ROSE
07-31-2012, 04:47 PM
ڈپریشن کا علاج ورزش ہے
ڈپریشن کا علاج ورزش ہے
ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو بتایا گیا ہے کہ اب ڈاکٹر مایوسی یا ڈپریشن کے مریضوں کی اکثریت کو ورزش کی تجویز دے رہے ہیں۔
سینتیس سالہ جیمی سٹیونسن کا کہنا ہے کہ ورزش کرنے اور چلنے پھرنے سے انہیں اپنی بیماری پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔
سٹیونسن پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں اور روزانہ سولہ گھنٹے کام کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی صحت کا دھیان نہیں رکھ پاتے تھے۔زیادہ کام اور صحت پر کم دھیان کے سبب سات برس پہلے وہ ڈپریشن کے شکار ہوگئے۔
سٹیونسن کہتے ہیں: ’ اپنے پیشے کی وجہ سے میں اپنی گھریلو اور جزباتی زندگی میں کوئی تال میل نہیں بنا پاتا تھا۔ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ میں زبردست دباؤ میں روزانہ سولہ گھنٹے کام کرتا ۔‘
شروع شروع میں جب انکی طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی تو انہوں نے اسکی کوئی خاص پرواہ نہیں کی۔ لیکن 2002 میں وہ سستی محسوس کرنے لگے اور اتنے سست ہوگئے کہ انکے لیے بازار جانا بھی ایک مشکل عمل ہوگیا تھا۔ ’دھیرے دھیرے میں باالکل اکیلا ہوتا گیا۔ میری گرل فرینڈ سے میری دوستی بھی ٹوٹ گئی اور میرے تنہا رہنے لگا۔‘
انکا مزید کہنا تھا حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ’میں گھر سے باہر ہی نہیں جانا چاہتا تھا۔‘
اپنے آپ کو ڈپریشن سے باہر نکالنے کے لیے سٹیونسن نے دوا لینا شروع کی جس سے انہیں تھوڑی راحت ملی اور غنودگی محسوس کرنے لگے۔انہوں نے ڈپریشن کے لیے دوسری دوائیاں بھی لیں لیکن انہیں لگا کہ یہ کافی نہیں تھا۔ انکا کہنا ہے ’مجھے لگنے لگا کہ مجھے گھر سے نکلنا ہی پڑے گا۔‘
سٹیونسن نے اپنا ڈاکٹر بدلا اور اتفاق سے ان کا نیا ڈاکٹر میراتھن دوڑنے کا شوقین تھا۔
سٹیونسن بتاتے ہیں ’میری نئے ڈاکٹر نے مجھے ورزش کرنے کی صلاح دی۔ دھیرے دھیرے میں چہل قدمی کے لیے جانے لگا۔ روز میں اپنے سامنے ایک نیا ہدف رکھتا اور تھوڑی بہت ورزش بھی کرنے لگا تھا۔ پھر میں نے جِم جانا شروع کیا۔ میرے لیے ایسا کرنا مشکل تھا کیونکہ میں تنہا رہنا پسند کرتا تھا اور جِم میں مجھے ورزش والے کپڑے پہننے پڑتے تھے اور وہاں چھریرے اورکثرتی بدن والے لوگوں کے ساتھ جم کرنا ہوتا تھا۔‘
سٹیونسن کہتے ہیں کہ وہ جِم گئے اور ورزش کرنے والی مشینوں کا انہوں نے خوب استمعال کیا۔ ’ جب میں پہلے دن جِم سے واپس آیا تو مجھے زبردست خوشی محسوس ہو رہی تھی۔
سٹیونسن نے کچھ دن جِم جانا جاری رکھا لیکن اب وہ اپنے کتے کو سیر پر لے جاتے ہیں جس سے ان کی بھی ورزش ہوجاتی ہے۔
سٹونسن اب ڈپریشن کو ختم کرنے والی بہت ہلکی دوائی لیتے ہیں اور اب انہوں نے اپنی نوکری بھی تبدیل کردی ہے۔
سٹیونسن کہتے ہیں کہ ورزش کرنا دماغی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ دماغی بیماری میں مبتلا افراد کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی ایک جواب نہیں ہے کیونکہ اس کا سیدھا تعلق ہر نسان کی انفرادی ضروریات سے ہے ۔ لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ورزش کرنا اچھا ہے۔‘
پال فینل شمالی لندن میں ایک جِم کے مینجر ہیں جہاں وہ مایوسی یا ڈپریشن کے علاوہ دیگر مریضوں کے لیے آٹھ ہفتوں کا ورزش کا پلان دیتے ہیں۔
پال بتاتے ہیں ’ ہم اکثر ان مریضوں کو بیڈمنٹن جیسی ورزش کرنے کے لیے بھیجتے ہیں جہاں وہاں مختلف لوگوں سے ملتے لیکن اس کے علاوہ ہم انہیں جِم اور یوگا بھی کرواتے ہیں۔‘
جب ہم لوگوں کے ورزش کا پروگرام یا منصوبہ بناتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہیں ڈپریشن کی وجہ زیادہ وزن اور تمباکو نوشی تو نہیں۔ اور اس کے بعد ہی ہم ان کے لیے ورزش کا پلان بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی سکیم کافی حد تک کامیاب ثابت ہوئی اور اسّی فی صد افراد اپنا کورس ختم کرنے والے ہیں۔
ڈپریشن کا علاج ورزش ہے
ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو بتایا گیا ہے کہ اب ڈاکٹر مایوسی یا ڈپریشن کے مریضوں کی اکثریت کو ورزش کی تجویز دے رہے ہیں۔
سینتیس سالہ جیمی سٹیونسن کا کہنا ہے کہ ورزش کرنے اور چلنے پھرنے سے انہیں اپنی بیماری پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔
سٹیونسن پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں اور روزانہ سولہ گھنٹے کام کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی صحت کا دھیان نہیں رکھ پاتے تھے۔زیادہ کام اور صحت پر کم دھیان کے سبب سات برس پہلے وہ ڈپریشن کے شکار ہوگئے۔
سٹیونسن کہتے ہیں: ’ اپنے پیشے کی وجہ سے میں اپنی گھریلو اور جزباتی زندگی میں کوئی تال میل نہیں بنا پاتا تھا۔ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ میں زبردست دباؤ میں روزانہ سولہ گھنٹے کام کرتا ۔‘
شروع شروع میں جب انکی طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی تو انہوں نے اسکی کوئی خاص پرواہ نہیں کی۔ لیکن 2002 میں وہ سستی محسوس کرنے لگے اور اتنے سست ہوگئے کہ انکے لیے بازار جانا بھی ایک مشکل عمل ہوگیا تھا۔ ’دھیرے دھیرے میں باالکل اکیلا ہوتا گیا۔ میری گرل فرینڈ سے میری دوستی بھی ٹوٹ گئی اور میرے تنہا رہنے لگا۔‘
انکا مزید کہنا تھا حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ’میں گھر سے باہر ہی نہیں جانا چاہتا تھا۔‘
اپنے آپ کو ڈپریشن سے باہر نکالنے کے لیے سٹیونسن نے دوا لینا شروع کی جس سے انہیں تھوڑی راحت ملی اور غنودگی محسوس کرنے لگے۔انہوں نے ڈپریشن کے لیے دوسری دوائیاں بھی لیں لیکن انہیں لگا کہ یہ کافی نہیں تھا۔ انکا کہنا ہے ’مجھے لگنے لگا کہ مجھے گھر سے نکلنا ہی پڑے گا۔‘
سٹیونسن نے اپنا ڈاکٹر بدلا اور اتفاق سے ان کا نیا ڈاکٹر میراتھن دوڑنے کا شوقین تھا۔
سٹیونسن بتاتے ہیں ’میری نئے ڈاکٹر نے مجھے ورزش کرنے کی صلاح دی۔ دھیرے دھیرے میں چہل قدمی کے لیے جانے لگا۔ روز میں اپنے سامنے ایک نیا ہدف رکھتا اور تھوڑی بہت ورزش بھی کرنے لگا تھا۔ پھر میں نے جِم جانا شروع کیا۔ میرے لیے ایسا کرنا مشکل تھا کیونکہ میں تنہا رہنا پسند کرتا تھا اور جِم میں مجھے ورزش والے کپڑے پہننے پڑتے تھے اور وہاں چھریرے اورکثرتی بدن والے لوگوں کے ساتھ جم کرنا ہوتا تھا۔‘
سٹیونسن کہتے ہیں کہ وہ جِم گئے اور ورزش کرنے والی مشینوں کا انہوں نے خوب استمعال کیا۔ ’ جب میں پہلے دن جِم سے واپس آیا تو مجھے زبردست خوشی محسوس ہو رہی تھی۔
سٹیونسن نے کچھ دن جِم جانا جاری رکھا لیکن اب وہ اپنے کتے کو سیر پر لے جاتے ہیں جس سے ان کی بھی ورزش ہوجاتی ہے۔
سٹونسن اب ڈپریشن کو ختم کرنے والی بہت ہلکی دوائی لیتے ہیں اور اب انہوں نے اپنی نوکری بھی تبدیل کردی ہے۔
سٹیونسن کہتے ہیں کہ ورزش کرنا دماغی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ دماغی بیماری میں مبتلا افراد کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی ایک جواب نہیں ہے کیونکہ اس کا سیدھا تعلق ہر نسان کی انفرادی ضروریات سے ہے ۔ لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ورزش کرنا اچھا ہے۔‘
پال فینل شمالی لندن میں ایک جِم کے مینجر ہیں جہاں وہ مایوسی یا ڈپریشن کے علاوہ دیگر مریضوں کے لیے آٹھ ہفتوں کا ورزش کا پلان دیتے ہیں۔
پال بتاتے ہیں ’ ہم اکثر ان مریضوں کو بیڈمنٹن جیسی ورزش کرنے کے لیے بھیجتے ہیں جہاں وہاں مختلف لوگوں سے ملتے لیکن اس کے علاوہ ہم انہیں جِم اور یوگا بھی کرواتے ہیں۔‘
جب ہم لوگوں کے ورزش کا پروگرام یا منصوبہ بناتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہیں ڈپریشن کی وجہ زیادہ وزن اور تمباکو نوشی تو نہیں۔ اور اس کے بعد ہی ہم ان کے لیے ورزش کا پلان بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی سکیم کافی حد تک کامیاب ثابت ہوئی اور اسّی فی صد افراد اپنا کورس ختم کرنے والے ہیں۔