PDA

View Full Version : ik tasveer ik sTOry ..!!


-|A|-
02-18-2009, 12:41 AM
ASSALAM O ALAAIKUM
HOWZ ya doin all ?

dostOun ajj mai app sab k sath mai ik new or unik thread share karnay jaa raha hoon.. or kosish karonga app sab ko yea passnd bhee .. or is mai add kiyey janay wala tamaam ka taamaam work app k liye intersting hoo..

thanks for visting
alwaYZ bhe happy
MAY ALLAH BLESSED UPON U ..!!
Fi AMaan ALLah

-|A|-
02-18-2009, 12:42 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2173724_001.jpg

یہ پورٹریٹس ہیں ان پیچھے رہ جانے والوں کے جن کے پیارے غائب کردیئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فوجی حکومت کے ساتھ اختلافات کی ایک اہم وجہ حکومت پر زور ڈالنا رہا ہے کہ وہ ایجنسیوں کے ہاتھ لاپتہ ہوجانے والوں کو عدالت میں پیش کرے۔ پیچھے رہ جانے والوں کے یہ پورٹریٹس پلتزر ایوارڈ یافتہ فوٹوجرنلسٹ جون مور نے بنائے ہیں۔

-|A|-
02-18-2009, 12:44 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2173824_002.jpg

ساٹھ برس کی شمس النساء کا بیٹا ایبٹ آباد، پاکستان سے پچیس جون، دوہزار چار کو اپنی شادی کی رات لاپتہ ہوگیا۔ شمس النساء کی یہ تصویر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے لاپتہ ہوجانے والوں کے خاندان کے احتجاج کے موقعہ پر لی گئی جو اس سال انتیس مارچ کو کیا گیا تھا۔ ان خاندانوں نے ’انسانی حقوق کا دفاع‘ نامی ایک گروپ بنایا ہے جو کچھ عرصہ تک روز سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کرتا رہا ہے۔

-|A|-
02-18-2009, 12:45 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/217414_003.jpg

انتیس مارچ دو ہزار سات کو ہی سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے والوں میں پینسٹھ سالہ شاہ محمد بھی تھا۔ شاہ محمد کا کہنا ہے کہ اس کے تیس برس کی عمر کے بیٹے، نذیر احمد کو جو ایک مدرسے میں تدریس کے فرائص انجام دیتا تھا، اٹھارہ نومبر کو پاکستانی انٹیلیجس ایجنسیوں نے اٹھا لیا اور تب سے اس کی کوئی خبر نہیں۔

-|A|-
02-18-2009, 12:46 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2174229_004.jpg

راوالپنڈی میں اپنے گھر کے باورچی خانے میں زاہدہ عابد اپنے گیارہ مہینے کے بیٹے حظیفہ کے ہمراہ کھڑی ہیں۔ زاہدہ کا کہنا ہے کہ اس کے پچاس سالہ شوہر عابد شریف کو سولہ ستمبر دوہزار پانچ کو راوالپنڈی سے پشاور جاتے ہوئے انٹیلیجنس ایجنسیوں نے غائب کردیا تھا۔ زاہد اپنے ننھے بچے کے ساتھ آج بھی عابد کے بارے میں کسی اطلاع کی منتظر ہے۔

-|A|-
02-18-2009, 12:47 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2174136_005.jpg

راوالپنڈی ہی کی رہائشی عارفہ ادریس کی یہ تصویر اِسی برس مارچ انتیس کو اس کے گھر پر لی گئی۔ عارفہ کا کہنا ہے کہ اس کا تئیس سالہ بیٹے، منصور مہدی کو بھی زاہدہ عابد کے شوہر کی طرح سولہ دسمبر دو ہزار پانچ ہی کو پشاور کے راستے میں انٹیلیجنس ایجنسیوں نے غائب کردیا اور آج تک وہ منتظر ہے کہ اس کی کوئی خبر آئے۔

-|A|-
02-18-2009, 12:48 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2174317_006.jpg

انتیس مارچ ہی کو پچیس سالہ فرزانہ شاہین اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے بیٹھی ہے جہاں لاپتہ ہوجانے والے افراد کے خاندان احتجاج کررہے تھے۔ وہ کہتی ہے کہ اسے یقین ہے کہ اس کے چونتیس سالہ شوہر محمد الطاف کو سولہ ستمبر دوہزار پانچ کو صلع اٹک سے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے لاپتہ کردیا اور اس کی کوئی خبر نہیں۔

-|A|-
02-18-2009, 12:48 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/2174340_007.jpg

انتیس مارچ دوہزار سات کی شام کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے لاپتہ ہوجانے افراد کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ تصویریں اس احتجاج کا حصہ ہیں جو ان لاپتہ ہوجانے والوں کے عزیزوں اور پیاروں نے شروع کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دو ہزار ایک سے اب تک پاکستان میں چار سو افراد جبری طور پر لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔

-|A|-
02-18-2009, 12:49 AM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1729_disappeared_ms/217444_010.jpg

اگلے دن مارچ تیس دو ہزار سات کے دن اسلام آباد میں ستر سالہ عبدالغفور اپنے لاپتہ ہوجانے والے پچیس برس کے بیٹے عبدالغفار کی تصویر اپنے سائیکل پر سجائے وزیرِ اعظم سیکریٹیریٹ کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ عبدالغفور کا کہنا ہے کہ اٹھائیس فروری دوہزار ایک کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے اس کے بیٹے کو اٹھایا اور اب تک پتہ نہیں چلا۔

ShahTaJ
02-18-2009, 04:04 AM
nice thread

-|A|-
02-18-2009, 07:28 PM
Thankss admin :)

-|A|-
02-18-2009, 07:39 PM
If Muslims read Quran, they're called fundamentalists.
If Jews read Torah,


http://img6.imageshack.us/img6/8237/11005571511gp1.jpg
http://img100.imageshack.us/img100/9734/38662730zi4.gif


http://img6.imageshack.us/img6/5856/11005571171ai3.jpg
http://img6.imageshack.us/img6/9369/12630646lw8.gif

life2
02-18-2009, 09:29 PM
GOOd ...nice sharing...

-|A|-
02-19-2009, 04:40 PM
thanks alot

-|A|-
02-19-2009, 06:51 PM
http://newsimg.bbc.co.uk/media/images/45474000/jpg/_45474511_hi006872212.jpg

امریکی فونوگرافر انتھونی سواوو کی اس تصویر نے 2008 کا عالمی صحافتی تصویر مقابلہ جیتا ہے۔ تصویر میں ایک امریکی پولیس افسر رہن شدہ مکان کے رہائشیوں کے چلے جانے کی تصدیق کر رہا ہے۔

-|A|-
02-19-2009, 06:53 PM
http://newsimg.bbc.co.uk/media/images/45475000/jpg/_45475980_hi006872587.jpg

سپاٹ نیوز سنگل درجہ بندی میں اول انعام چینی اخبار روزنامہ ہانگزو کے فوٹوگرافر چن منگ گینگ کی اس تصویر کو ملا جس میں سیچوان صوبے میں امدادی کارروائیوں میں مصروف فوجیوں کو دکھایا گیا

-|A|-
02-19-2009, 07:02 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/images/244_wip_140209_zs/622310_adam_graves.jpg

پاکستان کے نیم خودمختار قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں مارٹر گولہ گرنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی قبروں پر ایک شخص پھول رکھ رہا ہے۔ نو فروری کو درہ سکیورٹی فورسز اور مقامی طالبان کے مابین جھڑپوں کے دوران ایک گولہ قاسم خیل کے علاقے میں آ کر گرا جس سے پانچ بچوں سمیت تیرہ عام شہری ہلاک ہو گئے۔ حکام کے مطابق یہ گولہ طالبان کی جانب سے داغ گیا تھا جبکہ مقامی آبادی نے سکیورٹی فورسز کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔

madiha
02-20-2009, 03:59 PM
Amaizing thread

-|A|-
02-20-2009, 08:24 PM
thanks :)

ammara
02-21-2009, 10:48 PM
Zabardast

-|A|-
02-22-2009, 07:53 PM
thankss

AYAZ
02-22-2009, 09:58 PM
har kahani dard sei bhari hoiye lagti hie waqiye kia hoga yaar

-|A|-
02-22-2009, 10:08 PM
thanks haan yaar..!!

-|A|-
02-22-2009, 10:16 PM
’ڈرو مت بیٹی یہ امن کی فائرنگ ہے‘

http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/02/20090220072729swat_girls_school_416.jpg

سوات میں طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگادی ہے۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی ساتویں کڑی:

جمعہ، تیرہ فروری:’مولانا فضل اللہ روتے رہے‘

آج موسم بہت اچھا تھا۔ بہت زیادہ بارش ہوئی اور جب بارش ہوتی ہے تو میرا سوات اور بھی خوبصورت لگتا ہے۔مگر صبح جاگتے ہی امی نے بتایا کہ آج کسی نے رکشہ ڈرائیور اور بوڑھے چوکیدار کو قتل کردیا ہے۔یہاں اب زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

آس پاس کے علاقے سے روزانہ سینکڑوں لوگ مینگورہ آرہے ہیں جبکہ مینگورہ کے لوگ دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے ہیں۔جو امیر ہیں وہ سوات سے باہر گئے ہیں اور جو غریب ہیں وہ یہاں سے کہیں اور جا نہیں سکتے۔

ہم نے اپنے تایا زاد بھائی کو فون کیا کہ وہ اس اچھے موسم میں اپنی گاڑی میں ہمیں مینگورہ کا چکر لگوائیں۔وہ آیا لیکن جب ہم باہر نکلے تو بازار بند تھا، سڑکیں سنسان تھیں۔ہم قمبر کے علاقے کی طرف جا نا چاہ رہے تھےکہ کسی نے بتایا کہ وہاں پر ایک بہت بڑا جلوس نکلا ہوا ہے۔

رات کو ایف ایم اسٹیشن پر مولانا فضل اللہ نے تقریر کی اور وہ دیر تک روتے رہے۔ وہ آپریشن کے بند ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ہجرت نہ کریں بلکہ اپنے گھروں میں واپس آجائیں۔



اتوار، پندرہ فروری:’ڈرو مت بیٹی یہ امن کی فائرنگ ہے‘

آج پشاور اورگاؤں سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ دوپہر کو جب ہم کھانا کھا رہے تھے کہ باہر بہت زیادہ فائرنگ شروع ہوئی۔ اتنی زبردست فائرنگ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ ہم سب ڈر گئے، سوچا کہ شاید طالبان آگئے ہیں۔ میں بھاگ کر ابو کے پاس گئی تو انہوں نے کہا ’ڈرو مت بیٹی یہ امن کی فائرنگ ہے‘۔

ابو نے بتایا کہ آج اخبار میں آیا ہے کہ کل حکومت اور طالبان کے درمیان سوات کے بارے میں امن معاہدہ ہو رہا ہے اس لیے لوگ خوشی سے فائرنگ کررہے ہیں۔ لیکن رات کو جب طالبان کے ایف ایم پر بھی امن معاہدے ہونے کا اعلان ہوا تو دوپہر سے بھی زیادہ زبردست فائرنگ ہوئی۔ کیونکہ لوگ حکومت سے زیادہ طالبان کے اعلان پر یقین کرتے ہیں۔

جب ہم نے بھی یہ اعلان سنا تو پہلے امی رونے لگی پھر ابو، میرے اور دو چھوٹے بھائیوں کے آنکھوں سے بھی آنسو نکل گئے۔



پیر، سولہ فروی: شاید اب لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھل جائیں

آج میں صبح اٹھتے ہی بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ جو ہو رہا تھا۔ آج ہیلی کاپٹر کی پرواز بھی بہت زیادہ نیچے تھی۔ میرے ایک کزن نے کہا کہ جیسے جیسے امن آرہا ہے ویسے ویسے ہیلی کاپٹر کی پرواز بھی نیچے ہو رہی ہے۔

دوپہر کو امن معاہدے کی خبر سن کر لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ میری ایک سہیلی نے مجھے مبارکباد کا فون کیا، اس نے کہا کہ اب اسے گھر سے نکلنے کا موقع ملے گا کیونکہ وہ کئی مہینوں سے ایک ہی کمرے میں بند رہی ہے۔ہم دودنوں اس بات پر بھی بہت خوش تھے کہ شاید اب لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھل جائیں۔

منگل، سترہ فروری: شہر کی رونق دوبارہ لوٹ آئی ہے

آج سے میں نے امتحانات کی تیاریاں دوبارہ شروع کر دی ہیں کیونکہ امن معاہدے کے بعد لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھلنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ آج میرے ٹیوشن پڑھانے والی ٹیچر بھی نہیں آئی کیونکہ وہ کسی منگنی میں شرکت کرنے گئی تھی۔

میں جب اپنے کمرے میں آئی تو میرے دو چھوٹے بھائی آپس میں کھیل رہے تھے۔ ایک کے پاس کھلونےوالا ہیلی کاپٹر تھا اور دوسرے نے کاغذ سے بندوق بنائی ہوئی تھی۔ایک کہہ رہا تھا کہ فائر کرو دو سرا پھر کہتا پوزیشن سنبھالو۔میرے ایک بھائی نے ابو سے کہا کہ ’میں ایٹم بم بناؤں گا‘۔

آج سوات میں مولانا صوفی محمد بھی آئے ہوئے ہیں، میڈیا والے بھی زیادہ تعداد میں آئے ہیں۔ شہر میں بہت زیادہ رش ہے۔ بازار کی رونق واپس لوٹ آئی ہے۔خدا کرے کہ اس دفعہ معاہدہ کامیاب ہو۔ مجھے تو بہت زیادہ امید ہے لیکن پھر بھی اگر اور کچھ نہیں ہوا تو کم ازکم لڑکیوں کے سکول تو کھل جائیں گے۔


بدھ، اٹھارہ فروری:صحافی کے قتل سے امن کی امیدیں ٹوٹ گئیں

آج میں بازار گئی تھی، وہاں بہت زیادہ رش تھا۔ لوگ امن معاہدے پر بہت خوش ہیں۔ آج بہت عرصے کے بعد میں نے بازار میں ٹریفک جام دیکھا مگر رات کو ابو نے بتایا کہ سوات کے ایک صحافی کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا ہے۔ امی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ہم سب کی امن آنے کی امیدیں بھی ٹوٹ گئیں۔


جمعرات، انیس فروری: ہم اب جنگ کی نہیں امن کی باتیں کریں گے

آج ابو نے ناشتہ تیار کرکے دیا کیونکہ امی کی طبیعت کل سے ہی خراب ہے۔ انہوں نے ابو سے گلہ بھی کیا کہ انہیں صحافی کی موت کی خبر کیوں سنائی۔میں نے چھوٹے بھائیوں کو کہا کہ ہم اب جنگ کی نہیں امن کی باتیں کریں گے۔ آج پتہ چلا کہ ہماری ہپیڈ مسٹرس نے اعلان کیا ہے کہ گرلز سیکشن کے امتحانات مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونگے۔میں نے بھی آج سے امتحان کی تیاری مزید تیز کردی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/01/20090119100750swat-school-qambar.jpg

!~*SOoLi
02-23-2009, 03:42 PM
Sub nahi magar aik do parhi hain, good Idea yaar bht acha thread .. Allah in logo k sath rahem karay

-|A|-
02-23-2009, 10:26 PM
thanks dude..!

-|A|-
02-25-2009, 11:48 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/115039_001.jpg


غلامی اور جبری کام کے خلاف کام کرنے والے عالمی ادارے اینٹی سلیوری انٹرنیشل کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ملازموں کی تعداد گھریلو ملازموں پر مشتمل ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے والدین کے قرضہ جات سے نجات حاصل کرنے کے لیے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بچے اور بچیاں دشوار زندگی گزارتے ہیں اور انہیں صرف کام کی جگہ پر ہی نہیں بلکہ بعض اوقات گھروں میں بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی ان میں سے کسی کی جستجو اور بہادری کی انفرادی کہانیاں بھی دکھائی دے جاتی ہیں۔

کرن عباس ٹاؤن ، سہراب گوٹھ، کراچی کے ایک گھر میں کام کرتی ہے اور وہیں رہتی ہے۔ کرن کی عمر چودہ سال ہے اور وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ وہ شاید کراچی کی ان چند خوش قسمت ترین گھریلو ملازماؤں میں سے ایک ہے جنہیں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت ہے۔ پڑھئیےکرن کی کہانی، اسی کی زبانی:

2 be countinue

-|A|-
02-28-2009, 10:41 PM
نانی کے گھر سے یہاں
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/0181642_004.jpg

’میرے والد کا نام نذیراحمد تھا، وہ وفات پا چکے ہیں۔ میرے دوسرے والد کا نام غلام حسین ہے۔ میری والدہ کا نام سلمیٰ ہے اور وہ اپنے گھر میں دوسرے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ میرے دو بھائی ہیں، ایک کا نام شاہ رخ ہے اور دوسرے کا مجاہد۔ میں اسی گھر میں رہتی ہوں، جہاں کام کرتی ہوں۔ یہاں سب میرا خیال رکھتے ہیں۔ میں یہاں اس لیے رہتی ہوں کہ اماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ اس سے پہلے ہم نانی کے گھر رہتے تھے۔‘

2 be countinue

ammara
03-01-2009, 05:48 PM
very nIc3 bRo

-|A|-
03-02-2009, 11:15 PM
Thanks alot

-|A|-
03-06-2009, 04:33 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/0182441_007.jpg

امی انتظار کرتی رہتیں

’جب میں آٹھ سال کی تھی تو ابو امی اور ہم بھائی بہن سب ساتھ رہتے تھے۔ اس وقت ہمارے گھر میں روز جھگڑا ہوتا تھا۔ ابو ٹی وی، ریڈیو بنانے کا کام کرتے تھے۔ جب وہ کام سےآتے تو شراب کے نشے میں دھت ہوتے۔ جو کماتے تھے دوستوں کے ساتھ اس پیسے کی شراب پی لیتے تھے۔ رات کو گھر میں آتے تو امی کھانے کا پوچھتی اور پیسے کا ذکر کرتیں تو مارنے لگتے تھے۔ بہت مارتے یہاں تک کہ امی بیہوش ہوجاتی تھیں، پھر بھی وہ مارتے رہتے۔ میرے ابو کو ان کے دوستوں نے بھی خراب کیا۔ امی ان سے محبت کرتی تھیں اور ہمیشہ ان کا انتظار کرتیں۔ مگر وہ گھر آتے ہی امی کو مارتے کہ مجھ سے کوئی سوال نہ کیا کرو اور یہ روز کی کہانی تھی۔‘

2 be countinue

ammara
03-10-2009, 03:42 PM
very mean full story

MeOw*
03-10-2009, 09:23 PM
hmm...

-|A|-
03-12-2009, 01:48 AM
Umm kya lolzz

-|A|-
03-15-2009, 04:37 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/1152529_010.jpg

شاید اب وہ پہلے کی طرح نہ ہوں

’جب میں تھوڑی بڑی ہوئی تو تو کچھ کچھ بات سمجھہ میں آنے لگی مگر ابو کا اس وقت تک انتقال ہو چکا تھا۔ مجھے ابو بہت یاد آتے ہیں۔ ایسی بات نہیں تھی کہ وہ ہم کو پیار نہیں کرتے تھے۔ پیار بھی کرتے تھے مگر مجھ سے زیادہ میرے بھائیوں سے کرتے تھے۔ میرے مقابلے میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ مجھے ہمیشہ ابو کا انتظار رہتا ہے کہ شائد وہ آجائیں اور اب پہلے کی طرح نہ ہوں۔‘


2 be countinue

CHEEMO
03-16-2009, 05:44 PM
:a17:

ammara
03-19-2009, 01:18 AM
nice shareing bhaii

-|A|-
03-23-2009, 05:27 PM
shukeriaaa

~wish munda~
03-24-2009, 01:21 AM
jeta reh st

safa
03-24-2009, 01:35 AM
aur wish aap bhi jeete raho....:goodpost:

life
03-29-2009, 01:15 PM
so nice..............

-|A|-
03-29-2009, 06:12 PM
thanks :)

safa
03-31-2009, 09:11 PM
:0039:

~wish munda~
03-31-2009, 09:12 PM
:hatoff:

safa
03-31-2009, 09:14 PM
:chal-mitwa:

-|A|-
04-03-2009, 03:22 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/0183317_003.jpg

’جب ابو امی کو مارتے تھے تو وہ بہت روتی تھیں۔ ایک دفعہ انہوں نے ماموں سے شکایت کی تو ماموں نے ابو کو بہت مارا، دھمکی دی اور کہا کہ اب نظرآیا تو مار دوں گا۔ مجھے اپنے ماموں بالکل پسند نہیں۔ وہ ماموں ہونے کے باوجود مجھے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے مگر رہنا بھی ان کے گھر پڑتا تھا۔ جب وہ ابو کو مارتے تھے تو مجھے بہت غصہ آتا تھا۔ میں رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔‘

2 be countinue

safa
04-03-2009, 05:53 PM
nice....

-|A|-
04-05-2009, 01:18 AM
thanks

ammara
04-13-2009, 11:56 PM
Ummm

Hani
04-15-2009, 01:29 AM
nice

-|A|-
04-18-2009, 12:36 AM
Thanks all

K@IN@@T
04-25-2009, 02:03 PM
nice thread

CHULBUL! $! NANHI PAR!
04-25-2009, 03:17 PM
acchi dua ha:bismillah:

CHULBUL! $! NANHI PAR!
04-25-2009, 03:19 PM
:11ap3sj:

CHULBUL! $! NANHI PAR!
04-25-2009, 03:20 PM
:;shy;:

-|A|-
05-08-2009, 03:57 PM
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/images/1638_kiran_ms/0183850_005.jpg
شاہ رخ اور مجاہد


’ابھی کچھ عرصہ پہلے امی نے دوسری شادی کرلی۔ امی، میرے دوسرے ابو اور میرے چھوٹے بھائی شاہ رخ اور مجاہد ان کے ساتھ اورنگی ٹاون میں رہتے ہیں۔ مجھے اپنے چھوٹے بھائی بہت یاد آتے ہیں۔ میں ان کو ہر وقت یاد کرتی ہوں۔ دل چاہتا ہے اڑ کر ان کے پاس چلی جاؤں مگر میں وہاں نہیں رہ سکتی ہوں۔ اپنے بھائیوں سے دور رہنا مجھے عجیب لگتا ہے۔‘
2 be countinue

life
05-08-2009, 05:43 PM
nice.................

-|A|-
05-10-2009, 10:07 PM
Thanks :)

safa
05-13-2009, 06:51 PM
good

-|A|-
06-04-2009, 07:16 PM
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/06/02/090602111541_5.jpg

ہلال احمر پاکستان کے زیر انتظام رنگمالا میں لگائے گئے کیمپ میں پانچ ہزار سے زائد پناہ گزین موجود ہیں۔( تحریر و تصاویر رضا ہمدانی اور ذیشان ظفر)

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/06/02/090602111508_2.jpg

کیمپ میں موجود بچوں کے لیے پانچویں جماعت تک سکول بھی قائم ہے۔

madiha
06-25-2009, 12:19 AM
nice

-|A|-
07-10-2009, 12:47 AM
Thanks

FAJAAN
07-13-2009, 07:21 PM
nyce sharing stra

Hamzaking
10-21-2009, 09:18 PM
nice:)

-|A|-
05-31-2010, 02:08 AM
Thanks al ..

-|A|-
05-31-2010, 02:17 AM
مفت کھانا تقسیم کرنے والے ٹرسٹ کے دستر خوان

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/26/090926121439_saylani_secretary926.jpg
پاکستان کے شہر کراچی میں 1999 میں قائم ہونے والا ادارہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل مہنگائی کے اس دور میں غریبوں کی مدد کرتا ہے اور روزانہ اڑتیس سے چالیس ہزار افراد کے لیے کھانا بناتا ہے۔ بی بی سی نے اس ٹرسٹ کے منتظم محمد عامر اقبال اور اس ٹرسٹ کے دستر خوانوں پر کھانا کھانے والے افراد سے بات چیت کی ہے، ان میں سے بعض افراد نے اپنے نام ظاہر نہیں کیے ہیں۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918112459_01.jpg
محمد عامر اقبال:’سیلانی ویلفیئر 1999 میں قائم ہوا اور اس کے ٹرسٹ میں نو ارکان شامل ہیں۔ اس کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی صاحب ہیں اور اس ادارے کو قائم کرنے کا مقصد اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے غریبوں کی مدد اور کفالت کرنا ہے۔ ہمارا فوڈ ڈپارٹمنٹ روزانہ اٹھتیس سے چالیس ہزار لوگوں کے لیے کھانا بناتا ہے اور یہ سال کے تین سو پینسٹھ دن بنتا ہے، کوئی چھٹی نہیں ہوتی اور یہ سارا کام بڑے منظم طریقے سے ہوتا ہے اور کسی بھی جگہ کوئی کمی نہیں آنے دی جاتی۔ ہر سینٹر موبائل پر کچن سے رابطے میں رہتا ہے‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918112546_03.jpg
محمد عامر اقبال:’کراچی میں ہسپتال، عدالتوں میں پیشی پر آئے ہوئے قیدی اور کم آمدنی پر کام کرنے والے مزدور اور محنت کشوں کے لیے صنعتی علاقے میں ہمارے دستر خوان لگتے ہیں اور لوگ دوپہر کا کھانا ادھر ہی کھاتے ہیں جس سے ان کو روزانہ پنتیس سے چالیس روپے کی بچت ہوتی ہے‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918112634_05.jpg
’میں اپنے بچوں کے ساتھ اکثر ادھر ہی کھانا کھاتا ہوں۔ کبھی کام ہوتا ہے اور کبھی بیروزگاری۔ یہاں کھانے سے ایک سو پچاس روپے کی بچت ہو جاتی ہے اور ایک سو پچاس کمانا کوئی آسان کام نہیں‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918115210_07.jpg
’بکرے کا گوشت گھر پر کہاں مل سکتا ہے۔ تین سو پچاس روپے کلو ہے۔ ادھر فری میں ملتا ہے۔ اتنی تو میری دہاڑی بھی نہیں ہے۔ سارا دن کام کرتا ہوں تو مشکل سے تین سو روپے کماتا ہوں‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918115231_08.jpg
خوبدار علی: ’میں ہارون آباد میں رہتا ہوں اور اِدھر کباڑیہ کی دکان پر کام کرتا ہوں۔ میری تنخواہ چھ ہزار روپے ہے۔ میں بہت وقت سے ادھر کھانا کھا رہا ہوں۔ ہوٹل پر جانے سے ستر روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918115333_09.jpg
سہراب خان: ’میں بنارس میں رہتا ہوں۔ ادھر سگنل پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرتا ہوں۔ دو سو روپے کماتا ہوں۔ دوپہر کا کھانا ادھر ہی کھانے آ جاتا ہوں۔ گھر جاؤں گا تو سارا ٹائم خراب ہو جائے گا۔ ہوٹل جاؤں گا تو گھر کیا لے کر جاؤں گا‘۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/09/18/090918120600_13.jpg
منیزہ: ’میں گھروں کے شیشے صاف کرتی ہوں اور جب بھوک لگتی ہے تو ادھر ہی کھانا کھاتی ہوں۔ جتنا پیسہ سب لوگ دیتے ہیں وہ سب اماں کو دیتی ہوں۔ ابھی ابو کے کام کی چھٹی ہے اور بس میں ہی کام کرتی ہوں‘۔

-|A|-
06-02-2010, 01:44 AM
حسن، خوبصورتی، معصومیت اور بے بسی
http://img707.imageshack.us/img707/5818/62957541.jpg

Ummm .. kya bolaygay app .. kya koi jawab hain app k pass ?? nhi na .. bilkul bhe nhi .. i m still khaamosh .. bcoz .. we dont know .. kahan jana chahtay hain hum .. or kahan ja rahay hain .. kis manzil pr chalna chahiye .. lakin kis manzil kay safar pr chal parhay hain hum .. or koi nhi janta .. is ka anjaam kya huga siwayee .. meray rab k .. YA ALLAH .. HUm kuch nhi kr sakhtay , or is zulam k agay awaz utha sakhtay hain .. or jis tarhaan hum utha sakhtay hain woh hum kr rahay hain .. hum ko rah-e-rast pr chala dain meray ALLAH .. !!

تصاویر اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ہنزہ پاکستان کا وہ علاقہ ہے جو
حسن، خوبصورتی اور معصومیت سے مالامال ہے لیکن شاید انسانی یا قدرتی عوامل
نے اسے بے بسی کی تصویر بنا دیا ہے۔

Ghuncha
06-06-2010, 11:48 PM
Nice ....

FarazAli
06-07-2010, 02:33 PM
nicee n niceee

FarazAli
06-07-2010, 02:35 PM
v good surb.........

-|A|-
06-07-2010, 04:54 PM
Thanks all ..!!

-|A|-
06-07-2010, 04:56 PM
ایک سکول کی کہانی
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/05/09/100509120837_pakistantribalpray_466x262_nocredit.j pg

یہ کہانی اس جنوبی وزیرستان کی ہے جہاں نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی فوج۔ لوگوں کا گزارہ یا تو ٹرا نسپورٹ کے بزنس پر ہے یا ٹماٹر، سیب اور چلغوزے کی پیداوار پر یا پھر سمگلنگ اور کراچی میں کام کاج پر۔ روزمرہ انتظام و معیشت پر پولٹیکل ایجنٹ اور اس کے طفیلیوں کا تسلط ہے اور دل و دماغ پر مولوی کا راج ہے۔ سرحد پار خانہ جنگی ہے اور جنوبی وزیرستان سرخ کافروں کے خلاف سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی جہادی گزرگاہ بنا ہوا ہے۔

ایسے میں انیس سو اکیاسی کا سال آتا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے دارالحکومت وانا سب ڈویژن کے وزیری عمائدین پولٹیکل ایجنٹ رستم شاہ مہمند کے ہاں جمع ہوتے ہیں۔ موضوع ہے تعلیمی پسماندگی سے کیسے نکلا جائے۔ خواندگی کا تناسب پوری ایجنسی میں دس فیصد کے لگ بھگ ہے اور صرف دو فیصد عورتیں ا ب پ ت پہچان سکتی ہیں۔

میٹنگ اس فیصلے پر ختم ہوتی ہے کہ وانا میں موسی نیکہ نامی ایک بڑا انگلش میڈیم سکول قائم ہوگا۔اس کے لیے زمین مقامی لوگ دیں گے۔ باہر سے قابل اساتذہ لائے جائیں گے۔طلبا کا داخلہ میرٹ پر ہوگا۔ ابتدا میں نرسری سے مڈل تک کلاسیں ہوں گی اور رفتہ رفتہ یہ سکول اپ گریڈ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ سکول اپنی مدد آپ کے تحت چلے گا ۔اس کے لئے وانا سب ڈویژن سے گذرنے والے ہر مال بردار ٹرالر ، ٹرک اور پک اپ سے بالترتیب ساڑھے سات سو روپے سے لے کر ڈھائی سو روپے تک سکول ٹیکس وصول ہوگا۔اس ٹیکس سے پچاس لاکھ روپے تک سالانہ اوسط آمدنی ہوگی جو پولٹیکل ایجنٹ کے پاس بطور امانت رہے گی۔اور یوں موسی نیکہ سکول رواں دواں رہے گا۔

سن دو ہزار نو کےمطابق بارہ سے پندرہ کروڑ روپیہ موسی نیکہ سکول ٹیکس کی مد میں پولٹیکل ایجنٹ کے خزانے میں جمع ہوا۔ لیکن سکول کو انیس سو اکیاسی سے دو ہزار نو تک کے عرصے میں صرف ایک کروڑ دو لاکھ روپے میسر آسکے۔

سکول کا پہلا پرنسپل بشیر نواز قریشی کو بنایا گیا جنہوں نے کیڈٹ کالج رزمک کی پرنسپل شپ چھوڑ کر یہاں آنا پسند کیا۔ ڈاکٹر بیری گل اور مسز ڈونی نے برطانیہ چھوڑ کر وانا کے اس سکول میں پڑھانا پسند کیا۔یوں موسی نیکہ پبلک سکول بتیس ایکڑ زمین پر پندرہ کمروں سے شروع ہوا اور پھر اس کی زمین ستر ایکڑ ہوگئی اور کمروں کی تعداد دو سو پانچ تک پہنچ گئی۔ایک ہزار کے لگ بھگ طلبا کے لئے سو کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈمک سٹاف تھا۔

مگر یہ سکول صرف تین برس رواں رہ سکا۔انیس سو چوراسی میں اس کا زوال شروع ہوا۔اساتذہ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے۔علاقے کی بااثر مذہبی شخصیت مولوی نور محمد کے بھائی پرنسپل بن گئے۔اس وقت کے پولٹیکل ایجنٹ نے بورڈ آف گورنرز میں تبدیلی کرکے انگوٹھا چھاپ لوگوں کے نام ڈال دیئے۔ سکول کے نام پر مال بردار گاڑیوں سے ٹیکس لینے کی روایت برقرار رہی۔

سن دو ہزار نو تک ایک اندازے کے مطابق بارہ سے پندرہ کروڑ روپیہ موسی نیکہ سکول ٹیکس کی مد میں پولٹیکل ایجنٹ کے خزانے میں جمع ہوا۔لیکن سکول کو انیس سو اکیاسی سے دو ہزار نو تک کے عرصے میں صرف ایک کروڑ دو لاکھ روپے میسر آسکے۔گزشتہ برس حالت یہ تھی کہ سکول میں صرف ایک سو چونتیس طلبا پڑھ رہے تھے۔ جبکہ وانا کے اٹھائیس دیگر پرائیویٹ سکولوں میں بارہ ہزار سے زائد طلبا زیرِ تعلیم تھے۔

ایسے میں سن دو ہزار دس کا سال موسی نیکہ پبلک سکول کے لئے نیک بخت ثابت ہوا۔ وانا کے وہ سپوت جو اسوقت اہم سرکاری عہدوں اور کاروبار میں ہیں ان کی وانا ویلفئیر ایسوسی ایشن کی کوششوں سے سکول کو اپ گریڈ کرکے گیارہویں جماعت تک کردیا گیا۔ اسوقت تین سو چالیس طلبا کی دو ماہ سےکلاسیں جاری ہیں۔ گاڑیوں کے ٹول ٹیکس جمع کرنے کے لئے تیس لاکھ روپے سالانہ کا نیلام ہوچکا ہے۔چھ لاکھ روپے سالانہ کی گرانٹ وزارتِ قبائیلی امور کی طرف سے ملے گی۔اور وانا سب ڈویزن کے ترقیاتی بجٹ کا چھ فیصد بھی سکول کو ملے گا۔پرخطر حالات کے سبب اساتذہ کو زیادہ معاوضے پر یہاں آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

ایک ایسی قبائیلی ایجنسی میں جہاں محسود علاقے سے ننانوے فیصد لوگ نقلِ مکانی کرچکے ہیں۔جبکہ جنوبی وزیرستان کے ایک سو پانچ پرائمری سکولوں میں سے بانوے یا تو بند پڑے ہیں یا مقامی عمائدین کے مہمان خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔موسی نیکہ پبلک سکول وانا کی بحالی اس علاقے سے آنے والی مسلسل بری خبروں کے ہجوم میں ایک اچھی خبر ہے۔

QUEEN OF HEARTS ...
06-07-2010, 05:12 PM
yaar paisay kay liyey sab logun ko gayab kiya gayya .. acha khasa paisa mila ho gaa
abhi b hamari khakumat lagta hai usa se darty haiii jo apnay logun ka matalba nee kar rahi
ager woh aysa karty b hai to ye unhi kay liyey nuksaandah ho gaa ..
btw nice thread

!«╬Ĵamil Malik╬«!
06-08-2010, 05:25 PM
Nice Sharing

-|A|-
06-08-2010, 05:31 PM
yaar paisay kay liyey sab logun ko gayab kiya gayya .. acha khasa paisa mila ho gaa
abhi b hamari khakumat lagta hai usa se darty haiii jo apnay logun ka matalba nee kar rahi
ager woh aysa karty b hai to ye unhi kay liyey nuksaandah ho gaa ..
btw nice thread

.. is goverment k paray .. jo socha jaee woh kaam hai .. or jo na socha jae .. woh os say bhe kaam hai .. yea kuch bhe kr sakhtay hain .. or yea kuch kartay bhe nhi hain .. bus KHUDA PAKISTAN KI HIFAZAT KARAY AMEEN ..!!

-|A|-
06-08-2010, 05:31 PM
Thanks malik

BeeNa AG
06-08-2010, 05:49 PM
nice sharing.....

-|A|-
06-10-2010, 11:10 PM
Thanks

-|A|-
06-13-2010, 07:50 PM
ایمنسٹی رپورٹ: مکینوں کے مصائب کی تصویر

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/05/04/090504123954_pakistan_466262.jpg
قبائل علاقے دیر میں مکین نقل مکانی پر مجبور ہیں
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دس جون کو جاری ہونے والی رپورٹ میں جن پاکستانی علاقوں کا ذکر ہے وہ خُصوصا افغانستان کے ساتھ سرحدی قبائلی علاقہ اور صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع سوات ہے۔

قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کی لہر سال دو ہزار دو میں جنوبی وزیرستان سے چلی اور شمالی وزیرستان سے براستہ باجوڑ یہ وادی سوات پہنچی۔

چالیس لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان آنکھ مچولی آٹھ برسوں سے جاری ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال اورکزئی ایجنسی میں گزشتہ دنوں فوج کی جانب سے کارروائی مکمل ہونے کے اعلان کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

تقریبا یہی حال کئی دیگر قبائلی ایجنسیوں میں بھی وقتاً فوقتاً دیکھا جاسکتا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں گزشتہ برس کے فوجی آپریشن اور ملا نذیر سے قدرے بہتر تعلقات کی وجہ سے آج کل حالات پرامن ہیں تاہم پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کی نظریں شمالی وزیرستان پر مرکوز ہیں کہ پاکستانی سکیورٹی ادارے وہاں کب وہاں دوبارہ کارروائی کرتے ہیں۔ فوجی حکام نے اس معاملے میں اب تک کوئی زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی ہے۔

ایک عام تاثر یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان شمالی وزیرستان میں فی الحال ڈرون حملوں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ اس ایجنسی میں حقانی نیٹ ورک، افغان طالبان اور القاعدہ کے غیرملکی جنگجوؤں کی موجودگی بتائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو ہزار سات کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں خودکش حملوں کے لیے بھیجے جانے والے اسی فیصد خودکش حملہ آور شمالی وجنوبی وزیرستان سے تربیت لے کر گزرتے ہیں۔

http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/05/04/090504123947_pakistan_226170.jpg
قبائلی علاقے اور پختون خواہ صوبے کے عوام طالبان کے خوف کے محاصرے میں

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ طالبان نے سخت مذہبی شرائط ان پر عائد نہیں کی ہیں جو دیگر علاقوں میں دیکھی گئیں۔ لیکن عدم تحفظ کی وجہ سے یہاں بھی معاشی حالات اور نقل و حرکت پر منفی اثرات پڑے ہیں۔

کئی قبائلی علاقوں اور سوات کی طرح خیبر، مہمند، باجوڑ اور کرم ایجنسیوں میں بھی شدت پسند کارروائی کے دباؤ کے پیش نظر قدرے روپوش ہیں لیکن ان کا خوف ابھی موجود ہے۔ خود حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کے خاتمے تک مکمل امن کی بحالی شاید ناممکن رہے۔

فوجی کارروائیوں کے کئی دور، پرتشدد کارروائیوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں، لاکھوں افراد کی نقل مکانی اور امن معاہدے ان علاقوں کا جیسے شاید مقدر بن گئی ہیں۔ بدامنی اور غیریقینی حالات کی وجہ سے ان علاقوں میں کئی حکومتیں جمہوری اصلاحات کے اعلانات کے باوجود انہیں عملی جامع نہیں پہنا سکی ہیں۔ قبائلی علا قوں میں انیس سو ایک سے نافذ ایف سی آر کا قانون آج بھی جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھالا جاسکا ہے۔

princess11
06-13-2010, 08:53 PM
very nice

-|A|-
06-14-2010, 10:18 PM
Shukria ..

sarees
06-15-2010, 12:52 PM
Excellent work.......

fog
06-15-2010, 11:14 PM
zabardast

-|A|-
06-18-2010, 01:30 AM
tHANKS bOTH OF U ..

-|A|-
06-20-2010, 05:24 PM
طالبان کی نہیں پھولوں کی بات کریں

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/06/19/100619104716_aqeela_226x170_nocredit.jpg
بچیاں جو پھول بیچتی ہیں اور پڑھتی ہیں

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ایسے کئی بچے راہ چلتے مل جاتے ہیں جن کا تعلق جنگ زدہ پڑوسی ملک افغانستان سے ہے مگر ان میں پغمان کے تین گل فروش بچوں کی کہانی کچھ الگ ہی ہے۔

پھول بیچنے والے ان بچوں کا تعلق افغانستان کے کابل صوبے سے ہے مگر وہ اپنے حالات کی سنگینی کی وجہ سے اپنے وطن سے دور ہیں۔ ان بچوں میں دس سالہ عقیہ بھی شامل ہیں۔جن کے والد بقول ان کے طالبان کے ساتھ کام کرتے تھے مگر گولی لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے اور کراچی میں علاج کے دوران فوت ہوگئے۔

عقیلہ اردو اور انگریزی زبانوں میں بھی بات کرسکتی ہیں مگر فارسی ان کی مادری زبان ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہیں یاد نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو دیکھا ہے مگر ان کے متعلق تمام باتیں ان کی امی انہیں سناتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں شہر کی تمام بڑی ہسپتالوں آغا خان اور لیاقت نیشنل سے ان کا علاج کروایا مگر وہ بچ نہ چکے۔

عقیلہ نے بتایا ہے کہ ان کی والدہ کپڑے کی ایک مقامی فیکٹری میں کام کرتی ہیں اور وہ کلفٹن میں ایک بنگلے کے چوکیدار کے کمرے میں رہتی ہیں۔ چوکیدار ان کا عزیز ہے۔ عقیلہ کے بقول رات بھر چوکیدار کمرے سے باہر رہتا ہے جب کہ دن بھر وہ ماں بیٹی اپنے کام کی وجہ سے باہر ہوتی ہیں۔

عقیلہ کے ساتھ ان کی سات سالہ کزن آمنہ اور آٹھ سالہ عبیداللہ بھی ساحل سمندر پر پھول بیچتے کرتے ہیں۔ تینوں بچوں کا تعلق کابل کے قریبی پہاڑی ضلع پغمان سے ہے۔ تینوں کراچی میں کرائے کے الگ الگ مکانوں میں رہتے ہیں مگر ایک ہی سکول میں ساتھ پڑھتے ہیں۔

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/06/19/100619104916_aqeela2_226x170_nocredit.jpg
ان کے خواب ویسے ہی ہیں جیسے دوسرے بچوں کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کا راستہ شاید کچھ مشکل ہے۔

عبید نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے والد افغانستان میں مارے گئے، کیسے اور کب یہ ان کو پتہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ پھولوں کو سجاکے رکھتی ہیں اور وہ سکول سے واپسی پر پھول لے کر ساحل سمندر پہنچ جاتے ہیں۔ رات گئے ساحل سمندر پر واقع پوش علاقے ڈیفنس ویو میں ایک جگہ پر واقع چار سنیما گھروں کے آخری شوز تک تینوں بچے اپنے پھول مختلف جوڑوں کو پیش کرتے رہتے ہیں۔تاکہ سکول کی فیس جمع کر سکیں۔

عقیلہ نے بتایا ہے کہ ان کے گھریلو اخراجات ان کی والدہ برداشت کرتی ہیں جب کہ وہ پھول فروخت کرکے اپنے سکول کی فیس جمع کرتے ہیں۔ عقیلہ کا خواب ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے اور اپنے آبائی علاقے پغمان میں جاکر کلینک کھولے۔

آمنہ اور عبید کا کہنا تھا کہ ہفتہ وار تعطیل کے دنوں میں ان کے سکول کے ساتھی جب ساحل سمندر تفریح کے لیے آتے ہیں تو وہ ان سے چھپ جاتے ہیں۔ عبید کے بقول سکول میں کسی کو علم نہیں کہ وہ پھول بیچتے ہیں۔ عبید نے کہا، ’ایسا نہ ہو کل وہ ہم سے نفرت کریں کہ تم تو شام کو پھول بیچتے ہو‘۔
عبید

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/06/19/100619105938_obaid_226x170_nocredit.jpg
عبید کے والد افغانستان میں مارے گئے، کیسے اور کب یہ ان کو پتہ نہیں ہے۔

آمنہ اور عبید نے اپنے والدین کے بارے میں زیادہ بات کرنے سے گریز کیا اور صرف اتنا کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے ان کے والد نہیں رہے اور وہ اپنی والدہ و دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کراچی پہنچے۔ وہ طالبان کے متعلق سوالات پر خاموش ہوجاتے ہیں اور صرف اتنا کہتے ہیں کہ ’انکل ہمیں زیادہ پتہ نہیں ہیں ہم سے طالبان کی نہیں پھولوں کی بات کریں‘۔

ghanmi
06-22-2010, 01:31 PM
nice info bro !!

-|A|-
06-23-2010, 01:46 AM
U welcome ..

Khwahish
06-23-2010, 05:35 AM
Nice ...

-|A|-
06-24-2010, 01:43 AM
Thanks

HUD BOYS
06-27-2010, 10:46 AM
Nice one u Hav,,,,,,,

-|A|-
06-30-2010, 01:31 AM
Thank you

!«╬Ĵamil Malik╬«!
06-30-2010, 01:04 PM
Nice,,,,,,,

*Its Me*
06-30-2010, 05:38 PM
Niceeee

HUD BOYS
07-01-2010, 11:15 AM
Very Nice Sharing

-|A|-
07-04-2010, 07:07 PM
پاکستان میں غربت اور خود کشیاں

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/07/03/100703190701_muzamil_283.jpg
شاید وہ تین بچوں کی پرورش آسانی سے کر لے گی لیکس قیمت پر؟

ہر دوسرے دن پاکستان کے اخباروں میں ہولناک شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں۔ طالبان سے جاری جنگ میں کبھی مارکیٹوں میں بم دھماکہ ہوتے ہیں تو کبھی مسجدوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن جسے اخباروں میں کبھی نمایاں جگہ نہیں ملتی وہ ایک ہی آفت ہے جو لاکھوں پاکستانوں کو نگلتی جا رہی ہے۔

یہ غربت کا دیو ہے جس کے نرغے میں آنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ غربت کے اس دیو کے نرغے میں آنے والوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ اس بیتی سے کیا جا سکتا ہے جس سے لاہور کی ایک عورت گزری ہے۔

چودہ سالہ بینش کے دل میں ڈاکٹر یا نرس بننے کا خواب پتہ نہیں کہاں سے اور کیسے سمایا تھا لیکن ایسے سمایا تھا کہ وہ رات میں دیر دیر تک پڑھتی رہتی تھی اور اس وقت بھی پڑھتی تھی جب بجلی چلی جاتی تھی اور بجلی جانا تو اب یوں ہے کہ لوگ اس کے آنے کا حساب رکھنے لگے ہیں۔ لیکن بینش نے اس حل یہ نکالا کہ وہ ٹارچ کی روشنی میں پڑھنے لگی۔

وہ اپنی کلاس میں ہمیشہ سب سے نمایاں رہنے والے بچوں میں سے ایک تھی۔

لیکن بینش مر گئی۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور خوشحال ترین سمجھے جانے والے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں وہ خود اپنے ہی باپ، رکشہ ڈرائیور اکبر کے ہاتھوں موت کی کا نشانہ بن گئی۔

اس نے پہلے اپنی اس ہونہار لختِ جگر اور اس سے چھوٹی دو بیٹیوں کو زہر دیا اور پھر خود بھی یہی زہر کھا لیا اور جب وہ اپنی ان تین بیٹیوں کو زہر دے رہا تھا تو اس کے ان سے چھوٹے تین بچے وہیں اس کے قریب ہی سو رہے تھے۔

اکبر کی بیوی مزمل بتاتی ہیں کہ جب اکبر اپنی بیٹیوں کو زہر دے رہا تھا تو اس نے اسے دو بار پانی لانے کے لیے بھیجا اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اسے کمرے سے باہر بھیجنا چاہتا تھا۔

دوسری بار جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ ان کی سات سالہ مفلوج بچی کائنات جاگ گئی ہے۔

اکبر نے اسے بھی زہر دینے کی کوشش کی لیکن کائنات نے یہ کہتے ہوئے زہر کھانے سے انکار کر دیا کہ ’مجھے بو آ رہی ہے میں نہیں کھاتی‘۔

مزمل کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ اندازہ ہو گیا کہ اس کا شوہر کیا کر رہا ہے۔ وہ چیخنے لگی ’یہ تم کیا رہے ہو، خود اپنے ہی بچوں کو زہر دے رہے ہو، تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہو؟‘

اس نے پہلے اپنی اس ہونہار لختِ جگر اور اس سے چھوٹی دو بیٹیوں کو زہر دیا اور پھر خود بھی یہی زہر کھا لیا

اس کے جواب میں اکبر نے کہا ’میں نے انہیں زہر اس لیے دیا ہے کہ اگر ہم نہیں رہیں گے تو یہ کیسے زندہ رہیں گے‘۔

اس کے بعد اس نے مزمل کہ منہ میں بھی زہر ڈالا لیکن مزمل نے زہر نگلنے کی بجائے تھوک دیا اور یہی وجہ ہے کہ علاج کے بعد اب وہ یہ کہانی بیان کرنے کے لیے بچ گئی ہے۔

چند دن ہسپتال میں گزارنے کے بعد اب وہ ہے، موت سے بچ جانے والے اس کے تین بچے ہیں اور مرنے والی تین بیٹیوں اور شوہر کے نہ ہونے کا دکھ ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اکبر انتہائی شریف اور نرم دل آدمی تھا لیکن مالی حالات اور گرتی ہوئی صحت نے اسے کچھ سے کچھ بنا دیا۔

خود اس کے الفاظ میں ’اس نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وہ بہت محبت کرنے اور ہر ایک کا خیال رکھنے والا تھا۔ ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا تو کیا تکرار تک نہیں ہوئی‘۔

جب وہ اکبر کی بات کر رہی تھی تو اس کی انکھوں سے آنسو بہے جا رہے تھے۔

اس نے بتایا کے اس اپنے خاندان والوں سے اس قرضے پر تنازع تھا جو وہ ادا نہیں کر پا رہے تھے۔

جس دن یہ زہر کھانے کا واقعہ ہوا ہے اس دن بھی اس سلسلے میں گرما گرمی ہوئی تھی۔

قرضے کی رقم کل ساٹھ ہزار روپے تھی۔

جیّں یا مریں پاکستان میں غریبوں کا وجود کبھی کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

اکبر کی خبر تو اخباروں کے پہلے صفحے پر شائع ہوئی لیکن عام طور پر ایسی خود کشیوں اور اموات کی خبریں آخری یا اندرونی صفحات پر ہی جگہ پاتی ہیں اور اس کی تفصیل بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ حال ہی میں ایسے پانچ افراد کی موت کو ایک بڑے اخبار صرف پانچ پیرا گراف میں شائع کیا۔

مزمل کا علاج کرنے والے ڈاکٹر پروفیسر جاوید اکرم کے پاس اب روزانہ زہر کھانے کے دس واقعات آتے ہیں۔ کبھی یہ اوسط پانچ ہوتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے لوگ خود کشی کرنے کے لیے، عمارتوں سے چھلانگ لگا دیا کرتے لیکن اب زہر کھاتے ہیں کیونکہ زہر سستا ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں تو شک ہی نہیں کہ معاشی دباؤ ان اموات میں ایک اہم عنصر ہے۔ کیونکہ خود کشی کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو غریب ہیں‘۔

مشہور قانون داں اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع تو بے پناہ اخراجات کرتا ہے لیکن ان کے دفاع پر بہت ہی کم جو ضرورت مند ہیں۔

ان کا کہنا ’سارا ہیجان سلامتی کے بارے میں ہے اور اس میں ہم نے انسانی سلامتی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ہم ایک ایٹمی مملکت ہیں اور ہم اپنے لوگوں کے پیٹ تک نہیں بھر سکتے‘۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی آدھی آبادی کو دن بھر میں صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان کو پچھلے دنوں امداد، قرضوں اور قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں رد و بدل کی صورت میں اربوں ڈالر ملے ہیں لیکن بھوک کے منہ میں جانے والے شاید یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ یہ ساری رقم کہاں گئی۔ اور سیاستداں جو بیانات جاری کرتے رہتے ہیں اس سے کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔

پاکستان کے ایک پارلیمنٹیرین کا کہنا ہے کہ خود کشیاں اللہ کی مرضی ہیں اور پاکستان کے وزیرِ اطلاعات نشریات قمر زمان کائرہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جو غریب اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے وہ انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے فلاحی اداروں کو دے دیں۔

مزمل اب اپنے بچوں کی قدرے مناسب پرورش کر سکے گی۔ اس کا معاملہ اخباروں میں آنے سے یہ ہوا ہے کہ صوبائی حکومت نے اسے خاطر خواہ امداد دے دی ہے۔ اب اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنانے اور کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اس کے علاج کے بل ادا کر دیے گئے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ابھی اسے آرام کی ضرورت ہے۔

اب وہ کیسی زندگی گزارے گی؟ اسے جو کچھ ملا ہے وہ تین بڑی بیٹیوں کی موت کا شوہر کی خود کشی کا پھل ہے۔ کیا وہ اسے بھول پائے گی؟

مزمل کہتی ہے کہ اس کی بیٹیاں اس کا بہت خیال رکھتی تھیں، جب بھی وہ کوئی کام کرنے لگتی وہ کہتیں ’اماں، تم بیٹھو، ہم کرتی ہیں نا‘۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں علم ہو گیا تھا کہ ان کا اور ان کی ماں کا ساتھ اب زیادہ نہیں ہے۔

Zafina
07-06-2010, 07:54 PM
Very Nice Thanks for sharing

-|A|-
07-08-2010, 06:43 PM
Thanks :)

~ Bikhre Lamhe ~
07-12-2010, 03:32 AM
ALLAH apna Karam Kar Apne Bandon Par Our In Sab Jin Ki Tasviran Hain Un K Lawahkeen ko un k bichye howe milwa our in jaise sabhi jo manz-r-aam par nai laa sakte apne app ko un ki bi Madad Farma AmeeN \\

thanks A
aysi threads k liye ilafz nai hote bas afsoos our ALLAH k Agye Dua Hi Ki Ja Sakti Ha Bas

-|A|-
07-12-2010, 11:02 PM
Thanks alot :)

-|A|-
07-16-2010, 05:32 PM
سربرنیتزا: پندرہ سال بعد
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/03/31/100331021159_srebrenica-graves.jpg
وسنیا کے شہر سربرنیتزا میں ہزاروں نہتے مسلمان شہریوں کے قتلِ عام کے پندرہ سال بعد یہاں اس کی تکلیف دہ یادوں سے نمٹنے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں افراد میں اقوام متحدہ کے ایک سابق اہلکار بھی شامل ہیں۔

نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے روب زومر انیس سو پچانوے میں یہاں پر تعینات تھے جب قتل عام کا یہ واقعہ پیش آیا اور اب وہ اپنے خاندان کو لے کر اسی شہر میں رہنے آگئے ہیں۔

بوسنیا کی جنگ کے دوران 1995 میں سربرنیتزا کو اقوام متحدہ کا محفوظ زون قرار دیا گیا تھا اور ہزاروں بوسنیائی افراد نے یہاں پناہ لی تھی۔ لیکن سرب افواج نے سربرنیتزا میں تعینات اقوام متحدہ کی ڈچ افواج کو قابو کر کے یہاں پناہ لینے والے مسلمان مردوں کو لے جا کر ان کو ہلاک کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تین روز کے اندر سات ہزار مسلمانوں کو یہاں ہلاک کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے دستے اس قتل عام کو روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور بالکل بے بس تھے۔

جب یہاں پر مقامی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لوگوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے ہم آپ کے مشکور ہیں، تو پھر ماضی کی بہت سی تکلیف دہ یادیں مٹ جاتی ہیں

روب زومر، سریبرینیتزا میں اقوام متحدہ کےسابق اہلکار

تو پھر ایسے اذیت ناک تجربے سے گزرنے والا کوئی غیر ملکی شخض سربرنیتزا واپس کیوں آیا ہے؟ روب زومر کہتے ہیں ’سربرنیتزا میری زندگی کا حصہ، میرے ماضی کا حصہ ہے لیکن میں اس لیے یہاں نہیں آیا ہوں۔میں اس لیے آیا ہوں کہ میں پہاڑوں اور جنگلات والی ایسی جگہ میں رہنا چاہتا ہوں جہاں روز مرہ کی زندگی کی پریشانیاں نسبتاً کم ہوں۔‘

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا یہاں واپس آنا ماضی سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے۔ ’جب یہاں پر مقامی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لوگوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے ہم آپ کے مشکور ہیں، تو پھر ماضی کی بہت سی تکلیف دہ یادیں مٹ جاتی ہیں۔‘

روب زومر اب سربرنیتزا کی پہاڑیوں میں گھر تعمیر کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انیس سو پچانوے کے واقعے کے بعد وہ بھی ’پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس‘ یعنی جنگ کے صدموں کے بعد دباؤ کے شکار ہوئے تھے۔

ان کا ملک نیدرلینڈز بھی اس واقعے کے بعد ایک مشکل دور سے گزرا۔ سنہ 2002 میں سربرنیتزا کے قتل عام پر ایک رپورٹ نے اقوام متحدہ اور نیدرلینڈز پرسخت تنقید کی تھی۔ اس کے نتیجے میں نیدرلینڈز کی حکومت مستعفی ہو گئی تھی۔

مفاہمت کی کوششیں:

سربرنیتزا میں سربوں اور مسلمانوں نے مل جل کر رہنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ شہر کے نواحی علاقے میں واقع گاڑیوں کے پُرزوں کے کارخانے میں کام کرنے والے 100 افراد میں سے 23 بوسنیائی سرب ہیں۔

ایویچا سمیچ سرب ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کارخانے میں ایک اچھا ماحول ہے۔ ’شروع میں ماحول تھوڑا مشکل سا تھا لیکن اب ہم سب آپس میں دوست ہیں اور مل کر فٹ بال کھیلتے ہیں۔‘

تئیس سالہ بوسنیائی مسلمان المدینہ جاساروِیچ کہتی ہیں کہ ان کا کارخانے میں سرب ساتھیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے ’وہ ہماری طرح یہاں پیسہ کمانے کے لیے کام کرتے ہیں، ہم سب آپس میں اچھی طرح رہتے ہیں۔‘

لیکن ان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ 1995 کے قتل عام کے زخم ان کے لیے اب بھی تازہ ہیں۔ ان کے والد اور ان کے بھائی سربوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور پھر پوچھتی ہیں ’خاندان کی صرف تصویریں ہمارے پاس رہ گئی ہیں، اس واقعہ کے ذمہ داروں کو ہم معاف کس طرح کر سکتے ہیں؟ سرب ہم سے اس طرح ہنس کر بات کرتے ہیں جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ لیکن ان کو معلوم ہے کیا انہوں نے کیا کیا تھا۔ وہ اس پر شرمندہ نہیں ہیں اور انہیں ہونا چاہیے۔‘

سربوں کا موقف:

لیکن سربینیتزا کے سربوں کا کہنا ہے کہ 1995 کے نتیجے میں ان کو بلا جواز تہمت کا سامنا ہے۔ ملاڈن گروجِچ ایک مقامی تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں جو جنگ سے متاثر سربوں کی مدد کرتی ہے۔ ’کوئی سربیہ نہیں کہتا کہ سربنیتزا میں جرائم نہیں ہوئے لیکن انہیں اس پر تشویش ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ مجھے تعداد سے اختلاف ہے، سات یا آٹھ ہزار مسلمان تو نہیں ہلاک ہوئے اور مسلمان خود ہلاکتوں کی تعداد پر متفق نہیں ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی ان تنظیموں کے کام کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہلاک ہونے والوں کے ڈے این اے کے ذیعے شناخت کر رہی ہیں تو وہ کہتے ہیں ’کوئی ان غیر ملکی تنظیموں کی باتوں کا یقین نہیں کرتا۔‘

مجھے تعداد سے اختلاف ہے، سات یا آٹھ ہزار مسلمان تو نہیں ہلاک ہوئے اور مسلمان خود ہلاکتوں کی تعداد پر متفق نہیں ہیں

ملاڈن گروجِچ، جنگ سے متاثر سربوں کی تنظیم کے کارکن

اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’پوری دنیا صرف جولائی 1995 کی بات کرتی ہے، اس سے پہلے کی نہیں۔ لیکن سربرنیتزا میں ہلاک کیے جانے والا پہلے شخص تو سرب تھا۔‘

بوسنیائی جنگ کے بارے میں حقائق پر عدم اتفاق ان سربوں اور مسلمانوں کے درمیان اب بھی ایک دیوار ہے، سربرنیتزا کے بارے میں دونوں کی حیقیقت بالکل مختلف ہے اور اس کے نتیجے میں یہ دونوں برادریاں اب بھی بٹی ہوئی ہیں۔

دریں اثنا سربرنیتزا کے قریب بڑے قبرستان میں اجتماعی قبروں سے برآمد مزید 700 افراد کی اتوار کو تدفین کی تیاری کی جا رہی ہے۔

بوسنیا کا یہ چھوٹا سا شہر اب بھی 1995 کے قتل عام کے زخموں سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس کی یادیں ہر طرف ہیں اور زندگی اس سانحہ کے سائے میں چلتی ہے۔

Kash
07-16-2010, 05:59 PM
nice ...

lilly
07-18-2010, 12:24 AM
thnx for sharing...

-|A|-
07-18-2010, 05:53 PM
Thanks all

-|A|-
08-03-2010, 12:50 PM
پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب، لاکھوں افراد متاثر، بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/03/100803050329_helicopter-aid.jpg
پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب میں سینکڑوں افراد ہلاک، لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور ملک بھر میں مون سون بارشوں کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے تقریباً پچیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیس لاکھ بتائی ہے۔ یونیسیف کے اہلکار عبدلسمیع ملک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور امدادی تنظیموں کا آج (منگل) اجلاس ہو گا جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ فوری ایمرجنسی اپیل کی جائے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے چار اضلاع، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور پشاور، میں متاثر ہونے والوں کی تعداد نو لاکھ اسی ہزار ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے سولہ ملین ڈالر کی اپیل کی ہے۔

متاثرہ شمال مغربی علاقوں میں موسلادھار بارش اور سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد اب ہیضے جیسی بیماریوں کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ سیلاب میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اندازہ کیا جا رہا ہے کہ لاکھوں افراد شدت سے امداد کے منتظر ہیں۔

درین اثنا پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق دریائے سندھ میں اس صدی کا سب سے بڑا سیلابی ریلا اس وقت گزر رہا ہے۔

گزشتہ روز سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ چار اگست کو ساڑھے دس لاکھ کیوسک پانی کا ریلا صوبے کی حدود میں داخل ہوگا جب کہ سکھر بیراج میں پانی کی گنجائش صرف نو لاکھ کیوسک ہے۔



سیلاب سے بےگھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار کے مطابق سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات سے پندرہ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان کی فوج امداد اور بچاؤ کے کام میں مدد کر رہی ہے جبکہ امریکہ، اقوام متحدہ اور چین نے ہنگامی امداد کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیورین نے فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ بچاؤ اور امداد کا ابتدائی آپریشن دس دن تک جاری رہ سکتا ہے لیکن تعمیر نو کے کام کے لیے چھ مہینے درکار ہوں گے۔ ایک علاقے میں انتیس پل تباہ ہوگئے ہیں اور کچھ آبادیاں جزیروں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارے کی ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وادی سوات میں سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے سے بھی زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔

کچھ متاثرین کا الزام ہے کہ امدادی کارروائیاں سست اور ناکافی ہیں۔

متاثر ہونے والے علاقوں سے لوگ سب سے زیادہ پینے کے پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں کھانا نہیں چاہیے، ہمیں پینے کا پانی چاہیے، ان علاقوں میں کوئوں میں گارا بھر گیا ہے اور یہ اب قابل استعمال نہیں ہیں۔کھانے کے سامان کی قلت تو ہے ہی لیکن بچوں میں اب اسہال شروع ہوگیا ہے اور ہیضہ، اصال خطرہ اب یہ ہے

ورلڈ ویژن کے علاقائی پروگرام مینجر شہریار خان بنگش

چند علاقوں میں پانی اترنا شروع ہوگیا ہے لیکن محکمۂ موسمیات نے مزید بارش کی پیشین گوئی کی ہے۔


پشاور اور مضافاتی علاقوں میں اب تک سات سو سڑسٹھ ہلاکتوں کی تصدیق ہوگئی ہے۔ تاہم غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ مالاکنڈ اور کوہستان میں اقتصادی ڈھانچہ اور ذرائع مواصلات بلکل تباہ چکے ہیں۔

اسلام آباد میں نامہ نگار علیم مقبول کے مطابق سرکاری عہدیداران کو اس بات کی فکر ہے کہ جیسے جیسے متاثرہ علاقوں تک رسائی بہتر ہوگی، تباہی کی اصل تصویر سامنے آئے گی جو ان کے خیال میں موجودہ تخمینوں سے کہیں زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔

خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار کے مطابق سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات سے تقریباً پندرہ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

افتخار حسین کے مطابق امدادی ٹیمیں ان ستائیس ہزار لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جو سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں پندرہ سو سیاح بھی شامل ہیں جو سوات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق سوات کے بعض علاقوں میں ہیضے کے واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔
امدادی سرگرمیاں

پشاور میں امدادی تنظیم ورلڈ ویژن کے علاقائی پروگرام مینجر شہریار خان بنگش کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں لوگ سب سے زیادہ پینے کے پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں کھانا نہیں چاہیے، ہمیں پینے کا پانی چاہیے، ان علاقوں میں کنوؤں میں مٹی اورگارا بھر گیا ہے اور یہ اب قابل استعمال نہیں ہیں۔‘

’کھانے کے سامان کی قلت تو ہے ہی لیکن بچوں میں اب اسہال اور ہضیہ شروع ہوگیا ہے، اور اب اصل خطرہ یہ ہے۔‘

امدادی ٹیمیں ان ستائیس ہزار لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جو سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں پندرہ سو سیاح بھی شامل ہیں جو سوات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق سوات کے بعض علاقوں میں ہیضے کے واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔

میاں افتخار حسین، وزیر اطلاعات

صوبہ سندھ میں نو لاکھ کیوسک پانی کی آمد کے خدشے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے پانچ اضلاع سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی شعبوں میں انتظامی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔

بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان میں بھی گزشتہ چند دنوں کے دوران ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور درجنوں تاحال لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔

maliksaim
08-11-2010, 11:08 AM
great posting ....:Great:

-|A|-
08-16-2010, 05:24 PM
’اموات کی دوسری لہر روکنا سب سے اہم ہے‘

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/12/100812122059_kotri_226x283_nocredit.jpg
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/13/100813212117_flood_evacuation.jpg
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یوینیسف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریوں کے نتیجے میں اموات کی دوسری لہر آ سکتی ہے جسے روکنا اس وقت سب سے اہم ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کا آغاز قریباً دو ہفتے قبل ہوا تھا اور اس سے دو کروڑ افراد اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈیوڈ بل نے کہا کہ ’بارشیں ہو رہی ہیں اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں مزید سیلاب آ سکتا ہے اور حالات مزید خراب ہی ہوں گے۔ ہم نے اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والے افراد کے لیے خیمہ بستیاں قائم کر دی ہیں تاہم یہ سب ایک طویل عرصے تک چلےگا‘۔

جو امدادی سرگرمیاں ہم نے دو ہزار پانچ کے زلزلے میں دیکھی تھیں اس کا ایک فیصد بھی اس بار دیکھنے کو نہیں مل رہیں

پیٹرک فیولر، ریڈ کراس

ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن اس وقت ہمیں اسہال اور ممکنہ طور پر ہیضے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ہیضے کے ایک مریض کی تصدیق ہو چکی ہے، اگرچہ ابھی اس نے وباء کی صورت اختیار نہیں کی ہے تاہم ہمیں اموات کی دوسری لہر کو روکنے کے لیے کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے‘۔

ادھر عالمی ریڈ کراس نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی اتنی وسیع پیمانے پر ہوئی ہے کہ اگر تمام عالمی امدادی تنظیمیں حکومت کے ساتھ مل کر بھی کام کریں تو پھر بھی وسائل پورے نہیں پڑیں گے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے پاکستان میں سربراہ پاسکل کیوتے نے بی بی سی کے نامہ نگار رضا ہمدانی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم نے ابھی تک مالی امداد کے لیے بین الاقوامی اپیل کا اعلان نہیں کیا۔ ’یہ تباہی اتنی بڑی ہے کہ ہم ابھی بھی سروے کر رہے ہیں اور ایک بار سروے مکمل ہو گیا تو اس کے بعد ہی ہم اپیل کا اعلان کریں گے۔‘
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/15/100815110459_pakistan_floods_226x170_nocredit.jpg
اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اللہ سے دوسرے محفوظ مقامات پر جارہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال عالمی ریڈ کراس ہلالِ احمر کے ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اتنی تباہی دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوتی تو اس ملک کی حکومت بھی اکیلے اس سانحے سے نمٹنے کی اہلیت نہ رکھتی۔ ’ابھی سانحہ جاری ہے۔ اس سانحے کی اصل تباہ کاریوں کا اس وقت معلوم ہو گا جب سیلابی ریلا اپنی منزل پر پہنچے گا۔‘

دوسری جانب انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ تنظیم کے رابطہ کار پیٹرک فولر کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں اور عالمی برادری کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو سکا کہ یہ کتنا بڑا سانحہ ہے۔ ’میں یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ جو امدادی سرگرمیاں ہم نے دو ہزار پانچ کے زلزلے میں دیکھی تھیں اس کا ایک فیصد بھی اس بار دیکھنے کو نہیں مل رہیں‘۔
بلوچستان میں سیلاب

اس وقت ہمیں اسہال اور ممکنہ طور پر ہیضے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو روکنا ہے۔ ہمارے پاس ہیضے کے ایک مریض کی تصدیق ہو چکی ہے، اگرچہ ابھی اس نے وباء کی صورت اختیار نہیں کی ہے تاہم ہمیں اموات کی دوسری لہر کو روکنے کے لیے کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ڈیوڈ بل، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یوینیسف

دریائے سندھ سے سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے گزر رہا ہے جس کے باعث جعفر آباد کے مرکزی قصبے ڈیرہ اللہ یار اور روجھان جمالی مکمل طور پر زیر آب آ گئے ہیں اور ان علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد نے بلوچستان کے دوسرے شہروں کا رخ کیا ہے۔

جیکب آباد شہر جس میں شہباز فضائی اڈہ بھی واقع ہے کو بچانے کے لیے کوئٹہ بائی پاس سے بند کو کاٹا گیا جس کے باعث سیلابی ریلا نصیر آباد اور جعفر آباد میں داخل ہو گیا۔

جعفر آباد سے ہمارے نامہ نگار ایوب ترین کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی نے ڈیرہ اللہ یار اور روجھان جمالی کے قصبوں کو مکمل طور پر ڈبو دیا ہے جبکہ پانی اب اوستہ محمد کے قریب پہنچ چکا ہے اور اس قصبے کی نوّے فیصد آبادی محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ڈیرہ مراد جمالی، سبّی اور کوئٹہ کی جانب جاتے دیکھے گئے ہیں۔ تاہم نقل مکانی کرنے والے ان افراد کے لیے کسی قسم کے امدادی کیمپ تاحال قائم نہیں کیے گئے ہیں اور لوگ بلند مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ڈیرہ مراد جمالی، سبّی اور کوئٹہ کی جانب جاتے دیکھے گئے ہیں۔ تاہم نقل مکانی کرنے والے ان افراد کے لیے کسی قسم کے امدادی کیمپ تاحال قائم نہیں کیے گئے ہیں اور لوگ بلند مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

کمشنر نصیر آباد ڈویژن شیر خان بازئی نے ٹیلی فو ن پر کوئٹہ میں بی بی سی کے نمائندے ایوب ترین کو بتایا ہے کہ اس وقت ڈیرہ اللہ یار، روجھان جمالی اور اوستہ محمد شہر سے ڈیڑھ لاکھ آبادی ان شہروں سے ڈیرہ مراد جمالی اور سبی کی طر ف منتقل ہو چکی ہے۔

شیر خان بازئی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک ان شہروں میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ان افراد کو نکالنے کے لیے آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر اور کچھ کشتیاں کام کر رہی ہیں۔

اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر جعفر آباد ڈاکٹر سعید جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو شہر سے نکالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جعفر آباد اور سبی کے درمیان ٹرین چلانے کے علاوہ سرکاری سطع پر عام لوگوں کو ٹرانسپورٹ کا اننتظام کیا گیا ہے۔ تاہم جعفر آباد کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی اور اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اللہ سے دوسرے محفوظ مقامات پر جا رہے ہیں۔
سکھر، گڈو پر سیلابی ریلا

نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا ہے سیلابی پانی کی وجہ سے جیکب آباد کو شکار پور سے ملانے والی سڑک ڈوب گئی ہے جبکہ پانی نے شکار پور کی نواحی بستی سلطان کوٹ کو بھی ڈبو دیا ہے اور وہاں کی ڈیڑھ ہزار آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
سیلابی پانی کی وجہ سے جیکب آباد کو شکار پور سے ملانے والی سڑک ڈوب گئی ہے جبکہ پانی نے شکار پور کی نواحی بستی سلطان کوٹ کو بھی ڈبو دیا ہے اور وہاں کی ڈیڑھ ہزار آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق جیکب آباد شہر میں تین سمت سے پانی داخل ہو رہا ہے اور شکارپور شہر کو سیلابی ریلے سے بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جیکب آباد میں واقع شہباز ائربیس سے اتوار اور پیر کی درمیانی شب بھی سی ون تھرٹی طیاروں کی مدد سے متاثرین کو کراچی منتقل کیا گیا ہے۔

وفاقی فلڈ کمیشن کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج سے اس وقت انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے۔ حکام کے مطابق پیر کی صبح گڈو سے دس لاکھ چھپن ہزار، سکھر سے نو لاکھ ستاسی ہزار اور کوٹری سے دو لاکھ انتالیس ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔

کمیشن کے چیف انجینئر جہانگیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا آئندہ اڑتالیس گھنٹے میں کوٹری پہنچ جائے گا۔ حکام کے مطابق اس سیلابی ریلے سے سندھ کے آٹھ شہروں کو خطرہ ہے جن میں خیرپور، جیکب آباد، گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ، حیدر آباد اور نوشہرو فیروز شامل ہیں۔
بان کی مون کا دورہ

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اسی مناسبت ہی سے کرنی ہوگی۔ یہ بات انہوں نے اتوار کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہی۔

پاکستان میں آنے والے سیلاب کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اسی مناسبت ہی سے کرنی ہوگی۔

بان کی مون

بان کی مون نے کہا کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور ’جو میں نے آج دیکھا ہے وہ میں کبھی نہیں بھولوں گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک پاکستانی اس سیلاب سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوا ہے۔ ’پاکستان کا پانچواں حصہ متاثر ہوا ہے۔‘

انہوں نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ دل کھول کر پاکستان کی مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ’ یہ نہ ختم ہونے والی تباہی ہے ، بارشیں اب بھی ہورہی اور یہ صورت حال ہفتوں جاری رہ سکتی ہے اور ڈیمز کے پھٹنے کا بھی خطرہ ہے‘۔ بان کی مون نے کہا آج کا دن ان کے لیے اور ان کے وفد میں شامل لوگوں کے لیے دل ہلا دینے والا دن تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کو خوراک، شیلٹر، صاف پانی اور ادویات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں متاثرہ علاقوں میں اسہال، قے اور پانی سے پیدا ہونے والی دوسری بیماریوں کی وبا پھوٹنے پر تشویش ہے۔

انہوں نے اس موقع پر اقوام متحدہ کی طرف سے مزید ایک کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور اس طرح اقوام متحدہ کی متاثرین کے لیے کل امداد دو کروڑ ستر لاکھ ڈالر ہوگئی ہے۔

-|A|-
08-23-2010, 01:42 AM
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/22/100822071435_flood_water466.jpg

پاکستان کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب سے سندھ کے زیریں علاقوں اور بلوچستان میں تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت بڑا سیلابی ریلا کوٹری بیراج سے گزر رہا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ بیراج پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔

سندھ میں سیلابی پانی اس وقت شہداد کوٹ کے حفاظتی بند سے ٹکرا رہا ہے اور حکام کے مطابق تاحال شہر میں پانی آنے کا خطرہ ٹلا نہیں ہے جبکہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں سیلابی ریلا ڈیرہ اللہ یار کے بعد روجھان جمالی میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ تاہم پنجاب میں پانی اترنا شروع ہوگیا ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے لیے دو سو چوّن اعشاریہ چار ملین ڈالر کی اضافی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/08/22/100822071428_flood_water226.jpg

Noor ul huda
08-23-2010, 08:19 AM
ALLAH Hi Apna Ryhm Kary :s Kuch nahi Samajh a Raha Ho Kiya Raha Hay...Koi sukoon deni wali Khabar nahi sunaye detii bass tabahi tabahi tabahi ...

JazakALLAH for sharing....bass DUA aur Astaghfaar lazim hay.

-|A|-
09-02-2010, 08:21 PM
Shukria buhaat buhaat

-|A|-
09-04-2010, 10:27 PM
اکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو جہاں پھر سے اپنے گھروں میں آباد ہونے کی فکر ہے وہاں وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کا تعلیمی مستقبل کیا ہوگا۔

http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/09/03/100903141831_flood_school_01.jpg
حکومت نے سکولوں میں سے پانی کے اخراج کے لیے لِفٹ پمپ مہیا کر دیے ہیں جو بہت جلد اپنا کام شروع کردیں گے: ملک مسعود ندیم

ان اضلاع میں خدمات انجام دینے والے محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ اور کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی ریلوں کی وجہ سے سینکڑوں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے یا تو منہدم ہوگئے ہیں یا پھر ان میں ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ اس وجہ سے نو ستمبر کو شروع ہونے والے تعلیمی سلسلے پر ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے حالیہ سیلاب کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں ضلع مظفر گڑھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس ضلع میں کام کرنے والے ای ڈی او ایجوکیشن ملک مسعود ندیم کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے میں ان کے ضلع کے گیارہ سو پچھتر سکول متاثر ہوئے ہیں جن میں اٹھارہ ہائی اور تین ہائر سکینڈری سکول شامل ہیں۔

سیلابی ریلے میں ان کے ضلع کے گیارہ سو پچھتر سکول متاثر ہوئے ہیں جن میں اٹھارہ ہائی اور تین ہائر سکینڈری سکول شامل ہیں

ملک مسعود ندیم

ان سکولوں میں کم و بیش پونے دو لاکھ بچے زیر تعلیم تھے۔ ان کے مطابق ان میں سے بیشتر سکولوں کی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں اور کچھ سکولوں میں ابھی تک پانچ سے سات فٹ پانی کھڑا ہے اور حکومت نے ان سکولوں میں سے پانی کے اخراج کے لیے لِفٹ پمپ مہیا کر دیے ہیں جو بہت جلد اپنا کام شروع کردیں گے۔

ملک مسعود ندیم کا کہنا تھا کہ یونیسف حکام نے ایک میٹنگ کے دوران انھیں کپڑے اور پلاسٹک کی عارضی عمارتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔ ان کے مطابق بعض ایسی جگہوں پر جہاں پانی خشک ہوچکا ہے نو ستمبر سے کلاسوں کا آغاز کر دیا جائے گا۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے ای ڈی او ایجوکیشن ملک ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کے ضلع میں ایک سو تیس سکول متاثر ہوئے ہیں جن میں سولہ ہائی اور دو ہائر سکینڈری سکول شامل ہیں۔ ان سکولوں میں کم و بیش تینتیس ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے۔
فائل فوٹو، سیلاب سے متاثرہ بچے

ضلع راجن پور میں کام کرنے والے ای ڈی او ایجوکیشن مجاہد حسین کے مطابق ان کے ضلع میں سیلاب سے متاثر ہونے والے سکولوں کی تعداد چار سو بارہ ہے جن میں گیارہ ہائی اور دو ہائر سکینڈری سکول شامل ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان سکولوں میں کتنے طلبہ زیر تعلیم تھے تو ان کا جواب تھا کہ یہ بات ان کے علم میں نہیں ہے۔

ضلع لیہ میں خدمات انجام دینے والے محکمہ تعلیم کے افیسرحافظ عبدالواحد اولکھ کے مطابق لیہ کے نوے سکول حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں پانچ گرلز اور چھ بوائز ہائی سکول بھی شامل ہیں۔

ضلع رحیم یار خان کے ای ڈی او ایجوکیشن مرزافاروق بیگ کے مطابق ان کے ضلع میں ایک سو تیرہ سکول متاثر ہوئے ہیں جن میں پانچ ہائی، آٹھ ایلیمنٹری اور اور سو کے قریب گرلز و بوائز پرائمری سکول شامل ہیں۔
http://wscdn.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/09/02/100902050252_flood_kids_pak.jpg

یونیسف حکام نے ایک میٹنگ کے دوران انھیں کپڑے اور پلاسٹک کی عارضی عمارتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔بعض ایسی جگہوں پر جہاں پانی خشک ہوچکا ہے نو ستمبر سے کلاسوں کا آغاز کر دیا جائے گا

ملک مسعود ندیم

صوبہ پنجاب میں تعلیم کے وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق صوبہ بھر میں چار ہزار چارسو اکاسی سکول حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سات سو دو مکمل طور پر تین ہزار ایک سو چوالیس جزوی طور پر اور چھ سو پینتیس معمولی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ سیکریٹری احد چیمہ نے اپنے ایک اخباری بیان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی فیسیں معاف کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ صوبہ بھر میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔سیلابی ریلے سے تباہ ہونے والے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

جب اس حوالہ سے مختلف شہروں کے طلبہ اور ان کے والدین سے گفتگو کی تو زیادہ تر کا جواب یہ تھا کہ ابھی تو انھیں اپنی زندگی بچانے کی فکر ہے ۔علم کی ضرورت اور سوال تو تب ہو کہ جب انھیں یقین ہوگا کہ ان کی زندگی بچ جائے گی۔

-|A|-
10-12-2010, 02:31 AM
koi yahan bhe ajaya karo

Anokhi<3
10-17-2010, 02:17 AM
huff...

*~FaLaK~*
10-20-2010, 01:02 AM
zabardast sharings

Morash
10-28-2010, 12:32 PM
Awesome..!!

maliksaim
11-04-2010, 03:28 PM
boht shandar janab

-|A|-
11-05-2010, 06:53 PM
Thanks all

s_sableo
11-06-2010, 02:39 AM
so sad yaar i feel crying after reading the story ov that poor rikshaw driver :'((((((((((((
kutta zardari

maliksaim
11-06-2010, 09:12 AM
Its really sad to know that
My prayers are with these affected persons

Shomaila
11-12-2010, 10:30 AM
This is the poetry which every body like this

-|A|-
11-14-2010, 05:11 PM
Thankss

Shomaila
11-15-2010, 09:50 AM
Nice sharing. keep on your sharing .

Abewsha
08-05-2011, 03:35 AM
nice sharing...

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.