-|A|-
02-06-2009, 08:20 PM
’ڈاکٹر عبدالقدیر آزاد شہری ہیں
http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/02/20090206112315qadeer416.jpg
سکیورٹی کی وجہ سے ان کو اپنی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع حکومت کو دینی ہو گی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزاد شہری قرار دیتے ہوئے ان کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے ڈاکٹر قدیر خان کی نظر بندی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔
تاہم اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو سکیورٹی معاملات کی وجہ سے اپنی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع حکومت کو دینی ہوگی۔ فیصلے میں مزید کہاگیا ہےکہ ڈاکٹر قدیرخان سکیورٹی میں آزادانہ طور پر آ جا سکیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ حکومت ڈاکٹر قدیر خان کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کرے اور انہیں اظہار رائے، تحقیقاتی کام، اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج اور ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے بارے میں دائر درخواستوں پر عدالت نے یہ احکامات دیے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے گھر میں اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کی اجازت ہوگی تاہم ان افراد کو ملاقات سے پہلے اُن کی سیکورٹی کلیئرنس حاصل کرنا ہوگی۔
اس فیصلے کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں اپنی رہائش گاہ کے باہر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں دیکھا لیکن لگتا ہے کہ نظر بندی ختم ہوگئی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو میڈیا یہاں کیسے پہنچتا۔
ان کا کہنا تھا کہ’اگر پاکستانی حکومت مدد مانگے گی تو میں ضرور مدد کروں گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ان (قدیر خان) کا تعلق صرف پاکستان حکومت کے ساتھ ہے۔
حکومت ڈاکٹر قدیر خان کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کرے اور انہیں اظہار رائے، تحقیقاتی کام، اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج اور ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ
اُنہوں نے کہا کہ اُن کی رہائی میں موجودہ حکومت نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم اُنہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ اس سوال پر کہ کیا وہ اپنی نظر بندی کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ اُنہیں پہلے ہی اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے اس لیے وہ سابق صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے اُنہوں نے جو کچھ بھی کیا اس پر اُنہیں فخر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ وہ کبھی بھی ایٹمی ہتیھاروں کی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں ملوث نہیں رہے اور اُنہیں قربانی کا بکرا بنا کر مفادات حاصل کیے گئے۔
اپنی سکیورٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ایٹمی سائنسدان نے کہا کہ وہ پہلے بھی یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ٹارگٹ پر تھے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ ان کی سیکورٹی کے حوالے سے حکومت تسلی بخش اقدامات کرے گی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ وہ اپنے سابقہ پیشہ وارانہ امور جاری نہیں رکھیں گے اور اب تعلیمی اور فلاحی کاموں پر توجہ دیں گے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل جاوید اقبال جعفری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کو چار سال پہلے ہی ختم کر دینا چاہیے تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ویزا ملنے کی صورت میں بیرون ملک بھی جاسکتےہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے لیے متعدد درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں تھیں جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر کی نظربندی کے خلاف یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود یا اُن کے قریبی رشتہ دار عدالت میں درخواست دائر کریں۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سنہ دو ہزار چار میں پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ایٹمی راز منتقل کرنا ان کا ذاتی فعل تھا اور اس میں حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ملوث نہیں تھا۔جبکہ گزشتہ برس اکتوبر میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا تھا جرنیلوں کے کہنے پر کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک اور خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ انہوں نے ٹیلی وژن پر آکر جوہری توانائی کے پھیلاؤ کے بارے میں جو بیان دیا تھا وہ ملکی مفاد میں تھا حالانکہ وہ اس میں کبھی بھی ملوث نہیں رہے۔ تاہم جیسا ان سے کہا گیا تھا ویسے ہی انہوں نے چار فروری 2004 کو سٹرٹیجک ڈویژن کی طرف سے دیا جانے والا بیان سرکاری ٹی وی پر جا کر پڑھ دیا۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/images/2009/02/20090206112315qadeer416.jpg
سکیورٹی کی وجہ سے ان کو اپنی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع حکومت کو دینی ہو گی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزاد شہری قرار دیتے ہوئے ان کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے ڈاکٹر قدیر خان کی نظر بندی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے اور انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔
تاہم اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو سکیورٹی معاملات کی وجہ سے اپنی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع حکومت کو دینی ہوگی۔ فیصلے میں مزید کہاگیا ہےکہ ڈاکٹر قدیرخان سکیورٹی میں آزادانہ طور پر آ جا سکیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ حکومت ڈاکٹر قدیر خان کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کرے اور انہیں اظہار رائے، تحقیقاتی کام، اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج اور ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے بارے میں دائر درخواستوں پر عدالت نے یہ احکامات دیے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے گھر میں اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کی اجازت ہوگی تاہم ان افراد کو ملاقات سے پہلے اُن کی سیکورٹی کلیئرنس حاصل کرنا ہوگی۔
اس فیصلے کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں اپنی رہائش گاہ کے باہر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں دیکھا لیکن لگتا ہے کہ نظر بندی ختم ہوگئی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو میڈیا یہاں کیسے پہنچتا۔
ان کا کہنا تھا کہ’اگر پاکستانی حکومت مدد مانگے گی تو میں ضرور مدد کروں گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ان (قدیر خان) کا تعلق صرف پاکستان حکومت کے ساتھ ہے۔
حکومت ڈاکٹر قدیر خان کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کرے اور انہیں اظہار رائے، تحقیقاتی کام، اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج اور ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ
اُنہوں نے کہا کہ اُن کی رہائی میں موجودہ حکومت نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم اُنہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ اس سوال پر کہ کیا وہ اپنی نظر بندی کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ اُنہیں پہلے ہی اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے اس لیے وہ سابق صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے اُنہوں نے جو کچھ بھی کیا اس پر اُنہیں فخر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ وہ کبھی بھی ایٹمی ہتیھاروں کی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں ملوث نہیں رہے اور اُنہیں قربانی کا بکرا بنا کر مفادات حاصل کیے گئے۔
اپنی سکیورٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ایٹمی سائنسدان نے کہا کہ وہ پہلے بھی یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ٹارگٹ پر تھے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ ان کی سیکورٹی کے حوالے سے حکومت تسلی بخش اقدامات کرے گی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ وہ اپنے سابقہ پیشہ وارانہ امور جاری نہیں رکھیں گے اور اب تعلیمی اور فلاحی کاموں پر توجہ دیں گے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل جاوید اقبال جعفری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کو چار سال پہلے ہی ختم کر دینا چاہیے تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ویزا ملنے کی صورت میں بیرون ملک بھی جاسکتےہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے لیے متعدد درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں تھیں جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر کی نظربندی کے خلاف یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود یا اُن کے قریبی رشتہ دار عدالت میں درخواست دائر کریں۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سنہ دو ہزار چار میں پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ایٹمی راز منتقل کرنا ان کا ذاتی فعل تھا اور اس میں حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ملوث نہیں تھا۔جبکہ گزشتہ برس اکتوبر میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا تھا جرنیلوں کے کہنے پر کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک اور خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ انہوں نے ٹیلی وژن پر آکر جوہری توانائی کے پھیلاؤ کے بارے میں جو بیان دیا تھا وہ ملکی مفاد میں تھا حالانکہ وہ اس میں کبھی بھی ملوث نہیں رہے۔ تاہم جیسا ان سے کہا گیا تھا ویسے ہی انہوں نے چار فروری 2004 کو سٹرٹیجک ڈویژن کی طرف سے دیا جانے والا بیان سرکاری ٹی وی پر جا کر پڑھ دیا۔