mcitp-it
07-02-2012, 07:28 PM
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمان کی دوہری شہریت کیس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ امور رحمان ملک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے بارہا کہنے کے باوجود اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی انہوں نے برطانوی شہریت چھوڑنے کی دستاویز عدالت میں جمع نہیں کراوئیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملک کے اہم عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہو۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ مشیر داخلہ رحمان ملک سمیت تین ارکان پارلیمان کی رکنیت معطل کرچکی ہے اور ان تینوں کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ رحمان ملک ان دنوں برطانیہ کے نجی دورے پر ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ارکان پارلیمان کی دوہری شہریت سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
رحمان ملک کے وکیل انور منصور نے عدالت میں اپنے مؤکل رحمان ملک کا پاکستانی پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات پیش کیں جس کے مطابق رحمان ملک ان دستاویزات پر دیگر ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سماعت کے دوران کہا تھا کہ عدالت میں برطانوی ادارے کی وہ مستند دستاویزات پیش کی جائیں جس میں انہوں نے رحمان ملک کی برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں سرٹیفکیٹ جاری کیا ہو۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر یہ سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا تو پھر وہ درخواست ہی پیش کر دی جائے جو مشیر داخلہ نے برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق جمع کروائی تھی اور جس پر مجاز حکام کے دستخط بھی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ مشیر داخلہ کا مقدمہ ہے جسے کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
رحمان ملک کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے سنہ دو ہزار آٹھ میں برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی جس پر بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی تھیں۔
انور منصور کا کہنا تھا کہ کسی بھی رکن پارلیمان کی رکنیت اس وقت منسوخ کی جا سکتی ہے جب وہ پارلیمان کا رکن بننے کے بعد کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب لڑنے سے پہلے کسی بھی رکن پارلیمان کو دوہری شہریت رکھنے پر معطل نہیں کیا جاسکتا۔
انور منصور کے مطابق الیکشن کمیشن بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو دیتا ہے تاہم کسی ایسے شخص کو پارلیمان کا رکن بننے پر قدغن کیوں ہے؟ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ پابندی پاکستان کے آئین میں موجود ہے اور اگر پارلیمان اس میں ترمیم لانا چاہے تو اسے اختیار حاصل ہے۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملک کے اہم عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہو۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ مشیر داخلہ رحمان ملک سمیت تین ارکان پارلیمان کی رکنیت معطل کرچکی ہے اور ان تینوں کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ رحمان ملک ان دنوں برطانیہ کے نجی دورے پر ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ارکان پارلیمان کی دوہری شہریت سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
رحمان ملک کے وکیل انور منصور نے عدالت میں اپنے مؤکل رحمان ملک کا پاکستانی پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات پیش کیں جس کے مطابق رحمان ملک ان دستاویزات پر دیگر ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سماعت کے دوران کہا تھا کہ عدالت میں برطانوی ادارے کی وہ مستند دستاویزات پیش کی جائیں جس میں انہوں نے رحمان ملک کی برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں سرٹیفکیٹ جاری کیا ہو۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر یہ سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا تو پھر وہ درخواست ہی پیش کر دی جائے جو مشیر داخلہ نے برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق جمع کروائی تھی اور جس پر مجاز حکام کے دستخط بھی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ مشیر داخلہ کا مقدمہ ہے جسے کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
رحمان ملک کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے سنہ دو ہزار آٹھ میں برطانوی شہریت چھوڑنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی جس پر بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی تھیں۔
انور منصور کا کہنا تھا کہ کسی بھی رکن پارلیمان کی رکنیت اس وقت منسوخ کی جا سکتی ہے جب وہ پارلیمان کا رکن بننے کے بعد کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب لڑنے سے پہلے کسی بھی رکن پارلیمان کو دوہری شہریت رکھنے پر معطل نہیں کیا جاسکتا۔
انور منصور کے مطابق الیکشن کمیشن بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو دیتا ہے تاہم کسی ایسے شخص کو پارلیمان کا رکن بننے پر قدغن کیوں ہے؟ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ پابندی پاکستان کے آئین میں موجود ہے اور اگر پارلیمان اس میں ترمیم لانا چاہے تو اسے اختیار حاصل ہے۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی۔