PDA

View Full Version : Shadi ki aur bivi ko waldain k paas chor diya


PRINCE SHAAN
09-19-2011, 08:44 AM
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اُس شخص کا شرعی حکم کیا ہے کہ جس نے شادی کی اور اپنی بیوی کو اُسکے والدین کے پاس چھوڑ دیا؟

ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ

سوال نمبر: ۳۳۰
تاریخ: ١۷۔١۰۔۲۰۰۹
موضوع : فقہ اور اسکے اصول
جواب منجانب : منبر التوحید والجہاد کی شرعی کمیٹی

سوال: اس ویب سائٹ (التوحید والجہاد) میں کام کرنے والے بھائیوں اور اُن میں سرفہرست (ابو محمد المقدسی حفظ اللہ) کی خدمت میں میرا سلام پیش ہے۔

اُس شخص کا کیا حکم ہے کہ جس نے شادی کی اور اپنی بیوی کو اُسکے والدین کے پاس چھوڑ دیا، مگر اُس کی بیوی نے سنا کہ وہ جہاد کے لیئے چلا گیا اور اُس (بیوی) نے کہا کہ اُس شخص نے مجھے دھوکا دیا ہے۔

اور طواغیت مثلاً پولیس اور فوج کے سامنے مجاہدین کو گالی دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

اور کیا الجزائر میں جہاد طلب ہے یا جہاد دفاع؟

سائل: بلال الحبشی

جواب: میرے سائل بھائی ۔۔۔ اللہ تعالی، آپ کو برکت دے ۔

جس نے ایسا کیا، اُس پر کوئی حرج نہیں بلکہ وہ تو اللہ اور اُسکے رسول کا فرمانبردار ہے۔ جس نے اِسکی طرف ہجرت کی، اللہ کی راہ کا مجاہد ہے۔ انشاء اللہ اُسے جہاد کا ثواب ملے گا۔

کیونکہ ہمارے اِس زمانے میں جہاد فرض عین ہوچکا ہے۔ اگر دشمن نے آپ کے ملک پر حملہ نہیں بھی کیا، تو بھی آپ کے اردگرد مسلمان بھائیوں کو آپکی ضرورت ہے۔ اور اِس نوعیت (فرض عین) کے جہاد میں نہ تو اجازت کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی کسی کو بتانے کی۔

لہذا اُس شخص کا اپنی بیوی کو بتائے بغیر جہاد کیلئے نکلنے میں کوئی حرج نہیں۔ اُسکی بیوی کو اپنے شوہر کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیئے اور اُس کے لیئے دعا کرنی چاہیئے۔

رہا مسئلہ، طواغیت اور اُنکے مددگاروں کے شر سے بچنے کے لیئے مجاہدین کو برا بھلا کہنا مجبوری ہے، اِس پر کوئی حرج نہیں۔ اگر اُسکا دل ایمان، مجاہدین اور جہاد کی محبت سے مطمئن ہو۔

اور عمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے اُسوقت تک نہیں چھوڑا، جب تک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو برا بھلا نہیں کہا۔ تو اللہ تعالی نے اُنکے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے ۔ (سورة النحل ۔ ١۰٦)

لیکن ضرورت کے مطابق یعنی اگر اُس سے کسی متعیّن شخص کو گالی دینے پر مجبور کیا گیا ہو، تو اُسے مزید کھلنا نہیں چاہیئے کہ سب کو ہی گالیاں دینا شروع کردے۔ اِسی طرح کسی عام آدمی کو برا بھلا کہنے میں شاید زیادہ احتیاط نہ کرے، تو کوئی حرج نہیں۔ مگر کسی عالم، فاضل، شیخ کو اتنی آسانی سے برا بھلا کہنے میں زیادہ احتیاط کرے اور یہ بھی اُس وقت جب اُسے اِس پر مجبور کیا گیا ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:

…..فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ: ۔۔۔۔ مگر جو لاچار ہوجائے، نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو، تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ تعالی بخشنے والا رحم والا ہے۔ (سورة البقرة۔ ١۷۳)

رہا مسئلہ، الجزائر میں جہاد کا، تو وہاں کس طرح جہاد طلب ہوسکتا ہے؟ کہاں ہے وہ اسلامی مملکت، جو اپنے دشمنوں کا پیچھا کرتے ہوئے اُنکی طلب میں نکلے؟

یہ جہاد دفاع کے لیئے ہے۔ یقیناً اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ جیسا کہ ابن الحجر نے فتح الباری وغیرہ میں اِس پر دلیل دی ہے۔ واللہ اعلم۔

جواب منجانب: الشیخ ابو اسامہ الشامی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف،یونی کوڈ
http://www.mediafire.com/?5udt8dn988km9t6 (http://www.mediafire.com/?5udt8dn988km9t6)

Miss Habib
09-19-2011, 12:29 PM
nice sharing shaann
JazakAllah

lekin mujhe pehlay wale jawab per thora doubt he

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.