PDA

View Full Version : یہ زرد گلاب جدائی کے


DrEaMBoY
04-17-2012, 09:29 AM
زندگی میں کب کون چاہتا ہے اپنوں سے الگ ہونا۔لیکن پھر بھی یہاں جدائی سامنے آ جاتی ہے۔کبھی دائمی جدائی اور کبھی عارضی۔۔
مگر جدائی تو جدائی ہوتی ہے نا۔۔سب کچھ بہا کے لے جاتی ہے۔
مومو بہت جذب کے ساتھ بول رہی تھی۔
حمنی نے اُسے بولنے دیا۔وہ بہت دن کے بعد اپنے دل کے سڑتے ہوئے زخموں کو بیان کر کے تازہ ہوا دے رہی تھی۔۔حمنی نے اُسے بولنے دیا۔
حمنی ایک بات تو بتائو ہم سے ہمارے رشتے جدا کیوں ہوتے ہیں۔۔یہ دائمی کیوں نہیں ہوتے??
مومو نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔حمنی خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی۔اُسے آنسووں نے بولنے ہی نہیں دیا۔

حمنی۔۔اوہ حمنی ادھر جلدی سے آ دیکھ میرا مایوں کا جوڑا کتنا کمال ہے۔ دیکھو اشعر نے کتنے پیار سے لیا ہے۔ مومو کے انداز میں بےتابی تھی اور لہجہ مان سے بھرپور تھا۔حمنی اور مومو دونوں ہم عمر اور بچپن کی ہمجولیاں ہیں۔ ایک ہی آنگن پلی بڑھیں۔اور اب مومو کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی تھی اشعر کے ساتھ۔جو کے اُن کی پھپھو کا بیٹا تھا اور مومو کو بہت پیار کرتا تھا۔حمنی کی شادی مومو کے بھائی یعنی اپنے تایازاد کے ساتھ ہونی تھی۔ جو کہ پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا۔
میری قسمت میں تو ایسے لمحے نہیں آنے مومو تیرا سڑیل گھنا بھائی کو موٹی موٹی کتابیں چاٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ حمنی نے مومو کو چیھڑتے ہوئے کہا۔ کیونکہ وہ اپنے بھائ کے خلا ف ایک بھی بات نہیں سن سکتی تھی۔
حمنی پٹے گی مجھ سے اب۔۔وہ عید کارڈ تیرے کس عاشق نے انگلینڈ سے بھیجے ہیں۔۔ مومو نے فورا حمنی کے کان کھینچے۔
سچ بتا دو تا کہ میں اپنے معصوم بھائی کو تم جیسی ڈائن سے بچا لوں۔۔ مومو کے کہنے پر حمنی نے اُسے تڑپ کر دیکھا۔
مومو تو میرے ساتھ پھپھاکٹنیوں والے کام نہ کیا کر مر جانی۔ حمنی اُسے گھورتے ہوئے بولی۔
امی امی سنیں یہ آپکی مستقبل کی بہو آپکو پھپھا کٹنی کہہ رہی ہے
مومو نے پاس سے گزرتی آمنہ بیگم سے کہا۔
نہیں نہیں تائی ماں۔۔یہ تو ایسے ہی مارتی ہے ۔حمنی فورا بولی
اور جلدی سے تائی کے گلے لگ کے بولی
دشمن جتنا چاہے کوشش کر لیں۔ پاک چائنہ تعلقات نہیں بگڑ سکتے،
تم اپنے گھر سدھارو ۔ہم مان بیٹی کو سکون سے اس امن ولا میں رہنے دو۔۔
اف تم دونوں۔۔مجھے بہت کام ہیں۔تائی ماں دونوں کی باتوں پر مسکرا کر بولتی ہوئی چلی گئ۔
مومو کی ساری شاپنگ مکمل ہو چکی تھی۔اشعر نے ہر چیز اُسکے ساتھ خریدی تھی۔ پھپھو روایتی سوچ کی مالک نہیں تھیں۔اُنہوں نے شکر کیا کہ دونوں اپنی پسند کی خریداری کر رہے ہیں۔
آج وہ مومو کا مایوں کا جوڑا لائیں تھیں۔جو اشعر نے اکیلے ہی خریدا تھا مومو کو سرپرائز دینے کے لئے۔
ایک ہفتے پہلے لڑکی کو مایوں بٹھا دیا جاتا تھا۔آج وہ اسی رسم کے لئے آئیں تھیں۔
مومو اپنا موبائل مجھے دے دو۔ حمنی نے اُسے کہا۔
کیوں جی۔ میں مایوں بیٹھ رہی ہوں ۔جیل نہیں جا رہی کہ مجھے اس طرح قید کرو۔ مومو نے ناراض ہوتے ہوئے کہا
او۔کے۔ مت دو میں پھپھو کو جا کر کہہ دیتی ہوں کہ آپکی بہو اپکی حکم عدولی کر رہی ہے۔حمنی باہر نکلتے ہوئے بولی۔۔
ارے حمنی رک۔۔ لے جا میری جان کی دشمن۔۔ لے جا۔۔میرا وقت بھی انے والا ہے۔۔گن گن کے بدلے لوں گی۔۔ مومو منہ بناتے ہوئے بولی۔
حمنی نے مومو کو آکر پیچھے سے اپنی گرفت میں لیا اور رونا شروع کردیا۔۔
مومو تم چلی جائو گی میں کس سے لڑوں گی یار۔۔میرا کمرہ خالی ہو جائے گا۔میں کس کے ساتھ باتیں کیا کروں گی۔۔مجھے تو اکیلے نیند بھی نہیں آتی۔
ارے تمہارا بندوبست بھی جلد ہی کررہے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پھوپھو اور تائی اماں بولیں۔جو ُانکے رونے کی آواز سن کر اندر آ گئیں تھیں۔۔
بھابھی اپنی نکمی بہو کو سیبھالیں۔ میری بہو کے اتنے قیمتی انسووں کو ضائع کروا رہی ہے۔ پھپھو نے ماحول کی سوگواریت کو ہلکا کر نے کے لئے کہا۔حمنی اور مومو ہنس پڑٰیں۔

حمنی اشعر سے بات کروا دو پلیز۔ میرا دل نہیں لگ رہا۔ مومو نے حمنی کی منت کرتے ہوئے کہا۔
ارے میری ہیر ‘شیریں اور سوہنی کی جانشین گدی نشین ایک ہی تو دن ہے یار۔ کل تو تم دونوں کی رسم حنا ہے۔ دوری میں زیادہ روپ آتا ہے۔
نہ بات کر آس سے۔۔ وہ بھی صبح سے سو کال کر چکا ہے۔بےتاب ہے بہت تمہاری آواز سننے کے لئے۔ حمنی نے اُسے بہلانا چاہا۔
بس ایک بار حمنی۔ ایک منٹ کی بات بس۔۔ مومو کے لہجے میں دوری کا احساس بول رہا تھا۔
او کے یہ لو۔ بس ایک منٹ ۔۔زیادہ نہیں بات کرنا۔۔میں آتی ہوں ابھی۔ حمنی اُسے موبائل پکڑاتے ہوئے باہر چلی گئی۔
مومو نے نمبر ملایا اور ادھر سے پہلی ہی بیل پر فون اُٹھا لیا۔
حمنی کتنی سخت دل ہو تم۔۔ میرے اور مومی کے درمیان کی دیوار بن گئی ہو۔ اشعر کان کے ساتھ لگاتے ہی فون شروع ہو گیا۔
سنو، میں ہوں مومی۔۔ آپکی مومی۔۔ مومو نے اسے بریک لگوانے کے لئے فورا کہا۔
اشعر نے کانوں میں جیسے زندگی کی آواز پڑی
کیسی ہو جان اشعر
ٹھیک ہوں وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔
کل کے بعد تو سب دوریاں ختم ہو جائیں گیں مومی۔ اشعر جذب سے بولا
مومو کچھ تو بولو۔ اشعر نے اُسے بولنے پر اُکسایا۔
کل کے بعد میں تمہارے اتنے قریب ہونگا کہ۔۔
اشعر ۔ مومو نے شرما کے اُسک بات کاٹی
ہاں جان اشعر بولو۔
کچھ نہیں۔۔ مومو نے کہا
اچھا سنو۔ اشعر بولا
میں کل تہمارے لئے موتییے کا زیور لاؤں گا۔ تمہیں وہ ہی پہننا ہے۔سفید زیور اشعر کی جان کل پہنے گی۔۔
ٹھیک ہے نا۔۔۔
اتنے میں حمنی نے فون چھین لیا۔
بس جیج ۔۔اتنی باتیں کافی ہیں۔۔ اب کل بولنا۔۔
بائے بائے۔۔۔ حمنی نے فون کاٹ دیا۔
مومو سو جائو جان اشعر۔۔ حمنی اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔
مومو نے اسکی طرف تکیہ پھینکا جسے حمنی نے کیچ کر کے بازؤوں میں جکڑ لیا۔۔اور مومو کے پاس لیٹ گئی۔
گھر میں گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ ہر طرف شور تھا۔کاموں کی پکار پڑ رہی تھی۔ گھر کے افراد سب خوشی خوشی انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ آج مہندی کی رسم کے ساتھ ساتھ دونوں کا نکاح بھی تھا۔
حمنی اپنی پھپھو کو فون کرو۔ بھابھی کہہ رہیں ہیں۔ حمنی کی امی نے اُسے کہا۔
ٹھیک ہے لیڈی مارگریٹ۔ آپکا حکم ابھی بجا لاتے ہیں۔ حمنی نے ماں کو مسکرا کر جواب دیا۔

پھوپھو کہہ رہی ہیں کہ اشعر پھولوں کے زیور مومو کے لئے لینے گیا ہے ۔بس 15منٹ میں پہنچتے ہیں۔ حمنی نے تائی ماں کو آکر بتایا۔
جائو حمنی بہن کے پاس ۔دیکھو وہ تیار ہوئی کے نہیں۔
جی ماما۔ حمنی ماں کو جواب دے کر سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔

اوئے اوئے اج تو لوگ پہچانے نہیں جا رہے۔۔ کتنے لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ ہے ۔ حمنی نے مومو کی بلائیں لیتے ہوئے اُسے چھیڑا۔
مومو پر روپ بہت آیا۔ میک اپ سے پاک چہرا قیامت کی حد تک حسین لگ رہا تھا۔ اُس کے چہرے کو محبت نے اتنی چمک بخشی تھی کہ
نطر نہیں ٹھر رہی تھی۔
مومو جان اشعر آج نکاح کے بعد بھائی نے آپکو رخصت بھی کروا کے لے جانا ہے۔حمنی اسے بازووں میں لے کر بولی۔
مومو شرما گئی۔
اوہ اوہ آج تو ایک اور معجزہ بھی ہو گیا آنسہ مومو کو اج تو شرم بھی آ رہی ہے۔حمنی نے اُسے اور چھیڑا

حمنی پھپھو لوگ کب تک آ رہے ہیں۔مومو نے پوچھا
اتنی بےتابی۔۔۔۔شرم کر اس موقع پر لڑکیاں روتی ہیں۔ اپنے والدین کا سوچتیں ہیں اور تو اپنی ساس اور اس کے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے۔ ارے او بے مروت ارے اوہ بےوفا
زمانے کے لئے ہی سہی
تو تھوڑی سی تو ہیمں رو کے دکھا۔۔
حمنی نے گانے کی ٹانگ توڑتے ہوئے اُسے غیرت دلانے کی کوشش کی۔۔
حمنی بی سیریس یار،
فون کر اشعر کو ۔کہاں ہے وہ۔ مومو نے اسے کہا۔
حمنی او حمنی نیچے آ۔ نبیہہ آئی ہے۔۔ تائی ماں نے اسے پکارا
مومو نمبر ملائو میں نبیہہ کو اوپر لے کر اتی ہوں۔۔وہ باہر نکلی
مومو نے فون پکڑ کر میز پر رکھا اور اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔۔
اپنا عکس آئینہ میں دیکھتے ہوئے وہ خود بخود مسکرا اٹھی۔ اسے حمنی کی بات پر یقین آنے لگا۔
اس نے اشعر کو سوچتے ہوئے فون اٹھایا نمبر ملا کے کان کے ساتھ لگایا۔
اتنے میں حمنی نبیہہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
بات نہیں ہوئی مومو۔۔
بیل جا رہی ہے ۔۔کوئی فون نہیں اٹھا رہا۔ آؤ بیا یار۔ وہ بیا کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
اشعر کہاں ہو تم۔ اس نے کال ملتے ہی پوچھا۔۔
پیچھے پیچھے سے بیا اور حمنی نے شور مچایا
ہائے ہائے بےتابیاں۔۔۔۔وہ ہنس پڑی اور شرما کے ان سے پیٹھ موڑگئی

اشعر۔۔اشعر ۔مومو اسے بلا رہی تھی
وہ دوسری طرف سے انے والی انجان آواز سن کر ٹھٹک گئی۔۔
یہ تو اشعر کا نمبر ہے۔۔آپ۔۔
دوسری طرف سے کیا کہا گیا وہ اسے پورا سننے سے پہلے ہی زمین بوس ہو چکی تھی۔حمنی اور بیا گبھرا کر اسکی طرف بڑھیں۔
مومی کیا ہوا۔۔۔ حمنی چیخی۔۔لیکن وہ جواب دینے کے بجائے بےہوش ہو چکی تھی۔
بیا نے حمنی کا فون پکڑ کر نمبر ری دائل کیا تو پہلی بیل پر کسی نے فون اُٹھایا۔
اشعر بھائی۔۔
وہ جو کوئی بھی تھا اس نے بات کاٹ کر فورا کہا۔
یہاں صدر میں دھماکا ہوا ہے شہدا میں یہ بھی شامل ہیں۔ آپ سٹی ہسپتال سے آکر ڈیڈ باڈی لے جائیں۔ ان کی جیب سے نکلے شناختی کارڈ کے مطابق ان کا نام اشعر اسماعیل ہے۔

life
06-07-2012, 04:53 PM
v nice..........

SHAYAN
11-16-2012, 12:49 AM
Nice....

Abewsha
06-05-2013, 03:11 AM
nice sharing.................

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.