)*¤° ąℓɨƶą ąhʍ€ď °¤*(
08-03-2011, 12:25 PM
http://towardshuda.files.wordpress.com/2011/01/bismillah2.gif
الحمد للہ
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { ماہ رمضان وہ ہےجس میں قرآن مجید اتارا گیا جولوگوں کو ھدایت کرنے والا ہے اورجس میں ھدایت کی اورحق و باطل کی تمیز کی نشانیان ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیۓ ، ہاں جوبیمار ہویا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ، اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکر کرو } البقرۃ ( 185 ) ۔
یہ موسم اوررمضان المبارک کا مہینہ خیر وبرکت اورعبادت واطاعت کا عظیم موسم ہے ، یہ بڑی عظمت والا مہینہ ، اورایک عزت وتکریم والے ایام ہیں جس میں نیکیاں بڑھتی ہیں ، اوربرائياں بھی بڑھتی ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھلتے اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔
اس مہینہ میں گنہگاروں اورمعصیت کا ارتکاب کرنے والوں کی توبہ قبول کی جاتی ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورآخری ایام جہنم سے آزادی کے ہیں ۔
خیروبرکت کے اس موسم میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اللہ تعالی نے تمہیں جوخصوصی انعام وفضل دیا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکربجا لاؤ ، اس مہینہ کے شرف وفضل کے اوقات کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت والے کام میں مشغول رہو ، حرام کاموں سے اجتناب کرو تا کہ زندگی میں سعادت حاصل کرسکو اورموت کے بعد بھی سعادت حاصل ہو ۔
پکے اورسچے مومن کے لیے توہرمہینہ ہی عبادت واطاعت کا موسم ہوتا ہے ، لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کی ہمت بڑھ جاتی ہے اورعبادت کے لیے اس کا دل زیادہ نشیط اورچست ہوجاتا ہے ، وہ اپنے پروردگار کی ہربات قبول کرتا ہے ، ہمارا رب اور الہ بڑا ہی کریم ورحیم ہے وہ اپنی رحمت سے مومنوں کے روزوں کی نیکیاں زيادہ اورانہیں ان کے اعمال کا بہتر اجر عطا فرماتا ہے۔
آج کی رات کل رات سے کتنی مشابہ ہے ۔۔۔
یہ دن کتنی تيزرفتاری سے گزر رہے ہیں گویا کہ چند لحظات تھے ابھی ہم نے کچھ عرصہ قبل رمضان المبارک کا استقبال کیا اورپھر اسے الوداع بھی کیا اوراب کچھ ہی مدت گزرنے کے بعد ایک بار پھر رمضان المبارک کا استقبال کرنے کی تیاری میں ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ میں اعمال صالحہ کرنے میں جلدی کریں ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی رضا مندی والے کام کریں اورایسے کام کرنے پرحرص رکھیں جوروزقیامت ہماری سعادت کا باعث ہوں ۔
رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کریں ؟
رمضان المبارک کی تیاری کے لیے انسان کواپنا محاسبہ کرنا چاہیےکہ اس نے کلمہ طیبہ کے تقاضہ کے مطابق عمل کیے ہیں یا کہ واجبات وفرائض میں کچھ کمی وکوتاہی کی ہے اورخواہشات وشبھات پرعمل پیرا رہا ہے ؟
لھذا مسلمان کورمضان المبارک میں اعلی درجہ کے ایمان پر فائز ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی ہے ، مسلمان کا ایمان اطاعت کرنے سے زيادہ اورقوی ہوتا ہے ، لیکن اگر نافرمانی کی جائے تو اس سے ایمان میں کمی اورنقصان پیدا ہوتا ہے ۔
سب سے پہلی اوراعلی قسم کی اطاعت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توحید ثابت کی جائے اوراس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ معبود برحق صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ، اوراسی طرح بندے کو چاہیے کہ تمام قسم کی عبادات صرف اورصرف اللہ تعالی کے لیے بجالائے ، اورکسی بھی عبادت میں اللہ عزوجل کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئي شرک نہ کرے ۔
اورہم میں سے ہرایک کویہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ پہنچنے والا ہے وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتا وہ لامحالہ اسے پہنچ کررہے گا ، اورجواس سے دور رہ جائے وہ اس تک نہیں پہنچ سکتا ، یعنی جونقصان ہونا ہو وہ ہوکررہتا ہے اورجو نہ ہونا ہو وہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا ، اوریہ کہ ہر چيز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے ۔
ہمیں ہر اس چيز اورکام سے اجتاب کرنا چاہیے جو توحید کے مخالف ہو وہ اس طرح کہ ہمیں بدعات وخرافات اور دین میں نئي نئي رسم ورواج سے دور رہنا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ولاء والبراء پر بھی عمل کرنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں اورمومنوں سے محبت وبھائي چارہ رکھیں ، لیکن اس کے مقابلہ میں ہمیں کفاراورمنافقوں سے دشمنی کرنی چاہیے اوران سے بغض رکھنا چاہیے ۔
ہمیں مسلمانوں کے کفارپر غالب ہونے پر خوش ہونا چاہیے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا ہونا چاہیے ، اسی طرح ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء راشدین کی سنت اورطریقہ پر چلنا چاہیے ، ہم سنت سے محبت کریں اورجوسنت اوراحادیث پر عمل کرے اس سے ہمیں محبت کرنی چاہیے اوراس کا دفاع کرنا چاہیے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو اورکسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو ۔
اس کے بعد ہمیں اپنے آپ کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی وکوتاہی ہے ، ہم کتنی اطاعت کرتے ہیں ، جماعت کے ساتھ کتنی نمازیں ادا کرتے ہیں ، اللہ تعالی کا ذکر کتنا کرتے ہیں ، پڑوسی ، رشتہ داروں اورمسلمانوں کے حقوق کتنے ادا کرتے ہیں ، سلام عام کرنے چاہیے ، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا کام کرتے ہیں کہ نہیں ، ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہیں ، اوران سب کاموں میں آنے والی تکالیف پر صبر کریں ، اوربرائي کرنے سے بھی پرہیز کریں ، اللہ تعالی کی اطاعات کریں اورتقدیر پر بھی صبر کریں ۔
اس کے بعد معاصی اورشھوات کی اتباع کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراپنے آپ کو ان معاصی سے اجتناب کرنا چاہیے ، چاہے وہ معصیت چھوٹی ہویا بڑی ، اور اسی طرح وہ معصیت وگناہ آنکھ سے حرام چيز کی طرف دیکھنے ، یا پھر کان سے حرام اشیاء موسیقی اور گانے سننے پر بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراس سے پرہيز کرنا ضروری ہے ، اسی طرح اپنے پاؤں سے صرف اللہ تعالی کی رضا اورخوشنودی والے کام کی طرف ہی چلنا چاہیے ۔
اللہ تعالی کی نافرمانی والے کام میں نہیں چلنا چاہیے ، یا پھر ہاتھوں کو بھی وہاں استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جہاں پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی ہو ، اللہ تعالی کی طرف سے حرام کردہ اشیاء کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ، سود خوری اور رشوت وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، اوراسی طرح لوگوں کا ناحق مال کھانے سے بھی بچنا چاہیے اورمحاسبہ کرنا چاہیے ۔
ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالی دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتا ہے تا کہ رات کا خطاکار توبہ کرلے ، اوررات کوہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن کاخطا کار توبہ کرلے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراپنے رب کی بخشش اوراس کی مغفرت کی طرف دوڑو ، جس کا عرض آسمانوں اورزمین کے برابر ہے ، جو پرہيز گاروں کے لیے تیار کی گئي ہے ، جولوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے لوگوں سے درگزر کرنے والے ہيں ، اللہ تعالی ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اورجب ان لوگوں سے کوئي ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئي گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ تعالی کا ذکر اوراپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالی کے علاوہ کے سوا اورکون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اوروہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے ، انہيں ان کے رب کی طرف سے ان کا بدلہ مغفرت اورجنتیں ملیں گی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہيں گے ، ان کا نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے } آل عمران ( 134 - 136 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
{ آپ ( میری جانب سے ) کہہ دیجیۓ ! کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زيادتی کی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اوربڑی رحمت والا ہے } الزمر ( 53 ) ۔
اورایک مقام پر ایسے فرمایا :
{ اورجوبھی برے اعمال کرے یا پھر اپنے آپ پر ظلم کرلیا ہو اورپھر وہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے تووہ اللہ تعالی کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا } ۔
الحمد للہ
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { ماہ رمضان وہ ہےجس میں قرآن مجید اتارا گیا جولوگوں کو ھدایت کرنے والا ہے اورجس میں ھدایت کی اورحق و باطل کی تمیز کی نشانیان ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیۓ ، ہاں جوبیمار ہویا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ، اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکر کرو } البقرۃ ( 185 ) ۔
یہ موسم اوررمضان المبارک کا مہینہ خیر وبرکت اورعبادت واطاعت کا عظیم موسم ہے ، یہ بڑی عظمت والا مہینہ ، اورایک عزت وتکریم والے ایام ہیں جس میں نیکیاں بڑھتی ہیں ، اوربرائياں بھی بڑھتی ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھلتے اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔
اس مہینہ میں گنہگاروں اورمعصیت کا ارتکاب کرنے والوں کی توبہ قبول کی جاتی ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورآخری ایام جہنم سے آزادی کے ہیں ۔
خیروبرکت کے اس موسم میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اللہ تعالی نے تمہیں جوخصوصی انعام وفضل دیا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکربجا لاؤ ، اس مہینہ کے شرف وفضل کے اوقات کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت والے کام میں مشغول رہو ، حرام کاموں سے اجتناب کرو تا کہ زندگی میں سعادت حاصل کرسکو اورموت کے بعد بھی سعادت حاصل ہو ۔
پکے اورسچے مومن کے لیے توہرمہینہ ہی عبادت واطاعت کا موسم ہوتا ہے ، لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کی ہمت بڑھ جاتی ہے اورعبادت کے لیے اس کا دل زیادہ نشیط اورچست ہوجاتا ہے ، وہ اپنے پروردگار کی ہربات قبول کرتا ہے ، ہمارا رب اور الہ بڑا ہی کریم ورحیم ہے وہ اپنی رحمت سے مومنوں کے روزوں کی نیکیاں زيادہ اورانہیں ان کے اعمال کا بہتر اجر عطا فرماتا ہے۔
آج کی رات کل رات سے کتنی مشابہ ہے ۔۔۔
یہ دن کتنی تيزرفتاری سے گزر رہے ہیں گویا کہ چند لحظات تھے ابھی ہم نے کچھ عرصہ قبل رمضان المبارک کا استقبال کیا اورپھر اسے الوداع بھی کیا اوراب کچھ ہی مدت گزرنے کے بعد ایک بار پھر رمضان المبارک کا استقبال کرنے کی تیاری میں ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ میں اعمال صالحہ کرنے میں جلدی کریں ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی رضا مندی والے کام کریں اورایسے کام کرنے پرحرص رکھیں جوروزقیامت ہماری سعادت کا باعث ہوں ۔
رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کریں ؟
رمضان المبارک کی تیاری کے لیے انسان کواپنا محاسبہ کرنا چاہیےکہ اس نے کلمہ طیبہ کے تقاضہ کے مطابق عمل کیے ہیں یا کہ واجبات وفرائض میں کچھ کمی وکوتاہی کی ہے اورخواہشات وشبھات پرعمل پیرا رہا ہے ؟
لھذا مسلمان کورمضان المبارک میں اعلی درجہ کے ایمان پر فائز ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی ہے ، مسلمان کا ایمان اطاعت کرنے سے زيادہ اورقوی ہوتا ہے ، لیکن اگر نافرمانی کی جائے تو اس سے ایمان میں کمی اورنقصان پیدا ہوتا ہے ۔
سب سے پہلی اوراعلی قسم کی اطاعت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توحید ثابت کی جائے اوراس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ معبود برحق صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ، اوراسی طرح بندے کو چاہیے کہ تمام قسم کی عبادات صرف اورصرف اللہ تعالی کے لیے بجالائے ، اورکسی بھی عبادت میں اللہ عزوجل کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئي شرک نہ کرے ۔
اورہم میں سے ہرایک کویہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ پہنچنے والا ہے وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتا وہ لامحالہ اسے پہنچ کررہے گا ، اورجواس سے دور رہ جائے وہ اس تک نہیں پہنچ سکتا ، یعنی جونقصان ہونا ہو وہ ہوکررہتا ہے اورجو نہ ہونا ہو وہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا ، اوریہ کہ ہر چيز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے ۔
ہمیں ہر اس چيز اورکام سے اجتاب کرنا چاہیے جو توحید کے مخالف ہو وہ اس طرح کہ ہمیں بدعات وخرافات اور دین میں نئي نئي رسم ورواج سے دور رہنا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ولاء والبراء پر بھی عمل کرنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں اورمومنوں سے محبت وبھائي چارہ رکھیں ، لیکن اس کے مقابلہ میں ہمیں کفاراورمنافقوں سے دشمنی کرنی چاہیے اوران سے بغض رکھنا چاہیے ۔
ہمیں مسلمانوں کے کفارپر غالب ہونے پر خوش ہونا چاہیے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا ہونا چاہیے ، اسی طرح ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء راشدین کی سنت اورطریقہ پر چلنا چاہیے ، ہم سنت سے محبت کریں اورجوسنت اوراحادیث پر عمل کرے اس سے ہمیں محبت کرنی چاہیے اوراس کا دفاع کرنا چاہیے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو اورکسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو ۔
اس کے بعد ہمیں اپنے آپ کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی وکوتاہی ہے ، ہم کتنی اطاعت کرتے ہیں ، جماعت کے ساتھ کتنی نمازیں ادا کرتے ہیں ، اللہ تعالی کا ذکر کتنا کرتے ہیں ، پڑوسی ، رشتہ داروں اورمسلمانوں کے حقوق کتنے ادا کرتے ہیں ، سلام عام کرنے چاہیے ، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا کام کرتے ہیں کہ نہیں ، ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہیں ، اوران سب کاموں میں آنے والی تکالیف پر صبر کریں ، اوربرائي کرنے سے بھی پرہیز کریں ، اللہ تعالی کی اطاعات کریں اورتقدیر پر بھی صبر کریں ۔
اس کے بعد معاصی اورشھوات کی اتباع کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراپنے آپ کو ان معاصی سے اجتناب کرنا چاہیے ، چاہے وہ معصیت چھوٹی ہویا بڑی ، اور اسی طرح وہ معصیت وگناہ آنکھ سے حرام چيز کی طرف دیکھنے ، یا پھر کان سے حرام اشیاء موسیقی اور گانے سننے پر بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراس سے پرہيز کرنا ضروری ہے ، اسی طرح اپنے پاؤں سے صرف اللہ تعالی کی رضا اورخوشنودی والے کام کی طرف ہی چلنا چاہیے ۔
اللہ تعالی کی نافرمانی والے کام میں نہیں چلنا چاہیے ، یا پھر ہاتھوں کو بھی وہاں استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جہاں پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی ہو ، اللہ تعالی کی طرف سے حرام کردہ اشیاء کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ، سود خوری اور رشوت وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، اوراسی طرح لوگوں کا ناحق مال کھانے سے بھی بچنا چاہیے اورمحاسبہ کرنا چاہیے ۔
ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالی دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتا ہے تا کہ رات کا خطاکار توبہ کرلے ، اوررات کوہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن کاخطا کار توبہ کرلے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراپنے رب کی بخشش اوراس کی مغفرت کی طرف دوڑو ، جس کا عرض آسمانوں اورزمین کے برابر ہے ، جو پرہيز گاروں کے لیے تیار کی گئي ہے ، جولوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے لوگوں سے درگزر کرنے والے ہيں ، اللہ تعالی ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اورجب ان لوگوں سے کوئي ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئي گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ تعالی کا ذکر اوراپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالی کے علاوہ کے سوا اورکون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اوروہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے ، انہيں ان کے رب کی طرف سے ان کا بدلہ مغفرت اورجنتیں ملیں گی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہيں گے ، ان کا نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے } آل عمران ( 134 - 136 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
{ آپ ( میری جانب سے ) کہہ دیجیۓ ! کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زيادتی کی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اوربڑی رحمت والا ہے } الزمر ( 53 ) ۔
اورایک مقام پر ایسے فرمایا :
{ اورجوبھی برے اعمال کرے یا پھر اپنے آپ پر ظلم کرلیا ہو اورپھر وہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے تووہ اللہ تعالی کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا } ۔