View Full Version : دعوت القرآن/سورۃ 13:الرعد
۱۳۔سورۃُ الرَّعْد۔(آیت ۴۳)
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
نام:
آیت ۱۳ میں رَعْد یعنی بادل کی گرج کا ذکر ہوا ہے کہ وہ اللہ کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتی ہے ۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام الرَّعْد قرار دیاگیا ہے ۔
زمانۂ نزول:
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورئہ یوسف کے اخیر میں یہ جو فرمایا تھا قُلْ ھٰذِہٖ سَبِے ْلی۔۔۔۔۔(اے پیغمبر!) کہو یہ ہے میری راہ۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ میں بھی اور وہ لوگ بھی جو میری پیروی کررہے ہیں ۔‘‘ تو یہ سورہ دراصل اسی کی توضیح ہے ۔
مرکزی مضمون:
یہ کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے نازل ہوئی ہے اور اس میں جو دعوت پیش کی گئی ہے وہ بالکل حق ہے ۔ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر اگر غور کرو تو وہی پکار تمہیں سنائی دے گی جو پیغمبر کی اور اس کتاب کی پکار ہے ۔
نظم کلام:
آیت ۱ تمہیدی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اس کتاب کا خدا کی طرف سے نازل ہونا ایک امر حق ہے ۔ آیت۲ تا ۴ میں ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جن سے آخرت کا یقین پیدا ہوتا ہو۔آیت ۵ تا ۷ میں منکرین کے شبہات پر انہیں فہمائش کی گئی ہے ۔آیت ۸ تا ۱۶ میں توحید کا مضمون ہے ۔ آیت ۱۷ میں حق اور باطل کے الگ الگ نتائج پر واقعات کی شہادت پیش کی گئی ہے ۔ آیت ۱۸ تا ۲۵ میں قرآن کی دعوت کو قبول کرنے والوں کے اوصاف اور ان کا اخروی انجام بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح اس کی دعوت کو رد کرنے والوں کے برے طرز عمل اور ان کے برے انجام کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔آیت ۳۰ تا ۲۹ میں منکرین کو تنبیہ اور اہل ایمان کو خوشخبری سنائی گئی ہے ۔ آیت ۳۰ سے آخر سورہ تک رسالت کے منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی متقیوں کے حسن انجام کو پیش کیاگیا ہے ۔ تاکہ منکرین کو خدا خوفی اختیار کرنے کی ترغیب ہو۔
ترجمہ:
(۱)الف۔لام۔ میم۔ را ۱ یہ آیتیں ۲ ہیں الکتاب ۳ کی۔اورجو چیز تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے وہ بالکل حق ہے مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔۴
(۲)اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو جیسا کہ تم دیکھتے ہو بغیر ستونوں کے بلند کیا ۵ پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔۶ اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا۔۷ ہر ایک ایک مقررہ وقت تک کے لیے چل رہا ہے ۸ وہی تمام کاموں کا انتظام فرمارہا ہے ۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔۹
(۳)اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا۱۰ اور اس میں ۱۱ پہاڑ اور دریابنائے ۱۲ اور ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کیں ۱۳ وہ رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔
(۴)اور( دیکھو) زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے خطے ہیں ۱۴ انگور کے باغ ہیں کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں اکہرے بھی اور جڑ سے ملے ہوئے بھی۱۵ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں مگر مزے میں ہم ایک کو دوسرے سے بہتر بناتے ہیں ۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں ۱۶
(۵)اگر تم عجیب بات سننا چاہتے تو ان لوگوں کا یہ قول عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں از سر نو پیدا کیا جائے گا۔۱۷ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے ۔۱۸ اور یہی لوگ جہنم والے ہیں ہمیشہ اس میں رہنے والے !
(۶)اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے تمہارے پاس جلدی مچارہے ہیں ۔۱۹ حالانکہ ان سے پہلے کتنی عبرتناک مثالیں گزر چکی ہیں ۔ بلا شبہ تمہارا رب لوگوں سے باوجود ان کی زیادتیوں کے درگذر کرتا رہتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تمہارا رب سزا دینے میں بڑا سخت ہے ۔۲۰
(۷)کافر کہتے ہیں اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟۲۱ (اے پیغمبر!) تم تو بس خبر دار کرنے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوا ہے ۔۲۲
(۸)اللہ ہر عورت کے حمل کو جانتا ہے اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہے اس کو بھی ۔۲۳ ہرچیز کے لیے اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے ۔۲۴
(۹)وہ غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے ،سب سے بڑا، نہایت بلند مرتبہ۔۲۵
(۱۰) تم میں سے کوئی شخص چپکے سے بات کرے یا پکار کر کہے ، رات ( کی تاریکی) میں چھپا ہو یا دن ( کی روشنی) میں چل پھر رہا ہو اس کے لیے سب یکساں ہے ۔
(۱۱)ایک کے بعد ایک آنے والے اس کے آگے اور پیچھے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔۲۶ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی روش کو نہیں بدلتی۲۷ اور جب اللہ کسی قوم پر مصیبت لانا چاہے تو پھر وہ ٹل نہیں سکتی۔ اور کوئی نہیں جو اس کے مقابل ان کا مددگارہو۔
(۱۲) وہی ہے جو تمہیں بجلیاں دکھاتا ہے جو خوف بھی پیدا کرتی ہے اور امید بھی۔۲۸ اور وہی بوجھل بادلوں کو اٹھانا ہے ۔۲۹
۲۹
(۱۳)اور بادلوں کی گرج اس کی حمد کی ساتھ پاکی بیان کرتی ہے ۳۰ اور فرشتے بھی اس کی ہیبت سے لزرتے ہوئے ۔۱۳ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور ان کی زد میں جن کو چاہتا ہے لاتا ہے ۔۳۲ مگر لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے رہتے ہیں ۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ زبردست قوت والا ہے ۔۳۳
(۱۴) اسی کو پکارنا برحق ہے ۔۳۴ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔۳۵( ان کا پکارنا) ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پانی کے آگے پھیلائے ہوئے ہو تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ کبھی اس تک پہنچنے والا نہیں ۳۶ اور کافروں کی پکار تو بالکل بے سود ہے ۔۳۷
اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب خوشی سے یا مجبوری سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام۔۳۸
ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے ؟ کہو اللہ۔ ان سے پوچھو پھر کیا تم نے اس کو چھوڑ کر دوسوں کو اپنا کارساز ٹھہرالیا ہے جو خود اپنے لیے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ نقصان کا؟۳۹ کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا دونوں برابر ہیں ؟۴۰ یا تاریکیاں ( اندھیرا) اور روشنی یکساں ہیں ۴۱ یا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح اس نے پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے پیدا کرنے کا معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا؟۴۲ کہو اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ یکتا ہے سب کو اپنے قابو میں رکھنے والا۔۴۳
(۱۷)اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیاں اپنی سمائی کے مطابق بہہ نکلیں ۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو سطح پر لایا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں کے اندر سے بھی ابھرتا ہے جن کو لوگ زیور یا کوئی اور چیز بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں ۔اس طرح اللہ حق اور باطل کی وضاحت فرماتا ہے ۔ تو جو جھاگ ہے وہ رائے گاں جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے لیے نفع بخش ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے ۔ اس طرح اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے ۴۴
(۱۸) جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی ان کے لیے انجام کار کی بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کی دعوت قبول نہیں کی اگر انہیں زمین کی ساری دولت حاصل ہوجائے اور اسی کے برابر مزید تو وہ فدیہ میں دینا چاہیں گے ۔۴۵ ایسے لوگوں کو برے حساب سے سابقہ پیش آئے گا۔۴۶ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بہت برا ٹھکانا۔
(۱۹) کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے حق ہے اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھا ہے ؟ ہوش میں تو دانشمند لوگ ہی آتے ہیں ۔۴۷
(۲۰) جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے قول و قرار کو توڑتے نہیں ہیں ۔۴۸
(۲۱)اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں وہ جوڑتے ہیں ۔۴۹ اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور برے حساب کا اندیشہ رکھتے ہیں ۵۰
۵۰
(۲۲) اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبر کیا،۵۱ نماز قائم کی اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے خرچ کیا۔۵۲ اور برائی کو بھلائی سے دور کرتے رہے ۵۳ تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے ۔۵۴
(۲۳) ہمیشگی کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو ان کے والدین ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے صالح ہوں گے ۔۵۵ اور فرشتے ہر دروازہ سے ان کے پاس آئیں گے ۔
(۲۴)( اور کہیں گے ) تم پر سلامتی ہو اس لیے کہ تم نے صبر کیا۔۵۶ تو کیا ہی اچھا ہے عاقبت کا گھر!
(۲۵) اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے توڑدیتے ہیں اور ان رشتوں کو کاٹ ڈالتے ہیں جن کو جوڑنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۵۷ ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے بہت برا ٹھکانا
۶۲
(۲۹) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لیے مبارکباد ہے ۶۳ اور بہترین انجام ۔
(۳۰) اس طرح ہم نے تم کو ایک ایسی امت میں رسول بناکر بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں تاکہ تم انہیں وہ بات سناؤ جو ہم نے تم پر ناز ل کی ہے ۔۶۴ کہو وہی میرا رب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
(۳۱)اور اگر کوئی ایسا قرآن نازل ہوتا جس سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا مردے بولنے لگتے ۶۶( تب بھی یہ ایمان نہ لاتے ۔ اور نہ تمہارے بس میں ہے کہ ایسا کر دکھاؤ) بلکہ سارا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔۶۷ پھر کیا اہل ایمان یہ جان کر کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا ( ان ہٹ دھرموں کے ایمان لانے سے ) مایوس نہیں ہوئیے ؟۶۸ اور کافروں پر ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہے گی یا ان کی آبادیوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ ظہور میں آئے ۶۹ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
۶۲
(۲۹) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لیے مبارکباد ہے ۶۳ اور بہترین انجام ۔
(۳۰) اس طرح ہم نے تم کو ایک ایسی امت میں رسول بناکر بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں تاکہ تم انہیں وہ بات سناؤ جو ہم نے تم پر ناز ل کی ہے ۔۶۴ کہو وہی میرا رب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
(۳۱)اور اگر کوئی ایسا قرآن نازل ہوتا جس سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا مردے بولنے لگتے ۶۶( تب بھی یہ ایمان نہ لاتے ۔ اور نہ تمہارے بس میں ہے کہ ایسا کر دکھاؤ) بلکہ سارا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔۶۷ پھر کیا اہل ایمان یہ جان کر کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا ( ان ہٹ دھرموں کے ایمان لانے سے ) مایوس نہیں ہوئیے ؟۶۸ اور کافروں پر ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہے گی یا ان کی آبادیوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ ظہور میں آئے ۶۹ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
(۳۲)تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا جاچکا ہے تو میں نے کافروں کو ڈھیل دی پھر ان کو پکڑ لیا تو دیکھو میری سزا کیسی رہی!
(۳۳) پھر کیا وہ جو ہر شخص پر نگاہ رکھتا ہے کہ اس نے کیا کمائی کیا( وہ اس کو یونہی چھوڑ دے گا؟ اس حقیقت کو انہوں نے جھٹلایا) اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ۔۷۰ ان سے کہو ذرا ان کے نام تو لو۔ ۷۱ کیا تم اسے ایسی بات کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ نہیں جانتا کہ زمین میں اس کا کوئی وجود ہے ؟۷۲ یا پھر تم محض سطحی باتیں کرتے ہو؟۷۳ واقعہ یہ ہے کہ کافروں کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنادی گئی ہیں ۷۴ اور انہیں راہ راست سے روک دیا گیا ہے ۔ ۷۵ اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں ۔۷۶
(۳۴) ان کے لیے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ کوئی نہیں جو انہیں اللہ( کے عذاب) سے بچاسکے ۔
(۳۵) متقیوں سے جس جنت کا وعدہ کیاگیا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کی چھاؤں بھی دائمی۷۸ یہ انجام ہے ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔۷۹ اور کافروں کا انجام آگ ہے ۔
(۳۶)جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (کتاب) سے خوش ہیں جو تم پر اتاری گئی ہے ۔۸۰ اور ان گروہوں میں ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں سے انکار کررہے ہیں ۔۸۱ کہو مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں ۔ اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔
(۳۷) اس طرح ہم نے اسے عربی فرمان کی شکل میں نازل کیا ہے ۸۲ اور اگر تم نے اس علم کے ۸۳ آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔
(۳۸) اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے تھے اور ان کو بیویوں اور اولاد والا بنایاتھا۸۵ اور کسی پیغمبر کے بس میں نہ تھا کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی لا دکھاتا۔ ہر دور کے لیے ایک نوشتہ ہے ۔ ۸۶
(۳۹) اللہ جس چیزکو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جس چیز کوچاہتا ہے قائم رکھتا ہے ۸۷ ام الکتاب( اصل کتاب) اسی کے پاس ہے ۔۸۸
(۴۰)اور ہم نے جس چیز کا ان سے وعدہ کر رکھا ہے اس کا کچھ حصہ ہم تمہیں دکھادیں یا( اس سے پہلے ہی) تمہیں وفات دیدیں ۸۹ بہر حال تم پر ذمہ داری صرف پیغام پہنچادینے کی ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔
(۴۱)کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سر زمین کی طرف اس کی سرحدوں کو گھٹاتے ہوئے بڑھ رہے ہیں ۔۹۰ اللہ حکم نافذ کرتا ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے حکم کوٹال سکے اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔
(۴۲) اور جو لوگ ان سے پہلے گزرچکے ہیں انہوں نے بھی چالیں چلی تھیں مگر تمام تدبیریں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں ۔ وہ ہر شخص کی کمائی کو جانتا ہے اورعنقریب ان کافروں کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کے لیے عاقبت کا گھر ہے ۔
(۴۳)کافر کہتے ہیں کہ تم اس کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو میرے اور تمہارے درمان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے ۔ نیز وہ لوگ جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتے ہیں ۔۹۱
تفسیر
اس سورہ میں الف کا اشارہ اللہ(توحید) کی طرف، لام کا اشارہ لا الٰہ الا اللہ( شرک کی نفی) کی طرف اور میم کا اشارہ متعال ( نہایت بلند مرتبہ) کی طرف ہے ۔ اللہ کی یہ صفت آیت ۹ میں بیان ہوئی ہے ۔ رہی ’را‘ تو اس کا اشارہ رب( اللہ کی ربوبیت) کی طرف بھی ہے اور رَعْد( گرج) کی طرف بھی جس کا ذکر آیت ۱۳ میں خصوصیت کے ساتھ ہوا ہے اور جس میں اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایاگیا ہے کہ بادلوں کی ظاہری گرج کے پیچھے تسبیح الٰہی کی گھن گرج بھی ہے ۔ اور اللہ کے کلام کا مطلب تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔
۲ عربی میں آیت کے لفظی معنی علامت اور نشانی کے ہیں ۔ قرآن کی سورتیں جن چھوٹے چھوٹے فقروں پر مشتمل ہیں ان کو آیتیں کہتے ہیں ۔ آیت کبھی ایک پورا جملہ کبھی جملہ کا جز و اور کبھی چند جموں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ آیتوں کی تعین اور ان کی ترتیب وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی ہے چونکہ ہر آیت اس بات کی نشانی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اس لیے اس کو آیت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
الکتاب سے مراد کتاب الٰہی یعنی قرآن ہے ۔
۴ مطلب یہ ہے کہ سورئہ رعد کی یہ آیتیں نیز وہ تمام آیتیں جو پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ان کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا ایک واقعہ اور حقیقت ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت کو اس کے امر واقعہ ہونے کے باوجود تسلیم نہیں کرتے لیکن حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے کسی کے تسلیم نہ کرنے سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
۵ فضائے بسیط میں اجرام سماوی دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ سائنسی اکتشافات کی رو سے بعض تارے تو لاکھوں نوری سال کے فاصلہ پر واقع ہیں ۔ اس سے آسمان کی بلندی کا اندازہ ہوتا ہے اس بلندی پر جس کو کسی پیمانہ سے ناپا نہیں جاسکتا آسمان کا ایک چھت یاقبہ کی طرح بغیر ستونوں کے قائم ہونا اس کے خالق کے کمالِ قدرت کی کھلی نشانی ہے ۔
واضح رہے کہ آسمانوں کا ستونوں کے بغیر قائم ہونا عام مشاہدہ میں آنے والی بات ہے ۔ اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ اجرام سماوی جذب و کشش کے قانون کی وجہ سے اپنی جگہ قائم ہیں ۔ یہ جذب و کشش بھی اللہ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے ۔
رہا یہ سوال کہ کیا آسمان کا کوئی مادی وجود ہے تو ہم نے اس پر سورئہ انشقاق میں نوٹ ۱ میں بحث کی ہے ۔ اس موقع پر اسے پیش نظر رکھا جائے ۔
۶ اس کی تشریح سورئہ اعراف نوٹ ۸۳ میں گزرچکی۔
۷ یعنی سورج اور چاند کا اپنا کوئی بل بوتا نہیں ۔ وہ اللہ کے قانون میں جکڑے ہوئے ہیں اور جو کام ان کے سپرد کیاگیا ہے اس کو وہ بجا لاتے ہیں ۔
۸ چلتے رہنے ( ے َجْرِیْ) سے مراد حرکت میں رہنا ہے قطع نظر اس سے کہ ان کی حرکات کس نوعیت کی ہیں ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ چاند ہی نہیں سورج بھی متحرک ہے اور موجودہ فلکیاتی سائنس (Astronomy) بھی سورج کو متحرک مانتی ہے :
کو متحرک مانتی ہے :
"The Sun rotates on its axis in a period about 25 1/3 days"
(The Marvels & Mysteries of Science P.15)
یعنی ’’ سورج اپنے محور پر 25 1/3 میں گردش پوری کر لیتا ہے ۔اور سائنس کہتی ہے کہ سورج اپنے محور پر ہی نہیں گھوم رہا ہے بلکہ اپنے سیاروں کو لیکر دو سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اپنے مرکزِ کشش کے گرد چکر لگا رہا ہے :
"Our own star, the Sun, is no exception to the general rule,for with its attendant planets it is moving through space at a speed of 200 miles a second,travelling around the centre of gravity of its cosmic system.At this speed it requires 250,000,000 years to complete a revolution in its gigantic orbit." (Do p. 82)
قرآن
قرآن یہ بھی صراحت کرتا ہے کہ سورج اور چاند کی یہ گردش بلا تعین مدت نہیں ہے بلکہ ایک مقررہ مدت کے لیے ہے اور یہ مدت قیامت کا دن ہے جب اس عالم کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ایک نیا عالم وجود میں لایا جائے گا۔
۹ یعنی آسمان میں پھیلی ہوئی ان نشانیوں پر غور کرنے سے وہ مقصدیت اور وہ حکیمانہ اسکیم بہ آسانی سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے کار فرما ہے اور جس کو قرآن پوری وضاحت کے ساتھ پیش کررہا ہے اور یہ باتیں نہ صرف یہ کہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں بلکہ اس بات کا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک دن ہمیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اپنے کئے کا پھل پانا ہے ۔
۱۰ یعنی زمین کو خدا نے اس طرح پھیلادیا کہ وہ اربوں انسانوں کے بسنے کے قابل ہو گئی اس کی عظیم قدرت کی اس نشانی کو دیکھتے ہوئے انسان کو چاہیے تھا کہ اس کی عظمت کے آگے جھک جاتا اور اس کے خدائے واحد ہونے کا یقین کرتا مگر انسانوں کی بڑی تعداد اس سے منہ پھیرے ہوئے ہے اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو زمین کے خالق کے بجائے زمین کو پوجنے میں فخر محسوس کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے بھومی پوجا کو اپنا مذہبی شعار بنا رکھا ہے ۔ ان کی سمجھ میں اتنی بات بھی نہیں آتی کہ جس چیز کو آدمی روندتا ہے اس کی پوجا کا کیا مطلب؟ یہ نادان پہلے تو اپنے ’’ خدا‘‘ کو خود تراش لیتے ہیں اور اس کے بعد اس کو اپنے ہی پاؤں سے روند ڈالتے ہیں ۔ ان کا’’ خدا‘‘ بھی عجیب ہے اور ان کی عبادت بھی عجیب۔
نادان پہلے تو اپنے ’’ خدا‘‘ کو خود تراش لیتے ہیں اور اس کے بعد اس کو اپنے ہی پاؤں سے روند ڈالتے ہیں ۔ ان کا’’ خدا‘‘ بھی عجیب ہے اور ان کی عبادت بھی عجیب۔
۱۱ پہاڑ کیا ہیں خدا کی قدرت کی نشانیاں جو جابجا کھڑی کر دی گئی ہیں تاکہ انسان ان کو دیکھ کر اپنے خالق کی عظمت کا قائل ہوجائے مگر انسان میں یہ تڑپ کہاں کہ وہ حقیقت کو تلاش کرے ۔ اگر ماضی میں اس نے پہاڑوں کی بلندی دیکھ کر ان کو دیوتا بنالیا تھا تو حال میں وہ پہاڑوں کی قسمیں ‘ ان کے پرت ان کے عناصر ترکیبی اور ان میں پائے جانے والے متحجر ڈھانچے (Fossil) وغیرہ معلوم کرنے میں ایسا منہمک ہے کہ صانع کی طرف اپنا ذہن منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔ نتیجہ یہ کہ ان سارے معلوماتی ذخیروں کے باوجود وہ مادہ پرستی میں بری طرح غرق ہے
ہے ۔
۱۲ اللہ تعالیٰ نے زمین پر دریا بہائے تاکہ ان کی روانی کو دیکھ کر انسان کی زبان پر ذکر الٰہی رواں ہو مگر وہ دریاؤں کو ’’ یوتر‘‘ مان کر پوجنے لگا اور ان کو نذرانے پیش کرنے لگا یا پھر انسان نے ’’ ترقی‘‘ کی تو یہ کہ ان پر بڑے بڑے بند باندھ دئے تاکہ وہ ان کے پانی سے پورا پورا استفادہ کرے اس سے آگے وہ کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
۱۳ ’’ ثمرات‘‘ کا لفظ پھلوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور پیداوار کے لیے بھی اس لیے اس میں میوے اناج اور سبزیاں سب شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے زمین میں نباتات اس طرح اگائیں کہ ان کے جوڑے بن گئے نر اور مادہ تاکہ پیداوار کا سلسلہ چلتا رہے ۔نباتات میں نر اور مادہ کا پایا جانا ایک معروف بات ہے مگر موجودہ علم النباتات(Botony) نے اس کو جس تفصیل کے ساتھ پیش کر دیا ہے اس کے مطالعہ سے اس کا حیرت انگیز نظام سامنے آتا ہے مثال کے طور یہ بات کہ پودوں میں خلیے (Cells) پائے جاتے ہیں جن میں کروموزومس (Chromosomes) ہوتے ہیں جو موروثی
خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور جنہیں خوردبین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ یا یہ کہ پھول میں جو زر ریشے (Stamens) ہوتے ہیں ان میں نر اور مادہ کی قسمیں پائی جاتی ہیں ۔ پھول جب کھلتے ہیں تو ان کی مہک سے شہد کی مکھیاں اور پتنگے ان کی طرف کھینچ آتے ہیں اور زیرہ دانوں کو ایک پھول سے دوسرے پھول میں منتقل کرتے ہیں اس طرح اس سے بار آوری (Fertilization) ہوتی ہے اور پھول کا بیضہ دان پھل کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔کیا قدرت کا یہ حیرت انگیز نظام قادرِ مطلق کے وجود پر دلالت نہیں کرتا؟
۱۴ یعنی زمین کے سب حصے یکساں نہیں ہیں بلکہ اس میں مختلف خطے پائے جاتے ہیں اور جو ایک دوسرے سے قریب اور متصل ہونے کے باوجود اپنی خصوصیات میں مختلف ہیں ۔ کوئی سرخ ہے تو کوئی سیاہ‘ کوئی زرخیز ہے تو کوئی بنجر‘ کوئی ایک قسم کی پیداوار کے لیے موزوں ہے تو کوئی دوسری قسم کی پیداوار کے لیے رزق کے کیسے ذخیرے ہیں جو زمین میں رکھ دئے گئے ہیں ! کیا پرورش ( ربوبیت) کا یہ سارا نظام خود بخود تشکیل پاگیا ہے یا اس کو وجود میں لانے والا رب( پروردگار) ہے ؟
۱۵ کھجور کے درخت دو قسم کے ہیں ایک وہ جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور دوسرے وہ جن کی جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں جبکہ ایک ہی پانی سے انہیں سیراب کیا جاتا ہے یہ بو قلمونی اور تنوع کیا اس خیال کی تردید کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ کائنات اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آئی ہے اور کسی چلانے والے کے بغیر چل رہی ہے ؟ اس صورت میں یہ گونا گونی‘ یہ رنگا رنگی اور یہ الگ الگ نوعیتیں ہرگز نہیں ہوسکتی تھیں ۔
۱۶ ایک ہی پانی سے درختوں کو سیراب کیا جاتا ہے مگر ان کے پھل ذائقہ میں مختلف ہوتے ہیں کوئی میٹھا تو کوئی کھٹا اور کوئی پھیکا تو کوئی کڑوا۔ ہر چیز میں نوعیتوں کا یہ اختلاف دیکھکر شاعر نے بجا طور پر کہا ہے
یہ ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
یہ اختلاف انسان کو دعوت فکر دیتا ہے ۔ اگر انسان عقل سے کام لے تو وہ ان حقیقتوں کو پاسکتا ہے جن کو قبول کرنے کی دعوت قرآن دے رہا ہے ۔
۱۷ یعنی ان منکرین کو تعجب اس بات پر ہو رہا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا جس کی خبرقرآن دے رہا ہے لیکن در حقیقت تعجب کے قابل ان کا یہ قول ہے کہ مٹی میں مل جانے کے بعد کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک یہ سارا ہنگامۂ کائنات محض اس لیے ہے کہ انسان مرکر مٹی ہوجائے اور زندگی کا سلسلہ آنکھ بند ہوتے ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے ۔ نہ خدا کے حضور حاضری کا سوال، نہ عالم آخرت اور نہ جزا اور نہ سزا۔ یہ ہے ان کا تصورِ زندگی جس کا مطلب ہے زندگی بے مقصد اور کائنات بے غایت۔ یہ فیصلہ عقل کا ہرگز نہیں ہے بلکہ اندھی خواہشات کا ہے اس لیے ہر عقلمند انسان منکرین کے تصورِ زندگی پر تعجب کرے گا نہ کہ قرآن کے پیش کردہ تصورِ زندگی پر۔
۱۸ آخرت کے دن ان منکرین نے دنیا میں جہالت‘حق کے خلاف تعصب اور باطل پرستوں کی اندھی تقلید کے طوق اپنی گردنوں میں ڈال رکھے تھے اس لیے قیامت کے دن یہ طوق آگ کے طوق کی شکل میں ان کی گردنوں کو جکڑ لیں گے ۔
۱۹ یعنی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ لوگ اس کی دعوت قبول کرکے خیر کی طرف لپکیں بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی کے لیے پیغمبر کو بھیجا ہے مگر ان منکرین کا حال یہ ہے کہ وہ خیر سمیٹنے کے بجائے شر کو دعوت دے رہے ہیں ۔ وہ کہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دے رہے ہو وہ آکیوں نہیں جاتا۔ اس طرح وہ خیر سے اپنے کو محرم رکھ کر عذاب کے آنے کا انتظار کررہے تھے ۔ یہاں ان کی اسی غلط ذہنیت پر گرفت کی گئی ہے ۔
۲۰ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کی غلط روی اور ان کی زیادتیوں کے باوجود دنیا میں ان کو فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ درگذر سے کام لیتا رہتا ہے تاکہ انہیں اصلاح کا موقع مل جائے اور وہ سنبھل جائیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں تب بھی وہ ان کو سزا نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ جہاں در گذر کرنے والا ہے وہاں وہ سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔
۲۱ تشریح کے لیے دیکھئے سورئہ انعام نوٹ ۶۴ اور۶۵
۲۲ یعنی جس طرح پچھلی قوموں کی طرف ان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آتے رہے اسی طرح تم کو بھی اے پیغمبر ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے لہٰذا تمہارا کام غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکا دینا اور ان کو خدا کی راہ دکھا دینا ہے ۔ ان کے مطالبات کو پورا کرنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے لہٰذا محسوس معجزہ کا جو مطالبہ وہ کررہے ہے اس کو تم خاطر میں نہ لاؤ۔
واضح رہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف عربوں کی طرف نہیں تھی بلکہ جیسا کہ قرآن میں صراحت کے بیان ہوا ہے تمام اقوام کی طرف ہے اس لیے آپ کے بعد کسی قوم کے لیے کسی نئے نبی یا رسول کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
۲۳ یعنی اللہ ہی جانتا ہے کہ عورت کے پیٹ میں بچہ کس طرح کا اور کن خصوصیات کا پرورش پارہا ہے اور وہ نو ماہ سے پہلے بچہ جنے گی یا اس سے زیادہ مدت میں ۔ اسی طرح جانور کے ماداؤں کے حمل کا تفصیلی علم بھی اللہ ہی کو ہے ۔
۲۴ یعنی وضعِ حمل کی بات ہو یا کوئی اور اس نے دنیا کے تمام امور کی وقت کی تعین کے ساتھ منصوبہ بندی کی ہے اور اس کا علم ہر ہر جزئیے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کی اس منصوبہ بندی میں یہ بات بھی لازماً شامل ہے کہ کسی قوم پر کس وقت عذاب لایا جائے ۔ لہٰذااگر تم پر رسول کی دعوت کو رد کرنے کے باوجود عذاب نہیں آرہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عذاب آئے گا ہی نہیں ۔ عذاب__ رسول کو جھٹلانے کی صورت میں __لازماً آئے گا مگر وقت مقررہ پر جس کا علم اللہ ہی کو ہے
۲۵ اس آیت میں اللہ کی تین صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ایک یہ کہ وہ پوشیدہ اور ظاہر اور محسوس اور غیر محسوس سب چیزوں کا جاننے والا ہے ۔ دوسری یہ کہ وہ کبیر(سب سے بڑا) ہے یعنی اپنی قدرت اور دوسری صفات میں کامل اور بالاتر ہستی ہے ۔ تیسری یہ کہ وہ متعال( نہایت بلند مرتبہ) ہے یعنی اس کو مخلوق پر قیاس کرنا صحیح نہیں وہ اس سے بہت بلند و بالا ہے ۔
ان صفات کے ذکر سے مقصود یہاں اللہ کی عظمت کا صحیح تصور دینا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے اندر اس کی بندگی اور اس کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس کی سزا کے تصور سے وہ کانپ اٹھتا ہے ۔
۲۶ مراد وہ فرشتے ہیں جو ہر شخص کے ساتھ اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کی ڈیوٹی اس طرح مقرر ہے کہ یکے بعد دیگرے ان کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ انسان کی زندگی تو ہر قسم کے خطرات سے گھری ہوئی ہے اور وہ ہر وقت ایک نہ ایک خطرہ کے زد میں رہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو خطرات سے اور آفتوں سے محفوظ رکھنے کا یہ سامان کیا ہے کہ اس کے آگے اور پیچھے فرشتہ لگادئے ہیں جو اس کا بچاؤ کرتے رہتے ہیں اور صرف اسی وقت اس کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے جبکہ اللہ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے ۔
۲۷ یعنی اللہ نے جہاں ایک ایک فرد کی حفاظت کا سامان کر رکھا ہے وہاں قوموں کی عافیت کا سامان بھی کر رکھا ے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو امن و عافیت کی نعمت عطا فرماتا ہے تو اسی صورت میں اس سے یہ نعمت چھین لی جاتی ہے جبکہ وہ خوداس نعمت کی ناقدری کرتے ہوئے سرکشی پر اتر آتی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ نہیں ایک نعمت عطاء کرنے کے بعد بلا وجہ اس کو چھین لے ۔ یہاں خاص طور سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ منکرین اس وقت امن و چین کی زندگی گذار رہے ہیں وہ تادیر باقی رہنے والا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنے کو اس کا نا اہل ثابت کر دیا ہے ۔ اب یہ نعمت ان سے لازماً چھین لی جائے گی چنانچہ چند سال گزرنے نہیں پائے تھے کہ کافروں کے لیے سر زمین عرب میں سر چھپانا مشکل ہوگیا اور اللہ کا وعدہ ان پر چسپاں ہو کر رہا۔
۲۸ بجلیوں سے اگر ایک طرف خوف پیدا ہوتا ہے کہ کسی پر گرنہ جائے تو دوسری طرف بارش کی امید بندھتی ہے ۔ گویا بجلی بیک وقت دو باتوں کی تذکیر کرتی ہے ۔ ایک یہ کہ لوگ چوکنا ہوجائیں کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس سکتا ہے ۔ دوسری یہ کہ لوگ اللہ ہی سے رحمت کے امیدوار بنیں ۔
سکتا ہے ۔ دوسری یہ کہ لوگ اللہ ہی سے رحمت کے امیدوار بنیں ۔
۲۹ یعنی پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو اللہ ہی اٹھاتا ہے ۔ بالفاظ دیگر یہ اللہ ہی کا بنایا ہوا نظام ہے جس کے تحت پانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھتے ہیں اور فضا میں پھیل کر دور دور تک مینہ برسانے کا کام کرتے ہیں ۔
۳۰ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے بادلوں کی گرج برقی بار (Electrical Charge) کے خارج ہونے سے پیدا ہوتی ہے ۔ آبی ذرات کے باہمی عمل سے بادلوں کے اوپری خطے میں مثبت بار (Positive Charge)اور درمیانی خطے میں منفی بار(Negegive Charge) پیدا ہوتا ہے ۔ جب برقی بار کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے تو بجلی خارج ہوتی ہے اور بجلی کی رو(Current) زبردست حرارت کے ساتھ ہوا میں پھلاؤ پیدا کرتی ہے اور برقی لہر صوتی لہربن جاتی ہے جسے گرج کہا جاتا ہے ۔ یہ ہوئی گرج کی مادی حقیقت جو معلوماتی نوعیت کی ہے لیکن قرآن اس کی معنوی حقیقت کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے جو اصل اہمیت رکھنے والی چیز ہے وہ یہ ہے کہ بادلوں کی گرج اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے جو اس کو پیدا کر کے بے تعلق نہیں ہوگیا ہے بلکہ اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے اور اپنی قدرت کے کرشمے دکھاتا رہتا ہے اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ سرکش بندوں پر اپنے عذاب کا کوڑا برسائے ۔ غرضیکہ جن کے کانوں پر پردے نہیں پڑے ہیں وہ بادلوں کی گرج میں اللہ کی عظمت کا اعلان سنتے ہیں ۔
۳۱ یعنی وہ ایسی عظیم ہستی ہے کہ فرشتے بھی اس کی ہیبت سے لرزنے لگتے ہیں پھر انسان کو بادلوں کی گھن گرج سن کر کیا اثر قبول کرنا چاہیے ؟
۳۲ کڑکتی ہوئی بجلی جس پر گرتی ہے اس کو ہلاک کر کے رکھ دیتی ہے ۔ یہ انسان کا عام مشاہدہ ہے اور کہا نہیں جاسکتا کہ کون کب اس کی زد میں آئے ۔
۳۳ یعنی ان کڑکتی ہوئی بجلیوں اور گرجتے ہوئے بادلوں سے اس بات کا اعلان و اظہار ہو رہا ہے کہ اس کائنات کا رب زبردست قوت کا مالک ہے ۔ انسان کو چاہیے تھا کہ وہ اس اعلان کو سنکر کانپ اٹھتا مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے بارے میں بحث کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے یہ خدا کی نہیں بلکہ دیوتاؤں کی کارفرمائی ہے تو کوئی کہتا ہے خدا میں یہ قدرت کہاں کہ وہ مردوں کو زندہ کرے اور موجودہ دور کے ’’دانشور ‘‘ تو ’’ بے خدا کائنات‘‘ کا نظریہ پیش کرتے ہیں تاکہ انہیں خدا سے ہمیشہ کے لیے ’’چھٹکارا‘‘ مل جائے !
۳۴ پکارنے سے مراد حاجتیں پوری کرنے اور فریاد رسی کے لیے پکارنا ہے ۔ یہ اللہ ہی کی صفت ہے کہ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کی حاجتیں پوری کرتا اور اس کی فریاد کو پہنچتا ہے اس لیے اس کو پکارنا بالکل صحیح اور مطابق حقیقت ہے اور چونکہ اللہ کے سوا کسی کی بھی یہ صفت نہیں ہے اس لیے اللہ کو چھوڑ کر کسی کو پکارنا خواہ وہ بت ہو ‘ جن ہو‘ فرشتہ ہو‘ ولی ہو یا پیغمبر سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے ۔
۳۵ کتنے مسلمان بھی جہالت کی وجہ سے اپنی حاجتوں کے لیے درگاہوں اور مزاروں کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو بزرگ قبروں میں مدفون ہیں وہ ان کی دعاؤں کو سنتے ہیں اور ان کی بگڑی بناتے ہے مگر یہ خیال اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ مشرکین کا اپنے معبودوں کے بارے میں تھا۔
آیت میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو کسی کی دعا یا پکار کا کوئی جواب دے سکتے ۔
۳۶ یعنی جس طرح کوئی شخص ہاتھ پھیلاکر پانی سے یہ درخواست کرے کہ اس کے منہ تک پہنچ جائے تو اس کی یہ درخواست نہ تو پانی سنے گا اور نہ ہی اس کی پیاس بجھانے کے لیے پہنچے گا۔ اسی طرح مشرکین اللہ کو چھوڑ کر جس جس کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور ان سے فریاد کرتے ہیں وہ نہ ان کی دعا اور فریاد سنتے ہیں اور نہ ان کی حاجت پوری کرتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ’’ پانی کے آگے ہاتھ پھیلانا تاکہ وہ منہ تک پہنچ جائے ‘‘ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کے معنیٰ لا حاصل طلب کے ہیں اور آیت کا مفہوم بھی یہی ہے ۔
۳۷ یعنی کافر اللہ کو چھوڑ کر جن کوپکارتے ہیں ان کو پکارنا بالکل بے سود ہے ۔
۳۸ یعنی آسمان و زمین کی تمام مخلوق خواہ وہ فرشتے ہوں ‘ جن ہوں انسان ہوں یا کوئی اور سب اللہ کو کسی نہ کسی طرح سجدہ کرتے ہیں ۔ کوئی تو اپنا سر خوشی سے اس کے آگے جھکادیتا ہے اور کوئی ارادہ کے ساتھ نہ سہی مگر قانونِ قدرت تواسے اپنے خالق کے آگے جھکنے کے لیے مجبور کرہی دیتا ہے ۔ ایک کافر کا زندہ رہنے کے لیے سانس لینا یا غذا کھانا یا چلنے کے لیے پاؤں کا حرکت میں لانا خدا کے قانون کی پابندی کرنا ہے اور اس کے قانون کی یہ پابندی اس کے آگے جھکنا ہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ جھکنا مجبوری کی نوعیت کا ہے اسی لیے اس جھکنے پر آدمی مؤمن نہیں قرار پاتا۔
ہرچیز کے خدا کے آگے سجدہ کرنے کی واضح علامت اس کا سایہ ہے کہ اللہ کے مقررہ قانون کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ خدا کا کوئی منکر اتنا بل بوتا بھی نہیں رکھتا کہ اپنا سایہ زمین پر گرنے نہ دے ۔ وہ اختیاری زندگی میں اللہ کی اطاعت سے انکار کرتا ہے مگر غیر اختیاری زندگی میں تو اس کا وجود اسی کے آگے جھکا ہوا ہے ۔ کاش کہ وہ اس پر غور کرتا!یہ آیتِ سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر فوراً سجدہ کرنا چاہیے ۔
۳۹ یہاں جس شرک کی تردید کی گئی ہے وہ ہے اللہ کے سوا کسی کو ’’ ولی‘‘ بمعنیٰ کارساز( کام بنانے والے ) ٹھہرانا۔یعنی کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ گو وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے مگر نفع یا نقصان پہنچانا اس کے اختیار میں ہے اور غیبی طریقہ پر وہ ہماری مدد کرسکتا ہے ۔ یہ تصور سراسر باطل اور یہ عقیدہ سراسر مشرکانہ ہے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو در حقیقت نفع و نقصان پہنچانے والا ہو۔ یہ عقیدہ جس کے بارے میں بھی رکھا جائے شرک ہی ہے خواہ وہ بت ہو یا درخت‘روح ہو یا فرشتہ اور نبی ہو یا ولی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو خدا یا رب کہکر پکارا جائے بلکہ اس کو اس معنیٰ میں ولی (کارساز) قرار دینا ہی اس کو خدا بنالینا ہے ۔ لہٰذا جو شخص کسی کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو صرف خدا کے ساتھ کیا جانا چاہیے وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے ۔
قرآن ایسے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ جب کائنات کا رب اللہ ہی ہے تو یہ کارساز(ولی) کس طرح ہے ؟
۴۰ اندھے سے مراد عقل کا اندھا ہے اوردیکھنے والے سے مراد بصیرت کی آنکھ سے دیکھنے والا ہے ۔
۴۱ اندھیرے سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں اور روشنی سے مراد علم حق کی روشنی ہے ۔
۴۲ یعنی جب ایک خدا کے سوا کسی کا کچھ پیدا کرنا ثابت نہیں ہے تو پھر ایک سے زائد خدا کیسے ہوئے ؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے مخلوق ہے پھر مخلوق کو خالق کا درجہ دینا کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟ خدائی کی صفت مخلوق میں کیسے آسکتی ہے ؟
۴۳ یعنی خلق کرنے کے بعد کوئی چیز اللہ کے قابو سے باہر نہیں ہو گئی ہے بلکہ ہر چیز پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہے ۔ پھر جس چیز پر اللہ کا کنٹرول ہو وہ خدا کیسے ہوسکتی ہے ؟
۴۴ یہ حق و باطل کی کشمکش کی مثال ہے ۔ آسمان سے پانی برسانے سے مراد وحی الٰہی کا نزول ہے ۔ وادیوں کا اپنی سمائی کے مطابق بہہ نکلنے کا مطلب قبولِ حق کی استعداد رکھنے والوں کا اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس سے استفادہ کرنا ہے ۔ سیلاب سے مراد حق کا سیلاب ہے اور جھاگ سے مراد باطل کا جھاگ ہے جو حق و باطل کی کشمکش میں ابھر آتا ہے ۔ دوسری مثال میں سونے چاندی کے زیور سے مراد اول درجہ کے مخلص مومن ہیں اور
دوسری چیزوں سے مراد عام صالحین ہیں اور ان کوتپانے سے مراد آزمائش کی بھٹی سے گزارنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب حق و باطل کی کشمکش برپا ہوتی ہے تو باطل ابھر کر سامنے آ جاتا ہے لیکن اس کی حقیقت جھاگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ وہ تھوڑی دیر ہی میں ختم ہوجاتا ہے البتہ حق اس طرح باقی رہتا ہے جس طرح کہ پانی زمین میں رہ جاتا ہے ۔ اسی طرح سونے چاندی اور دھاتوں کو جب پگھلایا جاتا ہے تو میل کچیل ابھر آتا ہے اور فوراً ختم ہوجاتا ہے اور جو خالص سونا‘ چاندی یا دھات ہے وہ باقی رہ جاتی ہے ۔ گویا قانون قدرت یہ ہے کہ جو چیز لوگوں کو حقیقتہً فائدہ پہنچانے والی ہے وہ باقی رہے اور جونقصان پہنچانے والی ہے وہ نابود ہوجائے ۔نزول قرآن کے بعد حق و باطل کی جو کشمکش برپا ہوئی تھی اس میں باطل تھوڑی دیر کے لیے جھاگ کی طرح ابھر آیا تھا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حق کو بقا اور دوام حاصل ہوا اور باطل بالکل نابود ہوگیا۔
۴۵ یعنی حساب کے لیے ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ نوٹ ۱۲۴
۴۶ یعنی حساب کے لیے جب ان کی پیشی ہوگی تو نہایت سختی کے ساتھ ان سے باز پرس ہوگی اور انہیں قطرہ قطرہ کا حساب دینا ہوگا۔
۴۷ یعنی یہ باتیں جو ارشاد ہوئی ہیں انسان کو حق شناس بنانے کے لیے کافی ہیں لیکن ہوش مندی کا ثبوت وہی لوگ دیتے ہیں جو دانا و بینا ہوتے ہیں عقل اور دل کے اندھوں پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی۔
۴۸ آدمی جب اپنی عقل کا صحیح استعمال کرتا ہے تو وہ خداشناس بھی بن جاتا ہے اور خودشناس بھی اور یہ چیز اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر بہترین اوصاف پرورش پانے لگتے ہیں ۔ ان اوصاف میں جو وصف اولیت رکھتا ہے وہ اللہ سے وفائے عہد ہے ۔ عہد سے مراد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے کا وہ عہد بھی ہے جو نسل انسانی سے ان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی لیاگیاتھا اور جو انسان کی فطرت میں اس طرح پیوست ہے کہ وہ اپنے رب کو بآسانی پہچان لیتا ہے ( ملاحظہ ہو سورئہ اعراف نوٹ ۲۶۴ اور ۲۶۵ اور وہ عہد بھی جو آدمی اللہ پر ایمان لاکر اس کے ساتھ باندھتا ہے ۔
۴۹ مراد خاندانی رشتے اور ناطے ہیں اور ان کو جوڑنے کا مطلب ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنا ہے ۔ انسان کا اس معاملہ میں بڑا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ۔ صلہ رحمی بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے جبکہ قطع رحمی بہت بڑی بداخلاقی۔
۵۰ یعنی نیکی کی راہ پر چلنے کے باوجود یہ اندیشہ رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن کہیں ہم سے سخت باز پرس نہ کی جائے ۔ یہ اندیشہ ہی ان کی زندگیوں کو محتاط بنادیتا ہے اور نیکی کی راہیں ان پر کھل جاتی ہیں ۔
۵۱ معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک اس صبر کی قدر و قیمت ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے ۔اگر یہ مقصد پیش نظر نہ ہو تو صبر پر کسی انعام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
صبر یہ ہے کہ آدمی حق پر ثابت قدم رہے ، اللہ کی عبادت واطاعت کے لیے تکلیفیں اور مشقتیں اور مصیبتوں کو جھیلے اور لوگوں کی اصلاح اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے سلسلہ میں عزم و ہمت سے کام لے ۔ اس طرح مؤمن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہوتی ہے ۔
۵۲ مراد اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا اور خیر کے کاموں پر خرچ کرنا ہے ۔
مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورئہ بقرہ نوٹ ۴۵۲
۵۳ گندگی کو گندگی سے نہیں دور کیا جاسکتا بلکہ اس کو دھونے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح برائی کو جوابی برائی کے ذریعہ نہیں بلکہ نیکی اور حسن سلوک ہی کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے ایک بگڑے ہوئے ماحول میں اصلاح کا کام کرنے والوں کا اصل ہتھیار نیکی ہوتا ہے ۔
۵۴ یعنی آخرت کا گھر جس کی نعمتیں ایسے ہی لوگوں کے حصہ میں آئیں گی۔
۵۵ اہل ایمان کو یہ مزید خوشخبری سنا دی گئی ہے کہ ان کے والدین‘ ازواج اور اولاد میں سے جو جو صالح ہوں گے ان کے ساتھ جنت میں جمع ہوں گے تاکہ ان کے لیے مزید مسرت کا باعث بنیں ۔یہ خوشبخری اہل ایمان کو اس بات کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو صالح بنانے کی کوشش کریں تاکہ گھر کے سبھی افراد جنت کے مستحق بنیں ۔
۵۶ یعنی جو صابرانہ زندگی تم نے دنیا میں گذاری اس کی بدولت تم جنت کے مستحق قرار پائے جہاں تمہارے لیے ہر طرح سلامتی ہی سلامتی ہے اس تصور ہی میں اہل ایمان کے لیے روحانی لذت کا بڑا سامان ہے کہ جنت میں فرشتے ان سے ملنے کے لیے آئیں گے اور انہیں اس کامیابی پر مبارکباد دیں گے ۔
۵۷ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو خدائے واحد کے بندے بنکر رہنا نہیں چاہتے ۔ وہ بندگی کے اس عہد کو جو عہد فطرت ہے توڑدیتے ہیں نیز کسی مصیبت میں گھر جانے کی صورت میں خدا سے بندگی کا شعوری طور پر جو عہد کرتے ہیں اس کو بھی مصیبت سے نجات ملنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اور کفر و شرک کی راہ پر چل کر دنیا میں ہر قسم کا بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔
۵۸ مشرکوں اور کافروں کے ہاں دولت کی ریل پیل اور ان کی معاشی’’ ترقی‘‘ کو دیکھ کر لوگ اس مغالطہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ لوگ لعنت کے مستحق ہوتے تو دنیا ان پر کشادہ کیسے ہوتی۔ اسی مغالطہ کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اور انسان کی اس معاملہ میں آزمائش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو مقصود بناتا ہے یا آخرت کو لہٰذا کسی کے لیے رزق کی فراخی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ پسندیدہ ہے ۔
۵۹ لوگوں کا آخرت کی زندگی کو نظر انداز کر کے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لینا اور دنیوی ترقیوں پر اترانا وہ بنیادی غلطی ہے جس نے ان کو بالکل غلط رخ پر ڈال دیا ہے ۔ اس وقت تو وہ اپنی دنیا بنانے میں مگن ہیں مگر ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب آخرت برپا ہوگی۔ اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ نہ دنیا کی دولت حقیقی دولت تھی اور نہ دنیوی ترقی حقیقی ترقی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو غلط رخ پر ڈال کر آخرت کی ابدی دولت اور لازوال نعمتوں سے اپنے کو محروم کر لیا۔
۶۰ مراد حسی نشانی یعنی معجزہ ہے ۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورئہ انعام نوٹ ۶۴ اور ۶۵
۶۱ مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں آپ کے نبی ہونے کی نشانیاں اتنی جمع ہو گئی ہیں کہ کسی حسی معجزہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان ساری نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی جو لوگ آپ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں ان کو یہ توفیق کہاں ہوسکتی ہے کہ راہِ حق کو پالیں ۔ را ہِحق کی طرف بڑھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ خدا یا مجھے راہ حق دکھا۔
۶۲ یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والے لوگ ہی ایمان لاتے ہیں اور جب ایمان لاتے ہیں تو اللہ کی یاد ان کے اطمینانِ قلب کا سامان بن جاتی ہے کیونکہ ایمان لانا اللہ کو پالینا ہے اور جب ایک مومن اللہ کو پالیتا ہے تو اسے تمام ذہنی الجھنوں سے نجات مل جاتی ہے اور اس کے جذبات اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوجاتے ہیں جس سے دل میں سکون و طمانیت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
یہ آیت اہل ایمان کو روحانی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے ایک مؤمن اللہ کو جتنا یاد کرے گا اتنا ہی اسے روحانی اور قلبی سکون نصیب ہوگا اور یہ دولت ایسی ہے جس کے مقابلہ میں ساری دولتیں ہیچ ہیں ۔
۶۳ اس مبارکباد میں اہل ایمان کے لیے مسرتوں اور امیدوں کی دنیا آباد ہے کیونکہ یہ مبارکباد اللہ کی طرف سے ہے اور جب اس کا احساس ایک مؤمن کو ہوجاتا ہے تو وہ موت سے پہلے ہی اڑنے کے لیے پرتول لیتا ہے ۔
۶۴ اس آیت میں مشرکین کو قرآن سنانے کا حکم دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مسلم اور غیر مسلم سب کے سمجھنے کی چیز ہے ۔ اگر وہ عربی داں نہیں ہیں تو ترجمہ کی مدد سے ان کو قرآن سمجھایا جانا چاہیے ۔
۶۵ رسالت اور وحی کا انکار کرنے والے درحقیقت خدائے رحمن ہی کے منکر ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ اللہ کو رحمن( مہربان) مانتے تو انہیں رسول کی بعثت اور قرآن کے نزول پر تعجب نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتے کہ خدائے رحمن اپنے بندوں پر مہربان ہونا چاہتا ہے اس لیے اس نے یہ رحمت نازل کی ہے ۔
۶۶ اس شرطیہ جملہ کا جواب حذف کر دیاگیا ہے کیونکہ اس کا جواب واضح ہے ۔ عربی کا اسلوب یہ ہے کہ ایسے موقع پر جواب حذف کر دیتے ہیں اور پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھ لیتا ہے ۔ ہم نے اس کو قوسین میں کھول دیا ہے ۔
۶۷ مطلب یہ ہے کہ اگر ان پر ایسا قرآن نازل کیا جاتا جس کے ذریعہ پہاڑوں کے چلنے یا زمین کے پاش پاش ہونے یا مردوں کے کلام کرنے جیسے معجزے ظاہر ہوتے تو بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں وہ ایمان نہ لاتے بلکہ اس کو جادو وغیرہ پر مجہول کرتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ معجزے دکھانا رسول کے اختیار کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔ وہ چاہے گا تو معجزہ دکھائے گا نہیں چاہے گا تو نہیں دکھائے گا۔
۶۸ کافروں کی طرف سے معجزہ کے شدید مطالبہ کے پیش نظر بعض مسلمان یہ خیال کررہے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی حسی معجزہ دکھاتا تو شاید یہ لوگ ایمان لے آتے ۔ ان کے اسی خیال کی تردید یہاں کی گئی ہے کہ ایمان کا تعلق عقل و بصیرت سے ہے اور عقل و بصیرت سے کام لینے والوں کے لیے قرآن بجائے خود بہت بڑا معجزہ ہے لیکن جو لوگ عقل وبصیرت سے کام لینا نہیں چاہتے ان کو اگر ان کا منہ مانگا معجزہ دکھادیا جائے تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ ہاں اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت کی راہ پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتا لیکن جب اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ انسان کو یہ اختیار بخشا کہ وہ اپنی مرضی سے ہدایت یا گمراہی کا انتخاب کرے تو جن لوگوں نے گمراہی کا انتخاب کر کے ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کی ہے ان سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ معجزہ دیکھ کر راہ راست پر آ جائیں گے ۔؟
۶۹ یعنی قیامت تک کافروں پر ایک نہ ایک آفت نازل ہوتی رہے گی کبھی ایک قوم پر کبھی دوسری قوم پر ‘ کبھی ایک آبادی پر اور کبھی دوسری آبادی پر‘ کبھی ایک ملک میں اور کبھی دوسرے ملک میں تاکہ وہ اپنے کرتوتوں کا دنیا میں بھی مزا چکھیں اور تاکہ انہیں تنبیہ ہو۔ یہ آفتیں قدرتی بھی ہوسکتی ہیں اور انسانوں کے ہاتھوں بھی جیسا کہ جنگ وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ موجودہ زمانہ میں تو یہ آفتیں اس تیزی سے آرہی ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی جگہ سے چھوٹی یا بڑی آفت کی خبر نہ ملتی ہو۔ طوفان‘ سیلاب‘ قحط اور زلزلہ جیسی قدرتی آفتوں کے علاوہ بڑے بڑے حادثات ‘ فسادات اور جنگی کاروائیوں نے المناک صورت پیدا کر دی ہے ۔
۷۰ یعنی جو خدا ایک ایک شخص کے ایک ایک عمل کی نگرانی کررہا ہے وہ ان سے باز پرس کیسے نہیں کرے گا مگر ان لوگوں نے خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہراکر باز پرس کے تصور ہی سے نجات حاصل کر لی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ حمایتی اور سفارشی ہر جگہ ہماری مدد کے لیے کافی ہیں ۔ اگر مرنے کے بعد کوئی مرحلہ پیش آیا تو وہاں بھی ہمارے یہی معبود ہمارے لیے وسیلۂ نجات بنیں گے ۔
۷۱ یہ طنز ہے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے بے حقیقت ہونے پر۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ اللہ تو وہ زبردست ہستی ہے جو ایک ایک شخص کی نگرانی کررہا ہے اس لیے اس کو معبود بنانا بھی برحق ہے اور اس کی باز پرس سے ڈرنا بھا برحق لیکن تم نے جن کو معبود بنا رکھا ہے ان میں کون ہے جو خدائی کی یہ شان رکھتا ہو؟ کیا تم ناموں کی صراحت کے ساتھ یہ بتاسکتے ہو کہ یہ اور ہستیاں اللہ کے جیسی صفات اور اختیارات رکھتی ہیں ؟
۷۲ اگر تم یہ دعویٰ کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو متعدد خداؤں کے وجود کی خبر دے رہے ہو جبکہ اللہ کو نہیں معلوم کہ کہیں کسی خدا کا وجود ہے اور جو بات اللہ کے علم میں نہیں وہ لازماً اپنا وجود نہیں رکھتی۔
۷۳ یعنی جس چیز کی کوئی حقیقت نہیں اس کا دعویٰ ایک بے سوچی سمجھی اور نا معقول بات ہی ہوسکتی ہے مگر تم لوگوں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ کیسی بے سروپا باتیں ہیں جو تم کرتے ہو۔
خدا کے بارے میں انسان کو سب سے زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے مگر واقعہ یہ ہے کہ اکثر لوگ خدا کے بارے میں سب سے زیادہ غیر سنجیدہ بنے ہوئے ہیں وہ بلا دلیل خدا کے بارے میں جو منہ میں آیا کہہ دیتے ہیں ۔
۷۴ یعنی شرک کی نا معقولیت واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ اسے اس لیے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ اس صورت میں ان کے مفادات متاثر ہوں گے ، ان کو سماج میں جو مقام حاصل ہے وہ باقی نہیں رہے گا اور ان کا اقتدار خطرہ میں پڑے گا۔ وہ اپنی ان ناجائز اغراض پر پردہ ڈالنے کے لیے شرک اور مشرکانہ مذہب کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ سب ان کی چالبازیاں ہیں ۔
۷۵ یعنی اللہ کا قانونِ ضلالت ان پر لاگو ہوگیا۔
۷۶ قانون قدرت یہ ہے کہ جو شخص آنکھیں بند کئے رہتا ہو اس کو آفتابِ ہدایت دکھائی نہیں دیتا اور نہ کسی کے بس میں ہوتا ہے کہ اسے روشنی دکھائے ۔
۷۷ دنیا میں جو عذاب کافروں ‘ مشرکوں اور ملحدوں پر آتا ہے وہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور درجہ کے اعتبار سے بھی وہ مختلف ہوتا ہے ۔ رسول کے ذریعہ حجت قائم ہوجانے کے بعد جو عذاب آتا ہے وہ تو ایک فیصلہ کن عذاب ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے عذابوں کا سلسلہ دنیا میں جاری رہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ایک کافر پر خدا کی ایسی مار پڑتی رہتی ہے کہ اس کو سخت قلبی تکلیف اور روحانی الم محسوس ہونے لگتا ہے خواہ وہ کتنی ہی عیش و عشرت کی زندگی کیوں نہ گزاررہا ہو۔ بخلاف اس کے ایک مخلص مؤمن کو دنیا میں جو تکلیف پہنچتی ہے وہ چونکہ آزمائش کے طور پر ہوتی ہے اور اس کو برداشت کرنا باعثِ اجر ہوتا ہے اس لیے اس کے روحانی سکون میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے اس لیے یہ تکلیفیں مؤمن کے حق میں عذاب نہیں بلکہ اس کو سکون و راحت سے ہم کنار کرنے والی ہوتی ہیں ۔
۷۸ یعنی وہ سدا بہار جنت ہے جس کے پھل موسمی نہیں بلکہ دائمی ہیں اور جس کی چھاؤں بھی ہمیشہ قائم رہنے والی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنت کی دنیا موجودہ دنیا سے کتنی مختلف ہوں گی اور وہاں کی ہر چیز کس قدر معیاری اور اعلیٰ ہوگی۔
۷۹ یہاں تقویٰ کا لفظ شرک اور کفر کے بالمقابل استعمال ہوا ہے جس سے واضح ہوا کہ تقویٰ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ آدمی شرک اور کفر سے بچے جبکہ اس کے وسیع تر مفہوم میں ہر طرح کی معصیتوں سے بچنا شامل ہے ۔
۸۰ مراد اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہیں جو اللہ پر مخلصانہ ایمان رکھتے تھے اور کسی گروہ بندی اور مذہبی تعصب کا شکار نہ تھے ۔ جب قرآن ان کے سامنے آیا تو انہیں خوشی ہوئی کہ ہمارے رب کی طرف سے ہماری ہدایت کا سامان ہوا۔ اشارہ غالباً حبشہ کے نصاریٰ کی طرف ہے جہاں مسلمان ہجرت کر کے گئے تھے اور جہاں کے بادشا ن اسلام قبول کر لیا تھا۔
۸۱ اشارہ ہے اہلِکتاب کے ان فرقوں کی طرف جنہیں قرآن کی بعض باتوں اور خاص طور سے توحید خالص سے انکار تھا۔
۸۲ یعنی جس طرح ہم نے تمہیں عرب قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا ہے __ جس کا ذکر اوپر آیت۳۰ میں ہوا__ اسی طرح ہم نے ان کی زبان میں جو عربی ہے قرآن کو ایک فرمان کی شکل میں نازل کیا تاکہ وہ اسے سمجھیں اور رسول کی بعثت چونکہ براہ راست اس قوم کی طرف ہے اس لیے اس پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہوجائے ۔
۸۳ علم سے مراد دین کا صحیح علم ہے جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے ۔
۸۴ خواہشات سے مراد وہ عقیدے اور طور طریقے ہیں جو علم حق پر نہیں بلکہ لوگوں کی اپنی خواہشات پر مبنی ہیں
اس اصولی بات کا اطلاق ان بدعتوں پر بھی ہوتا ہے جو مسلمانوں نے اختیار کر رکھی ہیں اور جس نے دین کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔
۸۵ یہ منکرین کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ یہ شخص اگر پیغمبر ہے تو بیوی بچے کیسے رکھتا ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبر کو بشریت سے بالاتر ہونا چاہیے اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ اس سے پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ بھی بشر ہی تھے اور وہ بشریت کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے ایسا ہونا رسول کی شان کے خلاف نہیں ہے ۔
۸۶ یعنی جس دور میں اللہ تعالیٰ نے جس رسول کو بھیجا اس دور کی مناسبت سے اس کو نشانیاں عطا ء کیں جو اس کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں ۔ ان نشانیوں کا ظہور اللہ تعالیٰ کے اس حکیمانہ فیصلہ کے مطابق ہوا تھا جو اس دور کے لیے اس نے کیا تھا اور ہر دور کے لیے اس کے فیصلے ایک نوشتہ ( کتاب) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور گزرے ہوئے دوروں سے مختلف ہے اس لیے ماضی میں جس طرح کے حسی معجزے رسولوں کو دے ئے گئے تھے اس طرح کے کسی معجزے کا مطالبہ اس دور میں کرنا صحیح نہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادو کا زور تھا اس لیے انہیں لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ دیاگیا تا کہ وہ جادو پر غالب آ جائے اور ان کے رسول ہونے کی دلیل بنے ۔
اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فن طب عروج پر تھا اس لیے انہیں اندھوں اور کوڑھیوں کو شفایات کرنے کا معجزہ عطا کیاگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ فصاحت و بلاغت کے عروج کا دور ہے اس لیے آپ کو ایسی بلیغ کتاب عطا کی گئی کہ اس کے کلام بلاغت نظام کے آگے اس فن کے بڑے بڑے ماہرین کو بھی سپر ڈالنا پڑی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے کوئی ایسا معجزہ ہی آپ کے لیے موزوں ہوسکتا تھا جو مستقل ہو اور جس کو بعد کے لوگ بھی دیکھ سکیں چنانچہ قرآن تا قیامت ایک زندہ معجزہ ہے ۔ اس دور کے لیے فیصلہ الٰہی یہی ہے جو ایک نوشتہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔
۸۷ اوپر کی آیت میں نشانی(معجزہ) کے تعلق سے جو بات فرمائی گئی ہے اس کے پیش نظر اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نشانی( معجزہ) کو چاہتا ہے عارضی بنادیتا ہے اور جس نشانی( معجزہ) کو چاہتا ہے مستقل بنادیتا ہے ۔ پچھلے پیغمبروں کو جو معجزے دے ئے گئے تھے وہ وقتی تھے لیکن قرآن کی شکل میں جو معجزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جارہا ہے وہ رہتی دنیا تک قائم اور زندہ رہنے والا معجزہ ہے ۔
۸۸ یعنی اس کے پاس وہ کتا ب موجود ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے درج ہیں ۔ کس رسول کو کس دور میں کونسا معجزہ دیکر بھیجا جائے یہ ایک طے شدہ بات ہے جس کا اندراج ام الکتاب میں ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کی بعثت اور ان کے ہاتھوں مختلف قسم کے معجزوں کے ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک طے شدہ اسکیم ہے جو منضبط شکل میں اس کے پاس موجود ہے اور اسی کے مطابق واقعات ظہور میں آتے ہیں ‘ لہٰذا تم الٹے سیدھے مطالبہ کرنے کے بجائے اس اسکیم اور اس حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرو جس کے مطابق اس رسول کی بعثت ہوئی ہے ۔
۸۹ اس کی تشریح سورئہ یونس نوٹ ۷۵ میں گزرچکی ۔
۹۰ یعنی مکہ کے اطراف مثلاً مدینہ وغیرہ میں اسلام کا اثر بڑھتا جارہا ہے اور مختلف قبائل میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسلام غلبہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور مشرکوں اور کافروں پر مکہ کی زمین روز بروز تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ قرآن کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی اور چند سال کے اندر اندر نہ صرف مدینہ میں اسلام غالب ہوا بلکہ مکہ کو فتح کرتا ہوا پورے عرب پر چھاگیا۔
۹۱ مراد اہل کتاب کے وہ لوگ ہیں جو کتابِا لٰہی کا علم رکھتے تھے اور حق پسند تھے ان کی گواہی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تائید میں اس لیے پیش کیاگیا کہ پچھلی کتابوں میں ایک رسول کی بعثت کے سلسلہ میں جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ پوری طرح آپ پر صادق آرہی تھیں اور آپ کی دعوت ٹھیک ٹھیک وہی دعوت تھی جس کی طرف انبیاء علیہم السلام دعوت دیتے رہے ہیں اس لیے نصاریٰ میں سے نجاشی(شاہ حبش) جیسے لوگوں کا آپ پر ایمان لانا شہادت کے تعلق سے کافی اہم بات ہے ۔چونکہ مشرکین مکہ رسالت سے نا آشنا تھے اور اہلِ کتاب رسالت سے اچھی طرح آشنا تھے اس لیے مشرکین مکہ کو متوجہ کیاگیا کہ ان سے معلوم کرو کہ رسول اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں یا نہیں اور وہ انسان تھے یا کچھ اور۔
53. وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌO
53. اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
54. وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌO
54. اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)o
55. قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌO
55. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوںo
56. وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَO
56. اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتےo
57. وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO
57. اور یقیناً آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقوٰی پر گامزن رہےo
58. وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَO
58. اور (قحط کے زمانہ میں) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (غلہ لینے کے لئے مصر) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکےo
59. وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُـنْـزِلِينَO
59. اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا (تو) فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز (بھی) ہوںo
60. فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِO
60. پس اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو (آئندہ) تمہارے لئے میرے پاس (غلہ کا) کوئی پیمانہ نہ ہوگا اور نہ (ہی) تم میرے قریب آسکو گےo
61. قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَO
61. وہ بولے: ہم اس کے بھیجنے سے متعلق اس کے باپ سے ضرور تقاضا کریں گے اور ہم یقیناً (ایسا) کریں گےo
62. وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَO
62. اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (جو انہوں نے غلہ کے عوض اد اکی تھی واپس) ان کی بوریوں میں رکھ دو تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں تو اسے پہچان لیں (کہ یہ رقم تو واپس آگئی ہے) شاید وہ (اسی سبب سے) لوٹ کر آجائیںo
63. فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَO
63. سو جب وہ اپنے والد کی طرف لوٹے (تو) کہنے لگے: اے ہمارے باپ! (آئندہ کے لئے) ہم پر غلہ بند کر دیا گیا ہے (سوائے اس کے کہ بنیامین ہمارے ساتھ جائے) پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیں (تاکہ) ہم (مزید) غلہ لے آئیں اور ہم یقیناً اس کے محافظ ہوں گےo
64. قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَO
64. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں اس کے بارے میں (بھی) تم پر اسی طرح اعتماد کر لوں جیسے اس سے قبل میں نے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام) کے بارے میں تم پر اعتماد کر لیا تھا؟ تو اﷲ ہی بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہی سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہےo
65. وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌO
65. جب انہوں نے اپنا سامان کھولا (تو اس میں) اپنی رقم پائی (جو) انہیں لوٹا دی گئی تھی، وہ کہنے لگے: اے ہمارے والد گرامی! ہمیں اور کیا چاہئے؟ یہ ہماری رقم (بھی) ہماری طرف لوٹا دی گئی ہے اور (اب تو) ہم اپنے گھر والوں کے لئے (ضرور ہی) غلہ لائیں گے اور ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے، اور یہ (غلہ جو ہم پہلے لائے ہیں) تھوڑی مقدار (میں) ہےo
66. قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌO
66. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ تم اﷲ کی قسم کھا کر مجھے پختہ وعدہ دو کہ تم اسے ضرور میرے پاس (واپس) لے آؤ گے سوائے اس کے کہ تم (سب) کو (کہیں) گھیر لیا جائے (یا ہلاک کر دیا جائے)، پھر جب انہوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو اپنا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس پر اﷲ نگہبان ہےo
67. وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَO
67. اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئےo
68. وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَO
68. اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتےo
69. وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
69. اور جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اسے آہستہ سے) کہا: بیشک میں ہی تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس تو غمزدہ نہ ہو ان کاموں پر جو یہ کرتے رہے ہیںo
70. فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَO
70. پھر جب (یوسف علیہ السلام نے) ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو (شاہی) پیالہ اپنے بھائی (بنیامین) کی بوری میں رکھ دیا بعد ازاں پکارنے والے نے آواز دی: اے قافلہ والو! (ٹھہرو) یقیناً تم لوگ ہی چور (معلوم ہوتے) ہوo
71. قَالُواْ وَأَقْبَلُواْ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَO
71. وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہےo
72. قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌO
72. وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوںo
73. قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَO
73. وہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! بیشک تم جان گئے ہو (گے) ہم اس لئے نہیں آئے تھے کہ (جرم کا ارتکاب کر کے) زمین میں فساد بپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیںo
74. قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَO
74. وہ (ملازم) بولے: (تم خود ہی بتاؤ) کہ اس (چور) کی کیا سزا ہوگی اگر تم جھوٹے نکلےo
75. قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَO
75. انہوں نے کہا: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ (پیالہ) برآمد ہو وہ خود ہی اس کا بدلہ ہے (یعنی اسی کو اس کے بدلہ میں رکھ لیا جائے)، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیںo
76. فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌO
76. پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہےo
77. قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَO
77. انہوں نے کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو کوئی تعجب نہیں) بیشک اس کا بھائی (یوسف) بھی اس سے پہلے چوری کر چکا ہے، سو یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے دل میں (چھپائی) رکھی اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا، (دل میں ہی) کہا: تمہارا حال نہایت برا ہے، اور اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کر رہے ہوo
78. قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَO
78. وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیںo
79. قَالَ مَعَاذَ اللّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلاَّ مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّـآ إِذًا لَّظَالِمُونَO
79. یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ کہ ہم نے جس کے پاس اپنا سامان پایا اس کے سوا کسی (اور) کو پکڑ لیں تب تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گےo
80. فَلَمَّا اسْتَيْأَسُواْ مِنْهُ خَلَصُواْ نَجِيًّا قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُواْ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَO
80. پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہوگئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہےo
81. ارْجِعُواْ إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُواْ يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَO
81. تم اپنے باپ کی طرف لوٹ جاؤ پھر (جا کر) کہو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے (اس لئے وہ گرفتار کر لیا گیا) اور ہم نے فقط اسی بات کی گواہی دی تھی جس کا ہمیں علم تھا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھےo
82. وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَO
82. اور (اگر آپ کو اعتبار نہ آئے تو) اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلہ (والوں) سے (معلوم کر لیں) جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم (اپنے قول میں) یقیناً سچے ہیںo
83. قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُO
83. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہےo
84. وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌO
84. اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھےo
85. قَالُواْ تَاللهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَO
85. وہ بولے: اﷲ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف (ہی) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ قریب مرگ ہو جائیں گے یا آپ وفات پا جائیں گےo
86. قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَO
86. انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo
اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo
87. يَا بَنِيَّ اذْهَبُواْ فَتَحَسَّسُواْ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَO
87. اے میرے بیٹو! جاؤ (کہیں سے) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیںo
88. فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَيْهِ قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَآ إِنَّ اللّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَO
88. سو جب وہ (دوبارہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیزِ مصر! ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر مصیبت آن پڑی ہے (ہم شدید قحط میں مبتلا ہیں) اور ہم (یہ) تھوڑی سی رقم لے کر آئے ہیں سو (اس کے بدلے) ہمیں (غلہ کا) پورا پورا ناپ دے دیں اور (اس کے علاوہ) ہم پر (کچھ) صدقہ (بھی) کر دیں۔ بیشک اﷲ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہےo
89. قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَO
89. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھےo
90. قَالُواْ أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَاْ يُوسُفُ وَهَـذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَO
90. وہ بولے: کیا واقعی تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے بیشک اﷲ نے ہم پر احسان فرمایا ہے، یقیناً جو شخص اﷲ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتاo
91. قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَO
91. وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھےo
92. قَالَ لاَ تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَO
92. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے، اﷲ تمہیں معاف فرما دے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہےo
93. اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَO
93. میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤo
94. وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِO
94. اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کروo
95. قَالُواْ تَاللّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلاَلِكَ الْقَدِيمِO
95. وہ بولے: اﷲ کی قسم یقیناً آپ اپنی (اسی) پرانی محبت کی خود رفتگی میں ہیںo
96. فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَO
96. پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo
97. قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَO
97. وہ بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطاکار تھےo
98. قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُO
98. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، بیشک وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
99. فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُواْ مِصْرَ إِن شَاءَ اللّهُ آمِنِينَO
99. پھر جب وہ (سب اَفرادِ خانہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) یوسف (علیہ السلام) نے (شہر سے باہر آکر ہزارہا سواریوں، فوجیوں اور لوگوں کے ہمراہ شاہی جلوس کی صورت میں ان کا استقبال کیا اور) اپنے ماں باپ کو تعظیماً اپنے قریب جگہ دی (یا انہیں اپنے گلے سے لگا لیا) اور (خوش آمدید کہتے ہوئے) فرمایا: آپ مصر میں داخل ہو جائیں اگر اﷲ نے چاہا (تو) امن و عافیت کے ساتھ (یہیں قیام کریں)o
100. وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَـذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُO
100. اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ (سب) یوسف (علیہ السلام) کے لئے سجدہ میں گر پڑے، اور یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اے ابا جان! یہ میرے (اس) خواب کی تعبیر ہے جو (بہت) پہلے آیا تھا (اکثر مفسرین کے نزدیک اسے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا تھا) اور بیشک میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور بیشک اس نے مجھ پر (بڑا) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اور آپ سب کو صحرا سے (یہاں) لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کر دیا تھا، اور بیشک میرا رب جس چیز کو چاہے (اپنی) تدبیر سے آسان فرما دے، بیشک وہی خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
101. رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَO
101. اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دےo
102. ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَO
102. (اے حبیبِ مکرّم!) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہو رہے تھے اور وہ مکر و فریب کر رہے تھےo
103. وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَO
103. اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریںo
104. وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَO
104. اور آپ ان سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی صلہ تو نہیں مانگتے، یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لئے نصیحت ہی تو ہےo
105. وَكَأَيِّن مِّن آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَO
105. اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیںo
106. وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَO
106. اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیںo
107. أَفَأَمِنُواْ أَن تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَO
107. کیا وہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اﷲ کے عذاب کی چھا جانے والی آفت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہوo
108. قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَO
108. (اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo
109. وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO
109. اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مَردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے، کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ (خود) دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتےo
110. حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَO
110. یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتاo
111. لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO
111. بیشک ان کے قصوں میں سمجھ داروں کے لئے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئےo
اس کی تشریح سورئہ یونس نوٹ ۷۵ میں گزرچکی ۔
۹۰ یعنی مکہ کے اطراف مثلاً مدینہ وغیرہ میں اسلام کا اثر بڑھتا جارہا ہے اور مختلف قبائل میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسلام غلبہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور مشرکوں اور کافروں پر مکہ کی زمین روز بروز تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ قرآن کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی اور چند سال کے اندر اندر نہ صرف مدینہ میں اسلام غالب ہوا بلکہ مکہ کو فتح کرتا ہوا پورے عرب پر چھاگیا۔
۹۱ مراد اہل کتاب کے وہ لوگ ہیں جو کتابِا لٰہی کا علم رکھتے تھے اور حق پسند تھے ان کی گواہی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تائید میں اس لیے پیش کیاگیا کہ پچھلی کتابوں میں ایک رسول کی بعثت کے سلسلہ میں جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ پوری طرح آپ پر صادق آرہی تھیں اور آپ کی دعوت ٹھیک ٹھیک وہی دعوت تھی جس کی طرف انبیاء علیہم السلام دعوت دیتے رہے ہیں اس لیے نصاریٰ میں سے نجاشی(شاہ حبش) جیسے لوگوں کا آپ پر ایمان لانا شہادت کے تعلق سے کافی اہم بات ہے ۔چونکہ مشرکین مکہ رسالت سے نا آشنا تھے اور اہلِ کتاب رسالت سے اچھی طرح آشنا تھے اس لیے مشرکین مکہ کو متوجہ کیاگیا کہ ان سے معلوم کرو کہ رسول اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں یا نہیں اور وہ انسان تھے یا کچھ اور۔
Abewsha
09-01-2011, 05:46 AM
۶۲
(۲۹) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لیے مبارکباد ہے ۶۳ اور بہترین انجام ۔
(۳۰) اس طرح ہم نے تم کو ایک ایسی امت میں رسول بناکر بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں تاکہ تم انہیں وہ بات سناؤ جو ہم نے تم پر ناز ل کی ہے ۔۶۴ کہو وہی میرا رب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
(۳۱)اور اگر کوئی ایسا قرآن نازل ہوتا جس سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا مردے بولنے لگتے ۶۶( تب بھی یہ ایمان نہ لاتے ۔ اور نہ تمہارے بس میں ہے کہ ایسا کر دکھاؤ) بلکہ سارا اختیار اللہ ہی کو ہے ۔۶۷ پھر کیا اہل ایمان یہ جان کر کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا ( ان ہٹ دھرموں کے ایمان لانے سے ) مایوس نہیں ہوئیے ؟۶۸ اور کافروں پر ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہے گی یا ان کی آبادیوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ ظہور میں آئے ۶۹ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرت
visit ka buhat shukriya ABEWSHA siso
ღƬαsнι☣Rασ™
07-08-2012, 03:59 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.