life
09-19-2011, 11:09 PM
Wasif Ali Wasif
بہار کا مو سم ‘ پیار کا مو سم ‘ گم شدہ چہروں کے دیدار کا موسم ‘ تھل ‘ بیلے ‘ بار کا موسم ‘ پیلُو پکنے کا موسم دراصل وصالِ یار کا موسم بڑے انتظار کے بعد آتا ہے۔ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے ’’پیلو‘‘ کو تکمیلِ عر فان بنا دیا ۔
عشقِ مجا زی سے عشقِ حقیقی تک کا فا صلہ بس’’ پیلو پکنے ‘‘ کی دیر تک ہے ۔ پیلو چننے سے ابتدا ہے ۔سب سنگی سا تھی مل کر چنتے ہیں ‘ پیار کی امر تیاں ‘ محبت کے ’’ پیلو‘‘_____پیلو چنتے چنتے آنکھیں ملتی ہیں ‘ دل ملتے ہیں اور پھر جدا ئی کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے _____پیلو ختم ہو جاتی ہیں اور انتظار شر و ع ہو جا تا ہے ۔ چہر و ں کی سر خیا ں رخصت ہو جاتی ہیں اور انسان ’’ہکا بکا ‘‘ رہنے لگتا ہے۔ پھر کب آئے پیلو کا مو سم ‘اور یا ر مل کے پیلو چنیں ۔
’’آچنوں رَل یار پیلو پکیاں نی وے‘‘
(پیلو پک گئے ‘آؤ یا ر مل کر چنیں )
محبت سے آشنا ‘محبت کی رُوح سے آشنا ‘ محبت کی تا ثیر سے آشنا ‘ محبت کے کر شمو ں سے آشنا ‘ محبت کے اعجا ز سے آشنا لو گ ہر مو سم اور ہر رُت میں پیار کی بہا ر ڈھو نڈھ لیتے ہیں ۔ وہ ہر مجا ز میں حقیقت تلا ش کر لیتے ہیں_____ ہر شے میں جلو ہ تلا ش کر لیتے ہیں ‘ ہر وجو د میں محبو بِ حقیقی کو موجو د پاتے ہیں_____ وہ آشنا ئے راز ہو تے ہیں اور راز آشنا کر نا جا نتے ہیں ۔
اہلِ تصو ف حضر ا ت نے اپنے کلا م میں بڑ ے بڑے عقد ے کشا کیے ہیں ۔ اُن کے سامنے کو ئی معمو لی نظارہ بھی معمو لی نہیں ۔ ہر شے ہی غیر معمو لی ہے ۔ پھو ل کھلے ‘تو وہ غو ر کر تے ہیں کہ پھو ل کی ہستی کیا ہستی ہے ۔ عجیب راز ہے ۔ پھو ل کھلتا ہے ‘ مر جھا جا تا ہے ۔ چند لمحات کے لیے وہ مسکرا یا او ر پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نا معلو م دنیا میں چلا گیا_____ بس انسا ن کی زند گی پھو ل کی مسکرا ہٹ سی ہے ۔ اِدھر آئے اُدھر گئے _____پھو ل اپنی ز ندگی پرکیا اِترائے گا‘ کیافخر کر ے گا
گو ڑھی رنگت دیکھ کر پُھو ل گما ن بھئے
کتنے با غ جہا ن میں لگ لگ سُو کھ گئے
اہلِ با طن دراصل ظا ہر کی اصل کو پہچا نتے ہیں _____ظا ہر کی حقیقت معلو م کر نے والا اہلِ با طن ہے _____ با طن کو ئی نئی دنیا نہیں ‘ اِسی دنیا کا نیا شعو ر ہے _____ما سو ا میں ہی ما ورا کے جلوے ہیں ۔باطن کوئی نئی دنیا نہیں‘ اَسی دنیا کا نیا شعور ہے _____ ماسوا میں ہی ماورا کے جلوے ہیں۔باطن شنا س انسا نی منشا میں خدا ئی منشا کو پہچا نتا ہے _____’’ پیلو ‘‘ چھو ٹا ‘ بہت چھو ٹا جنگلی پھل سمجھ لیں_____ پیلو کا کھا نا اتنا پُر لطف نہیں‘ جتنا پیلو چننا ۔
پیلو چنتے چنتے انسا ن اپنا مقدر چنتا ہے اورپھر_____’’ہکا بکا ‘‘ رہ جا تا ہے کہ اس نے کیا چا ہا اور کیا مل گیا_____ پیلو چنتے ہی یا ر آشنا ہو گیا_____ اور محبت سے شنا سا ئی ہوئی_____ محبت فرا ق سے گزر ی _____پیلو چننے والی سنگتیں جُدا ہو جا تی ہیں_____اور فراق تھل’’ سُنجا ‘‘نظر آتا ہے_____طا لب وہیں رو ہی بیلے میں روتا رہتا ہے اور محبوب پیلو کی رُت کے ساتھ ہی غا ئب ہو جا تا ہے ۔ جلوہ رخصت ہوا‘ لیکن خیرہ آنکھ حیرت کے تھل میں گم ہو گئی _____اس نے کیا دیکھ لیا کہ پھر کچھ دیکھنے کی آرزو ہی نہ رہی _____ اس نے کیا سُن لیا کہ اب کچھ اور سننے کی تاب ہی نہ رہی ۔ وصال آشنا فراق کے دشتِ بے اماں گُم ہو جا تا ہے ۔
اور پھر رُت بد لتی ہے ‘ مو سم آتے ہیں ‘ پیلو پکتی ہیں اور اب پیلو کچھ اور ہیں ‘ بہار کچھ اور ہے ‘ وصال کچھ اور ہے ‘ وصال کُچھ اور ہے ‘ یار کچھ اور ہے ‘ جلوہ کچھ اور ہے _____ اب وہ وصال ہے ‘جس کا فراق نہیں۔ وہ حا صل ہے‘ جو کبھی ختم نہیں ہو تا ۔ فر ید کہہ اُ ٹھتا ہے کہ دنیا جس کو تلاش کر تی ہے‘ وہ تو فر ید کے پاس ہے۔ ہر دم ‘ ہر آن ‘ ہر رنگ ‘ ہر انداز _____مجاز حقیقت بن چکا ہو تا ہے _____ اب تھل ‘ جل تھل ہو جاتا ہے ۔
صو فیاء نے اپنے شعر کو عر فان رنگ بنا کر اُس سے وہ کام لیا‘ جوبڑے بڑے علماء تقریروں سے نہ لے سکے ۔ نعت کے چند اشعار انسان میں عشقِ نبیؐ کے جلوے پیدا کر سکتے ہیں ‘ صو فیا نے قلوب کو گرمایا ‘ جلوہ آشنا کیا‘ اور بندوں کو حق کے تقرب سے آشنا کر دیا۔
اللہ بے مثل و بے مثال ہے۔ اسے کسی شے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی_____ بجا ہے ‘ درست ہے ‘ لیکن طا لبانِ حق کو جب یہ سنا یا جا ئے کہ
الف اللہ چنبے دی بو ٹی مُر شد من وِچ لا ئی ہُو
یعنی اللہ ایک خوشبو دار چنبے کی بو ٹی ہے اور مر شد ہی مر ید کے دل میں عشقِ الٰہی کا خو شبو دار پودا لگا تا ہے _____بات سمجھ میں آتی ہے کی تو حید صرف علم ہی نہیں ‘ اس علم کا کو ئی عمل بھی ہے ۔
پیار کی فصلیں ‘ پیار کی پیلو پکتے پکتے طا لب کو واصل کر دیتی ہیں_____عجب حال ہے ۔ اسی دُنیا اور دنیا کی انہی رو نقوں اور جلوؤں سے جلوۂ حق دریافت کر نا ہو تا ہے _____چمگا دڑوں کا جلوۂ آفتاب کبھی نظر ہی نہیں آیا _____ اس میں رو شنی کا کیا قصور ۔ تن کی دنیا میں ہی من کی دنیا آباد ہے ۔ اگر یہ نہیں‘ تو وہ بھی نہیں ۔آنکھ نہ ہو تو جلوہ کیسا۔ ذہن نہ ہو تو خیال آرائی کیسی ۔ دل نہ ہو تو دلبر ی کیا ۔ لذتِ جبیں سا ئی نہ ہو تو سنگِ درِیا کا کیا قصور ۔ ذوقِ بند گی نہ ہو تو بندہ نوا زی کا لطف کو ن حاصل کر ے گا_____ لینے وا لا ہی نہ ہو تو دینے وا لا کیا کر ے _____پتھر دل پر یت کو کیاجا نے_____ ہوسِ زر پر ستی حق پر ستی کیسے بنے _____جس دل میں نفرت اور کینے کے پھو ڑے پک ر ہے ہوں ‘ وہ کیا جا نے کہ پیلو پکنے کا کیا مفہوم ہے_____ پیلو چنتے چنتے حیرت کے جلوے میں انسان ہکا بکا کب ہو جا تا ہے ۔ جلوۂ محبوب جا بجا دیکھنے وا لے اور ہو تے ہیں_____ وہ دل اور ہیں ‘ وہ نگا ہیں اور ہیں ‘ وہ رو حیں اور ہیں اور بہت ہی اور ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں سب اسی کے رنگ ہیں
جان من با کمال رعنائی
خود تماشا و خود تماشائی
وہ جا نتے ہیں کہ حُسن کے جلوے مو جود ہیں_____ یہ سب جلوے کسی اور کے ہیں_____ یہ سب نیر نگ کسی اور ذات کے ہیں_____ پہاڑو ں سے نکلنے وا لے در یا سمندر کے لیے پیا سے ہو تے ہیں اور یہ کنارو ں کی پیا س بجھا تے ہو ئے اپنے محبوب سا گر سے وا صل ہو کر اپنی پیاس بجھا تے ہیں_____ یہ سب پر یم نگر ہے ۔محبت نہ ہو ‘ تو چا ند چا ند نہ ر ہے اور چکور چکو ر نہ رہے_____ تعلق سے دنیا قا ئم ہے ۔
یہ نظا م صر ف معاشیا ت اور ارتقا کانظام ہی نہیں‘ بلکہ یہ حسن و جمال کی دنیا ہے ‘ یہ حسنِ خیال کی دنیا ہے ‘ یہ جلوۂ لا زوال کی دنیا ہے _____اس میں محبت کے پیلو ہیں_____پیلو چننے کے مو سم ہیں ۔ چننے والی ’’سنگتیں ‘‘ ہیں اور محبت کے جلو ے ہیں _____ارتقا ئے محبت ہے _____ اورعرفان وایقان کی منا زل ہیں _____یا ریار کے قر یب آئے ‘ بیلے پر بہار آئے_____ اور پھر فراق زدہ دل کو قرارآئے _____خواجہ غلام فر ید رحمتہ اللہ علیہ سچ کہتے ہیں
آیاں پیلو چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ آرام قرار__ہکیاں بکیاں نی وے
آچنوں رَل یار___پیلو پکیاں نی وے
یعنی سب سنگتیں سب سہیلیا ں پیلو چننے کے بہا نے اکٹھی ہو ئیں_____اوّل اوّل تو شوقِ ملا قا ت تھا اور انجام کار سب فریدن جیسی ہو گئیں _____یعنی آرام قرار سے بیگا نہ_____ ہکا بکا _____ حیرت زدہ_____ہوش سے دست بردار ۔ بس یہ سب پیلو کا کر شمہ ہے ‘ آرزو اور محبت اور وصالِ یار کے جلوے ہیں کہ ان کی منزل فراق اور وصال سے بہت آگے ہے _____حیرت ہی حیرت ‘ تحیرہی تحیر۔معمولی سی بات‘ کتنا غیر معمولی نتیجہ______ ایک خوشی کا میلہ اور آخر کار حقیقت آشنا فر ید رحمتہ اللہ علیہ ‘ صرف اکیلا_____ حیران و سر گرداں ‘ روہی کا تنہا مسافر ‘ قدم قدم پر رو نے والا جلوے کے تقرب میں خود سے بھی دُور جا پہنچا_____ایسی منزل ‘جس میں پیلو پکتی ہیں ‘ بہا ریں آتی ہیں ‘ سنگتیں آتی ہیں لیکن دل میں دشت کی وسعت اور صحرا کی پیاس ہے _____کو ئی یار ہو کہ جس کے ہمراہ پیلوچُنی جائیں _____ کو ئی ہمراز ہو جس سے درد بیان کیا جا ئے ‘ کو ئی درد شناس ہو جس سے دل کی بات کہی جا ئے _____
فر ید نے پیلو کیا چنیں ‘ دردچُن لیا ۔ ایسادرد جس کا مداوا بھی وہ خود ہی ہے ۔ ایسا سفر جس کا انجام بھی سفر ہے ‘ جس کی منزل ایک نئی مسافرت ہے ۔ ایساراز کہ بیان بھی ہو اور فاش بھی نہ ہو ۔ ایسا یار ملا کہ شاہ رگ سے قر یب ہو اور نگاہو ں سے اوجھل ہو ۔ یہ انعام ہے کہ سزا ‘ جو کچھ بھی ہے ‘لطف ہے۔ اس کا الطاف ہے ‘ جو درد بن کے ساتھ رہتا ہے ‘ محسوس ہو تا ہے لیکن نظر نہیں آتا _____ جو جلوہ بن کر دل سے گزرتا ہے اور آنسو بن کر آنکھ سے ٹپکتا ہے ۔
پیلو پک گئے اور عرفان کی منزل طے ہو گئی _____فر ید درد مز ید ما نگتا ہے اور پیلو چنتا رہتا ہے _____ عجب رنگ سے نیر نگ نے بے رنگ کی راہ دکھا ئی _____بہار ہی بہار ‘ ہر طرف یار ہی یار ‘ ہمہ وقت دیدار ہی دیدار_____ ہکا بکا فر ید جنگل ‘ رو ہی ‘ بیلے میں اکیلے سفر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رواں دواں ‘ ’’ ہر جا عین ظہور ‘‘ کے جلووں سے مسحور ‘ اس کی یاد میں گم جو پیلو کے مو سم میں ملا اور ہر موسم کو پیلو کا موسم بناگیا_____ فر ید کی خزاں سدا بہار ہے۔ اس پر مخفی راز آشکار ہے_____ جتنا آشکار ہے ‘ اتنا ہی پُر اسرار ہے _____کو ئی فر ید کا یار ہو ‘ تو جانے کہ فر ید نے ’’پیلو‘‘ کے موسم میں کیا کیا دیکھا _____کیا کھو یا کیا پایا _____سب کچھ نثار کیا اور سب کچھ پا لیا ۔ فر ید نے اپنی ذات نثار کی اور حسن کی ذات کا عرفان پایا_____پیلو کی رُت فر ید کی عید ہے !!
بہار کا مو سم ‘ پیار کا مو سم ‘ گم شدہ چہروں کے دیدار کا موسم ‘ تھل ‘ بیلے ‘ بار کا موسم ‘ پیلُو پکنے کا موسم دراصل وصالِ یار کا موسم بڑے انتظار کے بعد آتا ہے۔ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے ’’پیلو‘‘ کو تکمیلِ عر فان بنا دیا ۔
عشقِ مجا زی سے عشقِ حقیقی تک کا فا صلہ بس’’ پیلو پکنے ‘‘ کی دیر تک ہے ۔ پیلو چننے سے ابتدا ہے ۔سب سنگی سا تھی مل کر چنتے ہیں ‘ پیار کی امر تیاں ‘ محبت کے ’’ پیلو‘‘_____پیلو چنتے چنتے آنکھیں ملتی ہیں ‘ دل ملتے ہیں اور پھر جدا ئی کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے _____پیلو ختم ہو جاتی ہیں اور انتظار شر و ع ہو جا تا ہے ۔ چہر و ں کی سر خیا ں رخصت ہو جاتی ہیں اور انسان ’’ہکا بکا ‘‘ رہنے لگتا ہے۔ پھر کب آئے پیلو کا مو سم ‘اور یا ر مل کے پیلو چنیں ۔
’’آچنوں رَل یار پیلو پکیاں نی وے‘‘
(پیلو پک گئے ‘آؤ یا ر مل کر چنیں )
محبت سے آشنا ‘محبت کی رُوح سے آشنا ‘ محبت کی تا ثیر سے آشنا ‘ محبت کے کر شمو ں سے آشنا ‘ محبت کے اعجا ز سے آشنا لو گ ہر مو سم اور ہر رُت میں پیار کی بہا ر ڈھو نڈھ لیتے ہیں ۔ وہ ہر مجا ز میں حقیقت تلا ش کر لیتے ہیں_____ ہر شے میں جلو ہ تلا ش کر لیتے ہیں ‘ ہر وجو د میں محبو بِ حقیقی کو موجو د پاتے ہیں_____ وہ آشنا ئے راز ہو تے ہیں اور راز آشنا کر نا جا نتے ہیں ۔
اہلِ تصو ف حضر ا ت نے اپنے کلا م میں بڑ ے بڑے عقد ے کشا کیے ہیں ۔ اُن کے سامنے کو ئی معمو لی نظارہ بھی معمو لی نہیں ۔ ہر شے ہی غیر معمو لی ہے ۔ پھو ل کھلے ‘تو وہ غو ر کر تے ہیں کہ پھو ل کی ہستی کیا ہستی ہے ۔ عجیب راز ہے ۔ پھو ل کھلتا ہے ‘ مر جھا جا تا ہے ۔ چند لمحات کے لیے وہ مسکرا یا او ر پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نا معلو م دنیا میں چلا گیا_____ بس انسا ن کی زند گی پھو ل کی مسکرا ہٹ سی ہے ۔ اِدھر آئے اُدھر گئے _____پھو ل اپنی ز ندگی پرکیا اِترائے گا‘ کیافخر کر ے گا
گو ڑھی رنگت دیکھ کر پُھو ل گما ن بھئے
کتنے با غ جہا ن میں لگ لگ سُو کھ گئے
اہلِ با طن دراصل ظا ہر کی اصل کو پہچا نتے ہیں _____ظا ہر کی حقیقت معلو م کر نے والا اہلِ با طن ہے _____ با طن کو ئی نئی دنیا نہیں ‘ اِسی دنیا کا نیا شعو ر ہے _____ما سو ا میں ہی ما ورا کے جلوے ہیں ۔باطن کوئی نئی دنیا نہیں‘ اَسی دنیا کا نیا شعور ہے _____ ماسوا میں ہی ماورا کے جلوے ہیں۔باطن شنا س انسا نی منشا میں خدا ئی منشا کو پہچا نتا ہے _____’’ پیلو ‘‘ چھو ٹا ‘ بہت چھو ٹا جنگلی پھل سمجھ لیں_____ پیلو کا کھا نا اتنا پُر لطف نہیں‘ جتنا پیلو چننا ۔
پیلو چنتے چنتے انسا ن اپنا مقدر چنتا ہے اورپھر_____’’ہکا بکا ‘‘ رہ جا تا ہے کہ اس نے کیا چا ہا اور کیا مل گیا_____ پیلو چنتے ہی یا ر آشنا ہو گیا_____ اور محبت سے شنا سا ئی ہوئی_____ محبت فرا ق سے گزر ی _____پیلو چننے والی سنگتیں جُدا ہو جا تی ہیں_____اور فراق تھل’’ سُنجا ‘‘نظر آتا ہے_____طا لب وہیں رو ہی بیلے میں روتا رہتا ہے اور محبوب پیلو کی رُت کے ساتھ ہی غا ئب ہو جا تا ہے ۔ جلوہ رخصت ہوا‘ لیکن خیرہ آنکھ حیرت کے تھل میں گم ہو گئی _____اس نے کیا دیکھ لیا کہ پھر کچھ دیکھنے کی آرزو ہی نہ رہی _____ اس نے کیا سُن لیا کہ اب کچھ اور سننے کی تاب ہی نہ رہی ۔ وصال آشنا فراق کے دشتِ بے اماں گُم ہو جا تا ہے ۔
اور پھر رُت بد لتی ہے ‘ مو سم آتے ہیں ‘ پیلو پکتی ہیں اور اب پیلو کچھ اور ہیں ‘ بہار کچھ اور ہے ‘ وصال کچھ اور ہے ‘ وصال کُچھ اور ہے ‘ یار کچھ اور ہے ‘ جلوہ کچھ اور ہے _____ اب وہ وصال ہے ‘جس کا فراق نہیں۔ وہ حا صل ہے‘ جو کبھی ختم نہیں ہو تا ۔ فر ید کہہ اُ ٹھتا ہے کہ دنیا جس کو تلاش کر تی ہے‘ وہ تو فر ید کے پاس ہے۔ ہر دم ‘ ہر آن ‘ ہر رنگ ‘ ہر انداز _____مجاز حقیقت بن چکا ہو تا ہے _____ اب تھل ‘ جل تھل ہو جاتا ہے ۔
صو فیاء نے اپنے شعر کو عر فان رنگ بنا کر اُس سے وہ کام لیا‘ جوبڑے بڑے علماء تقریروں سے نہ لے سکے ۔ نعت کے چند اشعار انسان میں عشقِ نبیؐ کے جلوے پیدا کر سکتے ہیں ‘ صو فیا نے قلوب کو گرمایا ‘ جلوہ آشنا کیا‘ اور بندوں کو حق کے تقرب سے آشنا کر دیا۔
اللہ بے مثل و بے مثال ہے۔ اسے کسی شے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی_____ بجا ہے ‘ درست ہے ‘ لیکن طا لبانِ حق کو جب یہ سنا یا جا ئے کہ
الف اللہ چنبے دی بو ٹی مُر شد من وِچ لا ئی ہُو
یعنی اللہ ایک خوشبو دار چنبے کی بو ٹی ہے اور مر شد ہی مر ید کے دل میں عشقِ الٰہی کا خو شبو دار پودا لگا تا ہے _____بات سمجھ میں آتی ہے کی تو حید صرف علم ہی نہیں ‘ اس علم کا کو ئی عمل بھی ہے ۔
پیار کی فصلیں ‘ پیار کی پیلو پکتے پکتے طا لب کو واصل کر دیتی ہیں_____عجب حال ہے ۔ اسی دُنیا اور دنیا کی انہی رو نقوں اور جلوؤں سے جلوۂ حق دریافت کر نا ہو تا ہے _____چمگا دڑوں کا جلوۂ آفتاب کبھی نظر ہی نہیں آیا _____ اس میں رو شنی کا کیا قصور ۔ تن کی دنیا میں ہی من کی دنیا آباد ہے ۔ اگر یہ نہیں‘ تو وہ بھی نہیں ۔آنکھ نہ ہو تو جلوہ کیسا۔ ذہن نہ ہو تو خیال آرائی کیسی ۔ دل نہ ہو تو دلبر ی کیا ۔ لذتِ جبیں سا ئی نہ ہو تو سنگِ درِیا کا کیا قصور ۔ ذوقِ بند گی نہ ہو تو بندہ نوا زی کا لطف کو ن حاصل کر ے گا_____ لینے وا لا ہی نہ ہو تو دینے وا لا کیا کر ے _____پتھر دل پر یت کو کیاجا نے_____ ہوسِ زر پر ستی حق پر ستی کیسے بنے _____جس دل میں نفرت اور کینے کے پھو ڑے پک ر ہے ہوں ‘ وہ کیا جا نے کہ پیلو پکنے کا کیا مفہوم ہے_____ پیلو چنتے چنتے حیرت کے جلوے میں انسان ہکا بکا کب ہو جا تا ہے ۔ جلوۂ محبوب جا بجا دیکھنے وا لے اور ہو تے ہیں_____ وہ دل اور ہیں ‘ وہ نگا ہیں اور ہیں ‘ وہ رو حیں اور ہیں اور بہت ہی اور ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں سب اسی کے رنگ ہیں
جان من با کمال رعنائی
خود تماشا و خود تماشائی
وہ جا نتے ہیں کہ حُسن کے جلوے مو جود ہیں_____ یہ سب جلوے کسی اور کے ہیں_____ یہ سب نیر نگ کسی اور ذات کے ہیں_____ پہاڑو ں سے نکلنے وا لے در یا سمندر کے لیے پیا سے ہو تے ہیں اور یہ کنارو ں کی پیا س بجھا تے ہو ئے اپنے محبوب سا گر سے وا صل ہو کر اپنی پیاس بجھا تے ہیں_____ یہ سب پر یم نگر ہے ۔محبت نہ ہو ‘ تو چا ند چا ند نہ ر ہے اور چکور چکو ر نہ رہے_____ تعلق سے دنیا قا ئم ہے ۔
یہ نظا م صر ف معاشیا ت اور ارتقا کانظام ہی نہیں‘ بلکہ یہ حسن و جمال کی دنیا ہے ‘ یہ حسنِ خیال کی دنیا ہے ‘ یہ جلوۂ لا زوال کی دنیا ہے _____اس میں محبت کے پیلو ہیں_____پیلو چننے کے مو سم ہیں ۔ چننے والی ’’سنگتیں ‘‘ ہیں اور محبت کے جلو ے ہیں _____ارتقا ئے محبت ہے _____ اورعرفان وایقان کی منا زل ہیں _____یا ریار کے قر یب آئے ‘ بیلے پر بہار آئے_____ اور پھر فراق زدہ دل کو قرارآئے _____خواجہ غلام فر ید رحمتہ اللہ علیہ سچ کہتے ہیں
آیاں پیلو چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ آرام قرار__ہکیاں بکیاں نی وے
آچنوں رَل یار___پیلو پکیاں نی وے
یعنی سب سنگتیں سب سہیلیا ں پیلو چننے کے بہا نے اکٹھی ہو ئیں_____اوّل اوّل تو شوقِ ملا قا ت تھا اور انجام کار سب فریدن جیسی ہو گئیں _____یعنی آرام قرار سے بیگا نہ_____ ہکا بکا _____ حیرت زدہ_____ہوش سے دست بردار ۔ بس یہ سب پیلو کا کر شمہ ہے ‘ آرزو اور محبت اور وصالِ یار کے جلوے ہیں کہ ان کی منزل فراق اور وصال سے بہت آگے ہے _____حیرت ہی حیرت ‘ تحیرہی تحیر۔معمولی سی بات‘ کتنا غیر معمولی نتیجہ______ ایک خوشی کا میلہ اور آخر کار حقیقت آشنا فر ید رحمتہ اللہ علیہ ‘ صرف اکیلا_____ حیران و سر گرداں ‘ روہی کا تنہا مسافر ‘ قدم قدم پر رو نے والا جلوے کے تقرب میں خود سے بھی دُور جا پہنچا_____ایسی منزل ‘جس میں پیلو پکتی ہیں ‘ بہا ریں آتی ہیں ‘ سنگتیں آتی ہیں لیکن دل میں دشت کی وسعت اور صحرا کی پیاس ہے _____کو ئی یار ہو کہ جس کے ہمراہ پیلوچُنی جائیں _____ کو ئی ہمراز ہو جس سے درد بیان کیا جا ئے ‘ کو ئی درد شناس ہو جس سے دل کی بات کہی جا ئے _____
فر ید نے پیلو کیا چنیں ‘ دردچُن لیا ۔ ایسادرد جس کا مداوا بھی وہ خود ہی ہے ۔ ایسا سفر جس کا انجام بھی سفر ہے ‘ جس کی منزل ایک نئی مسافرت ہے ۔ ایساراز کہ بیان بھی ہو اور فاش بھی نہ ہو ۔ ایسا یار ملا کہ شاہ رگ سے قر یب ہو اور نگاہو ں سے اوجھل ہو ۔ یہ انعام ہے کہ سزا ‘ جو کچھ بھی ہے ‘لطف ہے۔ اس کا الطاف ہے ‘ جو درد بن کے ساتھ رہتا ہے ‘ محسوس ہو تا ہے لیکن نظر نہیں آتا _____ جو جلوہ بن کر دل سے گزرتا ہے اور آنسو بن کر آنکھ سے ٹپکتا ہے ۔
پیلو پک گئے اور عرفان کی منزل طے ہو گئی _____فر ید درد مز ید ما نگتا ہے اور پیلو چنتا رہتا ہے _____ عجب رنگ سے نیر نگ نے بے رنگ کی راہ دکھا ئی _____بہار ہی بہار ‘ ہر طرف یار ہی یار ‘ ہمہ وقت دیدار ہی دیدار_____ ہکا بکا فر ید جنگل ‘ رو ہی ‘ بیلے میں اکیلے سفر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رواں دواں ‘ ’’ ہر جا عین ظہور ‘‘ کے جلووں سے مسحور ‘ اس کی یاد میں گم جو پیلو کے مو سم میں ملا اور ہر موسم کو پیلو کا موسم بناگیا_____ فر ید کی خزاں سدا بہار ہے۔ اس پر مخفی راز آشکار ہے_____ جتنا آشکار ہے ‘ اتنا ہی پُر اسرار ہے _____کو ئی فر ید کا یار ہو ‘ تو جانے کہ فر ید نے ’’پیلو‘‘ کے موسم میں کیا کیا دیکھا _____کیا کھو یا کیا پایا _____سب کچھ نثار کیا اور سب کچھ پا لیا ۔ فر ید نے اپنی ذات نثار کی اور حسن کی ذات کا عرفان پایا_____پیلو کی رُت فر ید کی عید ہے !!