View Full Version : حقيقتِ تقویٰ
حقيقتِ تقویٰ
شش کرتا ہے جو اللہ پاک کو ناپسند ھو۔
"انمال الاعمال با النيات"کے تحت جس طرح نيت ہر عمل کی جان ہوتی ہے اسی طرح تقوی ميں بھی اسے بڑا دخل ہے۔اگر ارتکاب گناہ اور خدا کی نافرمانی سے صرف اس ليے بچا جاۓ کہ خدا ناراض ہو گا يا رحمت الہی سے محرومی ہو گی تو تقویٰٰ کی حقيقت حاصل ہوتی ہے ورنہ اگرخيال رسوائی يابدنامی کاڈر ہو يا کوئی عمل دکھلاؤے کے ليے کيا جائے تو تقویٰ نہيں ہوگا۔
قرآن وحديث ميں لفظ" تقویٰ "مختلف صورتوں ميں بےشمارمقامات پرا ستعمال کيا گيا ہے۔ ہے۔مختلف استعمالات کے پيشٍ نظراس کی تعريف يوں کی جا سکتی ہے۔
" تقویٰ رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے"۔
نصرآبادی فرمايا کرتےتھے کہ تقویٰ يہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چيز سے بچے------- طلق ابن خبيب کا قول ہے کہ
"اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق ا طاعت خداوندی يعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے"۔ (رسالہ تشريہ)
حضرت جمشيد نقشبندی رحمتہ اللہ عليہ کا قول ہے کہ:۔
" زندگی اطاعتِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم ميں گذارناتقویٰ ہے۔"
"حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعريف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کيا:"کيا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہيں؟" آپ نے جواب ديا:" ہاں": پھر پوچھا کہ"آپ نے کياطريقہ استعمال کيا؟" حضرت عمر رضی اللہ عنہ فر مانے لگے":ميں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سميٹ کر چلا۔"حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے :" يہی "تقویٰ " ہے
اس کا مطلب يہ ہے کہ دنيا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے۔مومن کا کام يہ ہے کہ اس ميں سے گزرتے ہوئےدامن سميٹ کرچلے۔اس کی کاميابی اسی ميں ہے کہ ہر کام ميں ديکھے کہ اس ميں خدا کی خوشنودی مضمر ہے يا نہيں۔
ابو عبد اللہ رودباری فرمايا کرتے تھے کہ " تقوی يہ ہے کہ ان تمام چيزوں سے اجتناب کيا جائے جواللہ سے دور رکھنے والی ہوں ۔"
حضرت واسطی رحمتہ اللہ عليہ فرماتے تھے کہ
"اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے"۔
متقی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ريا سے بچے اس لئے کہ يہ اعمال کو اس طرح کھاتی ہےجس طرح ديمک لکڑی کو کھاجاتی ہے۔کہتے ہيں کہ حضرت ذوالنون مصری عليہ الرحمتہ کے علاقہ ميں ايک بار قحط پڑ گيا۔لوگ آپ کے پاس دعا کروانے کے لئے آئے ۔آپ فرمانے لگے":بارش اس لئے نہيں ہوتی کہ گناہ گار زيادہ ہو گئے ہيں اورسب سے بڑا گناہ گار ميں ہوں ۔اگر مجھے شہر سے نکال ديا جائے تو بارانٍ رحمت برسنے لگ جائے گی۔
اللہ ان لوگوں پر رحمتيں برسائے عظيم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہيں تھااوراسی کانام تقویٰٰ ہے ۔
اللہ ان لوگوں پر رحمتيں برسائے عظيم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہيں تھااوراسی کانام تقویٰٰ ہے ۔
فر وتنی است دليل رسيد گانٍ کمال
کہ چوں سوار بمنزل رسد پيادہ شود
يعنی اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے ۔آپ نے ديکھانہيں کہ سوار جب منزل مقصود پر پہنچتاہے تو پيادہ ہو جاتا ہے۔
تقویٰ کے مدارج
پہلا درجہ
التوقی عن العذاب المخلد باالتبری عن الشرک۔ (انور التنزيل جلد اول ص ١٦)
عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے۔
اللہ تعالٰی کو اس کی ذات،صفات اور افعال ميں يکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زينہ ہے۔مومن کے عرفانی مدارج کا کمال يہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحيد رچی بسی ہوتی ہے۔وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے۔اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے۔
التوقی عن العذاب المخلد باالتبری عن الشرک۔ (انور التنزيل جلد اول ص ١٦)
عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے۔
اللہ تعالٰی کو اس کی ذات،صفات اور افعال ميں يکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زينہ ہے۔مومن کے عرفانی مدارج کا کمال يہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحيد رچی بسی ہوتی ہے۔وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے۔اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے۔
گو يہ سب کو تسليم ہے کہ معبود وہی ہے
مگر کم ہيں جو سمجھتے ہيں کہ مقصود وہی ہے
متقی شرک کو ظلم عظيم سمجھتا ہے۔اس کی دعوت و تبليغ کا محوراثبات توحيد اور ترديد شرک ہوتا ہے ۔ليکن ياد رہے کہ توہين انبياء اورگستاخ اولياء توحيد نہيں بلکہ جرم عظيم ہے۔ جس طرح خدا کی ذات و صفات میں کسی کو شريک ٹھہرانا کفر ہے ،اسی طرح انبياء ومرسلين کو اپنی طرح سمجھنا يا اپنے آپ کو ان کے مثل جاننا صريح کفر ہے۔اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔آمين يا رب العالمين۔
عقا ئد کا ٹھيک ہونا تقویٰ کی جان ہے ۔سورہ بقرہ ميں متقی کی تعريف ميں اس کے اعمال کے ساتھ ساتھ راسخ عقائد ہی کا ذکر کيا گيا ہے۔
اَلَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ہلا وَالَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ج وَبِااْلاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ہ (القرآن ۔ ٢تا٦)
" وہ لوگ جو غيب پر ايمان رکھتے ہيں۔نماز قائم کرتے ہيں،اور ہمارے ديئے ہوئے سے خرچ کرتے ہيں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ايمان لاتے ہيں اور آخرت پر يقين رکھتے ہيں۔"
اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ايمان لاتے ہيں اور آخرت پر يقين رکھتے ہيں۔"
دوسرا درجہ
التجنب عن کل ما يؤ ثم من ادرك حتٰی الصغا ئر۔ (انوارالتنزيل جلد اول ص١٦)
" ہر وہ فعل جس ميں گناہ کا انديشہ ہو يہاں تک کہ صغيرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے "۔
تقویٰ کے اس مرتبہ کی طرف قرآن حکيم نے اس طرح اشا رہ فرمايا ہے:۔
وَلَوْ اَنّ َ اَھْلَ الْقُرآي اٰمَنُوْاوَ اتَّقُوْا۔ (الاعراف۔٩٦)
" کاش بستيوں والے ايمان لاتے اور تقویٰ اختيار کرتے"۔
متقی کے لئے ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کائنات کے خالق نے متعين کی ہيں۔يہ سب کچھ اسی صورت ميں ممکن ہوتا ہے جب خوف الٰہی دل ميں پوری طرح جاگزيں ہو اور انسان ہر وقت يہ سوچے کہ يہ دنيا اندھيرنگری نہيں،بلکہ امتحان گاہ ہے اورايک نہ ايک دن اسے اپنے اعمال کے بارے ميں جواب دہ ہونا ہے۔
تيسرا درجہ
علامہ ناصر الدين ابو سعيد عبداللہ بن بيضاوی لکھتے ہيں:۔
والثالثۃ ان يتنزہ عما يشغل سرہ عن الحق ويتبتل اليہ بشراشرہ وھو التقوی الحقيقی المطلوب۔ (انوار التنزيل ص١٦ جلد اول)
ص١٦ جلد اول)
" ہروقت اللہ تعالٰی سے تعلق قائم رکھنا اور اس سے غافل کر دينے والی اشياء سے لا تعلق ہونا تقویٰ ہے اور تقویٰ کی حالت حقيقی اور مطلوب ومقصود ہے"۔
يہاں تعلق سے مراد ہر وقت خدا کو ياد کرنا ہے۔ہر فعل ميںاس کی رضا ديکھنا ہے۔بعض صوفياء کا "پاس انفاس"کا معمول بھی تقویٰ کے اس مفہوم ميں آسکتا ہے۔دوسرے لفظوں ميں تقویٰ کی اس حالت کو"ماسوی اللہ بس"سے بھی تعبير کيا جا سکتا ہے۔يعنی اللہ کے سوا ہرچيز سے بے نياز ہو جا نا۔
قرآن مجيد ميں پروردگارٍ عالم ارشاد فرماتے ہيں:۔
يٰآاَيّھُاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقَا تِہٰ ط ۔ (آل عمران : ١٠٢)
"اے ايمان والو تقویٰ اختيار کرو جيسا کہ تقویٰ کا حق ہے"۔
انسان کو ہر وقت اس کو شش ميں لگے رہنا چاہيے کہ کوئی چيز راہ ٍدين سے غفلت کا سبب نہ بنے۔شيطانی طاقتيں اس پر غا لب نہ آئيں۔نفس امارہ اسے اپنے دامن ميں نہ لے لے،اور يہ سب کچھ عمل پہيم اور جہادِ مسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ فکر اورجذ بہ صا د ق اس سلسلہ ميں ممّد اور معاون ثابت ہوتے ہيں
يں۔
تقویٰ کی اہميت
متيقا نہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا ديتی ہے ۔مسلمان صرف اجتماعی زندگی ہی ايک ضابطے کا پابند نہيں بلکہ وہ انفرادی زند گی ميں بھی ايک دستور اور قا نون کے مطابق تعمير اور تطہير حيات کی منازل طے کرتا ہے ۔اس کا اٹھنا بيٹھنا ،چلنا پھرنا اور قول وفعل رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ہوتے ہيں۔
تقویٰ کی اہميت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا يا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم سے ايک با ر پو چھا گيا :'' آل نبی کون لوگ ہيں"؟ توآپ نے ارشادفرمايا:"متقی"۔ علاوہ ازيں اسلام کا سارا نظام عبادت يہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ "متقی"يعنی صاحب کردار بن جائيں۔
رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم اکثر اوقات "تقویٰ " کے لئے دعا فرماتے ۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرما يا کرتے:۔
اَللّٰھُمَّ اٍنّیٍْ اَسْاََ لُكَ الْھُدیٰ وَالتَّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالٰغٍنیٰ ۔
"اے اللہ ! ميں تجھ سے ہدايت ،تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں"۔
يں۔
تقویٰ کی اہميت
متيقا نہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا ديتی ہے ۔مسلمان صرف اجتماعی زندگی ہی ايک ضابطے کا پابند نہيں بلکہ وہ انفرادی زند گی ميں بھی ايک دستور اور قا نون کے مطابق تعمير اور تطہير حيات کی منازل طے کرتا ہے ۔اس کا اٹھنا بيٹھنا ،چلنا پھرنا اور قول وفعل رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ہوتے ہيں۔
تقویٰ کی اہميت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا يا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم سے ايک با ر پو چھا گيا :'' آل نبی کون لوگ ہيں"؟ توآپ نے ارشادفرمايا:"متقی"۔ علاوہ ازيں اسلام کا سارا نظام عبادت يہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ "متقی"يعنی صاحب کردار بن جائيں۔
رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم اکثر اوقات "تقویٰ " کے لئے دعا فرماتے ۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرما يا کرتے:۔
اَللّٰھُمَّ اٍنّیٍْ اَسْاََ لُكَ الْھُدیٰ وَالتَّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالٰغٍنیٰ ۔
"اے اللہ ! ميں تجھ سے ہدايت ،تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں"۔
"اے اللہ ! ميں تجھ سے ہدايت ،تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں"۔
تقوي کی حد
انبياء کرام معصوم ہستياں ہوتے ہيں۔اللہ تعالٰی ان کی تخليق ہی ايسی کرتا ہے کہ وہ بشري کمزوريوں سے پاک ہوتے ہيں۔" تقویٰ "اگر پوري آب وتاب کے ساتھ کہيں دکھائی دے سکتا ہے تو وہ انبياء ہی ہيں۔اس کے علاوہ کسی شخص کی زندگی ميں"تقویٰ" اس کا مليّت کے ساتھ جو ان کے ہاں ہوتا ہےنہيں پايا جاتا۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ کريم نے اس کي کوئی حد مقرر نہيں کی۔بلکہ ارشاد فرمايا:۔
فَاتَّقُواللہ مَا اسّتَطَعْتُمْ۔ ( التغابن : ١٦)
پس ڈرو اللہ سے اپني بساط کے مطابق۔
يعني تقويٰ کا حق ادا کرنے ميں تم کوئی کسر نہ اٹھا رکھو بلکہ ہر شخص اپني طاقت کے مطابق يہ کوشش کرے کہ اس کی زندگی احکام الٰہی کے مطابق بسر ہو۔
س کی زندگی احکام الٰہی کے مطابق بسر ہو۔
تقويٰ کے اثرات
اسلامي کردار يعني تقویٰ کے اختيار کرنے سے ايک مسلمان کی زندگی پر بےشمار اثرات مرتب ہوتے ہيں۔دينی اور دنياوي زندگی ميں اس کی بدولت انسانی ضمير کو سکون و چين ميسر ہوتا ہے۔
قران کی روشنی ميں تقويٰ کے اثرات پر ہم ايک طائرانہ نظر ڈالتے ہيں۔
تقويٰ اور انسانی عظمت کا راز
عظمت اور بزرگی کی تلاش انسانی فطرت ہے۔ہر شخص معاشرہ ميں اعلٰی سے اعلٰی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسلام کي نظر ميں عظمت و شرافت اور بلندي مراتب کا معيار دولت کی کثرت نہيں۔مال و زر کا ہونا نہيں اور نا ہی حسن و جمال کو اس ميں کوئی دخل ہے بلکہ اپني زندگي کو اللہ کي رضا کي خاطر گزارنا فضيلت کي اصل کسوٹي ہے۔ قرآن مجيد اس بات کي ترديد يوں کرتا ہے:
اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکْمْ۔( الحجرات۔١٣ )
اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکْمْ۔( الحجرات۔١٣ )
اللہ کے نزديک معزز ترين شخص وہ ہے جو تم ميں زيادہ پرہيزگار ہے۔
رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک قول سے بھی يہی پتہ چلتا ہے کہ حقيقی شرف تقویٰ ہی ميں ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے قبا کے خطبہ ميں ايک بار ارشاد فرمايا:"تقویٰ عزت دلاتا ہے اور اللہ کو خوش کرتا ہے"۔
معلوم ہوا کہ حسب و نسب کی روحانی اور مقصودی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں بلکہ يہ وہ بت ہيں جن کی پوجا سے ہماری قوم مسلم قوميت کھوتی جا رہی ہے۔نسلی اور معاشی امتيازات نے ہمارے اسلامی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر ديا ہے۔علاقائی تعصبات دل و دماغ پر پوري طرح تسلط جما رہے ہيں اور يہ سب کچھ تقویٰ کے منافی ہے۔
اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکْمْ۔( الحجرات۔١٣ )
اللہ کے نزديک معزز ترين شخص وہ ہے جو تم ميں زيادہ پرہيزگار ہے۔
رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک قول سے بھی يہی پتہ چلتا ہے کہ حقيقی شرف تقویٰ ہی ميں ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے قبا کے خطبہ ميں ايک بار ارشاد فرمايا:"تقویٰ عزت دلاتا ہے اور اللہ کو خوش کرتا ہے"۔
معلوم ہوا کہ حسب و نسب کی روحانی اور مقصودی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں بلکہ يہ وہ بت ہيں جن کی پوجا سے ہماری قوم مسلم قوميت کھوتی جا رہی ہے۔نسلی اور معاشی امتيازات نے ہمارے اسلامی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر ديا ہے۔علاقائی تعصبات دل و دماغ پر پوري طرح تسلط جما رہے ہيں اور يہ سب کچھ تقویٰ کے منافی ہے۔
تقویٰ اور فلاح حقيقی
انسان جب تک نظامِ وحی سے رہنمائی حاصل نہيں کرتا نقصان اور خسارے ميں رہتا ہے۔ہدايت کے ليے وجدان اور عقل اس کے ليے نا کافی ثابت ہوتے ہيں۔اگر وہ اپنے خالق اور ہادي کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ اکثر فيصلے غلط کرتا ہے۔اس کی دماغی اور ذہنی قوتيں زندگی کی پر پيچ راہوں ميں اس کی ساتھی نہيں بنتيں۔وہ يہاں پہنچ کربے بس ہو جاتا ہے۔اس کی نگا ہيں کس ہادی کو تلاش کرتی ہيں ۔اگر اس بے چارگی کے عالم ميںوہ فطرت کی آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے "نظام ہدايت"جو مختلف ادوار ميں انبياء کی وساطت سے انسانيت کی رہنمائی کرتا
آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے "نظام ہدايت"جو مختلف ادوار ميں انبياء کی وساطت سے انسانيت کی رہنمائی کرتا رہا کو پہچان لے تو فطرت اسے فلاح کا پيغام ديتی ہے۔
وہ لوگ جن کے سينے ايمان سے خالی ہيں اور ان کے اعمال قرآن و سنت کے بر عکس ہيں بے شک وہ انسان تو ہيں ليکن "نظام وحی"سے عدم تمسّک کی بناء پر نقصان و خُسران ان کا مقدر ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لّفْيِ خُسْر ٍ۔ ( العصر۔٢ )
"بے شک انسان خسارے ميں ہے"۔
نقصان کے مقابلہ ميں قرآن "فلاح" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔اور "فلاح" کی شرائط ميں تقویٰ کو ايک خاص اہميت حاصل ہے۔ سورۃ "البقرہ" ميں متقی کی چھ صفات بيان کرنے بعد رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں:
اُولٰئِکَ عَلٰي ھُدًي مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ ہ ( البقرہ۔٥ )
"يہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدايت پر ہيں اور يہی لوگ کا مياب و کامران بھی ہيں۔"
لوگ کا مياب و کامران بھی ہيں۔"
تقویٰ اور سکون زندگی
کون نہيں جانتا کہ ہماری زندگی ميں جتنی بھی مشکلات ہيں ۔"قرآن"سے بغاوت ہی کا نتيجہ ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو تربيت کے ليے قرآنی سانچوں ميں ڈھالتے ہيں اس کا مطلوبہ کردار جس کو وہ "تقویٰ" کا نام ديتا ہے اپنے اندر پيدا کر ليتے تو يقيناً ہماری زندگی ميں اس قدر بے چينياں نہ ہوتيں بلکہ سکون و آرام سے دن گزارتے۔
وَمَنْ يّتَّقيِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہُ مِنْ اَمْرِہ يُسْرًا۔
اور جو اللہ سے ڈرے وہ اس کے کام ميں آسانی فرما دے گا
ا۔
تقویٰ اور قرب الٰہی
قرآن مجيد ميں ارشاد رب العزت ہے:
اِنْ اَوْلِياءَ ہ اِلّاَ الْمُتَقُوْنَ وَ لکِٰنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ ہ ( الانفال:٣٤ )
"بلا شبہ متقی ہی اللہ کے دوست ہوتے ہيں ليکن اکثر لوگ جانتے نہيں۔
اگر صحيح معانوں ميں پرہيزگاري ہمارا شعار بن جائے۔خدا کا خوف ہمارے دلوں ميں راسخ ہو جائے تو"نَخْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ منْ حَبْلِ الْوَرِيْد" ( ہم شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہيں ) کی نويد جا نفرا آج بھی قرآن مجيد سنا رہا ہے۔متقی ہی کے بارے ميں رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں:
اِنَّ اللہَ يُحِبُ الْمُتَّقِينَ ہ ( التوبہ:٧ )
بے شک اللہ پاک متقی لوگوں ہی سے محبت کرتا ہے۔
انوار الٰہيہ کے مشتاق کے لئے اس سے بڑا انعام کيا ہو سکتا ہےکہ محبوب و مطلوب اپنی توجہ والتفات کے جيتنے کا نسخہ خود تجويز فرما رہا ہے۔کيا يہی وہ مقام نہيں جس کی خاطر بدر و حنين کے معرکے وجود ميں آئے۔کربلا ميں اہل بيت اطہار کا خون گرا۔باپ نے بيٹے کی گردن پر چھُري رکھی۔
اے بندگانِ خدا :اگر تم بھی چاہتے ہو کہ محبت الٰہی کی سوغات تمھارے حصے ميں بھی آئے تو اپن
!~*SOoLi
06-24-2011, 04:55 AM
Aik Baar Phir Qabil-e-Satayesh Topic.. Keep Sharing.. :)
Noor ul huda
06-24-2011, 10:20 PM
MashALLAH......................JazakAllah for sharing!!
ღƬαsнι☣Rασ™
07-06-2012, 10:02 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng
MashALLAH......................JazakAllah for sharing!!
thanks siso
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.