہوئی تھی تو اس نے ان کے سامنے آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کا موڈ اسے دیکھ کر خراب ہو جاتا تھا۔ آج بھی ان کا موڈ بہت خراب لگ رہا تھا۔
’’آج میرے ٹیوٹر کے بھائی کی شادی ہے۔ انہوں نے نہیں آنا۔‘‘
انوشہ نے پھر ریموٹ اٹھا لیا اور اب مختلف چینل بدل بدل کر دیکھ رہی تھی۔ اس کا پورا دھیان ٹی وی کی طرف تھا اور وہ قریب بیٹھی ایلیا سے بے خبر ہو گئی تھی۔ حالانکہ ایلیا کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس سے باتیں کرے۔
تو کیا وہ اٹھ کر باہر لان میں جائے؟۔۔۔۔۔ اُس نے سوچا۔ لیکن پیٹ میں پھر اینٹھن ہوئی۔ نہیں، چائے پی لوں۔
چھوٹی امی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں تو وہ کچن میں آ گئی۔بوا کباب تل رہی تھیں۔ سموسوں کا پیکٹ نکال کر رکھا ہوا تھا۔
’’بس بوا! صرف کباب ہی رہنے دیں۔ اور چائے بنا دیں۔‘‘ اُس نے مڑ کر فریج کو دیکھا، وہ اپنی پرانی جگہ پر ہی تھا۔ فریج سے اس نے ڈبل روٹی نکالی اور سادہ سلائس میں گرم گرم کباب رکھا۔
’’اے لو بٹیا!۔۔۔۔۔ کیچپ تو لیلو۔‘‘
’’نہیں بوا!۔۔۔۔۔ بس چائے بنا دیں۔‘‘ اس نے وہاں ہی کھڑے کھڑے دو کباب اور دو سلائس کھا لئے اور کائونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑی چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے بوا سے باتیں کرنے لگی۔
’’بوا! آپ کچن میں اکیلی ہیں کیا؟۔۔۔۔۔ مونا (منیر) چلا گیا؟‘‘
’’اسے کہاں جانا تھا؟۔۔۔۔۔ موا چھٹی پر گیا ہے چار دن کی۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک یہاں ہی ہے۔ تب تو کہتا تھا، کسی فوجی کے گھر جائے گا، کک بنے گا کسی آرمی والے کا۔‘‘
’’بس گپیں مارتا تھا۔ کہاں جانا تھا اسے۔ اچھی بھلی نوکری کون چھوڑتا ہے؟ اور پھر اتنا سا تو تھا جب اس گھر میں آیا تھا۔‘‘
منیر کچن میں بوا کے ساتھ ان کی مدد کرتا تھا۔ کھانا لگا دیا، چائے گرم کر دی، ٹیبل سمیٹ دی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ چھوٹے بھیا اُسے مونا کہہ کر بلاتے تھے تو وہ بہت چڑچڑ کرتا تھا۔
’’چھوٹے بھیا! بس، کہہ رہا ہوں۔ مونا تو لڑکوں کا نام ہوتا ہے۔ ہمیں آئندہ مت کہئے گا۔‘‘
لیکن چھوٹے بھیا کہتے۔
’’وہ بھی تو مونا ہی ہے نا، وہی جو صبح صبح سلام کرنے آتی ہے اور تالی بجا کر پیسے مانگتی ہے۔‘‘
وہ مزید چڑتا تھا۔ لیکن اس کے چڑنے کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا۔ سب ہی اسے مونا کہنے لگے تھے اب۔
’’اور صفائی کرنے کون آتا ہے؟۔۔۔۔۔ وہی ستاراں یا کوئی اور؟‘‘
’’لو، ستاراں کے میاں نے تو دوسری شادی کر لی تھی۔ اور اسے گائوں واپس بھیج دیا تھا۔‘‘ بوا نے بتایا۔ ’’اب تو ایک لڑکی آتی ہے، چھیما باہر کی صفائی کے لئے۔ لان اور گیراج وہی کرتی ہے۔ اندر اسی چھیما کی بھرجائی آتی ہے ریباں۔ کپڑے بھی وہی دھوتی ہے۔‘‘
’’اور بوا! کبھی مجھے بھی کسی نے یاد کیا؟‘‘ اس نے خالی پیالی کائونٹر پر رکھی۔
’’لو، کب یاد نہیں کیا میں نے۔ ارے بٹیا! تمہیں چلنے تک تو میں نے ہی سنبھالا۔ تمہاری اماں تو بیمار پڑ گئی تھیں ایک دم۔ دل کی بیماری تو انہیں تب ہی لگ گئی تھی۔‘‘ بوا دوپٹے سے آنکھیں پونچھنے لگیں۔
’’بوا! کسی اور نے؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا۔
’’لو، اور کس نے یاد کرنا ہے بچی! اپنی ماں نہ رہے تو باپ بھی پرایا ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی تیری ماں جیساتو نہیں ہوتا کہ۔۔۔۔۔‘‘ بوا کچھ کہتے کہتے چپ کر گئیں۔
’’اللہ بخشے تیری ماں بڑی ہمدرد تھی۔ بہت ہی نرم دل۔ ہر ایک کی عزت کرتی تھی۔ ہم نوکروں کا بھی احترام کرتی تھی۔ اللہ جنت میں جگہ دے۔
’’امی۔۔۔۔۔!‘‘
Zafina
08-01-2012, 12:18 AM
ایلیا نے ماں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ سات سال کی عمر میں بچہ اچھا خاصا سمجھ دار ہوتا ہے۔ اس کی امی بہت خوب صورت تھیں۔ لانبے لانبے بال، بڑی بڑی آنکھیں، اونچا لمبا قد، وہ تو کھانے بھی بہت اچھے پکاتی تھیں۔ اُس کے ذہن میں تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اسے امی کی کوئی بات یاد نہیں تھی۔ آنکھیں بند کرتی تو آنکھوں کے سامنے جو شبیہہ آتی تھی وہ سفید لباس میں سجی سنوری امی کی آتی تھی۔ اس روز وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھیں۔ شاید کسی تقریب میں گئی تھیں۔
’’امی! آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ روز ایسے ہی تیار ہوا کریں۔‘‘
اور وہ مسکرا دی تھیں۔ پھر جو شبیہہ ذہن میں آتی تھی وہ آنکھیں موندے چارپائی پر لیٹے اور سفید کفن میں لپٹی۔ اور بس۔۔۔۔۔
’’بڑے بھیا تو یاد کرتے ہوں گے مجھے۔ اور چھوٹے بھیا؟‘‘
’’کون جانے بٹیا! اور بھائی تو یوں بھی شادی کے بعد پرائے ہو جاتے ہیں۔ یہ کون سے۔۔۔۔۔‘‘ بوا خالی کپ لے کر سنک کی طرف بڑھ گئیں۔
’’کچھ خاص کھانے کو دل چاہے تو بتا دو چندا! میں بنا لوں گی۔ وہاں تو وہی موئی ڈبل روٹی ہی کھاتی ہو گی۔‘‘
’’نہیں بوا!‘‘ وہ یکدم اُداس ہو گئی تھی۔ ’’جو ہو گا کھا لوں گی۔ اور وہاں تو گھر میں سب پکا لیتی تھی میں۔ پاکستانی کھانے وغیرہ۔‘‘
’’ہائے، جب تمہارے ابا نے تمہارا اچانک بیاہ کر دیا تو تمہیں تو چائے تک بنانا نہیں آتی تھی۔ پھر کس سے سیکھا؟‘‘
’’وقت سب سکھا دیتا ہے بوا!‘‘ اس کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ تھی۔ اسے کب آتا تھا پکانا کچھ۔ جب ایاز چلا گیا تھا واپس اور وہ حویلی میں تھی تو چچی ان نے سکھایا تھا اسے۔ سالن تو وہ بنا ہی لیتی تھی۔ لیکن روٹی صحیح نہیں بیل سکتی تھی۔
’’وہاں ملازم نہیں ملتے۔ اور پھر مل بھی جائیں تو بھلا ہمارے کھانے پکا سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے اسے بتایا تھا۔
’’ایاز بھی خود پکاتا ہے۔ وہاں پاکستانی ریسٹورنٹ ہیں لیکن روز روز باہر کا کہاں کھایا جاتا ہے۔ نینا بھی دور ہے۔ وہاں ہوتی قریب تو مجھے فکر نہیں ہوتی۔ سب سکھا دیتی تمہیں۔‘‘
انہوں نے تھوڑے وقت میں سب کچھ سکھانے کی کوشش کی تھی اسی لئے کئی چیزیں گڈمڈ ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ کئی بار نمک زیادہ ہو جاتا۔ کھانا صحیح نہ بنتا تو ایاز برتن اُلٹ دیتا۔
’’کھانا تک بنانا تو آتا نہیں تمہیں۔ پھر کیا خوبی ہے؟ اور تعلیم تمہاری صرف میٹرک۔ آخر تمہارے گھر والوں کو کیا جلدی پڑی تھی؟‘‘
وہ کیا بتاتی؟۔۔۔۔۔ اسے تو خود معلوم نہیں تھا کہ کیا جلدی تھی انہیں۔ وہ تو چھوٹی امی کے ڈر سے کبھی کچن کی طرف گئی ہی نہیں تھی۔ حالانکہ میٹرک کے امتحان کے بعد جب وہ فارغ تھی تو اس کادل چاہتا تھا کہ وہ نئی نئی ڈشیں بنائے۔
…٭٭٭…
’’ارے ہاں بٹیا!‘‘ بوا صافی سے ہاتھ پونچھ کر اس کے قریب آ کھڑی ہوئی تھیں اور سرگوشی کی تھی۔
’’چار سال تو ہو گئے تمہارے بیاہ کو۔ لیکن ابھی تک خالی خولی جھولی لئے پھرتی ہو۔ کسی ڈاکٹر کو دکھایا وہاں؟‘‘
’’وہ بوا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ ایک دم نروس ہو گئی تھی۔
’’اچھا خیر، اب یہاں آئی ہو تو کچھ دن رہو گی نا۔ میں تمہاری بھرجائی سے کہوں گی کسی دن ڈاکٹر کے پاس لے جائے تمہیں۔‘‘
’کچھ دن۔۔۔۔۔۔‘ اُس کا جی چاہا وہ بوا کو بتا دے۔ کم از کم صرف بوا کو وہ وہ کچھ دنوں کے لئے نہیں آئی بلکہ شاید ہمیشہ کے لئے۔
ایاز نے نینا عادل سے کہا تھا۔
’’آپی! اس سے کہہ دینا اب لوٹ کر نہ آئے یہاں۔۔۔۔۔ تھک گیا ہوں ان چار سالوں میں۔‘‘
لیکن لفظ اس کے حلق میں پھنسنے لگے تھے۔ وہ خاموشی سے کچن سے باہر نکل آئی۔
’’تمہاری امی کو تمہارا آنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ لیکن پرواہ مت کرو۔ تمہارے باپ کا گھر ہے۔ ہزار بار آئو۔‘‘
بوا نے جاتے جاتے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ وہ ایک لمحے کو ٹھٹکی تھی۔ اب امی کو اچھا لگے یا برا، اُسے رہنا تو یہیں تھا۔
Zafina
08-01-2012, 12:19 AM
وہ لائونج میں کچھ دیر کھڑی انوشہ کو دیکھتی رہی جو اس کی موجودگی سے قطعی بے نیاز بڑے انہماک سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ لائونج اور سٹنگ روم کا درمیانی پردہ ہٹا کر سٹنگ روم میں آئی۔ شیشے کی دیوار سے باہر لان میں بیٹھی بھابیوں کو دیکھا اور پھر گیٹ کھول کر باہر نکل آئی اور پورچ کی سیڑھیاںاُتر کر لان میں آ گئی۔
’’ہائے ایلا!۔۔۔۔۔ تم جاگ گئیں؟‘‘
’’اللہ، ہم کب سے تمہارے اُٹھنے کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
کئی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئی تھیں۔ وہ دھیمے دھیمے چلتی لان کے وسط میں آ گئی۔ پہلے شابی بھابی اور پھر روشی بھابی نے اسے گلے لگایا جبکہ ان کی بہنوں نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ آگے کر دیا تھا۔
’’اسے پہچانا تم نے؟‘‘ روشی بھابی نے اپنی بہن کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میری بہن ہے اسمائ۔ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔
چار سال پہلے وہ فرسٹ ایئر میں داخل ہوئی تھی جب روشی بھابی اسے لائی تھیں۔ اور اگر وہ یہاں ہوتی تو اس وقت وہ بھی یونیورسٹی میں ہوتی۔
’’پہچان لیا ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اور یہ میری چھوٹی بہن ہے گڑیا۔‘‘ شابی بھابی نے بھی تعارف کروایا۔
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ایک سرسری سی نظر گڑیا پر ڈالی تھی۔ شابی بھابی کی تین بہنیں تھیں۔ جب اس کی شادی ہوئی تھی تو ان کی درمیان والی بہن رہ رہی تھی یہاں۔
’’تمہیں تو گڑیا یاد نہیں ہو گی بالکل۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو بار ہی یہاں آئی تھی تمہارے ہوتے۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’یہ پڑھتی ہے یہاں۔ اسلامیہ کالج سے بی۔اے کر رہی ہے۔‘‘
’’لیکن وہاں جھنگ میں بھی تو کالج ہے لڑکیوں کا۔‘‘بے اختیار ہی اس کے لبوںسے نکلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ ہے تو۔ لیکن گڑیا لاہور میں پڑھنا چاہتی تھی۔‘‘ خلافِ توقع شابی بھابی نے برا نہیں منایا تھا۔ حالانکہ وہ بات کر کے ازحد ڈر گئی تھی۔
’’یہاں ایرے غیرے رہ کر پڑھ سکتے ہیں تو پھر گڑیا کیوں نہیں؟ اس کی تو پھر خالہ کا گھر ہے۔ بلکہ دہری رشتہ داری ہے۔ ابی کی طرف سے ماموں کا گھر بھی ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ روشی بھابی کا انداز طنزیہ تھا۔ ’’یہ بھی تو کہو نا رشتے کی خالہ۔‘‘
’’ہوں۔۔۔۔۔‘‘ شابی بھابی ہوں کر کے اس کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں۔
’’بیٹھو ایلا! تم چار سال بعد بھی ویلی ہی ہو۔ دُبلی پتلی، نازک سی۔ ذرا بھی تو نہیں بدلیں۔‘‘ خود وہ قدرے فربہ ہو گئی تھیں۔
’’اچھا۔‘‘وہ ہولے سے ہنسی۔ اسے تو لگتا تھا جیسے وہ بہت بدل گئی ہے اور اس نے چار سالوں میں بڑھاپا اوڑھ لیا ہے۔
’’واقعی ایلا! تم بالکل ویسی ہی ہو۔ لگتا ہی نہیں کہ چار سال امریکہ میں گزار کر ائی ہو۔ جب تم یہاں سے گئی تھیں تب بھی تم ایسے ہی، اسی انداز میں دوپٹہ اوڑھتی تھیں اور آج بھی ویسے ہی اوڑھ رکھا ہے۔‘‘ شابی بھابی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
’’وہاں تو جینز اور اسکرٹ وغیرہ پہنتی ہو گی۔‘‘ گڑیا نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ نہیں تو۔‘‘ وہ گھبرا گئی۔ ’’یہی شلوار قمیض۔‘‘ چند ایک بار جب وہ باہر گئی تھی تو اس نے جینز پہنی تھی جو ایاز اس کے لئے لایا تھا۔
’’جب کبھی اسٹور پر جائو گروسری وغیرہ لینے تو اس ڈریس میں نہ جایا کرو۔ لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں اس عجوبے کو۔‘‘
وہ تو کم ہی گھر سے نکلتی تھی۔ ایاز خود ہی ویک اینڈ پر سامان لے آتا تھا۔ کبھی مجبوراً نکلنا پڑتا تھا۔
’’کیا باہر بھی انہی کپڑوں میں جاتی تھیں؟‘‘
’’میں بہت کم باہر گئی ہوں۔‘‘
’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا ایاز نے قید کر کے رکھا ہوا تھا؟‘‘ روشی بھابی نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا تھا۔
Zafina
08-01-2012, 12:19 AM
’’نن۔۔۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ گھبرا گئی۔ ’’میں خود ہی نہیں جاتی تھی۔‘‘
’’چار سال امریکہ میں رہ کر آئی ہو اور ویسی ہی ہو، بدھو کی بدھو۔‘‘ روشی بھابی نے قہقہہ لگایا۔
’’کیاخبر سن رہی ہو آپا؟‘‘ گڑیانے شابی کے کان میں سرگوشی کی تھی جو سرگوشی ہرگز نہ تھی۔
’’بوبی!۔۔۔۔۔ بوبی! ادھر آئو۔ پھپھو سے ملو۔‘‘ شابی بھابی نے اس کی بات گویا سنی ان سنی کرتے ہوئے بوبی کو آواز دی۔ بوبی کے ساتھ پنکی اور بدر بھی آ گئے تھے۔ اس نے بوبی اور پنکی کو پیار کر کے بدر کی طرف دیکھا تھا جو قدرے پیچھے کھڑے تھا۔
’’یہ بدر ہے۔‘‘ شابی بھابی نے بتایا۔
’’ہاں، پہچان لیا ہے میں نے۔‘‘ اس نے بدر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’کیسے ہو چندا؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ اس کے انداز میں کوئی گرمجوشی نہ تھی۔
’’میں تمہاری آپی ہوں۔۔۔۔۔ پتہ ہے تمہیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ انوشہ نے بتایا تھا صبح کہ ہماری بہن آئی ہیں امریکہ سے۔ لیکن مما کہہ رہی تھیں، سوتیلی آپی ہیں۔‘‘
اس نے بات مکمل کر کے فخر سے سب کی طرف دیکھا جیسے اپنی معلومات پر بہت فخر ہو اُسے۔ ایلیا کے دل کو کچھ ہوا۔
’’کیا ضروری ہے کہ رشتوں کے ساتھ یہ سوتیلا کا لفظ بھی لگا ہوتا؟ ۔۔۔۔۔ کیا تھا کہ یہ بے حد پیارا سا بچہ اسے صرف آپی کہتا، سوتیلی آپی نہیں۔
’’بدر! ذرا اندر جا کر بوا سے کہو کہ ایلا کے لئے چائے بنا دے۔۔۔۔۔ کھانا تو تم اب رات کو ہی کھائو گی نا؟‘‘ بدر سے بات کر کے وہ یکدم ایلیا کی طرف مُڑ گئی تھی۔
’’میں کیوں جائوں؟‘‘ بدر نے صاف انکار کر دیا۔ ’’بوبی کو بھیجو نا۔‘‘
’’ابی جان اور چھوٹی امی کے لاڈ نے بگاڑدیا ہے اسے۔‘‘ شابی بھابی بڑبڑائیں۔
’’بھابی! میں چائے پی کر آئی ہوں۔‘‘
’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا واقعی؟‘‘ روشی نے اسے دیکھ کر آنکھیں پھاڑیں۔ غالباً ہر بات پر آنکھیں پھاڑنے کی عادت ہو گئی تھی اسے۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ جیسے شرمندہ ہو گئی۔ ’’بوا نے بنا دی تھی۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ اور چھوٹی امی سے ملاقات ہوئی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ انوشہ اور چھوٹی امی لائونج میں ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ ابی جان البتہ کمرے میں تھے۔ چھوٹی امی کہہ رہی تھیں کہ وہ تھکے ہوئے آئے ہیں آفس سے۔ آرام کر رہے ہیں۔‘‘
’’لو۔‘‘ روشی اور شابی بھابی ہنسنے لگیں۔ ’’وہ تو آج آفس گئے ہی نہیں۔ صبح سے گھر پر ہی تھے۔ چھوٹی امی کی طبیعت ناساز تھی نا۔ ان کی ناز برداری کر رہے تھے۔‘‘
بدر نے پائوں پٹخا۔
’’میں بتائوں گا امی کو سب۔‘‘ وہ اپنی بال لے کرچلا گیا۔
’’نو سال کا ہے۔ لیکن پورا فتنہ ہے۔ ایلی! اس سے بچ کر رہنا۔‘‘ شابی بھابی نے تنبیہہ کی۔ وہ کچھ بولے بنا لان سے باہر جاتے بدر کو دیکھنے لگی۔ پنکی اور بوبی اس کے قریب آ گئے تھے۔ اس نے پنکی کو گود میں بٹھا لیا اور دونوں سے باتیں کرنے لگی۔ ان کی چھوٹی چھوٹی معصوم باتیں اسے اچھی لگ رہی تھیں۔
’’بھابی! زین کہاں ہے؟‘‘ اس نے بوبی سے باتیں کرتے کرتے پوچھا۔
’’سو رہا ہے۔۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا ہے۔ اب رات تک سوتا رہے گا۔‘‘
’’کیسا ہے وہ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بوبی کی طرح ہی ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں بدر جیسی ہیں۔ کچھ نیلی نیلی سی۔‘‘
’’سچ، کتنا کیوٹ ہو گا نا وہ۔‘‘ وہ اس وقت ہر بات جیسے بھول گئی تھی۔
Zafina
08-01-2012, 12:20 AM
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ سب ہی اسے پیار کرتے ہیں۔‘‘ شابی بھابی کے لہجے سے فخر جھلکنے لگا تھا۔
اس نے دیکھا روشی بھابی کاچہرہ پھیکا پڑا ہوا تھا۔ پنکی پانچ سال کی ہو گئی تھی اور ان کی بڑی شدید خواہش تھی کہ وہ ایک بیٹے کی ماں بن کر معتبر ہو جائیں لیکن شاید ابھی اللہ کو منظور ہی نہ تھا۔
’’اور یہ تم جو دوسروں کے بچوں پر اپنی محبت لٹا رہی ہو، خود کیا یوں ہی رہنا ہے؟‘‘ روشی نے اپنا غم کم کرنے کی کوشش کی۔
وہ شرمندہ سی ہو گئی۔ اب وہ کیا کہتی کہ ایاز ایسا نہیں چاہتا تھا۔
’’بچے ہو جائیں گے تو پابند ہو جائوں گا۔ مگر تم صرف ابا کی زندگی تک ہو میرے گھر میں، یہ یاد رکھو۔ اس لئے مجھے تم سے بچے نہیں چاہئیں۔‘‘
’’دوسروں کے کہاں، اپنے ہی تو ہیں۔ اپنے بھائی کے بچے۔‘‘
’’ہاں، خیر وہ تو ہیں۔ لیکن تم کیا فیملی پلانن پر عمل کر رہی ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ بس، وہ اللہ کی مرضی۔‘‘ وہ پھر نروس ہو گئی۔ ان سارے سوالوں کے جواب تو اسے دینے ہی تھے اور نہ جانے کتنے اور سوالوں کے۔
’’پھپھو! آپ میرے لئے کیا لائی ہیں امریکہ سے؟‘‘ بوبی نے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
وہ ازحد شرمندہ ہو گئی تھی۔ اس کے پاس تھا ہی کیا۔ ایاز نے تو کبھی اسے ایک پیسہ تک نہیں دیا تھا۔ ہاں ضرورت کی ہر چیز لے آتا تھا وہ۔ اگر وہ شاپنگ کے لئے جاتی تو اتنی ہی رقم دیتا تھا جو خرچ ہو جاتی تھی۔
نینا عادل نے کہا تھا۔
’’ایلا! اپنے گھر والوں کے لئے کچھ گفٹ لے لو۔‘‘
’’گفٹ کیا کرنے ہیں؟‘‘ وہ نینا عادل پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ’’سب کچھ پاکستان میں بھی مل جاتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی۔۔۔۔۔ اتنے سالوں بعد جا رہی ہو تو کچھ لے لینا ضرور۔ عزیز رشتے داروں کو انتظار ہوتا ہے کہ جو باہر سے آیا ہے ضرور کوئی گفٹ لایا ہو گا۔‘‘
پھر جیسے نینا عادل جان گئی تھی سب کچھ۔ ایئر پورٹ جانے سے پہلے اس نے ایک بھرا ہوا بیگ اس کے حوالے کیا تھا۔
’’اس میں کچھ گفٹ ہیں تمہارے بہن بھائیوں کے لئے۔ میں کل آفس سے اُٹھ کر خرید لائی تھی۔ قت نہی تھا، زیادہ کچھ نہیں لے سکی تاہم۔۔۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
’’نینا عادل! میں تمہیں کبھی نہیں بھول پائو گی۔‘‘
’’پاگل نہ ہو تو۔ تمہارے ساتھ میرا ڈبل رشتہ ہے۔ آجی کی نسبت سے تم میری بھابی ہو اور میں نے تمہیں اپنی چھوٹی بہن بھی بنایا ہے۔ میری کوئی بہن نہیں تھی۔ اور میں سوچتی تھی اگر میری بہن ہوتی تو میں اپنے دکھ سکھ اس سے کہتی۔ اور اللہ نے شاید میری دعا سن لی کہ مجھے تم مل گئیں۔ پتہ ہے ایلا! جب حذیفہ کے پاپا بستر پر تھے تو میں نے بڑی اذیت بھری زندگی گزاری۔ بچے چھوٹے تھے۔ مجھے کام بھی کرنا تھا، ان کی دیکھ بھال، حذیفہ کے پاپا کی تیمارداری۔ وہ بستر پر پڑے پڑے بہت چڑچڑے ہو گئے تھے۔ مجھے ذرا دیر ہو جاتی تو شک کرنے لگتے تھے۔ بہت مشکل دن تھے وہ۔ اور میں کسی سے اپنا دکھ کہہ نہیں سکتی تھی۔ لیکن اب تم ہو نا میری بہن۔ مجھے ہمیشہ اپنی بڑی بہن سمجھنا۔ اور دیکھو، پاکستان جا کر مجھے بھول نہ جانا۔ اور مجھ سے رابطہ رکھنا۔‘‘ اب پتہ نہیں اس بیگ میں کیا کیا تھا۔ بوبی کے مطلب کی کوئی چیز تھی بھی یا نہیں۔
’’میرے لئے تو پھپھو گڑیا لائی ہوں گی۔ ہے نا پھپھو؟‘‘ پنکی کہہ رہی تھیں۔
وہ سوچ رہی تھی، کیا ہی اچھا ہوتا بڑے بھیا اس کے بیگ کے ساتھ وہ دوسرا بیگ بھی لے آتے۔ لیکن انہوں نے ڈگی سے ایک ہی بیگ نکالا تھا۔
’’دوسرا ابھی لے آتا ہوں۔‘‘ اور اب پتہ نہیں وہ ابھی تک ان کی ڈگی میں ہے یا انہوں نے آفس جانے سے پہلے نکال کر کہیں رکھوا دیا ہے۔
’’چلو اب جلدی کرو ندیدی! جیسے تم نے پہلے کبھی گڑیا تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘ روشنی نے پنکی کو اپنی طرف کھینچا تھا۔
’’بھابی! بچے ہیں۔ کیا ہوا؟‘‘ اس کی آواز دبی دبی سی تھی۔
’’زین جاگ نہ گیا ہو۔‘‘ شابی بھابی اُٹھ کھڑی ہوئیں تو ان کے پیچھے ہی روشی بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’پنکی کے پپا آنے والے ہوں گے۔۔۔۔۔ ان کے کپڑے وغیرہ نکال کر رکھوں۔ آتے ہی چینج کرتے ہیں۔‘‘
وہ لان میں اکیلی کھڑی رہ گئی تھی۔ صرف لان کے ایک کونے میں بدر کھڑا اپنی بال کو کک لگا رہا تھا۔ وشی، گڑیا اور اسماء بھی اس کے پیچھے جا چکی تھیں اور جاتے جاتے بوبی اور پنکی کو بھی لے گئی
ShareThis
تھیں۔
…٭٭٭…
’’دونوں بھابیاں بڑی شاطر ہیں۔ اور ان کی بہنیں بھی۔‘‘ بدر بال کو کک لگاتا اس کے پاس آ گیا تھا۔ ’’مما کہتی ہیں ان سے دور رہا کرو۔‘‘
وہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’جب اکیلی ہوتی ہیں تو مما کے خلاف بولتی رہتی ہیں۔ میں بھی سب مما کو بتا دیتا ہوں۔‘‘ اس کا انداز فخریہ تھا۔ وہ حیران سی اس ننھے بچے کو دیکھ رہی تھی۔
’’یہ تو بری بات ہے کسی کی چغلی کھانا۔‘‘
’’تو۔۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے کندھے اچکائے۔ ’’وہ بھی تو میری مما کی برائیاں کرتی ہیں۔‘‘
’’کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘
’’فورتھ میں۔‘‘
تب ہی اندرونی گیٹ کھلا اور اسفندیار نے بدر کو آواز دی تھی۔
’’بدر! تم لان میں کیا کر رہے ہو؟۔۔۔۔۔اپنا ہوم ورک کرو آ کر۔‘‘
’’ابی جان۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ وہ بے تابی سے ان کی طرف بڑھی تھی۔ اسے ابی جان سے کتنی محبت تھی، یہ وہ نہیں بتا سکتی تھی۔ ان کی ناراضگی، خفگی، سرد مہری کے باوجود وہ انہیں بہت زیادہ چاہتی تھی۔ سات سال تک جس طرح انہوں نے اس کے لاڈ اٹھائے تھے وہ تو ذہن پر نقش ہو گئے تھے۔
’’تم آ گئیں؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ’’ایاز ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ ان کے لہجے میں کوئی اشتیاق نہیں تھا اور وہ اس کی بجائے بدر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’آفتاب کا فون آیا تھا۔ تم سو رہی تھیں۔ تمہارا پوچھ رہا تھا کہ خیریت سے پہنچ گئیں۔ پھر کرے گا۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
’’بدر! تم چلو اندر۔‘‘
’’پپا! آپ نے مجھے ایم،پی تھری دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ لائے ہیں؟‘‘
’’ابھی دو ماہ پہلے میں نے تمہیں واک مین لے کر دیا ہے اور اب۔۔۔۔۔‘‘
وہ ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی لائونج میں آ گئی تھی۔ انوشہ ابھی تک اسی انداز میں صوفے پر بیٹھی تھی۔ بوبی اور پنکی بھی اس کے پاس بیٹھے تھے جبکہ روشی اور شابی بھابی شاید اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں۔
’’اب واک مین کوئی نہیں رکھتا پپا! اس کا فیشن نہیں ہے۔ وہ تو ریڑھی والوں کے پاس ہوتا ہے۔‘‘ وہ دس سالہ لڑکا کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے ایم پی تھری چاہئے بس۔‘‘
اسفند یار نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور ایک صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔
’’ذرا کوئی نیوز چینل تو لگانا انوش چندا! سنا ہے، صدام حسین پکڑ لیا گیا ہے۔‘‘
وہ حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ چار سال بعد آئی تھی اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ابی جان سے ڈھیر ساری باتیں کرے۔ لیکن ابی جان اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔
’’پاپا! مجھے ایم پی تھری لینا ہے۔‘‘
’’پہلے تم پانچویں کا امتحان دے لو، پھر۔‘‘
’’اور دو سال بعد تو ایم پی فور، فائیو نہ جانے کیا کیا آ جائے گا۔ پلیز پپا! مجھے ابھی چاہئے۔‘‘ اس نے ضد کی۔
Zafina
08-01-2012, 12:20 AM
’’اچھا، اچھا۔۔۔۔۔لے دوں گا۔ ابھی خبریں سننے دو۔‘‘
اس نے حیرت سے اسفند یار کی طرف دیکھا۔ شاید شابی اور روشی بھابی صحیح کہہ رہی تھیں، ابی جان بدر کو بگاڑ رہے ہیں
’’ارے۔۔۔۔۔مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔‘‘ بوا نے کچن سے باہر آ کرکہا۔ ’’صبح آفس جاتے ہوئے بڑے بھیا نے تمہارا بیگ بھجوایا تھا اندر۔ میں نے ادھر اسٹور میں رکھ چھوڑا ہے۔ وہ کمبخت ڈرائیور لائونج میں ہی چھوڑ گیا۔ آواز دیتی رہی کہ بٹیا کا کمرہ اوپر ہے، اوپر لے جائو۔ لیکن سنا ہی نہیں اور لائونج میں رکھ کر یہ جا وہ جا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں بوا! ادھر ہی لے آئیں باہر۔‘‘
بوا بیگ گھسیٹ کر باہر لے آئیںتو وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’اے، اب خود نہ اٹھا کے چل دینا۔۔۔۔۔ اچھا خاصا بھاری ہے۔ کہیں کمر میں درد ہی نہ بیٹھ جائے۔ کل اللہ مارا مونا آ جائے گا تو چھوڑ آئے گا اوپر۔ کچھ ضروری چیزیں نکالنی ہیں تو نکال لو۔ پھر میں ادھر کچن کے اسٹور میں ہی رکھ دیتی ہوں۔ ایسا آسان ہوتا اٹھانا تو خود نہ چھوڑ آتی میں۔‘‘
’’جی بوا! میں کمرے سے چابی لے کر آتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا برس کمرے میں ہی ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ کچھ ڈالر جو نینا عادل نے آتے ہوئے اس کے پرس میں ڈالے تھے اور چند چھوٹی موٹی ضرورت کی چیزیں۔ بیگ کی چابیاں بھی اسی میںتھیں۔
’’اس میں ضرورہمارے لئے گفٹ ہوں گے۔‘‘ اس نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بوبی کو کہتے سنا۔
’’لالچی ہو کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ بدر کی بڑبڑاہٹ کافی اونچی تھی۔ لیکن چھ سالہ بوبی نے اس کی بات کی پرواہ نہیں کی تھی اور گیس کر رہا تھا کہ پھپھو اس کے لئے کیا گفٹ لائی ہوں گی۔
دونوں بھابیاں لائونج میں بیٹھی تھیں صوفوں پر۔ جبکہ وشی، گڑیا اور اسماء نیچے کارپٹ پر بیٹھی تھیں اور ٹی وی پر کوئی انڈین چینل لگا ہوا تھا۔
’’یہ ڈرامہ ہم بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے تم بیٹھتیں نا نیچے، ابی جان کے پاس۔ وہ لائونج میں بیٹھے تھے۔ اور تمہارے بھائی بھی آنے والے ہوں گے۔‘‘ شابی بھابی میں روشی بھابی کے مقابلے میں مروت کچھ زیادہ تھی۔
’’جی میں بیگ کی چابی لینے آئی ہوں۔ نیچے ہی جا رہی ہوں۔‘‘
’’ابی جان سے ملیں؟‘‘ روشی بھابی نے یوں پوچھا جیسے اس نے شابی بھابی کی بات سنی ہی نہ ہو۔
’’جی۔‘‘ وہ کمرے میں چلی گئی۔ پرس اٹھا کر اس میں سے چابی نکالی اور واپس نیچے آ گئی۔
’یا اللہ! اور کسی کے لئے کچھ ہو نہ ہو، بوبی اور پنکی کے لئے ضرور کچھ خریدا ہو نینا نے۔‘ اُس نے دھڑکتے دل سے بیگ کھولا۔ بوبی اور پنکی مارے اشتیاق کے اس کے قریب آ کھڑے ہوئے تھے جبکہ بدر دور ہی بیٹھا کن انکھیوں سے اسے تک رہا تھا۔ تھا تو وہ بھی بچہ ہی لیکن وہ بوبی اور پنکی سے بہرحال زیادہ سمجھ دار تھا۔ اس نے لاک کھول کر زپ کھینچی۔ سب سے اوپر ہی جو ڈبہ پڑا تھا وہ ڈول کا تھا۔ بڑی سی ہنسنے رونے والی ڈول۔ اس نے ڈبہ پنکی کو دیا۔ وہ خوش ہو کر اوپر کی طرف بھاگی۔
پھر اس نے ایک پیکٹ اٹھایا۔ اس میں جرسی تھی۔ اس نے باہر نکالا تو اسے ایک اور ڈبہ ملا۔ ریموٹ سے چلنے والی گاڑی۔ بوبی اچھلنے لگا۔ اس نے اس کے ہاتھ میں ہی ڈبے پر بنی گاڑی کی تصویر دیکھ لی تھی۔ پتہ نہیں یہ بوبی کے لئے تھی یا بدر کے لئے۔ اس نے مڑ کر بدر کو دیکھا جس کی آنکھوں سے اب اشتیاق جھلک رہا تھا لیکن وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھا تھا۔
نینا اس کے گھر کے ہر فرد کے متعلق جانتی تھی۔ یقینا اس نے سب کے لئے ہی کچھ نہ کچھ لیا ہو گا۔ لیکن اب پتہ نہیں بوبی کے لئے کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے گمان گزرا تھا کہ یہ گاڑی بدر کے لئے ہو گی۔ بوبی نے خود ہی اس کے ہاتھ سے گاڑی لے لی تھی اور پنکی کے پیچھے ہی اوپر بھاگ گیا تھا۔ وہ چیزیں نکال کر باہر رکھتی جا رہی تھی۔ اسے یہ بیگ اپنے کمرے میں کھولنا چاہئے تھا۔ اب پتہ نہیں۔۔۔۔۔ تبھی اسے وہ چھوٹا سا ڈبہ نظر آ گیا۔ ایم پی تھری۔ اُس نے نینا کے چھوٹے بیٹے کے پاس ایسا ہی ڈبہ دیکھا تھا اور مغیرہ نے اپنے ایم پی تھری پر اسے گانے بھی سنوائے تھے۔
’’بدر!‘‘ اس نے خوشی سے اسے آواز دی۔ ’’یہ رہا تمہارا گفٹ۔‘‘
بدر کی آنکھوں میں یکدم چمک اُتر آئی تھی۔
’’تھینک یو!‘‘ اس نے ڈبہ پکڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔
’’چلو تمہاری ایم پی تھری کی خواہش تو خود ہی پوری ہو گئی۔‘‘ انوشہ نے بدر کو ڈبہ کھولتے دیکھ کر کہا تھا۔
اس نے سارا سامان نکال کر باہر رکھ دیا تھا۔ سب سے نیچے ایک قدرے بڑا سا پیکٹ تھا جس پر لکھا تھا ’’چچا جان کے لئے‘‘ ایلیا نے وہ پیکٹ بیگ میں ہی رہنے دیا اور بیگ بند کر لیا اور باہر نکلے ہوئے پیکٹ دیکھنے لگی۔ میک اپ کٹس یقینا بھابیوں کے لئے تھے۔ دو جرسیاں جو ایک جیسی تھیں اور خوب صورت لیدر کے پرس بھائیوں کے لئے، ایک مردانہ ریسٹ واچ یقینا ابی جان کے لئے، ایک نازک سی لیڈی واچ جس کے ڈائل پر نقلی ڈائمنڈ لگے تھے یقینا انوشہ کے لئے تھی، ایک چھوٹا سا جیولری باکس اور ایک پیارا سا لاکٹ بھی تھا۔ فر کی لیڈی جیکٹ اور گرم جرسیاں تھیں۔ اس نے انوشہ کا گفٹ اس کی طرف بڑھایا۔
دونوں بھابیاں بوبی اور پنکی کے ساتھ نیچے آ گئیں۔ شابی بھابی کی گود میں ننھا زین تھا۔ اس نے اٹھ کر زین کو گود میں لے کر پیار کیا۔ لیکن وہ رونے لگا تو اس نے واپس شابی بھابی کو دے دیا اور ان کے گفٹس انہیں دیئے۔
’’ان کی کیا ضرورت تھی بھئی؟‘‘ شابی بھابی نے گفٹ لیتے ہوئے کہا۔ زین کے لئے بھی دو خوب صورت بے بی سوٹ تھے۔ چھوٹی امی کے لئے بھی اس نے جرسی، لیدر کا پرس اور ایک میک اپ کٹ جس میں صرف لپ اسٹک تھیں الگ کر کے رکھ دی تھی۔ ایک ہلکے رنگ کی جرسی اس نے بوا کو دے دی۔ جواب میں بوا نے اسے ہزاروں دعائیں دے ڈالی تھیں۔
پرفیومز، آفٹر شیو لوشن، الیکٹرک شیور۔ وہ ایک ایک کر کے چیزیں ایک طرف رکھتی جا رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ نینا عادلنے اسے کتنا زیربار کر دیا تھا۔ کیا اس دنیا میں نینا عادل جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟۔۔۔۔۔ اس کا دل بھر آیا۔ سب کے گفٹ الگ کر کے اس نے بچے ہوئے پرفیومز اور ایک دو جرسیاں بیگ میں ڈال دیں۔
’’ابی جان! یہ آپ کے لئے۔‘‘ وہ ان کا گفٹ لے کر اُٹھ کر ان کے قریب آئی۔
’’کیا ضرورت تھی۔‘‘ انہوں نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر نگاہیں ٹی وی پر جما دیں۔ اس نے ان کے پاس پڑی چھوٹی ٹیبل پر ان کے گفٹ رکھے اور واپس آ کر بیٹھ گئی۔
شابی بھابی اور روشی بھابی خاصی خوش نظر آ رہی تھیں۔
’’یہ تم نے اچھا کیا پرس لے آئیں۔ ورنہ یہاں سے پرس خریدو تو مہینہ بھر بعد ہی زپ خراب ہو جاتی ہے۔ شابی بھابی کو اپنا پرس بہت پسند آیا تھا۔
بدر اپنے ایم پی تھری کے ساتھ مصروف تھا۔
’’توڑ مت دینا چھوٹو!یہ خاصا قیمتی ہوتا ہے۔‘‘ انوشہ نے اسے تنبیہہ کی۔
’’دس ہزار کا تو ہو گا نا؟‘‘ انوشہ پوچھ رہی تھی۔
وہ چونکی۔ اسے کیا پتہ کتنے کا ہے۔
’’تحفوں کی قیمت نہیں پوچھتے۔‘‘ شابی بھابی نے اسے مصیبت سے نکالا۔
چھوٹی امی بھی کمرے سے نکل آئیں۔
’’چھوٹی امی! یہ آپ کے لئے گفٹ۔‘‘ اس نے چھوٹی امی کا گفٹ انہیں دیا۔
’’تم نے خوامخواہ اتنا خرچ کیا۔‘‘ انہوں نے نخوت سے ناک چڑھائی اور جرسی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ’’اب بھلا لاہور میں اتنی سردی کہاں پڑتی ہے؟‘‘
’’لیکن مما! پچھلے سال تو آپ خود کریم اینڈ سنز سے جرسی لے کر آئی تھیں۔ اور یہ تو اس سے زیادہ اچھی ہے۔‘‘ انوشہ کو غالباً سچ بولنے کی بیماری تھی۔
’’انوش! اٹھو یہاں سے۔۔۔۔۔ کب سے ٹی وی کے آگے بیٹھی ہو۔ جائو، اپنا ہوم ورک کرو جا کر۔ اور تم بھی بدر! اُٹھو۔ بیٹھ جاتے ہو ٹی وی کے آگے۔‘‘ انہوں نے اپنا غصہ نکالا اور پھر بوا کو آواز دی۔
’’بوا! پانی دو ایک گلاس۔ اور دیکھو، کل کی طرح کھانا لگاتے لگاتے گیارہ نہ بجا دینا۔ مونا کیا چھٹی پر گیا ہے تم بہت ہی سست ہو گئی ہو۔‘‘
بوا نے خاموشی سے لا کر پانی کا گلاس دیا اور واپس مڑ گئیں۔۔۔۔۔ وہ خاموش بیٹھی بظاہر ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ انوشہ اور بدر ماں کی ڈانٹ کھا کر اسٹڈی میں چلے گئے تھے۔
اس کا ذہن بار بار نینا عادل کی طرف چلا جاتا تھا۔ نینا نے اسے آج ان سب کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ لیکن یہ سب بہت زیادہ تھا۔۔۔۔۔ کیا کبھی وہ نینا عادل کے احسان کا بدلہ چکا سکے گی؟۔۔۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔
…٭٭٭…
باہر گاڑی کا ہارن بجا تھا۔
’’پاپا آ گئے۔۔۔۔۔‘‘ بوبی اور پنکی ایک ساتھ اچھلنے لگے تھے۔ اُس کی نظریں بھی دروازے کی طرف اُٹھ گئیں۔
بڑے بھیا اور چھوٹے آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ بڑے بھیا تو ویسے ہی اسمارٹ اور ینگ سے تھے لیکن چھوٹے بھیا قدرے فربہ ہو گئے تھے۔
’’چھوٹے بھیا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ بے قراری سے ان کی طرف بڑھی۔
’’ہاں بھئی بے بی! کیسی ہو؟‘‘ چھوٹے بھیا نے گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور پھر ایک بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ چھوٹے بھیا کی اس گرم جوشی پر اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ پورے گھر میں واحد چھوٹے بھیا تھے جنہوں نے اس طرح قدرے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا۔
’’تم توبالکل ویسی ہی ہو۔۔۔۔۔ چوہیا سی۔‘‘ اسے الگ کرتے ہوئے وہ ہنسے۔
’’اور آپ موٹے ہو گئے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ کچھ۔‘‘
’’جی نہیں، کچھ کچھ نہیں، ٹمی نکل آئی ہے۔‘‘ روشی بھابی نے فوراً کہا۔ ’’روز کہتی ہوں صبح واک کریں، مرغن غذائیں نہ کھایا کریں۔ لیکن انہیں تو پرواہ ہی نہیں۔‘‘
’’اب کیا کرنا ہے پرواہ کر کے۔۔۔۔۔ کون سی دوسری شادی کرنی ہے۔‘‘ چھوٹے بھیا نے قہقہہ لگایا۔
’’اور جو پرواہ کرتے ہیں کیا انہوں نے دوسری شادی کرنا ہوتی ہے؟‘‘ روشی بھابی نے کن انکھیوں سے بڑے بھیا کی طرف دیکھا تو وہ سٹپٹا گئے۔ چھوٹے بھیا کا قہقہہ اُبل پڑا۔
’’بڑے بھیا ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ تم خواہ مخواہ شابی بھابی کو نہ ورغلائو۔‘‘
’’مجھے اعتبار ہے ان پر۔‘‘
شابی بھابی کا انداز بے پرواہی کا سا تھا۔ لیکن ایلیا جانتی تھی کہ اب بڑے بھیا کی خیر نہیں۔ حالانکہ بڑے بھیا کی فزیک ہی ایسی تھی۔ وہ شروع سے ہی دبلے پتلے تھے۔ جبکہ چھوٹے بھیا بچپن میں اچھے خاصے گول مٹول سے ہوتے تھے۔ وہ تو چڑ میں آ کر انہوں نے جم جانا شروع کیا تھا اور جوڈو کراٹے کا سینٹر بھی جوائن کر لیا تھا۔ وہ بلیک بیلٹ ہولڈر تھے۔
ایلیا نے موضوع بدلنے کے لئے دونوں بھائیوں کو گفٹ دیئے۔ دونوں نے ہی خوشی کا اظہار کیا۔ چھوٹے بھیا نے تو دل کھول کر تعریف کی۔
’’ارے بے بی! تمہیں کیسے پتہ چلا کہ مجھے یہ آفٹر شیو لوشن پسند ہے۔ اور الیکٹر شیور لینے کا تو میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا۔‘‘
’’اور جیسے پہلے تو کبھی نہ آفٹر شیو لوشن استعمال کیا ہے اور نہ شیور۔‘‘
روشی بھابی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھیں۔ انہیں چھوٹے بھیا کا حد سے زیادہ خوشی کا اظہار بالکل پسند نہیں آ رہا تھا۔ شابی بھابی کے ساتھ مل کر طے کیا تھا کہ ایلیا کو زیادہ اہمیت ہرگز نہیں دینی تاکہ کہیں وہ اپنا پروگرام لمبا نہ کر لے۔ اور یہ بلال تو ہے ہی بے وقوف۔
’’اور چھوٹے بھیا۔۔۔۔۔!‘‘ بدر اپنا ایم پی تھری لے کر ان کے پاس چلا آیا۔ ’’یہ دیکھیں نا، میں کتنے دنوں سے ڈیڈیسے کہہ رہا تھا اور ڈیڈی نہیں لے کر دے رہے تھے۔ میں نے اپنا واک مین انوشہ کو دے دیا ہے۔‘‘
’’تم پھر باہر آ گئے۔۔۔۔۔؟‘‘ چھوٹی امی نے اسے گھرکا۔ ’’میں نے کہا تھا، ہوم ورک کرو۔‘‘
’’مما! آپ بھی بس۔۔۔۔۔ اگر کسی کی بہن امریکہ سے آئی ہو تو وہ ہوم ورک نہیں کرتا بلکہ بیٹھ کر اس سے باتیں کرتا ہے۔ اور آپ نے مجھے اور انوشہ کو اسٹڈی میں بھیج دیا۔‘‘
’’آئے کہیں کے سگے۔‘‘ چھوٹی امی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹڈی میں لے گئیں۔ ایلیا کا رنگ لمحہ بھر کو پھیکا پڑ گیا۔
جب وہ یہاں سے گئی تھی تو چھوٹی امی تب بھی ایسی ہی تھیں۔ کبھی جو انوشہ یا بدر کے پاس اسے پھٹکنے دیتیں۔
حالانکہ جب بدر پیدا ہوا تھا اور جب انوشہ پیدا ہوئی تھی تو وہ کتنی خوش تھی۔ چھوٹی سی چینی ناک والی انوشہ اپنی بے حد سفید رنگت کی وجہ سے اسے بہت اچھی لگتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ انوشہ جب بڑی ہو گی تو پھر دونوں میں بہت دوستی ہو گی۔ لیکن چھوٹی امی ذرا بھی تو نہیں بدلی تھیں۔
’’بوا! کھانا لگائو بھئی۔۔۔۔۔۔ بھوک لگی ہے۔‘‘ بڑے بھیا نے خاموشی کو توڑا۔ وہ لنچ ٹائم میں صرف چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ لے لیتے تھے۔
کھانا کھا کر وہ کمرے میں آئی اور بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے سوچا، انکل آفتاب کو فون کرنا چاہئے
Zafina
08-01-2012, 12:21 AM
لیکن کتنی عجیب بات تھی اس کے پاس ان کا نمبر تک نہ تھا۔
’ابی جان کے پاس ہو گا۔ صبح ضرور کروں گی۔ اس وقت تو ابی جان سو چکے ہوں گے۔‘ بیڈ پر لیٹتے ہوئے ایک بار پھر اسے نینا عادل کا خیال آ گیا۔
’اور نینا عادل کو بھی ضرور فون کروں گی۔ مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ کتنی قیمتی چیزیں سب کے لئے لی تھیں اس نے۔‘
’’ایلا! تمہارا فون ہے۔‘‘ روشی بھابی نے ذرا سا دروازہ کھول کر اسے بتایا اور پھر واپس مڑ گئیں۔
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘
وہ تیزی سے اٹھی اور لائونج میں آ کر ادھر دیکھا جہاں پہلے فون سیٹ ہوتا تھا۔ لیکن اب وہاں کوئی ڈیکوریشن پیس پڑا تھا۔ پھر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اسے دائیں طرف پڑا فون نظر آ یا تو اس نے بڑھ کر نیچے رکھا ہوا ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف آفتاب انکل تھے۔
’’ارے بیٹا! کیسی ہو؟‘‘ وہ بہت خوش دلی سے پوچھ رہے تھے۔
’’اچھی ہوں۔۔۔۔۔ آپ اور آنٹی کیسے ہیں؟‘‘
’’رب کا شکر ہے بیٹا! بھلے چنگے ہیں۔ تم بتائو، کیا پروگرام ہے تمہارا؟‘‘
’’میرا پروگرام۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ کھو سی گئی۔
’’اب واپس مت آنا کبھی بھی۔۔۔۔۔‘‘ ایاز ملک نے جیسے اس کے کان میں کہا۔
’’اچھا خیر، آج ہی تو آئی ہو۔ جی بھر کر رہ لو بہن بھائیوں کے پاس۔ پھر بتادینا، میں لے جائوں گا۔ اور تم سے ملنے بھی آئوں گا دو تین روز تک۔ بس ذرا تمہاری آنٹی کی طبیعت ٹھیک ہو جائے۔ کافی دنوں سے بہت خراب طبیعت ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟۔۔۔۔۔ کب سے بیمار ہیں آنٹی؟‘‘ وہ پریشان ہو گئی۔
وہ چند ماہ جو حویلی میں رہی تھی، آنٹی نے اسے بہت محبت دی تھی۔
’’مجھے ساس نہ سمجھنا۔ ماں ہوں تمہاری۔‘‘
وہ سوچتی تھی اگر اس کی امی زندہ ہوتیں تو وہ اتنی ہی شفیق ہوتیں، اتنی ہی محبت کرتیں اس سے۔
’’ہیں۔۔۔۔۔ کیا آجی نے تمہیں نہیں بتایا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ کیا ہوا آنٹی کو؟‘‘ وہ اور پریشان ہو گئی۔
’’اچھا، اچھا۔ تمہاری پریشانی کے خیال سے ذکر نہیں کیا ہو گا۔ ریڑھ کی ہڈی میں کچھ مسئلہ ہے۔ چلنا پھرنا مشکل ہے۔ درد بھی بہت رہتا ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن بتایا ہے۔ خیر، ابھی ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں دو تین اور ڈاکٹرز سے بھی مشورہ کر لوں۔ کہیں معاملہ زیادہ بگڑ ہی نہ جائے۔‘‘
’’جی، میں ایک دو روز تک خود ہی آ جائوں گی بھیا کے ساتھ۔ آپ آنٹی کو اکیلے چھوڑ کر نہیں آیئے گا۔‘‘
’’بھئی تمہاری آنٹی اب ایسی بھی بیمار نہیں ہیں۔ تم جی بھر کر رہ لو۔ اور اچھا، یہ اپنی آنٹی سے بات کر لو۔‘‘
وہ کچھ نہیں بولی تھی۔ اسے تو اب یہاں ہی رہنا تھا ہمیشہ اور اس سے پہلے کہ ایاز اسے مکمل طور پر اپنی زندگی سے علیحدہ کر دے، وہ ایک بار ساہیوال جا کر آنٹی سے مل آئے۔
’’کیسی ہو میری جان؟‘‘ آنٹی نے بہت محبت سے پوچھا۔
’’جب سے تمہارے آنے کا سنا ہے تڑپ رہی ہوں۔ تمہارے انکل سے کتنا کہا کہ تمہیں خود ریسیو کر کے سیدھا ساہیوال لے آئیں لیکن انہوں نے میری سنی ہی نہیں۔ کہنے لگے اسے کچھ دن اپنوں کے پاس رہنے دو۔ پھر تو ادھر ہی آنا ہے نا۔ بچی! کب آئو گی؟ زیادہ مت تڑپانا مجھے۔‘‘ آنٹی کہہ رہی تھیں۔ جب وہ بولی تو اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
’’آنٹی! میں جلد آئوں گی۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟‘‘
’’طبیعت کا بھی کیا ہے بیٹی!۔۔۔۔۔ بس اب چل چلائو ہی ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں جانے کیا تھا۔ ایلیا کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔
’’نہیں، نہیں۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔ ’’اللہ آپ کو بہت لمبی زندگی دے۔ میں نے تو آپ کے وجود میں ماں کی محبت پائی ہے۔‘‘
ShareThis
آنٹی نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔
’’میرا آجی کیسا تھا چندا۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جی ٹھیک تھے وہ۔‘‘
اُس کی آواز آہستہ تھی۔ ایاز کے خیال سے اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔ یہ سب لوگ، یہ اتنے پیارے، اتنے محبت کرنے والے، چاہنے والے لوگ اس کے کوئی نہیں تھے۔ ان کے ساتھ جو رشتہ جڑا تھا وہ ایاز کی وجہ سے تھا۔ اور جب ایاز سے اس کا رشتہ ختم ہو گا تو یہ سب لوگ بھی جدا ہو جائیں گے۔ وہ ان کی محبتوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ اور پھر یہاں ان بے حس لوگوں کے درمیان اسے رہنا تھا ہمیشہ۔ چار سال پہلے جب وہ یہاں رہتی تھی تب بھی سب ایسے ہی تھے۔ بے نیاز اور بے خبر۔ ہاں، بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا یا ابھی جان کبھی کبھی پیار سے بات کر لیتے تھے۔ پھر ابی جان بھی اجنبی ہو گئے۔
لیکن تب اسے ان کی بے حسی اتنی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج ان سولہ سترہ گھنٹوں میں اس نے اس بے حسی کو جتنا محسوس کیا تھا، اتنا پہلے نہیں کیا تھا۔ کیا ان چار سالوں میں وہ زیادہ حساس ہو گئی ہے یا سمجھدار کہ لوگوں کے رویوں کو محسوس کرنے لگی تھی؟
آنٹی سے کچھ مزید بات کر کے وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔ دن میں وہ بہت سو لی تھی اس لئے اس وقت اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔
یہاں اس کمرے کے در و دیوار میں کتنی اجنبیت تھی۔ حالانکہ چار سال پہلے وہ اسی کمرے میں رہتی تھی۔ جب ابی جان چھوٹی امی کو لے کر آئے تھے تو وہ پہلی بار اس کمرے میں سوئی تھی۔
’’اب تم بڑی ہو گئی ہو ایلا! اور اس کمرے میں رہنا ہے تمہیں۔‘‘ ابی جان اسے خود چھوڑنے آئے تھے کمرے میں۔ جبکہ وہ حسب عادت رات کا کھانا کھا کر ان کے بیڈ پر جا کر سو گئی تھی۔
وہ نیند میں تھی۔ اس لئے بیڈ پر گر کر فوراً ہی سو گئی۔ لیکن رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھل گئی۔
’’ابی جان۔۔۔۔۔!‘‘
اُس نے انہیں بلایا تھا۔ وہ یہاں کہاں آ گئی؟ ابی جان کدھر ہیں؟ خوف سے اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جب سے امی کی ڈیتھ ہوئی تھی وہ ابی جان کے پاس ہی سوتی تھی۔
’شاید سوتے میں کوئی جن اٹھا کر مجھے یہاں لے آیا ہے۔‘ اس نے سوچا تھا۔ اور پھر اس کے حلق سے چیخیں نکلنے لگی تھیں۔ تب چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
’’کیا ہوا ایلا؟۔۔۔۔۔ کیا ہوا گڑیا؟‘‘
’’بڑے بھیا! جن۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ان سے چمٹ گئی تھی اور اس رات بڑے بھیا وہاں اس کے بیڈ پر اس کے پاس ہی سو گئے تھے۔ لیکن اگلی صبح انہوں نے اسے سمجھایا تھا کہ اب اسے اس کمرے میں ہی رہنا ہے۔
’’دیکھو، میں اور بلال بھی تو اپنے اپنے کمروں میں اکیلے ہوتے ہیں نا۔ ہمیں تو بالکل بھی ڈر نہیں لگتا۔ اور بلال تو پہلے میرے کمرے میں تھا۔ پھر اس نے ابی جان سے ضد کر کے اپنا الگ کمرہ لیا۔ اپنے کمرے کے تو بڑے مزے ہوتے ہیں۔ تم اپنے کمرے کو اپنی مرضی سے سجانا۔‘‘
پھر اس روز بڑے بھیا نے اس کے ساتھ اس کے کمرے کو سجایا تھا۔ شو کیس میں اس کی گڑیوں کو سجایا، اس کے کھلونے سجائے۔ ایک کونے میں گڑیا رکھ رکھ دیا تھا۔ اور پھر اس کی وارڈروب میں اس کے کپڑے لٹکائے تھے۔ سارادن وہ بہت خوش رہی تھی۔ لیکن رات ہوتے ہی ایک انجانے خوف نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بڑے بھیا نہ جانے کہاں تھے۔ وہ چپکے سے ابی جان کے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی تھی۔ اور پھر چھوٹی امی نے نہ صرف اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا تھا بلکہ اس کے رخسار پر کھینچ کر تھپڑ بھی لگایا تھا اور جو بات بڑے بھیا اس سمجھا نہ پائے تھے وہ چھوٹی امی کے تھپڑ نے سمجھا دی تھی۔
اس کے بعد اس نے پھر کبھی ابی جان کے کمرے میں سونے کی ضد نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ سکول سے آ کر بھی زیادہ وقت اس کمرے میں ہی گزارنے لگی تھی۔ اور یہ کمرہ اسے بہت عزیز ہو گیا تھا۔ پناہ گاہ لگتا تھا اپنی۔ لیکن آج۔۔۔۔۔
اُس نے ایک گہری سانس لی۔ اس کمرے میں ایک نامانوس سی، اجنبی خوشبو تھی۔ شاید کچھ دن بعد یہ کمرہ اتنا اجنبی نہ لگے۔
وہ اٹھ کر پھر ٹیرس میں آ گئی اور نیلے آسمان پر دور تک پھیلے ستاروں کو دیکھنے لگی۔
ShareThis
…٭٭٭…
’’تو کب تک رہنے کا پروگرام ہے بچی؟۔۔۔۔۔ آجی نے کیا کہا تھا؟ کتنے روز کی اجازت دی تھی؟‘‘
مسز آفتاب ملک نے دوسری بار پوچھا تو ان کے سامنے بیٹھی ایلیا نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ان کے کپڑے تہہ کرتی ہوئی جانے کس سوچ میں گم تھی کہ ان کی بات دھیان سے سنی ہی نہیں تھی۔
’’جی چاچی! کیا کہا آپ نے؟‘‘
’’کہاں کھوئی ہوئی ہو بٹیا؟۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا تھا کب جانے کا پروگرام ہے؟‘‘ انہوں نے دہرایا۔
’کب۔۔۔۔۔ اور انہیں کیا پتہ کہ مجھے اب کبھی نہیں جانا۔‘
لیکن وہ انہیں یہ نہیں بتا سکتی تھی۔ کم از کم ابھی نہیں۔
’’پتہ نہیں۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ابھی جانے کا تو کوئی پروگرام سیٹ نہیں کیا۔ کچھ طے نہیں کیا۔‘‘ اُس نے نظریں جھکا لیں اور بیگم آفتاب نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تو پھر آجی کا فون آیا تو میں کہہ دوں گی کہ ابھی ایلا کو کچھ دن رہنے دو۔ کم از کم تب تک جب تک۔۔۔۔۔‘‘
قریبی کرسی پر بیٹھے آفتاب ملک نے اخبار سے نظریں ہٹا کر ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’جی، آپ فکر نہ کریں چاچی جی!۔۔۔۔۔ میں ابھی یہاں ہی ہوں۔‘‘
کاش وہ یہاں رہ سکتی۔ اس گھر میں، ہمیشہ ہمیشہ ان دو مہربان ہستیوں کی شفقت کے سائے میں۔ لیکن۔۔۔۔۔ دل نے ایک سرد آہ بھری تھی۔
یہ دونوں بندے تو محبت کے خمیر سے گندھے تھے۔ وہ تو خیر ان کی بہو تھی۔ لیکن اس گھر میں آنے والے سب افراد ہی ان کی محبتوں سے سیراب ہوئے تھے۔ ایاز کی والدہ کو یہاں سب ہی چاچی کہتے تھے۔ نینا عادل بھی انہیں چاچی کہتی تھی۔ اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس لفظ میں ایلیا کو بہت اپنائیت محسوس ہوتی تھی اور آنٹی بہت اوپرا اوپرا اور اجنبی سا لگتا تھا۔ تب اس روز اس نے ان سے پوچھا تھا۔
’’آنٹی! میں بھی آپ کو چاچی کہہ لیا کروں؟‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔۔۔ جو جی چاہے بلائو۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولی تھیں۔
اسے یہاں آئے آج آٹھ دن ہو گئے تھے۔ اُس نے انگلیوں پر گنا۔ آٹھ دن۔ اور پتہ ہی نہیں چلا جیسے لمحوں میں اُڑ گئے تھے یہ آٹھ دن۔ اور وہاں لاہور میں وہ صرف چھ دن رہی تھی اور چھ دن کتنے بوجھل اور مشکل تھے۔ جیسے چھ صدیاں۔ اپنا ہی گھر جہاں اس نے زندگی کے پورے سولہ برس گزارے تھے، کتنا اجنبی اور پرایا لگنے لگا تھا۔
وہ اگر سارا دن بھی اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی تو کسی کو پرواہ نہ ہوتی۔ کوئی اسے بلانے نہ آتا تھا۔ ایک دو روز تو اس نے انتظار کیا تھا کہ شاید کوئی کھانے پر، ناشتے پر بلانے آئے۔ لیکن پھر خود ہی جانے لگی تھی۔ اگر سب ناشتہ کر رہے ہوتے تو وہ بھی شامل ہو جاتی۔ کر چکے ہوتے تو بوا سے کہہ دیتی۔ سب ہی اسے بری طرح اگنور کر رہے تھے اور اسے اب یہاں ہی رہنا تھا، ہمیشہ۔
بڑے بھیا، چھوٹے بھیا سب ہی مصروف تھے شاید کسی کے پاس اس کے لئے وقت نہیں تھا۔ بس ایک خیرن بوا تھیں اور مونا تھا جو اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اس کا کتنا جی چاہتا تھا کہ وہ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کے پاس بیٹھ کر دیر تک باتیں کرے۔ ابی جان کے پاس بیٹھے۔
لیکن جب کبھی وہ لائونج میں سب کو بیٹھے دیکھ کر وہاں جاتی تو شابی بھابی اور روشی بھابی بہانے سے بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کو اٹھا کر لے جاتیں اور ابی جان تو اس کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے۔ ایک دو بار اس نے خود ہی ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے لہجے میں اتنی سرد مہری تھی کہ اسے دوبارہ ان سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
کیسے گزرے گی اگر ایاز نے اسے طلاق دے دی۔۔۔۔۔ اگر اسے یہاں رہنا پڑا ہمیشہ تو؟۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر اس کا دل دہل جاتا تھا۔ لیکن بہرحال رہنا تو اسے یہاں تھا ہی۔ کم از کم وہ بوا خیرن کو تو بتا ہی دے کہ ایاز نے اسے ہمیشہ کے لئے بھیج دیا ہے۔ اس نے نینا عادل سے کہا تھا۔
’’ایلیا سے کہنا، اب وہاں ہی رہے ہمیشہ۔‘‘
اس روز اسے آئے چھ دن ہو گئے تھے اور اس کے سر میں شدید درد تھا۔ پین کلر لے کر اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تاکہ بوا سے کہہ کر چائے بنوا لے۔ لائونج سے گزرتے ہوئے اپنا
Zafina
08-01-2012, 12:21 AM
نام سن کر وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ شابی بھابی کے کمرے سے آواز آ رہی تھی۔
’’آخر یہ ایلیا کب تک یہاں رہے گی آپا؟‘‘ یہ گڑیا کی آواز تھی۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ شابی بھابی کی آواز میں بیزاری تھی۔
’’اب اسے اپنے سسرال چلے جانا چاہئے۔ مل تو لی سب سے۔‘‘ گڑیا کی آواز میں ان سے زیادہ بیزاری تھی۔
’’مجھ سے نہیں رہا جاتا اسماء کے ساتھ۔۔۔۔۔ اتنی نخریلی ہے اور اتنی بنتی ہے نا آپا! دل چاہتا ہے کہ اس کی فضول باتوں پر ایک تھپڑ لگائوں اسے۔۔۔۔۔ کل کہہ رہی تھی مجھے تمہارے یہاں رہنے سے اُلجھن ہوتی ہے۔ جب تک ایلیا ہے یہاں تم اپنے گھر چلی جائو۔‘‘
’’ارے۔۔۔۔۔ تو وہ کیوں نہیں چلی جاتی؟‘‘ شابی بھابی بھڑک کر بولی تھیں۔
’’وہ کیوں جائے؟ آپ نے کمرہ تو مجھ سے خالی کروایا ہے لاڈلی ایلیا کے لئے۔‘‘ گڑیا کے لہجے میں ناراضگی تھی۔
وہ سُن سی کھڑی تھی۔ تو اس کے کمرے میں گڑیا رہتی تھی۔
’’چندا!۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی نے کہا تھا نا۔ اب کیا میں انکار کر کے بری بنتی؟ شادی سے پہلے ایلیا اسی کمرے میں رہتی تھی۔ چند دن کی بات ہے۔ پھر تو وہ چلی جائے گی نا۔‘‘
شابی بھابی اسے بہلا رہی تھیں۔
وہ مرے مرے قدموں سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو ٹی وی لائونج خالی پڑا تھا۔ کچن کے کھلے دروازے سے اسے کچن ٹیبل کے گرد بیٹھے مونا اور بوا نظر آئے۔ بوا سبزی بنا رہی تھیں اور مونا نہ جانے کہاں کہاں کے قصے سنائے جا رہا تھا۔
’’بوا۔۔۔۔۔!‘‘ وہ آہستگی سے کچن میں آئی۔
’’آئو بٹیا! کیا چاہئے؟‘‘
’’چائے مل جائے گی ایک کپ؟۔۔۔۔۔ سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ مونا! چل، چائے کا پانی رکھ۔ میں آ کر دم دیتی ہوں۔ اور تُو پانی رکھ کر باہر دیکھ، ڈرائیور آ گیا ہے تو آٹا منگوا لے۔‘‘
’’بوا!‘‘ وہ ان کے اسمنے ہی بیٹھ گئی۔ ’’یہاں سب لوگ مجھ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔ بوا! میں نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔‘‘
اس کا دل بھرا رہا تھا اور آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں۔
بوا نے چونک کر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑی چھری ٹیبل پر رکھ دی۔ مونا بھی اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’تم نے کسی کا کیا بگاڑنا ہے بچی! بس اللہ کسی سے اس کی ماں نہ جدا کرے۔ یہ سوتیلے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’مگر بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا تو سوتیلے نہیں۔ اور ابی جان۔۔۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں تو وہ سر جھکا کر آنسو پونچھنے لگی۔ بوا خاموشی اور تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’اگر مجھے ہمیشہ کے لئے یہاں ہی رہنا پڑ گیا بوا! تو؟‘‘ اُس نے بوا کی طرف دیکھا۔
’’خدا نہ کرے بچی! بیاہی بیٹیاں تو اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔‘‘ بوا نے تڑپ کر اُسے دیکھا۔ ’’کیا بات ہے بٹیا! کہیں ایاز۔۔۔۔۔‘‘
تب ہی بیل ہوئی تو انہوں نے مڑ کر مونا کی طرف دیکھا۔
’’جا دیکھ، شاید ڈرائیور آ گیا ہے۔‘‘
’’ہاں، تو ایاز تو ٹھیک ہے نا بٹیا تمہارے ساتھ؟‘‘
’اور کیا میں بوا کو بتا دوں کہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ سوچنے لگی۔
تب ہی مونا واپس آ گیا۔
’’وہ۔۔۔۔۔ وہ ملک صاحب آئے ہیں ساہیوال سے۔‘‘
’’انکل۔۔۔۔۔!‘‘ وہ ایک دم آنسو پونچھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پھر انکل آفتاب سے مل کر اسے یوں لگا تھا جیسے برسوں بعد کسی اپنے سے ملی ہو۔
ShareThis
’’بہت صبر کیا۔ لیکن اب صبر نہیں ہو رہا تھا۔ تمہاری چاچی تو روز ہی کہتی تھی میری بہو کو لائو۔ میں کہتا تھا بھلیے لوکے، اسے کچھ دن اپنوں کے پاس رہنے دے۔ چار سال بعد بچھڑی ملی ہے۔‘‘
اور انکل کو کیا پتہ یہاں کسی کو اس کی ہوک نہیں، نہ ہی کوئی چاہ تھی کہ وہ آئے یہاں۔ بلکہ اس کے آنے سے۔۔۔۔۔
پھر وہ انکل کے ساتھ ہی آ گئی تھی اور یہاں آئے اسے آٹھ دن ہو گئے تھے اور آج رات ہی نینا عادل کا فون آیا تھا۔
’’ایلی!۔۔۔۔۔ تم نے بتایا چاچی کو سب؟‘‘
’’نہیں، پلیز! تم بھی مت بتانا۔‘‘ اس نے التجا کی تھی۔ ’’چاچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’پاگل ہو تم۔ انکل کو بتا دو کہ چار سالوں میں ایاز نے۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا فائدہ نینا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ افسردہ تھی۔
’’انکل اس سے باز پرس کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کیتھی سے شادی کر لے اور تم۔۔۔۔۔‘‘
’’انکل کے منع کرنے سے کیا وہ کیتھی سے شادی نہیں کرے گا نینا؟‘‘
’’آخر پہلے بھی تو چار سال سے وہ اپنا وعدہ نبھا رہا ہے نا۔‘‘
’’اسے تم وعدہ نبھانا کہتی ہو نینا! سب جانتے ہوئے؟۔۔۔۔۔۔ وہ کیتھی کا ہی تھا ہمیشہ سے، اور اسی کا رہے گا۔‘‘
’’ایلا!۔۔۔۔۔ ایلا! دیکھو، تمہاری ساری عمر پڑی ہے۔ کب تک ایسے گزارہ کرو گی۔ ایاز سے چھٹکارا پا کر کسی اچھے بندے سے شادی کر لو۔‘‘
’’نینا عادل! میرا ایک کام کرو۔ ایاز سے کہو مجھے طلاق نہ دے۔ بھلے کیتھی سے شادی کر لے۔ میں ساری عمر اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی۔ بس اپنے نام کے ساتھ میرا نام جڑا رہنے دے۔‘‘
’’کیا اس سے محبت کرنے لگی ہو ایلا؟‘‘ نینا عادل نے پوچھا تھا۔
’’نہیں نینا! میرے اور اس کے پاس وہ تعلق بنا ہی نہیں جس سے محبت جنم لیتی ہے۔ ہم نے تو چار سال ایک چھت تلے اجنبیوں کی طرح گزارے ہیں۔‘‘
’’پھر کیوں چاہتی ہو ایسا؟‘‘
’’میں یہاں، اس گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ چاچی اور انکل کے ساتھ۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے نینا! ۔۔۔۔۔ وہاں میرے گھر میں میرے لئے بالکل بھی جگہ نہیں ہے۔‘‘
وہ رونے لگی تھی۔ نینا نے اسے تسلی دے کر فون بند کر دیا۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ پلیز ریلیکس۔ میں بات کروں گی آجی سے۔‘‘
’اور پتہ نہیں ایاز، نینا کی بات مانے گا یا نہیں۔‘
اُس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
’’کیا بات ہے بیٹی! کہاں کھوئی ہوئی ہو؟‘‘ آفتاب ملک نے اخبار نیچے رکھا۔
’’کچھ نہیں انکل!‘‘ وہ چونکی۔
’’کہیں تمہیں اتنی جلدی لا کر زیادتی تو نہیں کر دی میں نے؟۔۔۔۔۔ تمہاری چاچی نے رولا ڈالا ہوا تھا۔ ورنہ میں تو کچھ اور انتظار کر لیتا۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ وہ شعوری کوشش سے مسکرائی۔ ’’میں تو خود چاچی سے ملنے کے لئے بے تابتھی۔‘‘
’’میں تو ہڑک رہی تھی تیرے لئے۔‘‘ چاچی نے اس پر ایک شفقت بھری نظر ڈالی۔ ’’طبیعت ٹھیک ہوتی تو اسی روز ایئر پورٹ پر آ جاتی۔ مگر خیر اب تم سے مل لی۔ دو چار دن بعد چلی جانا لاہور اور جی بھر کے رہ آنا۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے گھبرا کر کہا۔ ’’میں ادھر ہی رہوں گی آپ کے پاس۔ سب سے مل چکی ہوں میں۔‘‘
آتاب ملک نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی۔
’’ہاں، ہاں۔ شوق سے رہو۔ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘ چاچی کے چہرے پر اطمینان دوڑ گیا۔
ShareThis
’’یوں بھی یہ اوپرے سے دل سے کہہ رہی تھی۔ ورنہ اس کا بس چلے تو چوبیس گھنٹے تمہیں نظروں کے سامنے رکھے۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔
’’تو۔۔۔۔۔؟‘‘ چاچی نے ایک تیکھی نظر ان پر ڈالی۔ ’’میری بہو ہے۔‘‘
’’انوکھی ساس ہیں بھئی آپ۔ بہو سے اتنی محبت۔‘‘
’’بہو بھی تو مجھ سے محبت کرتی ہے نا۔‘‘ انہوں نے مشفق نظروں سے اسے دیکھا اور وہ جو اتنی محبتوں پر بہ مشکل اپنے آنسو ضبط کئے بیٹھی تھی، یکدم رو پڑی۔
’’ارے، ارے۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ آفتاب ملک نے گھبرا کر پوچھا۔
’’میں ہمیشہ آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے اپنے سے جدا مت کیجئے گا، پلیز۔‘‘
’’پگلی۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ چاچی نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ’’ہم بھلا کیوں جدا کریں گے تجھے؟۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو ملک صاحب سے کہا ہے، بہت رہ لیا، بہت کما لیا آجی نے۔ اب اس سے کہیں یہاں ہی آ جائے۔ کوئی فیکٹری لگا دیں اسے جو بھی وہ پسند کرے۔‘‘
’’جسے ڈالروں کا چسکا پڑ جائے وہ۔۔۔۔۔‘‘
ملک صاحب منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر چپ کر گئے اور وہ چاچی کے سینے سے لگی سسکیاں لیتی رہی۔
…٭٭٭…
’تو ایاز ملک!۔۔۔۔۔۔ بالآخر تم نے کیتھی سے شادی کر لی۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سارے قصے میں میرا کیا قصور تھا؟۔۔۔۔۔۔ میں نے کس جرم کی سزا بھگتی؟‘
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ایلیا نے سوچا۔
اور قصور کس کا تھا؟۔۔۔۔۔ اسفند یار کا، جنہوں نے اچانک ہی اسے بیاہنے کا فیصلہ کر لیا تھا؟۔۔۔۔۔ آفتاب ملک کا، جنہوں نے بیٹے کو مجبور کر دیا اس شادی پر یا پھر ایاز ملک کا جو اس زبردستی کے رشتے کو نباہ نہ سکا؟۔۔۔۔۔ قصور جس کا بھی تھا لیکن زیادتی تو اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ صرف اس کے ساتھ۔
بند آنکھوں کے پیچھے آنسو بری طرح بہنے کو مچلے لیکن وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
کل شام کی بات تھی جب وہ چاچی کو گھر لے کر آئے تھے۔ پورے دس دن ہسپتال میں رہنے کے بعد۔ اور یہ دس دن کیسے مصروف اور پریشان گزرے تھے۔ چاچی کی طبیعت اچانک ہی زیادہ خراب ہو گئی تھی اور درد بھی ناقابل برداشت تھا اور کمزوری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ تب آفتاب انکل نے بتایا۔
’’ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن ہی حل ہے اس کا۔‘‘
’’تو پھر آپ آپریشن کیوں نہیں کروا رہے؟‘‘
’’تم آ گئی تھیں نا۔‘‘ وہ افسردگی سے مسکرائے تھے۔ ’’تمہاری چاچی کہتی تھیں آتے ہی تم ہسپتالوں کے چکر میں پڑجائو گی۔ کچھ دن سکون سے وہ تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔‘‘
’’کمال کرتے ہیں انکل! آپ بھی۔‘‘ وہ ناراض ہوئی تھی۔ ’’میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں کیا؟۔۔۔۔۔ اگر آپریشن میں تاخیر سے کچھ مسئلہ بڑھ گیا تو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ ایسا تو نہیں ہے۔ ہاں، تمہاری چاچی کو اتنے دن تکلیف برداشت کرنا پڑی۔‘‘
پھر اگلے چند دن ہسپتالوں کے چکر لگتے رہے۔ مختلف ٹیسٹ پھر سے ہوئے اور پھر وہی نتیجہ کہ آپریشن ضروری ہے۔ ملتان میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ایک بڑے آرتھوپیڈک سرجن نے آپریشن کیا۔ وہ دس دن ہسپتال میں ان کے پاس رہی۔ انکل آفتاب نے کہا بھی کہ وہ دو تین دن کے لئے گھر جا کر آرام کر لے اور حویلی سے بتولاں، صغراں کوئی بھی آ جائے۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔
’’نہیں انکل! پلیز، مجھے یہاں ہی رہنے دیں۔ چاچی کے پاس۔‘‘
ڈاکٹر کہتے تھے آپریشن کامیاب ہے۔ لیکن ابھی تو وہ بیڈ پر ہی تھیں۔ ایاز اور نینا کے فون ہسپتال میں آتے رہتے تھے لیکن انکل آفتاب سے ہی ان کی بات ہوئی تھی۔ لیکن کل شام نینا نے اس سے بھی بات کی تھی۔
Zafina
08-01-2012, 12:22 AM
’’ایلا۔۔۔۔۔!‘‘ نینا بے حد افسردہ تھی۔ ’’ایک ہفتہ قبل ایاز نے کیتھی سے شادی کر لی ہے۔ تم ہسپتال میں تھیں۔ میں نے بتایا نہیں۔‘‘
’’چلو، اچھا ہوا۔ ایاز کا مسئلہ تو حل ہوا۔‘‘ اس نے بے حد نارمل انداز میں کہا تو نینا کو اس کے لہجے کے سکون پر حیرت ہوئی۔
’’تم ایلا۔۔۔۔۔!‘‘
’’یہ تو ہونا ہی تھا بالآخر نینا!‘‘ اس نے نینا عادل کی بات کاٹ دی۔ ’’لیکن پلیز، ابھی تم کسی کو مت بتانا۔ ابھی چاچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اور میں ابھی یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں۔ چاچی کے پاس۔
’’میں نے آجی سے بات کی تھی۔ اس کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ تم طلاق کے بعد نئی زندگی شروع کر سکتی ہو۔ اس طرح زندگی برباد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ کیتھی کے ساتھ بہت خوش ہے اور ہمیشہ اسی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے تم طلاق لے لو ایلا!‘‘
’’پلیز نینا! ایسا مت کہو۔ میں نے کہا نا، مجھے طلاق نہیں چاہئے۔‘‘
’’اوکے ایلا! تم سوچنا۔ ابھی اس وقت تم جذباتی ہو رہی ہو۔ اس موضوع پر پھر بات ہو گی۔‘‘
لیکن اس کے پاس سوچنے کے لئے تھا ہی کیا۔ وہاں ماڈل ٹائون کے اس گھر میں اس کے لئے گنجائش نہیں تھی۔ بالکل بھی نہیں۔ اس نے چھ دن وہاں رہ کر دیکھ لیا تھا۔ سب کی خواہش تھی کہ وہ جلد چلی جائے۔ زبان سے بے شک کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن زبان سے کہنا کچھ ضروری نہیں تھا۔ سب کے رویے بتا رہے تھے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے اور اس کے پاس اس گھر کے علاوہ اور ٹھکانہ نہیں تھا اور یہاں ہمیشہ اس گھر میں رہنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ایاز اسے طلاق نہ دے۔
’آخر لوگ دو دو شادیاں بھی کر لیتے ہیں۔ میں یہاں رہتی رہوں گی اور۔۔۔۔۔۔‘
’’ایلا!۔۔۔۔۔ ایلا بیٹی!‘‘ چاچی نے اسے آواز دی تو وہ چونک کر سیدھی ہو گئی۔
’’بیٹی! اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جائو۔ میرے پاس صغراں کو بھیج دو۔ وہاں ہسپتال میں بھی تم راتوں کو جاگتی رہی ہو۔ اس طرح تو بیمار پڑ جائو گی چندا!‘‘
’’آپ فکر نہ کریں چاچی! میں نے دن میں بہت آرام کر لیا تھا۔ ابھی آپ کو دوائی دے کر میں بھی لیٹ جائوں گی۔۔۔۔۔ اور بیٹی کے ہوتے ہوئے کسی صغراں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنا بیڈ یہاں ہی لگا لیا ہے۔‘‘
’’وہ تو پتہ ہے بیٹی!۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔‘‘ اُن کا چہرہ چمک اٹھا تھا۔ ’’یہاں سونے سے ڈسٹرب ہوتی ہو رات کو۔ اس لئے کہہ رہی تھی۔
’’کوئی ڈسٹرب نہیں ہوتی چاچی! اپنی ماں کی خدمت کر کے کوئی ڈسٹرب ہوتا ہے بھلا۔‘‘
’’اللہ نے مجھے بیٹی نہیں دی تھی تو مجھے بڑی حسرت تھی۔ لیکن اب تمہاری شکل میں اللہ نے مجھے بیٹی دے دی ہے۔ پتہ ہے جب ملک صاحب نے آ کر بتایا کہ انہوں نے ایاز کا رشتہ طے کر دیا ہے تمہارے ساتھ تو میں بہت پریشان ہوئی تھی۔ گھر سے گئے تھے تو ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ بلکہ جب سے ایاز آیا تھا میں ہی کہہ رہی تھی کہ آجی کی شادی کر دیتے ہیں کوئی اچھی لڑکی دیکھ کر تو وہ ہنس کر ٹال جاتے تھے۔
’’کیوں پابند کرتی ہو اُسے؟۔۔۔۔۔ کچھ دن آزاد رہنے دو۔ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اگلے سال آئے گا تو پھر سوچیں گے۔‘‘
’’میں تو حیران رہ گئی، رشتہ ہی نہیں وہ تو چند دن میں رخصتی کروانے کی بات کر رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے مزاج کی ہے ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔‘‘
میں نے دبے دبے لہجے میں کہا تو انہوں نے تسلی دی کہ بہت اچھی ہے۔ اور ایلا بچے! جب تمہیں دیکھا تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ میرا آجی خوش قسمت ہے۔ ایسی بہوئیں تو نصیب والوں کو ملتی ہیں۔ ہم بڑے خوش نصیب ہیں۔‘‘
اور ایاز ملک کہتا تھا میری بد نصیبی کہ تم میری زندگی میں میری خواہش کے بغیر داخل ہوئی ہو۔ لیکن ایک روز میں اپنی بدنصیبی کو خوش نصیبی میں بدل دوں گا۔۔۔۔۔ اور اب وہ یقینا کیتھی کی ہمراہی میں خود کو خوش نصیب سمجھ رہا ہو گا۔
’’خوش نصیب تو میں ہوں کہ آپ کے وجود سے میں نے ماں کی محبت کو جانا۔‘‘ ایاز کا خیال جھٹک کر اس نے جھک کر چاچی کے بازو پر ہاتھ رکھا۔
تب ہی آفتاب ملک کمرے میں داخل ہوئے۔
’’یہ ماں بیٹی میں کیا باتیں ہو رہی ہیں بھئی؟‘‘
ShareThis
’’کچھ نہیں۔‘‘ چاچی مسکرائیں۔ ’’میں کہہ رہی تھی اگر میری بیٹی ہوتی تو ایلا سے زیادہ میری خدمت نہ کرتی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ یہ تو ہے۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔
ایلیا نے محسوس کیا ان کا چہرہ کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ وہ ہر روز کی طرح نہیں لگ رہے تھے۔ ہسپتال سے آتے ہوئے جو ایکسرے اور ٹیسٹ ہوئے تھے ان کی رپورٹس آج ملنا تھیں۔ کہیں۔۔۔۔۔
’’چاچی کی رپورٹس ملیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ ابھی ایک دو رہ گئی ہے۔‘‘ وہ چونکے۔
’’سب ٹھیک ہیں نا۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ابھی ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں۔ باقی بھی مل جائیں تو پھر جائوں گا۔ دوائیں کھلا دیں؟‘‘ انہوں نے بات مکمل کر کے ساتھ ہی پوچھ لیا۔
’’ابھی پندرہ منٹ تک دوں گی۔‘‘
’’بیٹا! آج تم اپنے کمرے میں سو جائو۔ میں ادھر رہوں گا تمہاری چاچی کے کمرے میں۔ اگر ضرورت پڑ گئی تو تمہیں جگا لوں گا۔ بہت تھکی تھکی لگ رہی ہو۔‘‘ انہوں نے بغور اس کی طرف دیکھا۔
’’نہیں، نہیں تو۔۔۔۔۔ تھکن تو بالکل بھی نہیں ہے۔ دن کو سو گئی تھی میں۔‘‘
’’آجی کا فون نہیں آیا تین دنوں سے؟‘‘ چاچی نے پوچھا۔
’’آیا تھا آج۔‘‘
’’مجھ سے بات نہیں کروائی۔‘‘ انہوں نے شکوہ کیا۔
’’تم آرام کر رہی تھیں۔ پھر آیا تو کر لینا۔‘‘ ان کا لہجہ یک دم سپاٹ تھا۔
’’وہ ٹھیک تو ہے نا؟۔۔۔۔۔ آنے کا نہیں بتایا؟۔۔۔۔۔ چار سال تو ہو گئے اسے یہاں آئے اور ہم سے ملے بھی دو سال ہو گئے ہیں اب تو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’کچھ نہیں کہا آنے کا۔‘‘
’’اب فون آیا تو اسے ضرور کہئے گا آنے کا۔ آپ کی بات تو مانتا ہے۔ پتہ نہیں زندگی میں ملاقات نصیب ہو گی یا نہیں۔ مرنے سے پہلے ایک بار اسے دیکھ لوں۔‘‘
ان کی آواز میں نمی گھل گئی تو وہ ہولے سے ان کا ہاتھ تھپتھپا کر کھڑے ہو گئے۔
’’چاچی کو دوائی دے کر سو جانا تم بھی۔ اگر کوئی پرابلم ہو تو جگا لینا مجھے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے سر ہلا دیا۔
’’میں اکلوتی تھی اور سوچتی تھی کہ میرے کم از کم چار بچے تو ضرور ہوں گے۔ لیکن اللہ کی رضا۔‘‘
انکل آفتاب کے جانے کے بعد چاچی ہولے ہولے اس سے باتیں کرنے لگیں۔ ایاز کے بچپن کی باتیں، نینا عادل کی باتیں۔ وہ بے دھیانی سے سنتی رہی۔
اگر ایاز نے اسے طلاق دے دی تو۔۔۔۔۔ تو پھر یہاں رہنے کا کیا جواز ہو گا اُس کے پاس؟ اور پھر اسے وہاں ہی رہنا پڑے گا، ماڈل ٹائون والے اس گھر میں۔ اور اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس سے تو اچھا تھا وہ وہاں ہی رہتی، ایاز کے ساتھ اور اس کی سرد مہری اور اجنبیت برداشت کرتی رہتی۔ وہ اذیت اس اذیت سے بہرحال کم تھی۔ وہ تو کبھی بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔ محض ایک کاغذی رشتہ۔ اور یہ جو خون کے رشتے تھے، یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔۔ اگر وہ اب بھی خاموش رہتی، ایاز سے نہ کہتی کہ اسے پاکستان بھیج دے۔
اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر چاچی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ اس نے سامنے کلاک پر نظر ڈالی۔ دوا کا وقت ہو چکا تھا۔ دوا کھانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ سو گئیں تو اس کا دل گھبرانے لگا۔ کیا ہو گا اس کا؟۔۔۔۔۔ کاش ابی جان ہی اس کا خیال کر لیتے۔ یاپھر بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا۔ یہ تو اس کے اپنے ہی تھے۔ اور بوا خیرن کہتی ہیں ماں نہ رہے تو باپ بھی دوسری بیوی لا کر اولاد کو بھول جاتا ہے، ابی جان کی طرح۔ اور بھائی شادیوں کے بعد پرائے ہو جاتے ہیں۔ بھلا ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔ دل پر بوجھ سا پڑ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر سوبئی ہوئی چاچی کو دیکھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
ShareThis
باہر خاموشی تھی۔ اس نے صحن کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ چودھویں کا چاند عین اس کے سر پر پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔ وہ کچھ دیریونہی بے دھیانی سے چاند کو دیکھتی رہی، پھر پیچھے مڑ کر برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔
اپریل کا اسٹارٹ تھا اور ہلکی خنکی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ دن کو تو موسم کچھ گرم ہو جاتا تھا لیکن رات کے وقت خنکی ہو جاتی تھی۔ دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے ہوئے اس نے کوئی پندرھویں بار سوچا۔
’تو ساری بات یہ ہے ایلیا اسفند یار! کہ تمہاری اس گھر میں اب کوئی جگہ نہیں اور تم نے بڑی غلطی کی جو ایاز سے کہا کہ وہ تمہیں پاکستان بھیج دے۔ ورنہ وہ نباہ تو رہا ہی تھا کسی نہ کسی طرح۔ کم از کم تمہارے ہوتے وہ کیتھی سے شادی تو نہ کرتا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟‘
عجیب سی مایوسی اس پر طاری ہو گئی۔
’اور پتہ نہیں کب آج، کل یا پرسوں کسیروز اس کی طرف سے طلاق کے کاغذات آ گئے تو۔۔۔۔۔؟
ایک ناقابلِ بیان سا درد دل سے اٹھ کر پورے وجود میں پھیل گیا۔ پہلے آنکھیں نم ہوئیں اور پھر یہ نمی گالوں پر پھیل آئی۔
’میں کہیں بھی، کسی بھی جگہ مطلوب نہیں تھی۔ نہ ماڈل ٹائون کے اس گھر میں اور نہ ایاز ملک کے اس اپارٹمنٹ میں۔۔۔۔۔ تو پھر بھلا میری کیا ضرورت تھی اس دنیا میں آنے کی؟‘
وہ سولہ سال جو اس نے ماڈل ٹائون کے اس گھر میں گزارے تھے وہ سولہ سال اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ان سولہ سالوں میں بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کا اپنی اپنی شادی کے بعد معمولی سا التفات اور شادی سے پہلے اس کا تھوڑا خیال رکھنا اور بس۔۔۔۔۔ یہ تھا اس کی سولہ سالہ زندگی کا اثاثہ۔ اور بیچ کے چار سال، وہ اذیت ناک چار سال جن میں صرف ایاز ملک کی نفرت تھی، بیزاری تھی اور بس۔
اور چار سالوں بعد وہ دن جو اس نے ماڈل ٹائون میں گزارے تھے اجنبی رویوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ دونوں بھائیوں کا وہ معمولی التفات بھی وہو کھوجتی رہ گئی تھی۔ سوائے پہلے روز کے انہوں نے ان آٹھ دنوں میں اس سے پھر بات نہیں کی تھی۔ کوئی بات بھی نہیں۔
لبوں سے نکلنے والی آہ کو اس نے دانتوں تلے دبایا اور دائیں ہاتھ کی پشت سے گیلے رخساروں کو پونچھا۔ تب ہی ملک آفتاب نے ہولے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ایلا بیٹا! یہاں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘
وہ پتہ نہیں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کب باہر آئے تھے کہ اسے خبر تک نہیں ہوئی تھی۔
’’یونہی انکل!۔۔۔۔۔ دل گھبرا رہا تھا۔‘‘ اس نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔
’’بیٹا! تم کچھ پریشان ہو؟‘‘ وہ اس کے پیچھے سے آ کر اس کے برابر ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے تو اس نے بہت پھرتی سے ایک بار پھر رخساروں کو پونچھا۔ لیکن بھیگی پلکیں آفتاب ملک سے چھپی نہ رہ سکی تھیں۔
’’نہیں تو۔۔۔۔۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
’’تم بھی کہتی ہو گی، عجب خود غرض لوگ ہیں۔ چند دن بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنے نہیں دیا۔ تمہاری چاچی کی طبیعت اب بہتر ہے۔ تمہیں لاہور چھوڑ آتا ہوں۔ جب آنا ہو، فون کر دینا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے تڑپ کر ان کی طرف دیکھا۔ ’’مجھے نہیں جانا۔۔۔۔۔ میں یہاں ہی رہوں گی۔ چاچی کے پاس۔‘‘
’’میں جانتا ہوں بچے! تمہیں اپنی چاچی سے بہت محبت ہے۔ لیکن نئے رشتے بننے سے پرانوں کا حق ختم تو نہیں ہو جاتا نا۔ اُن کا بھی حق ہے تم پر۔ اور چاچی کی تم فکر نہ کرو۔ بتولاں اور صغراں ہیں نا۔ اور پھر ڈاکٹر بھی کہہ رہا تھا کہ کچھ دنوں کی بات ہے، واکر کے ساتھ چلنے لگیں گی۔ اور۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں انکل! پلیز، مجھے ابھی نہیں جانا۔‘‘
اس کے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ اس سمے اس نے خود کو بڑا بے بس محسوس کیا تھا۔ وہ انکل آفتاب کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہاں اس کی کوئی چاہ نہیں۔۔۔۔۔ اور شاید یہ چاہ کبھی بھی نہیں تھی۔ تبھی تو چار سال پہلے اسے ایک ایسے شخص کے پلّے باندھ دیا گیا تھا جسے وہ مطلوب نہیں تھی۔ وہ اس کا طالب نہیں تھا۔ لیکن وہ اس کے پلّے باندھی گئی تھی۔
انکل آفتاب کے ہونٹوں پر شفیق سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
Zafina
08-01-2012, 12:22 AM
’’اچھا، جب تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں گی پھر جی بھر کر رہ آنا۔ اب چار سال بعد آئی ہو تو پھر نہ جانے کتنے سالوں بعد آئو۔‘‘
اُسے آفتاب ملک کی لا علمی پر افسوس ہوا۔ لیکن وہ ابھی انہیں کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔ اور نینا۔۔۔۔۔ نینا عادل سے اس نے کہا تھا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ طلاق لے یا نہ لے لیکن اس کی زندگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کیتھی کو اس سے فرق پڑتا ہو تو؟۔۔۔۔۔ اور یہ بات اسے مسلسل پریشان کر رہی تھی۔
تب ہی آفتاب ملک کی پاکٹ میں موجود سیل فون بج اٹھا۔ انہوں نے فوراً ہی فون نکال کر اٹینڈ کیا۔
’’ہیلو، ایاز پتر!‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔ اور یکدم جیسے اس کا دل ڈوب کر اُبھرا۔
’’او، ہاں پتر! تیری اماں بھی ٹھیک ہیں۔ ہفتے ڈیڑھ ہفتے تک ڈاکٹر نے کہا ہے واکر سے چلنا شروع کر دیں گی۔ اور یہ بتائو، تین دن سے تم کہاں تھے؟‘‘
پتہ نہیں ایاز نے کیا کہا تھا کہ آفتاب ملک نے جواباً قدرے بلند آواز میں کہا۔
’’تم سیریں کرتے پھر رہے ہو اور یہاں میں تمہاری اماں سے جھوٹ بولتا رہا ہوں کہ آجی کا فون آیا تھا۔‘‘
آفتاب ملک بات کر رہے تھے اور وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے تصور میں واشنگٹن ڈی سی کے اس اپارٹمنٹ میں پہنچ گئی جہاں چار سال اس نے ایاز کے سنگ کسی اجنبی کی طرح گزارے تھے۔ اس وقت پتہ نہیں وہاں کیا وقت ہو گا اور ایاز کہاں ہو گا، اپنے بیڈ روم میں۔ اور کیتھی کہاں ہو گی؟ شاید میرے بیڈ روم میں۔۔۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔۔۔ بھلا کیتھی وہاں کیوں ہو گی؟ اُسے تو وہاں ہونا چاہئے جہاں ایاز ہے۔ اور تین بیڈ روم کے اس اپارٹمنٹ میں جانے کے پہلے روز ہی ایاز نے اس سے کہا تھا۔
’’یہ رہا تمہارا بیڈ روم۔ میری قوتِ برداشت زیادہ نہیں ہے۔ میں نے وہاں پاکستان میں پتہ نہیں کیسے خود پر جبر کیا لیکن یہاں نہیں۔ تم میری خواہش نہیں ہو لیکن عورت ہو۔ اور پھر میری وائف۔ اس لئے میرے بیڈ روم میں قدم نہ رکھنا۔‘‘
نہ جانے کس بات پر آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا تھا۔
’’اُداس تو نہیں ہو یار!یہ تمہاری بیوی ہماری بھی بہو ہے بلکہ بیٹی ہے۔ کچھ دن اس کی جدائی برداشت کر لو۔ ذرا تمہاری اماں پہلے کی طرح چلنے پھرنے لگے تو پھر بھجوا دوں گا۔ یار! تُو بڑا لکی ہے۔‘
اس کا دل جیسے نیچے پاتال میں جا گرا اور دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ اسے لگا جیسے وہ اپنی دھڑکنوں کو سن سکتی ہو۔ اب پتہ نہیں ایاز کیا کہے گا۔ اس کا پورا وجود سماعت بن گیا۔ اس نے پوری توجہ ایاز کی سنائی دیتی مدھم آواز پر لگا دی۔ لیکن سمجھ نہیں پائی۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم آجی؟‘‘ اُس نے کن انکھیوں سے آفتاب ملک کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں اُلجھن تھی۔
’’ہمیں خود غرض سمجھا ہے تُو نے کہ اپنے آرام کی خاطر ہم اسے اپنے پاس ہی رکھ لیں گے؟۔۔۔۔۔ تم دونوں ہنسو، بسو، خوش رہو۔ بس پندرہ بیس دن تک بھجوا دوں گا۔ ہمارا کیا ہے، چار دن کے مہمان ہیں۔ ایک بار تمہارے بچوں کی خوشی بھی دیکھ لیں یار۔ کہیں تم نے بھی کم بچے خوشحال گھرانہ کا سبق تو نہیں پڑھ لیا؟‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔
اگر جو زندگی بالکل سیدھی سپاٹ ہوتی تو شاید وہ آفتاب ملک کی اس بات پر شرما جاتی شاید۔ لیکن اس وقت تو وہ صرف دل کی دھڑکنوں کو سن رہی تھی جنہوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ یکدم آفتاب ملک کا قہقہہ دم توڑ گیا۔ اُس نے چمکتے چاند کی روشنی میں ان کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا تو سر جھکا لیا۔
’’بابا! میں چاہتا ہوں ایلیا اب آپ کے ساتھ پاکستان میں ہی رہے۔ میں یہاں اسے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔ میں نے کوشش کی کہ آپ کے ساتھ کیا وعدہ نباہ سکوں۔ لیکن آئی ایم سوری بابا!‘‘
کچھ لفظ اس کے کانوں میں پڑے تو اس کا سر مزید جھک گیا۔
’’تم ایلیا کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے؟۔۔۔۔۔ کیوں ایاز؟۔۔۔۔۔ کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایلیا جیسی بیوی ملی ہے۔‘‘
اب وہ کہہ رہے تھے۔ لہجے میں یک دم دھیما پن آ گیا تھا۔
’یا اللہ اس وقت، اس سمے کچھ ایسا کر دے کہ ایاز مزید کچھ نہ کہہ سکے۔‘
اب اس نے سر گھٹنوں پر رکھ لیا تھا۔
’’لو، بات کرو ایلا سے۔ اور میں اب ایسی فضول بات نہ سنوں۔ تمہاری ماں کی طبیعت ٹھیک ہو جائے تو میں خود آئوں گا ایلا کے ساتھ۔ تمہارا مسئلہ کیا ہے، یہ میں وہاں ہی آ کر پوچھوں گا۔‘‘
ShareThis
ان کی آواز میں تنبیہہ اور ہلکا غصہ تھا۔ انہوں نے بغیر خدا حافظ کہے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
’’لو، بات کرو۔‘‘
اس نے بہ مشکل سر اٹھایا۔ ویں جیسے سر پر وزنی بوجھ دھرا ہو اور اایک تنویمی کیفیت میں فون پکڑ لیا۔
’’ہیلو!۔۔۔۔۔ ہیلو!۔۔۔۔۔ ‘‘ دوسری طرف ایاز کہہ رہا تھا۔
’’ہیلو!۔۔۔۔۔‘‘ اس کے لبوں سے مری مری سی آواز نکلی۔
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ ایاز کی آواز گو آہستہ تھی لیکن وہ اس کے غصے اور جھنجلاہٹ کو محسوس کر سکتی تھی۔
’’میں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری اور نگاہیں اٹھا کر آفتاب ملک کو دیکھنا چاہا جو فون اسے پکڑا کر اب برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔
’’میں۔۔۔۔۔ وہ چاچی۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہیں نینا آپی نے بتا دیا ہے نا کہ میں۔۔۔۔۔‘‘
’’جی۔‘‘ اب جی کے ساتھ بے شمار آنسو بھی پلکوں تک چلے آئے تھے۔
’’تو پھر۔۔۔۔۔؟‘‘ اس کا انداز استفہامیہ تھا۔
’’وہ چاچی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے پھر نامکمل بات کی۔ لفظ نہ جانے کہاں کھو گئے تھے۔
’’مائی گاڈ۔۔۔۔۔ ایلیا بی بی! اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ میری ماں کی خدمت کر کے تم میرے دل میں یا میرے گھر میں کوئی جگہ بنا لو گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔‘‘
’’میں ایسا نہیں سمجھتی۔‘‘ یکایک ہی اس کا لہجہ صاف ہو گیا تھا اور آنسو خشک ہو گئے تھے۔ ایک لمحے کے لئے اس کی اس صاف گوئی پر ایاز چپ ہو گیا تھا۔
’’نینا آپی نے مجھے بتایا تھا کہ تم طلاق نہیں لینا چاہتیں؟۔۔۔۔۔ یہ حماقت ہے۔ تم مجھ سے علیحدگی کے بعد کہیں، کسی اور کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکتی ہو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے پھر کہا۔ ’’لیکن میں ایسا نہیں چاہتی۔‘‘
’’کیتھی بہت پوزیسو ہے۔ وہ تو مجھ کو چھونے والی ہوا سے بھی جیلس ہو جاتی ہے۔ تمہارے دل میں اگر ذرا سا بھی واپسی کا خیال ہے تو۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ میرا ایسا کوئی خیال نہیں۔ نہ ہی میں اب وہاں واپس آئوں گی۔‘‘
’’اور بابا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ غالباً آفتاب ملک سے خوف زدہ تھا۔
’’وہ میری مرضی کے بغیر مجھے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘
’’اوکے۔ لیکن اگر کسی لمحے تمہیں اپنیبے وقوفی کا احساس ہو جائے تو مجھے بتا دینا۔ میں اسی لمحے پیپرز بھجوا دوں گا۔‘‘
’’بابا سے بات کریں گے؟‘‘ جواباً اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ کیا اماں جاگ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اوکے دین۔‘‘ اس نے فون بند کر دیا۔ ایک لمحے کو اسے خود پر حیرت ہوئی۔ یہ میں تھی، ایلیا اسفند یار جو ابھی ایاز ملک سے بات کر رہی تھی۔
دوسرے ہی لمحے اس نے سر جھٹک کر پیچھے مڑ کر دیکھا اور کھڑی ہو گئی اور سر جھکائے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نے آفتاب ملک کی طرف فون بڑھایا۔
’’ایلا۔۔۔۔۔!‘‘ کسی گہری سوچ سے چونک کر انہوں نے اس سے فون لے لیا۔ ’’آجی تمہارے ساتھ ٹھیک تو تھا نا؟‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے نظریں نہیں اٹھائیں۔‘‘
’’پھر وہ اس طرح کیوں کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔‘‘ ان کی آواز لڑکھڑا گئی اور وہ خاموش ہو گئے۔
’’کیا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے اس سے تمہارا؟‘‘ انہوں نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اندر ہی اندر شرمندہ ہوتے ہوئے اس نے کہا۔ اس نے اب بھی نظریں نہیں اُٹھائی تھیں۔
ShareThis
’’والدین کا بھی تو اولاد پر حق ہوتا ہے۔‘‘ سوچ سوچ کر وہ بولی۔ ’’اور آپ کا بھی تو حق ہے نا ہم پر۔ اور میں آپ اور چاچی کے پاس رہ کر آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ دعائیں لینا چاہتی ہوں۔ اتنے سال وہاں رہ رہی ہو۔ اب سال دو سال یہاں رہ لوں۔‘‘
’’تو تم۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے بہ غور اسے دیکھا۔ ’’تم نے مجبور کیا اسے کہ وہ تمہیں یہاں بھیج دے۔ جھلّی نہ ہو تو۔ دعائیں تو ہم یوں بھی تم دونوں کے لئے کرتے ہیں۔ تم پاس ہو یا نہ۔‘‘ اُن کے لہجے سے یکایک اطمینان جھلکنے لگا۔
’’تو ناراضگی سے کہہ رہا تھا وہ کہ اب تم یہاں ہی رہو۔ میں بھی سمجھا کہ وہ۔۔۔۔۔ خیر۔‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسے۔ ’’اب چل کے سو جائو میرا بچہ! صبح بات کریں گے۔ بڑا ظالم شہر ہے وہ۔ اور وہاں ایاز کو اکیلا چھوڑنا عقلمندی نہیں ہے۔ میری بیٹی بھی بہت عقلمند ہے۔ چل جا شاباش، سونے کی کوشش کر۔ اور اگر نیند نہیں آ رہی تو دودھ گرم کر دوں؟‘‘ ان کے لہجے میں شفقت و محبت کے سمندر سما گئے تھے۔
’’نہیں۔‘‘ وہ شرمندہ ہو گئی۔
’’پتہ ہے، کبھی کبھی جب رات کو بتولاں، صغراں اپنے کوارٹر میں چلی جاتی ہیں نا اور تیری چاچی کا دل چاہتا ہے چائے پینے کو تو میں خود بنا لیتا ہوں۔ کسی دن تمہیں بھی پلائوں گا بنا کر۔ الیکٹرک کیٹل میں پانی بوائل کیا اور ۔۔۔۔۔ دودھ لا دوں؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’نہیں، نہیں۔‘‘ وہ اور شرمندہ ہوئی۔
وہ اس شفقت اور محبت کے پیکر سے جھوٹ بول رہی تھی۔ دھوکا دے رہی تھی۔ ایاز اسے اپنی زندگی سے الگ کر چکا تھا اور وہ۔۔۔۔۔
’’مجھے دودھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ جھکی نظریں اوپر نہیں اُٹھی تھیں۔
دروازے کے پاس رک کر انہوں نے بغور اسے دیکھا اور پھر تھوڑا سا دروازہ کھولا۔
’’تمہاری چاچی سو رہی ہیں۔ تم بھی سو جائو، شاباش۔ اور آجی کی فکر نہ کرنا۔ تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائے تو کان سے پکڑ کر لاتا ہوں اسے پاکستان۔ بہت ڈھیل دے دی اسے۔‘‘
’’شب بخیر۔‘‘ اس نے اندر قدم رکھا۔
’’شب بخیر۔۔۔۔۔ شب بخیر۔‘‘
وہ دروازہ بند کر کے اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمرے میں چاچی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے۔
’اگر جو اُس گھر میں میرے لئے ذرا بھی گنجائش ہوتی تو میں کس لئے ان پیارے لوگوں کو دھوکے میں رکھتی؟‘
وہ لیٹ گئی۔ اور اس نے تکیہ آنکھوں پر رکھ لیا۔ وہ آنسو جنہیں اب تک شعوری کوشش سے اس نے روکا ہوا تھا، اُس کے رخسار بھگونے لگے۔
…٭٭٭…
دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔
مئی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس سارے عرصے میں لاہوور سے ایک بار بھی فون نہیں آیا تھا۔ ایک بار خود اس نے فون کیا تو انوشہ نے ریسیو کیا تھا۔
’’سب کیسے ہیں انوش؟‘‘
’’اے ون۔‘‘
’’اتنے دن ہو گئے مجھے یہاں آئے ہوئے۔ کسی نے فون بھی نہیں کیا۔‘‘
’’لو۔‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی۔ ’’پہلے کب کوئی آپ کو فون کرتا تھا؟‘‘
ایک لمحے کو وہ چپ ہو گئی۔ انوشہ غلط تو نہیں کہہ رہی تھی۔ بھلا بیتے چار سالوں میں کب کسی نے فون کیا تھا۔
’’اور ایلیا! آپ سنائیں۔۔۔۔۔ کیسی ہیں؟‘‘ انوشہ پوچھ رہی تھی۔ وہ چونکی۔
Zafina
08-01-2012, 12:23 AM
’’اچھی ہوں۔‘‘
’’کبھی چکر لگایئے نا۔‘‘ انوشہ کی آفر پر وہ یکدم خوش ہو گئی۔
’’ہاں، آئوں گی کسی روز۔ انکل کہہ رہے تھے کہ چھوڑ جائیں گے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے آپ رہنے کے لئے آئیں گی؟‘‘ انوشہ اپنی حیرت چھپا نہیں سکی تھی۔
’’ہاں۔ چند روز کے لئے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسی۔ ’’بے چاری گڑیا کو آپ کا کمرہ خالی کرنا پڑے گا۔ ویسے ایلیا! یہاں آپ کے آنے سے کسی کو خوشی نہیں ہو گی۔‘‘
ورہ خطرناک حد تک سچ بولتی تھی۔ یہ بات وہ جانتی تھی لیکن انوشہ کے منہ سے سن کر ایک لمحہ کو جیسے اسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔
’’آپ شاید برا مان گئی ہیں؟‘‘ انوشہ کو اپنے سچ کی تلخی کا احساس ہو گیا تھا۔
’’نہیں، مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’حالانکہ کم از کم ابی جان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا نا آپ کے آنے پر۔ اور انہیں آپ کو یاد بھی کرنا چاہئے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بھی۔۔۔۔۔‘‘
انوشہ وضاحت کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔
’’لیکن میں نے ایک روز آپ کو یاد کیا تھا۔‘‘ وہ شاید اسے خوش کرنا چاہ رہی تھی۔
’’جھوٹ نہیں انوش!‘‘ اس کے لہجے میں ایک دم ہی اس کے لئے پیار امڈ آیا تھا۔
’’رئیلی ایلیا!۔۔۔۔۔ وہ میری فرینڈ ہے نا مومی۔ اس نے مجھے اپنی آپی سے ملایا تو تب اسروز میں نے آپ کو یاد کیا تھا اور مومی کو بھی بتایا تھا آپ کے متعلق۔‘‘
’’اچھا، تھینکس۔‘‘ وہ اتنی سی بات پر ہی خوش ہو گئی تھی۔
’’اوکے، ممی آ رہی ہیں۔ آپ چکر لگانا۔ لیکن رہنے کے لئے نہیں آنا۔ بے چاری گڑیا۔‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی اور اس نے ریسیور رکھ دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی تھی۔ یہ انوشہ بھی کتنے مزے سے سب کو ان کے نام لے کر بلاتی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ وہاں رہتی کچھ دن اور انوشہ سے دوستی کر لیتی۔ اس کی چھوٹی سی، پیاری سی بہن۔
اس روز وہ انوشہ کی باتیں سوچ سوچ کر اس کی اس خطرناک حد تک سچ بولنے والی عادت سے محظوظ ہوتی رہی۔ لیکن چاہنے کے باوجود وہ پھر فون نہیں کر سکی تھی۔ ضروری تو نہیں تھا کہ انوشہ ہی ریسیو کرتی۔ اور پھر چاچی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھی۔ واکر کے ساتھ چلنے کی کوشش ناکام رہی تھی۔ چند قدم چلنے سے درد اتنا شدید ہونے لگتا کہ برداشت سے باہر ہو جاتا تھا۔ آپریشن سے پہلے اگرچہ درد شدید ہی تھا لیکن اتنا شدید ہرگز نہیں تھا۔
’’لگتا ہے آپریشن صحیح نہیں ہوا۔‘‘ ایک روز اس نے آفتاب ملک سے کہا۔
’’ہاں، شاید۔‘‘
’’آپ ڈاکٹر سے بات کریں نا۔‘‘
’’ڈاکٹر ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں ایک سیمینار میں شرکت کے لئے۔ میں چاہتا ہوں وہ آ جائیں تو انہی سے چیک کروائوں۔‘‘
’’آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں انکل! آپ مجھے تو بتائیں نا، دوسرے ڈاکٹرز نے کیا کہا ہے؟‘‘ وہ کئی دن سے انہیں پریشان دیکھ رہی تھی۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں۔۔۔۔۔ میں تمہاری چاچی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں پتر!‘‘
’’پھر کیوں پریشان ہیں؟‘‘
’’بیٹھ جائو۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں پکڑی کتاب بیڈ پر رکھ دی تھی اور بغور اسے دیکھا تھا۔ وہ اس روز انہیں چائے دینے گئی تھی۔ چاچی سو رہی تھیں اور وہ بے اختیار ہی پوچھ بیٹھی تھی۔
’’آجی کا فون آیا؟‘‘ اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہاں۔‘‘ اس نے سٹپٹا کر انہیں دیکھا۔
’’ایک بات کہو نا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کی نظریں جھک گئیں۔ پتہ نہیں لوگ کتنی آسانی سے اور کیسے اتنے بڑے بڑے جھوٹ بول لیتے ہیں۔
ShareThis
’’کب آیا تھا؟‘‘ انہوں نے جیسے اس کی مشکل آسان کی۔
’’وہ۔۔۔۔۔ دو تین دن ہوئے۔‘‘ اس نے تھوک نگلا۔
’’ایلیا بیٹا!۔۔۔۔۔ ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو۔‘‘
اسے لگا وہ اتنے شفیق، اتنے معزز شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ نہیں بول سکے گی۔ اس کی نظریں نہ اٹھ سکیں اور لب خشک ہو گئے۔
’’ایلیا بیٹا۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے ایک گہری سانس لی۔ ’’مجھے نینا نے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘
اُس کی آنکھوں میں یکدم پانی بھر آیا اور وہ آنسو روکنے کی کوشش میں نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے بے دردی سے کاٹنے لگی۔ لیکن آفتاب ملک شاید اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔
’’میں۔۔۔۔۔ میں تم سے شرمندہ ہوں بیٹی!‘‘
’’اس طرح مت کہیں پلیز۔ آپ کا کیا قصور؟ شاید میں ہی۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تڑپ کر سر اٹھایا اور پھر آنکھوں میں جمع ہونے والا پانی رخساروں پر بہہ آیا۔
’’میں نے سوچا تھا، ایاز نے کبھی میری بات نہیں ٹالی۔‘‘ وہ ہولے ہولے سے بول رہے تھے۔ ’’وہ ضرور میرا مان رکھے گا۔ میں نے اس سے پوچھے بغیر اس کے ساتھ تمہارا رشتہ طے کر دیاتھا۔‘‘
’’آپ کو ان سے پوچھ لینا چاہئے تھا۔‘‘ بے اختیار ہی اس کے لبوں سے نکلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ عام حالات میں شاید میں ایسا ہی کرتا۔ میں کوئی روایتی قسم کا باپ نہیں تھا کہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرتا۔ میں نے ہمیشہ اس کی ہر خواہش پوری کی۔ میں اسے امریکہ نہیںبھیجنا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا، میں نے مان لیا۔ شادی کے معاملے میں بھی میں نے اسے کہہ رکھا تھا کہ وہ جہاں بھی، کسے بھی پسند کرے ہم دونوں اس کی خوشی پر خوش ہوں گے لیکن۔۔۔۔۔‘‘
انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ وہ دم سادھے سن رہی تھی۔ رخساروں تک بہہ آنے والے آنسو خود ہی خشک ہو گئے تھے۔
’’میں جب لاہور گیا اور اسفند یار نے بتایا کہ اس نے تمہارا رشتہ زریاب خان سے طے کر دیا ہے جو کہ تمہاری چھوٹی امی کا خالہ زاد بھائی تھا، جس کی عمر کم از کم ساٹھ سال تھی اور تم صرف سولہ سال کی تو میں ششدر رہ گیا۔
’’یہ ظلم ہے اسفند یار!‘‘ میں حیرت سے باہر آیا تو کہا۔
تم صرف اسفند یار، میرے عزیز دوست کی ہی بیٹی نہ تھیں بلکہ تمہاری امی کو میں نے بہن بنایا تھا اور بہن کی طرح ہی اسے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔‘‘
ایلیا نے بے حد حیران ہو کر آفتاب ملک کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ کیا اس کی امی کے بہن بھائی، والدین کوئی نہیں تھے؟ اسے اپنے ننھیالی رشتوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ ایک بار اس نے اپنے بڑے بھیا سے پوچھا تھا جب ابی جان چھوٹی امی کو بیاہ کر لائے تھے۔ اور ایک روز نہ جانے کس بات پر چھوٹی امی نے اسے مارا تھا۔ تب اس نے سوچا تھا آخر اس کے نانا، نانی، ماموں، خالہ کوئی تو ہو گا۔ چھوٹی امی کی مار کھانے سے بہتر ہے کہ وہ ان کے گھر چلی جائے۔ اور بڑے بھیا نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
’’مجھے تو معلوم نہیں۔ شاید ابی جان کو پتہ ہو۔‘‘
اور ابی جان سے پوچھنے کی وہ ہمت نہیں کر سکی تھی۔ اس نے خود ہی خود دل میں فرض کر لیا تھا کہ اس کی امی جان کے والدین وفات پا چکے ہوں گے اور وہ اکلوتی ہوں گی۔ لیکن آج آفتاب انکل کے منہ سے یہ سن کر کہ انہوں نے اس کی امی کو اپنے گھر سے رخصت کیا تھا وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی۔
’’کیا ان کے والدین نہیں تھے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔‘‘ آفتاب ملک اس کی طرف نہیںدیکھ رہے تھے۔
’’اور بہن بھائی؟‘‘
’’کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ مجھے اُس نے منہ بولا بھائی بنا رکھا تھا۔ وہ روزِ محشر مجھ سے ضرور شکوہ کرتی کہ بھائی میری ایلیا پر ظلم ہو رہا تھا اور تم نے کچھ نہیں کیا۔ تبھی میں نے اسفند سے احتجاج کیا تو اس نے کہا کہ تمہیں ہمدردی ہے ایلیا سے تو تم کر لو اپنے بیٹے سے اس کی شادی۔
’’تو ابی جان نے۔۔۔۔۔‘‘ وہ آفتاب ملک کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ShareThis
’’میں نے آجی سے نہیں پوچھا اور اسفند سے کہہ دیا، ٹھیک ہے۔ میں ایاز کی شادی ایلیا سے کر لیتا ہوں۔ لیکن پہلے کچھ دیر اپنی بیٹی سے بات کر لوں۔۔۔۔۔ اور یوں۔۔۔۔۔ مجھے بہت مان تھا، مجھے یقین تھا آجی میرا مان رکھے گا۔ لیکن خیر۔‘‘ انہوں نے سر جھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’اب تم۔۔۔۔۔‘‘
’’میں۔۔۔۔۔‘‘ وہ چونکی اور اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔ خشک آنکھیں لمحوں میں سمندر بن گئیں۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھ ان کے پائوں پر رکھے۔
’’انکل! پلیز۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں سے مت بھیجئے گا۔ میں یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں، آپ کے پاس، چاچی کے پاس۔ ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز انکل!‘‘
’’کیا کر رہی ہو ایلیا بچے!‘‘ انہوں نے گھبرا کر اس کے ہاتھ اپنے پائوں سے ہٹائے۔ ’’تم یہاں ہی رہو۔۔۔۔۔ جب تک دل چاہے۔ ہمیشہ ہمارے پاس۔ کس کی جرأت ہے کہ تمہیں یہاں سے نکالے۔ تم مالک ہو اس گھر کی۔ اور یہ گھر میں تمہارے ہی نام کر دوں گا۔ ذرا تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں۔ اور دیکھو، ابھی اپنی چاچی کو کچھ مت بتانا۔ نہیں تو وہ دل پر لے لے گی۔‘‘
انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ روتے ہوئے یکدم ان کے سینے سے جا لگی۔ وہ ہولے ہولے اسے تھپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھی صاف کر رہے تھے۔
’’اور وہ ایاز۔۔۔۔۔ اُس سے تو میں ابھی بات ہی نہیں کر رہا۔ روز ہی فون کرتا ہے۔ میں بات کئے بغیر بند کر دیتاہوں۔ لیکن تمہاری خاطر میں بات کروں گا اس سے کسی روز کہ اگر اسے ہماری پرواہ ہے تو وہ تمہیں بھی وہی حقوق دے جو اس گوری میم کو دے رہا ہے۔ چلو، شادی کر لی ہے اس نے لیکن تم بھی اس کی بیوی ہو۔ دوسری صورت میں زندگی بھر ہماری شکل نہ دیکھے۔ بلکہ ہمارے جنازے پر بھی نہ آئے۔
’’نہیں انکل!۔۔۔۔۔ پلیز نہیں۔ میں ایسے ہی خوش ہوں۔ آپ کے سائے میں، آپ کے پاس۔ بس اب مجھے خود سے جدا مت کریں اور میرے لئے ایاز سے ناراض نہ ہوں۔ وہ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے۔ چاچی تو ان کے بغیر۔۔۔۔۔ اور پتہ ہے چاچی ان کو اتنا یاد کرتی ہیں۔ اتنی اداس ہیں ان کے لئے۔‘‘
وہ دونوں ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئی ان کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔
’’تم بہت اچھی ہو ایلیا! وہ کمبخت تمہارے جیسی اچھی لڑکی کے قابل نہیں تھا۔ پچھتائے گا۔ بہت پچھتائے گا وہ۔‘‘ وہ ہولے ہولے کہہ رہے تھے۔
’’انکل پلیز! ایسا نہ کہیں۔ میرا اپنا نصیب۔۔۔۔۔ اُن کا کیا قصور؟ وہ تو بہت پہلے سے کیتھی کو پسند کرتے تھے۔ نینا نے مجھے بتایا تھا۔ میں تو زبردستی۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا، اچھا۔‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا سر تھپتھپایا۔ ’’اب رونے والی بات نہیںہو گی۔ یہ چائے تو ٹھنڈی ہو گئی۔ اب اچھی سی چائے بنا کر لائو۔ اپنے لئے بھی لانا۔ دونوں باپ بیٹی بیٹھیں گے اور باتیں کریں گے۔‘‘
’’انکل! آپ مجھے میری امی کے متعلق بتایئے گا۔۔۔۔۔ مجھے آج تک کبھی کسی نے ان کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ اس نے آنکھیں پونچھ لی تھیں۔
’’تمہاری امی بہت اچھی تھیں۔۔۔۔۔ بالکل تمہارے جیسی، سادہ اورمعصوم سی، مخلص، محبت کرنے والی اور بہت خوب صورت۔‘‘
اُس کی آنکھوں سے جھلکتے اشتیاق کو دیکھ کر وہ ہولے سے مسکرائے۔
’’پہلے چائے، باقی باتیں پھر۔‘‘
اور پھر اس روز کے بعد وہ اکثر ہی ان سے کرید کرید کر امی کی باتیں پوچھتی رہتی تھی۔ ان گزرے دنوں میں اس نے ماڈل ٹائون کے گھر میں گزرے شب و روز بھی ان سے شیئر کئے تھے۔
’’اس گھر میں میری جگہ نہیں ہے انکل! وہاں کسی کو میری چاہ نہیں۔ ابی جان کو بھی میرا خیال نہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ اسفند بہت بدل گیا ہے۔ حالانکہ اسے تمہاری امی سے عشق تھا اور تمہارا تو دیوانہ تھا وہ۔ جس روز تم پیدا ہوئی تھیں تو اتناخوش تھا کہ اس نے ٹوکرے بھر کر مٹھائی ہسپتال میں تقسیم کی تھی اور مجھ سے کہتا تھا۔ یار آفتاب! میرے گھر میں پری اُتری ہے۔ میری اور ثمرین کی محبت کی نشانی۔‘‘ آفتاب ملک اُس کا دکھ سمجھتے تھے۔
’’تمہاری چاچی ٹھیک ہو جائیں تو پھر تم کالج میں ایڈمیشن لے لینا۔ یہاں کسی پرائیویٹ کالج میں۔ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا۔ تمہاری امی کو اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے کا دکھ تھا۔ وہ تمہیں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کرنا اس کا خواب تھا اور اب یہ خواب تم پورا کرنا۔ بی اے کر لو تو تمہیں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دوں گا۔‘‘
وہ مستقبل کے خواب بُنتے رہتے تھے۔ اس کے دل سے بہت سا بوجھ اتر گیا تھا۔ ہر لمحے جو ایک خوف سا اسے گھیرے رکھتا تھا وہ اس خوف سے نکل آئی تھی۔
Zafina
08-01-2012, 12:23 AM
’’میں آجی سے بات کروں گا۔ اگر وہ تمہیں کیتھی کے برابر حقوق نہ دے سکا تو پھر میں اسے کہوں گا کہ وہ تمہیں طلاق دے دے۔ پھر میں اپنی بیٹی کی خود شادی کروں گا۔ کسی بہت اچھے لڑکے تھے۔
’’نہیں انکل! پلیز نہیں۔‘‘
’’اچھا خیر، اس موضوع پر پھر بات ہو گی۔ پہلے تمہاری تعلیم۔‘‘ وہ ہولے سے ہنس دیئے۔
وہ جانتی تھی کہ ایاز کبھی بھی اسے کیتھی کے برابر حقوق نہیں دے سکتا۔ اور ایاز کو اس کی ذرا بھی چاہ نہیں ہے۔ لیکن ابھی وہ آفتاب ملک کو اس غلط فہمی سے نکالنا نہیں چاہتی تھی۔ خود وہ بہت پُرسکون تھی۔ آفتاب ملک نے ادھوری تعلیم مکمل کرنے کا جو تصور اسے دیا تھا اسی میں کھوئی رہتی تھی کہ اچانک ہی چاچی کی تکلیف بڑھ گئیں۔ اب تو ان کے لئے بیٹھنا بھی محال ہو گیا تھا۔ لیٹنے میں بھی درد ناقابل برداشت تھا۔ آفتاب ملک نے پریشان ہو کر کئی ڈاکٹروں کو دکھا ڈالا۔ دو تین دفعہ لاہور بھی لے گئے۔ اور جب احباب نے مشورہ دیا کہ وہ اب کی بار یہاں آپریشن کروانے کی بجائے لندن یا امریکہ میں جا کر آپریشن کروائیں تو جیسے ان کے دل کو بھی یہ بات لگ گئی۔
ڈاکٹر پھر آپریشن کا کہہ رہے تھے۔ اور ان کا دل ڈر رہا تھا کہ کہیں اس بار آپریشن سے وہ اٹھنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ یکدم ہی یہاں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا تھا۔ اگرچہ لاہور کے ایک دوست نے انہیں لاہور آ کر آپریشن کروانے کا مشورہ دیا لیکن وہ امریکہ جانے کی تیاری کرنے لگے تھے۔
نینا سے سن کر ایازنے فون کیا۔
’’آئی ایم سوری بابا! لیکن۔۔۔۔۔‘‘
’’میں اس موضوع پر فی الحال تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔ تم نے جس مقصد کے لئے فون کیا ہے وہ بات کرو۔‘‘ انہوں نے ڈانٹ دیا تو ایاز نے بھی ڈائریکٹ بات کی۔
’’نینا آپی نے بتایا کہ اماں کا دوبارہ آپریشن ہونا ہے۔ اور شاید آپ لندن۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ آفتاب ملک سنجیدہ تھے۔
’’تو میں انتظام کرتا ہوں۔ آپ رپورٹس بھجوا دیں مجھے۔ میں ڈاکٹرز کو دکھا کر ٹائم لے لیتا ہوں۔ یہاں نینا ہے، میں ہوں، کیتھی ہے اور۔۔۔۔۔‘‘
’’ایاز! مجھے۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز بابا! ایک لڑکی کے لئے مجھے اگنور مت کریں۔ وہ میری ماں ہیں۔ میرا فرض ہے اور حق ہے ان کا مجھ پر۔‘‘
’’تم حقوق اور فرائض کی بات مت کرو میرے ساتھ ایاز!۔۔۔۔۔ ہاں، وہ تمہاری ماں ہے۔ میں سوچوں گا کہ کہاں لے جانا بہتر ہو گا۔‘‘
’’پلیز انکل۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے فون بندکیا تو ایلیا نے التجا کی۔ ’’آپ چاچی کو لے جائیں پلیز امریکہ۔ شاید وہاں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی مجھ سے۔‘‘
ان دنوں وہ خود کو بھولی ہوئی تھی۔ چاچی کی تکلیف پر ان سے زیادہ روتی تھی۔
وہ کچھ دیر بغور اسے دیکھتے رہے اور پھر جیسے ڈھے سے گئے۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ تمہاری چاچی بہت تکلیف میں ہے۔‘‘
’’اور ایاز بیٹا ہے ان کا۔ کوئی غیر تو نہیں۔‘‘ وہ اس شخص کی وکالت کر رہی تھی جس نے ایک روز بھی اسے اپنے ہونے کا مان نہیں دیا تھا۔
اور پھر سب انتظام ہوتے چلے گئے۔ اس نے ایک روز بھی اپنے لئے نہیں سوچا کہ اس کا کیا ہو گا۔
’’میں نے اسفند کو فون کر دیا ہے۔ وہ تمہیں آ کر لے جائے گا۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ ہمارے جانے کے بعد تم یہاں اکیلے کیسے رہو گی بیٹا؟‘‘
’’لیکن وہ صغراں تو ہے نا۔ اور دوسرے ملازم بھی۔‘‘
’’میں مناسب نہیں سمجھتا۔‘‘ آفتاب ملک سنجیدہ تھے۔ ’’ہمارے آنے تک تم لاہور میں رہنا اور اپنی چاچی کے لئے ڈھیر ساری دعائیں کرنا۔ واپس آتے ہی میں تمہیں لاہور سے لے آئوں گا۔ اور پھر ہم اپنے پلان پر کام شروع کر دیں گے۔‘‘
ShareThis
انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس وقت چاچی کے بیڈ کے پاس کرسی ڈالے بیٹھے تھے اور ایلیا ان کے بیڈ پر بیٹھی ان کی ٹانگیں دبا رہی تھی کہ انہوں نے آنکھیں کھول کر افتاب کی طرف دیکھا۔
’’ایلا ہمارے ساتھ نہیں جا رہی کیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ آفتاب ملک چونکے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ سو رہی ہیں۔
’کیوں؟‘‘
’’وہ ۔۔۔۔۔ ایلیا ابھی یہاں رہنا چاہتی ہے۔ اور ہمارا بھی کب دل بھرا ہے۔ اور وہاں تمہارے صاحبزادے نے اسے پھر واپس نہیں آنے دینا۔ کہے گا اتنا خرچ دوبارہ۔‘‘ وہ زبردستی مسکرائے۔
’’لیکن میں ایلا کے بغیر آپریشن نہیں کرائوں گی۔ مجھے کسی گوری نرس سے خدمت نہیں کروانی۔‘‘ وہ روٹھی روٹھی سی بولیں۔
’’کیوں، نینا کیا تمہاری بیٹی نہیں ہے؟ وہ بھی ہے وہاں۔‘‘
’’لیکن ملک صاحب! آپ اتنے کنجوس کب سے ہو گئے؟۔۔۔۔۔ ایلا کے آنے جانے کا ٹکٹ آپ دیجئے گا اپنی جیب سے۔ پھر تو آجی کو اعتراض نہیں ہو گا نا؟‘‘
’’ہاں، لیکن۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے ایلیا کی طرف دیکھ کر سر کھجایا جو سر جھکائے آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’بس، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ملک آفتاب کا دل اتنا چھوٹا ہو گیا ہے۔ میرا ست لڑا بیچ دیں۔ اتنی رقم تو ہو جائے گی نا کہ آنے جانے کا ٹکٹ مل جائے ایلا کا۔‘‘
وہ بدستور ناراض لہجے میں بولیں تو ایلیا کے لئے اپنے آنسو روکنا مشکل ہو گیا۔ کاش وہ وہاں جا سکتی چاچی کے ساتھ۔ وہ نینا کے پاس رہ لیتی۔ لیکن ایاز نے نینا کے طفیل اسے کہلوایا تھا کہ وہ ہرگز امریکہ نہ آئے۔ کہیں بابا جان مارے محبت کے اسے بھی ساتھ نہ لے آئیں۔ کیتھی اسے بالکل بھی برداشت نہیں کرے گی۔ اور میں نے کیتھی کو بتایا ہے کہ اسے میں نے طلاق دے دی ہے۔ اس لئے ایلا کو سمجھا دینا۔ اگر وہ آئی تو میں فوراً ہی اسے طلاق دے دوں گا۔ نینا ایلا کو کیا سمجھاتی، اس نے ساری بات آفتاب ملک کو بھی بتا دی تھی اور ایلیا کو بھی۔
’’بات صرف یہ نہیں ہے ملکانی صاحبہ!‘‘ وہ بات کو مزاح کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’وہ جو اسفند ہے نا میرا یار، اس کا بھی حق ہے نا ایلیا پر۔ بے چارہ تمہاری وجہ سے چپ ہو گیا تھا۔ ورنہ چار سال بعد بیٹی وطن آئے اور صرف چھ دن رہ کر آ جائے۔ تو بس میں نے وعدہ کر لیا ہے کہ جتنے دن ہم امریکہ رہیں گے، ایلیا ان کے پاس رہے گی اور یہاں آتے ہی اگلے روز میں اسے لے آئوں گا۔ اور پھر سال بھر جانے نہیں دوں گا۔‘‘
’’سال بھر کیوں؟‘‘ وہ مزید ناراض ہوئیں۔ ’’بس ہمارے آنے کے دو تین ماہ بعد آجی کے پاس بھیج دوں گی اسے۔ میرا بیٹا وہاں اکیلا رہے اور ہم یہاں بیٹی سے خدمت کرواتے رہے۔‘‘
ایلیا کو لگا جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا۔ وہ یکدم اُٹھی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ چاچی حیرانی سے اسے باہر جاتا دیکھ رہی تھیں۔
’’یہ۔۔۔۔۔ اسے کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔۔۔ بس تمہارے جانے سے پریشان ہے نا۔ نہ باپ کو ناراض کر سکتی ہے اور نہ تمہیں۔‘‘
’’لو، میں بھلا کیوں ناراض ہوں گی؟ بلائیں اُسے۔ نینا ہے نا وہاں۔ اور پھر آپ نے کہاتھا، زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ماہ تک آ جائیں گے۔‘‘
دروازے کے پاس کھڑے کھڑے آنسو پونچھتے ہوئے اُس نے سوچا تھا۔ اور یہ ڈیڑھ دو ماہ کتنے مشکل ہوں گے اُس کے لئے۔ وہاں ان سب کے بیگانہ رویوں کے درمیان رہتے ہوئے۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ بھی تو نہ تھا۔
لڑکیاں میکے جانے کا سن کر کتنی خوش ہوتی ہیں۔ لیکن وہ اداس تھی۔ ہاں، ایک ذرا سی رمق خوشی کی اس کے اندر ضرور اُٹھی تھی جب اس نے سنا تھا کہ اسفند یار اسے لینے آ رہے ہیں۔
ابی جان سے وہ راستے میں بہت ساری باتیں کرے گی اور ان سے ان کے رویے کا گلہ بھی کرے گی۔ اب وہ ننھی بچی نہیں ہے کہ چھوٹی امی کی بری بھلی سن کر چھپ کر رو لے گی اور ابی جان سے کچھ بھی نہ کہہ سکے گی۔ وہ ان سے یہ بھی کہے گی کہ آخر انہوں نے اسے اتنی جلدی گھر سے کیوں رخصت کر دیا تھا۔
ابی جان کے آنے کے خیال سے وقتی طور پر اس کا دل بہل گیا تھا۔ لیکن ابی جان کی بجائے مونا کو دیکھ کر اسے ایک لمحے کو رونا سا آ گیا تھا
ShareThis
’اگر ابی جان آ جاتے تو۔۔۔۔۔‘
آفتاب ملک نے اسے کتنا دلاسا دیا تھا۔
’’اسفند آیا تو میں اس کے کان کھینچوں گا۔ یاد دلائوں گا کہ تم اسی ثمرین کی بیٹی ہو جو کبھی تمہاری زندگی تھی۔‘‘
لیکن اسفند کی جگہ مونا کو دیکھ کر انہیں بھی حیرانی ہوئی تھی۔
’’اسفند نے تو کہا تھا کہ وہ خود آئے گا۔‘‘
’’بڑے صاحب کو ضروری کام سے اسلام آباد جانا پڑ گیا تھا۔ اس لئے انہوں نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘
’’ایسا کیا ضروری کام تھا؟‘‘ انہیں غصہ آ رہا تھا۔
’’وہ جی، بیگم صاحبہ کا کوئی کام تھا۔‘‘
’’جانتا ہوں، جانتا ہوں۔‘‘ وہ بہت غصے میں تھے۔ ’’میں خود چھوڑ آتا ہوں۔ ایلا! تم تیار ہو جائو۔‘‘
’’انکل! میں چلی جائوں گی مونا کے ساتھ۔ آپ کی کل فلائٹہے۔‘‘
’’میں تمہیں چھوڑ کر رات کو ہی لوٹ آئوں گا۔‘‘
’’نہیں، پلیز انکل! یہاںچاچی اکیلی ہوں گی۔‘‘ اس نے بہ مشکل ان کا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔
اور پھر وہ لاہور آ گئی تھی۔ افسردہ تھی۔
’’اپنی چاچی کے لئے بہت دعا کرنا۔‘‘ آفتاب ملک نے اسے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا تو اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
’’رونا بالکل نہیں۔۔۔۔۔ اور یہ بھی مت بھولنا کہ تم صرف میری بیٹی ہو۔ اپنے لئے ذرا بھی پریشان نہ ہونا اور نہ سوچنا۔ میں ہوں نا تمہارے لئے سوچنے اور پریشان ہونے کو۔‘‘
اس کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے بتولاں کو بھی زبردستی اس کے ساتھ بھیجا تھا۔
’’میں کوچ میں مونا کے ساتھ چلی جائوں گی انکل! گاڑی اور ڈرائیور کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ اگر اسفند کو اپنی بیٹی کا خیال نہیں تو مجھے تو اپنی بہو کا خیال ہے نا۔ چوہدری آفتاب ملک کی بہو ایک ملازم کے ساتھ کوچ میں سفر نہیں کرے گی۔ بس اور مزید کچھ مت کہنا۔‘‘
ایلیا سوائے آنسو بہانے کے اور کہہ بھی کیا سکتی تھی۔
…٭٭٭…
’’لو۔۔۔۔۔ اگر اپنی سسرالی گاڑی میں ہی ایک عدد ملازمہ کے ساتھ چوہدرانی بن کر آنا تھا تو پھر مونا کو بلانے کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔۔۔ اتنے کام رہ گئے، دعوت کینسل کرنا پڑی۔‘‘
چھوٹی امی جو اس وقت لان میں ہی موجود تھیں اسے گاڑی اور بتولاں کے ساتھ دیکھ کر چپ نہ رہ سکی تھیں اور ایلیا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے۔
’’اچھا بی بی! ہم چلتے ہیں۔‘‘ بتولاں نے کہا تو وہ جو چھوٹی امی کے اس استقبالیہ جملے پر حیران سی گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی، چونکی۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ تھوڑا ریسٹ کر لو، گھنٹہ بھر۔ اور چائے وغیرہ پی لو۔‘‘
اُس نے ایک ملتجی نظر مونا پر ڈالی۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ میں بوا سے کہتا ہوں چائے بنانے کو۔‘‘
مونا چھوٹی امی کے مزاج سے واقف تھا اس لئے آہستہ سے کہتا ہوا تیزی سے پیچھے سے ہوتا ہوا غالباً کچن کے پچھلے دروازے سے اندر چلا گیا
Zafina
08-01-2012, 12:23 AM
’’کیا حال ہے اب تمہاری ساس کا؟ ۔۔۔۔۔ یہاں علاج نہیں تھا جو امریکہ جا رہی ہیں؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ پہلا آپریشن یہاں ہی کروایا تھا۔ کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔‘‘
چھوٹی امی کے سوال پر وہ ذرا سی حیران ہوئی اور پھر اس ذرا سے التفات پر خوش ہو گئی۔
’’کب تک واپسی ہے؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
’’ڈیڑھ دو مہینے تک خیال ہے۔ ممکن ہے پہلے ہی آ جائیں۔‘‘
ٹی وی لائونج میں قدم رکھتے ہی اس نے چاروں طرف دیکھا۔ ایک طرف کارپٹ پر انوشہ اور بدر بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ انہوں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور وہیں سے ہاتھ ہلا کر کھیل کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’آ ہا ہا۔۔۔۔۔ میرا چھکا۔۔۔۔۔‘‘ بدر اچھلا۔
وہ مسکراتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔
بتولاں کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ انوشہ نے گوٹ اپنے خانے میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ بتولاں ہے۔۔۔۔۔ میرے ساتھ آئی ہے۔‘‘
’’یہ بھی یہاں رہے گی؟‘‘
انوشہ کی آنکھوں میں حیرت اتری۔
’’نہیں۔ ابھی چلی جائے گی۔ انکل نے ساتھ بھیجا ہے۔‘‘
’’کیوں؟۔۔۔۔۔ آپ کو اکیلے ڈر لگتا تھا؟۔۔۔۔۔ مونا تو تھا نا آپ کے ساتھ۔‘‘ بدر نے پوچھا۔
وہ دونوں کھیل چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور بتولاں کی طرف دلچسپی سے دیکھ رہے تھے جس کے کانوں میں نہ جانے کتنے سوراخ تھے اور ہر سوراخ میں مندریاں پہن رکھی تھیں اس نے۔ گیلٹ کے بڑے بڑے بالے سے تھے۔ چھوٹی امی کو شاید اچھا نہیں لگ رہا تھا، انہوں نے اسے ٹوک دیا۔
’’بدر! بہت کھیل لئے۔ اب سمیٹو یہ لڈو۔ اور انوشہ! تم نے بال کٹوانے جانا تھا آج شابی کے ساتھ۔ اس سے پوچھو جا کر کہ اسے پارلر جانا ہے یا نہیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ انوشہ نے گوٹیں سمیٹ کر ڈبے میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’شابی بھابی پارلر نہیں جا رہیں۔‘‘
’’کیوں؟ صبح تو کہہ رہی تھی کہ میں شام کو جائوں گی تو نوشی کو لے جائوں گی۔‘‘
’’ہاں تو صبح اگر آپ مجھے ساتھ لے کر چلی جاتیں تو وہ شاپنگ کے لئے کیا ٹیکسی پر جاتیں؟ گاڑی چاہئے تھی انہیں۔‘‘
’’اُف۔۔۔۔۔ کس قدر مکار ہیں تمہاری یہ بھابیاں۔‘‘ وہ بڑبڑا کر اُٹھیں۔
’’ابی جان کب آئیں گے اسلام آباد سے؟‘‘ انوشہ منہ نیچے کر کے ہنسنے لگی۔
’’آ جائیں گے۔‘‘ چھوٹی امی اسے جواب دے کر کمرے میں چلی گئیں تو وہ انوشہ کو ہنستے ہوئے دیکھنے لگی۔ اس کا بیگ بتولاں نے اس کے پاس ہی کارپٹ پر رکھ دیا تھا۔
’’یہ بیگ کہاں رکھنا ہے بی بی؟‘‘ بتولاں نے پوچھا تو وہ چونکی۔
’’میں رکھوا لوں گی۔ تم چائے پیو۔‘‘
مونا ٹرے میں چائے رکھ کر لا رہا تھا۔ ساتھ میں کچھ بسکٹ بھی تھے۔
’’ڈرائیور کو چائے بھجوا دی ہے۔‘‘ اس نے ٹرے بتولاں کے سامنے رکھی۔
’’بوا کہاں ہیں؟‘‘
’’روشی بھابی کے ساتھ گئی ہیں کہیں۔‘‘ انوشہ نے جواب دیا۔
ShareThis
تبھی ابھی تک ملنے نہیں آئی تھیں۔ بتولاں چائے پی کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اب چلوں بی بی!‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ تم جائو۔ چاچی اور انکل کو میری طرف سے آداب کہنا۔‘‘
بتولاں کو رخصت کر کے اس نے انوشہ کی طرف دیکھا جو چپکے چپکے بدر کے کان میں کچھ کہہ رہی تھی۔
’’انوش! ادھر آئو گڑیا! میرے پاس آ کر بیٹھو۔‘‘
انوش نے بدر کی طرف دیکھا اور اٹھ کر اس کے پاس آ گئی۔ جبکہ بدر آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارے کر رہا تھا اور وہ اس کے اشاروں سے انجان بنتے ہوئے ایلیا کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کیا وہاں ساہیوال میں انکل آفتاب کی حویلی ایسی ہی ہے جیسی ڈراموں میں دکھاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’لیکن یہ جو نوکرانی ساتھ آئی تھی یہ تو بالکل ایسی ہی تھی جیسی چوہدریوں کی حویلیوں میں ہوتی ہیں، ڈراموں میں۔‘‘
’’ہاں۔ یہ تو ہے۔۔۔۔۔ لیکن انکل آفتاب اور چاچی بالکل ایسے نہیں روایتی جاگیردار۔ وہ تو بہت محبت کرنے والے ہیں۔ اچھا بتائو، کیا گڑیا مجھے کمرے میں رہنے دے گی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ ’’آپ کا کمرہ تو کل ہی خالی کر دیا تھا گڑیا نے۔
’’موڈ تو خراب ہو گا۔ لیکن میں ڈیڑھ دو ماہ ہی رہوں گی۔ پھر تو واپس چلی جائوں گی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ ڈیڈ نے بتایا تھا۔ اور انہوں نے ہی کہا تھا کہ شابی بھابی سے کہ وہ گڑیا کا سامان اسماء کے کمرے میں رکھ دیں۔‘‘
’’تو پھر میں اپنے کمرے میں جا سکتی ہوں نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے سر ہلایا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’مونا! میرا بیگ میرے کمرے میں رکھ دو۔‘‘
اسے اب یہاں رہنا تھا۔ کچھ عرصہ تو بہادر بننا تھا۔ انکل آفتاب نے کہا تھا۔
’’بیٹا! تمہارا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔۔۔۔۔ تمہیں ڈر کر اور شرمندہ ہو کر رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تمہارے باپ کا گھر ہے۔ سر اٹھا کر رہنا ہے تمہیں۔‘‘
وہ بے حد تھکن محسوس کر رہی تھی اور کچھ دیر لیٹنا چاہتی تھی۔ پچھلی کئی راتوں سے وہ ٹھیک طرح سے سو نہیں سکی تھی۔ اُس گھر سے یہاں آنے کا خیال ہی سوہانِ روح تھا۔ پھر چاچی بار بار رونے لگتی تھیں۔
’’پتہ نہیں، میں زندہ بچوں گی یا نہیں۔ ایلیا! میرے بعد اپنے انکل کا اور آجی کا بہت خیال رکھنا۔ دونوں ہی بہت بے پرواہ ہیں۔‘‘ چاچی کی باتیں اُسے رُلاتی بھی تھیں اور جگاتی بھی تھیں۔
مونا کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں چاچی کی صحت و زندگی کی دعا کی۔
اوپر لائونج خالی تھا اور کمروں کے دروازے بند تھے۔ گڑیا اور اسماء کے کمرے سے موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔ روشی بھابی کے کمرے میں اندھیرا تھا جبکہ شابی بھابی کے کمرے سے روشنی باہر آ رہی تھی۔
اس نے لمحہ بھر کو رک کر سب کے کمروں کے بند دروازے دیکھے اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ مانوس لیکن اجنبی در و دیوار۔
مونا نے بیگ ایک طرف رکھ دیا۔
’’چائے دے جائوں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔‘‘ مونا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور رازداری کے سے انداز میں سرگوشی کی۔ ’’وہ۔۔۔۔۔ بڑے صاحب اسلام آباد نہیں گئے۔ یہاں ہی ہیں۔ بس بیگم صاحبہ نے منع کر دیا تھا انہیں جانے کو۔‘‘
ShareThis
اُس نے سپاٹ سے انداز میں سر ہلا دیا۔ انوشہ کی ہنسی سے وہ کھٹک گئی تھی اس لئے مونا کی بات پر اسے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی آنکھوں میں کنکریاں سی چبھنے لگی تھیں۔ اس نے تکیے پر سر رکھتے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ گرم گرم آنسو آنکھوں کے کونوں سے باہر نکل کر تکیہ بھگونے لگے۔
…٭٭٭…
’’ارے۔۔۔۔۔ آپ تو بالکل ویسی ہی ہیں جیسی آج سے چار سال پہلے تھیں۔‘‘
وہ لان کے مشرقی کونے میں مصنوعی پہاڑی کے پاس کرسی رکھے بیٹھی بے دھیانی میں پہاڑی پر پڑے پتھروں کے درمیان منی پلانٹ کے پتوں کو دیکھ رہی تھی کہ اس کے سامنے آ کر کسی نے حیرت بھری خوشی سے کہا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ جو کوئی بھی تھا کم از کم پہلی نظر میں وہ اسے پہچان نہیں پائی تھی۔
’’میں آرب مصطفی ہوں۔‘‘ اس نے خود ہی تعارف کروایا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی امی کے بھائی۔‘‘ اس نے آہستگی سے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اس کے لبوں پر بڑی دل فریب مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں بے تحاشا چمک۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔
’’سنا تھا آپ آئی ہیں۔ میں آیا تو آپ جا چکی تھیں۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
’’آج میں آیا تو مجھے گمان تک نہیں تھا کہ آپ سے ملاقات ہو گی۔ کیسی ہیں آپ؟۔۔۔۔۔ کب تک رہیں گی؟‘‘
’’اچھی ہوں۔ اور ابھی کچھ عرصہ یہیں ہوں۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔۔۔ گڈ۔ پھر تو آپ سے ملاقات رہے گی۔ میں ہفتے بھر کی چھٹی پر آیا ہوں رات ہی۔ لیکن آپ نے ذکر نہیں کیا کہ آپ بھی ہیں۔‘‘
وہ کیا کہتی۔ خاموش ہی رہی۔
آج اتوار تھا۔ سب سو رہے تھے۔ اس کی ہمیشہ سے سویرے اٹھنے کی عادت تھی۔ نماز پڑھ کر اس نے کوشش کی تھی کہ نیند آ جائے لیکن نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے وہ نیچے لان میں آ گئی تھی۔
’’آپ بھی غالباً میری طرح سحر خیز ہیں۔‘‘ وہ کرسی کھینچ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔ لیکن پھر فوراً ہی کسی خیال کے آتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور کھڑے کھڑے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی۔
’’آپ خوش تو ہیں نا اپنی زندگی میں؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘
چار سال پہلے اس کی آرب مصطفی سے اتنی بے تکلفی ہرگز نہیں تھی کہ وہ اس سے اس طرح کے ذاتی سوال کرتا۔
’’آپ جانتی ہیں، اس گھر میں سب سے زیادہ میں نے آپ کو یاد کیا۔ کیا کبھی آپ نے بھی مجھے یاد کیا؟‘‘
وہ خاموش ہی رہی۔
اس نے تو شاید ان چار سالوں میں ایک بار بھی آرب کو یاد نہیں کیا تھا۔ سب کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے آرب کا خیال آیا بھی تھا تو بس یونہی لمحہ بھر کے لئے۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ نے مجھے کبھی یاد نہیں کیا ہو گا۔‘‘ وہ ہولے سے ہنسا۔ ’’شاید میں بھی آپ کو کبھی یاد نہ کرتا اگر۔۔۔۔۔‘‘ پھر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’آپ صبح کی ہوا سے لطف اٹھایئے، میں چلا جاگنگ کرنے کے لئے پارک میں۔‘‘ وہ ہاتھ ہلاتا ہوا باہر چلا گیا اور وہ اس کے نامکمل جملے کو مکمل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور سوچتی رہی کہ آرب مصطفی پہلے کے مقابلے میں خاصا مہذب اور ڈیسنٹ ہو گیا ہے اور اس کی شخصیت میں بھی بلا کی کشش پیدا ہو گئی ہے۔ دبلا پتلا، بانس سا لمبا آرب مصطفی اب جسم بھر جانے کے بعد پہلے سے کتنا مختلف لگ رہا تھا اور کتنی اپنائیت سے بات کر رہا تھا۔ کیا چھوٹی امی نے اسے منع نہیں کیا کہ مجھ سے بات نہ کرے؟۔۔۔۔۔ شاید خیال نہ رہا ہو۔ لیکن اب یقینا آج منع کر دیں گی۔
ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر لمحہ بھر کو نمودار ہو کر غائب ہو گئی۔
Zafina
08-01-2012, 12:24 AM
…٭٭٭…
پندرہ دن گزر گئے تھے۔ جون شروع ہو گیا تھا اور لاہور کی گرمی۔۔۔۔۔ لمبی دوپہریں تنہا اپنے کمرے میں چپ چاپ گزارنا۔ کتنا جی چاہتا تھا کہ اور نہیں تو انوشہ ہی اس کے پاس بیٹھا کرے اور وہ اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرے۔ وہ اسے اچھی لگتی تھی اور اس کی سچ بولنے کی عادت بہت پسند تھی اسے۔
’’سوری ایلیا! مما کو پسند نہیں کہ میں آپ کے پاس بیٹھوں۔‘‘ ایک بار اس نے انوشہ کو اپنے کمرے میں بلایا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا۔
’’مجھے خوامخواہ مما کی ڈانٹ سننے کا شوق نہیں ہے۔ اور یہ بدر ایک نمبر کا چغل خور ہے۔ فوراً مما سے جا کر جڑ دے گا کہ انوشہ، ایلیا کے پاس بیٹھی تھی۔ مما بالکل سنڈریلا کی سوتیلی مما جیسی ہیں۔‘‘
اس نے بے لاگ تبصرہ کیا تھا۔ اس کے آخری جملے پر اسے ہنسی آئی تھی۔ وہ انوشہ کو اپنے لئے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اس لئے اس نے اسے مخاطب کرنا چھوڑ دیا تھا۔
شابی بھابی اور روشی بھابی کا موڈ ہوتا تو کبھی دو چار باتیں کر لیتیں۔ ورنہ اگنور کر دیتیں۔ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کھانے کی میز پر ملتے تو ’’ہیلو، کیا حال ہے‘‘ کہہ کر فرض ادا کر دیتے تھے۔ ان سے صرف رات کے کھانے پر ہی ملاقات ہو پاتی تھی۔ یا پھر اتوار کو ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے پر۔
ابی نے ان پندرہ دنوں میں دو تین بار ہی اس سے براہِ راست بات کی تھی۔ وہ بھی چاچی کا احوال پوچھا تھا۔
آفتاب ملک دو تین روز بعد باقاعدگی سے فون کرتے تھے۔ نینا بھی اکثر فون کر لیتی تھی۔ لاہور آنے سے پہلے انہوں نے اسے سیل فون خرید کر دیا تھا اور کارڈ بھی لے دیئے تھے۔ ایک دو بار اس نے بھی فون کر کے چاچی سے بات کی تھی۔ ابھی ان کا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ مختلف ٹیسٹ ہو رہے تھے۔ نینا نے اسے بتایا تھا کہ انکل اور چاچی ان کے ہاں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ایاز تقریباً روز ہی چکر لگاتا ہے لیکن اکیلے ہی۔ انکل نے اسے سختی سے منع کر دیا ہے ہ وہ کیتھی کے ساتھ نہ آئے۔ کیونکہ انہوں نے چاچی کو ابھی تک اس کی شادی کا نہیں بتایا۔ وہ بہت جھنجلا رہا تھا۔ کیونکہ کیتھی اپنے ساس سسر سے ملنا چاہتی ہے۔ نینا نے اسے پوری تفصیل بتائی تھی۔
’’پتہ نہیں چاچی، کیتھی کے متعلق جان کر کیا محسوس کریں گی۔ وہ بہت دیر تک بے مقصد وہاں ہی بیٹھی رہی۔ حتیٰ کہ سورج کی کرنیں اس کی آنکھوں میں چبھنے لگیں تو وہ اٹھ کر اندر آ گئی۔
اندر ابھی تک خاموشی تھی۔ سنڈے کو عموماً ناشتے کی بجائے بارہ بجے ہلکا پھلکا کھانا ہی ہو جاتا تھا۔ مونا نہاری اور پائے بازار سے لے آیا تھا اور اب باورچی خانے میں بیٹھا سب کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا اور بوا قریب ہی رات کے کھانے کے لئے سبزی کاٹ رہی تھیں۔ اس نے کچن کے دروازے سے اندر جھانکا۔
’’مونا! میرے لئے ایک کپ چائے بنا دو۔‘‘
’’چائے ابھی دم کی تھی آرب صاحب کے لئے۔ آپ کو بھی بنا دیتا ہوں۔‘‘ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
وہ اتنی بے دھیان سی بیٹھی تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ کب وہ پارک سے جاگنا کر کے واپس آیا تھا۔ اس کی نظریں لمحہ بھر کو گیسٹ روم کی طرف اٹھیں۔ وہ جب یہاں سے گئی تھی تب بھی وہ گیسٹ روم میں ہی رہتا تھا اور شاید اب بھی۔
’’مونا! پلیز، تم چائے مجھے اوپر میرے کمرے میں دے جانا۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
بات کر کے وہ رکی نہیں اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ شابی بھابی کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا اور اندر سے ان کی آواز آ رہی تھی۔
’’گڑیا بہت ڈسٹرب ہو رہی ہے۔ آپ جانتے ہیں نا، اس کی اسماء سے نہیں بنتی۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ یہ بڑے بھیا کی آواز تھی۔
’’آپ کہیں نا ایلیا سے کہ وہ رہ لے اسماء کے کمرے میں۔ چند دن کی تو بات ہے۔ پھر اس نے چلے ہی جانا ہے۔‘‘
’’تو چند دن گڑیا ہی رہ لے اسماء کے ساتھ۔‘‘ شابی بھابی کی ہر بات پر ’یس‘ کہنے والے بڑے بھیا کبھی کبھی بحث پر اتر آتے تھے۔ ’’آخر اسے بھی تو یہاں ہمیشہ نہیں رہنا۔‘‘
’’لیکن ابھی تو وہ یہاں ہے ہی نا۔‘‘ شابی بھابی کی جھنجلائی ہوئی سی آواز سن کر وہ اندر ہی اندر شرمندہ سی ہو گئی۔
’اگر بڑے بھیا نے مجھ سے کہا تو میں چلی جائوں گی اسماء کے کمرے میں۔‘
ShareThis
اُس نے سوچا لیکن بڑے بھیا نے تو اس سے کچھ بھی نہ کہا۔ ہاں شابی بھابی نے ایک روز باتوں باتوں میں اسے سنا دیا۔
’’گڑیا بہت ڈسٹرب ہو رہی ہے۔ ٹھیک سے پڑھائی نہیں ہو پاتی اس سے۔ دراصل وہ اپنے کمرے میں ہی پڑھنے کی عادی تھی نا۔ اب تمہارے آنے سے اسے تمہارے لئے کمرہ خالی کرنا پڑا۔‘‘
اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔ کیا وہ کمرہ گڑیا کا تھا؟ اور اس کا اس پر کوئی حق نہ تھا؟
اندر کہیں برسات ہونے لگی تھی۔ لیکن وہ ضبط کئے مسکرائی۔
’’کوئی بات نہیں بھابی! میں کمرہ خالی کر دیتی ہوں۔‘‘
’’تو پھر تم کہاں رہو گی؟‘‘ شابی بھابی کا انداز بظاہر تشویش لئے ہوئے تھا۔
’’میں اسماء کے کمرے میں چلی جائوں گی۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔ رہنے دو ایلیا! اب تم کہاں جائو گی۔ کون سا ساری عمر رہنا ہے تم نے یہاں۔ ویسے کب واپس آ رہے ہیں انکل آفتاب؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ ابھی تو کچھ نہیں بتایا آنے کا۔‘‘ وہ جانتی تھی کہ یہ سب جو کہا جا رہا ہے محض اوپر اوپر سے۔
’’تمہیں بھی ساتھ ہی لے جاتے۔ نہ جانے کتنے دن لگ جائیں گے۔‘‘ شابی کی نگاہیں اسے کھوجتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
’’جی، وہ۔۔۔۔۔‘‘ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
’’اوہ ہاں۔۔۔۔۔ انکل آفتاب نے ابی جان کو بتایا تو تھا کہ ایاز کا ارادہ پاکستان میں سیٹل ہونے کا ہے اس لئے وہ تمہیں ساتھ نہیں لے جا رہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے گہرا سانس لیا۔
’’لیکن کیا یہ حماقت نہیں ہے؟۔۔۔۔۔ اچھا بھلا وہاں سیٹ ہے ایاز۔ یہاں کہاں دل لگے گا اس کا۔ میں کہتی ہوں چندا! سمجھائو اُسے۔ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے سر ہلا دیا۔
’’ہاں تو خیر، میں گڑیا کو سمجھاتی ہوں، چند دن جیسے بھی ہے، گزارہ کر لے۔‘‘ اٹھتے اٹھتے انہیں خیال آیا کہ گفتگو کسی اور رخ چلی گئی ہے۔ ’’وہ تو ضد کر رہی ہے، ہاسٹل چلی جائے گی۔‘‘
’’نہیں، نہیں بھابی! میں نے کہا ہے نا، میں کمرہ خالی کر دیتی ہوں۔‘‘
’’اسماء کے ساتھ گزارہ مشکل ہے۔ بعد میں گلہ نہ کرنا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور اسی روز اپنا بیگ اٹھا کر اسماء کے کمرے میں آ گئی۔
اسماء نے کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا تھا۔ البتہ ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ضرور اس کے لبوں پر بکھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسماء کے ساتھ رہنے میں اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا رویہ اتنا عجیب و غریب اور بعض اوقات اتنا ہتک آمیز ہوتا تھا کہ ایلیا کا جی چاہتا کہ وہ اسی وقت اس کے کمرے سے نکل جائے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوب واویلا کرتی۔ گو آواز باہر تک نہیں جاتی تھی۔ کبھی اس کی کوئی چیز گم ہو جاتی، کبھی کوئی۔ اس روز تو حد ہی ہو گئی تھی۔ وہ رات کے کھانے کے بعد ابھی کمرے میں آ کر لیٹی ہی تھی کہ اسماء نے کمرے میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
’’میں نے ٹیبل پر اپنی رسٹ واچ رکھی تھی۔ تم نے دیکھی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ نینا عادل کا نمبر ملا رہی تھی۔
’’کہاں گئی پھر؟۔۔۔۔۔ پچاس ہزار کی تھی۔‘‘
’’یہیں کہیں ہو گی۔ اچھی طرح سے دیکھ لو۔ کمرے میں تو کوئی آیا نہیں۔‘‘
’’تو پھر کیا جنات لے گئے؟ اور تم تو آئی ہو نا کمرے میں۔‘‘ اسماء کا لہجہ تمسخر اُڑاتا ہوا تھا۔ اس نے سیل آف کر دیا اور اس کے ہونٹ لرزنے لگے۔
’’تم مجھے بلیم کر رہی ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ لیکن میں کچھ دیر پہلے یہاں رکھ کر گئی تھی۔‘‘ وہ اِدھر اُدھر چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی اور ساتھ ساتھ مسلسل بولتی بھی جا رہی تھی۔ ’’تمہیں بھلا اس کی قیمت کا کیا اندازہ ہو گا۔ کہنے کو تو امریکہ سے آئی ہو۔ میاں بھی اچھی پوسٹ پر ہے، خوب کماتا ہو گا۔ سنا ہے جدی پشتی امیر لوگ ہیں۔ لیکن اتنی قیمتی گھڑی میں نے تمہاری کلائی پر نہیں دیکھی۔ لگتا ہے، کافی کنجوس آدمی
ShareThis
ہے۔‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔ وہ کیا ہے، تکیے کے نیچے؟‘‘ ذرا سا تکیہ ہٹا تو اسے وہاں کچھ چمکتا دکھائی دیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘ اس نے رسٹ واچ اٹھا لی اور بغیر کوئی معذرت کئے بیڈ پر لیٹ کر گانے سننے لگی۔
کچھ دیر تو ایلیا وہاں بیٹھی بے دردی سے ہونٹ کاٹتی رہی اور آنسو پینے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر اس نے تکیہ اور چادر اٹھائی اور باہر لائونج میں آ گئی۔
’’بڑا نخرہ ہے بھئی۔‘‘ اپنے پیچھے اس نے اسماء کو کہتے سنا۔ ’’یہ اپنا بیگ بھی لیتی جائو۔ کیا خبر کچھ ڈالر والر بھرے ہوں اس میں۔‘‘ اس نے قدرے اونچی آواز میں کہا لیکن وہ بنا جواب دیئے لائونج میں صوفے پر آ کر لیٹ گئی۔
’’یا اللہ! انکل آفتاب جلد آ جائیں۔‘‘ اس نے بند لبوں سے دعا کی اور آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔
صبح شابی بھابی نے اسے صوفے سے اٹھتے چادر تکیہ سمیٹتے دیکھا۔ لیکن کوئی تبصرہ نہیں کیا اور وہ کوئی تبصرہ بھی کیوں کرتیں؟ انہوں نے پہلے ہی اسے وارننگ دے دی تھی کہ بعد میں گلہ نہ کرنا۔ اسے گلہ تھا بھی نہیں۔ وہ تو بس چپکے چپکے، دل ہی دل میں چاچی اور انکل آفتاب کی جلد واپسی کی دعائیں مانگتی تھی۔
چاچی کا آپریشن ہو گیا تھا۔ لیکن ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ انہیں وہیں رہنا تھا تھراپی وغیرہ کے سلسلے میں۔ نینا کے فون سے اسے بڑی تسلی ہوتی تھی کہ چاچی اب کافی بہتر ہیں اور انہیں واکر سے چلنے میں تکلیف نہیں ہو رہی۔
وہ انتظار کرتی رہتی کہ سب لوگ سونے کے لئے چلے جائیں تو وہ آ کر صوفے پر لیٹ جائے۔ دن میں بھی وہ زیادہ تر نیچے لائونج یا کچن میں مصروف رہتی۔ کئی بار اس نے شابی بھابی، روشی بھابی اور چھوٹے بھیا، بڑے بھیا کے چہروں کو کھوجنے کی کوشش کی تھی کہ شاید کہیں کوئی ندامت، کوئی افسوس ہو۔ لیکن ان کے چہروں سے وہ کچھ اخذ نہیں کر سکی تھی۔
ایک روز مونا نے اسے صوفے پر سوتے دیکھا۔ وہ بڑے بھیا کے لئے دودھ لایا تھا۔ عموماً بھابی خود ہی لے آتی تھیں۔ لیکن اس روز انہوں نے مونا سے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ دودھ اوپر پہنچا دے۔
مونا نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ لیکن اسٹور سے میٹریس نکال لایا۔ اسٹور سیڑھیوں کے پاس ہی تھا۔
’’اس طرح تو آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی۔ یہ میٹریس بچھا لیں۔ جب کبھی زیادہ مہمان آ جاتے ہیں، چھوٹی بیگم صاحبہ کے رشتے دار تو لائونج میں میٹریس بچھا لیتے ہیں۔‘‘ اس نے ایک طرف دیوار کے ساتھ میٹریس لگا دیا۔
’’تھینک یو مونا!‘‘ اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ تکیہ اٹھا کر میٹریس پر لیٹ گئی۔ یوں رات کو سب کے سونے کے بعد وہ آ کر میٹریس بچھا دیتا اور اگر کبھی بھول جاتا تو وہ خود ہی میٹریس بچھا لیتی۔ اس دوران شابی بھابی اپنے بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھیں۔ گڑیا جاتے جاتے کمرہ لاک کر گئی تھی۔
وہ حسب معمول میٹریس پر تکیہ رکھے سونے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا، کچھ فاصلے پر سیڑھیوں کی ریلنگ پر ہاتھ رکھے آرب مصطفی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ جلدی سے دوپٹہ درست کیا اور نگاہیں جھکا کر میٹریس پر بچھی چادر کے پھولوں کو دیکھنے لگی۔
’’کیا آپ کے ہاں مہمان کو کوئی دعا سلام نہیں کیا جاتا؟‘‘ اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔
’’مہمان تو میں ہوں۔‘‘ بے اختیار ہی اس کے لبوں سے نکل گیا۔
’’میزبان تو میں بھی نہیں۔ پھر بھی میں ہی سلام کئے لیتا ہوں۔ السلام علیکم۔ کیسی ہیں آپ؟‘‘ وہ ایک قدم آگے بڑھا۔
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ ایلیا صرف اتنا ہی کہہ سکی۔ وہ ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے میٹریس کے پاس آ کر رک گیا۔ اس کی نظریں اس کے جوتوں پر تھیں۔
’’اچھے ہیں نا۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ بے اختیار ہی اس نے جھکا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
’’میرے جوتے۔‘‘ اس کے لبوں پر بڑی شریر سی مسکراہٹ تھی۔ وہ جزبز سی ہو کر پھر نیچے دیکھنے لگی۔ نگاہیں غیر ارادی طور پر اس کے جوتوں پر پڑی تھیں۔ سیاہ، چمکتے ہوئے شوز۔
’’ایلیا بی بی! انسان کو اپنا حق نہیں چھوڑنا چاہئے۔ مانا، آج سے چار سال پہلے آپ اتنی کم عمر اور معصوم تھیں کہ اس سازش کو نہ سمجھ سکیں اور غلط وقت پر کم عمری میں آپ کو اس گھر سے جانا پڑ گیا۔ لیکن اب بیس اکیس سال کی عمر میں آپ اتنا تو جانتی ہوں گی کہ اس گھر پر گڑیا، اسماء اور مجھ سے زیادہ آپ کا حق ہے۔‘
Zafina
08-01-2012, 12:24 AM
اپنی بات کر کے وہ رکا نہیں تھا، دروازے پر دستک دیتا بڑے بھیا کے گھر میں چلا گیا۔ شاید وہ آج ہی آیا تھا۔ یہ دوسری بار تھا جب اس نے آرب کو یہاں دیکھا تھا۔ شاید وہ ہر ویک اینڈ پر گھر نہیں آتا تھا۔ وہ یونہی گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے اس کے کہے لفظوں پر غور کر رہی تھی۔
’’سازش۔۔۔۔۔۔ کیسی سازش۔۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ آرب مصطفی کے لفظوں میں اُلجھی ہوئی تھی کہ بڑے بھیا نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔
’’ایلا! پلیز دو کپ چائے بنا دو۔ میں نے آبی سے کہا تھا، آج تمہاری بھابی نہیں تو فارغ ہو کر اوپر آ جانا۔ گپ لگائیں گے اور شطرنج کھیلیں گے۔‘‘
انہیں بچپن سے ہی شطرنج کا شوق تھا۔ شروع میں وہ ابی جان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ لیکن جب سے چھوٹی امی آئی تھیں یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا۔
’’جی اچھا۔‘‘
’’مونا جاگ رہا ہو تو اس سے کہہ دینا، نہیں تو خود ہی بنا لینا۔‘‘ بات کر کے انہوں نے دروازہ بند کر دیا۔
’تو بڑے بھیا کو پتہ ہے میں یہاں سوتی ہوں۔‘
وہ سمجھ رہی تھی کہ بھیا بے خبر ہیں۔ انہوں نے کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ایک گہرا دکھ اس کے دل کو چیرتا چلا گیا۔
چائے بنا کر اس نے بڑے بھیا کا دروازہ ناک کیا اور ٹرے انہیں پکڑا کر واپس میٹریس پر آ کر بیٹھ گئی۔ گھٹنوں پر سر رکھے وہ یونہی اِدھر اُدھر کی باتیں سوچتی رہی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔ اس کی پوری گزشتہ زندگی میں کچھ ایسا نہیں ہے جسے یاد کر کے وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، خود کو خوش کر لے۔
پتہ نہیں اس طرح بیٹھے بیٹھے اسے کتنی دیر گزر گئی تھی جب بھیا کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ بڑے بھیا، آرب مصطفی کے ساتھ کمرے سے باہر آئے تھے۔
’’اوکے، تھینک یو آبی! بہت مزہ آیا تمہارے ساتھ کھیلنے میں۔ یار! تم میری توقع سے زیادہ اچھے کھلاڑی ہو۔‘‘
گھٹنوں پر سر رکھے اس نے بڑے بھیا کو کہتے سنا۔ پھر قدموں کی چاپ اور دروازہ بند کرنے کی آواز پر اس نے سر اٹھایا۔ بڑے بھیا کمرے میں جا چکے تھے اور آرب مصطفی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ دل کے اندر پھر شاید کوئی امید ٹوٹی تھی۔ شاید وہ توقع کر رہی تھی کہ بڑے بھیا اس کے پاس رک کر ضرور اس سے کوئی بات کریں گے۔ لیکن بڑے بھیا اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ اس نے تکیے پر سر رکھا اور بہت دیر سے رکے ہوئے آنسو تکیہ بھگونے لگے۔
…٭٭٭…
گرائونڈ فلور کے ٹی وی لائونج میں سب لوگ جمع تھے اور سب اونچا اونچا بول رہے تھے۔ فون اسٹینڈ کے پاس رکھی صوفہ چیئر پر سر جھکائے بیٹھے بیٹھے ایلیا نے سب کی باتوں کو سننے کی کوشش کی۔
’’توبہ، توبہ۔۔۔۔۔ ایلیا کی بچی کس قدر گھنی ہے۔ ہوا تک نہیں لگنے دی کہ ایاز نے دوسری شادی کر لی ہے۔‘‘ یہ شابی بھابی کی آواز تھی جو قدرے بلند تھی۔
’’تو دوسری شادی کوئی جرم تو نہیں ہے؟‘‘ یہ چھوٹے بھیا تھے۔ اس نے سر جھکائے جھکائے محسوس کیا جیسے ان کے ہونٹوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ ہو۔ ’’آخر ہمارے ابی جان نے بھی تو دو شادیاں کی ہیں۔‘‘
’’تو۔۔۔۔۔؟‘‘ روشی بھابی کی تیکھی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ’’کہیں آپ بھی تو اپنے ابی کے نقشِ قدم پر چلنے کا نہیں سوچ رہے۔ لیکن یاد رکھئے، وہ آپ کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔‘‘
’’تم جیسی چنگیز اور ہلاکو کی جانشین بیوی کے ہوتے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’اور ایلا بے چاری نے تو ایک لفظ تک نہیں کہا ہو گا۔ بلکہ میرا خیال ہے وہ خود ایاز کے ساتھ گئی ہوں گی شادی میں۔ ہے نا ایلیا؟‘‘ انوش نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا سر اور جھک گیا۔
’’تم یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو؟ بڑوں کی باتوں میں تمہارا کیا کام ہے؟‘‘ چھوٹی امی انوشہ کو ڈانٹ رہی تھیں۔
’’فار یور کائنڈ انفارمیشن مام! میں پہلے سے ہی یہاں موجود تھی۔ آپ لوگ بعد میں آئے تھے۔‘‘
’’تم بہت بولنے لگی ہو۔‘‘
ShareThis
’’اور یہ اسفند کو بھی خوب ہی سوجھی تھی آفتاب ملک کو بیٹی کا رشتہ دینے کی۔ زریاب میں کیا برائی تھی؟ عیش کرتی ایلیا، زریاب کے گھر۔ دوسری بیوی کی تو قدر زیادہ ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ آپ کو تو تجربہ ہے اس کا۔‘‘ یہ چھوٹے بھیا تھے۔ گو انہوں نے آہستہ سے کہا تھا لیکن سب نے صاف سنا تھا۔
جواباً چھوٹی امی وہاں سے واک آئوٹ کر گئیں تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ چلو ایک بندہ تو کم ہوا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ذرا سا سر اٹھایا۔ انوشہ منہ دبائے ہنس رہی تھی۔
’’انکل زریاب تو ایلیا کے دادا جان لگیں گے۔‘‘ کسی نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔
’’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ایلا ہمیشہ یہاں رہے گی؟‘‘ روشی بھابی نے اصل اور اہم مسئلہ اٹھایا۔
’’لو، یہاں کیوں رہے گی؟‘‘ شابی بھابی نے تیزی سے کہا تھا۔ ’’کوئی ایاز نے اسے طلاق تو نہیں دی۔ دوسری شادی ہی تو کی ہے۔‘‘
’’لیکن ہم اب ایلا کو وہاں نہیں بھیجیں گے۔‘‘ بڑے بھیا کی رگِ حمیت پھڑکی تھی۔ ’’ہماری ایلا میں کیا کمی تھی بھلا جو ایاز نے دوسری شادی کر لی۔‘‘
’’خیر، ایسا تو نہ کہیں۔ کمی تو بہت بڑی ہے۔‘‘ بڑی بھابی کو بڑے بھیا کی بات شاید پسند نہیں آئی تھی۔ ’’چار سالوں میں اولاد نہیں ہوئی ایلا کی۔ اور یہ جاگیردار تو اولاد کی خاطر چار چار شادیاں کر لیتے ہیں۔ بے چارے ایاز کا کیا قصور؟‘‘
ایلیا کا جی چاہا، کاش زمین پھٹ جاتی اور وہ اس میں دھنس جاتی۔ یا کاش وہ یہاں اس وقت ان سب کے ساتھ موجود نہ ہوتی۔
بات اس طرح سے کھلی تھی کہ چھوٹے بھیا کے ایک دوست اپنے والد کو علاج کے سلسلے میں امریکہ لے کر گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو چھوٹے بھیا مزاج پرسی کے لئے گئے۔ باتوں باتوں میں آفتاب ملک کا ذکر ہوا تو چھوٹے بھیا نے ان سے ان کی مسز کا احوال پوچھ لیا۔ دوست نے بتایا کہ کافی بہتر ہیں۔
’’دراصل ایاز کی وائف کی وجہ سے انہیں ہاسپٹل میں بہت پروٹوکول ملا ہے۔‘‘
’’ایاز کی وائف؟۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔‘‘ چھوٹے بھیا کو حرت ہوئی۔
’’ہاں یار! اس کی وائف کے والد اس ہاسپٹل کے مالک ہیں۔ یا ایڈمنسٹریٹروں میں سے ہیں۔ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں۔ لیکن اس کی وائف کی وجہ سے انہیں کافی سہولت ہے وہاں۔‘‘
’’لیکن ایاز کی شادی تو میری سسٹر سے ہوئی ہے۔‘‘
’’تمہاری سسٹر؟‘‘ دوست کو حیرت ہوئی۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ چار سال پہلے ہوئی تھی۔ اور چند ماہ پہلے ہی میری سسٹر وہاں سے آئی ہے۔‘‘
’’اور یہ شادی چند ماہ پہلے ہی ہوئی ہے۔ مجھے ایک دوست نے بتایا تھا، جو ایاز کی شادی میں شریک ہوا تھا۔ کیتھی نام ہے اس کی بیوی کا۔ شاید انجینئر ہے وہ بھی۔ دونوں ایک ہی فرم میں کام کرتے ہیں۔‘‘
اور یوں وہ بات جسے ایلیا نے اب تک سب سے چھپا رکھا تھا، سب کو معلوم ہو گئی تھی۔ وہ اس وقت ٹی وی لائونج میں انوشہ کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب چھوٹے بھیا سیدھے اس کے پاس آ کر رکے تھے۔
’’ایلا! کیا ایاز نے دوسری شادی کر لی ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ ’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘
چھوٹے بھیا اسے تفصیل بتا کر اوپر چلے گئے تھے۔ اور پھر منٹوں میں جیسے ٹی وی لائونج بھر گیا تھا۔ وہ وہاں ہی بیٹھی رہ گئی تھی۔
سب ہی اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔
’’میرے خیال میں ایلا کو ساہیوال میں رہنا چاہئے، اپنے سسرال میں۔ اپنا حق چھوڑنا نہیں چاہئے۔‘‘ شابی بھابی نے اونچی آواز میں کہا۔
’’تو اور کیا۔۔۔۔۔‘‘ روشی بھابی نے تائید کی۔ ’’اپنا حق چھوڑنا حماقت ہے نری۔‘‘
’’میرے خیال میں ابی جان کو انکل آفتاب سے بات کرنی چاہئے۔‘‘ بڑے بھیا نے رائے دی۔
’’ابی جان بھلا کس منہ سے انکل آفتاب سے بات کر سکتے ہیں؟‘‘ چھوٹے بھیا ہولے سے ہنسے۔
روشی بھابی نے ایک ناگوار سی نظر ان پر ڈالی۔
ShareThis
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ ہم ایلا کو نہیں بھیجیں گے ساہیوال۔‘‘ بڑے بھیا کو جوش آیا۔
’’آپ تو چپ رہیں۔ ہمیشہ غلط بات پر جوش آتا ہے آپ کو۔‘‘ شابی بھابی نے انہیں گھرکا۔
’’بھئی، جس کا مسئلہ ہے اس سے بھی تو پوچھیں۔ وہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
’یہ آواز۔۔۔۔۔‘ ایلیا نے جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ بڑے بھیا کے پاس بیٹھا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اور یہ تیسری بار تھی کہ وہ آرب مصطفی کو دیکھ رہی تھی۔
’’ہاں، ہاں گڑیا! تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ بڑے بھیا کے لہجے میں آج نہ جانے کہاں سے پیار امڈ آیا تھا۔ اُس کا حلق نمکین ہو گیا۔
’’میں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تھوک نگلا۔ ’’میں ساہیوال ہی جائوں گی انکل اور چاچی آ جائیں تو۔‘‘ اُس نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا اور فوراً نگاہیں جھکا لیں۔
’’ہاں، تو میں بھی تو یہی کہہ رہی تھی کہ ایلا کو اپنے گھر میں ہی رہنا چاہئے۔‘‘ شابی بھابی کے لہجے میں خوشی کی کھنک تھی۔
’’آپ تو جا کر دو نفل شکرانے کے پڑھئے کہ آپ کی بہن کے لئے کمرہ خالی ہو جائے گا۔‘‘ انوشہ کی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی۔
’’انوشہ۔۔۔۔۔!‘‘ شابی بھابی نے دانت پیسے۔ ’’بہت منہ پھٹ ہو گئی ہو تم۔ ابی جان سے تمہاری شکایت لگانا ہی پڑے گی۔‘‘ انوشہ صرف مسکرا دی۔ اُس کا سر مزید جھک گیا تھا اور وہ پائوں کے ناخنوں کو دیکھ رہی تھی جب انوشہ نے اس کے قریب آ کر کہا۔
’’اب سر اٹھا لیجئے۔ لائونج خالی ہو چکا ہے۔ سب آپ کی طرف سے مطمئن ہو کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے ہیں۔‘‘
اس نے سر اٹھایا۔ بالکل سامنے بیٹھے آرب مصطفی پر اس کی نظر پڑی تو اس نے سٹپٹا کر انوشہ کی طرف دیکھا۔
’’صرف آبی ماموں ہیں اور انہیں آپ کے یہاں رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’میری طرف سے تم یہ دعویٰ کیسے کر سکتی ہو انوشہ ڈیئر! کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘ آرب مصطفی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
’’وہ ایسے کہ آپ کو ایلا کے کمرے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جبکہ باقیوں کو ہے۔‘‘
’’اور شاید تمہیں معلوم نہیں یہ ’’باقی‘‘ کب کا ایلیا کا کمرہ اس سے لے چکے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انوشہ نے آنکھیں پھاڑیں۔
’’مطلب یہ کہ تمہاری ایلا آپی آج کل باہر لائونج میں سوتی ہیں۔‘‘
’’رئیلی ایلا۔۔۔۔۔؟‘‘ انوشہ نے حیرت سے پوچھا۔
ایلا کا سر ایک بار پھر جھک گیا۔
’’میں ہوتی آپ کی جگہ تو کبھی کمرہ خالی نہ کرتی۔ یہ آپ کے ابی جان کا گھر ہے۔ گڑیا کے ابی جان کا نہیں۔‘‘ انوشہ کی پیشانی پر لکیریں سی پڑی ہوئی تھیں اور اس نے اپنی چھوٹی سی ناک نفرت سے چڑھا رکھی تھی۔
’’میرا خیال ہے آپ کو انوشہ کی صحبت کی ضرورت ہے۔‘‘ آرب مصطفی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب چلا آیا۔ اب وہ انوشہ کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا بہت دھیان سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی لانبی پلکیں لرز رہی تھیں اور وہ پلکیں جھپک جھپک کر آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’آرب۔۔۔۔۔!‘‘ چھوٹی امی اچانک ہی لائونج میں آئی تھیں۔ ’’اگر اظہارِ افسوس کر چکے ہو تو ذرا میرے بیڈ روم کا ٹی وی دیکھ لو۔ صاف نہیں آ رہا۔‘‘
آرب نے مڑ کر انہیں دیکھا اور بنا کچھ کہے ان کے بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا۔
’’اور تم ایلا بی بی! اب کیا سب کی ہمدردیاں بٹورنے کے لئے یہاں بیٹھی آنسو بہاتی رہو گی؟۔۔۔۔۔ اتنے گٹس ہوتے تو ایاز دوسری شادی ہی کیوں کرتا؟ خیر، اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ آفتاب ملک آ جائے واپس تو اسفند سے کہہ کر طلاق دلواتی ہوں۔ زریاب تو آج بھی میرے کہنے پر فوراً تم سے شادی کے لئے تیار ہو جائے گا۔‘‘
ایلیا گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔
’’نہیں چھوٹی امی!۔۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں وہاں خوش ہوں بہت۔۔۔۔۔ سب بہت اچھے ہیں۔‘‘ اس نے اٹک اٹک کر بات مکمل کی۔
’’ہوں۔۔۔۔۔ جانتی ہوں سب کتنے اچھے ہیں۔‘‘ وہ معنی خیزی سے ہنسیں تو وہ گھبرا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے سنا کہ چھوٹی امی انوشہ سے پوچھ رہی
Zafina
08-01-2012, 12:25 AM
تھیں۔
’’یہ آرب کیا کہہ رہا تھا ایلیا سے؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں مما!۔۔۔۔۔ بس کہہ رہے تھے کہ آپ اُٹھ جائیں یہاں سے تو مجھے ایک فون کرنا ہے۔‘‘
’’اوہ، اچھا۔‘‘ چھوٹی امی کی آواز کا اطمینان اس نے محسوس کیا اور انوشہ کے جھوٹ پر بے اختیار مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھر گئی۔ شابی بھابی صحیح ہی کہتی ہیں۔ یہ ننھی منی بچی انڈین سوپ ڈرامے دیکھ دیکھ کر پوری فتنہ بن چکی ہے۔
لیکن جو کچھ بھی تھا، اسے وہ اچھی لگتی تھی۔ منافقت سے دور، سچ بات کہتے ذرا نہیں جھجکتی تھی۔ لیکن موڈی تھی۔ جی چاہتا تو ہفتوں ایلیا سے بات نہیں کرتی تھی اور اسے بالکل چھوٹی امی کی طرح ہی اگنور کر دیتی تھی۔ لیکن اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ اس کے لئے اپنے دل میں کچھ نہ کچھ ہمدردی رکھتی ہے۔ اس گھر میں اور کون تھا جو اس کے لئے دل میں ہمدردی رکھتا ہو۔
’آرب مصطفی۔۔۔۔۔‘ وہ چونک کر وہیں سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک سی گئی۔ ’آرب مصطفی۔ لیکن وہ تو چھوٹی امی کا بھائی ہے۔ سب سے زیادہ نفرت کرتی ہیں وہ۔ پھر بھلا آرب مصطفی کیوں مجھ سے ہمدردی رکھے گا۔ یہ دل بھی بس۔‘
وہ ہولے ہولے چلتی ہوئی لائونج کے وسط میں کچھ دیر رکی اور پھر سائیڈ والی صوفہ چیئر پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی اور پشت سے سر ٹیکتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
…٭٭٭…
’’تو تم جا رہی ہو۔‘‘
وہ ٹی وی لائونج میں بیگ پائوں کے پاس رکھے بیٹھی تھی جب آرب مصطفی نے بالکل اچانک اس کے سامنے آ کر پوچھا تھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے نظریں اوپر نہیں اٹھائی تھیں۔ ’’انکل کل رات واپس آ گئے ہیں۔‘‘
’’ایاز بھی آ رہا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ بدستور نیچے کارپٹ کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’آپ کو یہ کارپٹ اور اس کا ڈیزائن بہت پسند ہے شاید؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ کیا کہا آپ نے؟‘‘ اس نے بے حد حیران ہو کر نظریں اٹھائیں۔ وہ ہولے ہولے مسکرا رہا تھا۔
’’آپ کو میں نے ہمیشہ ان پھولوں کے ڈیزائن پر غور کرتے پایا ہے۔۔۔۔۔ میں نے سوچا شاید یہ بہت پسند ہے آپ کو۔ یا پھر آپ اس پر غور کرتی رہتی ہیں کہ یہ ڈیزائن کیسے بنا ہے۔۔۔۔۔ کہیں مستقبل میں آپ کارپٹ فیکٹری کھولنے کا ارادہ تو نہیں رکھتیں؟‘‘
اس نے آرب مصطفی کی اس لمبی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور پھر نگاہیں نیچے کارپٹ پر مرکوز کر لیں۔
’’سوری ایلا! آپ کو میری بات بری تو نہیں لگی؟ آئی ایم جسٹ جوکنگ۔‘‘
اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اللہ نے آپ کو زبان بھی تو دے رکھی ہے نا۔ کبھی کبھی اس کا بھی استعمال کر لیا کریں۔‘‘ وہ چڑا۔ ’’خیر۔۔۔۔۔‘‘
اسے خاموش دیکھ کر کچھ دیر بعد اس نے پھر کہا۔
’’آپ نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پتہ نہیں، صحیح یا غلط۔ شاید صحیح ہو۔ انوشہ کا یہی خیال ہے کہ آپ وہاں یہاں کی نسبت زیادہ خوش رہیں گی۔ کیونکہ وہاں سب آپ سے محبت کرتے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن ایلیا!۔۔۔۔۔ ایاز نے شادی کر لی ہے۔ وہ واپس نہیں آیا۔ اسے شاید وہاں ہی رہنا ہے ہمیشہ۔ ایسے میں یہ اتنی طویل عمر محض اس کے نام پر گزار دینا عقل مندی نہیں ہے۔ آپ کو اپنے متعلق، اپنی زندگی کے متعلق فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے۔ زندگی صرف ایک شخص پر ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہیں کوئی اور آپ کے لئے خوشیاں سجائے بیٹھا ہو۔‘‘
ایلیا نے یوں ہی سر جھکائے جھکائے اس کی ساری بات کسی قدر بے توجہی سے سنی۔ اس کا دھیان انکل آفتاب کی طرف تھا۔ وہ ساہیوال واپس آ چکے تھے اور آج اسے لینے آ رہے تھے۔
ShareThis
رات ہی انہوں نے فون کیا تھا کہ وہ صبح سویرے ساہیوال سے چل پڑیں گے۔ لیکن کچھ دیر ہو گئی تھی انہیں۔ جبھی تو ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ اس نے سامنے کلاک پر نظر ڈالی۔ گھر کے سب افراد کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ ان کی واپسی پانچ بجے سے پہلے ممکن نہ تھی۔
وہ ناشتے کے بعد ہی اپنا بیگ اٹھا کر نیچے لائونج میں آ گئی تھی اور اب دو بجنے والے تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی سب لوگ گھر سے نکلے تھے اور آرب مصطفی کی آمد سب کے جانے کے بعد ہوئی تھی۔
’’ایلیا! اپنے ساتھ زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ اپنے لئے ضرور سوچئے گا اور اپنی زندگی کو ضائع مت کیجئے گا۔ یہ تو آفتاب ملک اور ان کی مسز کی خود غرضی ہے کہ وہ ساری زندگی آپ کو اپنی خدمت کے لئے اپنے پاس بٹھائے رکھیں اور وہاں ان کا بیٹا عیش کرتا رہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔‘‘ اس نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اور میں خود وہاں رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’لیکن اس طرح زندگی ضائع کرنا حماقت ہے۔ ہاں، اگر ایاز آپ کا بھی خیال رکھے تب۔‘‘
’’آپ کو اس سے کیا؟‘‘ وہ چڑ سی گئی۔ ’’آپ اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟‘‘
’’میں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں کیوں اتنی دلچسپی لے رہا ہوں، آپ نہیں سمجھ سکیں گی ایلا بی بی!‘‘
’’آپ سمجھا دیں۔‘‘ وہ اُلجھی۔
’’سمجھا دیں گے کبھی۔‘‘ آرب کی آنکھوں میں جیسے تارا سا چمکا اور اس نے ایک گہری نظر اپنی طرف دیکھتی ایلیا پر ڈالی۔ ایلیا نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں اور بے مقصد ہی بیگ کی زپ کھولنے لگی۔
’’اگر کبھی اپنی زندگی کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے لگیں تو یہ مت سوچئے گا کہ آپ آگے اکیلی ہوں گی۔ آپ ایک بار فیصلہ کر لیں تو خود کو تنہا نہیں پائیں گی۔ کوئی آپ کا منتظر ہے۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل کر کے وہاں رکا نہیں بلکہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ایلیا نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ کھولے اور پھر بند کر لئے۔
’یہ۔۔۔۔۔ یہ آرب مصطفی کیا کہہ گیا؟ اور کیوں؟۔۔۔۔۔ کون میرا منتظر ہے؟‘
وہ بے چینی سے کبھی زپ بند کرتی، کبھی کھول دیتی۔
’’کھانا لگا دوں بی بی؟۔۔۔۔۔ ملک صاحب تو ابھی تک آئے نہیں۔‘‘ مونا نے آ کر پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ مجھے بھوک نہیں۔ انکل آئیں گے تو پھر کھا لوں گی۔‘‘
’’مگر وہ آرب صاحب نے تو کھانا ہو گا۔‘‘
’’اُن سے پوچھ لو۔‘‘
وہ مونا کو جواب دے کر ایک بار پھر اُلجھی گرہیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔
…٭٭٭…
’’تو تمہارے پیپرز کل سے شروع ہو رہے ہیں؟‘‘
بوائل انڈا چھیلتے ہوئے ملک آفتاب نے ایلیا سے پوچھا جو سلائس پر بٹر لگا رہی تھی۔
’’جی انکل!‘‘ ایلیا نے جواب دیا۔
’’گڈ۔۔۔۔۔ یعنی اب آپ ہو جائیں گی انٹر پاس۔ پھر ایک دن گریجویٹ بن جائیں گی۔ اور ایک دن ماسٹرز کر لیں گی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’یہ سب آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے انکل! ورنہ میں تو۔۔۔۔۔‘‘
ShareThis
’’نہیں بھئی۔ ہماری وجہ سے کیوں؟ تم نے خود بڑی محنت کی ہے۔ ایک سال میں دو سال کی تیاری۔‘‘
’’آپ دعا کیجئے گا اچھے نمبر آ جائیں۔‘‘ ایلیا نے سلائس والی پلیٹ ان کے سامنے رکھی۔
’’دعا تو ہم ہر وقت ہی کرتے رہتے ہیں۔ اور انشاء اللہ نمبر بھی اچھے آئیں گے۔ کیوں بیوی صاحبہ! کچھ غلط تو نہیں کہا؟‘‘
’’ہاں، غلط کیوں؟ اتنی محنت کرتی ہے ہماری بچی تو صلہ تو ملے گا نا۔‘‘ بیگم ملک نے ایک شفقت بھری نظر اس پر ڈالی اور چائے کی پیالی اپنی طرف کھسکائی۔
ساہیوال کی اس بڑی حویلی کے وسیع ڈائننگ ہال میں بیٹھے ہوئے ایلیا کو اس وقت بہت رونا آ رہا تھا۔ لیکن وہ ضبط کئے بیٹھی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ ڈائننگ ہال کی طرف آ رہی تھی تو شابی بھابی کا فون آ گیا۔ پورے ایک سال بعد شابی بھابی کی آواز سن کر وہ حیران رہ گئی۔
’’شابی بھابی! آپ۔۔۔۔۔ خیریت تو ہے نا؟‘‘
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ خیریت ہے۔ تم سنائو، ٹھیک ہو نا؟ بڑی بے مروت ہو۔ کبھی دو پیسے کا فون تک نہیں کیا۔‘‘
’’میں نے فون نہیں کیا شابی بھابی؟‘‘ اس کی حیرت بڑھ گئی۔ ’’میں تو اکثر کرتی رہتی ہوں۔ لیکن آپ لوگ ہی نہیں ملتے۔ آپ نے آج ایک سال بعد فون کیا ہے۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کہہ بیٹھی۔
’’اوہ، بس ایلا! کیا کہیں۔ بچوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی جھمیلا لگا رہتا ہے۔ خیر، تم کیا جانو۔ فارغ ہو۔ ویسے ایاز کا کیا حال ہے؟۔۔۔۔۔ فون کرتا ہے یا نہیں؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ فون آتا رہتا ہے۔‘‘
’’خود نہیں آیا؟‘‘
’’آنے والے ہیں کچھ دنوں تک۔‘‘ اپنا بھرم رکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اسے اب یہ فن آ گیا تھا۔
’’اوہ، ہاں۔ آنا ایاز کے ساتھ۔ اور وہ تمہارے بڑے بھیا تو ادھر نہیں آئے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔۔۔ کیا وہ ساہیوال آئے ہوئے ہیں؟‘‘ اسے حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا۔
’’ہاں، شاید۔ کہہ رہے تھے کہ ساہیوال جائوں گا۔ کسی کام سے ملتان گئے ہوئے تھے دو دن سے۔ میں نے کہا شاید تم سے ملنے آئے ہوں۔‘‘
انہوں نے فون فوراً ہی بند کر دیا تھا گویا صرف تحقیقات مقصود تھیں اور اس کا خوش فہم دل۔
’بڑے بھیا یقینا ساہیوال آئے ہوئے ہوں گے۔ لیکن ملنے تک نہیں آئے۔۔۔۔۔۔۔ کیا خون اس طرح بھی سفید ہوتا ہے؟‘
بتولاں دوسری بار بلانے آئی تو فون ٹیبل پر رکھ کر وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ آج سنڈے تھا۔ ناشتہ ذرا دیر سے کیا جا رہا تھا۔ بہ مشکل اپنے آنسو روک کر وہ ڈائننگ ہال میں آئی تھی جہاں چاچی اور انکل آفتاب ملک اس کا انتظار کر رہے تھے۔ پورا ایک سال ہو گیا تھا اسے یہاں آئے۔ کسی نے مڑ کر اس کی خبر نہیں لی تھی۔ آج شابی بھابی کا فون بھی آیا تو صرف یہ پوچھنے کے لئے کہ بڑے بھیا اس کی طرف تو نہیں آئے۔
یہاں آفتاب ملک اور چاچی اس کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ کتنی محبت کرتے تھے اس سے۔ ایک پرائیویٹ اکیڈمی میں وہ ایف اے کی تیاری کر رہی تھی۔
’’ایف اے کر لو تو پھر اپنی پسند کے کالج میں ایڈمیشن لے لینا۔‘‘ آفتاب ملک نے اس سے کہا تھا۔
کالج کے بجائے اکیڈمی میں جانے سے یہ فائدہ تھا کہ وہ ایک سال میں ایف اے کی تیاری کر لیتی۔ میٹرک کئے اسے چار سال ہو گئے تھے۔
چاچی اس کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ کبھی رات کو بادام بھگو دیتیں کبھی مغزیات ملا کر دالیں تیار کرواتیں۔
’’اتنا دماغ خرچ کرتی ہو۔ اس سے ذہن تر و تازہ ہو گا۔‘‘
یہ دونوں اس کے کوئی نہیں تھے۔ لیکن اس کے لئے اپنوں نے بڑھ کر تھے۔
’’کیا سوچنے لگی ہو بیٹا؟‘‘ آفتاب ملک نے شفقت سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں انکل!‘‘ اس نے آنکھوں کا غم اندر ہی اندر پیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’سوچ رہی ہوں کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ مجھے آپ دونوں جیسے محبت کرنے والے شفیق لوگ ملے۔‘‘
’’بدقسمت تو وہ ناہنجار ہے۔‘‘ آفتاب ملک بڑبڑائے۔ وہ جب تک امریکہ میں رہے، نینا عادل کے گھر ہی رہے تھے اور انہوں نے ایاز سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کیتھی سے تم نے اپنی
Zafina
08-01-2012, 12:25 AM
پسند کی شادی کی ہے۔ لیکن ایلیا سے بھی رشتہ تم نے قبول کیا تھا۔ تمہاری جگہ کسی اور نے ہاں نہیں کی تھی۔ اس لئے تم ایلیا کو بھی کیتھی کے برابر حقوق دو۔ تب ہم کیتھی کو بھی قبول کر لیں گے۔ محض تمہاری خاطر۔ اگر تمہیں ایلیا کو اس کا حق نہیں دینا تو پھر ہمیں بھی کیتھی سے کوئی مطلب نہیں۔‘‘
’’لیکن بابا جان! وہ کیتھی۔۔۔۔۔ وہ اس پر راضی نہیں ہوتی۔ وہ بہت پوزیسو ہے۔‘‘ ایاز ان کے سامنے بے بس ہو جاتا تھا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تم بھی ہمیں مجبور نہ کرو کہ ہم کیتھی سے ملیں۔ نہ اسے یہاں لائو۔‘‘
نینا سے ساری بات سن کر وہ شرمندہ سی ہو گئی تھی۔
’’انکل! آپ نے خوامخواہ ایاز کو ناراض کیا۔ مل لیتے آپ کیتھی سے۔‘‘ وہ واپس آئے تو اس نے کہا۔
’’نہیں ہوتا ناراض شاراض۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔‘‘ انہوں نے اس کا سر تھپتھپایا۔ ’’جب میں نے تمہاری بات کی تھی اس سے تو کیا اس کے منہ میں زبان نہ تھی؟ میمنا تھا وہ؟ میری بیٹی کے لئے کوئی رشتوں کی کمی نہ تھی۔ چوہدری اکبر میرا یار ہے پکا۔ ڈاکٹر تھا اس کا بیٹا، ہاں نہیں تو۔‘‘
اس کا سر جھک گیا تھا۔
’’اب بھی اگر وہ۔۔۔۔۔ خیر، یہ بعد کی باتیں ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیئے تھے۔ ’’تیری چاچی اپنے قدموں پر چل رہی ہے۔ اس وقت تو اسی کی خوشی مناتے ہیں۔ کل دیگیں پکوا کر یتیم خانے بھجوانی ہیں۔‘‘ انہوں نے موضوع بدل دیا تھا۔
’’ارے ہاں۔۔۔۔۔۔ ایک خوشخبری ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے چائے کی پیالی میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا۔
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ چاچی نے پوچھا۔
’’بھئی آپ کی نینا آ رہی ہے اگلے مہینے۔۔۔۔۔ ہماری حویلی میں بھی رونقیں لگ جائیں گی۔‘‘
’’نینا آ رہی ہیں؟‘‘ وہ جیسے سب کچھ بھول کر خوش ہو گئی۔
’’ہاں۔‘‘
’’شکر ہے رب کا۔۔۔۔۔ اس کا بھی جی چاہا اپنے وطن آنے کو۔‘‘ چاچی نے شکر ادا کیا۔
’’جی کب نہیں چاہا اس کا آنے کو۔ بڑی بہادر ہے ہماری بچی۔ بڑی جدوجہد کر رہی ہے۔‘‘ آفتاب ملک کے لہجے میں افسردگی در آئی۔
’’میں نے بھی کہا ہے اسے کہ اب ارادہ کیا ہے تو بدل نہ دینا۔ یہاں رہ لو کچھ دن سکون سے۔‘‘
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔ میں تو اب جلدی نہیں جانے دوں گی۔ بہت سکھ دیا تھا اس نے ہمیں۔‘‘ وہ بہت بار کی بتائی ہوئی باتیں پھر ایلیا کو بتانے لگیں۔ ایلیا چائے پیتے ہوئے دھیان سے انہیں سن رہی تھی جب گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہوئے اچانک ہی آفتاب ملک کو یاد آیا۔
’’ارے ہاں بیٹا! کل تمہارا بڑا بھائی ملا تھا منڈی میں۔ بہت کہا گھر چلو۔ لیکن جلدی میں کہا۔ کہہ رہا تھا آنا جانا لگا رہے گا اب تو۔ کسی روز آئوں گا۔۔۔۔۔ کئی بار پہلے بھی آیا ہے لیکن میری آج ہی ملاقات ہوئی ہے۔ کسی سے بزنس ڈیلنگ ہوئی ہے اس کی یہاں۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔‘‘ آنسو ایک بار پھر حلق میں اکٹھے ہونے لگے۔
’یعنی بڑے بھیا پہلے بھی آتے رہے ہیں یہاں۔ کیا تھا گھڑی دو گھڑی کے لئے مجھ سے ملنے چلے آتے۔‘
جلدی سے چائے ختم کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’میں جا کر پڑھ لوں۔‘‘
’’ہاں، ہاں جائو۔ میں نے تو کہا بھی تھا بتولاں آج ناشتہ تمہارے کمرے میں ہی دے آئے گی۔ لیکن یہ تمہارے انکل کہتے تھے کہ تمہارے بغیر ناشتہ نہیں کریں گے۔‘‘
اس نے ایک ممنون سی نظر دونوں پر ڈالی اور تیزی سے باہر نکل آئی۔
’’ایلا کچھ پریشان لگ رہی ہے۔ کہیں ایاز کا تو کوئی فون وغیرہ نہیں آیا اس کی طرف؟‘‘ باہر نکلتے نکلتے اس نے سنا، چاچی کہہ رہی تھیں۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ ایاز کی جرأت ہے اسے کچھ کہے۔ ہاں، مجھ سے کہتا رہتا ہے کہ جب کہوں وہ پیپرز بھیج دے گا۔‘‘
ShareThis
’’ہائے نہیں!‘‘ چاچی نے یکدم کہا۔
ایلیا کا دل بھی دھک سے رہ گیا۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اس گھر کے سوا اس کا کہیں اور ٹھکانہ نہ تھا۔
’’نیک بخت! کہتا تو وہ صحیح ہے نا۔ جب اس نے کوئی تعلق نہیں رکھنا تو ہم ایلا کی زندگی کیوں تباہ کریں۔ ساری عمر ہمیں نہیں رہنا۔ ہمارے بعد ایلا کا کیا ہو گا؟ سوچتا ہوں ایلا امتحان دے لے تو اس سے بات کروں۔ ایک رشتہ ہے میری نظر میں۔ اچھا لڑکا ہے۔ ایلا مان گئی تو پھر آجی سے کہوں گا۔‘‘
گو اُن کی آواز مدھم تھی لیکن ایلیا کو سنائی دے رہی تھی۔
’’آہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چاچی نے ایک گہری سانس لی۔ ’’کتنی پیاری بچی ہے اور کتنی عزیز ہو گئی ہے مجھے۔ کبھی یہ مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی، اس تصور سے ہی میرا دل تو ڈوبنے لگتا ہے۔‘‘
’’لیکن اپنی خوشی کی خاطر ہم اس کی زندگی کو تو تباہ نہیں کر سکتے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے دل گرفتہ لہجے میں کہا۔
’’اور دیکھو ذرا۔‘‘ چاچی کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ شاید ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’اس کے گھر والوں نے مڑ کر کبھی حال تک نہ پوچھا۔ بھائی اس شہر میں آتا ہے اور بہن سے ملنے نہیں آتا۔ عجیب بے حس لوگ ہیں۔ بے چاری بچی کا ذرا سا منہ نکل آیا بھائی کے آنے کا سن کر۔‘‘
’’ہاں بیگم صاحبہ! اپنا سگا باپ بدل جائے تو پھر باقی رشتوں سے کیا گلہ۔‘‘
اس نے بھیگی پلکوں کو پونچھا اور ہولے ہولے چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی۔ آج پھر بہت دنوں بعد وہ بہت سارا روئی اور اس نے اپنی گزری زندگی کے ایک ایک لمحے کو یاد کیا۔ وہ سولہ سال جو اس نے ماڈل ٹائون والے گھر میں گزارے تھے۔ اور پھر وہ چار سال جو ایاز کے ساتھ۔ کہیں کوئی خوشی کی رمق نہ تھی۔ کوئی بہت دل خوش کن بات جو اس کے غمگین دل کو خوش کر دیتی۔ اور پھر اس نے اس گزرے ایک سال کو سوچا۔
انکل آفتاب اور چاچی کی محبتیں۔ نینا عادل کے پیار بھرے میسجز اور فون۔ اکیڈمی کی فرینڈز۔ بس یہ ایک سال تھا صرف ایسا اس کی اکیس سالہ زندگی میں جس میں کہیں کہیں خوشیوں کی گل رنگ کلیاں چٹکی ہوئی تھیں۔
’انکل آفتاب کیا سوچ رہے ہیں؟۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔ بس میں یہاں ہی رہوں گی۔ منت کر لوں گی، پائوں پکڑ لوں گی۔‘
وہ سوچتی رہی۔ پڑھنے کا موڈ نہ بن سکا۔ تب تھک کر آنکھیں موندتے ہوئے اس نے تکیے پر سر رکھ دیا اور پھر یونہی تکیے پر سر رکھے رکھے وہ گہری نیند سو گئی۔
نہ جانے کتنی دیر وہ سوتی رہی۔ کسی نے جگایا نہیں۔ پھر آہٹ پر اس کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر سامنے کلاک پر پڑی۔ چار بج رہے تھے۔
’چار بج گئے۔‘ وہ فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کتنا وقت ضائع ہو گیا۔ وہ یکدم ہی بستر سے اٹھ کر دروازے تک آئی۔ بتولاں اس کے کمرے کے باہر ہی تھی۔
’’اوہ جی، آپ جاگ گئے ہو؟‘‘ بتولاں نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
’’اتنی دیر ہو گئی۔ تم مجھے جگا دیتیں۔ چاچی اور انکل نے کھانا کھا لیا؟‘‘
’’جی کھا لیا۔ انہوں نے ہی مجھے منع کیا تھا کہ نہ جگائوں۔ رات کو بھی دیر تک پڑھتی رہی ہیں۔ پتہ نہیں کب آنکھ لگی ہو۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔ خیر اب کہاں ہیں انکل اور چاچی؟‘‘
’’وہ جی دونوں تو چلے گئے ہیں۔ ادھر پڑوس میں کسی کے گھر پرسا دینے جانا تھا۔ بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ آپ جاگیں تو کھانا لگا دوں آپ کے لئے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔ تم چائے بنا دو میرے لئے۔‘‘
’’جی اچھا۔۔۔۔۔ اوہ، میری بھی مت ماری گئی ہے۔‘‘ اس نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ ’’میں آپ کو بتانے آئی تھی کہ آپ کے مہمان آئے ہیں جی لاہور سے۔ آپ سو رہی تھیں تو میں واپس جا رہی تھی انہیں بتانے۔ آپ سے باتوں میں لگ کر دماغ سے ہی نکل گیا۔ ویسے میں نے انہیں بٹھا دیا ہے ادھر ڈرائنگ روم میں۔‘‘
’بڑے بھیا۔۔۔۔۔۔‘ اُس کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔ ’اور میں تو یونہی بدگمان ہو رہی تھی۔‘
دونوں ہاتھوں سے ماتھے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے وہ تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی۔ وہ دروازے کی طرف پیٹھ کئے دیواروں پر لگے بارہ سنگھے کے سینگوں کو دیکھ رہے تھے۔
’’بھیا۔۔۔۔۔!‘‘ اُس کی آواز میں لرزش تھی۔ تبھی وہ مڑے اور وہ وہیں ٹھٹک کر رک گئی۔
ShareThis
آب مصطفی آنکھوں میں اشتیاق کا جہان چھپائے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’آپ۔۔۔۔۔؟‘‘ مایوسی سے اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔
’’ہاں میں۔ شاید آپ کو بہت مایوسی ہوئی مجھے دیکھ کر۔‘‘
’’وہ، میں سمجھی بڑے بھیا ہیں۔‘‘ مایوسی اس کے لہجے سے بھی جھلک رہی تھی۔ ’’بیٹھئے۔ انکل اور چاچی تو گھر پر نہیں ہیں۔‘‘
’’آپ تو ہیں۔۔۔۔۔ اور میں آپ ہی سے ملنے آیا تھا۔ یہاں ایک دوست ہیں میرے۔ انہی کی طرف آئے تھے ہم کچھ دوست۔ سوچا آپ کی بھی خیر خبر لیتا جائوں۔‘‘ وہ پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’شکریہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ کارنر والے صوفے پر ٹک سی گئی۔ ’’سب اچھے تھے وہاں لاہور میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے ایک گہری نظر ایلیا پر ڈالی۔ ’’آپ کیسی ہیں؟‘‘
’اچھی ہوں۔‘‘ ایلیا کی نظریں کارپٹ کے پھولوں پر تھیں۔
’’آپ تو یہاں کی ہی ہو رہیں۔ پھر کبھی چکر ہی نہیں لگایا۔‘‘
’’آدمی کی عزت اپنے گھر میں ہی ہوتی ہے۔ اور بوا کہتی ہیں، بیٹیاں اپنے گھروں میں ہی سجتی ہیں۔‘‘
’’اپنا گھر۔‘‘ وہ ہولے سے ہنسا۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ یہ آپ کا اپنا گھر ہے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی بیوی کا گھر ہوتا ہے۔‘‘ اس کی آواز آہستہ تھی اور اس میں ہلکی سی لرزش تھی۔
’’اچھا، آپ تو بڑی عقل مند ہیں بھئی۔ ایاز نے چکر لگایا کبھی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے مختصراً کہا۔
’’آپ کب جا رہی ہیں واپس۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ یکدم چڑ گئی۔
’’آپ کو میری ذاتیات سے کیا دلچسپی ہے؟‘‘
’’سوری۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے فوراً ہی معذرت کر لی۔ ’’ایکچولی میں نہیں چاہتا کہہ آپ ایک نا قدر شناس شخص کے لئے اپنی زندگی ضائع کریں۔ آپ کو یاد ہو گا جب آپ یہاں آ رہی تھیں تو میں نے کچھ کہا تھا آپ سے۔‘‘
’’میں فضول باتیں یاد نہیں رکھتی۔‘‘
اس ایک سال میں اس کے اندر کچھ کونفیڈنس پیدا ہوا تھا اور بڑے بھیا کی بجائے اسے دیکھ کر جو مایوسی اسے ہوئی تھی وہ اندر ہی اندر غصے میں ڈھل رہی تھی۔ ورنہ وہ اس طرح کی گفتگو کرنے کی عادی نہ تھی۔
’’وہ فضول بات نہیں ہے ایلیا بی بی! زندگی کہیں آپ کے لئے اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹے بیٹھی ہیں۔ اسے ضائع مت کیجئے۔ اگر آفتاب ملک اور ان کی مسز یہاں محض اپنی دوسراہٹ کے لئے آپ کو رکھے ہوئے ہیں تو یہ سراسر خود غرضی ہے۔‘‘
’’وہ خود غرض نہیں ہیں۔‘‘ صبح کی ساری گفتگو اس کے ذہن میں گردش کرنے لگی۔ ’’میرے سارے اپنوں سے زیادہ اپنے ہیں وہ۔‘‘
’’کوئی اور بھی آپ کا ہمدرد ہو سکتا ہے۔ اتنا ہی اپنا۔ کبھی غور ہی نہیں کیا آپ نے۔‘‘ ایک معنی خیز سی مسکراہٹ نے آرب مصطفی کے لبوں کو چھوا۔
’’کون۔۔۔۔۔ آپ؟‘‘ بے اختیار ہی ایلیا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر ہنس دی۔ ’’آپ کو بھلا مجھ سے کیوں ہمدردی ہو گی؟ آپ تو۔۔۔۔۔‘‘
’’میں آپ کی سوتیلی والدہ کا بھائی ہوں۔ کیا صرف اس قصور کی بناء پر آپ مجھے اپنا ہمدرد نہیں سمجھتیں؟‘‘ انداز سوالیہ تھا۔
’’مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے گھر میں بہت خوش اور مطمئن ہوں اور مجھے اپنی ذات میں آپ کی دلچسپی کی وجہ بالکل سمجھ نہیں آئی۔‘‘
’’کبھی سمجھا دیں گے آپ کو بھی اس دلچسپی کی وجہ۔‘‘ وہ یکدم کھڑا ہو گیا۔ ’’کبھی آپ کو میری ضرورت پڑی تو یاد کر لیجئے گا۔‘‘ اس نے جیب سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھایا اور پھر اس کے قریب ہی کارنر ٹیبل پر رکھ دیا۔
Zafina
08-01-2012, 12:26 AM
’’جاتے جاتے ایک بار پھر کہوں گا کہ اپنے متعلق کبھی سنجیدگی سے سوچئے گا۔ یوں عمر آسانی سے ایاز کے والدین کی خدمت کرتے کرتے نہیں کٹے گی۔‘‘
وہ اسے حیران چھوڑ کر تیزی سے باہر نکلا اور ٹرالی دھکیلتی بتولاں نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔
’’یہ چلے بھی گئے؟۔۔۔۔۔ میں تو چائے شائے لائی تھی۔‘‘
ایلیا نے سر اٹھا کر بتولاں کو دیکھا اور پھر غیر ارادی طور پر ٹیبل سے کارڈ اٹھا لیا۔
’’چلو جی، فیر تسی ہی پی لو چائے وائے۔ یہ نگٹس اور ٹمپورا تو دیکھیں کیسا گولڈن فرائی کیا ہے میں نے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ وہ خالی خالی نظروں سے بتولاں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
’’آج تو بیگم صاحبہ بغیر اسٹک کے چل کے گئی ہیں۔ ملک صاحب تو بڑے خوش تھے جی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اسے بھی خوشی ہوئی۔ کچھ عرصے سے وہ اسٹک کے سہارے چل رہی تھیں۔ واکر کے ساتھ چلنا تو بہت پہلے چھوڑ دیا تھا انہوں نے۔
’’چائے بنائوں جی؟‘‘ اسے خاموش دیکھ کر بتولاں نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر آرب مصطفی کی باتوں کو ذہن سے نکالنا چاہا لیکن وہ تو جیسے ذہن سے چپک گئی تھیں۔ اس کی باتوں کو بھلانے کے لئے وہ یونہی بتولاں سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ حالانکہ کل اس کا پیپر تھا اور ابھی اسے بہت سارا پڑھنا تھا۔ لیکن چائے پیتے ہوئے وہ یونہی بتولاں سے لا یعنی باتیںکر رہی تھی۔
…٭٭٭…
وہ بے حد تھکی تھکی سی لائونج میں داخل ہوئی تھی کہ بڑے بھیا کی آواز سن کر ٹھٹک گئی۔
’یہ تو بڑے بھیا کی آواز ہے۔‘
آج کالج میں فنکشن تھا۔ اسے کچھ دیر ہو گئی تھی۔ ایف اے میں اس کی توقع سے زیادہ نمبر آئے تھے۔ سب ہی خوش تھے۔ انکل آفتاب، چاچی، نینا عادل، بتولاں سب ہی۔ خوش تو وہ بھی بہت تھی لیکن چار سال زندگی کے ضائع ہو گئے تھے۔
آفتاب ملک نے اس سے کہا تھا اگر وہ لاہور میں ایڈمیشن لینا چاہے تو وہ اسے لاہور کے کسی بھی کالج میں ایڈمیشن دلوا دیتے ہیں۔ ویک اینڈ پر وہ اسے حویلی لے آیا کریں گے۔
’’لاہور میں۔۔۔۔۔؟‘‘ اس کی آنکھوں کے سامنے سب کے رویے آ گئے تھے۔ ’’نہیں، یہاں ہی ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہاسٹل میں رہ لینا۔‘‘ آفتاب ملک جیسے سب جانتے تھے۔ لیکن لاہور میں اپنے باپ کا گھر ہوتے ہوئے ہاسٹل میں رہنا۔ وہ اپنا بھرم کھونا نہیں چاہتی تھی۔
’’نہیں ۔۔۔۔۔ میں یہاں کے کالج میں ایڈمیشن لوں گی۔‘‘
اور یوں اس نے تھرڈ ایئر میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اب تو چھ ماہ ہو گئے تھے۔ اور چھ ماہ پہلے جب نینا عادل بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آئی تھی ہر وقت اسے سمجھاتی رہتی تھی۔
’’چاچی اور چاچا جی سے تمہاری محبت اپنی جگہ ہے۔ آخر بیٹیاں بھی تو بیاہ کر سسرال جاتی ہیں۔ اس گھر سے تمہارا رشتہ ٹوٹ نہیں جائے گا۔‘‘
’’ٹوٹ جائے گا نینا! کچھ مجھے یہاں آنے دے گا۔‘‘ وہ نینا کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ تھی۔ ’’تم نے مجھ پر اتنے احسان کئے ہیں۔ بس ایک اور احسان کر دینا۔ ایاز کو کہنا وہ کبھی بھی مجھے طلاق نہ دے۔ چاچی اور انکل کو بھی سمجھانا۔‘‘
’’پاگل ہو تم۔‘‘ نینا نے بے بسی سے کہا تھا۔ ’’گریجویشن کر لو، پھر میں تم سے بات کروں گی۔‘‘
چادر اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے اس نے سوچا۔
’شاید مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ بھلا بڑے بھیا یہاں کہاں؟ اتنے عرصے میں تو کبھی آئے نہیں۔ حالانکہ۔۔۔۔۔۔‘
’’بتولاں! یہ ڈرائنگ روم میں کون ہے؟۔۔۔۔۔ کوئی مہمان ہے کیا؟‘‘
انہماک سے ٹی وی دیکھتی بتولاں نے چونک کر اسے دیکھا۔
ShareThis
’’اوہ، ہاں جی۔ آپ آ گئے کالج سے۔ مہمان ہیں جی۔ لاہور سے ہی آئے ہیں۔ آپ کے میکے سے آئے ہیں آپ کے بھائی۔ بڑی دیر سے آئے بیٹھے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ وہ حیران سی ڈرائنگ روم کی طرف چل دی۔ بڑے بھیا سامنے ہی انکت آفتاب کے ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے۔ سائیڈ والے صوفے پر چاچی بیٹھی تھیں۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘
آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ان کے لہجے میں ہر روز کے جیسی شگفتگی نہ تھی۔ بڑے بھیا نے یکدم اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
’’کیسی ہے میری گڑیا؟‘‘
’’اچھی ہوں۔‘‘ وہ حیران سی ان کی گرم جوشی دیکھ رہی تھی۔ ’’آپ کیسے آئے؟‘‘ سنجیدگی سے پوچھتی ہوئی وہ چاچی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔
’’وہ، میں۔‘‘ انہوں نے سر جھکایا۔ ’’تمہیں لینے آیا تھا۔‘‘
’’کیوں، خیریت ہے؟۔۔۔۔۔‘‘ اس نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ ’’ابی جان تو ٹھیک ہیں؟‘‘
’’ہاں، سب ٹھیک ہیں۔‘‘ وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’ہم نے سوچا، بہت رہ لیا تم نے یہاں۔ اب ہمارے پاس رہو۔‘‘
’’کیا گڑیا چلی گئی یا اس کی شادی ہو گئی؟‘‘ بے اختیار ہی اس کے لبوں سے نکلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں وہ ادھر ہی ہے۔‘‘ بڑے بھیا نے پھر سر کھجایا اور ہولے سے کھنکھارے۔ ’’اصل میں بات یہ ہے گڑیا! کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایاز نے دوسری شادی کر لی ہے اور۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ بات تو آپ کو تبھی پتہ تھی جب میں یہاں آئی تھی۔‘‘ اس نے انہیں بات مکمل نہیں کرنے دی۔
’’ہاں، ہاں۔ وہ اصل میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایاز تمہیں بسانا نہیں چاہتا۔ وہ دوسری بیوی کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے اور تمہیں یہاں اپنے والدین کی خدمت کے لئے رکھ چھوڑا ہے اس نے تو۔۔۔۔۔‘‘
’’جھوٹ ہے یہ۔ میں خود یہاں اپنی مرضی سے رہ رہی ہوں۔ اور انکل یا چاچی کو اپنی خدمت کے لئے میری ضرورت نہیں ہے۔ بہت ملازم ہیں یہاں۔ شاید آپ کے علم میں نہ ہو، میں یہاں رہ کر اپنی ادھوری تعلیم مکمل کر رہی ہوں۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔۔۔۔۔ ابھی بتایا ہے انکل نے۔ یہ تم نے اچھا کیا۔ دراصل ابی جان چاہتے ہیں کہ اگر ایاز تمہیں ساتھ نہیں رکھنا چاہتا تو تمہیں طلاق دے دے۔ میں یہی کہنے آیا تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ ششدر سی ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔ ڈیڑھ سال پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا جب سب ہی اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے اور خاموش بیٹھے آرب مصطفی نے یکدم کہا تھا۔
’’جس کی زندگی کا فیصلہ آپ کر رہے ہیں اس کی بھی تو رائے لیں، وہ کیا چاہتی ہے۔‘‘ اور آرب مصطفی چھوٹی امی کا بھائی ہونے کے باوجود پتہ نہیں کیوں اس کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا۔
جس روز اس کا ایف اے کا رزلٹ آیا تھا، وہ یونہی ماڈل ٹائون فون کر بیٹھی۔ انوشہ نے اٹھایا تھا۔
’’ہیلو، ایلا! کیسی ہو؟۔۔۔۔۔ ’’بھابی! ایلا کا فون ہے۔‘‘ وہ ریسیور ہاتھ میں لے کر چیخی تھی۔
’’تم ہی بات کر لو۔۔۔۔۔ میں تو بوبی کو نہلانے جا رہی ہوں۔‘‘ شابی بھابی کی آواز اس نے صاف سنی تھی۔
’’ہاں تو ایلا! کیا کر رہی ہو آج کل؟‘‘ انوشہ اس سے پوچھ بیٹھی تھی۔ اس نے بجھے دل سے اپنی کامیابی کا بتا کر فون کر دیا تھا۔ کیا تھا اگر شابی بھابی اس کی خیر خیریت پوچھ لیتیں۔ وہ افسردہ سی بیٹھی تھی۔ تبھی اس کا سیل فون بج اٹھا تھا۔ اجنبی نمبر دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔ دوسری طرف آرب تھا۔
’’مبارک ہو کامیابی کی۔‘‘ انوشہ نے اسے بتایا ہو گا۔
’’تھینک یو۔‘‘ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
’’اسی لگن سے پڑھتی رہئے۔ اور کسی سے ڈریئے گا مت۔ اور جب بھی اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرنے لگیں، میرے متعلق بھی سوچ لیجئے گا۔‘‘
ShareThis
فون کھٹ سے بند ہو گیا تھا۔ وہ ریسیور ہاتھ میں لے کر گھورتی رہ گئی تھی۔
’’انکل سے میری بات ہو چکی ہے۔ وہ ایاز سے بات کریں گے۔ اور جہاں تک تمہاری تعلیم کا تعلق ہے تم لاہور میں بھی مکمل کر سکتی ہو۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تڑپ کر بڑے بھیا کی طرف دیکھا۔ ’’مجھے ایاز سے طلاق نہیں لینی۔ کسی بھی صورت نہیں۔ میں یہاں بہت خوش ہوں اور مجھے ایاز سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ انہوں نے میری اجازت سے شادی کی ہے۔ ان کا حق تھا۔ انہیں اولاد کی ضرورت ہے۔ اور ابی جان سے کہہ دیجئے کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ بہت مطمئن اور خوش ہوں۔‘‘
’’ہاں، وہ تو ٹھیک ہے۔ ابی جان نے تو تمہارے بھلے کے لئے ہی کہا تھا۔‘‘ بڑے بھیا اٹھ کھڑے ہوئے۔
آفتاب ملک کے بجھے بجھے چہرے پر رونق سی آ گئی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چاچی کے پاس بیٹھ گئی جیسے اندر سے تحفظ کی متلاشی ہو۔
’’تمہاری مرضی ایلا!۔۔۔۔۔ ویسے ابی جان سمیت ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ تم ایاز سے طلاق لے کر اپنے گھر میں رہو۔۔۔۔۔ یہاں صرف روٹی کپڑے پر غلامی مت کرو۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل کر کے تیزی سے باہر نکل گئے۔ آفتاب ملک انہیں روکتے رہ گئے۔
’’چاچی!‘‘ وہ رو پڑی تو انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’جھلّی نہ ہو تو۔ روتی کیوں ہے؟‘‘
’’چاچی! مجھے کہیں نہیں جانا۔ مجھے یہاں ہی رہنا ہے، آپ کے پاس۔‘‘
آفتاب ملک واپس مڑے تو انہوں نے ان کی طرف دیکھا۔
’’یہ اسفند بھائی کو کیا ہوا اچانک۔ بھلا لوگ بیٹیوں کے گھر اجاڑتے ہیں یا بسائے رکھنے کی ترکیبیں سوچتے ہیں۔‘‘ چاچی نے کہا۔
’’ہاں، اسفند کا اچانک طلاق کا مطالبہ مجھے بھی حیران کر رہا ہے۔‘‘ آفتاب ملک سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ’’یکایک اسے ایلیا سے اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ سوچنے والی بات ہے۔ لیکن باپ ہونے کے ناتے غلط وہ بھی نہیں کہہ رہا۔ ہمیں ایاز سے حتمی بات کرنا ہو گی۔ ساری زندگی۔۔۔۔۔‘‘
’’انکل پلیز!‘‘ ایلیا نے روتے روتے سر اٹھا کر التجا کی۔
’’جب بچی ایسا نہیں چاہتی تو اسفند بھائی کو کیا تکلیف ہے۔۔۔۔۔ کیا پھر کوئی بوڑھا ڈھونڈ لیا ہے بیٹی کے لئے؟‘‘ چاچی جل کر بولیں۔ ایلیا اور زور و شور سے رونے لگی۔
’’چپ کر جائو میری بچی! میرے ہوتے تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب تک زندہ ہوں اپنے سینے سے لگا کر رکھوں گی۔ اور ایاز کو بھی دیکھ لیتی ہوں، کیسے تمہیں بھی ساتھ نہیں رکھتا۔ اب تک میں خاموش باپ بیٹے کے مذاکرات دیکھ رہی تھی۔ اب میں خود بات کروں گی۔‘‘
’’چاچی!۔۔۔۔۔ چاچی! پلیز۔ کسی سے کچھ نہ کہیں۔ میں بس آپ کے قدموں میں رہوں گی۔‘‘
’’لو بھئی، تمہاری چاچی اب میدان میں کود پڑی ہیں۔ اب خیر نہیں ایاز پتر کی۔‘‘ آفتاب ملک نے ہنس کر ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
’’تو اور کیا۔۔۔۔۔ صاف صاف کہہ دوں گی، اُس چٹی چمڑی والی کو کہہ دے کہ مکھی بنا کر ڈبیا میں رکھ لے کہیں۔ انسان کو تو سارے رشتے نبھانے ہوتے ہیں۔‘‘
’’لو بھئی ایلیا بیٹا! اب آ گیا ہے تمہاری چاچی کو جلال۔ اب تماشا دیکھو۔‘‘
’’بتولاں۔۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے آفتاب ملک کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے آواز دی۔ ’’بچی بے چاری تھکی ہاری، بھوکی پیاسی کالج سے آئی تو یہاں یہ ڈراما تیار تھا۔ کھانا گرم کرو اور ٹیبل پر لگا دو۔۔۔۔۔ اتنے سال تو خبر نہیں لی بیٹی کی، اب پیار اُمڈا چلا آ رہا ہے۔ پوچھنا تو تھا ذرا اسفند یار سے۔‘‘ انہوں نے اپنا رخ آفتاب ملک کی طرف کر لیا۔ ’’کیا بیوی کا کوئی رشتے دار پھر رنڈوا ہو گیا ہے جو طلاق مانگ رہے ہیں؟‘‘
’’تمہاری چاچی مدت بعد یوں فل فارم میں آئی ہیں۔‘‘ آفتاب ملک ہنسے تو روتے روتے وہ بھی مسکرا دی۔
اگلے کئی دن وہ ڈسٹرب رہی تھی۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اچانک ابی جان کو کیا سوجھی۔ ایک طرف تو انہوں نے اسے رخصت کرنے کے بعد ایک بار بھی فون نہیں کیا تھا۔ کبھی اس کا احوال نہیں پوچھا تھا حالانکہ وہ ڈیڑھ سال سے پاکستان میں تھی۔ لیکن اب اچانک بڑے بھیا کو بھیج کر اس کی طلاق کا مطالبہ۔۔۔۔۔
’کہیں چاچی کی بات سچ ہی نہ ہو کہ چھوٹی امی ایاز سے طلاق دلوا کر اپنے کسی بوڑھے عزیز سے اس کی شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘
’آرب۔۔۔۔۔‘
Zafina
08-01-2012, 12:26 AM
ایک لمحے کے لئے اسے خیال آیا کہ وہ آرب سے پوچھے۔ اس کا دیا ہوا وزیٹنگ کارڈ اس کے پرس میں پڑا تھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے اس خیال کو ذہن سے نکال دیا۔
’آ گیا ہو گا خیال ابی جان کو۔۔۔۔۔ اور آرب بھلا کہاں سچ بتائے گا؟ ہے تو وہ چھوٹی امی کا بھائی ہی نا۔ لیکن اس نے کہا تھا، کوئی آپ کا منتظر ہے۔ میرے متعلق سوچئے گا۔‘
’مجھے کیا۔۔۔۔۔ مجھے تو ہمیشہ یہاں ہی رہنا ہے۔‘
سارے خیالات ذہن سے جھٹک کر اس نے خود کو پڑھائی میں مصروف کر لیا۔
…٭٭٭…
اس روز وہ چاچی کے کمرے میں ان کے بستر میں گھسی بیٹھی تھی۔
صبح سے خوب بارش ہو رہی تھی۔ اس نے کالج سے چھٹی کر لی تھی اور اب چاچی کے پاس ہی ان کے کمبل کو اپنے اردگرد اچھی طرح لپیٹے ان سے اِدھر اُدھر کی گپیں لگا رہی تھی۔
’’یہ بتولاں سے کہا تھا کہ گاجر کا حلوہ گرم کر کے لے آئے۔ اس موسم میں تو کچھ نہ کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ چاچی نے ایک شفقت بھری نظر اس پر ڈالی۔
’’ابھی کچھ دیر پہلے کھانا کھایا تھا۔‘‘
’’لو۔۔۔۔۔ کتنا کھا لیا تھا۔ آدھا پھلکا بھی نہیں کھایا تم نے۔ اور یہ تمہارے انکل کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’اسٹڈی میں تھے جب ادھر آ رہی تھی۔ ایک دم بارش ہوئی تو مجھے ڈر لگنے لگا۔‘‘
’’جناب حاضر ہیں۔ خیریت تھی؟ آج ہماری بیگم صاحبہ کو ہماری یاد کیسے آ گئی؟‘‘ آفتاب ملک ہاتھ میں ایک البم اٹھائے اندر آئے۔
’’لو، میں نے بتولاں کو گجریلا گرم کرنے کو کہا تھا۔ آپ کو پسند ہے، اس لئے پوچھ رہی تھی۔‘‘
’’کبھی ہمارا دل بھی رکھ لیا کریں بیگم صاحبہ!‘‘ وہ مسکراتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’ہاں، ایلا بیٹے! ادھر آئو۔ ایک چیز دکھاتے ہیں تمہیں۔‘‘
’’کیا انکل؟‘‘ وہ اشتیاق سے انہیں دیکھتی بیڈ سے اتر آئی۔
’’لو۔۔۔۔۔۔۔ اتنے آرام سے کمبل میں بیٹھی تھی۔ آپ نے سردی میں اٹھا دیا۔‘‘ چاچی بڑبڑائیں۔ لیکن ان کی طرف توجہ دیئے بغیر آفتاب ملک نے البم کھولی۔
’’یہ دیکھو ایلیا! تمہاری ممی۔‘‘
’’میری ممی۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا اور البم پر جھک گئی۔
’’یہ ان دنوں کی تصویر ہے جب وہ کالج میں پڑھتی تھی۔ میں آج کتابیں سیٹ کر کے رکھ رہا تھا کہ یہ البم نکل آئی۔ یہ دیکھو۔‘‘ انہوں نے صفحہ الٹا۔ ’’شادی کے بعد پہلی بار تمہارے ابی جان اور امی میرے گھر آئے تھے تو یہ تصویر میں نے یہاں صحن میں بنائی تھی۔ دیکھو، یہ اُدھر کچن کی دیوار کے ساتھ پڑے گملے نظر آ رہے ہیں۔‘‘
وہ بے حد اشتیاق سے چمکتی آنکھوں سے تصویریں دیکھ رہی تھی۔
’’یہ میری ممی ۔۔۔۔۔ کتنی خوب صورت ہیں۔‘‘
’’بالکل تمہارے جیسی تھیں۔ تمہارا قد تھوڑا لمبا ہے اس سے۔‘‘ چاچی نے بہت محبت سے کہا۔ ’’ورنہ بنی بنئی ثمرین ہو۔‘‘
’’ایک اور تصویر بھی ہے۔‘‘ انہوں نے صفحہ اُلٹا۔ تب ہی بتولاں اندر آئی، ٹرے میں گاجر کے حلوے کا ڈونگا اور پلیٹیں رکھے۔ ساتھ میں ایک برائون سا لفافہ بھی۔
’’جی، یہ ڈاکیہ دے گیا ہے۔ میں نے سائن کر دیئے تھے۔‘‘ اس نے خوش ہو کر بتایا۔ اکثر آفتاب ملک کے نام کتابیں یا رسالے آتے تو وہی سائن کر دیتی تھی۔
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ آفتاب ملک نے البم ایلیا کو پکڑا کر لفافہ لے لیا۔ ایلیا البم لے کر کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور بہت دھیان سے دیکھ رہی تھی۔ چاچی بھی جھکی تصویریں دیکھ رہی تھیں۔
’’ارے۔۔۔۔۔ یہ تو ایاز کا خط ہے۔ اور ایلیا کے نام ہے۔‘‘
آفتاب ملک نے لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور لفافہ پکڑ لیا۔
’’میرے نام؟‘‘
ShareThis
’’ہاں۔۔۔۔۔ تمہارا ہی نام لکھا ہے باہر۔‘‘
آفتاب ملک کچھ بے چین سے ہو گئے تھے۔ بڑے بھیا کے آنے کے بعد انہوں نے ایاز سے بات کی تھی لیکن اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب جب کہ کیتھی ماں بننے والی ہے، اس موقع پر وہ اسے کوئی شاک نہیں پہنچانا چاہتا۔ پھر یہ خط؟ ۔۔۔۔۔ حیرانی کی کیفیت میں ایلیا نے لفافہ چاک کیا۔
’’سوری ایلیا! میں تمہارے ساتھ رشتہ نبھا نہ سکا سو میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں تاکہ تمہارے والدین تمہاری دوسری شادی کسی اچھی جگہ کر دیں اور تم ایک بہتر زندگی گزار سکو۔ طلاق کے مکمل پیپرز تمہیں ایک دو روز میں مل جائیں گے۔‘‘
خط کے ساتھ کاغذ منسلک تھا جس میں اس نے باقاعدہ طلاق دی تھی۔ لمحہ بھر وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھتی رہی، پھر اس کے لبوں سے چیخ نکلی۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا ہوا؟۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ آفتاب ملک گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’میں نے کتنی منت کی تھی، کتنی التجا کی تھی کہ۔۔۔۔۔‘‘ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔ وہ یکدم ہی پیچھے کی طرف گری تو چاچی نے اسے تھام لیا۔ شاید چند ہی لمحوں بعد اس کے حواس واپس آ گئے تھے۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا، اس کا سر چاچی کی گود میں تھا اور وہ اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کی پیشانی پونچھ رہی تھیں۔
’’آپ پوچھیں تو سہی اس سے، کیوں کیا اُس نے ایسا؟ کیا تکلیف تھی اُسے؟ کیا اُس کا دیا کھاتی تھی ایلیا؟‘‘
آنسو اس کے رخساروں پر بہنے لگے۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ پوچھتا ہوں۔‘‘ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر وہ اپنے موبائل پر ایاز کا نمبر ڈائل کرنے لگے۔ وہ چاچی کے گلے سے لگ کر روتی رہی۔
’’ہیلو!۔۔۔۔۔ ہاں ایاز! سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟۔۔۔۔۔ بات سن لو، پھر سوتے رہنا۔‘‘ وہ باتیں کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
’’چاچی! میں تو یہاں رہنا چاہتی تھی، آپ کے پاس، آپ کی محبتوں کے سائے تلے۔ میں نے تو ایاز سے کچھ طلب نہیں کیا تھا، کچھ نہیں مانگا تھا۔ بس اتنا ہی کہا تھا کہ اپنا نام میرے نام کے ساتھ رہنے دے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ماں باپ کی محبتوں کا ذائقہ چکھا تھا۔ چاچی! آپ کی گود میں سر رکھ کر مجھے لگتا تھا جیسے میں نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھا ہو۔‘‘
’’میری بچی!‘‘ چاچی کا ضبط بھی جواب دے گیا۔
آفتاب ملک جب واپس کمرے میں آئے تو دونوں ایک دوسرے سے گلے لگے بے تحاشا رو رہی تھیں۔ وہ ہونٹ بھینچے کچھ دیر کھڑے انہیں دیکھتے رہے، پھر ایلیا کو کندھوں سے پکڑ کر الگ کیا۔
’’مت رو زبیدہ! کیوں بچی کو ہلکان کر رہی ہو؟۔۔۔۔۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ کاش ایاز نے مجھ سے پہلے بات کر لی ہوتی۔‘‘
’’کیا کہتا ہے وہ؟‘‘ چاچی نے اپنے آنسو پونچھے۔
’’وہ کہتا ہے کہ کئی دنوں سے اسفندیار اور بڑے بھیا کے فون آ رہے تھے اور وہ اسے مجبور کر رہے تھے کہ وہ ایلیا کو طلاق دے دے۔ جب کہ اس نے انہیں کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی۔ جس پر اسفند یار نے اس سے کہا کہ وہ اپنا برا بھلا نہیں سمجھتی۔ لہٰذا اگر اس نے طلاق نہ دی تو وہ عدالت کے ذریعے خلع لے لیں گے۔ اسفند نے وکیل کی طرف سے نوٹس بھی بھجوایا تھا طلاق کا تو اس نے۔۔۔۔۔‘‘
’تو ابی جان نے؟‘‘ ایلیا کے بہتے آنسو کچھ دیر کے لئے خشک ہو گئے۔ ’’لیکن کیوں؟‘ وہ سوچ میں ڈوبی پریشان نظروں سے آفتاب ملک کو دیکھنے لگی۔
’’میں خود سمجھ نہیں پا رہا کہ اسفند کو اچانک کیا ہو گیا ہے۔ تمہاری چاچی بہت پُر امید تھی۔ ایاز کبھی ماں کی بات نہیں ٹال سکتا تھا۔ پھر ایاز کو کیتھی کے ساتھ شادی کرنے کے بعد تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں تمہارے لئے ایک نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا لیکن سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘
’’اب کچھ نہیں ہو سکتا؟‘‘ چاچی نے پُر امید نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’نہیں۔‘‘ آفتاب ملک مایوسی سے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’اس نے جلد بازی میں تینوں طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں اور ہمارے فقے کی رو سے طلاق ہو گئی ہے۔ جب کہ احسن طریقہ ایک ایک کر کے طلاق دینے کا تھا۔‘‘
آنسو ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ تینوں کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
ShareThis
آفتاب ملک سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گئے۔ وہ چاچی کی گود میں سر رکھے وقفے وقفے سے روتی رہی۔ ٹرے میں رکھا گاجر کا حلوا یونہی پڑا رہا۔ اس رات ان تینوں میں سے کسی نے کھانا نہیں کھایا۔
…٭٭٭…
اگلے تین دن بھی یونہی گزر گئے۔
وہ تینوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے۔ کسی نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ بس چند لقمے کھا کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ وہ سوچتی رہتی کہ وہ واپس نہیں جائے گی، یہاں ہی رہے گی، اپنی مرضی سے۔ وہ عاقل و بالغ لڑکی ہے۔ اگر ابی جان نے سختی بھی کی تب بھی نہیں جائے گی۔ لیکن جب چار دن بعد ابی جان اور چھوٹے بھیا اسے لینے آئے تو وہ کچھ بھی نہ کر سکی۔
’’چلو۔۔۔۔۔ ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ ایاز نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔ اب تمہارے یہاں رہنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔‘‘ یہ اسفندیار تھے۔
’’میں اپنے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھی۔ آپ نے میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا ابی جان؟‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’یہ ظلم نہیں ہے۔‘‘ ان کا لہجہ سپاٹ تھا۔ ہر طرح کے جذبات سے عاری۔ ’’ہم نے جو کچھ کیا ہے تمہاری بہتری کے لئے کیا ہے۔ اب چلنے کی تیاری کرو۔‘‘
’’میں یہاں رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کس رشتے سے۔۔۔۔۔؟‘‘ چھوٹا بھیا کے لہجے میں طنز تھا۔ ’’تمہارا ان سے اب کوئی رشتہ نہیں رہا۔ اور ہم اتنے بے غیرت نہیں کہ طلاق کے بعد بھی تمہیں رہنے رہنے دیں۔‘‘
اسفند! ایلیا تمہاری بیٹی ہونے کے ناتے میری بھتیجی بھی ہے۔ بہو کے ناتے نہ سہی، اس رشتے کے ناتے اسے یہاں رہنے دو۔ کم از کم ایک سال۔ اور اس کی گریجویشن مکمل ہو جائے تو لے جانا اسے۔‘‘ آفتاب ملک کے لہجے میں التجا تھی۔
’’کیوں، کیا لاہور کے سارے کالج بند ہو گئے ہیں؟‘‘ اسفند یار کا لہجہ تیکھا تھا۔
’’مجھے نہیں جانا واپس۔‘‘ وہ یونہی بیٹھی رہی۔
’’بکو مت۔ اُٹھو، کچھ سامان لینا ہے تو لے لو۔‘‘ اسفند یار نے اسے گھرکا۔
’’اگر وہ نہیں جانا چاہتی تو تم اسے زبردستی نہیں لے جا سکتے۔ عاقل و بالغ ہے وہ۔‘‘ آفتاب ملک کے لہجے میں تپش تھی جسے محسوس کر کے اسفند یار بھڑک اُٹھے۔
’’تم اسے روکو گے ملک؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ اگر یہ نہیں جانا چاہتی تو۔‘‘
’’کس رشتے سے؟۔۔۔۔۔۔۔ کیا لگتی ہے یہ تمہاری؟۔۔۔۔۔۔ کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے؟‘‘
’’کوئی رشتہ نہ ہو۔ لیکن تم اس کی مرضی کے بغیر اسے نہیں لے جا سکتے اسفند! میں پولیس کی مدد۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا کہو گے تم پولیس سے؟‘‘ اسفند عجیب طرح سے ہنسے۔ ’’یہ میری بیٹی ہے، تمہاری نہیں۔ اگر تم اس بات کا اعتراف کر لو کہ تمہارے میری بیوی کے ساتھ۔۔۔۔۔‘‘
’’شٹ اپ اسفند!‘‘ آفتاب ملک کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور آنکھیں جیسے خون اُگلنے لگیں۔ ’’اس سے آگے ایک لفظ مت کہنا۔ ورنہ اپنے قدموں پر چل کر نہیں جا سکو گے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ تم اتنے گھٹیا اور کمینے بھی ہو سکتے ہو۔ لیکن نہیں، جو باپ اپنی پندرہ سولہ سالہ معصوم بچی پر الزام لگا سکتا ہے۔ اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنی مرحوم بیوی کی پاکیزگی پر۔۔۔۔۔ تف ہے تم پر اسفند یار!‘‘ انہوں نے زمین پر تھوک دیا اور ایک قدم آگے بڑھ کر ایلیا کے سر پر ہاتھ رکھا جو خالی خالی نظروں سے سامنے کی دیوار کو دیکھ رہی تھی۔
’’جائو بیٹی! اللہ کے سپرد کیا۔ ہم نے اگر کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا۔‘‘ وہ ساکت بیٹھی رہی۔
’’بتولاں! فاطمہ، حفیظ اور مراد سے کہو بہو کا سارا سامان پیک کروا کر ان کے ساتھ روانہ کر دیں۔‘‘
جہیز کے نام پر سامان ہی کیا تھا۔ چند جوڑے کپڑوں کے اور ایک دو ہلکے سے جیولری کے سیٹ۔ برتن اور فرنیچر کا آفتاب ملک نے منع کر دیا تھا۔ اسفندیار نے کہا تھا وہ بعد میں چیک دے دیں گے۔ جو ابھی تک نہیں دیا گیا تھا۔ ہاں، بری کے بھاری بھاری سیٹ، چوڑیاں، کڑے، کنگن سب کچھ تھا جو آفتاب ملک نے لاکر سے نکال کر ایلیا کے حوالے کر دیا تھا۔
Zafina
08-01-2012, 12:26 AM
’’یہ سب تمہارا ہے بیٹی! تمہارا حق ہے۔ شرعاً بھی اور قانوناً بھی۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔ کبھی مشکل وقت میں کام آئے گا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ تمہارے حق مہر کی رقم پانچ لاکھ تمہارے اکائونٹ میں جمع کروا دی تھی۔ چیک بک ساتھ لے جانا اور لاہور میں اکائونٹ کھلوا کر وہ ٹرانسفر کروا لینا۔‘‘
جب بتولاں کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں آئی تو آفتاب ملک بھی اس کے ساتھ ہی آ گئے تھے۔
’’بیٹی! جو کچھ بھی لینا چاہو لے جائو۔‘‘
تب پہلی با اس نے جھکا ہوا سر اٹھایا۔
’’میری مما کی تصاویر۔‘‘
وہ خاموشی سے باہر نکل گئے اور پھر آ کر لفافہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
اپنی نگرانی میں انہوں نے اس کے کپڑے پیک کروائے زیورات کا بیگ اس کے حوالے کیا۔ اور جب اس کا ہاتھ تھامے باہر آئے تو ضبط کی کوشش میں ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ زبیدہ بیگم اسی طرح ساکت بیٹھی تھیں۔ جب کہ اسفند یار اور چھوٹے بھیا کے چہرے پر اطمینان تھا۔
’’آج کے بعد میرے اور تمہارے درمیان دوستی کا ہر رشتہ اور تعلق ختم ہو گیا ہے اسفند یار!۔۔۔۔۔ آج کے بعد مجھے یاد تک نہیں رہے گا کہ کبھی تمہارے نام کا کوئی شخص میرا دوست تھا۔ جو لفظ تم نے اپنی زبان سے نکالے تھے اسی وقت سب تعلق ختم ہو گئے۔‘‘
’’بس یا اور کچھ؟‘‘ اسفند یار چھوٹے بھیا کو اشارہ کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ وہ یونہی کھڑی تھی اور اس کے پیچھے بتولاں کے ساتھ حفیظ اور مراد (چوکیدار اور مالی) اٹیچی کیس اٹھائے کھڑے تھے۔ بتولاں کے ہاتھ میں بیگ تھا۔
’’چلو۔‘‘ انہوں نے ایلیا کا بازو پکڑ کر کھینچا۔ ایلیا یکدم ان سے بازو چھڑا کر چاچی کی طرف بھاگی۔
’’چاچی۔۔۔۔۔‘‘ وہ ان سے لپٹی رو رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی۔ بتولاں، حفیظ، مراد سب کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ چاچی نے بڑی مشکل سے اسے خود سے الگ کیا تو وہ دوڑ کر انکل آفتاب سے لپٹ گئی۔ وہ نچلا ہونٹ دانتوں تلے کچلتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
’’ایلیا پلیز! بی ریلیکس۔ چلو اب۔‘‘ چھوٹے بھیا نے نرمی سے اسے الگ کیا۔ وہ ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی مڑ مڑ کر انہیں دیکھتی رہی۔ بتولاں بیگ اٹھائے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بتولاں نے بیگ اس کے حوالے کیا۔
’’زیورات ہیں بی بی! سنبھال کر رکھئے گا۔‘‘
وہ نم آنکھوں سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ پورچ کی سیڑھیوں پر آفتاب ملک، چاچی کو سہارا دیئے کھڑے تھے۔ وہ بے بسی سے انہیں دیکھتے ہوئے آنسو بہانے لگی۔ اور چھوٹے بھیا تیزی سے گاڑی گیٹ سے باہر نکال لے گئے۔
…٭٭٭…
ایلیا نے اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔
لائونج میں کوئی نہیں تھا۔ وہ ہولے ہولے چلتی ہوئی سیڑھیوں تک آئی اور نیچے جھانک کر دیکھا۔ نیچے بھی خاموشی تھی۔
’گویا سب اپنے اپنے کام پر جا چکے ہیں۔‘
سیڑھیوں کے پاس رک کر اس نے دوپٹہ درست کیا اور نیچے اترنے لگی۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی، وہ یوں ہی کر رہی تھی۔ جب سب ناشتہ کر کے چلے جاتے تو وہ نیچے اترتی اور مونا یا بوا اس کا ناشتہ بنا دیتے۔ ناشتہ کر کے خاموشی سے کمرے میں آ جاتی۔
وہ جب نڈھال اور تھکی تھکی سی ابی جان اور چھوٹے بھیا کے ساتھ لاہور پہنچی تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ اس کا کمرہ اس کے لئے خالی کیا جا چکا تھا۔ فی الحال گڑیا اپنے گھر گئی ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ واپس آئی تب بھی وہ اسماء کے کمرے میں ہی رہ رہی تھی۔ یہی نہیں، روشی بھابی، شابی بھابی حتیٰ کہ چھوٹی امی بھی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تھیں اور اسے ان کا یہ التفات
ShareThis
حیران کر رہا تھا۔
کبھی شابی بھابی، کبھی روشی بھابی اس کے کمرے میں بھی آ جاتیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ذہنی طور پر ابھی تک اپ سیٹ تھی۔ رات کو بستر پر لیٹتی تو آنکھیں خود بخود گیلی ہو جاتیں۔ نینا عادل نے دو تین بار فون کر کے اسے حوصلہ دیا تھا۔
’’شاید اسی میں بہتری ہو۔ مجھے تو بعد میں پتہ چلا۔ ورنہ کچھ کرتی۔‘‘
وہ چپ چاپ نینا کے مشورے اور نصیحتیں سنتی رہتی اور رو دیتی۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ دو بار آفتاب ملک کا فون بھی آیا تھا۔
’’کیسی ہو بیٹا؟۔۔۔۔۔ پڑھائی مت چھوڑنا۔ کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ تمہیں میری ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے بتانا۔ میں دیکھ لوں گا اسفند کو بھی اور۔۔۔۔۔ اچھا، لو یہ چچی سے بات کرو۔‘‘
اور وہ چاچی سے بات کرتی۔ چاچی کی آواز سنتے ہی آنسو بے اختیار امڈے چلے آئے تھے۔ وہ بس روتی ہی رہی۔
نیچے ٹی وی لائونج میں پہنچ کر اس نے سامنے کچن میں کام کرتے مونا کو آواز دی۔
’’مونا! میرے لئے چائے بنا دو۔‘‘
’’پراٹھا اور آملیٹ بنا دوں ساتھ میں؟‘‘ اس نے وہیں سے آواز لگائی۔
’’نہیں، صرف چائے۔‘‘ اس نے سائیڈ ٹیبل سے اخبار اٹھایا اور بیٹھ گئی۔ تبھی اس نے پیچھے سے گیسٹ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ اور پھر قدموں کی آہٹ۔
’شاید چھوٹی امی ہیں۔‘ اس نے سوچا۔ لیکن مڑ کر نہیں دیکھا۔
قدموں کی آہٹ اس کے قریب رک گئی۔
’’کیسی ہیں آپ؟‘‘ آرب مصطفی کی آواز سن کر وہ چونکی اور اخبار اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑا۔ اس نے جھک کر اخبار اٹھایا۔ ایک لمحے کو اس کی نظریں سیاہ بیڈ روم سلیپر میں اس کے پائوں پر پڑیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’میں نے پوچھا کیسی ہیں آپ؟‘‘ آرب مصطفی نے اپنی بات دہرائی۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ اس کی نظریں پھر سیاہ سلیپروں میں اس کے پیروں پر الجھ گئیں۔
’’آپ کے ساتھ جو ہوا، مجھے اس کا بہت افسوس ہے۔‘‘
اس نے یکایک نگاہیں اٹھا کر یوں زخمی نظروں سے اس کی طرف دیکھا جیسے اس میں سارا قصور اسی کا ہو۔
’’ایلیا!‘‘ وہ جیسے تڑپ سا اٹھا۔ ’’میں نے بہرحال ایسا نہیں سوچا تھا۔ میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپ اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی زندگی کا فیصلہ کریں اور خود کو کسی کے لئے قربان نہ کریں، اپنے لئے بھی سوچیں۔ زندگی بہت خوب صورت ہے اور آپ کو زندگی میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔‘‘
ایلیا خاموش رہی۔ اس نے پھر نظریں جھکا لی تھیں۔
’’آپا نے جب مجھے بتایا کہ بھائی جان یعنی آپ کے ابی جان نے ایاز کو مجبور کیا کہ وہ آپ کو طلاق دے تو مجھے حقیقتاً دکھ ہوا۔ جب انہوں نے زندگی بھر کبھی آپ کی ذات میں رتی بھر دلچسپی نہیں لی تو پھر اب کیوں آپ کی اچھی خاصی لائف کو ڈسٹرب کر دیا۔‘‘ اس نے ایک طویل سانس لے کر بغور اسے دیکھا۔ وہ سر جھکائے آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’بہرحال، آپ کی عدت گزر چکی ہے۔ آپ کو اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے۔ اسے منقطع مت کیجئے گا۔ میں کل ساہیوال جا رہا ہوں۔ ملک صاحب سے مل کر آپ کے کالج جا کر سرٹیفکیٹ وغیرہ لیتا آئوں گا۔ باقی باتیں پھر۔‘‘
وہ اس پر ایک گہری نظر ڈالتا جس خاموشی سے آیا تھا اسی خاموشی سے واپس چلا گیا۔ اس نے اپنے پیچھے گیسٹ روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ جا چکا تھا لیکن بروٹس کی خوشبو ابھی تک اس کے اردگرد چکرا رہی تھی۔
’’یہ چائے اور ایک سلائس بھی گرم کر دیا ہے۔‘‘ ٹی وی لائونج کے ایک کونے میں رکھی گول میز پر مونا نے چائے لا کر رکھی۔ ’’میرے ابا کہتے ہیں صبح صبح خالی پیٹ گرم چائے نہیں پینی چاہئے۔‘‘
ایلیا اپنی جگہ سے اٹھ کر میز کے گرد پڑی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ خاموش طبع تو وہ پہلے بھی تھی لیکن اب تو اسے اور بھی چپ لگ گئی تھی۔
ShareThis
’’انڈا بوائل کر دوں؟‘‘ مونا جھاڑن سے ٹی وی ٹرالی پونچھ رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ ایلیا نے نفی میں سر ہلا دیا اور چائے کا کپ اٹھا لیا۔
’’ایلیا بی بی!‘‘ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور جھاڑن کندھے پر رکھ کر ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے تھوڑا سا جھکا اور رازدارانہ انداز میں بولا۔ ’’بوا کہہ رہی تھیں، کوئی جائیداد کا چکر ہے اس لئے صاحب نے آپ کو طلاق دلوائی ہے تاکہ جائیداد ان کے پاس رہے۔ سب بڑے خوش ہیں۔ پہلے تو آپ کو کمرے سے نکال دیا تھا، لائونج میں سوتی تھیں آپ۔ اور اب کیسے کمرہ خالی کروا لیا گڑیا بی بی سے۔‘‘
’’کیسی جائیداد؟۔۔۔۔۔‘‘ اس نے حیرانی سے مونا کی طرف دیکھا۔ ’’پاگل ہو گئے ہو تم؟‘‘
’’بوا آ جائیں قصور سے تو پوچھ لیجئے گا۔‘‘ وہ معنی خیز انداز میں سر ہلاتا واپس کچن میں چلا گیا۔
’یہ مونا بھی بس کہانیاں بنانے میں ماہر ہے۔ میری کون سی جائیداد ہے بھلا؟ اور پھر ابی جان کے پاس بھی کتنی بڑی جائیداد ہے۔ یہ ایک گھر اور لوہاری گیٹ کے پاس چند دکانیں۔ اگر شرعاً حصہ بھی نکالا جائے تو پانچ بہن بھائیوں اور چھوٹی امی کو ملا کر بھلا میرے حصے میں آنا بھی کیا ہے۔ اور ابی جان ایسے مذہبی ہیں بھی نہیں کہ بیٹیوں کو جائیداد سے شرعی حصہ دیں اور وہ بھی مجھے جسے جہیز کے نام پر بھی کچھ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ میری امی کے زیور میں سے بھی کچھ نہیں۔ یہ کوئی اور ہی بات ہے۔ شاید چھوٹی امی زریاب خان سے میری شادی کرانا چاہتی ہیں۔ انوشہ بتا رہی تھی کہ بیچارے بیمار ہیں اور بہو بیٹے پوچھتے تک نہیں۔ خدمت کے لئے بیوی کی ضرورت ہے انہیں۔‘
وہ چائے پیتے ہوئے سوچتی رہی۔ لیکن کوئی سرا اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ ہاں، آرب مصطفی کی بات پر اس نے عمل کرنے کا سوچ لیا تھا کہ اسے اپنی تعلیم مکمل کر لینی چاہئے۔ نینا اور انکل نے بھی کہا تھا۔
’میں انکل کو فون کر دوں گی، کالج سے لیونگ سرٹیفکیٹ لے کر بھیج دیں۔‘
وہ فیصلہ کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سب کے جانے کے بعد عموماً چھوٹی امی اور بھابیاں سو جاتی تھیں۔ پھر گیارہ بجے تک اٹھتی تھیں۔ ایک لمحے کو اس نے سوچا وہ باہر لان میں چلی جائے۔ لیکن پھر سردی کے خیال سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ وہ ساڑھے چار ماہ سے زیادہ تر کمرے میں ہی وقت گزار رہی تھی۔ اوپر دونوں بھابیوں کے کمروں میں خاموشی تھی۔ گویا اپنے اپنے شوہروں اور بچوں کو بھیج کر وہ آرام کر رہی تھیں۔
وہ کچھ دیر لائونج میں کھڑی رہی۔ سوچا ٹی وی لگا لے۔ لیکن پھر اس نے ٹی وی لگانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور ٹی وی لائونج سے ہی اوپر چھت کی طرف جاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ شادی سے پہلے وہ کبھی کبھی چھت پر چلی جایا کرتی تھی۔ اسے چھت پر سے آس پاس کی اور دور دراز کی عمارتوں کو دیکھنا اچھا لگتا تھا۔
’اوپر دھوپ ہو گی۔‘
اُس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔ جب وہ چھوٹی تھی تو کئی بار ٹنکی کی چھت پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھی۔ چھت پر بس ٹنکی تھی اور پوری چھت خالی تھی۔ چھوٹے بھیا پتنگ اُڑاتے تو وہ ٹنکی کی چھت پر بیٹھ کر انہیں پتنگ اُڑاتے دیکھتی رہتی۔ کبھی کبھی چھوٹے بھیا موج میں آتے تو اسے پتنگ پکڑا دیتے تھے۔ وہ بچپن کی باتیں یاد کرتی ہوئی سیڑھیوں کے دروازے کے پاس پہنچ کر ایک لمحے کو رکی۔ دروازہ لاکڈ تھا۔ لیکن چابی لٹک رہی تھی۔
’’اوہ۔۔۔۔۔ مجھے تو خیال ہی نہیں رہا کہ دروازہ ہمیشہ لاکڈ رہتا تھا۔ چلو، شکر ہے چابی ساتھ ہی ہے۔‘‘
دروازہ کھول کر وہ چھت پر چلی گئی۔ چھت پر سیڑھیوں کے دائیں طرف طرف ایک کمرہ اور کمرے کے آگے برآمدہ تھا۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔ شاید یہ کمرہ اس کی شادی کے بعد بنایا گیا تھا۔ وہ اشتیاق سے برآمدے کی طرف بڑھی۔ کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔
’بھلا یہاں چھت پر یہ کمرہ کس مصرف کے لئے بنایا گیا ہے؟۔۔۔۔۔ مونا اور ڈرائیور تو سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے۔ جب کہ بوا نیچے ٹی وی لائونج میں ہی بستر بچھا کر سو جاتی تھیں۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ کمرہ بوا کے لئے بنایا گیا ہو۔‘
کمرے کی کھلی کھڑکی کی طرف اچانک ہی اس کی نظر اُٹھی تو وہ خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ کھڑکی میں سے ایک بوڑھی عورت جھانک رہی تھی۔
’’اے۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالا۔ ’’مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ کھانا دو۔‘‘
وہ خوف زدہ ہو کر پلٹی اور تقریباً بھاگتی ہوئی سیڑھیوں کا دروازہ بند کرتی نیچے اُتری اور بڑی تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ کتنی ہی دیر تک لمبے لمبے سانس لیتی رہی۔ کچھ دیر بعد دل کی
Zafina
08-01-2012, 12:27 AM
دھڑکن معمول پر آئی تو اس نے حیران ہو کر سو چا۔
’یہ عورت کون تھی؟۔۔۔۔۔ پاگل لگ رہی تھی شاید۔۔۔۔۔ لیکن یہاں اوپر کمرے میں۔۔۔۔۔ یہ کیا اصرار ہے؟ کس سے پوچھوں؟ کون بتائے گا؟۔۔۔۔۔ انوشہ سے، شابی بھابی سے یا ۔۔۔۔۔ بوا سے پوچھوں گی۔‘
پہلے تو صرف چند دن رہ کر وہ ساہیوال چلی گئی تھی اور اب جب سے آئی تھی اپنے کمرے تک محدود تھی۔ ایک دو بار اس نے مونا کو کھانا ٹرے میں اٹھائے سیڑھیوں کی طرف جاتے دیکھا تو تھا لیکن اس کا خیال تھا شاید دونوں بھابیوں یا ان کی بہنوں میں سے کسی کے لئے لے کر جا رہا ہے۔
’مونا۔۔۔۔۔ مونا سے پوچھتی ہوں۔ بوا تو جانے کب آئیں گی قصور سے۔‘
اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ شابی بھابی کے کمرے سے ٹی وی کی آواز آ رہی تھی لیکن دروازہ بند تھا۔ وہ دبے قدموں سے چلتی ہوئی ایک بار پھر سیڑھیوں سے اترنے لگی۔ نیچے والا لائونج ہنوز خالی تھا اور نیچے تھا بھی کون سوائے چھوٹی امی اور ان کے بھائی صاحب کے۔
’شاید لمبی چھٹیوں پر آئے ہیں۔‘ دو تین دنوں سے وہ آرب کے متعلق کوئی نہ کوئی بات سن رہی تھی۔ کبھی انوشہ سے، کبھی مونا سے۔ لیکن سامنا آج ہی ہوا تھا۔
اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے وہ کچن میں چلی گئی۔
مونا گنگناتے ہوئے برتن دھو رہا تھا۔
’’مونا! آج بوا نہیں ہیں تو مجھے بتا دو، میں سبزی وغیرہ کاٹ دیتی ہوں۔ کیا پکنا ہے؟‘‘ وہ کائونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
’’اوہ جی۔‘‘ مونا نے خوش ہو کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’پتہ نہیں کیا پکنا ہے۔ بارہ بجے بیگم صاحبہ اُٹھیں گی تو بتائیں گی۔ ایک تو چکن ہی بنے گا۔ اپنے بڑے صاحب تو چکن کے علاوہ کچھ کھاتے ہی نہیں۔ ساتھ میں اور کیا بنانا ہے یہ تواب بیگم صاحبہ ہی بتائیں گی۔‘‘
’’اچھا، چکن نکال دو۔ میں پکا دیتی ہوں۔ کڑاہی بننی ہے یا کچھ اور؟‘‘
’’جی وہ بھی بیگم صاحبہ ہی بتائیں گی۔ جب تک وہ اٹھیں گی، برتن دھو کر کچن صاف کر دوں گا۔‘‘
’’مونا! یہ اوپر چھت پر کون ہے؟‘‘ اس نے اچانک ہی پوچھا۔
’’چھیما ہو گی۔ چھت پر جھاڑو دینے چلی گئی ہو گی گیراج کی صفائی کر کے۔‘‘ اس نے برتن دھوتے ہوئے بے پرواہی سے کہا۔
’’نہیں مونا! وہ ادھر کمرے میں؟‘‘
’’کمرے میں۔۔۔۔۔؟‘‘ ہاتھ میں پکڑا چمچ اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ پورا کا پورا مڑ کر ایلیا کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’آپ اوپر چھت پر گئی تھیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’لیکن کمرہ تو باہر سے بند ہوتا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’کوئی بوڑھی عورت کھڑکی سے جھانک کر کھانا مانگ رہی تھی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اس نے سر پر ہاتھ ماا اور جلدی سے ہاتھ دھو کر جھاڑن سے پونچھے۔ ’’میں تو آج ناشتہ دینا ہی بھول گیا۔ بوا نے اتنی تاکید کی تھی۔‘‘
اس نے فوراً فریج سے آٹا نکالا اور چولہے کی طرف مڑ گیا۔ تیزی سے توا نکال کر چولہے پر رکھا اور پیڑا بنانے لگا۔
’’باجی جی! آپ ذرا آملیٹ کے لئے پیاز کاٹ کر انڈا پھینٹ دیں۔ میں اتنے میں پراٹھا بنا لیتا ہوں۔‘‘
’’وہ تو میں کر دیتی ہوں مونا! لیکن تم نے بتایا نہیں، وہ کون ہے؟‘‘ ایلیا نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔
’’وہ۔۔۔۔۔ ہاں، وہ۔‘‘ اس نے آواز آہستہ کر لی۔ ’’بڑے صاحب کی پہلی بیوی ہیں۔ چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا کی امی۔ مجھے بوا نے بتایا تھا کہ ان کا ذہنی توازن خراب ہو گیا تھا۔ اس لئے وہ پاگل خانے میں تھیں اتنے عرصے سے۔ پھر سال پہلے پاگل خانے والوں نے خط بھیجا تھا بڑے صاحب کو، ان کی بیوی بہت بہتر ہیں لہٰذا انہیں گھر لے جائیں۔ اور گھریلو ماحول دیں تو بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔ تو بس بڑے بھیا جا کر لے آئے۔‘‘
وہ ہولے ہولے رازدارانہ انداز میں بتا رہا تھا لیکن وہ کائونٹر سے ٹیک لگائے ساکت کھڑی تھی۔
ShareThis
’تو کیا چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا میرے سگے بھائی نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔ یا یہ میری امی۔۔۔۔۔ نہیں۔‘ اسے اپنی امی کی موت سب دھندلا دھندلا یاد تھا۔ اور اس کی امی۔۔۔۔۔ وہ اکثر رات کو ان کی تصاویر دیکھتی تھی۔
’تو یہ صرف بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کی امی ہیں۔۔۔۔۔ تبھی تو بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا اتنے اجنبی سے ہو گئے ہیں۔ ان کے دل سے میری محبت ختم ہو گئی ہے۔ کتنا روکھا روکھا رویہ ہے ان کا۔ مجھ سے تو کبھی کسی نے ذکر ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔ بوا نے بھی نہیں۔‘
آنسو اس کی آنکھوں میں چمکنے لگے۔
مونا جلدی جلدی ٹرے میں ناشتہ رکھ رہا تھا۔ اسے خاموش دیکھ کر خود ہی انڈا پھینٹ کر آملیٹ بنا چکا تھا۔ مونا نے ٹرے اٹھائی تو یکدم بولی۔
’’میں بھی چلوں تمہارے ساتھ؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ ناشتہ لیٹ ہو گیا تو ان کا موڈ خراب ہو گا۔ پھر کبھی چلئے گا۔ لیکن کسی کو بتایئے گا مت کہ میں نے آپ کو کچھ بتایا ہے۔ چھوٹے بھیا تو ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں کبھی کبھی ہاں۔‘‘ وہ ٹرے اٹھائے تیزی سے باہر نکل گیا۔ وہ پھر اسی طرح کائونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
’تو اس پورے گھر میں کوئی بھی میرا سگا نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہاں، ابی جان۔ لیکن وہ تو مما کے بعد ہی بدل گئے تھے۔ جب امی کی ڈیتھ ہوئی تھی تو بڑے بھیا کتنا خیال رکھتے تھے اور تھوڑا بہت چھوٹے بھیا بھی۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ سوچتی تھی شادی کے بعد بھائی بدل ہی جایا کرتے ہیں۔ لیکن مونا پتہ نہیں سچ کہہ رہا تھا یا جھوٹ۔‘
جب امی زندہ تھیں تو اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، اس روز جب وہ ہسپتال گئی تھیں تو بڑے بھیا کو گلے لگا کر ان کی پیشانی چومی تھی۔ دھندلا دھندلا سا ایک تصور ذہن میں کہیں موجود تھا۔ پھر بڑے بھیا۔۔۔۔۔ آنسو آہستگی سے رخساروں پر پھسل رہے تھے۔
آرب، مونا کو آواز دیتا ہوا کچن میں آیا۔
’’مونا یار! ایک گلاس پانی دینا اور کھانا جلدی لگانا۔ مجھے ایک بجے جانا ہے۔‘‘
ایلیا نے جلدی سے آنسو پونچھے لیکن آرب کی نظر اس پر پڑ چکی تھی۔
’’آپ رو رہی ہیں؟‘‘
’’مونا اوپر گیا ہے۔‘‘ ایلیا نے نظریں نہیں اٹھائیں۔
’’ایلیا!‘‘ وہ اس کے قریب چلا آیا۔ ’’رونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ آپ کو بہادر بننا ہے۔ میرا ٹرانسفر یہاں ہو گیا ہے۔ آج مجھے کسی کام سے ساہیوال جانا ہے۔ دو دن تک واپسی ہو گی۔ پھر آپ کے ایڈمیشن کے لئے کچھ کرتا ہوں۔‘‘
ایلیا اب بھی خاموش رہی۔ اسے آرب کی ہمدردی اور اس درجہ اپنائیت سے بات کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔
آرب نے اس کے بھیگے رخساروں پر ایک نظر ڈالی، ریک سے گلاس اٹھایا اور فریج کھول کر پانی کی بوتل نکالی۔
’’ایلیا!‘‘ گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے اس نے آہستگی سے کہا۔ ’’آپ نہیں جانتیں آپ کا اس طرح رونا اور یہ بھیگی بھیگی پلکیں اور بھیگے رخسار کتنے دن مجھے ڈسٹرب رکھیں گے۔‘‘
اس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔ لیکن وہ گلاس اٹھا کر باہر جا چکا تھا۔ اس نے کچن کے دروازے سے نکلتے اور پھر اپنے کمرے میں جاتے دیکھا اور کچن ٹیبل کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے ٹیبل پر سر رکھ کر بے اختیار رونے لگی۔ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ لیکن وہ روئے چلی گئی۔ خود اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے؟ لیکن آنسو تھے کہ امڈے چلے آ رہے تھے۔
…٭٭٭…
’’ایلیا! آپ آخر مجھ سے بھاگتی کیوں ہیں؟۔۔۔۔۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ میں آپ کو نقصان پہنچائوں گا؟‘‘
وہ چھت کی ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے ساتھ والے گھر کی چھت پر کھڑے چھوٹے سے بچے کو پتنگ اور ڈور سے اُلجھتے ہوئے دیکھ رہی تھی جب آرب مصطفی نے بالکل اچانک اس کے قریب آ
ShareThis
کر کہا۔ وہ اتنی مگن کھڑی تھی کہ اسے آرب کے قدموں کی آہٹ تک سنائی نہیں دی تھی۔ اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بچے کی طرف دیکھنے لگی جو اب ڈور سلجھا چکا تھا اور پتنگ اُڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’آپ کو یوں بے دھڑک اوپر نہیں آنا چاہئے۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ بلال کی امی کو جب فٹس پڑتے ہیں تو وہ خطرناک بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر کبھی دروازہ کھلا رہ جائے غلطی سے تو آپ کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘ وہ اس کے دائیں طرف آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ’’میں نے اتفاقاً ہی آپ کو اوپر آتے دیکھ لیا تھا۔ وہ تو مونا نے بتایا کہ آپ اکثر آتی رہتی ہیں اوپر۔‘‘
’’آپ کو آخر میری اتنی فکر کیوں ہے؟‘‘ وہ چڑ سی گئی۔
’’وجہ بتانا ضروری ہے کیا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
ایلیا پھر لڑکے کی طرف دیکھنے لگی جو پتنگ اُڑانے میں کامیاب ہو چکا تھا اور اب خوش ہو رہا تھا۔ ایلیا کا اسے اگنور کرنا شاید آرب مصطفی کو اچھا نہیں لگا تبھی ہونٹ بھینچتے ہوئے اس نے ایلیا کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔
’’کیا ان سارے بیتے دنوں میں آپ کو میری ذات سے کوئی تکلیف پہنچی ہے؟ میں نے ہمیشہ آپ سے ہمدردی کی ہے۔‘‘
’’میں اس ہمدردی کا شکریہ ادا کر چکی ہوں۔ آپ میرے کاغذات لائے ساہیوال سے، مجھے ایڈمیشن دلوایا، اس کے لئے میں آپ کی بہت ممنون ہوں۔ اور مزید کیا چاہتے ہیں آپ؟‘‘
’’ایلیا! آپ سب سے بد گمان ہیں۔ اور ہونا بھی چاہئے۔ لیکن پلیز مجھے غلط مت سمجھیں۔ میں آپ کے ساتھ مخلص ہوں اور اس وقت مجھے صرف آپ سے یہ کہناتھا کہ پلیز کسی بھی کاغذ پر اگر بھائی جان، بلال یا طلال آپ سے دستخط کرنے کے لئے کہیں تو مت کیجئے گا۔‘‘
ایلیا نے چونک کر اسے دیکھا۔
اسے کالج جاتے ہوئے چھ سات ماہ ہو گئے تھے۔ کسی نے اس کے ایڈمیشن لینے پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ آرب نے خاموشی سے آ کر اسے لیونگ سرٹیفکیٹ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ کل صبح وہ اسلامیہ کالج کوپر روڈ آ جائے۔ اس نے وہاں کی پرنسپل سے بات کر لی ہے۔ بس وہ پرنسپل سے مل لے اور بتا دے کہ آرب مصطفی نے بھیجا ہے۔ وہ آرب کے التفات پر حیران تو تھی لیکن اس وقت وہ اس کی مدد لینے پر مجبور تھی۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر اس نے بڑے بھیا کو مخاطب کیا تھا۔
’’بھیا! آج آفس جاتے ہوئے مجھے ڈراپ کر دیجئے گا اسلامیہ کالج۔ میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ہاں، ہاں۔ لے جائوں گا۔‘‘
’’اس طرح آدھا سال گزر جانے کے بعد ایڈمیشن نہیں ملتا۔‘‘ شابی بھابی نے رائے دینا ضروری سمجھا تھا۔
’’میرے پاس لیونگ سرٹیفکیٹ ہے۔ میں پرنسپل سے بات کر لوں گی اپنی مجبوری کی۔ اتنی انسانی ہمدردی تو ہو گی ان کے پاس۔‘‘
’’کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے بتانا۔ میں کوشش کروں گا۔‘‘
چھوٹے بھیا کی بات پر اسے حیرت ہوئی تھی۔
’’لیکن اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرو گی؟ میرے خیال میں تو ایف اے کر لیا ہے، بہت ہے۔‘‘ چھوٹی امی کو شاید یہ پسند نہیں آ رہا تھا کہ وہ کالج جائے۔
’’ماما! مجھے تو آپ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر بنو۔ نہیں تو ایم ایس سی کرنا۔ آج کل تو ہر لڑکی ماسٹرز سے کم نہیں پڑھتی۔ پھر ایلا کو کیوں منع کر رہی ہیں؟‘‘ جلدی جلدی انڈا چھیلتی ہوئی انوشہ چپ نہیں رہ سکی تھی۔
چھوٹی امی نے اسے گھور کر دیکھا۔ آرب مصطفی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ جب کہ اس نے چہرہ چھپا کر مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کی تھی۔
یوں اس کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ نینا عادل اور انکل آفتاب نے فون پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پڑھائی جاری رکھنے کی تاکید کی تھی۔
اسے ان دنوں بہت سی باتیں حیران کرتی تھیں۔ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا کا التفات، ابی جان کا کبھی کبھار اس کی خیریت پوچھ لینا۔ وہ ابھی تک اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ اسے طلاق کیوں دلوائی گئی ہے؟ بوا سے بھی کچھ خاص معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے ایک روز اسفند یار کو بڑے بھیا سے کہتے سنا تھا کہ اگر ایلیا وہاں ہی رہی ساہیوال میں تو ساری جائیداد بھی وہاں چلی جائے گی۔ وہ لوگ مالک بن جائیں گے۔‘
Zafina
08-01-2012, 12:27 AM
’’لیکن بوا! کون سی جائیداد؟‘‘ اُس کا خیال تھا بوا اب اونچا سننے لگی ہیں۔ اس لئے کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہو گا۔
’’یہ تو مجھے معلوم نہیں۔‘‘
اُس روز اس نے بوا کو بہت کریدا تھا۔
’’سچی بات ہے بٹیا! ہم تو اتنا نہیں جانتے۔ بلال میاں یہ ذرا سے تھے جب ہم اس گھر میں آئے تھے۔ تمہارے ابی جان نے کہا تھا بچوں کی والدہ بیمار ہیں، ہاسپٹل میں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے مستقل یہاں ہی رہنا ہو گا۔ اپنا آگے پیچھے تو کوئی تھا نہیں سوائے ایک بیاہی بیٹی کے۔ سو ادھر ہی کے ہو رہے۔ ابھی آئے سال بھر بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک روز اسفند میاں تمہاری امی کے ساتھ آ گئے۔
’’یہ ثمرین ہیں بوا! تمہاری بیگم صاحبہ۔‘‘
’’اللہ بخشے ثمرین بی بی بھی کیا چیز تھیں۔ شکل صورت تو اللہ نے ایسی پیاری دی تھی۔ اس پر اخلاق، سیرت۔ چند ہی دنوں میں سب گرویدہ ہو گئے۔ بلال جو کسی سے سنبھلتا نہ تھا، ضدی اور چڑچڑا تھا اب ثمرین بی بی کا پلّو تھامے ان کے ساتھ ساتھ پھرتا رہتا۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ نو سالوں میں ثمرین بی بی نے بلال اور طلال دونوں کو اتنی محبت دی، اتنا خیال رکھا ان کا کہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ان کی سگی اولاد نہیں ہے۔‘‘
’’امی کے میکے سے کبھی کوئی نہیں آیا ملنے؟‘‘
’’ملک صاحب ہی آتے تھے۔ ایک بار ثمرین بی بی نے ذکر کیا تھا کہ ان کی پیدائش پر ہی ان کی والدہ وفات پا گئی تھیں۔ نانا، نانی نے پالا تھا۔‘‘
’’تو نانا، نانی؟‘‘
’’شاید وہ بھی وفات پا گئے ہوں گے۔‘‘ بوا نے خیال ظاہر کیا۔
’’اور امی کے ابو؟‘‘
’’ثمرین بی بی نے ایک بار بتایا تھا کہ وہ دوسری شادی کر کے کسی دوسرے ملک میں سیٹل ہو گئے تھے۔ پھر نہ کبھی پاکستان آئے اور نہ رابطہ رکھا۔‘‘
اس روز وہ بے تحاشا اُداس رہی تھی۔ کاش اس کے نانا ابو کبھی پاکستان آ جائیں اپنی نواسی کو ڈھونڈنے۔ پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اور امی کے نانا، نانی تو یقینا وفات پا چکے ہوں گے۔ تبھی تو آفتاب ملک نے امی کی شادی اپنے گھر سے کی تھی۔ کاش کوئی کہیں ہوتا اس کا اپنا۔ بہت اپنا۔
’’ایلیا! آپ نے میری بات سمجھ لی ہے نا؟‘‘ آرب مصطفی نے اسے خاموش دیکھ کر کہا تو اس نے جھنجلا کر اسے دیکھا۔
’’آخر میرے کہیں دستخط کرنے یا نہ کرنے سے آپ کا کیا نقصان ہے؟‘‘
’’میرا تو نہیں۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کا نقصان نہ ہو جائے۔‘‘ اس کی خوب صورت آنکھوں پر ایک لمحے کو اس کی نظریں ٹھہریں۔
’’کیا آپ کو چھوٹی امی نے کہا ہے کہ آپ۔۔۔۔۔‘‘
’’اوہ، مائی گاڈ۔ ایلیا! آپ بہت ہی غلط سمجھ رہی ہیں۔ حیرت ہے ابھی تک آپ مجھے نہیں سمجھ سکیں اور نہ ہی آپ نے مریے کسی لفظ یا جملے کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ کیا آپ ہمیشہ مجھے اپنی چھوٹی امی کا بھائی ہونے کی سزا دیتی رہیں گی؟‘‘
’’مگر میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا۔‘‘ ایلیا نے کس قدر حیرت اور معصومیت سے کہا۔
’’ایلیا۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے ایک گہری سانس لی۔ ’’میرا خیال ہے آج میں آپ سے وہ بات کر ہی لوں جو پتہ نہیں مجھے کرنی چاہئے یا نہیں۔ پھر شاید مجھے موقع نہ ملے۔ شاید آپ مجھ پر اعتبار بھی کر لیں۔ میں نے آپ سے کہا تھا، کبھی آپ کو بتائوں گا کہ مجھے آپ سے کیوں دلچسپی ہوے اور میں نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کے جانے کے بعد اس گھر میں سب سے زیادہ میں نے آپ کو یاد کیا تھا۔ آپ کو حیرت بھی ہوئی تھی کہ جب آپ یہاں تھیں تو میری آپ سے کبھی بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ آپا مجھے اس طرف جانے سے منع کرتی تھیں جہاں آپ ہوتی تھیں۔‘‘ وہ تھوڑا سا مسکرایا۔
’’حالانکہ ان دنوں جب آپ کی شادی ہوئی تو میں ایک دو بار آپ کو دیکھ کر چونکا۔ میرا جی بھی چاہا کہ میں اس بے حد ذہین اور پیاری لڑکی سے بات کر کے دیکھوں اور شاید آپا کے سامنے بھی ایک دو بار میں نے آپ کی تعریف کر دی تھی۔ میں نہیں جانتا تھا ایلیا! کہ میری عام سی کہی بات آپ کے راستے میں کانٹے بو دے گی۔ جب اپ کی شادی ہوئی تو میں یہاں نہیں تھا۔ جب آیا تو
ShareThis
جو بات مجھے پتہ چلی وہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ آپا نے بھائی جان سے کہا کہ آپ۔۔۔۔۔‘‘ وہ جھجکا۔ ’’کہ آپ کا کیریکٹر۔۔۔۔۔ اور یہ کہ آپ مجھ پر ڈورے ڈال رہی ہیں۔ اور ثبوت کے لئے آپا نے آپ کی طرف سے میرے نام لکھے خطوط بھائی جان کو دکھائے اور یہ مشورہ دیا کہ فوراً آپ کی شادی کر دی جائے ورنہ میری طرف سے مایوس ہو کر آپ کہیں اور گل نہ کھلا دیں۔‘‘
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے آرب کو دیکھ رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ چھوٹی امی نے اتنا بڑا جھوٹ بولا۔
’’کاش مجھے پہلے پتہ چل جاتا تو میں بھائی جان کو بتا کر کہ ایسا کچھ نہیں ہے، انہیں کوئی فیصلہ کرنے سے روک دیتا۔‘‘ آرب کے لہجے میں تاسف تھا۔
’’اور بعد میں آپ نے ابی جان کے سامنے میری صفائی پیش نہیں کی۔ وہ ابھی تک مجھے۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ایلیا! میں نے اسی وقت بھائی جان سے بات کی تھی کہ ایلیا نے تو کبھی مجھ سے بات تک نہیں کی۔ اور آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’پھر بھی۔۔۔۔۔ پھر بھی انہوں نے چار سالوں میں کبھی مجھے فون تک نہیں کیا۔ میرے آنے پر مجھ سے بات تک نہیں کی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کیونکہ انہوں نے مجھ سے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ اسے تم سے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوئی کبھی۔ اسی لئے تو تمہارے نام وہ غلیظ خط لکھے۔ وہ تو شکر ہے کہ تمہاری آپا جان کے ہاتھ لگ گئے ورنہ۔۔۔۔۔ ‘‘
’’اور ایلیا! جب میں نے آپا سے کہا کہ مجھے وہ خطوط دکھائیں تو انہوں نے کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو، میں اس بدنامی کے پلندے کو سنبھال کر رکھ لیتی؟ جلا دیئے سب۔ میرے پاس اب کوئی ثبوت نہیں تھا۔ میں بلال اور طلال کو وہ خطوط دکھا کر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ تمہاری رائٹنگ نہیں ہے۔ میں تمہارے کمرے سے تمہاری فائل اٹھا لایا تھا لیکن۔۔۔۔۔‘‘
’’آپ کو کیوں یقین تھا کہ وہ خط میں نے نہیں لکھے تھے؟‘‘ ایلیا کو خود اپنی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’اس لئے کہ آپ اتنی سہمی سہمی رہتی تھیں۔ اور مجھے پتہ نہیں کیوں، یقین تھا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتیں۔ میں اپنی آپا کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ روایتی سوتیلی ماں تھیں اور آپ سے شدید نفرت کرتی تھیں۔ میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا رہتاتھا کہ میری وجہ سے آپ کی تعلیم نا مکمل رہ گئی۔ ہاں، یہ اطمینان ضرور تھا کہ آپ کی شادی ایک اچھے شخص سے ہوئی ہے۔ آفتاب ملک کا گھرانہ ایک بہترین گھرانہ ہے۔ اللہ نے آپ کی مدد کی تھی۔ آپ بے گناہ تھیں، معصوم تھیں۔ آفتاب ملک کی اچانک آمد اور بھائی جان سے ساری بات سننے کے بعد انہوں نے فوراً ہی آپ کو مانگ لیا اور آپ زریاب خان سے بچ گئیں۔‘‘
’’کیا انکل کو یہ سب پتہ تھا؟‘‘ اس نے مری مری آواز میں پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ آپ سے میری دلچسپی کی وجہ کیا تھی۔ میں کبھی کبھی اس قصور پر نادم ہو جاتا تھا جو میں نے کیا ہی نہیں تھا۔ میں اگر یہاں نہ رہتا ہوتا آپا کے پاس تو پھر شاید آپ کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ مجھے آپ کی تعلیم کے ادھورا رہ جانے کا بہت افسوس تھا۔ کیونکہ ایک بار میں نے آپ کو بڑے بھیا سے اپنی تعلیم کے حوالے سے بات کرتے سنا تھا۔ آپ بہت زیادہ پڑھنا چاہتی تھیں۔ آپ کے خواب۔۔۔۔۔‘‘
ایلیا کو لگا جیسے کوئی اس کا دل چیرے جا رہا ہو۔
’’جب آپ واپس آئیں اور میں نے سب کا رویہ دیکھا آپ کے ساتھ اور آپ کی آنکھوں میں ٹھہری اُداسی تو میں چونکا کہیں کچھ غلط ہے آپ شاید خوش نہیں ہیں۔ مھے لگا جیسے آپ تنہا ہیں۔ کسی دوست کی ضرورت ہے آپ کو۔۔۔۔۔ لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ آپ مجھے دوست نہیں سمجھ سکتیں۔ پھر یہ سانحہ ہو گیا اور میں آپ کو بہت زیادہ سوچنے لگا۔‘‘
ایلیا نے سر جھکا لیا تھا اور آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’خیر، یہ باتیں پھر کبھی ہوں گی۔ اس وقت تو میں آپ کو یہ کہہ رہا تھا کہ دستخط۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن وہ تو میں نے کر دیئے۔‘‘ اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔
’’کیا؟۔۔۔۔۔ کر دیئے؟۔۔۔۔۔ پڑھے تھے، کیسے پیپر تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے نگاہیں اٹھائیں۔ ’’ابی جان نے کہا تھا مختار نامہ ہے۔‘‘
’’کس بات کا مختار نامہ؟ کیا آپ نے پوچھا نہیں تھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔
ShareThis
’’کس قدر احمق ہیں آپ۔‘‘ آرب جھنجلایا۔
’’اس میں حماقت کی کیا بات ہے؟‘‘
’’ایلیا! آپ نہیں سمجھ رہیں۔ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ ابھی تک آپا نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ لیکن وہ زیادہ عرصے تک مجھ سے کوئی بات نہیںچھپا سکتیں۔ جلد یا بدتر مجھے پتہ چل جائے گا۔ یہ تو مجھے انوشہ نے بتایا تھا کہ آپ کے نام کچھ جائیداد ہے۔ ایلیا! آپ کی ماما کی کوئی پرسنل جائیداد بھی تھی؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں تو نہیں۔‘‘ وہ ہولے سے ہنسی۔ ’’میں کسی ملک کی شہزادی نہیں ہوں۔ امی کے والدین کا تو انتقال ہو چکا تھا۔ انکل آفتاب نے ان کی شادی کی تھی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔ پھر یہ کیا چکر ہے؟ خیر، آپ آئندہ مزید کسی پیپر پر دستخط مزید کیجئے گا۔ اور یوں اس طرح آپ اوپر نہ آیا کریں۔ خدانخواستہ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے مڑ کر بند کمرے کی طرف دیکھا۔ کھڑکی کھلی تھی اور سامنے بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹی ہوئی عورت کھلی کھڑکی سے نظر آ رہی تھی۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ یہ خطرناک نہیں ہیں۔‘‘
’’اوکے، میں اب چلتا ہوں۔ میرا یہاں زیادہ دیر رہنا مناسب نہیں ہے آپ کے ساتھ۔ اچانک کوئی آ بھی سکتا ہے۔‘‘ وہ مڑا۔
ایلیا نے آج کالج سے چھٹی کی تھی۔ چھوٹی امی، شابی بھابی اور روشی بھابی کے ساتھ کہیں تعزیت کے لئے گئی ہوئی تھیں جب کہ گڑیا، اسماء اور انوشہ وغیرہ اپنے کالج اور سکول گئی تھیں۔ وہ بڑے بھیا کی امی سے ملنے اوپر آئی تھی لیکن وہ سو رہی تھیں اس لئے وہ ریلنگ کے پاس کھڑے ہو کر اس بچے کو دیکھنے لگی تھی۔
’’ایلیا! زندگی کسی ایک شخص پر ختم نہیں ہو جاتی ے۔ ہمیں پتہ نہیں چلتا لیکن بہت ساری خوشیاں ہمارے آس پاس ہی بکھری ہوتی ہیں۔ بس انہیں کھوجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
ایلیا نے اس کی بات سنی لیکن اس کے لفظوں پر غور نہیں کیا۔ اس کے دل پر اچانک ہی جیسے دکھ کا ایک بھاری بوجھ آ گرا تھا۔ چھوٹی امی نے ایسا کیا۔ ابی جان نے ایسا سمجھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور انکل آفتاب۔۔۔۔۔۔۔ یکایک اس کے دل میں ان کے لئے موجود محبت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ کیا دنیا میں ان جیسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں؟ اور انہووں نے ایک بار بھی نہیں جتایا۔ اسے یاد آیا کہ جب انکل نے اسے بلایا تھا تو آرب کے متعلق پوچھا تھا کہ وہ اسے کیسا لگتا ہے۔ شاید وہ سچ جاننا چاہتے تھے۔
’’اے۔۔۔۔۔‘‘ وہ عورت کھڑکی میں کھڑی تھی۔ ایلیا ہولے ہولے چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس آئی اور مسکرانے کی کوشش کی۔
’’السلام علیکم امی جان!‘‘
عورت نے سر ہلایا۔ وہ اسے محبت سے دیکھ رہی تھی۔
’’آئو نا اندر۔‘‘ عورت نے بے حد پیار سے بلایا۔
’تو ایلیا اسفند یار! یہ تھی تمہاری اوقات کہ تمہارے سگے باپ نے تم سے یہ تک نہیں پوچھنا گوارا کیا کہ وہ جرم جو تم پر عائد کیا جا رہا ہے آیا تم نے وہ جرم کیا بھی ہے یا نہیں اور سزا سنا دی گئی۔ قتل کے مجرم کو بھی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔‘
’’تم کیوں رو رہی ہو؟۔۔۔۔۔ نہ رو۔‘‘ عورت اسے روتے دیکھ کر بے چین ہو گئی تھی۔ اس نے گرِل سے ہاتھ باہر نکالنے کی کوشش کی جیسے وہ اس کے آنسو پونچھنا چاہتی ہو۔ پہلی بار جب وہ بوا کے ساتھ اندر کمرے میں گئی تھی تو اندر سے تھوڑی تڑی خوف زدہ تھی۔ حالانکہ بوا نے اسے بتایا تھا کہ وہ کچھ نہیں کہتیں۔ جب سے آئی ہیں دو تین بار ہی دورہ پڑا ہے۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں اور دلچسپی سے اسے دیکھنے لگی تھیں۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’’آپ کی بیٹی ہوں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ عورت کے ہونٹوں پر پہلے مسکراہٹ نمودار ہوئی، پھر آنکھوں میں اُلجھن نظر آنے لگی۔ ’’لیکن تم تو مر گئی تھیں جب اتنی سی تھیں۔‘‘ انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ’’شاید میں نے خواب دیکھا تھا کہ تم مر گئی ہو چھوٹی عمر میں ہی۔ لیکن تم اتنے دنوں سے کہاں تھیں؟ میرے پاس کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘
’’بی بی جی! ان کی تو شادی ہو گئی تھی۔ یہ امریکہ چلی گئی تھیں۔ شادی کے بعد اب آئی ہیں۔‘‘ بوا نے بتایا۔
’’اچھا، اچھا۔۔۔۔۔ میں ہسپتال میں تھی نا۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ تمہارے ابو نے تمہاری شادی کر دی ہو گی۔ دیکھو، اب تو میں ٹھیک ہوں۔ اپنے ابو سے کہو مجھے گھر لے جائیں۔ یہ جو تمہارا بھائی ہے نا بلّو، یہ مجھے اس ہسپتال میں لے آیا ہے۔ یہ اچھا ہسپتال نہیں ہے نا
Zafina
08-01-2012, 12:28 AM
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تم مجھے امریکہ لے جائو اپنے ساتھ۔ میں وہاں تمہارے کام کروں گی۔ تمہارے بچوں کو نہلائوں گی۔ ان کے کپڑے دھوئوں گی۔‘‘ پھر جیسے اچانک کچھ یاد آیا۔ ’’تمہارے بچے کہاں ہیں؟‘‘
’’نہیں ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ تاسف سے اسے دیکھنے لگیں۔ پھر اپنا چہرہ اس کے قریب لے جا کر سرگوشی میں پوچھا۔
’’سسرال والے اور شوہر تو کچھ نہیں کہتا نا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ اسے بالکل نارمل لگ رہی تھیں۔ جب وہ جانے کے لئے اٹھی تو وہ رونے والی ہو گئیں۔
’’مجھے چھوڑ کر نہ جائو۔ تم تو میری بیٹی ہو نا۔ بیٹیاں تو مائوں کی ہوتی ہیں نا۔ مجھے ڈر لگتا ہے رات کو۔‘‘
لیکن وہ اُنہیں اُداس چھوڑ کر آ گئی تھی۔ پھر کتنے ہی دن وہ بے حد اُداس رہی۔ اسے لگا جیسے فائونٹین ہائوس کے ڈاکٹرز نے صحیح کہا تھا کہ انہیں گھریلو ماحول کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ گھریلو ماحول تو نہ تھا بلکہ قید خانہ تھا جہاں تین وقت کا کھانا دے دیا جاتا تھا۔ وہ جب بھی موقع ملتا، بوا کے ساتھ چلی جاتی۔ ان کی کنگھی کرتی، کپڑے تبدیل کرواتی اور یوں ہی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہتی۔ اسے ان سے ماں کی خوشبو آنے لگی تھی۔ وہ کبھی کبھار اس کے ہاتھ چوم لیتیں، کبھی پیشانی، کبھی گلے سے لگاتیں۔ مختلف مشورے دیتیں کہ فلاں کے پاس جائو، فلاں ڈاکٹر بہت ماہر ہے۔ وہ اسے کہیں سے بھی پاگل نظر نہیں آتی تھیں۔ کبھی کبھار ایک دو جملے ایسے کہہ جاتیں جو انہیں پاگل ظاہر کرتے تھے۔ ورنہ عام طور پر نارمل ہی ہوتی تھیں۔
بوا سے ہی اسے پتہ چلا تھا کہ بلال کے بعد ان کی ایک بیٹی ہوئی تھی جو چند دن کی ہو کر مر گئی تھی۔ ان دنوں ان کی ذہنی حالت خراب ہو رہی تھی۔ بچی بھی اسی حالت میں پیدا ہوئی تھی۔
’’لیکن اس پاگل پن کی وجہ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اللہ جانے بچی!۔۔۔۔۔ تیرے ابی جان کو میں نے کہتے سنا تھا، یہ پاگل پن کی بیماری موروثی ہے ان کے خاندان میں۔ باقی انسانی دماغ کا کیا پتہ کہ کب اس میں کیا فتور پیدا ہو جائے۔‘‘
کئی بار اس کا جی چاہا تھا کہ وہ بڑے بھیا سے بات کرے۔ ان سے کہے کہ وہ امی جان کو یوں لگ تھلگ نہ رکھیں۔ سب کے درمیان نارمل زندگی گزارنے دیں۔ لیکن پھر بڑے بھیا سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ان دنوں پتہ نہیں کیوں بڑے بھیا غصے میں رہتے تھے۔ ایک دو بار اس نے انہیں شابی بھابی سے تکرار کرتے ہوئے بھی سنا تھا۔
’’تم نہ رو۔ میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔ چپ کر جائو میری بچی!‘‘ انہوں نے اسے پچکارا تو بائیں ہاتھ کی پشت سے اس نے آنسو پونچھے۔
’’مجھے بتائو، کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے؟ میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی۔‘‘
’’نہیں۔ مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’سر میں درد ہے۔‘‘
’’ادھر آئو اندر۔ میں تمہارا سر دبا دوں گی۔‘‘ وہ پیار سے بولیں۔ ’’دم کروں گی تو درد ٹھیک ہو جائے گا۔ آئو نا۔‘‘
ایلیا نے دروازے کی طرف دیکھا۔
’’اس بڈھی سے کہو نا آ کر دروازہ کھول دے۔‘‘ اُن کے لہجے میں غصہ تھا۔
ایلیا اچھا کہتے ہوئے مڑی اور اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی کھول کر چابی کو دیکھا، ھپر تیزی سے سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔ لائونج میں آ کر اس نے چابی ٹی وی ٹرالی کی دراز میں رکھی اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ روناچاہ رہی تھی۔ دل کسی بھاری بوجھ تلے دبا تھا۔ جب بھی اس کا جی چاہتا تھا وہ چابی لے کر اوپر چلی جاتی تھی۔ اب اسے بڑی امی سے ڈر بھی نہیں لگتا تھا اور وہ انہیں بڑی امی کہہ کر ہی بلانے لگی تھی۔ مونا نے اسے بتا دیا تھا کہ امی کے کمرے کی چابی یہاں دراز میں ہوتی ہے۔
’آخر میں کیوں اس دنیا میں آئی؟‘
بستر پر گر کر روتے ہوئے اس نے کتنی ہی بار سوچا۔
’کسی کو میری چاہ نہیں ہے اور کوئی میرا اپنا نہیں ہے۔ اگر آفتاب انکل اس روز نہ آتے اور مجھ سے ہمدردی نہ کرتے تو میں اس ستر سالہ زریاب خان کی ٹھوکریں کھا رہی ہوتی۔‘
روتے روتے اُس نے جھرجھری لی۔
ShareThis
’’آپ اتنی مایوس کیوں ہیں ایلیا؟‘‘ ایک گمبھیر آواز کانوں میں گونجی تھی۔
’’کوئی آپ کا منتظر ہے۔ خوشیاں تو آپ کے قریب بکھری پڑی ہیں۔ بس انہیں کھوجنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دل کے اندر کہیں گہرائی میں ایک انوکھا سا احساس اُبھرا تو وہ روتے روتے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’آرب مصطفی۔۔۔۔۔ نہیں، بھلا میرا اور آرب مصطفی کا کیا ساتھ۔ گویا چھوٹی امی کی بات سچ ہو جائے گی۔‘
اندر جلنے والی روشنی کی ننھی سی رمق بھڑک کر بجھ گئی۔
’زندگی صرف ایک شخص پر ختم نہیں ہو جاتی۔‘ اندر پھر آوازیں گونجنے لگی تھیں۔
اُس نے گھبرا کر سیل فون اٹھایا اور آفتاب ملک کا نمبر ملایا۔
’’انکل! یہ میں ہوں۔۔۔۔۔ ایلیا۔‘‘
’’ایلا بچے! کیا ہوا؟۔۔۔۔۔ یہ تمہاری آواز۔۔۔۔۔ تم رو رہی ہو؟‘‘ وہ یکدم گھبرا گئے تھے۔
’’انکل!‘‘ اس نے پھر امڈ آنے والے آنسوئوں کو پونچھا۔ ’’انکل! کیا میری امی کی کوئی پرسنل پراپرٹی بھی تھی؟‘‘
’’یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘ انہیں حیرت ہوئی۔
’’اُن کے والدین وفات پا چکے تھے۔ آپ نے ان کی شادی اپنے گھر سے کی۔ ان کے والدین کی کوئی پراپرٹی تو ہو گی نا۔ زیادہ نہ سہی، گھر تو ہو گا ان کا۔ اور ظاہر ہے وہ ماما کو ہی ملنا تھا۔‘‘
وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو گئے۔ پھر آہستگی سے کہا۔
’’ایلا بچے! مجھے اصل بات بتائو کیا ہے؟‘‘
’’انکل! انوشہ اور مونا کا خیال ہے کہ ابی جان نے مجھے کسی جائیداد کے چکر میں طلاق دلوائی ہے اور آرب نے مجھے منع کیا ہے کہ میں کسی پیپر پر دستخط نہ کروں۔ لیکن ابی جان نے تو مجھ سے کسی مختار نامے پر سائن کروائے ہیں۔‘‘
انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔ ایلا! تم کتنے بجے کالج جاتی ہو؟‘‘ انہوں نے ایک گہرا سانس لے کر پوچھا۔
’’آٹھ بجے۔‘‘
’’تمہیں کون ڈراپ کرتا ہے؟‘‘
’’کبھی بڑے بھیا اور کبھی ڈرائیور۔‘‘
’’تو بیٹا! کل وہیں گیٹ کے پاس رُکنا۔ میں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آپ یہاں ہیں، لاہور میں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ میں کسی کام سے آیا تھا۔ تمہاری خاطر رک گیا تھا، شاید کوئی سبیل تم سے ملنے کی ہو سکے۔ تمہاری چاچی نے تمہارے لئے کچھ چیزیں بھیجی ہیں۔۔۔۔۔ ابھی میں سوچ رہا تھا کہ تم سے فون کر کے کالج آنے کا پوچھوں کہ تمہارا فون آ گیا۔ کل انشاء اللہ باتیں ہوں گی۔ اور ہم اس صورتِ حال پر غور کریں گے اور میں تمہیں بتائوں گا سب۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
’’اوکے، اب رونا نہیں ہے۔ میں اور تمہاری چاچی ہیں نا۔‘‘
وہ فون بند کر کے کتنی ہی دیر خاموش بیٹھی رہی۔ وقت کٹ نہیں رہا تھا۔
رات بھر تقریباً جاگتی ہی رہی تھی۔ صبح سر بوجھل ہو رہا تھا۔ ایک لمحے کو جی چاہا کہ کالج نہ جائے۔ ویسے بھی کالج میں ہفتہء طالبات چل رہا تھا۔ لیکن پھر انکل آفتاب کا خیال آتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر وہ نیچے آئی تو بڑے بھیا لائونج میں گول میز کے گرد بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ پراٹھے اور آملیٹ کی خوشبو سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔
’’آ جائو۔۔۔۔۔ تم بھی ناشتہ کر لو۔‘‘ انہوں نے خوش دلی سے کہا۔
ShareThis
وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ رات بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔
’’لو کھائو۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا رول کیا ہوا پراٹھا جس پر آملیٹ تھا اس کی طرف بڑھا بڑھایا۔ ٹشو سے ہاتھ صافکرتے ہوئے انہوں نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسے۔
’’آملیٹ وِد پراٹھا رول۔‘‘
’’پراٹھا۔۔۔۔۔ آملیٹ۔۔۔۔۔ بڑے بھیا۔‘‘ نہ جانے کیا کچھ یاد آ گیا تھا۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔
جب ماما کی ڈیتھ ہو گئی تھی تو بڑے بھیا پراٹھا اور آملیٹ بنوا کر پراٹھے کا رول بنا کر اس میں آملیٹ رکھ کر اسے کہتے، لو بھئی کھائو آملیٹ وِد پراٹھا رول۔ پھر دونوں باری باری اس میں سے نوالہ توڑتے تھے۔ بڑے بھیا تو تب بھی جانتے تھے نا کہ وہ ان کی سگی بہن نہیں ہے پھر بھی وہ اس کا خیال رکھتے تھے۔
اس نے ہاتھ میں پکڑا رول پلیٹ میں رکھ دیا اور بھیگی بھیگی پلکیں جھکا لیں۔ بڑے بھیا کو بھی شاید کچھ یاد آ گیا تھا۔
’’خوش رہا کرو ایلیا! اب جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ اور دیکھو۔۔۔۔۔‘‘ بات ادھوری چھوڑ کر وہ کھڑے ہو گئے۔ ’’تم نے جانا ہے کالج؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ کھڑی ہو گئی۔
’’تم ناشتہ کر لو، میں ویٹ کر لیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔ میرا جی نہیں چاہ رہا۔‘‘
بڑے بھیا نے ایک لمحے کو ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھایا اور پھر پیچھے کر لیا۔
’’اوکے، پھر کینٹین میں کچھ کھا لینا۔‘‘
یہ کبھی کبھی کا التفات جہاں اسے خوش کرتا تھا وہاں اس کی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو بھی بھر جاتے تھے۔
بڑے بھیا نے تمام راستے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ بھی خاموش بیٹھی کچھ سوچتی رہی۔ پھر بڑے بھیا اسے گیٹ پر اتار کر چلے گئے۔ لڑکیاں اندر جا رہی تھیں۔ وہ اِدھر اُدھر متجسس نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
’’ایلا بیٹا۔۔۔۔۔!‘‘ دائیں طرف سے انکل آفتاب ملک نے آ کر کہا تو وہ چونکی۔
’’انکل۔۔۔۔۔!‘‘ اس کے لبوں سے نکلا۔
’’میرے ساتھ آئو۔‘‘
وہ خاموشی سے سر جھکائے چلتی ہوئی ان کی گاڑی میں آ بیٹھی۔ تب اس نے غور سے انہیں دیکھا، وہ پہلے کے مقابلے میں کمزور لگ رہے تھے۔
’’چاچی ٹھیک ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’انہیں بھی لے آتے۔ بہت اداس ہو رہی ہوں ان کے لئے۔‘‘
’’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح ملاقات ممکن ہے۔ اب آیا تو ضرور لائوں گا۔ وہ بھی تمہارے لئے تڑپتی ہے۔‘‘
پھر ہوٹل تک خاموشی رہی۔ کمرے میں آ کر پہلے انہوں نے فون کر کے ناشتہ منگوایا۔
’’مجھے پتہ ہے تم نے ناشتہ نہیں کیا ہو گا۔ پہلے دونوں ناشتہ کریں گے، پھر ابتیں ہوں گی۔‘‘
وہ مسکرائے اور واش روم کی طرف بڑھ گئے۔ جب کہ وہ بیٹھتے ہوئے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
…٭٭٭…
’’اسفندیار، ثمر حیات اور میں ہم تینوں گہرے دوست تھے۔ ہماری دوستی کی ابتداء فرسٹ ایئر میں ہوئی تھی۔ ثمر حیات ہم میں سے چھوٹا تھا۔ کم از کم تین سال۔ لیکن ہم نے ایک ہی کلا
Zafina
08-01-2012, 12:28 AM
میں ایڈمیشن لیا تھا۔ میں ساہیوال سے ملتان پڑھنے کے لئے گیا تھا۔ میرے والد صاحب کا خیال تھا کہ ساہیوال میں رہ کر بگڑتا جا رہا ہوں۔ اسفند کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس کی والدہ نے اسے ملتان ماموں کے پاس بھیج دیا تھا۔ ان کا بھی خیال تھا کہ عورت ہونے کی وجہ سے اسفند ان کے کہنے میں نہیں ہے۔ اسفند کے مزاج میں تھوڑی تیزی تھی۔ لاہور میں اس نے کچھ لڑکوں سے جھگڑا کر لیا تھا۔ اس لئے اس کی ماں نے اسے خوف زدہ ہو کر یہاں بھیجا تھا۔ جب کہ ثمر حیات خان ملتان میں رہتا تھا۔ اس کے بابا حیات خان بہت بڑے جاگیردار تھے۔ سندھ میں اور سرگودھا میں ان کی بڑی زمین تھی۔ ملتان میں بھی ان کا گھر کسی قلعے سے کم نہ تھا۔
میرے والد بھی بڑے زمیندار تھے۔ کافی زمین تھی، حویلی بھی بہت بڑی تھی۔ لیکن ثمر حیات خان کے مقابلے میں ہم کچھ بھی نہیں تھے۔ لیکن ثمر بہت پیارے مزاج کا لڑکا تھا۔ ہم اکثر اس کی حویلی چلے جاتے تھے۔ خوب خاطر تواضع کی جاتی۔ میں تو ہاسٹل میں رہتا تھا اور اسفند اپنے ماموں کے گھر۔ لیکن وہ تقریباً ہر ویک اینڈ پر ہم دونوں کو گھر لے جاتا تھا۔ ہماری حیثیت گھر کے ایک فرد کی سی ہو گئی تھی۔ ثمر حیات خان کے گھر میں اس کے والد ملک حیات خان، والدہ اور اس کی ایک بھانجی تھی۔ ثمر کی بہن کا انتقال ہو چکا تھا اور بھانجی ان کے پاس رہتی تھی۔ بہنوئی بیوی کی وفات کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ سنا تھا انہوں نے وہاں ہی شادی کر لی تھی۔ بیٹی سے ان کا کوئی رابطہ نہ تھا۔ جن دنوں ہم نے فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو ثمرین دس سال کی تھی۔‘‘
ایلیا جو ساکت بیٹھی ملک آفتاب کو سن رہی تھی، یکدم چونکی۔
ثمرین۔۔۔۔۔ اُس کی ماما۔
اُس کے دل کی دھڑکن یکدم تیز ہو گئی۔
’’ثمرین سب کی لاڈلی تھی۔ ملک حیات خان کی تو جیسے اس میں جان تھی اور ثمر بھی اپنے سے صرف ساتھ سال چھوٹی بھانجی کے بے حد لاڈ اٹھاتا تھا۔ ثمر اپنی بڑی بہن سے گیارہ سال چھوٹا تھا۔ ہم نے گریجویشن کر لیا تو اسفند یار کی شادی اپنی کزن سے ہو گئی جو عمر میں اس سے بڑی تھی۔ لیکن اس کی ماں کا خیال تھا کہ چچا کے بہت احسان ہیں اس پر اس لئے۔ بہرحال اسفند یار خوش اور مطمئن تھا۔ وہ واپس لاہور چلا گیا تھا اور چچا کے ساتھ ان کے بزنس میں ہاتھ بٹانے لگا تھا۔ لیکن مہینے دو مہینے بعد ایک چکر ضرور لگاتا تھا۔ میں نے اور ثمر نے ماسٹرز کر لیا۔ ہماری بھی شادیاں ہو گئیں۔ لیکن ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ ایسا ہی رہا۔ میری اور ثمر کی اکثر ملاقات رہتی تھی۔ کبھی وہ ساہیوال آ جاتا، کبھی میں ملتان چلا جاتا۔ لیکن اسفند یار اب کم کم آنے لگا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی کا ذہنی توازن خراب ہو رہا تھا۔
شروع میں تو وہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ مسئلہ کیا ہے۔ لیکن بلال کی پیدائش کے بعد حالات زیادہ بگڑ گئے۔ یہاں تک کہ اسے پاگل خانے میں داخل کروانا پڑا۔ ان دنوں اسفند یار کی چچا سے لڑائی ہو گئی تو وہ انسے ناراض ہو کر ملتان ماموں کے گھر آ گیا۔ اور یوں ایک بار پھر وہ اور ثمر اکٹھے ہو گئے۔ ثمرین ان دنوں بی اے کر رہی تھی۔ اسفند نے ثمر کے ساتھ مل کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ وہ چچا سے الگ اپنا کام کرنا چاہتا تھا۔ کام چل پڑا تھا۔ دونوں ہی خوش تھے۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا، اسفند کے مزاج میں تیزی بہت تھی۔ ماموں نے سمجھایا کہ ماں اکیلی تمہارے بچوں کو نہیں سنبھال سکتی۔ تم لاہور ہی جا کر کام سیٹ کرو تو وہ ان سے ناراض ہو کر ثمر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اس کے لئے گھر تلاش کر دے کرائے کا۔
’’یہ ہماری اتنی بڑی حویلی ہے۔ اس میں ایک تیرے اکیلے کے لئے جگہ نہیں؟‘‘ ثمر نے بے حد خلوص سے اسے اپنے گھر رہنے کی آفر کی۔
وہ ایک سال وہاں رہا۔ اس کے اور ثمرین کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ کب اور کیسے ہوئی، مجھے نہیں معلوم۔ لیکن ایک دن اس نے مجھ سے کہا۔
’’میں ثمرین سے محبت کرنے لگا ہوں۔‘‘
میں نے اسے سمجھایا، تم ایک شادی شدہ شخص ہو۔ تمہارے دو بیٹے ہیں بلکہ تین بچوں کے باپ بن چکے ہو۔ بیٹی چند گھنٹے زندہ رہ کر مر چکی تھی اور ثمرین۔۔۔۔۔ مجھے تو ابھی تک یاد ہے کہ وہ دو پونیاں کئے ثمر سے لاڈ کر رہی ہوتی تھی۔
’’لیکن اب وہ بچی نہیں ہے اور وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہے۔ تم ثمر سے بات کرو۔‘‘
’’نہیں، میں کس طرح۔۔۔۔۔ ثمر کیا کہے گا کہ تم نے اس کے گھر میں رہ کر۔۔۔۔۔ نہیں اسفندیار! تم اس کا خیال دل سے نکال دو۔‘‘
وہ کچھ خفا سا اٹھ کر چلا گیا۔
دوسرے دن اس کی والدہ کی وفات کی خبر آ گئی۔ میں اور ثمر بھی لاہور اس کے ساتھ ہی گئے تھے۔ لاہور سے واپس آ کر میں کراچی چلا گیا۔ میرے بہنوئی وہاں ہسپتال میں ایڈمٹ تھے۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد میں واپس آیا تو ایک دن ثمر میرے پاس آیا۔ بہت پریشان۔
’’آفتاب! اسفندیار نے میری معصوم بھانجی کو نہ جانے کیا پٹی پڑھائی ہے کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اسے بات کرنا مشکل ہو رہی تھی۔
ShareThis
’’بابا جان نے انکار کر دیا ہے؟۔۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے آفتاب! ثمرین تو۔۔۔۔۔ اور وہ دو بچوں کا باپ، پھر ذات، برادری۔۔۔۔۔ اور ثمرین نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے۔ تم ہی اسے سمجھائو۔ تمہاری بات تو مانتی ہے۔ تمہیںبھائی کہتی ہے۔ بابا جان کا بلڈ پریشر بہت ہائی ہو رہا ہے۔‘‘
لیکن ثمرین پر میرے سمجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ اس نے جو انکشاف کیا اس نے مجھے کچھ دیر کو تو ساکت کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اسفند نکاح کر چکے ہیں۔
یہ بات جب بابا جان ملک حیات خان کو پتہ چلی تو انہوں نے ثمر سے کہا۔
’’اسفند کو بلائو اور اس سے کہو اپنی بیوی کو آ کر لے جائے۔ ابھی، اسی وقت، صرف تین کپڑوں میں۔ آج سے ہمارا اس سے ہر تعلق، ہر رشتہ ختم۔‘‘
تب میں ثمرین کو اپنے گھر لے آیا اور میں نے اسے اپنے گھر سے رخصت کیا۔ ثمر آیا تھا رخصتی کے وقت۔ اور اس نے ثمرین سے کہا تھا، ہم نے تمہارے لئے بہت سارے خواب دیکھے تھے۔ تم نے سارے خوابوں کو کرچی کرچی کر دیا۔ یہ کرچیاں ہمیشہ ہمیں لہولہان کرتی رہیں گی۔ آفتاب نہ ہوتا تو تم اس طرح عزت و آبرو سے رخصت بھی نہ ہوتیں۔ ثمرین! تم نے ہمیں جیتے جی مار دیا۔ بابا جان تمہیں کس شان سے رخصت کرتے، تم اندازہ نہیں کر سکتیں۔ یہ میری طرف سے چیک ہے پندرہ لاکھ کا۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بالکل خالی ہاتھ جائو۔‘‘
’’ثمرین چیک لینا نہیں چاہتی تھی لیکن اسفند نے وہ چیک لے لیا۔‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔ وہ لوگ کہاں ہیں اب؟‘‘ ایلیا کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ کوئی تھا جو اس دنیا میں کہیں کوئی اس کا اپنا۔
’’پتہ نہیں بیٹا!‘‘ آفتاب ملک یکدم تھکے تھکے سے نظر آنے لگے تھے۔ ’’ثمر حیات خان کچھ ہی عرصے بعد کراچی شفٹ ہو گیا تھا۔
مجھ سے اس نے کہا تھا۔
’’آفتاب! تم بہت اچھے دوست تھے اور ہو۔ لیکن ہمیں کبھی کھوجنے اور ملنے کی کوشش نہ کرنا۔ تمہیں دیکھ کر زخم ہرے ہو جائیں گے۔ سب یاد آئے گا۔ اور ہم سب بھلا دینا چاہتے ہیں۔‘‘
میں ایک دو بار ملتان گیا۔ لیکن گھر میں صرف ملازمین تھے۔‘‘
’’اور امی۔۔۔۔۔ امی جان نے کبھی یاد کیا انہیں؟ کبھی پچھتائیں؟‘‘ ایلیا کے آنسو اس کے رخساروں پر پھسل آئے۔
’’ثمرین کو فوراً ہی احساس ہو گیا تھا کہ جذبات میں آ کر اس نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا۔ ہر وقت روتی تھی۔ بہت یاد کرتی تھی اسی لئے تو اتنی کم عمری میں دل کی مریضہ بن گئی تھی۔ لیکن اس نے اسفند کو اور طلال اور بلال کو کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔ دونوں بچوں سے بے حد محبت کی۔ وہ بھی اس کے دیوانے تھے۔
یہ تھے وہ سارے حالات جو تم نہیں جانتی تھیں۔ اور اب تم نے جو سوال کیا تھا اس کا جواب۔ تمہاری امی کے نانا کی بے حساب پراپرٹی تھی۔ ثمر اور تمہاری نانی ہی وارث تھے۔ تمہاری نانی کی وفات کے بعد ثمرین اور ثمر۔‘‘
’’لیکن انکل!‘‘ اس نے اپنے آنسو پونچھے۔ ’’نانا جان نے تو میری امی سے ہر تعلقختم کر دیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ لیکن شرعاً تو اپنی ماں کے حصے کی ثمرین وارث تھی۔ ہو سکتا ہے ملک حیات خان دنیا میں نہ رہے ہوں اور ان کے بعد ثمر نے سوچا ہو کہ وہ ثمرین کو اس کا حق دے دے۔ ثمر بہت نازک احساسات رکھنے والا لڑکا تھا۔ بہت پیاری نیچر کا۔‘‘
’’مے بی۔۔۔۔۔‘‘
’’بیٹا! میں واپس آ کر پتہ کروں گا کہ وہ کہاں ہیں آج کل۔ میں ثمر سے ملوں گا۔ لیکن آرب صحیح کہتا ہے، اب تم کسی پیپر پر دستخط مت کرنا۔‘‘
’’انکل! مجھے کسی جائیداد، دولت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ ثمر حیات سے، بابا جان سے اور۔۔۔۔۔ ان کے بچوں سے۔ میں ہمیشہ خود ترسی میں مبتلا رہی کہ میرا کوئی بھی اپنا نہیں ہے۔ یہ سب جو امی سے اتنا پیار کرتے تھے، مجھے بن دیکھے ہی بہت پیارے لگنے لگے ہیں۔‘‘
آنسو ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں جمع ہونے لگے تو آفتاب ملک نے اسے تسلی دی۔
’’میں ہوں نا۔ تم فکر نہ کرو۔ میں سب سمجھ گیا ہوں، اسفند نے کیوں تمہیں۔۔۔۔۔ یہ لالچ ہی انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ اور اسفند تو ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ لیکن میں اور ثمر اسے سمجھ ہی نہیں سکے تھے۔ چلو بیٹا! اُٹھو، میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔ اس وقت کالج تو نہیں جا سکو گی۔ یا پھر کچھ دیر اور رک جائو۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ میں گھر جائوں گی۔ آپ مجھے اسٹاپ پر اتار دیجئے گا۔ میں کہہ دوں گی کہ طبیعت خراب ہے، جلدی آ گئی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے اسے چاچی کے بھجوائے ہوئے تحفے دیئے اور اسے اسٹاپ پر ڈراپ کر دیا۔
ShareThis
’’میں تم سے رابطہ رکھوں گا۔ کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لینا۔ ایک رشتہ تو تم سے ختم ہو گیا لیکن ایک رشتہ باقی رہے گا ہمیشہ۔۔۔۔۔ میں تمہارا ماموں بھی ہوں، ثمرین کے رشتے سے۔‘‘
وہ مسکرائے تھے۔ لیکن وہ مسکرا بھی نہ سکی تھی۔ وہ تو بس تصور میں ایک بڑا گھر دیکھ رہی تھی جہاں ثمرین دو پونیاں بنائے بھاگتی پھرتی تھی۔ جہاں ملک حیات خان تھے، ثمر حیات خان تھے اور ماں جی تھیں۔ اس نے دل ہی دل میں کتنی ہی بار ان ناموں کو دہرایا تھا۔
’’ارے، آج تم کالج سے جلدی نہیں آ گئیں؟‘‘ شابی بھابی لائونج میں ہی تھیں۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘
’’چلو اچھا ہوا۔ ورنہ میں سوچ رہی تھی کہ ڈرائیور تو تمہیں لینے چلا جائے گا اور مجھے دوپٹے دینے تھے رنگنے کے لئے، ٹیکسی یا رکشے میں جانا پڑتا۔‘‘
اس نے بہ غور انہیں دیکھا۔
’یہ سب لوگ کتنے دوغلے ہیں۔ ان کے من میں کیا ہے، کاش میں جان سکتی۔ یہ اتنی مہربان تو کبھی نہ تھیں۔ پھر۔۔۔۔۔ پھر کیا سچ مچ کہیں کوئی پراپرٹی کا ہی چکر ہے؟ شاید مونا ٹھیک ہی کہتا ہے۔‘
’’تمہیں تو کچھ منگوانا نہیں مارکیٹ سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ مختصراً کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ اس وقت وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ صرف آنکھیں بند کر کے سوچنا چاہتی تھی وہ سب جس کا علم اسے آج سے پہلے نہ تھا۔
…٭٭٭…
ایلیا نے گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر نظر پڑتے ہی ٹھٹک گئی۔
’’آپ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں، میں۔‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے آرب مصطفی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
’’ڈرائیور نہیں آیا کیا؟‘‘ وہ اسی طرح دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔
’’میرے ساتھ جانے میں آپ کو کوئی اعتراض ہے؟‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں تو۔‘‘ وہ دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ لیکن اس کی آنکھوں کی حیرت آرب سے چھپی نہ رہ سکی۔
’’جب آپا نے مجھ سے کہا، آج ڈرائیور نہیں آیا، تم جا کر ایلیا کو لے آئو تو میں بھی اتنا ہی حیران ہوا تھا جتنا آپ ہو رہی ہیں۔‘‘
’’چھوٹی امی نے آپ سے کہا؟‘‘ اس کی حیرت بڑھ گئی۔ وہ اس سامنے دیکھتا ہوا گاڑی پارکنگ سے نکال رہا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ آپا نے ہی کہا بلکہ اصرار کیا۔ جبکہ شابی بھابی کہہ رہی تھیں کہ وہ طلال کو فون کر دیتی ہیں۔ وہ ایلیا کو پِک کر لیں گے۔ لیکن آپا نے کہا میں فارغ ہی تو بیٹھا ہوں، چلا جائوں گا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔۔۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
’’آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ سب یکایک آپ پر اتنے مہربان کیوں ہو گئے ہیں؟‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں۔‘‘ ایلیا اسی طرح باہر دیکھ رہی تھی۔ ’’میں اب صرف سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ مجھے مونا کی بات سچ لگتی ہے۔ لیکن وہ پراپرٹی ہے کہاں؟۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اس کی مالک کیسے بن گئی؟ مجھے صرف اس کی کھوج ہے۔‘‘
’’میں بھی اس کھوج میں ہوں۔‘‘ وہ بہت احتیاط سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ ’’بہت دنوں سے دل میں ایک خواہش سی مچل رہی تھی کہ کسی روز آپ کے ساتھ لمبی ڈرائیو پر جائوں، ڈھیر ساری باتیں کروں اور۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ آپ کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے یکایک بات کاٹی۔
’’آپ کا کیا خیال ہے، میں آپ کو کہاں لے جا رہا ہوں؟‘‘
’’مجھے غیب کا علم نہیں آتا۔‘‘ اس نے جل کر کہا تو آرب بے ساختہ ہنس دیا۔
’’کبھی کبھی اس طرح کی جلی کٹی بات آپ کے لبوں سے سن کر بہت انجوائے کرتا ہوں میں۔‘‘
Zafina
08-01-2012, 12:29 AM
’’پلیز، یہ کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘ اس نے آرب کی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تو وہ سنجیدہ ہو گیا۔
’’ایلیا! اعتماد کرنا سیکھیں۔ میں آپ کو کہیں نہیں لے جا رہا۔ آپ نے میری پوری بات سنی ہی نہیں۔ میں نے صرف راستہ تبدیل کیا ہے۔ یہ قدرے طویل ہے۔ کچھ زیادہ دیر آپ کی رفاقت مل جائے گی۔‘‘
گمبھیر لہجہ دل میں اترتا محسوس ہوا تو اس نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں۔ آرب نے بیک ویو مرر میں اسے دیکھا۔
’’کاش یہ سفر اتنا لمبا ہو جائے کہ کبھی ختم نہ ہو۔‘‘ اس نے با آواز بلند کہا۔
’’آپ جس رفتار سے چل رہے ہیں اس سے تو یہی امید ہے۔‘‘ گو اس نے زیر لب کہا تھا لیکن آرب نے سن لیا۔ ایک مدھم سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔ اور اس نے بے ساختہ مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ کچھ جھنجلائی ہوئی سی لگی۔
’’ایلیا! کیا ہم دوست نہیں بن سکتے؟‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔ ’’میں بہت اچھا دوست ثابت ہوں گا۔ مجھ پر اعتماد کریں۔‘‘
’’میں نے آپ کو دشمن کبھی نہیں سمجھا۔‘‘
’’لیکن دوست بھی تو نہیں سمجھتیں۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔
’’دوست سمجھنے کے لئے ضروری ہے کیا کہ میں آپ کی الٹی سیدھی باتوں کی تائید کروں؟‘‘
’’الٹی سیدھی باتیں؟‘‘ آرب نے حیرت سے کہا۔
’’میں نے تو کبھی آپ سے الٹی سیدھی باتیں نہیں کہیں۔‘‘
’’یہ الٹی سیدھی باتیں نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ وہ اب اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے گاہے گاہے ذرا سا رخ موڑ کر اسے دیکھ بھی رہا تھا۔
’’مثلاً۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہی کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ جھجک کر خاموش ہو گئی۔
’’ہاں، کہیں نا کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’آپ جو وقتاً فوقتاً کہتے رہتے ہیں تو میں نہیں سمجھتی اس کا کوئی فائدہ ہے۔ میری زندگی میں کہیں کسی دوسرے شخص کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے اپنا راستہ متعین کر لیا ہے۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘
’’میں اپنی گریجویشن مکمل کر کے جاب کروں گی اور بس۔۔۔۔۔!‘‘
’’لیکن زندگی کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ اتنی خوب صورت زندگی، اتنا لمبا سفر۔۔۔۔۔ ایلیا! آپ نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ آپ کی عمر میں تو لڑکیوں کی ابھی شادی بھی نہیں ہوتی۔‘‘
’’لیکن میری تو ہو چکی اور میں اپنی زندگی گزار چکی۔‘‘
’’ابھی آپ نے زندگی شروع کب کی ہے جو آپ گزار چکی ہیں۔ ایلیا! اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔ ماضی کو بھول جائیں۔ میں نے پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ زندگی کہیں آپ کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لئے منتظر کھڑی ہے، اسے مایوس نہ کریں۔ نصیر احمد ناصر کی ایک خوب صورت نظم ہے۔
ابھی جگنو نہیں روٹھے۔
ابھی آنسو نہیں ٹوٹے۔
ابھی سورج نہیں جاگا
ابھی تارے نہیں ڈوبے
ابھی مہتاب باقی ہے
ابھی اِک خواب باقی ہے
ShareThis
ابھی منزل نہیں آئی
ابھی رستہ نہیں ٹھہرا
ابھی دریا نہیں اُترا
ابھی گرداب باقی ہے
ابھی اِک خواب باقی ہے‘‘
خاموش، سر جھکائے اپنی انگلیوں کو مسلتی ہوئی ایلیا کی طرف اس نے ذرا سا مڑ کر دیکھا۔
’’ہاں ایلیا! ابھی آنکھیں خوابوں سے خالی نہیں ہوئیں۔ انہیں ویران مت کریں۔ خوابوں سے سجا لیں۔ اور مجھے تو خود پتہ ہی نہیں چلا ایلیا! کہ کب ایک خواب آ کر آنکھوں میں ٹھہر گیا ہے۔ یہ خواب اتنا خوب صورت ہے کہ جی چاہتا ہے کہ کبھی آنکھیں نہ کھولوں۔ کہیں یہ خواب بکھر نہ جائے۔‘‘
ایلیا کا دل ڈوب کر اُبھرا۔
’’گھر کی طرف چلیں نا اب۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ’’آپ کا دل اتنا پتھر کیوں ہے ایلیا؟‘‘
’’پلیز مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کریں۔‘‘
’’اوکے، لیکن ایک شرط ہے۔‘‘ اس نے گاڑی ماڈل ٹائون جانے والی سڑک پر ڈالی۔ ’’آپ مجھ سے دوستی کر لیں۔۔۔۔۔ کریں گی نا؟‘‘ اس نے پوچھا تو ایلیا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اس دوستی کی خوشی میں آئس کریم چلے گی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ گھبرا گئی۔ ’’سیدھے گھر چلیں؟‘‘
’’یہ آئس کریم ادھار رہی۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’پھر کبھی سہی۔‘‘
ایلیا خاموش ہی رہی تھی۔
اتنے دن گزر گئے تھے، آفتاب انکل نے فون نہیں کیا تھا۔ پتہ نہیں ان کی ملاقات ثمر حیات خان سے ہوئی تھی یا نہیں؟ اور پتہ نہیں ملک حیات خان زندہ تھے یا نہیں۔ دل کبھی کبھی بہت عجیب سے احساسات میں گھر جاتا تھا۔ کبھی یکدم جی چاہنے لگتا کہ وہ ان لوگوں سے ملے۔ وہ جو اس کی امی کے اپنے تھے اور کبھی عجیب سی بے حسی طاری ہو جاتی۔
آرب نے گھر میں داخل ہونے تک کوئی بات نہیں کی تھی۔ جب وہ پورچ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو گاڑی لاک کر کے اس نے آہستگی سے اسے آواز دی۔
’’ایلیا۔۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا نے مڑ کر اسے دیکھا۔
’’یہ اصولِ ہم سفری تو نہیں میم! کہ آپ مجھے پیچھے ہی چھوڑ کر جا رہی ہیں۔‘‘
وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا لائونج میں داخل ہوا تھا۔ لائونج میں بیٹھی باتیں کرتی شابی بھابی اور روشی بھابی نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایلیا انہیں سلام کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
آرب مصطفی چند لمحے لائونج میں کھڑا رہا۔ شابی اور روشی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی تھی۔ مونا کو آواز دے کر پانی لانے کا کہہ کر وہ گیسٹ روم کی طرف بڑھ گیا۔
’’چھوٹی امی نے سونے کی چڑیا پھانسنے کے لئے بھائی کو آگے کر دیا ہے۔‘‘ آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اس نے سنا، ایک لمحے کو ٹھٹکی، پھر قدم آگے بڑھا دیئے۔
’سونے کی چڑیا۔۔۔۔۔ کیا یہ شابی بھابی نے میرے لئے کہا ہے؟‘ اس نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر ہولے سے ہنس دی۔ ’حالانکہ اس لمحے شاید مجھ سے زیادہ تہی داماں کوئی نہ ہو۔ پتہ نہیں ان سب کو کیا غلط فہمی ہو گئی ہے۔ یا پھر۔۔۔۔۔ یا پھر ملک حیات خان۔‘
وہ ایک بار پھر ان کے متعلق سوچنے لگی تھی۔ بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے اس نے وہ ساری کہانی جو آفتاب ملک نے سنائی تھی، ایک بار پھر دل ہی دل میں دوہرا لی تھی۔
’مما کے اس طرح کرنے سے ملک حیات خان کا دل کیسے ٹوٹ گیا ہو گا اور وہ گھر۔۔۔۔۔‘
تبھی شابی بھابی اندر داخل ہوئیں۔
ShareThis
’’تم آرام کر رہی ہو۔ میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ بس یونہی ذرا ریسٹ کے لئے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ آپ آ جایئے نا۔‘‘ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟‘‘ وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔
’’ٹھیک۔‘‘
’’یہ آرب آج تمہیں لینے گیا تھا؟‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ چھوٹی امی نے بھیجا ہے۔‘‘
’’دیکھو ایلیا! تم میرے لئے چھوٹی بہنوں کی طرح ہو۔ چھوٹی امی تو سدا کی تمہاری دشمن ہیں۔ تمہیں پتہ تو ہے تمہارے ساتھ کیا، کیا تھا پہلے۔ اور اب یہ آبی کو۔۔۔۔۔ تم محتاط رہنا۔ مجھے تو دال میں کالا لگتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟۔۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’آرب سے زیادہ فرینک ہونے کی ضرورت نہیں۔ کہیں بدنام ہی نہ کر دیں تمہیں چھوٹی امی۔ ان جیسی مکار عورت میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ یہ تو آرب کو سب سے چھپا کر اس طرح رکھتی ہیں جیسے لڑکی ہو۔ اور اب خود ہی بھیج دیا تمہیں لینے۔ ضرور کوئی چال ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا، گڑیا کو ذرا یونیورسٹی چھوڑ دے تو ایسی ناک بھوں چڑھائی کہ میرا بھائی ڈرائیور نہیں ہے کسی کا۔ اور اب ضرور کوئی چال ہے ان کی۔ تم ہوشیار ہی رہنا۔ اور اس آرب کے بچے کو زیادہ منہ لگانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
’’چھوٹی بہنوں کی طرح ہو۔ اس لئے سمجھا رہی ہوں۔‘‘ وہ اٹھیں اور لہراتی ہوئی باہر چلی گئیں۔ ایلیا انہیں باہر جاتا دیکھتی رہی۔
’چھوٹی امی کی چال۔ لیکن آرب۔‘
دل زور سے دھڑکا۔ اُس کی وہ پُر شوق نظریں، وہ ذو معنی جملے، اس کی وہ اخلاص بھری گفتگو۔۔۔۔۔
’نہیں، چھوٹی امی جیسی بھی ہوں، آرب مصطفی ان کے کسی گیم کا حصہ نہیں بن سکتا۔‘ یہ اس کے دل کو یقین تھا اور اپنے اس یقین پر ایک لمحے کو وہ خود بھی ششدر رہ گئی۔ اس سارے عرصے میں بھلا کتنی بار آرب مصطفی سے اس کی بات ہوئی تھی۔ چند بار۔ لیکن ان مختصر ملاقاتوں میں ہی آرب نے اپنا اعتماد قائم کر لیا تھا اور اسے لگتا تھا کہ اس پورے گھر میں صرف وہی ایک شخص ہے جو اس سے مخلص ہے۔
اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ اُبھری۔ ’ہم دوست ہیں۔‘
اس کے فون کی بیپ ہو رہی تھی۔ اس نے چونک کر پاس پڑا بیگ اٹھا کر فون باہر نکالا۔ دوسری طرف انکل آفتاب تھے۔
’’سوری ایلا بیٹے! میں فون نہیں کر سکا۔ تمہاری چاچی کی طبیعت خراب تھی۔ میں کراچی نہیں جا سکا تھا۔ ذرا طبیعت ٹھیک ہوئی تو میں گیا کراچی۔‘‘
ایلیا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’’کراچی میں ثمر کا ایک دوست رہتا تھا۔ وکیل تھا۔ میری بھی اس سے سلام دعا تھی۔ میں سیدھا اسی کے پاس گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اسے ثمر کے ایڈریس کا علم ہو گا۔ اور میرا خیال غلط نہیں تھا۔‘‘
ایلیا کو لگا جیسے اس کا دل پھڑک کر بند ہو جائے گا۔
’’آپ ان سے ملے؟‘‘ اس کے لبوں سے لرزتی ہوئی آواز نکلی۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ وہ لوگ وہاں نہیں تھے۔ چند دن قبل ثمر اور ملک صاحب امریکہ گئے ہیں۔ ملک صاحب کا بائی پاس ہونا ہے وہاں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اس نے ایک طویل سانس لی۔ دل کی دھڑکن قدرے معمول پر آ گئی۔
’’ہاں، وکیل صاحب سے مجھے جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ملک صاحب نے ثمرین کے نام بہت بڑی پراپرٹی کی ہے جو اس کا حق تھا اور ثمرین کے بعد اس کی وارث تم تھیں۔ ثمر کے وکیل دوست نے ہی تمہارے ابی جان سے ملاقات کر کے انہیں بتایا تھا کہ ملک صاحب نے ثمرین کا حصہ تمہارے نام کیا ہے اور بہت جلد سب پیپرز تیار کر کے وہ بھجوا دیں گے۔ اسی سلسلے میں
Zafina
08-01-2012, 12:29 AM
غالباً انہوں نے تم سے مختار نامے پر دستخط کروائے تھے کہ وہ خود فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن پھر ملک صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی اور انہیں امریکہ جانا پڑ گیا۔ اس لئے پراپرٹی کی منتقلی کا کام التوا میں پڑ گیا۔ جیسے ہی ثمر واپس آتا ہے میں اس سے رابطہ کروں گا۔ تم کسی کاغذ پر اب دستخط مت کرنا۔ یہ دولت بڑی بری شے ہے۔ محتاط رہنا۔‘‘ اسے تاکید کرتے ہوئے انہوں نے فون بند کر دیا۔
’یہ دولت، جائیداد ۔۔۔۔۔ میں نے اس کا کیا کرنا ہے؟‘ اس نے افسردگی سے سوچا۔ ’مجھے تو محبتوں کی چھائوں چاہئے تھی۔ میں کتنی خوش تھی وہاں چاچی اور انکل آفتاب کے پاس۔ اگر ابی جان مجھے کہتے تو میں خود ہی سب کچھ ان کے نام کر دیتی لیکن۔۔۔۔۔ کاش، وہ مجھ سے وہ گھر، وہ محبتیں نہ چھینتے جو زندگی میں پہلی بار مجھے ملی تھیں۔‘
’’کھانا لگ گیا ہے۔‘‘ مونا نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اندر جھانک کر اطلاع دی۔
’چلو، اس ملنے والی دولت کے طفیل ہی سہی، اس گھر کا ایک فرد تو سمجھا جا رہا ہے۔ ورنہ پہلے تو کبھی کسی کو بلانا یاد ہی نہیں رہتا تھا۔‘
ایک طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر بکھر کر معدوم ہو گئی اور وہ دونوں ہاتھوں سے بکھرے بالوں کو درست کرتی کمرے سے باہر نکل آئی۔
…٭٭٭…
وہ سو کر اٹھی تو بارش خوب برس کر تھم چکی تھی۔
اُسے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آئی تو وہ بے اختیار ہی دروازہ کھول کر ٹیرس پر آ گئی۔ ہر چیز دھل کر نکھر گئی تھی۔
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر نیچے لان میں دیکھنے لگی۔ درخت، پھول، پتے سب نکھرے نکھرے لگ رہے تھے۔ دو دن سے کتنا شدید حبس تھا لیکن آج کی بارش نے یہ حبس ختم کر دیا تھا۔ مغربی اُفق پر ہلکے بادل تھے۔
’شاید ابھی اور بارش ہو گی۔‘ اس نے جامن کے درخت پر بیٹھی چڑیا کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ تبھی اس کی نظر گیٹ میں داخل ہوتی وائٹ کرولا پر پڑی۔
’تو آرب آفس سے آ گئے۔‘ وہ پیچھے ہٹ کر ٹیرس پر پڑی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ پرانے طرز کے بنے ہوئے اس گھر میں فرسٹ فلور کے ہر کمرے کے آگے نیم دائرے کی شکل میں ٹیرس یا گیلری سی بنی ہوئی تھی۔ جب بھی کمرے میں اس کا دل گھبراتا، وہ یہاں آ بیٹھتی تھی۔ رشتوں کا اعتماد اور مان تو وہ پہلے ہی کھو چکی تھی۔ لیکن اب تو یہ مان کسی پھٹی پرانی اوڑھنی کی طرح تار تار ہو گیا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ خلا میں چکرانے لگی ہے۔
’رشتوں کے بھرم کھلیں تو کیا اندر سے اتنی خوفناک بلائیں اور خوفناکیاں برآمد ہوتی ہیں جو جھیلے جانے کے قابل نہیں ہوتیں؟ کیا دنیا میں کوئی رشتہ، رشتہ نہیں؟‘
اس نے بے حد دل گرفتگی سے سوچا اور ہاتھ آگے بڑھا کر بارش کے ننھے سے قطروں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ کسی بھولے بھٹکے بادل نے گزرتے ہوئے چند قطرے بکھیرے تھے۔
اس روز اسفند یار نے اسے بلایا تھا۔ وہ کچھ حیران سی مونا کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آئی۔ اسفند یار کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھٹک کر رک گئی۔
’’آئو، آ جائو ایلیا! ۔۔۔۔۔ یہ وکیل صاحب ہیں۔ تم سے ہی ملنے آئے ہیں۔‘‘ خلافِ معمول ان کا لہجہ نرم تھا۔
’’یہ ایلیا ہے۔ ثمرین کی بیٹی۔‘‘ انہوں نے وکیل کی طرف دیکھا۔
’’ہاں بیٹا!۔۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’جی، اچھی ہوں۔‘‘ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’یہ تو ثمرین کی کاپی ہے۔‘‘ وکیل نے اسفند یار کی طرف دیکھا۔
’کیا انہوں نے میری ماما کو دیکھ رکھا ہے؟‘ اس نے حسرت سے سوچا۔
’’بیٹا! یہ کچھ کاغذات ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک فائل اس کی طرف بڑھائی۔ ’’لاہور میں ایک پلازہ، ایک ہائوسنگ اسکیم ہے جس میں تقریباً پینتیس پلاٹ ہیں، کچھ کنال کے، کچھ پانچ اور دس مرلے کے۔ اور ملتان کی بھی کچھ پراپرٹی کے پیپرز ہیں جو خان صاحب نے تمہارے نام کر دیئے ہیں۔‘‘
اس نے فائل پکڑ لی لیکن اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔
ShareThis
’’تم چاہو تو یہ پلاٹ فروخت کر دو۔ جو چاہے کرو، مالک ہو ان کی۔‘‘ وکیل صاحب مسکرائے۔ ’’زرعی اراضی میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ جیسے ہی قانونی تقاضے پورے ہوئے، پیپرز آپ تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’وہ لوگ امریکہ سے واپس آ گئے کیا؟ بائی پاس ہو گیا کیا؟‘‘
اسفند یار نے بری طرح چونک کر اسے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ بیٹھی ہے۔
’’نہیں، آپریشن تو ہو گیا ہے خان صاحب کا۔ کامیاب ہے۔ لیکن ڈاکٹروں نے ابھی مزید کچھ عرصہ رکنے کو کہا ہے۔‘‘
فائل اس کے حوالے کر کے اسفند یار سے ہاتھ ملا کر وکیل چلا گیا۔ وہ فائل گود میں رکھے ساکت بیٹھی تھی۔ وکیل کو سی آف کر کے اسفند یار آئے اور اس کی گود سے بے چینی سے فائل اٹھا کر اس کی ورق گردانی کرتے رہے۔ وہ مضطرب سی ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ٹھہرو۔‘‘ انہوں نے فائل بند کر کے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگ امریکہ گئے ہوئے ہیں؟‘‘ ان کے سپاٹ لہجے میں بڑی سرد مہری تھی۔ اس نے جھرجھری سی لے کر انہیں دیکھا۔
’’آفتاب انکل نے۔‘‘
’’کیا وہ۔۔۔۔۔۔ (گالی دے کر) تمہیں فون کرتا ہے اب بھی؟۔۔۔۔۔۔ کیا رشتہ ہے اس کا تم سے؟‘‘
ایلیا نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ہاں ایلیا۔۔۔۔۔!‘‘ انہوں نے یکایک ہی آواز دھیمی اور نرم کر لی۔ ’’یہ پلازے کی دکانوں کے کرائے وصول کرنا اور پلاٹس کی فروخت وغیرہ کے سلسلے میں تمہارا مختار نامہ چاہئے۔ میں کل شام پیپرز لے آئوں گا۔ میں تمہارا باپ اور مختار ہوں تو۔۔۔۔۔‘‘
’’سوری ابی جان!۔۔۔۔۔ میں نے ابھی سوچا نہیں ہے کہ میں کسے اپنا مختار بنائوں۔‘‘ اس نے فائل لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ اسفندیار نے بے حد حیرت سے اسے دیکھا۔
’’تم کسے مختار بنانا چاہتی ہو؟‘‘
’’شاید کسی کو بھی نہیں۔‘‘
’’پاگل ہو گئی ہو۔ یہ لڑکیوں کے بس کا کام نہیں ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ لیکن مجھے اس پراپرٹی کی ضرورت نہیں۔ میں یہ کاغذات واپس کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تمہارا دماغ خراب ہے۔ تمہارا حق ہے یہ۔ ثمرین تو اس سے زیادہ کی حق دار ہے۔ یقینا بڈھے نے جائیداد تقسیم کرتے ہوئے ڈنڈی ماری ہو گی۔‘‘
اس سمے پہلی بار ایلیا نے اسفند یار کے لئے دل میں نفرت محسوس کی۔
’’میں جانتی ہوں۔ لیکن میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ ان کے امریکہ سے واپس آنے کے بعد میں یہ سب واپس کر دوں گی اور ان سے کہوں گی کہ وہ مما کے نام ایک ٹرسٹ بنا دیں۔ یتیم، غریب اور لا وارث لوگوں کے لئے۔‘‘
’’یہ پٹی تمہیں اس آفتاب نے ہی پڑھائی ہو گی۔ خود کیوں نہیں بنا لیتا ٹرسٹ غریبوں، یتیموں کے لئے۔‘‘ اسفند یار کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔
’’انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے۔‘‘
اس نے فائل لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن اسفند یار نے فائل اسے نہیں دی۔
’’یہ کوئی بے پرواہی سے اِدھر اُدھر پھینکنے والے کاغذ نہیں ہیں۔ میں لاکر میں رکھ دیتا ہوں۔ اور ہاں، یہ خناس جو تمہارے دماغ میں بھرا ہوا ہے اسے نکال دو۔‘‘
ایلیا بغیر جواب دیئے ڈرائنگ روم سے نکل آئی تھی۔ اور پھر اپنی جرأت اور اعتماد پر خود ہی کتنی دیر حیران ہوتی رہی۔ یہ اعتماد آرب مصطفی نے اسے دیا تھا۔ ان بیتے دنوں میں کتنی ہی بار آرب مصطفی سے اس کی بات ہوئی تھی اور ہر بار ہی آرب نے اس کے اندر نیا حوصلہ پیدا کیا تھا۔ جب دوستی کا رشتہ بنا تو اس نے بھی سب کچھ آرم کو بتا دیا۔ وہ سب جو انکل آفتاب نے اسے بتایا تھا۔
’تو یہ تھی اصل وجہ ایلیا! ۔۔۔۔۔ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ محض دولت کے لالچ میں بہنوں اور بیٹیوں کے بستے گھر اُجاڑ دیتے ہیں۔‘‘
ShareThis
’’میرا گھر بسا ہی کب تھا آرب!‘‘ دل کا درد لبوں پر آ گیا تھا۔ ’’ہاں، مجھے ایک سائبان مل گیا تھا، محبتیں ملی تھیں۔ میں نے انکل اور چاچی میں ماں باپ دونوں کی محبتوں کا ذائقہ چکھا تھا۔ میں اس دہلیز کو مر کر ہی چھوڑنا چاہتی تھی۔‘‘
’’لیکن وہ زندگی بھی کوئی زندگی نہ تھی ایلیا!‘‘ بات کرتے کرتے آرب کبھی بے حد اُداس ہو جاتا تھا۔
’’آپا چاہتی ہیں، میں تم سے شادی کر لوں۔‘‘ ایک روز اس نے بتایا اور پھر ہولے سے ہنسا۔ ’’حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ مجھے تمہارے سائے تک سے بچانا چاہتی تھیں اور بدر کو باقاعدہ میری جاسوسی پر لگایا ہوا تھا کہ میں کہیں تنہائی میں تم سے بات نہ کروں۔‘‘
’’پھر آپ نے ان سے کیا کہا؟‘‘ ایلیا نے دھڑکتے دل سے پوچھا تھا۔
’’میں نے انکار کر دیا۔‘‘ آرب نے ایک گہری سانس لی تو ایلیا کو ایک لمحے کے لئے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
’’کاش تم اتنی امیر نہ ہوتیں، اتنی بڑی جائیداد کی مالک تو میں شاید خوشی سے پاگل ہو جاتا۔ پتہ نہیں تم میرا یقین کرو گی یا نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ جب میں نے چار سالوں بعد اس روز صبح تمہیں لان میں بیٹھے دیکھا تو میں خدا کے ہنر و قدرت پر حیران رہ گیا۔
شابی بھابی کہہ رہی تھیں کہ تم چار سالوں میں ذرا بھی نہیں بدلی ہو۔ لیکن مجھے تو بہت انوکھی اور خاص سی لگیں۔ شاید چار سال پہلے میں نے کبھی دھیان سے تمہیں دیکھا ہی نہیں تھا۔ اور آگاہی کا یہ لمحہ ابھی ابھی مجھ پر اُترا تھا۔ میرے دل میں ایک چور سی خواہش نے سر اٹھایا تو میں کسی مجرم کی طرح اسے چھپانے لگا اور احساسِ جرم کا شکار ہونے لگا۔
تم ایک شادی شدہ لڑکی تھیں۔ پھر مجھے کیا حق تھا کہ میں تمہیں سوچوں۔ لیکن تمہاری آنکھوں کی اُداسی مجھے بار بار تمہیں دیکھنے پر اُکساتی۔ میں کچن میں کھڑے مونا سے گپ لگاتے اپنے روم کی کھڑکی سے، لائونج میں بیٹھے کتنی ہی بار تمہیں حسرت سے دیکھتا۔
پھر چھوٹے بھیا نے بتایا کہ ایاز نے شادی کر لی۔ تمہارا دکھ میرے دل میں اُتر آیا۔ میں تمہیں اسے تنہا جھیلتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے تمہارے لئے بہت دعائیں کی ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نے بغیر کسی غرض کے اپنی ذات کو الگ کر کے تمہارے لئے سوچا انکل آفتاب سے بات کی اور مطمئن ہو گیا کہ تم معتبر اور پیار کرنے والے لوگوں کے پاس ہو۔ وہ تمہاری زندگی ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ وہ ایسے ہی پیارے اور مشفق لوگ ہیں۔
اور ایلیا! پھر تم یہاں آ گئیں۔ میں جی اٹھا۔۔۔۔۔ میں نے سوچا شاید میری لگن سچی تھی۔ گو میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ میرے اندر پھر خواب بننے اور سنورنے لگے۔ میں نے بارہا تصور میں تمہیں اپنے سنگ دیکھا تھا۔ لیکن۔۔۔۔۔‘‘
وہ کتنی ہی دیر ہونٹ بھینچے بیٹھا رہا۔
’’میں نے آپا کو منع کر دیا۔۔۔۔۔ جانتی ہو کیوں، میں نہیں چاہتا کہ تم یہ سمجھو کہ میری محبت میں لالچ تھا۔ تمہاری کروڑوں کی جائیداد کا لالچ۔۔۔۔۔ میرے صبح شام، میرے دن اور رات، ماہ و سال سب تمہیں سوچنے میں گزریں گے ایلیا! میں نے آپا کے اصرار کے باوجود ہاں نہیں کی۔ جانتی ہو آپا نے اس کے بعد کیا کہا؟‘‘ اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ زہریلی مسکراہٹ آ کر ٹھہر گئی تھی۔
’’انہوں نے کہا۔۔۔۔۔ تمہیں وہ پسند نہیں تو بعد میں فارغ کر دینا۔ سب پراپرٹی وغیرہ اپنے نام کروا کے۔۔۔۔۔ میں ان سے کیا کہتا کہ آپ پسند کی بات کرتی ہیں، وہ تو میرے دل میں بیٹھی مجھ پر حکومت کرتی ہے۔ میرے روم روم میں بس رہی ہے۔‘‘ آرب اٹھ کر چلا گیا۔
تب ایلیا نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پراپرٹی نہیں لے گی۔ واپس کر دے گی اور نانا جان سے کہے گی کہ وہ ثمرین کے نام پر کوئی ٹرسٹ، کوئی ہسپتال کچھ بھی بنوا دیں۔ پھر اگر آرب مصطفی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ اس کا ہاتھ تھام لے گی۔ بقول آرب مصطفی کے۔
ابھی اِک خواب باقی ہے
ابھی آنکھوں میں جل تھل ہے
ابھی سینے میں ہلچل ہے
ابھی کھڑکی میں بارش ہے
ابھی برفاب باقی ہے
Zafina
08-01-2012, 12:30 AM
ابھی اِک خواب باقی ہے
لیکن وہ کچھ بھی تو نہ کر سکی۔ اُس کے ارادے جان کر ان سب کے چہروں سے مصنوعی نقاب اُتر گئے تھے۔ ان کے رویوں میں بھی فرق نظر آنے لگا تھا۔ فائل ابی جان کے قبضے میں تھی۔ انہوں نے اس کا کالج جانا بند کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا سیل فون بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ اب نہ وہ کسی سے رابطہ کر سکتی تھی اور نہ کہیں جا سکتی تھی۔ بڑے بھیا اور اسفندیار کا اصرار تھا کہ وہ اپنی تمام جائیداد کا مالک و مختار انہیں بنا دے۔ وہ شاید تھک کر ایسا کر بھی دیتی لیکن آرب تھا جو اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہتا۔
’’ایلا! ایسا مت کرنا۔ پتہ نہیں کیوں، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پھر تمہاری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘
آرب سے ہی اسے معلوم ہوا تھا کہ جس مختار نامے پر ابی جان پہلے ہی دستخط کروا چکے تھے وہ کہیں کھو گیا تھا۔ چھوٹی امی کا خیال تھا کہ چھوٹے یا بڑے بھیا نے اُڑا لیا تھا اور ضائع کر دیا تھا۔ جب کہ شابی بھابی کو اس نے کہتے سنا تھا۔
’’ابی جان نے ساری دولت پر تنہا قبضہ کرنے کے لئے فی الحال وہ کہیں چھپا دیا ہے اور ظاہر کر رہے ہیں کہ کھو گیا ہے۔ اور یہ سب چھوٹی امی کروا رہی ہیں۔ حالانکہ پہلے تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پلازہ طلال کے نام کروا دیں گے۔‘‘
جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اسٹام پیپر کھو گیا تھا۔ انوشہ کا خیال تھا کہ ایک روز اس نے بوبی اور بدر کو اس کے جہاز بنا کر اُڑاتے دیکھا تھا۔
’پتہ نہیں، انکل آفتاب نے فون کیا ہو۔ شاید نینا کا فون بھی آیا ہو۔ انکل تو ضرور پریشان ہوں گے۔‘
اس نے سامنے نیلے آسمان پر اُڑتے تنہا پرندے کو دیکھا۔
’میں بھی اسی پرندے کی طرح ہوں۔ تنہا اور اکیلی۔‘
یکدم اس کا دل گھبرایا تو وہ اٹھ کر اندر آ گئی۔ آرب نے کہا تھا وہ اسے نیا فون لا دے گا۔ پتہ نہیں وہ نیا سیٹ لایا تھا یا نہیں۔ اگر فون مل جاتا تو وہ انکل آفتاب کو فون کر لیتی۔
’’پتہ نہیں اس سب کا کیا انجام ہو گا؟۔۔۔۔۔ میں بھی پتہ نہیں کیوں ایسا کر رہی ہوں۔ ابی جان کے نام سب کچھ کر دوں، انہیں مالک و مختار بنا دوں اور سب کی محبتیں حاصل کر لوں۔‘‘
’’محبتیں خریدی نہیں جاتیں ایلیا! تم دیکھنا یہ سب کچھ دے کر بھی کچھ نہ پا سکو گی۔‘‘ آرب نے کہا تھا لیکن وہ اس صورتِ حال سے تھک چکی تھی۔
’نینا عادل سے ہی مشورہ کر لیتی تو شاید۔۔۔۔۔ لیکن فون۔۔۔۔۔۔‘ گھر کے فون ابی جان نے لاکڈ کر دیئے تھے۔
’آرب کی گاڑی گیٹ سے داخل ہوتے دیکھی تھی۔ مونا سے کہوں گی کہ آرب سے پوچھے وہ موبائل سیٹ لایا ہے تو۔۔۔۔۔۔‘ وہ اٹھی ہی تھی کہ مونا نے دروازے پر دستک دی۔
’’آ جائو مونا!۔۔۔۔۔ میں ابھی تمہاری ہی طرف جا رہی تھی۔‘‘
’’جی، وہ بڑی امی نے بہت شور ڈال رکھا ہے۔ کھانا بھی نہیں کھایا، چائے بھی گرا دی۔ آپ چلیں نا اوپر۔ وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے بڑی امی سے ہمدردی تھی۔ اسے ان پر ترس آتا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ بڑی امی کے متعلق بڑے بھیا سے بات کرے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتی کہ کہیں وہ برا نہ منائیں۔
’’آپ چلیں نا اوپر۔ میں کھانا لاتا ہوں۔ یہ رہی کمرے کی چابی۔‘‘ اس نے مٹھی کھول کر چابی اسے دی۔ وہ اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ ’’ایمان سے اس گھر میں سب کے دل ہی پتھر سے بنے ہوئے ہیں سوائے آپ کے۔‘‘
ایلیا خاموشی سے دروازہ کھول کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ بڑی امی اسے دیکھ کر خوش تو ہوئیں لیکن ناراض بھی ہو گئیں۔
’’تم آج آئی کیوں نہیں؟‘‘
’’میرے سر میں درد تھا۔۔۔۔۔ میں سو گئی تھی۔‘‘ وہ افسردہ سی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔
’’لا، میں تیرا سر دبا دبوں۔ ادھر میری گود میں سر رکھ۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ اب تو درد نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا، پھر اتنی چپ چپ کیوں ہے؟‘‘ وہ بغور اسے دیکھ رہی تھیں۔ وہ چونکی۔ کیا انہیں پاگل کہا جا سکتا تھا؟
’’کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ یوں ہی بس سوچ رہی تھی۔ میں چلی جائوں گی تو آپ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ShareThis
’’کہاں؟۔۔۔۔۔ کہاں چلی جائے گی؟‘‘ انہوں نے سختی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’اپنے گھر۔‘‘ ایلیا نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
’’مجھے بھی اپنے ساتھ لے چل۔ میری بیٹی نہیں ہے تُو؟‘‘ وہ محنت کرنے لگیں تو اس کا دل دکھ گیا۔
’’اپنے خاوند سے ڈرتی ہے؟‘‘ وہ اُداس ہو گئیں۔
’’ہاں۔ لیکن میں بات کروں گی۔ پھر لے جائوں گی۔‘‘ اس نے انہیں تسلی دی۔
’’وہ اچھا ہے نا؟۔۔۔۔۔ تیری بات مان جائے گا نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ایلیا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اپنے ابی جان کو مت بتانا۔ بس چوری سے لے جانا مجھے چھپا کر۔ نہیں تو وہ نہیں جانے دیں گے۔‘‘
ایلیا نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔ تبھی مونا کھانا گرم کر کے لے آیا تو ایلیا نے اصرار کر کے انہیں کھانا کھلایا اور کھانے کے بعد ٹیبلٹ دی۔ غالباً سکون کی گولی تھی۔ کیونکہ وہ اکثر اسے کھانے کے بعد سو جاتی تھیں۔
مونا برتن اٹھا کر چلا گیا تو وہ کچھ دیر اور بیٹھی رہی۔ وہ بار بار اس سے یقین دہانی کرواتیں کہ وہ انہیں ساتھ ہی لے جائے گی اور یہ کہ آج وہ نیچے نہیں جائے گی، ادھر ہی رہے گی۔
کچھ دیر بعد وہ سو گئیں تو ایلیا باہر آئی۔
آسمان پھر بادلوں سے بھر گیا تھا۔ شاید پھر بارش ہونے والی تھی۔ کچھ دیر وہ یونہی آسمان پر بھاگتے بادلوں کو دیکھتی رہی، پھر سیڑھیوں کا دروازہ بند کر کے نیچے اترنے لگی۔ لائونج میں صوفے پر بڑے بھیا اخبار دیکھ رہے تھے اور سامنے پڑی ٹیبل پر پلیٹ میں پکوڑے رکھے تھے۔ ایک لمحے کو وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ انہوں نے اخبار سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
’’آئو ایلا!۔۔۔۔۔ پکوڑے لو، گرم گرم۔ تمہاری بھابی نے بارش سے لطف اندوز ہونے کے لئے بنائے ہیں۔‘‘
’’جی۔‘‘ وہ ہولے ہولے چلتی ہوئی ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’بیٹھ جائو گڑیا!‘‘ انہوں نے صوفے پر اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ’’اوپر کیا کر رہی تھیں؟‘‘ ان کا انداز سرسری سا تھا۔
’’وہ، بڑی امی کے پاس تھی۔‘‘ وہ جھجکی۔
’’تم سے کافی مانوس ہو گئی ہیں۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔ وہ بڑے بھیا!‘‘ اسے ان کی گفتگو سے حوصلہ ہوا۔ ’’بڑی امی اوپر بہت گھبراتی ہیں۔ اکیلے رہ کر تو اچھا بھلا آدمی پاگل ہو جائے۔ وہ تو۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے انہیں اگر آپ نیچے لے آئیں۔ وہ سب کے درمیان رہیں گی تو خوش رہیں گی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ میں بات کروں گا ابی جان سے۔‘‘ بڑے بھیا اسے بہ غور دیکھ رہے تھے۔
’’ابی جان۔۔۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
’’بڑے بھیا!‘‘ لمحہ بھر بعد اس نے کہا۔ ’’وہ آپ کی ماں ہیں۔ یہ تو آپ کا اور چھوٹے بھیا کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھیں۔ انہیں وقت دیں۔ ابی جان کے پاس تو ان کی بیوی ہے۔ انہیں ضرورت نہیں ہے ان کی۔ لیکن اولاد کو تو ہمیشہ ماں کی ضرورت رہتی ہے نا۔‘‘
بڑے بھیا کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ اُبھری۔
’’تم بالکل ثمرین ماما کی طرح ہو۔ نرم دل، مہربان۔ لیکن تمہیں شاید نہیں معلوم کہ وہ کبھی کبھی بہت خطرناک ہو جاتی ہیں اور کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لئے انہیں اوپر رکھا ہے۔ اور مجھے ان کا خیال ہے۔ میں نے ہی انہیں پاگل خانے سے نکال کر فائونٹین ہائوس میں رکھا تھا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے بڑے بھیا! لیکن اب وہ کافی حد تک نارمل ہیں۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہی ہو ایلا! جب کہ انہوں نے تمہیں نقصان پہنچانے کی بلکہ تمہاری جان لینے کی کوشش کی تھی۔ خدانخواستہ اگر۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں بڑے بھیا! وہ تو۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ان کی بات کاٹی۔ لیکن پھر یک دم لب دانتوں تلے دبا لئے۔ آرب نے سختی سے منع کیا تھا۔
ShareThis
’’کبھی ظاہر مت کرنا کہ بڑی امی پر شک نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن خوامخواہ سب سمجھ رہے ہیں کہ بڑی امی نے۔۔۔۔۔‘‘
’’سمجھنے دو۔‘‘ آرب نے اسے ٹوک دیا۔ ’’ایلا! اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ ورنہ اگر تمہارے دشمن کو پتہ چل گیا کہ تم اس سے واقف ہو تو تمہاری زندگی کو خطرہ بڑھ جائے گا۔‘‘
اسے آرب کی باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں۔ لیکن پھر بھی اس نے کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔
ایک روز وہ چھت پر گئی تو بڑی امی سو رہی تھیں۔ وہ دروازہ یونہی کھلا چھوڑ کر باہر ریلنگ کے پاس آ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ آس پاس کی چھتیں ویران تھیں۔ یوں بھی چھتوں پر کبھی کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔ کبھی کبھار کسی چھت پر کوئی بچہ پتنگ اُڑاتا نظر آ جاتا۔ لیکن آج سہ پہر تین بجے ہر طرف ویرانی تھی۔ اس کا دل بند کمرے میں پڑے پڑے گھبرایا تھا تو وہ اوپر چلی آئی تھی۔ اس نے ریلنگ پر جھکتے ہوئے روڈ پر گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھا۔
’اگر میں کبھی گیٹ سے باہر نکل جائوں۔۔۔۔۔ کوئی رکشہ لے کر فلائنگ کوچ کے اڈے پر پہنچ جائوں اور وہاں سے ساہیوال پھر۔۔۔۔۔‘
وہ اتنی محو تھی کہ اردگرد سے بے خبر ہو گئی۔ اچانک اسے لگا جیسے کسی نے اسے ہلکا سا پش کیا ہو اور ساتھ ہی ایک وحشت ناک چیخ سنائی دی۔ ایک لمحے کو اس کے حواس معطل ہو گئے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سیدھی ہو کر مڑی۔ اس کے بالکل پیچھے چھوٹے بھیا اور ان کے ساتھ بڑی امی حواس باختہ سی کھڑی تھیں اور ان کے حلق سے وحشت ناک چیخیں نکل رہی تھیں۔
اس نے کسی قدر حیرت سے چھوٹے بھیا کو دیکھا لیکن مسلسل چیختی بڑی امی نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
’’امی! پلیز، کیا ہوا؟‘‘ اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ بہ مشکل ان کے لبوں سے نکلا تھا۔ پھر یکدم انہوں نے اسے اپنے دونوں بازوئوں میں چھپا لیا۔
’’امی! پلیز۔‘‘ اس نے انہیں ریلیکس کرنے کے لئے ان کی پیٹھ کو تھپتھپایا۔
’’چلیں، اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔ آپ چائے پئیں گی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ انہوں نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا۔
ایلیا انہیں بہلا کر اندر لے آئی۔ ’’چھوٹے بھیا ہیں۔‘‘
جاتے جاتے ایلیا کو لگا جیسے ان کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے ہوں اور چہرے پر گھبراہٹ ہو۔ وہ سہمی سہمی سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’وہ تمہیں دھکا دینے لگا تھا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تو انہوں نے زور و شور سے سر ہلایا۔
’’ہاں، دینے لگا تھا۔ وہ دبے پائوں تمہاری طرف جا رہا تھا۔ میں تمہیں دیکھ رہی تھی۔ میں باہر آ گئی۔ دروازے کے پیچھے۔‘‘ ان کی آنکھوں سے وحشت جھلکنے لگی اور وہ پھر چیخنے لگیں تو وہ ہولے ہولے ان کے ہاتھ سہلانے لگی تھی۔ تبھی چھوٹے بھیا اسے کھلے دروازے سے آتے دکھائی دیئے۔
’’چھپ جائو۔۔۔۔۔ ‘‘ وہ خوف زدہ ہو کر اسے اپنے پیچھے چھپانے لگیں۔
’’یہ ۔۔۔۔۔ یہ تو چھوٹے بھیا ہیں بڑی امی!‘‘ چھوٹے بھیا اندر آ چکے تھے اور وہ بڑی بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ ان کا نام تو لیتی رہتی تھیں لیکن شاید پہچانتی نہیں تھیں۔ طلال، بلال اکثر ان کی زبان پر رہتا تھا۔
’’میں امی کو دیکھنے اوپر آیا تھا۔ پھر تمہیں ریلنگ کے پاس کھڑے اور تمہارے پیچھے امی کو کھڑے دیکھ کر تمہاری طرف بڑھا۔ میں نے دیکھا کہ امی نے تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔ وہ تمہیں دھکا دینے لگی تھیں۔‘‘
’’میں، وہاں ریلنگ کے پاس کھڑی تھی کہ اچانک بڑی امی کی چیخ سن کر مڑی۔‘‘
’’اتنی چھوٹی سی ریلنگ ہے۔ تم گھبرا کر نیچے ہی گر جاتیں تو؟‘‘ چھوٹے بھیا اسے کھوجتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ شاید میں گرنے ہی لگی تھی۔‘‘ اسے بڑی امی کی بات پر یقین نہیں آیا تھا کہ چھوٹے بھیا اسے دھکا دے رہے تھے۔ پشت پر اسے جو لمس محسوس ہوا تھا، ہو سکتا ہے اس کا وہم ہو۔ بڑی امی چھوٹے بھیا کو گھور رہی تھیں
Zafina
08-01-2012, 12:30 AM
’’نہیں، یہ بلال نہیں ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ دائیں ہاتھ سے انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ سے وہ انہیں دھکیل رہی تھیں۔
’’جائو تم جھوٹے! تم اس کے بھائی نہیں ہو۔ میں نہیں جانتی کیا؟‘‘
چھوٹے بھیا کے چہرے پر بکھرتی شرمندگی ایلیا نے محسوس کی۔
’’چھوٹے بھیا!۔۔۔۔۔ اس وقت امی کچھ اپ سیٹ ہیں۔ ورنہ وہ آپ کو دیکھ کر خوش ہوتیں۔‘‘
’’اچھا، میں جا رہا ہوں۔ اور تم محتاط رہا کرو۔‘‘ وہ تیزی سے مڑ گئے تھے۔
جب وہ نیچے آئی تو چھوٹے بھیا سب کو بتا چکے تھے کہ بڑی امی اسے ریلنگ سے دھکا دے کر گرانے لگی تھیں۔
’’اگر میں پہنچ نہ جاتا تو ایلیا اس وقت زندہ نہ ہوتی۔‘‘
وہ تردید کرنا چاہتی تھی لیکن نہ کر سکی۔ بڑی امی اسے دھکا نہیں دے سکتی تھیں۔ تو کیا چھوٹے بھیا ۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
اسی شام جب آرب اوپر آیا تو اس نے ساری بات سن کر اسے منع کیا تھا کہ وہ یہ بات زبان پر نہ لائے کہ چھوٹے بھیا۔۔۔۔۔
’’کیا وہ تو۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ بڑے بھیا کی آنکھوں میں تجسّس تھا۔
’’وہ تو محض اتفاق تھا۔‘‘ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ اتفاق پھر بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ اور یہاں چھوٹے بچے بھی ہیں۔ خدانخواستہ۔‘‘
’’نہیں بڑے بھیا! وہ آپ کو اور چھوٹے بھیا کو بہت یاد کرتی ہیں۔ روز مجھ سے کہتی ہیں طلال اور بلال کہاں ہیں۔ میرے پاس کیوں نہیں آتے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘ ان کی آنکھوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ’’لیکن جب میں فونٹین ہائوس میں جاتا تھا تو وہ مجھے نہیں پہچانتی تھیں۔‘‘
’’تو آپ اپنی پہچان کرواتے نا۔ جب ہوش و حواس نے ان کا ساتھ چھوڑا تھا تو آپ تو چھوٹے سے تھے۔ پھر وہ آپ کو کیسے پہچانتیں؟ میں نے بھی تو اپنی پہچان خود کروائی ہے۔‘‘
’’کیا پہچان کروائی ہے؟‘‘ ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’میں نے کہا میں ان کی بیٹی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھ رہی تھی وہ مر گئی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔‘‘
بڑے بھیا کے لب بھنچ گئے اور چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔۔۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہے تھے شاید۔
آج کتنے سالوں بعد بڑے بھیا یوں اس کے پاس بیٹھے اپنائیت سے باتیں کر رہے تھے۔ اس کا دل گداز ہونے لگا۔ اندر کہیں کن من، کن من ہونے لگی تھی۔
’’پکوڑے تو لو نا۔۔۔۔۔ ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کسی خیال سے چونکتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ ایلیا نے پکوڑا اٹھا لیا۔
’’ہاں، تو پھر تم نے کیا سوچا ہے ایلا! اپنی پراپرٹی کے متعلق؟ ابی جان کو کیوں ناراض کرتی ہو؟ پڑھائی کا بھی حرج ہو رہا ہے تمہارا۔ میں نے سمجھایا تھا انہیں، تمہاری چیز ہے تم جو چاہو کرو۔ لیکن ابی جان تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تمہارا حق ہے اور یہ کہ وہ تمہارا پیسہ، جائیداد تمہارے لئے ہی محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ تمہیں ان کے خلوص پر شک نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
’’جی ۔۔۔۔۔ لیکن میں ان کے آنے پر جب ان کا وکیل آئے گا، سب واپس کر دوں گی۔‘‘
’’تمہارا جذبہ قابل قدر ہے گڑیا! لیکن تم خو د بھی تو اس پراپرٹی کی آمدنی سے ثمرین ماما کے نام پر کوئی ٹرسٹ بنا سکتی ہو۔ ہسپتال بنانا چاہتی ہو یا جو کچھ بھی کرنا چاہتی ہو کر سکتی ہو۔‘‘
’’میں خود۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنی طرف حیرت سے اشارہ کیا۔ ’’بڑے بھیا! مجھے ان معاملات کا علم نہیں۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔‘‘
’’تو میں کس لئے ہوں گڑیا! جو تم چاہو گی ویسا ہی کروں گا۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ تم کچھ پلاٹ فروخت کر دو اور اس رقم سے بقیہ جگہ پر ایک ہسپتال بنوا دو غریب لوگوں کے لئے اور پلازے کی آمدنی سے ہسپتال کے اخراجات وغیرہ پورے ہوتے رہیں گے۔‘‘
’’لیکن وہ فائل تو ابی جان کے پاس ہے۔‘‘ اسے بڑے بھیا کی بات صحیح لگی۔
’’ہاں، خیر اس کا کوئی مسئلہ نہیں۔ ابھی تو بقیہ اراضی غالباً زرعی اراضی کے پیپرز تمہیں ملنے ہیں۔ تمہارے وکیل آئیں گے جب تو اس کے بعد ابی جان سے فائل لے لوں گا لیکن۔۔۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہوئے تو وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’لیکن کیا؟‘‘
ShareThis
’’جائیداد کی خرید و فروخت کے سلسلے میں تمہارا مختار نامہ چاہئے ہو گا تو شاید تم اعتبار نہ کرو مجھ پر۔ خیر ٹھیک ہے۔ تم نے جو سوچا ہے ویسا ہی کر لو۔ واپس کر دو سب اور اپنی خواہش بتا دینا وکیل کو۔‘‘ ان کے انداز میں بے پرواہی تھی۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا۔ ’’میں بھلا آپ پر کیوں اعتبار نہیں کروں گی۔ وہ تو میں۔۔۔۔۔۔‘‘ اسے تو بچپن سے ہی بڑے بھیا سے بہت لگائو تھا۔ اور یہ بڑے بھیا ہی تو تھے جنہوں نے امی کی ڈیتھ کے بعد اسے سنبھالا تھا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ کل چلیں گے۔ اسٹامپ پیپر وغیرہ لے لیں گے۔ تم صبح تیار ہو جانا۔‘‘
’’لیکن وہ ابی جان نے مجھے گھر سے باہر نکلنے سے منع کر رکھا ہے۔ وہ تو۔۔۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
’’ایلا چندا! میں بات کر لوں گ ابی جان سے۔ اب رونا نہیں شاباش۔ اور صبح تیاری پکی۔‘‘
’’کہاں کی تیاری پکی ہے بھیا؟‘‘ چھوٹے بھیا اپنے کمرے سے نکلے تو ان کے لبوں پر بڑی دلکش مسکراہٹ تھی۔
’’کچھ نہیں میں ایلا سے کہہ رہا تھا کل سے کالج جائے اپنے۔‘‘ وہ کچھ سٹپٹائے۔
’’لیکن ابی جان نے تو اسے کالج جانے سے منع کر دیا ہے۔‘‘ قریب آ کر انہوں نے جھک کر پلیٹ سے پکوڑا اٹھایا۔ ان کے لبوں پر اب بھی مسکراہٹ سجی تھی۔ ’’اور آپ جانتے ہیں ابی جان جو کہہ دیتے ہیں اس سے نہیں ہٹتے۔‘‘
’’ہاں، ایلیا چندا! ذرا نیچے جا کر مونا سے کہو چائے تو بنا کر لے آئے۔‘‘
ایلیا بنا کچھ کہے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ویسے ابی جان ایلیا سے بہت خوش ہیں۔ اور کل کہہ رہے تھے کہ ایلیا کا بیڈ بھی اوپر امی کے کمرے میں لگا دیا جائے تو امی خوش رہیں گی۔‘‘
ایلیا کا دل کپکپایا۔ چھوٹے بھیا نے جاتی ہوئی ایلیا کو کن انکھیوں سے دیکھا اور سرگوشی کے سے انداز میں بولے۔
’’ویسے آئیڈیا برا نہیں۔ یہ ابی جان بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔‘‘
’’اور ہاں، یہ رہا وہ اسٹامپ پیپر جس پر ابی جان نے ایلیا سے دستخط کروائے تھے۔‘‘ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے سنا۔
’’یہ تمہارے پاس کیسے آیا؟‘‘ بڑے بھیا کے لہجے میں استعجاب تھا اور غیر ارادی طور پر ان کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔ وہ وہیں سیڑھیوں پر رک گئی۔
’’بوبی لایا تھا میرے پاس کشتی اور جہاز بنوانے کے لئے۔ میں نے یہ رکھ لیا اور اسے دوسرے کاغذ کا جہاز بنا دیا۔‘‘ چھوٹے بھیا بولے۔
’’اور تم نے اتنے دنوں سے ذکر تک نہیں کیا۔ ابی جان کو بتایا تک نہیں۔‘‘ بڑے بھیا نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں انہیں بتانا نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے سنا۔ پھر ان کی آواز اتنی آہستہ ہو گئی کہ وہ کچھ نہ سن سکی۔ بھاری قدموں سے چلتی ہوئی وہ کچن میں آئی، مونا گنگناتے ہوئے برتن دھو رہا تھا جب کہ بوا صبح کے دُھلے برتن الماریوں میں رکھ رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ وہ اسے ترس، ہمدردی اور محبت سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ مونا کو چائے کا کہہ کر خیرن بوا سے ان کی طبیعت کا پوچھنے لگی۔ لیکن دل جیسے کسی بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔
’’ایلا!‘‘ خیرن بوا نے اِدھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی کی۔ ’’تُو یہاں سے چلی جا بچے! وہیں اپنے سسرال۔ ملک صاحب ہمدرد آدمی ہیں۔ وہ تجھے۔۔۔۔۔۔‘‘
مونا صافی سے ہاتھ پونچھ کر چائے کا پانی رکھنے کے لئے کائونٹر کی طرف آیا تو بوا گھبرا کر چپ ہو گئیں۔
’’بوا۔۔۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے۔ ’’میں ان سے کیسے رابطہ کروں؟ میرا سیل فون میرے کمرے سے ابی جان نے بدر کو بھیج کر منگوا لیا۔ گھر کے فون لاکڈ ہیں۔ باہر میں جا نہیں سکتی۔ انکل سے کیسے بات کروں؟‘‘
کائونٹر سے ساس پین اٹھاتا مونا چونکا۔
’’وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔‘‘ اس نے اپنی جیپ کو تھپتھپایا۔ ’’یہ آپ کے لئے موبائل آبی صاحب نے دیا تھا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔‘‘ ایلیا نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ ’’ابھی اپنے پاس ہی رکھو۔ میں جب اپنے کمرے میں ہوں گی، تب دینا۔‘‘
’’میں اوپر جا رہا ہوں چائے دینے۔ آپ کے کمرے میں برتن اٹھانے کے بہانے جائوں گا تو تکیے کے نیچے رکھ دوں گا۔‘‘
ShareThis
ایلیا نے ممنونیت سے اسے دیکھا۔ مونا، بوا، آرب۔ ان تینوں سے اس کا کوئی رشتہ نہ تھا۔ لیکن تینوں اس کے ہمدرد تھے۔
’’بٹیا! اب تو فون آ گیا ہے نا۔ ملک صاحب کو فون کرو۔ وہ تمہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بوا! پلیز، کوئی سن لے گا۔‘‘
’’بٹیا! مجھے تمہارے لئے ڈر لگتا ہے۔ یہاں سب تمہارے دشمن ہو رہے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں کیسے کہیں جا سکتی ہوں۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے بے بسی سے بوا کی طرف دیکھا۔
’’یہاں سب۔۔۔۔۔۔‘‘ بوا نے کچھ کہتے کہتے لب بھینچ لئے اور کائونٹر پر رکھے برتن پھر سے سمیٹنے لگیں۔
ایلیا نے مڑ کر پیچھے دیکھا، چھوٹی امی کچن کے دروازے پر کھڑی تھیں۔
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ ان کا لہجہ تیز تھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ ایلیا گھبرائی۔ ’’چھوٹے بھیا نے مجھے چائے کا کہنے نیچے بھیجا تھا۔ میں بوا سے باتیں کرنے لگی۔‘‘
’’کیا باتیں ہو رہی تھیں؟‘‘ انہوں نے بوا سے پوچھا۔
’’کیا باتیں ہونا تھیں بی بی!‘‘ بوا خیرن کو ان کی تحقیق بری لگی۔ ’’یوں ہی اِدھر اُدھر کی۔ اپنی بیٹی کا بتا رہی تھی۔‘‘
چھوٹی امی کچھ دیر مشکوک نظروں سے انہیں دیکھتی رہیں۔ پھر ایلیا کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
’’تمہیں بلا وجہ کچن میں آ کر کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ مڑیں تو ایلیا بھی سر جھکائے کچن سے باہر نکل آئی۔
اس کا دل بھرا رہا تھا۔ سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے چھوٹی امی کی بڑبڑاہٹ سنی جو خاصی اونچی تھی۔
’’جوان لڑکیوں کو گھر بٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اسفندیار کو جانے کب سمجھ آئے گی۔ کچن میں جوان جہان ملازم ہے اور کھڑی باتیں بگھار رہی ہے۔ کل کو کوئی مسئلہ ہو گیا تو لوگ تو سوتیلی ماں کو ہی برا بھلا کہیں گے۔ ہم سے نہیں نبھتی یہ ذمے داری۔ میں تو کہتی ہوں اسفندیار سے کہ دو بول پڑھا کر رخصت کرے۔ زریاب اب بھی خواہش مند ہے۔‘‘
اسے چھوٹی امی کی بڑبڑاہٹ پر ہنسی بھی آئی اور دکھ بھی ہوا۔ کیا وہ اس کی جائیداد کی طرف سے بالکل مایوس ہو گئی ہیں؟ ورنہ چند دن پہلے تک تو وہ آرب کو للچا رہی تھیں کہ وہ اس سے شادی کر لے۔
’’مما! کیا ایلیا اب پھر غریب ہو گئی ہے؟‘‘ اس نے انوشہ کی آواز سنی اور اس کا بے اختیار جی چاہا کہ وہ مڑ کر چھوٹی امی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ لیکن اپنی اس خواہش پر بہ مشکل قابو پاتے ہوئے وہو سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا ابھی تک لائونج میں بیٹھے آہستہ آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ سر جھکائے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔
’زندگی کتنی مشکل ہے۔‘
اس نے دل گرفتگی سے سوچا اور تکیہ اٹھا کر نیچے پڑے موبائل کو دیکھا۔ بہت خوب صورت سیٹ تھا۔ اس کا بہت جی چاہا کہ ابھی انکل اور چاچی سے بات کر لے۔ کتنے دن ہو گئے تھے۔ لیکن پھر اس نے خود کو سمجھا لیا۔
’رات کو جب سب سو جائیں گے تب فون کروں گی۔‘
اس نے موبائل جوتوں کے خالی ڈبے میں رکھا کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور کرسی کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
دولت کتنی بری چیز ہے۔ جو خون کے رشتوں کو بھی جدا کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ کاش یہ سب جائیداد، دولت اسے نہ ملتی۔ صرف ان رشتوں کی محبتیں اسے مل جاتیں تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
بند آنکھوں کے پیچھے نمی پھیلتی گئی اور وہ آنکھیں موندے یونہی کرسی کی پشت پر سر رکھے سوچتی نہ جانے کب سو گئی۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو باہر بارش ہو رہی تھی۔ ٹپ ٹپ بوندیں کھڑکی کے شیشوں سے ٹکرا رہی تھیں۔
وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی نظریں سامنے کلاک پر پڑیں۔ بارہ بج رہے تھے۔ وہ سات بجے اپنے کمرے میں آئی تھ
Zafina
08-01-2012, 12:30 AM
تو وہ پانچ گھنٹے سوتی رہی ہے۔ کل رات بھی اسے نیند نہیں آئی تھی۔ پیشانی پر آئے بالوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے اس کی نظر ٹیبل پر پڑی جہاں ٹرے میں کھانا تھا۔ شاید مونا رکھ گیا تھا۔
جب سے سب کا موڈ بدلا تھا، اسے کھانے پر بلانا انہیں اکثر یاد نہیں رہتا تھا۔ مونا یا بوا کھانا اسے کمرے میں ہی دے جاتے تھے۔ یہ اس کے کوئی نہیں تھے لیکن۔۔۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس لے کر اس نے ٹرے میں رکھی پلیٹ کی طرف دیکھا۔ چکن پلائو تھا جو اب تک ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ ساتھ چٹنی اور رائتہ۔
اس نے دوپہر میں بھی کھانا نہیں کھایا تھا لیکن پھر بھی بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے صرف ایک چمچ چاول کھائے اور پلیٹ کو ڈھک کر بیڈ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ٹیرس کا دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ کھلا۔ مارے خوف کے اس نے جھرجھری لی۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی بارش کی پھوار بھی اندر آئی۔ دروازہ لاک نہیں تھا اور تیز ہوا سے کھل گیا تھا۔ پتہ نہیں بارش کب شروع ہوئی تھی۔ اس نے دروازہ بند کرنا چاہا تو یکایک بجلی چمکی اور پھر بادلوں کی گرج۔ دروازہ بند کرتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ کوئی چیخا ہو۔ وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ اس کے کانوں میں رونے کی آواز آئی اور پھر معدوم ہو گئی۔ اس نے آواز سننے کی کوشش کی تو یکایک بارش کی بوچھاڑ اندر تک آ گئی۔ اس نے دروازہ بند کر کے لاک کیا اور بستر تک آتے آتے وہ ایک دم چونکی۔
’بڑی امی۔۔۔۔۔ یہ یقینا بڑی امی تھیں۔ وہ ڈر رہی ہوں گی۔‘
بجلی پھر چمکی تھی اور بادل بڑے زور سے گرجے۔ اس کے کان میں کوئی آواز نہیں آئی تھی۔ پھر بھی وہ یوں محسوس کر رہی تھی کہ بڑی امی رو رہی ہیں، چیخ رہی ہیں۔ کچھ دیر وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر بیڈ پر بیٹھی رہی۔
’اور اگر وہ میری ماں ہوتی تو۔۔۔۔۔؟‘ ایک لمحے کو اس نے سوچا اور مضطرب سی ہو کر بیڈ سے اتر آئی۔ دروازہ کھول کر لائونج میں دیکھا۔ نائٹ بلب کی مدھم روشنی سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ کھڑکیوں پر پردے پڑے تھے اور سب کے کمروں میں خاموشی تھی۔ شاید سب سو چکے تھے۔ بارہ بج چکے تھے۔ گیارہ بجے تک عموماً سب سو جاتے تھے۔
وہ کچھ دیر کمرے سے باہر نکل کر لائونج میں کھڑی رہی۔ پھر چابی اٹھا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ بارش میں بھیگتی جب وہ برآمدے میں پہنچی تو بڑی امی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔
’’بڑی امی۔۔۔۔۔۔!‘‘ دروازہ کھول کر اس نے انہیں آواز دی۔ وہ اپنے بیڈ پر گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھیں اور رو رہی تھیں۔
’’بڑی امی!‘‘ اس نے پھر پکارا تو انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ خوف زدہ، وحشت بھری آنکھیں۔
’’آپ کو ڈر لگ رہا تھا نا؟۔۔۔۔۔ میں آپ کو لینے آئی ہوں۔ چلیں میرے ساتھ میرے کمرے میں۔‘‘
وہ بغیر کچھ کہے تیزی سے اٹھیں اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ ان کا ہاتھ تھامے تھامے نیچے آ گئی۔ ویسی ہی خاموشی تھی۔ وہ انہیں ساتھ لے کر اپنے کمرے میں آ گئی اور انہیں بیڈ پر بٹھایا۔
’’یہاں سو جائیں۔ میں ادھر بیٹھی ہوں آپ کے پاس۔‘‘
’’تم کہاں سوئو گی؟‘‘ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے وہ چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔
’’میں ابھی سو کر اٹھی ہوں۔ مجھے نیند نہیں آ رہی۔‘‘ ایلیا مسکرائی۔ ’’آپ بے فکر ہو کر سو جائیں۔‘‘
’’میں سو رہی تھی۔ پھر بجلی چمکنے لگی۔ بارش ہونے لگی۔ میں نے کھڑکی بند کر دی۔ پھر بھی مجھے ڈر لگنے لگا۔‘‘ وہ معصومیت سے کہہ رہی تھیں۔ ’’یہ بارشیں اور بادل بہت ڈرائونے ہوتے ہیں۔‘‘
ایلیا نے انہیں کندھوں سے تھامتے ہوئے لٹا دیا۔
’’آپ سو جائیں بڑی امی! آپ کو اب ڈر نہیں لگے گا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ خاموشی سے لیٹ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں نیند بھری تھی۔ ھانے کے بعد انہیں سکون کی جو گولی دی جاتی تھی وہ نیند کی ہوتی تھی۔ شاید بارش کے خوف سے وہ سو نہیں پائی تھیں اس لئے بیڈ پر لیٹتے ہی کچھ دیر بعد وہ سو گئیں تو ایلیا نے ہلکا کمبل ان پر ڈال دیا اور خود کرسی پر بیٹھ کر ایک بار پھر سوچوں میں کھو گئی۔ باہر اسی طرح بارش ہو رہی تھی۔
’لگتا ہے آج بارش خوب برسے گی۔‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
تبھی اسے موبائل کی ہلکی سی بیپ سنائی دی تو اس نے چونک کر بیڈ کے نیچے پڑے جوتے کے ڈبے کی طرف دیکھا۔
’اوہ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو خیال ہی نہیں رہا۔ مجھے تو انکل کو فون کرنا تھا۔ لیکن یہ بیپ۔۔۔۔۔۔ یہ تو نیا سیٹ ہے اور نئی سم۔۔۔۔۔ پھر یہ نمبر تو کسی کو بھی نہیں معلوم۔‘ خود سے الجھتے ہوئے وہ اُٹھی اور آہستگی سے ڈبے سے فون نکالا۔
ShareThis
’’ہیلو۔۔۔۔۔ ایلیا! آپ سو رہی تھیں؟‘‘
یہ آرب کی آواز تھی۔ اس کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ نہیں تو۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہتے ہوئے بڑی امی کی طرف دیکھا۔
’’ایلا! میری بات غور سے سنو۔ بہت غور سے۔‘‘ آرب کی آواز بہت آہستہ تھی۔ ’’یہاں تمہارا مزید رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ کئی بار مجھے گمان گزرا کہ تمہاری جان لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی انوشہ کی کسی بات سے، کبھی مونا کی باتوں سے، پھر بلال والے واقعے سے تو۔۔۔۔۔ خیر، ان باتوں کا وقت نہیں۔ آج ملک صاحب تمہاری خیریت معلوم کرنے آئے تھے۔ لیکن انہیں تم سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس وقت تم کچن میں بوا خیرن سے باتیں کر رہی تھیں اس وقت ملک صاحب گیٹ پر کھڑے تھے۔‘‘
ایلیا دم سادھے آرب کی باتیں سن رہی تھی۔ انکل آئے تھے۔ وہ ان سے مل نہیں سکی۔ وہ یونہی چلے گئے۔ ایک گہرے اندر تک کاٹتے دکھ نے اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
’’میں نے ان سے رابطہ کیا اور ان کے ہوٹل ان سے ملنے گیا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی میری ان سے بات ہوئی ہے۔ وہ تقریباً گھنٹے تک پچھلے گیٹ سے کچھ فاصلے پر اپنی گاڑی کھڑی کریں گے۔‘‘ (یہ چھوٹا گیٹ عموماً ملازم اپنے کوارٹر میں جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ڈرائیور اور مونا وغیرہ)
’’تم اپنا بیگ تیار کر لو۔ بہت ضروری چیزیں رکھ لو۔ میں جب بیل دوں تو خاموشی سے نیچے اُتر آنا۔‘‘
’’اس وقت؟۔۔۔۔۔ اتنی رات گئے؟‘‘ اس نے گھبرا کر گھڑی دیکھی۔ ایک بجنے والا تھا۔
’’یہ بہت ضروری ہے ایلیا! میں زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا اس وقت۔ لیکن مجھے ڈر ہے آج یا کل چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا ایسی ہی ایک کوشش اور کرنے والے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ ہر بار وہ ناکام ہو جائیں۔‘‘
ایلیا کو لگا جیسے اس کا پورا وجود پتھر کا ہو گیا ہو۔
’’انکل آفتاب تمہیں تمہارے اپنوں کے پاس پہنچا دیں گے۔ ایلیا! میرا یقین کرو۔ یہاں تمہارے لئے اب خطرہ ہے۔ آج کے بعد شاید ایسا موقع نہ ملے۔ میں بھی کمپنی کے کسی کام سے دو تین ماہ کے لئے جا رہا ہوں۔ مجھے انوشہ نے بتایا ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایلیا کو اپنی آواز خود دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
فون آف کر کے وہ کچھ دیر یونہی ہاتھ گود میں دھرے بیٹھی رہی۔ کلاک نے ایک بجایا تو وہ چونک کر اُٹھی۔ بہت آہستگی سے چند جوڑے کپڑے، زیورات اور اپنے دوسرے کاغذات وغیرہ بیگ میں رکھے، ایک نظر سکون سے سوئی ہوئی بڑی امی پر ڈالی اور پھر ایک فائل سے نکال نکال کر لکھا۔
’’بڑے بھیا!
یہ آپ کی ماں ہیں۔ یہ بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک سے ڈر کر چیخ رہی تھیں۔ میرا ان سے کوئی رشتہ نہیں لیکن یہ ماں ہیں۔ اور ماں تو صرف ماں ہوتی ہے۔ بڑے بھیا! مجھ سے ان کا رونا برداشت نہیں ہوا۔ آپ ساری زندگی ان کے صرف ماں ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس تکلیف کا جو انہوں نے آپ کی پیدائش میں سہی۔ بڑے بھیا! میں تو غیر ہوں۔ سوتیلی ہوں لیکن یہ تو آپ کی ماں ہیں۔ ان کے لئے آپ سوتیلے کیوں بن رہے ہیں؟ میں انہیں نیچے لے آئی ہوں۔ انہیں اسی کمرے میں رہنے دیں۔ کیونکہ میں اس گھر سے جا رہی ہوں جہاں میری زندگی کو خطرہ ہے۔ میں اپنی ماں کے میکے جا رہی ہوں۔ آپ چاہیں تو ان کے لئے نرس رکھ لیں۔ دیکھ بھال کے لئے میرے اکائونٹ میں میرے حق مہر کے روپے ہیں۔ وہ نرس کی تنخواہ پر خرچ کر سکتے ہیں۔ میں چیک لکھ کر رکھ رہی ہوں۔ پھر بھی اگر آپ نہ رکھنا چاہیں تو انہیں قید تنہائی کی سزا دینے سے بہتر ہے کہ ایدھی ہوم میں بھیج دیں۔
ایک روز میں نے اور انوشہ نے ٹی وی پر پروگرام دیکھا تھا۔ بوڑھے مرد اور عورتیں جو مرد اور عورتیں نہیں تھے، صرف جوان بچوں کے ماں باپ تھے، جن کے بچے انہیں وہاں چھوڑ گئے تھے۔ وہ پروگرام دیکھ کر میرا جی چاہا تھا کہ چیخیں مار مار کر روئوں اور ان والدین کو اتنی خوشیاں دوں کہ وہ اپنی اولاد کا ظلم بھول جائیں۔ لیکن کیا خوشیاں اولاد کے دیئے دکھ بھلا سکتی ہیں؟ بڑے بھیا! انوشہ نے مجھ سے پوچھا تھا۔ ایلا! یہ بچے جو اپنے ماں باپ کو یہاں چھوڑ گئے ہیں جب یہ بوڑھے ہوں گے تو کیا ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے؟ کیا وہ انہیں اپنے پاس رکھ لیں گے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ شاید آپ کے پاس ہو۔ ایک بار
ShareThis
یہ سوال خود سے ضرور کیجئے گا بڑے بھیا! اور ابی جان سے کہئے گا کہ وہ مجھے طلاق نہ دلواتے اور مجھ سے یونہی محبت سے سب کچھ مانگ لیتے تو میں سب کچھ دے دیتی۔ نہ انکل آفتاب کو دولت کا لالچ تھا نہ مجھے۔ اور کبھی بڑی امی کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کر کے دیکھئے گا کہ وہ کتنی ہوش مندی کی باتیں کرتی ہیں۔‘‘
اس نے خط اور چیک ٹیبل پر رکھ دیا۔
وقت جیسے گزر ہی نہیں رہا تھا۔ باہر بارش اسی طرح ہو رہی تھی۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی اور بادل گرجتا۔ کبھی اتنی مشکل سے وقت نہیں گزرا تھا جیسے آج۔
جوں ہی کلاک نے دو بجائے، سیل فون پر ہلکی سی بیپ ہوئی وہ یکدم کھڑی ہو گئی۔ اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ وہ اپنی دھڑکنیں خود سن سکتی تھی۔ اس نے کرسی کی پشت پر لٹکی چادر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹی اور بیگ اٹھا لیا۔ پھر دھڑکتے دل سے دروازہ کھولا۔
ہر طرف خاموشی تھی۔ بس بارش کی ٹپ ٹپ تھی۔
اس نے جوتے اتار کر ہاتھ میں پکڑے۔ آہستگی سے دروازہ بند کر کے وہ دبے قدموں چلتی ہوئی سیڑھیوں تک آئی اور یوں ہی آہستگی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔ نیچے لائونج میں زیرو کا بلب جل رہا تھا۔ کچن کا دروازہ نیم وا تھا اور کھلے دروازے میں آرب کھڑا تھا۔ اس نے دیکھ کر اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ یونہی آہستگی سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی کچن میں آئی۔ آرب نے بیگ اس کے ہاتھوں سے لے لیا۔ اس کا رنگ سفید ہو رہا تھا اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔
’’ریلیکس ایلیا!‘‘ آرب نے سرگوشی کی۔ اس کا کانپتا ہاتھ ایک لمحے کے لئے اپنے ہاتھ میں لے کر تھپتھپایا اور کچن کا دروازہ آہستگی سے بند کر دیا۔ کچن کا دوسرا دروازہ باہر پچھلے لان کی طرف کھلتا تھا۔ کام والی لڑکیاں اسی دروازے سے کچن میں آتی تھیں۔ دروازے کے سامنے لانڈری تھی اور ساتھ ہی ملازموں کا واش روم تھا۔
’’جوتے پہن لو۔‘‘ آرب نے سرگوشی کی۔ گو جوتے ربڑ سول کے تھے پھر بھی احتیاطاً اس نے اتار لئے تھے۔ بیگ دائیں کندھے پر لٹکاتے ہوئے آرب نے اس کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’آئو۔‘‘ کچن کے دروازے کا لاک وہ پہلے ہی کھول چکا تھا۔ ہلکی سی چرچراہٹ سے دروازہ کھلا تو وہ خوف زدہ ہو گئی۔ اس کے ہاتھ پر آرب کے ہاتھ کا دبائو بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ چھوٹا سا لان عبور کر کے چھوٹے گیٹ سے باہر نکل آئے تھے۔ انہیں باہر نکلتے دیکھ کر ذرا فاصلے پر کھڑی گاڑی حرکت میں آئی۔ بالکل ان کے قریب آ کر رکی اور دروازہ کھلا۔
’’آ جائو بیٹا!‘‘ وہی مہربان آواز۔ بے آواز آنسو اس کے رخساروں پر پھیل آئے۔ آرب نے بیگ سیٹ پر پھینکا۔
’’اوکے انکل! میرا کام یہاں تک تھا۔ اب آپ کی ذمے داری ہے۔‘‘
’’تم بے فکر رہو۔‘‘
آرب کی نظریں ایک لمحے کو اس کی طرف اُٹھیں۔ سہمی سہمی آنکھیں، بھیگی بھیگی پلکیں۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا چلا گیا۔ ایلیا کی نظریں اُٹھی تھیں، پھر فوراً ہی جھک گئیں۔ بلا کی وارفتگی تھی آرب کی آنکھوں میں اور چہرے پر عجب اُداس سے رنگ بکھرے تھے۔ پھر وہ یکدم مڑ گیا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
’’ایلا بچے!‘‘ آفتاب ملک نے اس کی طرف دیکھا تو وہ کسی ننھے بچے کی طرح سسکتے ہوئے ان سے لپٹ گئی۔ وہ ایک بازو اس کے گرد حمائل کئے ہولے ہولے اسے تھپکنے لگے۔
…٭٭٭…
’’بابا جان! آپ کو ماما سے بہت محبت تھی؟‘‘
ایلیا نے ملک حیات کے پائوں دباتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹے تھے اور وہ ان کی پائنتی بیٹھی ان کے پائوں دبا رہی تھی۔ حالانکہ انہوں نے اسے منع کیا تھا۔ لیکن اسے اچھا لگتا تھا اس طرح ان کی خدمت کرنا۔ شاید اس طرح وہ اس دکھ کا ازالہ کرنا چاہتی تھی جو ثمرین نے انہیں دیا تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔ ’’بہت زیادہ۔۔۔۔۔ میں نے اس کے بہت لاڈ اُٹھائے تھے۔ وہ اتنی بڑی ہو گئی تھی۔ چھ سات سال کی تھی تب بھی میں اسے گود میں اٹھاتے پھرتا تھا۔ میں نے اس کی ماں کے اتنے لاڈ نہیں اٹھائے تھے۔ میں اُنیس سال کا تھا جب میری شادی ہوئی بیس سال کی عمر میں ایک بچی کا باپ بھی بن گیا۔
Zafina
08-01-2012, 12:32 AM
رخسانہ دادا، دادی کی بہت لاڈلی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اسے دادا دادی نے ہی پالا۔ وہ زمانہ کچھ ایسا تھا کہ والدین کے سامنے بچوں سے لاڈ کرتے ہوئے بھی جھجک آتی تھی۔ گود میں اٹھاتے ہوئے میں جھجک جاتا تھا۔ حالانکہ کبھی بڑا دل چاہتا تھا کہ اسے گود میں اٹھا کر گھمانے لے جائوں، سیر کروائوں۔ اور وہ رہتی بھی زیادہ دادا دادی کے پاس ہی تھی۔‘‘
وہ پرانی یادیں کرید رہے تھے۔ ایلا کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی اور وہ بہت شوق سے سن رہی تھی۔ ان سے اپنی ماما کی باتیں سننا اسے اچھا لگتا تھا۔ وہ یوں ہی کوئی نہ کوئی سوال کر کے یادوں کے در کھول دیتی تھی۔
’’پھر وہ سولہ برس کی ہوئی تو میری اماں نے اس کی شادی طے کر دی۔ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ پڑھے۔ لیکن اماں نے میری ایک نہ سنی۔ اُس کی شادی کر دی۔ میں نے اسے جی بھر کر پیار بھی نہیں کیا تھا کہ وہ چلی گئی اور ثمرین کو ہماری جھولی میں ڈال گئی۔ میں نے رخسانہ کے حصے کا پیار بھی اسے دے ڈالا۔ شاید میرے اس حد سے زیادہ لاڈ نے اسے تھوڑا ضدی بنا دیا تھا۔ اس کی ہر خواہش پوری کرنا ہم باپ بیٹا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ تب ہی تو۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گئے۔ آنکھوں کی سطح ہمیشہ کی طرح ثمرین کا ذکر کرتے گیلی ہو گئی تھی اور ہمیشہ کی طرح بہت بار کی کہی گئی بات کو ایلیا نے پھر دوہرایا۔
’’بابا جان! آپ اب تو ماما سے خفا نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ اب تو آپ نے انہیں معاف کر دیا نا؟‘‘
’’میں نے تو اسے تبھی معاف کر دیا تھا۔ بہت پہلے، جب ثمر نے بتایا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ انہوں نے بھی وہی جواب دیا۔
’’اُس رات ثمر میرے کمرے میں آیا تو اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔ شاید وہ رویا تھا بہت۔ پھر وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور اس نے میرے ہاتھ تھام لئے۔‘‘
’’بابا جان! کبھی کبھی ہماری بہت قیمتی چیز ہم سے کھو جاتی ہے۔‘‘ میں نے سوچا، یا اللہ! میرے پاس تو اب کھونے کو کچھ نہیں رہا۔ پھر یہ ثمر کیا کہہ رہا ہے۔
’’بہو کہاں ہے۔۔۔۔۔ ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ اس نے ثر ہلا دیا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں تو سمندر چھپے تھے۔
’’بیٹا! بتائو نا۔‘‘ میں نے اسے جھنجوڑا تو جیسے سمندر ابل پڑے۔ وہ بے اختیار میرے سینے سے لگ کر رونے لگا۔ ہچکیاں لینے لگا۔
’’بابا جان! ثمرین چلی گئی۔‘‘
میں نے ڈر کر اسے دیکھا، کہیں اس کا ذہنی توازن تو نہیں بگڑ گیا۔ کتنا خاموش خاموش رہنے لگا تھا ان سات آٹھ سالوں میں۔ وہ اتنا سنجیدہ ہو گیا تھا کہ مجھے اس کی سنجیدگی سے خوف آنے لگا تھا۔
’’اسے گئے تو سال نہیں، صدیاں بیت گئیں۔‘‘
’’بابا! وہ اس دنیا سے چلی گئی۔ وہ روٹھ گئی۔ ہمیں منائے بغیر، ہم سے ملے بنا ہمیشہ کی جدائی دے گئی۔‘‘
میرا دل جیسے رکنے لگا۔ رک رک کر چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد ہم باپ بیٹا ایک دوسرے کے گلے لگے اس کٹھور کے لئے رو رہے تھے جس نے ایک اجنبی کی محبت کے لئے ہماری محبتیں بھلا دی تھیں۔ پھر میں نے کہا۔
’’اٹھو ثمر! چلو، ہم اس کا آخری دیدار کر لیں۔‘‘
لیکن ثمر بیٹھا رہا یونہی۔
’’بابا جان! اسے اس دنیا سے رخصت ہوئے چار دن ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اور تم اب بتا رہے ہو ثمر!۔۔۔۔۔ کیا میرا دل پتھر تھا؟‘‘ میں نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔
’’بابا جان!‘‘ ثمر نے اپنے آنسو پونچھ لئے۔ ’’ابھی کچھ دیر پہلے اسفند کا فون آیا تھا۔ میں نے نہیں پوچھا کہ اسے ہمارا نمبر کہاں سے ملا۔ یہ تو آفتاب کے پاس بھی نہیں۔ شاید حویلی سے لیا ہو۔ اس نے ہی بتایا ہے کہ چار دن پہلے۔۔۔۔۔ اور وہ کہہ رہا تھا کہ مبارک ہو، جشن منائو۔‘‘
ثمر کی آنکھیں پھر لہو رونے لگیں تو میں نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ وہ میرے سامنے ہوتا تو میں اسے شوٹ کر دیتا۔‘‘
’’بابا جان!‘‘ اس نے ان کے بوڑھے رخساروں پر اٹکے آنسو کو اپنی انگلی کی پور سے پونچھا۔ ’’سوری۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو اُداس کر دیا۔‘‘
’’یہ اُداسیاں تو دل پر رقم ہیں بیٹا! تم سے بات کرتا ہوں تو دھل جاتی ہیں کچھ نہ کچھ۔‘‘ وہ آنسوئوں کے ساتھ مسکرائے تھے۔
’’اور تب آپ کو میرا پتہ نہیں تھا۔۔۔۔۔ اگر آپ کو پتہ ہوتا تو پھر آپ مجھ سے ملنے آتے نا؟‘‘ آنکھوں میں آس کے جگنو چھپائے اس نے انہیں دیکھا۔
ShareThis
’’ہاں، ہاں۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں آتا۔‘‘ وہ تھوڑا سا اٹھے اور بیڈ کے کرائون سے ٹیک لگا لی۔
’’ثمرین کے بعد ثمر کا دل تو جیسے اور بھی اُداس ہو گیا تھا، لگتا ہی نہیں تھا یہاں۔ سو ہم نے ملک ہی چھوڑ دیا۔ بہت عرصے بعد پھر یہاں چلے آئے۔ میں بہت اُداس ہو گیا تھا اور اپنے وطن کی فضائوں کے لئے ترس رہا تھا۔ چھ سال پہلے یہاں آ گئے۔ ثمر کو خدا نے اولاد نہیں دی۔ اللہ کی مرضی۔ ایک بیٹا مُردہ پیدا ہوا اور اس کے بعد پھر۔۔۔۔۔ سب نے ہی ثمر سے دوسری شادی کے لئے کہا لیکن وہ عفت کو کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ اسفند نے پھر دو سال پہلے ہمیں کھوج لیا اور ہمیں کہلوایا کہ ثمرین کے حصے کی قانوناً تم وارث ہو اور اگر ہم نے تمہارا حصہ نہ دیا تو وہ تمہاری طرف سے قانونی چارہ جوئی کر دے گا۔ میں تو یہ سن کر ہی تڑپ اٹھا۔ تم تھیں میری ثمرین کی نشانی اور ہم بے خبر تھے۔ ثمر نے اسے کہلوایا کہ تمہارا حصہ تمہیں مل جائے گا۔ ہم با خبر ہوتے تو بہت پہلے ہی دے چکے ہوتے۔ ثمر نے تم سے ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن اس نے کہا۔ تم ہم سب سے نفرت کرتی ہو۔ ملنا نہیں چاہتی۔‘‘
یہ بات اسے پہلی بار معلوم ہو رہی تھی اور اس نے آج ایک بار پھر اسفندیار کے لئے دل میں بے حد نفرت محسوس کی۔
’’ثمر نے اچھی طرح تصدیق کر کے کہ تم ثمرین کی بیٹی ہو، جائیداد تمہارے نام منتقل کروانی شروع کی تھی اور یہ دل کمبخت دغا دینے لگا تو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بابا جان! آپ پھر اٹھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ثمر نے اندر آ کر انہیں کندھوں سے پکڑ کر لٹایا۔ ’’یقینا ماضی کی کہانیاں سنائی جا رہی ہوں گی۔ آپ جانتے ہیں نا آپ کا دل۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یار! اب اٹھہتّر سال کی عمر میں دل نے دغا دینا ہی ہے۔ اور تم مجھے میری بیٹی سے بھی باتیں نہیں کرنے دیتے۔‘‘
’’آپ پورے دو سال سے ایلیا سے باتیں کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بس اب آرام کریں۔‘‘
’’تمہیں تو پولیس میں بھرتی ہونا چاہئے تھا ثمر!‘‘ انہوں نے پیار بھری خفگی سے کہا اور نیم دراز ہو گئے۔
’’سوری ماموں!‘‘ ایلیا نے شرمندگی سے انہیں دیکھا۔
’’کوئی سوری نہیں۔ چلو اُٹھو، باہر تمہاری مامی تمہیں بلا رہی ہیں۔ اور اب میں یہاں بیٹھوں گا۔‘‘
’’اسے کہتے ہیں ظالم سماج۔‘‘ ملک حیات نے مسکراتی نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
’’آپ کی دوا کا بھی ٹائم ہو چکا ہے۔ پہلے دوا لے لیں۔‘‘
ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا تو ایلیا نے بڑی سعادت مندی سے اٹھ کر ٹیبل پر رکھی دوائیں ثمر کی طرف بڑھا دیں اور خود پانی کا گلاس ان کی طرف بڑھا دیا۔
’’جائو، بھاگو اب یہاں سے۔‘‘ ثمر کے لہجے میں اس کے لئے شفقت و محبت تھی۔ وہ مسکراتی ہوئی اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔ ملک حیات کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔
’’تمہیں ایسا نہیں لگتا ثمر! جیسے ثمرین اس گھر میں چل پھر رہی ہے؟ بالکل ویسی ہی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ سمجھدار ہے نا؟‘‘
’’بے اعتنائی کے دکھوں نے اسے کندن بنا دیا ہے بابا جان!‘‘ ثمر بھی مسکرایا۔
’’میری بچی نے بہت دکھ اٹھائے ہیں ثمر! میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کی جھولی خوشیوں سے بھر دوں۔ کم از کم اتنا اور جی لوں کہ اس کا گھر آباد دیکھ سکوں۔ ہم اس کی شادی بہت دھوم دھام سے کریں گے، ہے نا۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔ ثمر نے سر ہلا دیا۔ کتنے سارے پرانے خوابوں نے آنکھوں میں ہلچل مچا دی تھی اور دروازے کے ساتھ لگی کھڑی ایلیا آنکھوں میں اُمڈ آنے والے آنسو چھپاتے ہوئے مامی کو ڈھونڈتی ہوئی کچن میں آ گئی۔ مامی کچن میں مصروف تھیں۔
’’مامی! آپ نے بلایا تھا؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ انہوں نے مڑ کر اسے دیکھا۔ ’’بابا جان سو گئے کیا؟‘‘
’’نہیں تو۔ لیکن ماموں جان نے مجھے وہاں سے اٹھا دیا۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’چندا! بابا جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ جب تم سے ثمرین کی باتیں کرتے ہیں تو ان کا دل کمزور پڑنے لگتا ہے۔‘‘
’’مامی! ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟ کیا کوئی خطرہ۔۔۔۔۔۔؟‘‘ وہ پریشان ہو گئی۔
’’بائی پاس کے بعد تو یوں بھی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس عمر میں تو اچھے بھلے صحت مند دل کے لئے بھی اچانک کوئی خوشی، کوئی دکھ نقصان دہ ہوتا ہے۔ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔‘‘
ShareThis
’’آمین۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں ان کی لمبی زندگی کی دعا کی۔ ’’میں مدد کروں آپ کی؟‘‘
’’نہیں، نہیں گڑیا! تم جائو۔ میں بس بابا جان کے لئے سُوپ بنا رہی تھی۔ باقی تو اسلم کر لے گا سب۔‘‘
’’اللہ کرے بابا جان کو کبھی کچھ نہ ہو۔ ابھی تو میں جی بھر کر ان کی محبتوں کو محسوس بھی نہیں کر پائی۔ ابھی تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی ان محبتوں کا ذائقہ چکھا ہے۔ وقت کتنی جلدی اور تیزی سے گزر رہا ہے۔ لیکن لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔‘‘ وہ کچن کے پاس سے ہٹ کر لائونج میں آ کر بیٹھ گئی۔
وہ آفتاب ملک کے ساتھ ڈری سہمی ساہیوال آئی تھی اور وہاں سے چاچی کے روکنے کے باوجود وہ اگلے روز ہی اسے بائی ایئر کراچی لے آئے تھے اور ملک حیات اور ثمر سے اس کی ملاقات۔ وہ کتنا جذباتی منظر تھا۔ ملک حیات کتنی ہی دیر اسے اپنے بازوئوں میں لئے کھڑے رہے تھے۔ پھر ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے تو ثمر نے اسے ان سے الگ کروایا تھا۔ ملک آفتاب پہلے ہی انہیں سب کچھ بتا چکے تھے اس لئے کسی نے اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔
’’میری عمر اٹھہتّر سال ہے۔ اور میں رشتے میں تمہارا پڑنانا لگتا ہوں۔ لیکن تم چاہو تو مجھے بابا جان کہہ کر بلا لو۔‘‘
اسے انہیں بابا جان بلانا بہت اچھا لگتا تھا۔ ثمر کو بھی اس نے ماموں کہہ کر بلانا شروع کر دیا تھا۔ ثمر ماموں کتنے شاندار تھے۔ اڑتالیس، انتالیس سال کی عمر میں بھی وہ ینگ ہی لگتے تھے۔ مامی عفت بھی بہت پیاری تھیں اور بہت محبت کرنے والی۔
’’دیکھو، اللہ نے ہمیں اس عمر میں اتنی پیاری، پلی پلائی بیٹی دے دی۔‘‘ انہوں نے ثمر حیات سے کہا تھا اور وہ مسکرا دیئے تھے۔
پھر وقت تو جیسے پَر لگا کر اُڑنے لگا تھا۔ جلد ہی وہ سب سے یوں گھل مل گئی تھی جیسے وہ جنم جنم سے یہاں ان ہی کے ساتھ رہتی چلی آ رہی تھی۔
اس اتنے بڑے خوب صورت گھر میں اس کا کمرہ بابا جان نے اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا۔ بابا جان اور ثمر ماموں سے باتیں کرتے اس کا جی نہیں بھرتا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی بار وہ دل کھول کے ہنسی تھی۔ پہلی بار اس نے جانا تھا کہ اپنوں کی محبتیں کیا ہوتی ہیں۔ اس کے آنے کے بعد ماڈل ٹائون والے اس گھر میں کیا ردِ عمل ہوا تھا۔ کیا، کیا کچھ کہا گیا تھا اسے خبر نہیں تھی۔ آرب کسی کورس کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اور جانے سے پہلے وہ اس کی پراپرٹی کے کاغذات والی فائل اور اس کا دستخط شدہ اسٹامپ پیپر ملک آفتاب کو دے گیا تھا۔ یہ سب اس نے کیسے حاصل کئے تھے، وہ نہیں جانتی تھی۔ ان تین سالوں میں آرب نے اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ ہاں، کبھی کبھی اس کے خوب صورت میسجز، اس کی بیسٹ وشز اسے ملتیں تو کتنی ہی دیر تک وہ کھوئی رہتی۔ بار بار ان میسجز کو پڑھتی اور ہر بار دل عجب طرح سے دھڑک اُٹھتا۔
’کیا یہ محبت ہے؟‘ اس نے بارہا اپنے آپ سے پوچھا تھا۔ ’کیا میں آرب مصطفی سے محبت کرنے لگی ہوں؟‘
لیکن اس نے کہا تھا۔
’’ہمارے راستے الگ ہیں۔۔۔۔۔ ہم شاید کبھی نہ مل سکیں۔ لیکن تم ہمیشہ میرے دل میں ہی رہو گی۔ مجھ پر حکومت کرتی رہو گی۔‘‘
’یہ راستے کیا کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔؟‘ وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے سوچا تھا اور اُداسی تہہ در تہہ اندر اترنے لگی تھی۔
ان بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں وہ اسے یاد آیا تھا۔ اس نے بی اے کا پرائیویٹ امتحان دے کر یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا تھا اور چند دن پہلے ہی پیپر دے کر فارغ ہوئی تھی۔ ان تین سالوں میں کئی بار چاچی اور آفتاب ملک اس سے ملنے آئے تھے۔ وہ بھی ایک بار ثمر ماموں کے ساتھ ان کے ہاں گئی تھی اور تب آفتاب ملک نے خوب مزے لے لے کر بتایا تھا۔
’’تمہیں کراچی چھوڑ کر آیا تو اسفندیار نے مجھے فون پر خوب گالیاں سنائیں۔ ایک بار نہیں، کئی بار فون کیا کہ تم نے ہی اسے غائب کروایا ہے۔ میں کیس کر دوں گا۔ میں نے کہا کر دو۔‘‘
’کاش ابی جان ایسے نہ ہوتے۔۔۔۔۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
تبھی ثمر اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ’’بابا جان سو گئے کیا؟‘‘
اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘ ثمر حیات خان اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ آنکھوں میں گہری سوچ تھی۔
’’بابا جان بہت صحت مند اور طاقت ور تھے۔ لیکن ثمرین کا دکھ ان کے دل کو دیمک کی طرح چاٹتا رہا اور ایک دن وہ ڈھے گئے۔ ایلا! بابا جان چاہتے تھے کہ وہ تمہیں اپنے گھر بار کا کر دیں۔ انہیں صرف تمہارے ماسٹرز کا انتظار تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پہلے تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے پھر۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری تعلیم مکمل ہو چکی ہے ایلیا! کچھ روز تک تمہارا رزلٹ آ جائے گا۔‘‘
’’لیکن ماموں جان! میں نے تو ابھی جی بھر کے آپ سب کو دیکھا بھی نہیں۔ میرا دل تو ابھی آپ کی محبت سے نہیں بھرا۔ ابھی تو۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے ہونٹ لرزنے لگے
Zafina
08-01-2012, 12:33 AM
’’تو گڑیا!۔۔۔۔۔‘‘ ثمر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ ’’ہمارا دل کب بھرا ہے۔ لیکن بیٹیوں کو ایک روز رخصت کرنا ہی ہوتا ہے۔ رِیت ہے نا بیٹا!۔۔۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں بابا جان تمہاری شادی کر کے اپنی نا تمام حسرتیں پوری کر لیں۔ وہ تمہاری خوشی دیکھ لیں۔ گڑیا! ہم اگر تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا نا؟‘‘
اس کی نظروں میں آرب مصطفی کا تصور لہرایا تھا اور اندر دل کی زمین پر قطرہ قطرہ پانی گرنے لگا تھا جو سارا من بھگوتا جا رہا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلا دیا تو ثمر حیات خان نے بے اختیار جھک کر اس کی پیشانی چوم لی۔
’’شکریہ بیٹا!۔۔۔۔۔ ایک دو رشتے ہیں تمہاری مامی کی نظر میں جو تمہارے خواہش مند ہیں۔ ایک تو ان کا بھانجا ہی ہے لیکن فائنل تو بابا جان اور تم ہی کرو گی نا۔ میں کہتا ہوں عفت سے کہ وہ کسی روز پہلے اسے کھانے پر بلا لے تم بھی دیکھ لینا۔‘‘
فرطِ جذبات سے ان کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ بس آپ اور بابا جان جو مناسب سمجھیں گے، ٹھیک ہے۔ مجھے نہیں ملنا کسی سے۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔
’’جھلّی۔۔۔۔۔!‘‘ ثمر نے بے اختیار اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ آج برسوں بعد جیسے ثمرین کے دیئے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا تھا۔ ایلیا کی آنکھیں برسنے کو بے تاب ہو گئیں۔
’’لیکن میں ابھی آپ کے پاس ہی رہنا چاہتی تھی۔ بابا جان کے پاس۔ یہاں اس گھر میں بہت سارے دن۔‘‘
’’تو یہ گھر تو پھر بھی تمہارا ہی رہے گا۔ تم روز آنا یہاں۔۔۔۔۔ اور جس روز تم نہ آئیں، ہم آ جایا کریں گے۔‘‘ وہ ہولے سے ہنسے اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’میں تمہاری مامی سے کہتا ہوں ابھی۔‘‘ وہ تیزی سے باہر نکلتے چلے گئے تو اس نے ہاتھوں کی پشت سے اپنے گیلے رخسار پونچھے۔
’مجھے اپنی ماں کا کفارہ بھی تو ادا کرنا ہے نا۔‘ اُس نے جیسے اپنے دل کو سمجھانے کی سعی کی۔ لیکن دل کسی ضدی بچے کی طرح مچل رہا تھا کسی کی رفاقت کے لئے۔ جو خود ہی اسے عمر بھر کی جدائی کا سندیسہ دے کر رخصت ہو گیا تھا۔ اس نے سوچا تھا وہ بھی ساری عمر چند خوب صورت یادوں کے سہارے گزار دے گی لیکن۔۔۔۔۔ دل سے درد اٹھا تھا اور پورے وجود میں پھیلتا چلا گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا ہو۔ یہاں وہاں ہر جگہ درد ہی درد تھا۔ اس نے آنکھیں موندتے ہوئے سر پیچھے صوفے کی بیک پر رکھ دیا اور آرب مصطفی اس کی آنکھوں میں اُتر آیا۔۔۔۔۔!
…٭٭٭…
’’میں تمہیں مجسم اپنے سامنے دیکھنے کی خواہش کو پیچھے دھکیلتے دھکیلتے تھک گیا ہوں ایلیا!۔۔۔۔۔ تمہیں پانے اور دیکھنے کی طلب اب بس میں نہیں آ رہی۔‘‘
آرب مصطفی بے حد تھکا تھکا سا سر جھکائے اس کے سامنے بیٹھا تھا اور ایلیا اسفندیار حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
خواہشیں یوں بھی پوری ہو جاتی ہیں اچانک۔۔۔۔۔ ابھی کل رات ہی تو اس نے بہت شدت سے آرب مصطفی کو سوچا تھا اور آج اس وقت اس کی خوب صورت آنکھوں میں محبت کی تپش اور لہجے میں دل کا سارا گداز گھلا ہوا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ گود میں دھرے اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جمائے کبھی سر اٹھا کر اسے دیکھ لیتی تھی۔ ثمر حیات خان، ملک حیات خان کو کچھ دیر پہلے ہی چیک اپ کے لئے ہسپتال لے کر گئے تھے۔ وہ کچن میں عفت مامی کے پاس کھڑی تھی جب چوکیدار نے آرب کے آنے کی اطلاع دی تھی۔
’’آرب وہی ہے نا جس نے وہاں سے نکلنے میں تمہاری مدد کی تھی؟‘‘ عفت مامی نے پوچھا تو اس نے سر ہلا دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ تم بیٹھو جا کر ڈرائنگ روم میں۔ اسے اٹینڈ کرو۔ میں چائے بھجواتی ہوں۔ اتنے میں ثمر اور بابا جان بھی آ جائیں گے۔‘‘
’’میں نے بہت کوشش کی ایلیا! بہت کہ مڑ کر تمہیں نہ دیکھوں۔ لیکن میں جو راہ بھی چلتا ہوں وہ مڑ کر تمہاری سمت ہو لیتی ہے۔ اپنے راستے کی روشنیاں خود ہی ساتھ ساتھ بجھاتے رہنا بہت اذیت ناک عمل ہے۔ بہت تکلیف دہ اور روح کش۔ لیکن میں نے خود ہی ساری روشنیاں بجھا دیں۔ لیکن ان اندھیروں میں تم پھر کہیں سے آ کر روشنیاں کرنے لگتی ہو۔ میں بہت بے بس ہو گیا ہوں ایلیا!۔۔۔۔۔ مجھے اپنا لو، مجھے قبول کر لو۔ میں سارے ہتھیار پھینک کر یہاں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں۔ خود سے لڑتے لڑتے ہار گیا ہوں ایلیا!‘‘
اس نے بڑی آس سے ایلیا کی طرف دیکھا جو اسی طرح ساکت بیٹھی تھی۔
’’ایلیا! مجھے کسی دولت، کسی جائیداد کی خواہش نہیں۔ مجھے صرف تم چاہئے ہو۔۔۔۔۔۔۔ جی چاہتا ہے، اتنی بڑی دنیا میں تمہیں لے کر کہیں گم ہو جائوں۔ میں نے خود کو خود تمہارے راستوں
ShareThis
سے ہٹایا تھا ایلیا! کہ میں خود کو تمہاری نظروں میں گرانا نہیں چاہتا تھا۔ میں خود پر یہ الزام نہیں لگوانا چاہتا تھا کہ میں تمہاری دولت۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ذرا توقف کیا۔
’’تم تو پہلی نظر میں ہی مجھے بہت محبوب۔۔۔۔۔ بہت پیاری لگی تھیں ایلیا! اور خود کو تم سے دور کر کے میں نے جانا کہ محبت کیا ہوتی ہے، اس کا درد کیا ہوتا ہے، جدائی کا عذاب کیا ہے، بچھڑ جانے کا کرب کیا ہے۔۔۔۔۔ ایلیا! یہ سب میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ تبھی تو یوں تمہارے سامنے آ بیٹھا ہوں۔‘‘
’’لیکن۔۔۔۔۔‘‘ ایلیا نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’کیوں؟۔۔۔۔۔ کیوں ممکن نہیں ہے ایلیا؟۔۔۔۔۔ کیا کمی ہے مجھ میں؟۔۔۔۔۔ خوش شکل ہوں، پڑھا لکھا ہوں، اچھا کماتا ہوں۔‘‘ اس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’کیا کہوں۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ایلیا کو لگا اس کے آنسو اس کے اندر گر رہے ہیں، قطرہ قطرہ۔ کوئی راستہ، کوئی روشنی کی ننھی سی کرن، کوئی امید، کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔ بھلا بابا جان کیسے مانیں گے؟ یہ اس شخص کی بیوی کا بھائی ہے جس کے لگائے زخموں سے ابھی بھی خون رستا ہے۔ جس نے ایسا دکھ دیا بابا جان اور ثمر ماموں کو جو کبھی ہلکا نہیں ہوا۔ ہمیشہ اذیت دیتا رہا۔‘‘ اس نے آنکھوں کو بے دردی سے رگڑ ڈالا۔
’کیا ضروری تھا کہ آرب مصطفی ہی میرے دل کو بھاتا؟‘
’’ایلیا! خدا کے لئے ایسی بد گمان نظروں سے مجھے مت دیکھو۔ میں اس روز تمہارے در پر جھولی پھیلائوں گا جس روز تم سب کچھ ٹرسٹ کے حوالے کر دو گی۔ جب تم ہسپتال۔۔۔۔۔‘‘
’’بات دولت اور جائیداد کی نہیں آرب!‘‘ ایلیا نے پہلی بار اس کا نام لیا تھا۔
’’پھر کیا بات ہے ایلا؟‘‘
’’شاید بابا جان اور ثمر ماموں کو انکار ہو۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا تمہیں بھی میری رفاقت سے انکار ہے ایلا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔‘‘ بے اختیار ہی ایلیا کے لبوں سے نکلا۔ ’’لیکن بابا جان۔۔۔۔۔ نہیں، پلیز! آپ بھول جایئے مجھے اور۔۔۔۔۔‘‘
’’بھولنا اختیار میں ہوتا تو تین سالوں کی صحرا نوردی کے بعد پھر کیوں تمہارے در پر آتا۔ یہ محبت، اختیار کی حدوں سے نکل چکی ہے۔‘‘
’لیکن میں۔۔۔۔۔۔‘ ایلیا نے بابا جان اور ثمر ماموں کے متعلق سوچا۔ ’میں انہیں کوئی دکھ نہیں دے سکتی۔ میں تو اس دکھ کا مرہم بننا چاہتی ہوں جو ماما نے انہیں دیا۔‘
’’نہیں، یہ ناممکن ہے۔ ایک بار آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں بھول جائوں۔ آج مجھے آپ سے یہی کہنا ہے۔‘‘
’’اتنی ظالم مت بنو ایلیا! خود پر بھی ظلم مت کرو۔‘‘
’’بابا جان میری زندگی کے متعلق جو فیصلہ کر چکے ہیں، مجھے منظور ہو گا۔‘‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو۔‘‘ آرب نے بے حد امید سے اسے دیکھا۔ تبھی ملازم لڑکی ٹرالی لے کر اندر آئی۔ اس کے پیچھے پیچھے عفت مامی بھی تھیں۔
’’یہ عفت مامی ہیں اور یہ آرب مصطفی ہیں۔ چھوٹی امی کے بھائی۔‘‘ ایلیا نے تعارف کروایا۔ آرب نے ادب سے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا۔ اس کے سلام کا جواب دے کر عفت مامی بیٹھ گئیں۔
’’وہاں ماڈل ٹائون میں اس طرح ایلا کے چلے آنے سے خوب باتیں ہوئی ہوں گی۔‘‘ عفت مامی کا وہی عورتوں والا تجسّس اچانک اُمڈ آیا تھا اور چائے بناتے ہوئے انہوں نے اچانک پوچھ لیا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ کئی دن ہنگامہ رہا۔ سب اپنی اپنی بولیاں بولتے رہے۔ بھائی جان کا خیال تھا کہ ایلیا انکل آفتاب کے پاس ساہیوال گئی ہوں گی۔ لیکن پھر طلال نے بتایا کہ ایلیا نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے پاس جا رہی ہے۔ اسفند بھائی جان تو بہت اچھلے تھے کہ میں کیس کر دوں گا۔ عدالت میں جائوں گا۔ لیکن طلال نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ پھر انہی دنوں حادثہ ہو گیا۔ بلال کی اکلوتی بیٹی سیڑھیوں سے اس طرح سر کے بل گری کہ گرتے ہی اس نے جان دے دی۔ ایلا کی جان لینا چاہتا تھا، قدرت نے اس کی بیٹی کی جان لے لی۔ پھر طلال نے دھمکی دے دی تھی بھائی جان کو اگر انہوں نے کچھ کیا تو وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ ایلیا کی جائیداد پر قبضہ جمانے کے لئے اس کی جان لینا چاہتے تھے۔ پتہ نہیں ایلا نے کیا لکھا تھا خط میں کہ وہ بالکل ہی بدل گئے تھے۔ بہت ہی شرمندہ ہیں۔
’’چھوٹے بھیا اور بھابی تو بہت روتے ہوں گے۔ وہ کتنی پیاری تھی۔ ہے نا۔‘‘ اس نے شاید اس کی باقی بات نہیں سنی تھی۔
ShareThis
’’اس کی اتنی ہی زندگی تھی ایلیا!‘‘ عفت مامی سے بات کرتے کرتے آرب اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کی آنکھوں کے سامنے چھوٹے بھیا کی پنکی کی شکل آ رہی تھی۔
’’اور ابی جان، چھوٹی امی، انوشہ، بدر۔۔۔۔۔ سب کیسے ہیں؟‘‘ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
’’سب ٹھیک ہیں۔ البتہ بھائی جان کی ذہنی رو کبھی کبھی بہک جاتی ہے اور وہ خوب گالیاں دیتے ہیں سب کو۔‘‘
تبھی باہر گاڑی رکنے کی آاز آئی تھی اور کچھ دیر بعد ثمر، ملک حیات خان کو سہارا دیتے ہوئے اندر آئے۔ انہیں صوفے پر بٹھایا۔
’’سب ٹھیک ہے نا؟‘‘ عفت اور ایلیا نے ایک ساتھ پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’یہ آرب مصطفی ہیں۔‘‘ عفت نے بتایا۔ ’’ایلیا کی اسٹیپ مدر کے بھائی۔‘‘
ثمر کی پیشانی پر ناگوار سی شکنیں نمودار ہوئیں تاہم آگے بڑھ کر آرب سے مصافحہ کیا۔
’’اچھا، یہ ہیں آرب مصطفی؟‘‘ ملک حیات اسے دیکھ رہے تھے۔ ’’تھینک یو بیٹا! آفتاب نے بتایا تھا کہ تم نے ایلیا بیٹی کی مدد کی۔ یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’میں چند دن پہلے ہی باہر سے آیا ہوں۔ یہاں ایک کمپنی میں انٹرویو دینے آیا تھا۔ سوچا ایلیا کی خیریت معلوم کرتا جائوں۔‘‘ اس نے ایک نظر ایلیا پر ڈالی تھی جو سر جھکائے بیٹھی تھی۔
ملک حیات خان اس کی تعلیم اور جاب کی تفصیل پوچھنے لگے۔ اچانک ثمر حیات خان کھڑے ہو گئے۔
’’سوری۔۔۔۔۔ میں ذرا بابا جان کو ان کے کمرے میں چھوڑ آئوں۔ زیادہ دیر بیٹھنے سے ان کی طبیعت خراب نہ ہو جائے۔‘‘
’’ارے نہیں بیٹا! میں تو اس وقت بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’پھر بھی بابا جان! احتیاط اچھی چیز ہے۔‘‘
’’اوکے بیٹا!۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر شکریہ کہ آپ نے ایلیا بیٹی کی مدد کی۔ اس کا خیال رکھا وہاں۔‘‘
’’آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں سر!‘‘ آرب نے جواب دیا اور ثمر حیات خان انہیں سہارا دیتے ہوئے ان کے بیڈ روم میں لے گئے اور فوراً ہی واپس آ گئے۔
’’ایلیا! آپ آ جائیں، بابا جان آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا ایک دم ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور ثمر حیات خان نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے آرب مصطفی کی نظروں کو اس کے تعاقب میں جاتے اور پلٹتے دیکھا اور بے حد بے چینی سی محسوس کرتے ہوئے پہلو بدل کر آرب مصطفی کا بغور جائزہ لیا۔
وہ ایک پُرکشش شخصیت کا مالک تھا اور ایلیا کی طرف اُٹھتی اس کی نظروں کی وارفتگی اور ان میں پھیلے رنگ انہیں ازحد مضطرب اور بے چین کر رہے تھے۔
’کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ شخص آرب مصطفی، ایلیا اسفندیار کو چاہتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ اور کیا ایلیا بھی؟ لیکن وہ تو سب اختیار سونپ چکی۔۔۔۔۔۔ نہیں۔‘
ان کا دل جیسے مطمئن سا ہوا۔
’اور یہ لڑکا تین سال سے کہاں تھا؟ اگر ایسا کچھ ہوتا تو۔۔۔۔۔ یہ جذبہ جو اس لڑکے کی آنکھوں سے جھانک رہا ہے، یہ یک طرفہ ہے۔ لیکن یہ یک طرفہ جذبہ۔۔۔۔۔۔۔ مائی فٹ۔۔۔۔۔‘
انہوں نے خود ہی دل میں امڈنے والے خیالات کو پرے دھکیلا۔
’میں پتہ نہیں کیوں الٹی سیدھی باتیں سوچ رہا ہوں۔ مجھے اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا چاہئے۔ بہرحال یہ ہمارا محسن ہے۔‘
وہ آرب مصطفی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اسے بڑے خلوص سے کھانے کے لئے روکا۔ لیکن ایلیا کے واپس آنے کا انتظار کرتے کرتے وہ تھک کر کھڑا ہو گیا۔
’’اوکے سر! میں چلتا ہوں۔‘‘
مایوسی اور حسرت اس کی آنکھوں میں ہی نہیں، لہجے میں بھی تھی۔ ثمر حیات خان پھر ایک بار چونکے۔ اسے رخصت کر کے جب وہ بابا جان کے کمرے میں آئے تو ایلیا ان کا سر دبا رہی تھی۔
’’مہمان چلا گیا کیا؟‘‘ ملک حیات خان نے پوچھا۔ ایک لمحے کے لئے ایلیا کے ہاتھ ان کی پیشانی پر ساکت ہوئے۔
Zafina
08-01-2012, 12:33 AM
’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
ShareThis
٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں
ShareThis
کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔
Zafina
08-01-2012, 12:57 AM
’’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
ShareThis
٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں
ShareThis
کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔
Zafina
08-01-2012, 12:57 AM
’’ہاں۔‘‘
’’کھانے کے لئے روکنا تھا اسے۔‘‘
’’روکا تھا۔‘‘ وہ بے پرواہی سے کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ’’لیکن وہ چلا گیا۔ شاید کوئی کام تھا۔‘‘
ایلیا کے ہاتھ ہی ساکت نہیں ہوئے تھے، ایک لمحے کے لئے اسے لگا جیسے اس کا دل بھی ساکت ہو گیا ہو۔ ثمر حیات خان نے بہت گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ملک حیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تو بابا جان! پھر آپ نے کیا سوچا؟‘‘
’’کس کے متعلق؟‘‘ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’فرید کے متعلق۔‘‘
’’اوہ، ہاں۔‘‘ وہ ایک ہنکارا بھر کر رہ گئے تو ثمر نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
’’بیٹا! جائو، کھانا لگوائو۔ کھانے کے بعد مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔۔۔!‘‘ ایلیا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’فرید اچھا لڑکا ہے بابا جان!‘‘ ایلیا کے جاتے ہی ثمر خان نے پھر کہا تو ملک حیات نے سر ہلایا۔
’’ہاں، ہاں۔ یقینا۔ لیکن یار ثمر! مجھے اُس لڑکے کی ایک بات پسند نہیں آئی۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ ثمر نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’وہ لڑکا مسلسل پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں یہ ہے، وہ ہے، گندگی ہے، کرپشن ہے۔ ارے بھئی گندگی ہے، کرپشن ہے تو کس نے دعوت دی تھی کہ تم یہاں آئو۔ وہیں رہو جہاں پہلے رہتے ہو۔‘‘
’’دراصل بابا جان! جو شخص اتنا طویل عرصہ غیر ممالک میں رہا ہو تو اس کے لئے یہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل ہے۔‘‘ ثمر خان نے اس کا دفاع کیا۔
’’ہاں، یہ بات بھی ہے۔‘‘ ملک حیات خان کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’’وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں نہیں رہنا۔ شادی کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں کرنی اپنی ایلیا کی شادی ایسے لڑکے سے۔‘‘
’’لیکن بابا جان!۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمر حیات نے کچھ کہنا چاہا تو ملک حیات نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’بلاشبہ لڑکے کی قابلیت، وجاہت اور خاندان میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن تم نے سنا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شادی کرے ورنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! کیا خبر، وہاں اس نے بھی ایاز کی طرح کسی سے وعدہ کر رکھا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ ایلیا ایک بار پھر ایسے ہی اذیت ناک تجربے سے گزرے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہے۔‘‘
’’لیکن بابا جان! اس کے متعلق تحقیق کروائی جا سکتی ہے۔‘‘ ثمر حیات خان نے کہا۔
’’نہیں یار! میرا دل نہیں مانتا ایلیا کو اتنا دور بھیجنے کو۔ بس تم سہولت سے منع کر دو عفت کو۔ بلکہ میں خود سمجھا دوں گا۔ اور کوئی پروپوزل ہوا تو اس پر غور کریں گے۔‘‘
ثمر حیات خان خاموش ہو گئے۔
’’ٹھیک ہے بابا جان!‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا۔ ’’دیکھتے ہیں کہیں اور۔ عفت نے ذکر کیا تھا ایک دو لڑکوں کا۔‘‘
بہرحال جو کچھ ملک حیات نے کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا۔ کیا خبر فرید وہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور۔۔۔۔۔ ایلیا کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بہت چھان بین کرنی چاہئے تھی اور بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ تبھی عفت نے آ کر پوچھا۔
’’بابا جان! آپ کھانا اپنے کمرے میں کھائیں گے یا ڈائننگ میں چلیں گے؟‘‘
’’میں ڈائننگ میں ہی چلتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو گئے تو ثمر نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور سہارا دیتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
ShareThis
٭٭٭…
’’ثمر! یقین کرو، آرب بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘ ملک آفتاب کہہ رہے تھے اور ثمر حیات خان خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
’’مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے آفتاب! یقینا وہ ساری خوبیاں جو تم نے بتائی ہیں وہ ہوں گی اس لڑکے آرب مصطفی میں۔ اس کے باوجود مجھے ایلیا کے ساتھ اس کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں، صرف اس لئے کہ وہ اسفندیار کا سالا ہے؟۔۔۔۔۔ ثمر! وہ بہت مختلف لڑکا ہے۔ وہ یہاں کراچی میں گھر لے چکا ہے۔ اسے بڑی اچھی جاب مل گئی ہے۔ اس کا اسفندیار۔۔۔۔۔‘‘
’’پلیز آفتاب! تم مجھے ایسی بات پر کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس شخص اسفندیار کا نام بھی سننا نہیں چاہتا چہ جائیکہ میں اس کے ہی کسی رشتے دار کو ایلیا کا رشتہ دوں۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھتا ہوں ثمر! ایلا کا تمہارے ساتھ خونی رشتہ ہے۔ لیکن مجھے بھی وہ کم عزیز نہیں۔ میں صرف یہ جان کر یہاں آیا ہوں کہ ایلا، آرب کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔ وہ اسے بہت خوش رکھے گا ثمر! میں آرب کی بارات لے کر آئوں گا۔۔۔۔۔ یار! تھوڑی لچک پیدا کرو اپنے اندر۔ آرب، ایلا کو پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو تم کہو گے۔‘‘
ثمر حیات خان کے چہرے کے نقوش سے یکایک سختی جھلکنے لگی۔
’’کیا ایلیا بھی اسے پسند کرتی ہے؟۔۔۔۔۔ کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’میرے خیال میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ آفتاب ملک نے آہستگی سے کہا۔ ’’آرب نے ایلیا کی مدد کی، اس حوالے سے وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی ہو گی۔ لیکن جو کچھ تم سوچ رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔‘‘
ثمر حیات خان نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش ڈھیلے ہو گئے۔
’’مجھے افسوس ہے آفتاب! کہ میں نے تمہاری بات رد کی۔ کاش، تم کسی اور کے لئے آتے۔ کاش ایاز ایسا نہ کرتا تو میں تمہیں اپنا سمدھی بنا کر بہت خوش ہوتا۔ تمہارے گھر سے بہتر گھر اور کون سا ہوتا ایلیا کے لئے۔ لیکن آرب مصطفی ۔۔۔۔۔۔ نہیں آفتاب! ہرگز نہیں۔‘‘
اور آفتاب ملک کی آمد کا سن کر ان سے ملنے آتی ہوئی ایلیا وہیں ڈرائنگ روم کے دروازے کے باہر ہی ٹھٹک کر رک گئی۔
’’تم ایک دفعہ بابا جان سے تو بات کرنا ثمر! اور ایک بار سوچنا ضرور۔‘‘ آفتاب ملک کہہ رہے تھے۔
’تو آرب نے انکل کو بھیج ہی دیا۔۔۔۔۔ حالانکہ کتنا منع کیا تھا، کتنا سمجھایا تھا اسے کہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔ یہاں سے ہی پلٹ جائو۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ میں ثمر ماموں اور بابا جان کے فیصلے کی مخالفت کروں گی۔‘
’’مجھے ایک کوشش تو کرنے دو ایلیا!‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ میں تمہارا باقاعدہ پروپوزل بھجوائوں۔ سیانے کہتے ہیں جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ایلا! میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں ایسا کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالوں گا کہ کوئی تم سے بد گمان ہو۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خود اپنی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ ایلا، پلیز! مجھے اجازت دو کہ میں انکل آفتاب کو تمہارے بابا جان کے پاس بھیجوں۔‘‘
تب وہ چپ ہو گئی۔
’’اوکے۔۔۔۔۔ میں صبح ہی ساہیوال جا رہا ہوں۔‘‘
آرب نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ پوری رات بے چین رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ کب اور کس موڑ پر آ کر آرب نے اپنی شدتوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جواباً اسے کوئی آس، کوئی امید نہیں دلا سکتی تھی۔ لیکن آرب تھا کہ مایوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے مل کر جانے کے بعد کتنی ہی بار اس نے اس کے سیل فون پر رات کو فون کیا تھا۔
’’جانتی ہو، کراچی میں رہنے اور جاب کرنے کا فیصلہ میں نے تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ بیتے تین سالوں کے ہر لمحے میں میرے دل نے تمہاری محبتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایلا! تم اندازہ نہیں
ShareThis
کر سکتیں کہ میں نے خود کو کتنا روکا کہ پلٹ کر نہ دیکھوں۔ لیکن تمہاری کشش مجھے زیادہ دیر نہیں روک سکی۔‘‘
’’ہاں، میں بابا جان کو بتا دوں گا اس پروپوزل کے متعلق۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جان بھی انکار ہی کریں گے۔‘‘ ثمر حیات خان کے لہجے کے یقین سے ایک لمحے کے لئے اس کا دل جیسے نیچے کہیں پاتال میں گر گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے شعوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔
’یہ تو طے ہے کہ بابا جان اور ثمر ماموں، آرب مصطفی کا پروپوزل قبول نہیں کریں گے اور میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر۔۔۔۔۔‘ اس نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔ آفتاب ملک اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیسی ہو بیٹا؟‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ چاچی کو کیوں نہیں لائے؟ میں اتنی اُداس ہو رہی تھی ان کے لئے۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے لئے بہت اُداس ہے۔ لیکن اسے جوڑوں کے درد شروع ہو گئے ہیں۔ ان دنوں طبیعت خراب تھی۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’اب ایسے بھی بوڑھے نہیں ہوئے آپ اور چاچی۔ ثمر ماموں کو دیکھیں، کتنے ینگ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تو ینگ ہے نا۔‘‘ آفتاب ملک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہم کلاس فیلو ضرور تھے، لیکن ہم عمر نہیں تھے۔ نکمّے، بگڑے ہوئے چودھری تھے۔ ذرا بڑی عمر میں پڑھائی شروع کی تھی۔‘‘
’’آپ رہیں گے نا یہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔۔‘‘
’’صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟‘‘ ایلیا کو حیرت ہوئی۔ ’’اتنے دنوں بعد آئے ہیں اور صرف ایک دن؟‘‘
’’بس بیٹا! تمہاری چاچی بھی تو اکیلی ہیں نا وہاں۔‘‘
ایلیا خاموش رہ گئی تھی۔
کاش ایاز نے جلد بازی نہ کی ہوتی تو یہ ہیرا لڑکی ان کے گھر کا چراغ ہوتی۔ کبھی کبھی ایلیا کو سامنے دیکھ کر دکھ یوں ہی دل میں پنجے گاڑ لیتا تھا۔ ایلیا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ اب بھی انہیں اتنی ہی عزیز تھی۔ دونوں میاں بیوی کا زیادہ وقت اسی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ اور جب سے نینا عادل نے بتایا تھا کہ ایاز اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑے رہنے لگے ہیں تب سے تو احساسِ زیاں اور بھی بڑھ گیا تھا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے انکل؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ وہ چونکے۔ ’’تمہارے بابا جان جاگ گئے ہیں تو انہیں سلام کر لوں۔‘‘
’’جی، وہ تو کب کے جاگے ہوئے ہیں۔‘‘ ایلیا نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’چلو ثمر! بابا جان کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ثمر حیات خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ان کے ساتھ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ ایلیا وہیں بیٹھی رہی۔
’کیا ضروری تھا کہ میرا دل آرب مصطفی کی چاہ کرتا جس کا ساتھ مقدر میں میں نہیں۔‘ اس نے دل گرفتگی سے سوچا۔
’’ایلا! دیکھو، انکل میرا پروپوزل لے کر آئیں گے۔ اور اگر تمہاری رائے پوچھی گئی تو تم میرے حق میں رائے دینا پلیز۔‘‘
’’نہیں، ہرگز نہیں آرب مصطفی! آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ میں نے ہر فیصلے کا اختیار ثمر ماموں اور بابا جان کو دے دیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘‘
’’آرب! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھول جائیں مجھے اور زندگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم بھول سکتی ہو تو بھول جانا ایلیا!۔۔۔۔۔ میں نہیں بھول سکتا۔‘‘ آرب نے حتمی لہجے میں کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’اب ثمر ماموں نے صاف انکار کر دیا ہے اور بابا جان۔۔۔۔۔ یقینا بابا جان بھی۔‘ اُس نے نچلے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ درد۔۔۔۔۔۔۔ بے پناہ درد نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔
Zafina
08-01-2012, 12:58 AM
…٭٭٭…
’’تو تمہارا کیا خیال ہے اس پروپوزل کے متعلق؟‘‘ ملک حیات خان نے ثمر کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے آفتاب کو منع کر دیا تھا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ ملک حیات نے پُر سوچ نظروں سے دیکھا۔ ’’تم نے ایلیا سے پوچھا؟‘‘
ثمر نے ان کے ہاتھ سے گلاس واپس لے کر میز پر رکھتے ہوئے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’ایلیا نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے اسے منظور ہو گا۔‘‘
’’ہاں، تب آرب نہیں آیا تھا۔‘‘ ملک حیات خان نے تکیے سے ٹیک لگائی۔
ثمر کچھ خان دیر پہلے ہی آفتاب ملک کو گیسٹ روم میں چھوڑ کر ملک حیات کو سونے سے پہلے دوائیں دینے آئے تھے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ثمر نے کسی قدر تیزی سے پوچھا۔
’’بیٹا! کیا خبر وہ دونوں۔۔۔۔۔۔ آخر آرب نے کسی آس پر ہی آفتاب کو بھجوایا ہے۔ کچھ تو ہو گا نا۔ میں نہیں چاہتا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔‘‘
ثمر حیات خان ایک لمحے کو بالکل چپ کر گئے۔
’’اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایلیا ناخوش رہے۔‘‘ ملک حیات خان نے پھر کہا تو ثمر نے باہر سے گزرتے اسلم کو آواز دے کر ایلیا کو بلانے کے لئے کہا۔ وہ گھبرائی ہوئی سی آئی۔
’’کیا ہوا؟ بابا جان تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔ بیٹھو۔‘‘ ثمر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ یونہی گھبرائی گھبرائی سی بیٹھ گئی۔
’’ایلیا بچے!‘‘ ملک حیات نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’تمہارے انکل آفتاب تمہارے لئے آرب مصطفی کا پروپوزل لائے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’بابا جان! جو آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔ ’’میں نے آپ سے کہا تو تھا، آپ جو بھی فیصلہ کریں، آپ کو اختیار ہے۔‘‘
ثمر کا چہرہ چمکنے لگا۔ لیکن ملک حیات سنجیدگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’ہمارا خیال نہیں ہے آرب کے لئے۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ کیوں۔۔۔۔۔ یوں تو اچھا لڑکا ہے وہ۔‘‘
’’جی بابا جان!‘‘ اس نے اب بھی سر نہیں اٹھایا تھا لیکن اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ تاہم جب وہ بولی تو اس کا لہجہ بہت صاف اور پُر اعتماد تھا۔
’’آپ بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں بابا جان!‘‘
’’جیتی رہو۔‘‘ بے اختیار ان کے لبوں سے نکلا تھا۔ اور ثمر کو لگا تھا جیسے برسوں سے جلتے ہوئے دل پر کسی نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال دیئے ہوں۔ فرطِ جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں اور انہوں نے مسکرا کر ملک حیات خان کی طرف دیکھا جن کی مسکراتی آنکھوں میں نمی پھیل رہی تھی۔
’’جائو بیٹا! آرام کرو جا کر۔ ایکچوئیلی میں چاہ رہا تھا کہ آفتاب کو کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے تم سے بھی بات کر لوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی غلط فیصلہ تمہاری آئندہ زندگی میں دکھ گھول دے۔‘‘
وہ بنا کچھ کہے کھڑی ہو گئی۔ وہ یہاں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ دیر اور بیٹھی تو ضبط کھو دے گی اور وہ اپنے کسی بھی عمل یا حرکت سے بابا جان اور ثمر ماموں کو یہ باور نہیں کرانا چاہتی تھی کہ اسے ان کا فیصلہ منظور نہیں ہے۔ لیکن اپنے کمرے میں آتے ہی آنسو بے اختیار ہی آنکھوں سے نکل آئے تھے۔
تو آرب مصطفی! فیصلہ ہو گیا کہ ہمیں ہمیشہ الگ الگ راستوں پر چلنا ہے۔ اور یہ تو شاید ازل سے طے تھا۔ پھر میرے دل میں یہ خیال کیوں آیا؟‘
…٭٭٭…
ShareThis
ایک اور بے چین رات اس نے عجب کرب میں گزار دی۔
صبح بستر سے اٹھنا محال ہو رہا تھا۔ پورا بدن درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
’’ارے کیا ہوا؟‘‘ عفت مامی نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ’’تمہیں تو بخار لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہاں، شاید۔‘‘ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’نہ، نہ۔۔۔۔۔ لیٹی رہو۔ اٹھنے کی ضرورت نہیں۔ میں یہاں ہی تمہارا ناشتہ بھجوا دوں گی۔‘‘
’’نہیں، میرا جی نہیں چاہ رہا کچھ بھی کھانے کو۔ ابھی پیناڈول لے لیتی ہوں تو۔‘‘
’’نہ، خالی پیٹ کوئی دوا مت لینا۔ ہلکا سا ناشتہ کر لو، پھر لے لینا ایک گولی۔‘‘
ایلیا خاموش ہو گئی۔ جانتی تھی اس کی ایک نہیں چلے گی۔ ان محبتوں کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی وہ۔ عفت مامی کے جانے کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں۔ کچھ دیر بعد ہی ثمر حیات اور ملک حیات خان چلے آئے۔ ان کے ساتھ ملک آفتاب بھی تھے۔
’’ارے، کیا ہو گیا میری بیٹی کو؟۔۔۔۔۔ رات تو بھلی چنگی تھی۔‘‘ آفتاب ملک نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی۔
’’کچھ نہیں انکل!‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’یوں ہی سر درد تھا اور شاید ہلکا سا ٹمپریچر۔ بس مامی خود بھی پریشان ہوئیں اور آپ سب کو بھی پریشان کر ڈالا۔‘‘
ملک حیات خان نے اس کے ستے ستے چہرے پر ایک پُرسوچ سی نظر ڈالی اور سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’اگر زیادہ طبیعت خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلوں۔‘‘
’’نہیں ماموں۔ بس پیناڈول لوں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ShareThis
’’میں تو سوچ رہا تھا تم فارغ ہو پڑھائی سے تو تمہارے بابا جان سے اجازت لے کر تمہیں کچھ دنوں کے لئے ساہیوال لے چلتا ہوں۔ کچھ دن ہمارے ویران گھر میں بھی رونق لگ جائے گی۔‘‘ آفتاب ملک بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
’’یہ بھی کوئی زندگی ہے میاں!‘‘ ملک حیات نے تبصرہ کیا۔ ’’بچوں کو پال پوس کر بڑا کرو اور وہ بڑھاپے میں ہمیں تنہا چھوڑ جائیں۔‘‘
’’بس، جو نصیب میں لکھا ہو بابا جان!‘‘ ایلیا نے آفتاب ملک کے لہجے میں چھپے دکھ کو محسوس کیا۔ ’’بیٹے کو پاکستان میں رہنا پسند نہیں اور ہمیں اپنی مٹی چھوڑنا منظور نہیں۔‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔ سو وہ وہاں خوش، ہم یہاں مطمئن۔‘‘
’’انکل! میرا دل بھی چاچی سے ملنے کو بہت چاہ رہا ہے۔‘‘ اس نے بات کر کے ملک حیات کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں، ٹھیک ہے۔ آفتاب ایک دن رک جائے تو چلی جائو ہفتہ بھر کے لئے۔‘‘ ملک حیات نے جیسے اس کے دل میں چھپی خواہش پڑ لی تھی۔
’’لیکن یار! جلدی واپس چھوڑ جانا۔ ہم بھی زیادہ دن اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
جہاں آفتاب ملک خوش ہوئے تھے، وہاں ایلیا کے چہرے پر بھی مسرت کے رنگ بکھر گئے تھے۔
’’ایسی بات ہے تو رک جاتا ہوں میں۔‘‘
ثمر اس دوران خاموشی سے ایلیا کے چہرے کا جائزہ لے رہے تھے۔
’اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ ہیں۔ لیکن کیوں؟۔۔۔۔۔ کیا آرب۔۔۔۔۔‘ تبھی عفت، اسلم کے ساتھ ناشتہ لے کر آ گئیں۔
’’اسلم! یہ ناشتہ رکھو یہاں۔ اور ایلا بیٹا! چلو منہ ہاتھ دھو لو اور ناشتہ کر کے میڈیسن لے لو۔‘‘
’’مامی! آپ۔‘‘ ایلیا شرمندہ ہو گئی۔ ’’میں نے کہا تھا، میں ادھر ہی آ جاتی ہوں۔‘‘
’’اچھا خاصا بخار لگ رہا ہے تمہیں۔۔۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں فکرمندی تھی۔ ’’میں تو کہتی ہوں ثمر! یہ ناشتہ کر لے تو ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔‘‘ وہ ثمر سے مخاطب ہوئیں تو ایلیا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پتہ نہیں کس نیکی کا صلہ تھا یہ کہ اتنی محبتیں اس کا نصیب بن رہی تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتی ہوئی اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
ختم شد
Zafina
08-07-2012, 05:55 PM
Shukriya.. :)
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.