DrEaMBoY
04-08-2012, 06:33 PM
جانے کیا وجہ ہے کہ مسجد جانے سے ہمیشہ میری جان جاتی ہے اور بچپن میں تو جمعے کا خطبہ سن کر باقاعدہ چھریاں نظر آنا شروع ہو جاتی تھیں۔ اذان کی آواز سنتے ہی جوتیاں کبھی صوفوں، کبھی پیٹی، کبھی ڈولی کے نیچے اور کبھی گیراج میں پڑے کباڑ میں چھپانے کو دوڑتا تھا۔ چونکہ امی ہمیں ہر صورت مسجد بھیجنے پر مصر رہتی تھیں اس لئے سدباب کے طور پر ہم نے بہن بھائیوں کی جوتیوں کی بھی شامت لانی شروع کر دی اور جب اس کاروائی کی زد میں امی کی جوتیاں بھی آنے لگیں تو چمٹے سے ہونے والی ٹھکائی اور ننگے پیر مسجد جانے کی سزا کی بدولت یہ عادت چھوٹ گئی۔
بچپن تو یہ بات سمجھ میں آئے بغیر گزر گیا کہ مسجد جانے سے کیا مسئلہ ہے لیکن اب بھی مسجد نا جانے کا بہانہ ڈھونڈتا ہوں۔ کیوں؟ اس کے لئے آپ کو ایک نمازی کی آپ بیتی پڑھنا ہوگی۔ تفصیل سے غیبت کی میری بے شک عادت ہے لیکن آپ بیتی مختصراً کہنے کا عادی ہوں اور یہ دونوں کا ملغوبہ ہے۔ تو کہانی شروع ہوتی ہے یہاں سے
نماز کے لئے تکبیر کہی گئی مولوی صاحب نے کہا صفیں سیدھی کر لیں (دائیں بائیں نمازی میرے پاؤں پر کھڑے ہو گئے)۔ اگر مولوی صاحب نے کہا کاندھے سے کاندھا ملا لیں (نمازیوں نے اپنے ہی پیر ملا لئے اور مجھ سے کاندھے جوڑ لئے)۔ اب قیام میں حالت کچھ ایسی ہے کہ یا تو لوگ میرے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں یا میں ان کے کندھوں سے لٹکا ہوتا ہوں۔
قعدے اور تشہد کی روداد یہ ہے کہ بیٹھتے ہی ٹانگیں کاک ٹیل گلاس یا غلیل کی طرح کھول لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تشریف اتنی نازک اور فریجائل ہوتی ہے کہ احتیاطاً اس پر بیٹھنا نامناسب سمجھتے ہیں اور مجھ پر ایسے گرنے لگتے ہیں جیسے شاہراہ ریشم پر ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ۔ نتیجہ یہ کہ میں دو تووں کے بیچ میں آیا ٹام بن جاتا ہوں.
آگے والا نماز سے پہلے فارغ ہو جائے تو اپنی قمیض کو پیچھے سے 14 اگست کا جھنڈا بنا کر لہراتا ہے اور میری سجدے کی جگہ پر کھسک آتا ہے، اور قسم لے لو کتنی دفعہ تو ایسا ہوا ہے کہ میرے سجدہ زدہ سر پر ہی براجمان ہو گیا۔ نمازیوں کو لمبی قمیضیں پہننے کا شوق تو بہت ہوتا ہے لیکن جب وہ ”ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا“ کی عملی تصویر بنی ہوتی ہیں تو سنبھالنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی۔ ہونی بھی نہیں چاہئے (ہلن جلن سے نماز خراب ہوتی ہے)۔
فرض نماز کے فوراً بعد ایک دین دار بندہ اٹھ کر ”میری آپکی ساری دنیا کی بھلائی اللہ تعالٰی نے دین میں رکھی ہے ۔۔۔“ کی کیسٹ چلاتا ہے۔ اللہ کی لگن اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی دھن میں یہ بندہ اتنا مگن ہوتا ہے کہ نماز کے بعد اکٹھے ہوئے بے راہ لوگوں کی جماعت کو تبلیغ کے لئے یہ بندہ میرے سامنے سے اور مجھے دھکے دے کر گزر جاتا ہے اور عین نمازیوں کے بیچ بے راہ لوگوں کو بٹھا کر عمدہ اور چنگھاڑتی تقریر شروع کر دیتا ہے۔
لیکن میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میری داڑھی نہیں ہے، میں شلوار آدھی پنڈلیوں تک اونچی نہیں باندھتا، سیدھے گھیر والا کرتا نہیں پہنتا، نا میرے سر پر امامہ بندھا ہے ، نا میں نماز کے دوران بار بار ”اعضائے پوشیدہ“ کی خبر گیری کرتا ہوں اور اکثر پینٹ جیسے حرام لباس میں نماز پڑھتا ہوں ۔
میں نے کئی بار چاہا کہ ان اصحاب کو کچھ کہوں لیکن چونکہ میں مسجد کامستقل نمازی نہیں اور نا ہی مسجد کمیٹی کو باقاعدہ ایک لگی بندھی رقم ہدیہ و چندہ کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے مسجد کا چوہدری بننے کا کوئی حق ہے نا ہی اسلام کا ٹھیکیدار بننے کا۔
بچپن تو یہ بات سمجھ میں آئے بغیر گزر گیا کہ مسجد جانے سے کیا مسئلہ ہے لیکن اب بھی مسجد نا جانے کا بہانہ ڈھونڈتا ہوں۔ کیوں؟ اس کے لئے آپ کو ایک نمازی کی آپ بیتی پڑھنا ہوگی۔ تفصیل سے غیبت کی میری بے شک عادت ہے لیکن آپ بیتی مختصراً کہنے کا عادی ہوں اور یہ دونوں کا ملغوبہ ہے۔ تو کہانی شروع ہوتی ہے یہاں سے
نماز کے لئے تکبیر کہی گئی مولوی صاحب نے کہا صفیں سیدھی کر لیں (دائیں بائیں نمازی میرے پاؤں پر کھڑے ہو گئے)۔ اگر مولوی صاحب نے کہا کاندھے سے کاندھا ملا لیں (نمازیوں نے اپنے ہی پیر ملا لئے اور مجھ سے کاندھے جوڑ لئے)۔ اب قیام میں حالت کچھ ایسی ہے کہ یا تو لوگ میرے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں یا میں ان کے کندھوں سے لٹکا ہوتا ہوں۔
قعدے اور تشہد کی روداد یہ ہے کہ بیٹھتے ہی ٹانگیں کاک ٹیل گلاس یا غلیل کی طرح کھول لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تشریف اتنی نازک اور فریجائل ہوتی ہے کہ احتیاطاً اس پر بیٹھنا نامناسب سمجھتے ہیں اور مجھ پر ایسے گرنے لگتے ہیں جیسے شاہراہ ریشم پر ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ۔ نتیجہ یہ کہ میں دو تووں کے بیچ میں آیا ٹام بن جاتا ہوں.
آگے والا نماز سے پہلے فارغ ہو جائے تو اپنی قمیض کو پیچھے سے 14 اگست کا جھنڈا بنا کر لہراتا ہے اور میری سجدے کی جگہ پر کھسک آتا ہے، اور قسم لے لو کتنی دفعہ تو ایسا ہوا ہے کہ میرے سجدہ زدہ سر پر ہی براجمان ہو گیا۔ نمازیوں کو لمبی قمیضیں پہننے کا شوق تو بہت ہوتا ہے لیکن جب وہ ”ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا“ کی عملی تصویر بنی ہوتی ہیں تو سنبھالنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی۔ ہونی بھی نہیں چاہئے (ہلن جلن سے نماز خراب ہوتی ہے)۔
فرض نماز کے فوراً بعد ایک دین دار بندہ اٹھ کر ”میری آپکی ساری دنیا کی بھلائی اللہ تعالٰی نے دین میں رکھی ہے ۔۔۔“ کی کیسٹ چلاتا ہے۔ اللہ کی لگن اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی دھن میں یہ بندہ اتنا مگن ہوتا ہے کہ نماز کے بعد اکٹھے ہوئے بے راہ لوگوں کی جماعت کو تبلیغ کے لئے یہ بندہ میرے سامنے سے اور مجھے دھکے دے کر گزر جاتا ہے اور عین نمازیوں کے بیچ بے راہ لوگوں کو بٹھا کر عمدہ اور چنگھاڑتی تقریر شروع کر دیتا ہے۔
لیکن میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میری داڑھی نہیں ہے، میں شلوار آدھی پنڈلیوں تک اونچی نہیں باندھتا، سیدھے گھیر والا کرتا نہیں پہنتا، نا میرے سر پر امامہ بندھا ہے ، نا میں نماز کے دوران بار بار ”اعضائے پوشیدہ“ کی خبر گیری کرتا ہوں اور اکثر پینٹ جیسے حرام لباس میں نماز پڑھتا ہوں ۔
میں نے کئی بار چاہا کہ ان اصحاب کو کچھ کہوں لیکن چونکہ میں مسجد کامستقل نمازی نہیں اور نا ہی مسجد کمیٹی کو باقاعدہ ایک لگی بندھی رقم ہدیہ و چندہ کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے مسجد کا چوہدری بننے کا کوئی حق ہے نا ہی اسلام کا ٹھیکیدار بننے کا۔