DrEaMBoY
04-17-2012, 09:26 AM
حالات ہمیں ہر غلط کام کے لئے اکساتے نہیں ہیں، کچھ کام ہم اپنے شوق کی بنیاد پہ بھی تو کرتے ہیں۔ مگر ہم اشرف المخلوقات کتنی آسانی سے حالات کو ذمہ دار قرار دے کر خود کو پانی کی طرح صاف کر لیتے ہیں۔ ہمارے اندر کچھ اور باہر کچھ ہوتا ہے۔
دس بیس نہیں ایک ہی انسان دکھا دو
ایسا جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو
ہم چوری کرتے ہیں اور اس کو غربت کا نام دے کرایک طرف ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے غربت کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے غربت کے خاتمے کے لئے کیا کیا؟ ہم دوسروں کو روندکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر نتیجتاََ ہم خود ہی دوسروں کے نقشِ کفِ پا بن کے رہ جاتے ہیں۔مشہورِ زمانہ کمپنی مائیکرو سافٹ کے چئیر مین بل گیٹس کہتا ہے:
”اگر تم غریب پیدا ہوئے تو تمہارا کوئی قصور نہیں لیکن اگر تم غریب مرتے ہو تو یہ سرا سر تمہارا قصور ہے۔“
ہم عزم و یقین سے عاری ہیں، تبھی ہم ناکام ہیں۔ غیر مسلم اس دولت سے مالا مال ہیں اور ہمارے ہی اصولوں پہ پنپ رہے ہیں جبکہ ہم ہر جگہ شارٹ کٹ کی کوشش کرتے ہیں۔ہم ا س پرندے کی مانند ہیں جس کے دونوںپر کاٹ دیئے گئے ہوں مگر ایک پر ہم نے خود کاٹا ہے اور ایک ہمارے دشمنوں نے ۔ ایسے حالات میں منیر نیازی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے ،کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کیا وجہ ہے کہ ہم 64 سالوں میں بھی ایک قوم نہیں بن پائے۔ وجہ صرف اپنی تاریخ سے دوری ہے۔ مگر ہم صرف فرسودہ روایات کو ہی یاد رکھتے ہیں۔بقولِ اقبال
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اجداد کو پھر سے زندہ کریں۔جو کام ہمارے آباءہمارے لئے چھوڑ گئے تھے ان کو پھر سے زندہ کریں۔
دس بیس نہیں ایک ہی انسان دکھا دو
ایسا جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو
ہم چوری کرتے ہیں اور اس کو غربت کا نام دے کرایک طرف ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے غربت کئی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے غربت کے خاتمے کے لئے کیا کیا؟ ہم دوسروں کو روندکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر نتیجتاََ ہم خود ہی دوسروں کے نقشِ کفِ پا بن کے رہ جاتے ہیں۔مشہورِ زمانہ کمپنی مائیکرو سافٹ کے چئیر مین بل گیٹس کہتا ہے:
”اگر تم غریب پیدا ہوئے تو تمہارا کوئی قصور نہیں لیکن اگر تم غریب مرتے ہو تو یہ سرا سر تمہارا قصور ہے۔“
ہم عزم و یقین سے عاری ہیں، تبھی ہم ناکام ہیں۔ غیر مسلم اس دولت سے مالا مال ہیں اور ہمارے ہی اصولوں پہ پنپ رہے ہیں جبکہ ہم ہر جگہ شارٹ کٹ کی کوشش کرتے ہیں۔ہم ا س پرندے کی مانند ہیں جس کے دونوںپر کاٹ دیئے گئے ہوں مگر ایک پر ہم نے خود کاٹا ہے اور ایک ہمارے دشمنوں نے ۔ ایسے حالات میں منیر نیازی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے ،کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کیا وجہ ہے کہ ہم 64 سالوں میں بھی ایک قوم نہیں بن پائے۔ وجہ صرف اپنی تاریخ سے دوری ہے۔ مگر ہم صرف فرسودہ روایات کو ہی یاد رکھتے ہیں۔بقولِ اقبال
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اجداد کو پھر سے زندہ کریں۔جو کام ہمارے آباءہمارے لئے چھوڑ گئے تھے ان کو پھر سے زندہ کریں۔