ROSE
08-22-2011, 12:48 PM
شب قدر کی تلاش
اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے۔ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔
_______________________________________________
انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر ۔ وما ادرٰک ما لیلۃ القدر۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر
_______________________________________________
ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
________________________________________________
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں*میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں جس آدمی نے اس سے لو لگائی، اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کر لی۔ کیونکہ اس رات بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ* نے بنی نوع انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لیے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا، گویا اس نے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدر و قیمت کا احساس موجود ہے۔
________________________________________________
لیلۃ القدر کی تلاش میں حکمت
________________________________________________
اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ لیلۃ القدر کے متعلق یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ کون سی رات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے وہ بس یہ ہے
کہ
________________________________________________
رہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ یعنی وہ رات اکیسویں ہو سکتی ہے بائسویں نہیں، تیسویں ہو سکتی ہے چوبیسویں نہیں وعلیٰ ہٰذالقیاس۔ وہ آخری عشرے کی طاق رات ہے
_______________________________________________۔
یہ فرمانے کے بعد اس بات کو بغیر تعین کے چھوڑ دیا گیا کہ وہ کون سی رات ہے۔ عام طور پر لوگ ستائسویں رمضان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ لیلۃ القدر ہے۔ لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ رمضان کی ستائسویں شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ جو بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔
________________________________________________
لیلۃ القدر کا قطعی تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہر طاق رات میں اس امید پر اللہ کے حضور کھڑا ہو کر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہے۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پائی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھا وہ چیز اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند راتیں اللہ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کا موجب بنیں گی۔
________________________________________________
اس مقام پر ایک اور بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ چونکہ ساری دننا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آ گئی ہے۔ اس لیے ایک طالب صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہئے۔
_______________________________________________
رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی اس لیے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ اسے ان میں*کبھی نہ کبھی وہ رات لازما مل جائے گی۔
________________________________________________
بڑی محرومی
________________________________________________
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:*جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا، وہ بس محروم ہی رہا (احمد، نسائی
__________________________________________________ ______________________________________________
(۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآن مجید کی اس نعمت عظمٰی کا احساس ہی نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی۔
_______________________________________________
اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضرور رات کے وقت عبادت کے لیے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتا کہ اے اللہ ! یہ تیرا احسان عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے روٹی اور پہنے کے لیے لباس عنایت فرمایا۔
__________________________________________________ ______________________________________________
لیکن تیرا اصل احسان عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تو نے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علم حقیقت کی وہ روشن شمع عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کر سکوں۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہو گا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو گا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا۔
__________________________________________________ ______________________________________________
لیکن جو شخص اس رات میں ادائے شکر کے لیے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور درحقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔
اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے۔ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔
_______________________________________________
انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر ۔ وما ادرٰک ما لیلۃ القدر۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر
_______________________________________________
ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
________________________________________________
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں*میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں جس آدمی نے اس سے لو لگائی، اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کر لی۔ کیونکہ اس رات بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ* نے بنی نوع انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لیے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا، گویا اس نے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدر و قیمت کا احساس موجود ہے۔
________________________________________________
لیلۃ القدر کی تلاش میں حکمت
________________________________________________
اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ لیلۃ القدر کے متعلق یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ کون سی رات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے وہ بس یہ ہے
کہ
________________________________________________
رہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ یعنی وہ رات اکیسویں ہو سکتی ہے بائسویں نہیں، تیسویں ہو سکتی ہے چوبیسویں نہیں وعلیٰ ہٰذالقیاس۔ وہ آخری عشرے کی طاق رات ہے
_______________________________________________۔
یہ فرمانے کے بعد اس بات کو بغیر تعین کے چھوڑ دیا گیا کہ وہ کون سی رات ہے۔ عام طور پر لوگ ستائسویں رمضان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ لیلۃ القدر ہے۔ لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ رمضان کی ستائسویں شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ جو بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔
________________________________________________
لیلۃ القدر کا قطعی تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہر طاق رات میں اس امید پر اللہ کے حضور کھڑا ہو کر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہے۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پائی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھا وہ چیز اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند راتیں اللہ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کا موجب بنیں گی۔
________________________________________________
اس مقام پر ایک اور بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ چونکہ ساری دننا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آ گئی ہے۔ اس لیے ایک طالب صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہئے۔
_______________________________________________
رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی اس لیے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ اسے ان میں*کبھی نہ کبھی وہ رات لازما مل جائے گی۔
________________________________________________
بڑی محرومی
________________________________________________
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:*جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا، وہ بس محروم ہی رہا (احمد، نسائی
__________________________________________________ ______________________________________________
(۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآن مجید کی اس نعمت عظمٰی کا احساس ہی نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی۔
_______________________________________________
اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضرور رات کے وقت عبادت کے لیے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتا کہ اے اللہ ! یہ تیرا احسان عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے روٹی اور پہنے کے لیے لباس عنایت فرمایا۔
__________________________________________________ ______________________________________________
لیکن تیرا اصل احسان عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تو نے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علم حقیقت کی وہ روشن شمع عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کر سکوں۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہو گا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو گا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا۔
__________________________________________________ ______________________________________________
لیکن جو شخص اس رات میں ادائے شکر کے لیے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور درحقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔