PDA

View Full Version : 4:النساء سورۃ النسا ء ( ۴)


life
06-11-2011, 12:41 AM
4:النساء
سورۃ النسا ء ( ۴)



نام:

اس سورہ کا نام النساء ہے۔ یہ نام ان مضامین کی طرف اشارہ کرتا ہےجن میں نساء یعنی عورتوں کے حقوق وغیرہ بیان کئے گئے ہیں ۔

زمانۂ نزول:

سورہ مدنی ہے اور مجامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ آل عمران کے بعد کی تنزیل ہے اور اس کے مضامین اواخر ۰۳ھ سے ۰۵ھ تک مختلف اوقات میں نازل ہوۓ ہوں گے جنہیں بعد میں یکجا کر دیا گیا۔


مرکزی مضمون:

اس سورہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں لیکن اسلوبِ کلام نہ خشک ہے اور نہ پیچیدہ بلکہ نہایت سادہ، دل و دماغ کو اپیل کرنے والا اور بصیرت افروز ہے۔ ان احکام و قوانین کے پہلو بہ پہلو دعوتِ قرآنی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ اصل مقصدِ حیات پر نگاہیں جمی رہیں اور احکام و قوانین کی تعمیل اُن کی سپرٹ کے ساتھ کی جاۓ نہ کہ محض قانونی اور فقہی انداز میں ۔

سورہ کا ایک حصے میں منافقین کی حرکتوں اور فتنہ پردازیوں پر گرفت کی گئی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ منافقین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نوٹِس لیا جاۓ۔ دوسرے یہ کہ دینی احکام اور شرعی قوانین پر صحیح طور پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اپنے ایمان میں مخلص ہو، ورنہ اس سے گریز کے لئے وہ ہزار بہانے تراشے گا اور بس چلے تو شعرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرے گا گویا مسلمانوں کے معاشرے کو اصل خطرہ منافقین ہی سے ہے اور شرعی قوانین پر عمل در آمد کی صورت میں یہ لوگ زبردست رُکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں ۔

نظمِ کلام:

یہ سورہ ماسبق سورۂ آل عمران سے بھی مربوط ہے اور سورۂ بقرہ سے بھی۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں اہلِ ایمان کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی تھی (واتقو اللہ)اور اس سورہ کا آغاز ہی تقویٰ کی ہدایت سے ہوا ہے۔اور عام لوگوں کو خطاب کر کے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ (یا ایہاالناس اتقو ربہم)گویا کہ یہ ایک ہی لَے کے دو سُر ہیں ۔ رہا سوال سورۂ بقرہ سے ربط، تو سورۂ بقرہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے سلسلے میں ہدایات دی گئی تھیں ، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کا سامان اس سورہ میں کیا گیا ہے۔اس طرح سورہ کا رُخ تکمیلِ شریعت کی طرف ہے۔

آیت۔۱ کی حیثیت تمہید کی ہے۔ اس میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اسلام کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

life
06-11-2011, 12:41 AM
آیت۔۲ تا ۴۳ میں معاشرتی احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں مثلاً یتیموں کے حقوق ، قرابت داروں کے حقوق، تقسیمِ وراثت کا ضابطہ، عورتوں کے حقوق، نکاح کے قوانین، جان و مال کا احترام وغیرہ۔ ان احکام کا اختتام نماز سے متعلق احکام پر ہوا ہے۔

آیت ۴۴ تا ۵۷ میں اہلِ کتاب کو ان کی گمراہیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

آیت ۵۸ اور ۵۹ میں ایمان کے تقاضے پیش کئے گئے ہیں جو اسلامی حکومت اور اسلامی کے نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں ۔

آیت ۶۰ تا ۷۰ میں منافقین کی روش پر گرفت کی گئی ہے اور انہیں فہمائش کرتے ہوۓ دعوتٕ فکر دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے سچّے وفادار بن کر رہیں گے، انہیں آخرت میں کیسا بلند مقام حاصل ہو گا۔ آیت ۷۱ تا۱۲۶ کا مضمون بھی اسی سیاق میں ہے منافقین قربانیوں سے جی چراتے تھے، خواہ وہ ہجرت کی راہ میں ہوں یا جہاد کی راہ میں ، اس پس منظر میں ہجرت اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ قربانیاں اہلِ ایمان کے لئے باعثِ سعادت ہیں ۔ ضمناً جہاد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل۔ مثلاً صلوٰۃ خوف وغیرہ کے سلسلے میں احکام دۓ گۓ ہیں ۔ ساتھ ہی منافقین کی فتنہ سامانیوں اور نفسدانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ہی صحیح اور سچا دین ہے۔

life
06-11-2011, 12:41 AM
آیت ۱۲۷ تا ۱۷۵ کا مضمون سوری کا آخری حصّہ ہے۔ اس میں ان سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں جو آصغازِ سورہ میں بیان کردہ احکام کے سلسلے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے بعد آخر سورہ تک اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے ہدایات دی گئی ہیں اور منافقین اور اہلِ کتاب کو ان کی بعض گمراہیوں پر متنبّہ کرتے ہوۓ اصلاح کی جان متوجّہ کیا گیا ہے۔

آیت ۱۷۶ ضمیمے کے طور پر ہے۔ اس میں وراثت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے

life
06-11-2011, 12:42 AM
ترجمہ:

اللہ رحمن ورحیم کے نام سے

(۱)اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو (۱) جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا(۲) اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا(۳) اور ان دونوں سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پھیلادیں (۴) اور اللہ سے ڈروجس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے (حقوق) طلب کرتے ہو(۵) اور قطع رحمی سے بچو (۶) یقین جانو اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے ۔

(۲)یتیموں (۷) کا مال ان کے حوالہ کرو اور (ان کے )اچھے مال کو ( اپنے ) مال سے بد ل نہ ڈالو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھا جاؤکہ یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے(۸) ۔

(۳)اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں (۹) کے ساتھ انصا ف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو، تین تین ، چار چار سے نکاح کرلو(۱۰) ،لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ عدل(۱۱) نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو یا پھر ان عورتوں پر جو تمہارے قبضہ میں آگئی ہیں (۱۲) بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے

(۴)اور ان عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے عطیہ(۱۳) کے طور پر دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑدیں تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔
Reply With Quote

life
06-11-2011, 12:42 AM
(۵)اپنا مال جسے اللہ نے تمہارے لئے قیام (معیشت ) کا ذریعہ (۱۴)بنا یا ہے نادانوں کے حوالہ نہ کرو(۱۵) البتہ اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہنا تے رہو اور انکو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلی بات کہو۔

(۶)اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی (۱۶)عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ(۱۷) پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو۔ اور اس خیال سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے ان کا مال اسراف کر کے جلدی جلدی کھا نہ جاؤ جو غنی ہو اس کو چاہئیے کہ پرہیز کرے اور جو حاجت مند ہو و ہ معروف طریقہ سے کھائے(۱۸) پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنالواور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے ۔

life
06-11-2011, 12:42 AM
(۷)مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ ۔یہ حصہ مقر ر ہے(۱۹) ۔

(۸)اور اگر تقسیم کے وقت قرابت دار ، یتیم اور مسکین آموجو د ہو ں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دو اور ان سے بھلی بات کہو(۲۰) ۔

(۹)لوگوں کو ڈرنا چاہئیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتوا ں بچے چھوڑجاتے تو ان کے معاملہ میں انہیں کیسا کچھ اندیشہ ہوتا (۲۱)لہٰذا انہیں چاہئیے کہ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں ۔

life
06-11-2011, 12:42 AM
(۱۰)جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر تے ہیں عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔

(۱۱)اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا(۲۲) (حکم دیتا )ہے کہ لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر (۲۳)ہے ۔اگر صرف لڑکیاں ہوں ، دو سے زیادہ تو ترکہ میں ان کا حصہ دوتہائی ہو گا(۲۴) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اسے نصف (ترکہ ) ملے گا(۲۵) اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے بشر طیکہ میت کے اولاد ہو(۲۶)۔اگر میت کے اولاد نہ ہوں اور صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا(۲۷) اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا(۲۸) ۔یہ حصے میت نے جو وصیت(۲۹) کی ہو اس کی تعمیل اور جو قرض (۳۰)چھوڑا ہو اس کی ادائیگی کے بعد تقسیم کئے جائیں ۔تم اپنے باپ اور بیٹوں کے بارے میں نہیں جانتے کہ مفاد کے لحاظ سے ، کون تم سے قریب تر (۳۱)ہے ۔یہ حصے اللہ کے مقر ر کئے ہوئے ہیں ۔یقین جانو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی (۳۲)۔

life
06-11-2011, 12:43 AM
(۱۲)اور تمہاری بیویوں کے ترکہ میں تمہارا (شوہر کا ) نصف حصہ ہے بشرطیکہ ان کے اولاد نہ ہو۔اگر ان کے اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں تمہار ا حصہ ایک چوتھائی ہو گا اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور اس قرض کی ادائیگی کے بعد جو انہوں نے چھوڑا ہو اور ان کے لئے(یعنی بیویوں کے لئے ) تمہارے ترکہ میں چوتھائی حصہ ہے ۔بشرطیکہ تمہارے اولا دنہ ہو ۔اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا (۳۳)۔اس وصیت کی تعمیل کے بعد ، جو تم کرجاؤاور اس قرض کی ادائیگی کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے کلالہ ہو(یعنی نہ اس کے اولاد ہو اور نہ ہی والد ہی زندہ ہو ) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجو د ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (۳۴) اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو کی گئی ہو یا اس قرض کی ادائیگی کے بعد جو میت نے چھوڑا ہو بشرطیکہ وہ ضر ر رساں نہ ہو (۳۵) ۔یہ وصیت (حکم ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم والا بھی ہے اور بہت بردبار بھی (۳۶)

life
06-11-2011, 12:44 AM
ھوڑا ہو بشرطیکہ وہ ضر ر رساں نہ ہو (۳۵) ۔یہ وصیت (حکم ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم والا بھی ہے اور بہت بردبار بھی (۳۶)۔

(۱۳)یہ اللہ کی (مقر رکردہ ) حدیں ہیں (۳۷) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔

(۱۴)اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے (مقر ر کردہ ) حدود سے تجاوز کرے گا ، اسے و ہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسواکن عذاب ہے (۳۸) ۔

(۱۵)اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب (۳۹)ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو (۴۰) اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روکے رکھو (۴۱)یہاں تک کہ موت ان کا وقت پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ نکال دے (۴۲)۔

life
06-11-2011, 12:44 AM
(۱۶)اور تم میں سے جو ( مرد عورت ) اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ (۴۳)، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو (۴۴)کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

(۱۷)اللہ پر توبہ قبول کرنے کا حق تو انہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی میں کسی برائی کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے (۴۵)ہیں ایسے ہی لوگوں کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے ، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے

life
06-11-2011, 12:44 AM
ور ان لوگو ں کی توبہ توبہ نہیں ہے جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آکھڑی ہوتی ہے تو کہنے لگتے ہیں اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی توبہ حقیقت میں توبہ ہے جو کفر کی حالت میں مرجاتے ہیں (۴۶) ایسے لوگوں کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

(۱۹)اے ایمان والو !تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ (۴۷)اور نہ یہ جائز ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لینے کی غرض سے انہیں تنگ کرنے لگو الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہو ں (۴۸) ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں ( تمہارے لئے ) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو (۴۹)۔

life
06-11-2011, 12:44 AM
(۲۰)اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم نے ایک بیوی کو ڈھیروں مال بھی دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو (۵۰)کیا اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے ؟

(۲۱)تم اسے کس طرح واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے زن وشوئی کا تعلق قائم کرچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں (

life
06-11-2011, 12:44 AM
(۲۲)اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں (۵۲)مگر جو کچھ اس سے پہلے ہوچکا سو ہوچکا (۵۳)۔یہ بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات ہے اور نہایت براچلن ہے ۔

(۲۳)تم پر حرام کی گئیں (۵۴) تمہاری مائیں (۵۵) ، بیٹیاں (۵۶)، بہنیں (۵۷) ،پھوپھیاں ،خالائیں ، بھتیجیاں ،بھانجیاں ، تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو(۵۸) ، تمہاری رضاعی بہنیں ، تمہاری بیویوں کی مائیں ، تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جن سے تم نے مباشرت کی ہو لیکن جن بیویوں سے تم نے مباشرت نہ کی ہو، ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں (۵۹) اور (حرام کی گئیں تم پر ) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں (۶۰)، نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرو(۶۱) مگر جو پہلے ہوچکا(۶۲) ۔بیشک اللہ بڑابخشنے والارحم فرمانے والا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:45 AM
(۲۴)اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں (۶۳)سوائے ان کے جو (جنگ میں ) تمہارے ہاتھ آگئی ہوں (۶۴)یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم ہے (۶۵)ان عورتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ اپنے مال کے ذریعہ انہیں قید نکاح (۶۶)میں لانا مقصود ہو نہ کہ شہوت رانی کرنا ۔پھر جن عورتوں سے تم ( اذدواجی زندگی کا ) فائد ہ اٹھاؤ ان کو ان کے مہر فریضہ کے طور پر ادا کرو، مہر مقر ر کرنے کے بعد اگر آپس کی رضامندی سے (کمی بیشی کی ) کوئی بات طے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں (۶۷) یقینا اللہ علیم وحکیم ہے

life
06-11-2011, 12:45 AM
(۲۵)اور جو شخص تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو وہ ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے جو تمہارے قبضہ میں آگئی ہوں ، اور مؤمنہ ہوں ۔اللہ تمہارے ایمان کا حال بخوبی جانتا ہے(۶۸) ۔تم سب ایک ہی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہو (۶۹)۔لہٰذا ایسی عورتوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرلواور معروف کے مطابق ان کے مہر ان کو ادا کرو(۷۰)۔البتہ یہ ضروری ہے کہ ان کو قید نکاح میں رکھا جائے نہ تو وہ شہوت رانی کرنے والی ہوں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کرنے والی ۔اگر قید نکاح میں آنے کے بعد وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے ا س کی نصف سزا ان کے لئے ہو گی (۷۱)(لونڈیوں سے نکاح کی ) یہ رخصت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے(۷۲) اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:45 AM
(۲۶)اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنے احکام واضح کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں (۷۳)نیز وہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ۔

(۲۷)اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے بھٹک کر دور جاپڑو۔

(۲۸)اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کر دے اور (واقعہ یہ ہے کہ ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے(۷۴) ۔

(۲۹)اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ(۷۵) البتہ باہمی رضامندی سے لین دین ہوسکتا ہے(۷۶) اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو(۷۷) اللہ تم پر بڑامہربان ہے (۷۸)۔

life
06-11-2011, 12:45 AM
(۳۰)جو شخص ظلم وزیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا ہم اسے ضرور آگ میں جھونک دیں گے اور یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے ۔

(۳۱)اگر تم بڑے بڑے گناہوں (۷۹)سے جن سے تمہیں روکا جارہا ہے بچتے رہے تو ہم تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو دور کریں گے اور تمہیں باعزت جگہ داخل کریں گے ۔

(۳۲)اللہ نے جس چیز میں ایک کو دوسرے پر فوقیت بخشی ہے اس کی تمنا نہ کرو(۸۰) ، مردوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق ( نتائج میں ) حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق حصہ ۔البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔یقینا اللہ کو ہر چیز کا علم ہے ۔

life
06-11-2011, 12:46 AM
(۳۳)ہم نے والدین اور اقرباء میں سے ہر ایک کے ترکہ میں وارث مقر ر کئے ہیں (۸۱) ۔رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد وپیمان ہیں تو ان کو ان کا حصہ دو (۸۲) ۔یقین جانو اللہ ہر چیز پر نگران ہے(۸۳) ۔

(۳۴)مرد عورتوں کے سربراہ ہیں (۸۴) اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے نیز اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خر چ کرتے ہیں تو جو نیک عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں (۸۵) اور اللہ کی حفاظت میں راز کی باتوں کی حفاظت کرتی ہیں (۸۶) اور جن عورتوں سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ، خوابگا ہ میں انہیں تنہا چھوڑدو اور انہیں زدوکوب بھی کرسکتے ہو(۸۷) پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:46 AM
(۳۵)اور اگرتمیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہوتو ایک حکم مرد کے متعلقین میں سے اور ایک حکم عورت کے متعلقین میں سے مقر ر کرو(۸۸) اگر دونوں صلح کرادینا چاہیں گے تو اللہ دونوں ( زوجین ) کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا ۔اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:46 AM
(۳۶)اور اللہ ہی کی عبادت کرو(۸۹) اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو(۹۰) ۔نیز قرابت داروں ، یتیموں ،مسکینوں ، رشتہ دار ہمسایہ(۹۱) ، اجنبی ہمسایہ ، ہمنشین(۹۲)، مسافر اور لونڈی غلاموں (۹۳) کے ساتھ جو تمہارے قبضہ میں ہوں حسن سلوک کرو ۔اللہ اترانے والے اور فخر کرنے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتا(۹۴) ۔

(۳۷)جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کے لئے کہتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے ناشکری کرنے والوں کے لئے ہم نے رسواکن عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

(۳۸)جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو ا تو کیا ہی برا ساتھی ہے یہ !

life
06-11-2011, 12:46 AM
(۳۹)ان کا کیا بگڑتا اگر وہ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے اور اللہ کے بخشے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ؟ اللہ ان کو خوب جانتا ہے ۔

(۴۰)اللہ ذرہ برابر کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا اگر ایک نیکی ہو گی تو وہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا(۹۵) ۔

(۴۱)اس دن ( ان کا ) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے (۹۶)۔

(۴۲)اس دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سمیت زمین برابرکر دی جاتی وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے

life
06-11-2011, 12:46 AM
(۴۳)اے ایمان والو !نشہ کی حالت(۹۷) میں نماز کے قریب نہ جاؤجب تک کہ یہ نہ جانو(۹۸) کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت (۹۹)کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو الا یہ کہ رہ گزر میں ہو(۱۰۰) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو(۱۰۱)( مباشرت کی ہو) اور پانی میسر نہ آئے تو پاک زمین سے کام لو ۔اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلو(۱۰۲) ۔بے شک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے(۱۰۳) ۔

(۴۴)تم نے(۱۰۴) ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتا ب کا ایک حصہ(۱۰۵) دیا گیا ہے وہ گمراہی مول لے رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔

life
06-11-2011, 12:47 AM
(۴۵)اللہ تمہارے دشمنوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور اللہ رفاقت کے لئے بھی کافی ہے اور اللہ مدد کے لئے بھی کافی ہے ۔

(۴۶)یہود میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بات کو اس کی اصل جگہ سے پھیر دیتے ہیں اور دین پر طعن(۱۰۶) کرنے کی غرض سے زبان کو تو ڑ مروڑ کر کہتے ہیں سمعنا وعصینا(ہم نے سنا اور خلاف ورزی کی) اسمع غیر مسمع (سنئے اور نہ سن سکو ) اور راعنا(اے ہمارے چروا ہے )(۱۰۷) اگر وہ سمعنا واطعنا(ہم نے سنا اور اطاعت کی ) اور اسمع(سنئے ) اور انظرنا (ہماری طرف توجہ فرمائیے ) کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ، اور یہ بات بھی بالکل درست ہوتی لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے(۱۰۸) اس لئے وہ کم ہی ایمان رکھتے ہیں ۔

life
06-11-2011, 12:47 AM
(۴۷)اے وہ لوگو جنہیں کتا ب دی گئی !ایمان لاؤ اس ( کتاب ) پر جو ہم نے نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس موجود ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مسخ کرکے پیچھے پھیردیں (۱۰۹) یا ان پر بھی اسی طرح لعنت کریں جس طرح سبت والوں (۱۱۰)پر لعنت کی تھی اور اللہ کی بات تو پوری ہوکر رہتی ہے ۔

(۴۸)اللہ شرک(۱۱۱) کو کبھی نہیں بخشے گا اس کے سوا دوسرے گناہوں کو جس کے لئے چا ہے گا معاف کر دے گا(۱۱۲) اور جو کوئی اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ بہت بڑے گنا ہ کا مرتکب ہوتا ہے(۱۱۳) ۔

(۴۹)کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کو پاکیزہ ٹھہراتے ہیں (۱۱۴) حالانکہ پاکیزگی اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطاکرتا ہے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں کی جائیگی ۔

life
06-11-2011, 12:47 AM
(۵۰)دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور ان کے صریح گناہ گار ہونے کے لئے یہ ایک گناہ ہی کافی ہے ۔

(۵۱)کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا یہ جبت(۱۱۵) ( اوہام و خرافات ) اور طاغوت (۱۱۶)پر اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابلہ میں زیادہ صحیح راستہ پر ہیں (۱۱۷)۔

(۵۲)یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے ان کا تم کوئی مددگار نہ پاؤگے

life
06-11-2011, 12:48 AM
(۵۳)کیا ان کے قبضہ میں سلطنت کا کوئی حصہ آ گیا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں (۱۱۸)کو رتی برابر بھی نہ دیتے(۱۱۹) ۔

(۵۴)یا پھر یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کر رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے(۱۲۰) اگر یہ بات ہے تو ( انہیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئیے کہ ) ہم نے آل ابراہیم کو کتاب وحکمت سے نوازا تھا اور عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی(۱۲۱) ۔

(۵۵)مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کسی نے روگردانی کی اور ( روگردانی کرنے والوں کے لئے ) جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے ۔

life
06-11-2011, 12:48 AM
(۵۶)جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ان کو ہم آگ میں جھونک دیں گے اور جب کبھی ایسا ہو گا کہ ان کے بدن کی کھال پک جائیگی ہم اس کی جگہ دوسری کھال پید ا کر دیں گے تاکہ وہ ( اچھی طرح ) عذاب کامزہ چکھیں ۔یقینا اللہ تعالیٰ زبردست قدر ت والا ہے اور حکیم بھی (۱۲۲) ۔

(۵۷)اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کرینگے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویا ں ہونگی نیز انہیں ہم گھنی چھاؤ ں میں داخل کریں گے

life
06-11-2011, 12:48 AM
(۵۸)اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں (۱۲۳) کو ان کے حقداروں کے حوالہ کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو(۱۲۴) اللہ تمہیں بہترین باتوں کی نصیحت کرتا ہے یقینا اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔

(۵۹)اے ایمان والو !اللہ کی اطاعت کرو ، رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر(۱۲۵) ( صاحب اختیار ) ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ(۱۲۶) اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو یہ طریقہ باعث خیر بھی ہے اور بہتر نتیجہ کا موجب بھی (۱۲۷) ۔

(۶۰)کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کتاب تم پر ناز ل کی گئی ہے اس پر نیز تم سے پہلے ناز ل کی گئی تھی اس پر بھی وہ ایمان رکھتے ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لئے طاغوت(۱۲۸) ( سرکشوں )کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں اس سے انکا رکا حکم دیا گیا تھا اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر بہت دور لے جائے ۔

life
06-11-2011, 12:48 AM
(۶۱)جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس ( حکم ) کی طرف جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تم سے کترانے لگتے ہیں (۱۲۹) ۔

(۶۲)تو اس وقت ان کا کیا حال ہو گا جب کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے ان پر مصیبت آ پڑے گی ؟ اس وقت وہ تمہارے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہو ئے آئیں گے کہ ہم تو بھلائی چاہتے تھے اور ہمارا مقصد تو ( دونوں کے درمیان) موافقت پیدا کرنا تھا(۱۳۰) ۔

(۶۳)ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ جانتا ہے تو ان سے صرف نظر کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جانے والی ہو (۱۳۱) ۔

life
06-11-2011, 12:48 AM
(۶۴)ہم نے جو رسول بھی بھیجا اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (۱۳۲) اور یہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہاری خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی دعا کرتا (۱۳۳) تو یقیناً وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا پاتے ۔

(۶۵)مگر نہیں ( اے پیغمبر !)تمہارے رب کی قسم ، یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ اپنے نزاعی معاملات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے سر آنکھوں سے تسلیم کر لیں (۱۳۴) ۔

(۶۶)اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہو تو ان میں سے چند کے سوا کو ئی بھی اس کی تعمیل نہ کرتا (۱۳۵) حالانکہ جس بات کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ی کا باعث اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتی ۔

(۶۷)اور اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتے ۔

life
06-11-2011, 12:49 AM
(۶۷)اور اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتے ۔

(۶۸)اور انہیں سیدھے راستہ پر چلاتے (۱۳۶) ۔

(۶۹)جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو نگے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے (۱۳۷) یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔اور کیا ہی اچھے رفیق ہیں یہ (۱۳۸) !

life
06-11-2011, 12:50 AM
(۷۰)یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے ۔

(۷۱)اے ایمان والو !اپنے ہتھیار سنبھالو اور جہاد کے لئے نکلو الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے ہوکر (۱۳۹) ۔

(۷۲)تم میں کوئی تو ایسا ہے جو ٹال مٹول کرتا ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں ان لوگوں کے ساتھ شریک نہ ہوا ۔

(۷۳)اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہوتا ہے تو گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تعلق ہے ہی نہیں کہنے لگتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا کہ مجھے بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی (۱۴۰) ۔

life
06-11-2011, 12:50 AM
(۷۴)تو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کو جنگ کرنی چاہئیے ج دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے فروخت کر دیں (۱۴۱) اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا پھر وہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اسے ضرور اجر عظیم عطا کریں گے ۔

(۷۵)اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ان بے بس مرد ، عورتوں اور بچوں کی خاطر فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں (۱۴۲) اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی مددگار کھڑا کر ۔

life
06-11-2011, 12:50 AM
(۷۶)جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں (۱۴۳) توتم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو ۔یقین جانو شیطان کی چال بالکل بودی ہوتی ہے(۱۴۴) ۔

(۷۷)تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو ، اور زکوٰۃ دو (۱۴۵)۔پھر جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے کوئی اللہ سے ڈر رہا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ(۱۴۶) ۔وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب !تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کی ۔ہمیں کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہو دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے آخرت کہیں بہتر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی (۱۴۷)۔

life
06-11-2011, 12:50 AM
(۷۸)تم جہاں کہیں ہو موت تم کو پالے گی خواہ تم مضبوط قلعوں ہی میں کیوں نہ ہو(۱۴۸) اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری وجہ سے ہے ۔کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھ نہیں پاتے(۱۴۹) ۔

(۷۹)(درحقیقت ) تمہیں جو فائدہ بھی پہنچتا ہے اللہ ہی کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو نقصان پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کے بہ سبب پہنچتا ہے(۱۵۰) اور (اے پیغمبر !)ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسو ل بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی بس کرتی ہے(۱۵۱) ۔

(۸۰)جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے(۱۵۲) اور جو روگردانی کرتا ہے تو ہم نے تم کو ایسے لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے (

life
06-11-2011, 12:50 AM
(۸۱)یہ لوگ ( زبان سے تو ) کہتے ہیں ہم نے اطاعت قبول کی لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمہاری باتوں کے خلاف رات کو مشورے کرنے لگتا ہے (۱۵۴)اللہ ان کی یہ سرگوشیاں لکھ رہا ہے تو ان کی باتوں پر دھیان نہ دو اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے ۔

(۸۲)کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ۔اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں بہ کثرت اختلاف پاتے(۱۵۵) ۔

(۸۳)جب ان کے پاس امن یا خطرہ کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں اگر یہ اسے رسول کے سامنے اور اصحاب امر ( حکم و اختیار والے ) کے سامنے پیش کرتے تو جو لو گ ان میں سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے(۱۵۶) اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افرا د کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے چل پڑتے ۔

life
06-11-2011, 12:51 AM
(۸۴)تو ( اے پیغمبر !) اللہ کی راہ میں جنگ کرو ۔تم پر اپنے نفس کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں اور مؤمنوں کو (جنگ کی ) ترغیب دو ۔عجب نہیں کہ اللہ کافروں کازور توڑدے ۔اللہ بڑا زور آورہے اور سزادینے میں بھی بہت سخت ہے ۔

(۸۵)جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائیگا(۱۵۷) اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے ۔

(۸۶)اور جب کوئی تمہیں دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے تو تم بھی اس کے جو اب میں بہتر کلمات کہو یا کم از کم ان ہی کلمات کو لوٹاؤ(۱۵۸) اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
Reply With Quote

life
06-11-2011, 12:52 AM
(۸۷)اللہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ۔ضرور تمہیں جمع کرے گا اور کون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو؟

(۸۸)یہ کیا بات ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے(۱۵۹) ہو حالانکہ اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے الٹا پھیر دیا ہے(۱۶۰) کیا تم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہو ، جن کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے (یاد رکھو ) جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے ۔

life
06-11-2011, 12:52 AM
(۸۹)وہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ(۱۶۱) تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤلہٰذا ان میں سے کسی کو تم اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں (۱۶۲) اور اگر وہ اس سے اعراض کریں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ پکڑو اور قتل کرو (۱۶۳) اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ۔

(۹۰)سوائے ان کے جو کسی ایسی قوم سے جاملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہوں نہ تم سے لڑنا چاہیں اور نہ اپنی قوم سے(۱۶۴) ۔اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے(۱۶۵) ۔لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طر ف صلح وآشتی کے لئے بڑھیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان کے خلاف اقدام کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے

life
06-11-2011, 12:52 AM
(۹۱)دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تمہیں ملینگے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بچ کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی (لیکن ان کاحال یہ ہے کہ ) جب کبھی فتنہ(۱۶۶) کی طرف پھیر دئیے جائیں اس میں گر پڑیں ۔اگر یہ تم سے کنارہ کش نہ رہیں اور تمہاری طرف صلح کے لئے ہاتھ نہ بڑھائیں اور جنگ سے اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو ۔ان لوگوں کے خلاف ہم نے تمہیں کھلا اختیار دے دیا ہے (۱۶۷) ۔

(۹۲)اور کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جس شخص نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اسے چاہئیے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے(۱۶۸) اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے (۱۶۹) الا یہ کہ وہ ( خون بہا ) معاف کر دیں لیکن اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ خود مومن ہوتو ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا (۱۷۰) جسے یہ میسر نہ ہو وہ دوماہ تک متواتر روزے رکھے(۱۷۱) توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقر ر کیا ہوا ہے(۱۷۲) اور اللہ علیم وحکیم ہے ۔

life
06-11-2011, 12:52 AM
آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا (۱۷۰) جسے یہ میسر نہ ہو وہ دوماہ تک متواتر روزے رکھے(۱۷۱) توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقر ر کیا ہوا ہے(۱۷۲) اور اللہ علیم وحکیم ہے ۔

(۹۳)اور جس شخص نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذا ب تیار کر رکھا ہے

life
06-11-2011, 12:54 AM
آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا (۱۷۰) جسے یہ میسر نہ ہو وہ دوماہ تک متواتر روزے رکھے(۱۷۱) توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقر ر کیا ہوا ہے(۱۷۲) اور اللہ علیم وحکیم ہے ۔

(۹۳)اور جس شخص نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذا ب تیار کر رکھا ہے

life
06-11-2011, 12:54 AM
یشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذا ب تیار کر رکھا ہے (۱۷۳)۔

(۹۴)اے ایمان والو !جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے محض اس بنا پر کہ دنیوی زندگی کا فائدہ مطلوب ہے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں ہے(۱۷۴) ( تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ) اللہ کے پاس بہ کثر ت اموال غنیمت ہیں ۔تمہار ا حال بھی تو پہلے ایسا ہی تھا لیکن اللہ نے تم پر فضل فرمایا (۱۷۵)۔لہٰذا تحقیق کرلیا کرو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے ۔

life
06-11-2011, 12:54 AM
(۹۵)مومنوں میں بلا عذر بیٹھ رہنے والے اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں اللہ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت بخشی ہے اور دونوں ہی سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے(۱۷۶) مگر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے ۔

(۹۶)اس کی طرف سے درجے ہیں اور مغفرت ورحمت اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:54 AM
(۹۵)مومنوں میں بلا عذر بیٹھ رہنے والے اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں اللہ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت بخشی ہے اور دونوں ہی سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے(۱۷۶) مگر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے ۔

(۹۶)اس کی طرف سے درجے ہیں اور مغفرت ورحمت اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

(۹۷)جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم ڈھایا ہے ان کی جان جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس ملک میں بالکل بے بس تھے ۔وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ اس میں ہجرت کرجاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے (

life
06-11-2011, 12:55 AM
(۹۸)البتہ وہ بے بس مرد، عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ ( ہجرت کی کوئی ) راہ پاتے ہیں ۔

(۹۹)ایسے لوگوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے ۔

(۱۰۰)اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا(۱۷۸) اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا(۱۷۹) ۔اللہ بہت بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

(۱۰۱)اور جب تم سفر میں نکلو تو نماز میں قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ کافر تمہیں تکلیف دیں گے (۱۸۰)کافر تو ہیں ہی تمہارے کھلے دشمن

life
06-11-2011, 12:55 AM
(۱۰۲)اور جب تم ( اے پیغمبر !)ان (مسلمانوں )کے درمیان موجو د ہو اور نماز میں ان کی امامت کر رہے ہوتو چاہئے کہ ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑاہو جائے اور اپنے ہتھیار لئے رہے جب وہ سجدہ کرچکے تو وہ تمہارے پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے تمہارے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے اور چاہئے کہ وہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے اسلحہ لئے ہوئے ہو (۱۸۱)۔کافر چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحہ اور سامان (جنگ ) سے ذرا بھی غافل ہو تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں ۔ البتہ اگر بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تم اپنے ہتھیار اتا رکر رکھ دو پھر بھی اپنی حفاظت کے سامان لئے رہو (۱۸۲) ۔یقین جانو اللہ نے کافروں کے لئے رسواکن عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:57 AM
(۱۰۳)اور جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یا دکرو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے (۱۸۳) اور جب اطمینان کی حالت میسر آجائے تو پوری نماز قائم کرو (۱۸۴)بیشک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کر دی گئی ہے (۱۸۵)۔

(۱۰۴)اور دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو وہ بھی تمہاری ہی طرح تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو (۱۸۶) جس چیز کی امید وہ نہیں رکھتے ۔اللہ علم والا بھی ہے اور حکمت والا بھی ۔

(۱۰۵)ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ ناز ل کی ہے تاکہ جو حق اللہ نے تمہیں دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو (۱۸۷)۔

life
06-11-2011, 12:57 AM
(۱۰۶)اور اللہ سے مغفر ت مانگو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

(۱۰۷)ان لوگوں کی وکالت نہ کرو جو اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو بددیانت اور معصیت کیش ہوں ۔

(۱۰۸)یہ لوگوں سے چھپتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے ۔وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ وہ رات کو اس کی مرضی کے خلاف مشورے کر رہے ہوتے ہیں (۱۸۸) وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

(۱۰۹)دیکھو یہ تم ہو کہ دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کرلیا لیکن قیامت کے دن کون ہو گا جو ان کی طرف سے اللہ سے جھگڑا کرے گا یا کو ن ان کا ذمہ دار بنے گا (۱۸۹) ؟

(۱۱۰)جو شخص کسی برائی کامرتکب ہو یا اپنے نفس پر ظلم کر

life
06-11-2011, 12:57 AM
(۱۱۰)جو شخص کسی برائی کامرتکب ہو یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور پھر اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا (۱۹۰) ۔

(۱۱۱)اور جو شخص بھی برائی کماتا ہے اس کی کمائی کا وبال اسی پر ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکمت رکھنے والا ہے ۔

(۱۱۲)پھر جس شخص نے کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب کرکے اس کا الزام کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا (۱۹۱)۔

life
06-11-2011, 12:58 AM
(۱۱۳)اور اگر تم پر اللہ کاک فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط راستہ پر ڈال دینے کا قصد کرہی لیا تھا حالانکہ یہ اپنے ہی کو غلط راستہ پر ڈال رہے ہیں ۔یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔اللہ نے تم پر کتاب وحکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اللہ کا تم پر بہت بڑا فضل ہے(۱۹۲) ۔

(۱۱۴)ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی(۱۹۳) ۔ہاں جو شخص پوشیدگی میں صدقہ یا بھلی بات یا لوگوں کے درمیان صلح وصفائی کے لئے کہے تو اس میں ضرور بھلائی ہے(۱۹۴) ۔اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسے کام کرے گا اسے ہم اجر عظیم سے نوازیں گے ۔

life
06-11-2011, 12:58 AM
(۱۱۵)اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنین کی راہ کو چھوڑکر(۱۹۵) کسی اور راہ کو اختیار کرے گا ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جس کی طرف وہ پھر ا اور اسے جہنم میں داخل کرینگے جو بہت بری جگہ ہے ۔

(۱۱۶)اللہ اس بات کو ہر گز نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک(۱۹۶) ٹھہرایا جائے ۔اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لئے چا ہے گا بخش دے گا(۱۹۷) اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بھٹک کر بہت دور جاپڑا

life
06-11-2011, 12:58 AM
(۱۱۷)یہ لوگ اس کو چھوڑکر دیویوں کو پکارتے ہیں (۱۹۸)اور ( حقیقت یہ ہے کہ ) یہ شیطان سرکش ہی کو پکارتے ہیں (۱۹۹) ۔

(۱۱۸)اللہ نے اس پر لعنت فرمائی ہے(۲۰۰) اس نے ( اللہ سے ) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقر رہ حصہ لے کر رہوں (۲۰۱) گا ۔

(۱۱۹)اور میں ضرور ان کو بہکاؤں گا ، ان کو امید یں (۲۰۲)دلاؤں گا، انہیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان چیریں گے(۲۰۳) اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ، ساخت میں تبدیلی کریں گے(۲۰۴) اور جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا لیا وہ صریح تباہی میں پڑگیا ۔

life
06-11-2011, 12:59 AM
(۱۲۰)وہ ان سے وعدے کرتا اور امیدیں دلاتا ہے اور شیطان کے وعدے تو سراسر فریب ہیں ۔

(۱۲۱)ایسے لوگوں کاٹھکانا جہنم ہے اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ پائیں گے ۔

(۱۲۲)اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں رواں ہونگی وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بڑھ کر کو ن اپنی بات میں سچا ہوسکتا ہے ۔

(۱۲۳)(نجات ) نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر ، جو کوئی برائے کرے گا اس کا بدلہ پائے گا (۲۰۵)اور پھر اللہ کے مقابلہ میں نہ اسے کوئی حامی ملے گا اور نہ مددگار ۔

life
06-11-2011, 12:59 AM
(۱۲۴)اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی ۔

(۱۲۵)اور دین کے معاملہ میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو اللہ کے حوالہ کر دیا اور وہ نیکو کار بھی ہے اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی جو راست رو تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست(۲۰۶) بنا لیا تھا ۔

(۱۲۶)جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے(۲۰۷) ۔

life
06-11-2011, 12:59 AM
(۱۲۷)لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں (۲۰۸) کہو اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے نیز ( ان احکام کی یاددہانی کراتا ہے ) جو تمہیں کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں سنائے جا رہے ہیں (۲۰۹)وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو (۲۱۰)اسی طرح بے سہار ا بچوں کے با رے میں جو احکام دئیے گئے ہیں (۲۱۱)( ان کی بھی یاد دہانی کراتا ہے ) نیز اس حکم کی بھی کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کرو (۲۱۲)اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس کو جانتا ہے ۔

(۱۲۸)اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہوتو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں باہم صلح کرلیں اور صلح کرنا ہی بہتر ہے (۲۱۳)۔ طبیعتیں تنگ دلی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں (۲۱۴) لیکن اگر تم اچھا سلوک (۲۱۵)کرو اور تقویٰ اختیارکرو تو یقین جانو تم جو کچھ کروگے اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے

life
06-11-2011, 12:59 AM
(۱۲۹)تم عورتوں کے درمیان عدل کرنا چاہو بھی تو پورا پورا عدل نہیں کر سکتے ۔مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہئیے کہ ایک ہی کی طرف جھک پڑو اور دوسری کو اس طرح چھوڑدو کہ گویا وہ معلق ہے اور اگر تم معاملہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانیوالا ہے (۲۱۶)۔

(۱۳۰)اور اگر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو (دوسرے سے ) بے نیاز کر دے گا (۲۱۷)۔اللہ بڑی وسعت والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔

life
06-11-2011, 12:59 AM
(۱۳۱)آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ملک ہیں تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی تھی انہیں بھی ہم نے یہ ہدایت کی تھی اور تمہیں بھی یہ ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کروگے تو ( یاد رکھو ) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے ۔اللہ بے نیاز اور کمالات سے متصف ہے ۔

(۱۳۲) آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے(۲۱۸) اور کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے ۔

(۱۳۳)اگر وہ چا ہے تو اے لوگو تم کو ہٹادے اور ( تمہاری جگہ ) دوسروں کو لے آئے اللہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے ۔

(۱۳۴)جو شخص دنیا کے اجر کا طالب ہو تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ ) اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا اجر ہے(۲۱۹) اور اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے

life
06-11-2011, 01:00 AM
(۱۳۵)اے ایمان والو!انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے اور اللہ کی خاطر گواہی دینے والے بنو اگر چہ یہ گواہی خود اپنی ذات ، تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتی ہو(۲۲۰)۔اگر کوئی امیر ہے یا غریب ہے تو اللہ کا حق ان پر سب سے زیادہ ہے(۲۲۱) لہٰذا خواہشات کی پیروی میں عدل سے گریز نہ کر و اور اگر تم نے گول مول کہا یا پہلو تہی کی تو یاد رکھو اللہ تمہاری کاروائیوں سے باخبر ہے(۲۲۲) ۔

(۱۳۶)اے ایمان والو !ایمان لاؤ(۲۲۳)اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے اور جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخر سے کفر(۲۲۴) ( انکار ) کیا وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور نکل گیا ۔

life
06-11-2011, 01:00 AM
(۱۳۷)جو لوگ ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا اور نہ ان کو راہ دکھائے گا ۔

(۱۳۸)منافقوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

(۱۳۹)جو مؤمنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنا تے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت کے خواہاں ہیں ؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے (۲۲۵)۔

(۱۴۰)وہ اپنی کتاب میں تم پر یہ ہدایت نازل کرچکا ہے(۲۲۶) کہ جن تم سنو (یادیکھو ) کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ نہ جائیں ورنہ تم بھی ان ہی جیسے ہو جاؤگے(۲۲۷) اللہ سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے

life
06-11-2011, 01:00 AM
(۱۴۱)یہ لوگ تمہارے معاملہ میں نتیجہ کے منتظر ہیں اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تم پر غالب نہ آگئے تھے ؟ پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچا لیا تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور اللہ کافروں کے لئے مؤمنوں پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل نہ رکھے گا ۔

(۱۴۲)منافقین اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں (۲۲۸)حالانکہ اللہ ہی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔محض لوگوں کو دکھانے کے لئے(۲۲۹) اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں (۲۳۰) ۔

life
06-11-2011, 01:00 AM
(۱۴۳)دونوں کے درمیان ڈانوں ڈول ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ بھٹکائے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پاسکتے (۲۳۱) ۔

(۱۴۴)اے ایمان والو !اہل ایمان کے بجائے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ (۲۳۲) ۔کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت قائم کرلو؟

(۱۴۵)منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ(۲۳۳) میں ہوں گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پاؤگے ۔

(۱۴۶)البتہ جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں اور اللہ سے اپنا تعلق استوار کریں اور اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر دیں (۲۳۴) ایسے لوگ ضرور مؤمنین کے ساتھ ہونگے اور اللہ مؤمنوں کو ضرور اجر عظیم عطا ء فرمائے گ

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۴۷)اگر تم شکر کرو(۲۳۵) اور ایمان لاؤ تو اللہ کو تمہیں عذا ب دے کر کیا کرنا ہے ؟ اللہ بڑا قدردان(۲۳۶) ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔

(۱۴۸)اللہ کو یہ بات پسند نہیں کہ (تم کسی کی )برائی کے لئے زبان کھولو الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہو ا ہو(۲۳۷) (اور وہ اس کی مذمت کرے) اللہ سب کچھ سننے والا اورجاننے والا ہے(۲۳۸) ۔

(۱۴۹)اگر تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طورپر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی برائی سے درگزر کرو تو ( دیکھو ) اللہ معاف کرنے والا ہے ( جبکہ وہ سزا دینے پر ) پوری قدرت رکھتا ہے (۲۳۹)

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۵۰)جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین کو ئی راہ اختیا رکریں ۔

(۱۵۱) ایسے لوگ یقینا کافر ہیں (۲۴۰) اور کافروں کے لئے ہم نے رسواکن عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

(۱۵۲)اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولو ں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی ان کو وہ ضرور ان کا اجر دیگا(۲۴۱) اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے(۲۴۲) ۔

(۱۵۳)(اے پیغمبر !)اہل کتاب تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرادو ، وہ اس سے بھی بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں ۔انہوں نے کہا تھا کہ اللہ کو کھلم کھلا دکھلادو اور ان کی ظالمانہ حرکت کی وجہ سے کڑک ( بجلی ) نے انہیں پکڑلیا تھا (۲۴۳)پھر باوجو د یکہ واضح نشانیاں ان کے پاس آچکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو معبو د بنا لیا (۲۴۴)پھر بھی ہم نے ( ان کی ) اس حرکت سے در گزر کیا اور موسیٰ کو صریح حجت عطا کی(۲۴۵

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۵۴)اور ہم نے ان سے عہد لینے کے لئے ( کوہ ) طور ان پر کھڑا کیا تھا (۲۴۶)، اور حکم دیا تھا کہ دروازے میں سجدے کرتے ہوئے داخل ہو(۲۴۷)، اور ہدایت کی تھی کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرو (۲۴۸)اور ہم نے ان سے شریعت کی پابندی کا پختہ عہد لیا تھا ۔

(۱۵۵)لیکن ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ( ہم نے ان پر لعنت کی)(۲۴۹) اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا (۲۵۰)اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے نیز کہا کہ ہمارے دل بند ہیں (۲۵۱)حالانکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ۔جس کی وجہ سے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔

(۱۵۶)اور ( وہ ملعون ہوئے ) اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان لگایا (۲۵۲)۔

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۵۷)اور ان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا(۲۵۳) ۔حالانکہ نہ تو وہ قتل کرسکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے بلکہ ( صورت واقعہ ) ان پر مشتبہ ہو گئی(۲۵۵)۔اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا (۲۵۶)وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ان کو اس ( حقیقت حال ) کا کوئی علم نہیں ہے ۔بلکہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں (۲۵۷) یقینا انہوں (۲۵۸)نے اسے قتل نہیں کیا ۔

(۱۵۸)بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا(۲۵۹) ۔اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے (۲۶۰)۔

(۱۵۹)اور اہل کتاب میں سے ایسا کوئی نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے (۲۶۱) اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دے گا (

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۶۰)الغرض (۲۶۳)یہود کی ان ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم نے کتنی ہی پاک چیزیں ان پر حرام کر دی ہیں جو ( پہلے ) ان کے لئے حلال تھیں ا س وجہ سے بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے ۔

(۱۶۱)نیز ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا (۲۶۴) اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگو ں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے لگے اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (۲۶۵) ۔

(۱۶۲)البتہ ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ ہیں (۲۶۶) اور جو (۲۶۷) مومن ہیں وہ اس (ہدایت ) پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی یہ لوگ نماز قائم کرنے والے ، زکوٰۃ ادا کرنے والے (۲۶۸) اور اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے ۔

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۶۲)البتہ ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ ہیں (۲۶۶) اور جو (۲۶۷) مومن ہیں وہ اس (ہدایت ) پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی یہ لوگ نماز قائم کرنے والے ، زکوٰۃ ادا کرنے والے (۲۶۸) اور اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے ۔

(۱۶۳)ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے (۲۶۹) جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی اور ہم نے ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب ، اولاد یعقوب(۲۷۰) ، عیسیٰ ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی تھی (۲۷۱)۔نیز ہم نے داؤد کو زبور (۲۷۲)عطا کی تھی

life
06-11-2011, 01:01 AM
(۱۶۴)ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی بھیجی جن کا حال اس سے پہلے تم سے بیان کرچکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا (۲۷۳)اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیساکہ فی الواقع کلام کیا جاتا ہے(۲۷۴)۔

(۱۶۵)یہ سب رسول خوشخبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے کوئی عذر نہ رہ جائے(۲۷۵) ۔اللہ غالب بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ۔

life
06-11-2011, 01:02 AM
(۱۶۶)( اس کے با وجو د اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں ) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے(۲۷۶) اورفرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں گو اللہ کی گواہی کافی ہے ۔

(۱۶۷)جن لوگوں نے اس سے انکار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ۔

(۱۶۸)جن لوگوں نے کفر کیااور ظلم ڈھایا اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا ۔

(۱۶۹)بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لئے ایسا کرنا بالکل آسان ہے

life
06-11-2011, 01:02 AM
(۱۷۰)لوگو !یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے ۔ایمان لاؤ تمہارے حق میں بہتر ہو گا اور اگر کفر کرتے ہو تو (یاد رکھو ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔

(۱۷۱)اے اہل کتاب!اپنے دین میں غلو نہ کرو (۲۷۷)اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو(۲۷۸) ۔مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے ،جس کو اللہ نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہے (۲۷۹)پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤاور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں (۲۸۰) باز آجاؤ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے ۔وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو ۔آسمانوں اور زمینوں کی ساری چیزیں اسی کی ہیں اور ان کی خبر گیری کے لئے اللہ کافی ہے(۲۸۱) ۔

life
06-11-2011, 01:02 AM
(۱۷۲)مسیح کو ہر گز اس بات سے عار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتوں کو اس سے عار ہے اور جو کوئی اس کی بندگی کو عار سمجھے گا اور تکبر کرے گا تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ سب کو اپنے حضور جمع کریگا ۔

(۱۷۳)اس وقت وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور جنہوں نے نیک عمل کئے تھے پوراپورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا برخلاف اس کے جنہوں نے اس کی بندگی کو عار سمجھا تھا اور تکبر کیا تھا ان کو وہ دردناک سز ا دے گا اور وہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو اپنا دوست یا مددگار نہ پائیں گے ۔

(۱۷۴)لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح حجت آگئی ہے(۲۸۲) اور ہم نے تمہاری طرف نورمبین (۲۸۳)نازل کیا ہے ۔

(۱۷۵)تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کو مضبوط پکڑلیں گے انہیں وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف راہ راست کی ہدایت بخشے گا(۲۸۴)

life
06-11-2011, 01:03 AM
(۱۷۶)وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں (۲۸۵) کہو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے(۲۸۶) اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہو(۲۸۷) تو اسے اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور (اگر بہن مرجائے اور بھائی زندہ ہوتو ) وہ اس بہن کا وارث(۲۸۸) ہو گا بشرطیکہ اس بہن کے کوئی اولا د نہ ہو اگر بہنیں دو ہوں تو وہ اس کے تر کہ کا دو تہائی پائیں گی(۲۸۹) اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتو ں کے برابر ہو گا (۲۹۰)اللہ تمہارے لئے ( احکام ) واضح فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور ( یاد رکھو ) اللہ کو ہر چیز کا علم ہے ۔

تفسیر سو ر ہ نساء

life
06-11-2011, 01:03 AM
تفسیر سو ر ہ نساء

۱۔۔۔اس سورہ میں جو انسانی حقوق اور جو معاشرتی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کے لئے یہ ہدایت بمنزلۂ اساس کے ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سچی خداخوفی انسان کے اندر انسانیت پیدا کرتی ہے اور اسے دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرنے اور بالخصوص کمزور طبقات کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرنے پر آمادہ کرتی ہے جو جو لوگ مذہب بیزاری کی بنا پر خداخوفی کو بے وقعت قرار دیتے ہیں اور پھر انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے منصوبے بناتے ہیں وہ ہوا میں قلعے تعمیر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے میں بالکل ناکام ہیں جو انسانیت کے سچے بہی خواہ ، ان کے حقوق کے محافظ ، اور فرض شناس ہوں بخلاف اس کے قرآن کی اس ہدایت کو جس نے بھی اپنایا یعنی خداخوفی اپنے اندرپیدا کرلی وہ واقعی انسانیت کا علمبردار بنا ۔قرآن نے ہر دور میں اس کی بہترین مثالیں پیش کیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے چنانچہ آج بھی انسانیت نوازی کا حقیقی وصف ان ہی لوگوں کے اندرملے گا جنہوں نے قرآن کی اس تعلیم خداخوفی کو اپنے اندر جذب کیا ہے ۔

۲۔۔۔یعنی آدم سے جو تمام انسانوں کے باپ ہیں

life
06-11-2011, 01:03 AM
۳۔۔۔یعنی حوا کی پیدائش آدم ہی سے ہوئی ۔قرآن کا یہ بیان کہ تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حوا کی پیدائش آدم سے ہوئی تھی اگر حوا کی پید ائش علٰحدہ سے ہوئی ہوتی تو کہا جاتا کہ تم کو دوجان سے پیداکیا ۔رہی حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت تو وہ نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں اس لئے ہمیں قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاکرنا چاہئیے ۔

۴۔۔۔یہاں دو اہم حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ تمام انسانوں کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور وہی ان کا رب بھی ہے دوسرے یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک ہی شخص آدم سے ہوا ہے اس لئے تمام انسان خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کالے ہوں یا گورے اور خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک میں پیداہوئے ہوں ایک ہی باپ آدم اور ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں اس لئے ان میں انسان ہو نے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے سب یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے حقوق کا پاس ولحاظ کیا جانا چاہئیے ۔

life
06-11-2011, 01:03 AM
بنی نوع انسان کے بارے میں قرآن کی یہ اصل عظیم ذات پات کے تصور کو باطل قرارد یتی ہے ۔نیز اس مشرکانہ تصور کی بھی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ اونچی ذات دیوتاؤں کی نسل سے ہے اور نچلی ذات (شودر ) راکشسوں کی نسل سے ۔

۵۔۔۔انسان جبکہ دوسرے سے ہمدردی ، انصاف ، اور ادائیگی حقوق کے لئے خدا ہی کے نام پر اپیل کرتے ہیں یہ گویا انسان کے وجدان کی پکار ہے کہ خداہی تمام انسانوں کا رب ہے اور اس کی عظمت کا تصور ہی انسان کو دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتا ہے ۔قرآن وجدان کی اس پکا رکی تصدیق کرتا ہے اور باہمی حقوق کی ادائیگی کے لئے خدا خوفی ہی کو بنیاد قرار دیتا ہے ۔

life
06-11-2011, 01:03 AM
۶۔۔۔قطع رحمی سے بچنے کی ہدایت جس تاکید کے ساتھ یہاں کی گئی ہے اس سے اس کا زبردست گناہ ہونابھی واضح ہوتا ہے اور صلۂ رحمی اور قرابت داری کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔حدیث میں نہایت مؤثر طریقہ پر صلۂرحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ داری کے تعلقات کو خراب ہونے سے روکا گیا ہے ۔نبی ﷺ کا ارشادہے : الرحم شجنۃ من الرحمن فقال اللّٰہ من وصلک وصلۃ ومن قطعک قطعتہ’رحم رحمن سے مشتق ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تجھے جوڑیگا میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ جاؤں گا ‘‘ ( مشکوٰۃ بحوالہ بخاری )

لا یدخل الجنۃ قاطع رحم ’ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا ‘ ( مسلم )

life
06-11-2011, 01:04 AM
۷۔۔۔یتیم بچے سوسائٹی کا سب سے کمزور طبقہ ہیں ۔باپ کا سہار ا اٹھ جانے کی وجہ سے وہ بے سہارا ہوتے ہیں اس لئے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت اولین اہمیت کے ساتھ اور بڑے تاکید ی انداز میں دی گئی ہے ۔

۸۔۔۔یتیم کے مال کو الگ رکھنا ضروری ہے ۔اس میں خرد برد گناہ کبیر ہ ہے اور سرپرست کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال سے فائدہ اٹھائے ۔اگر یتیم کا مال تجارت میں لگایا گیا ہو تو اس کا فائدہ اس یتیم ہی کو پہنچا نا چاہئیے ۔رہا کھانے پینے میں اشتراک تو اس کی اجازت سورہ بقرہ ۲۲۰۔۔۔میں دی گئی ہے ۔ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۲۱۔۔۔

۹۔۔۔یتیم اس نابالغ کو کہتے ہیں جس کے باپ کا انتقال ہوچکا ہو لیکن شرعا ً اس کا اطلاق بالغ ہونے کے بعد بھی ہوتا ہے جب تک کہ سوجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ جائے ۔ اس آیت میں لفظ یتامیٰ استعمال ہوا ہے جو یتیم کی جمع ہے اور مذکر ومونث دونوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔یہاں اس سے مراد یتیم لڑکیا ں ہیں اور خطاب اصلاً ان کے سرپرستوں سے ہے

life
06-11-2011, 01:04 AM
۱۰۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے سرپرست کی حیثیت سے یہ اندیشہ محسوس کرتے ہوکہ ان سے نکا ح کی صورت میں ان کے حقوق ٹھیک طور سے ادا نہ کرسکوگے تو دوسری عورتوں سے بشرطیکہ وہ محرمات میں سے نہ ہوں نکا ح کر لو ۔

زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن وجمال کی وجہ سے ان کے سرپرست ان سے خود نکاح کرلیتے اور پھر ان کے ساتھ انصاف نہ کرتے ۔چنانچہ ان کے ورثہ پر وہ خود قابض ہو جاتے اور ان کا مہر وغیرہ بھی نہ ادا کرتے اس لئے ان کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان سرپرستوں کو اس شرط کے ساتھ دی گئی کہ وہ ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ انصاف کریں ۔

life
06-11-2011, 01:04 AM
تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے وہ متعدد اخلاقی اور معاشرتی مصلحتوں پر مبنی ہے مثلاً بیواؤں کا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے یا بے اولا دہو نے کی صورت میں یا بیوی کے دائم المر یض ہونے کی بنا پر ‘ یا مرد کا ایک بیوی پر قانع نہ ہونے کی صورت میں دوسرا نکاح کرنا ۔یہ اور اس طرح کے دوسرے وجو ہ نہایت معقول ہیں اور ان مصالح کی رعایت کرتے ہوئے شریعت نے ایک سے زائد عورتوں سے نکا ح کی راہ کھلی رکھی ہے تاکہ آدمی غلط اور ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بچے اور اس کی ضرورتیں جائز طریقہ سے پوری ہوں ۔زمانۂجاہلیت میں تعدد ازواج کے لئے کوئی قید نہیں تھی لیکن قرآن نے اس آیت کے ذریعہ تعدد ازواج کو محدود کر دیا اور زیادہ سے زیادہ چار عورتوں تک نکاح کی اجازت دیدی اور وہ بھی عد ل کی شرط کے ساتھ ۔

واضح رہے کہ چار عورتوں کی حد تک نکاح کے جواز پر علماء کا اجماع ہے ۔

life
06-11-2011, 01:04 AM
۱۱۔۔۔اس سے واضح ہے کہ ایک سے زائد بیوی کی اجازت عدل کی شرط کے ساتھ مشروط ہے جو شخص اس شرط کو خاطر میں لائے بغیر ایک سے زائدنکاح کرتا ہے وہ اللہ کی اس عطا کردہ رخصت سے غلط فائدہ اٹھا تا ہے اور ایسے شخص کے لئے حدیث میں سخت وعید آئی ہے ۔

من کانت لہ امر اتان یمیل لاحد اھما علی الاخریٰ جاء یوم القیامۃ یجرّ احد شقیّہ ساقطا او مائلا ’ جس کی دو بیویاں ہو ں اور وہ صرف ایک کی طرف مائل ہوکر رہ جائے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیگا کہ اس کا ایک بازو گر رہا ہو گا اور وہ اسے گھسیٹ رہا ہو گا ‘ (اہل السنن)

اورعدل سے مرادکھانے پینے ، رہنے سہنے اور شب باشی وغیرہ کے معاملہ میں تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا اور ان سب کے حقوق اداکرنا ہے ۔

life
06-11-2011, 01:04 AM
۱۲۔۔۔نزول قرآن کے زمانہ میں لونڈیوں کا وجو دتھا ۔اسلام نے ایک طرف ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی نیز ان کو آزاد کرنے کے سلسلے میں کچھ ضابطے بھی بنائے اور دوسری طرف موجودہ لونڈیوں کو صنفی آوارگی سے بچانے کا بھی اہتمام کیا چنانچہ جن لوگوں کے قبضہ میں لونڈیاں تھیں ان کو ان سے تمتع کی اجازت دیدی لونڈیوں کے سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔نوٹ ۶۴۔۔۔

۱۳۔۔۔مہر وہ عطیہ ہے جو شوہر بیوی کو عقد نکاح میں بندھ جانے پر دیتا ہے اس کی حیثیت لازمی عطیہ یا ہدیہ کی ہے جسے ساقط کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ہے البتہ عورت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کے بعد اس کا جو حصہ چا ہے معاف کرے ۔اسلام میں مہر عورت کی قیمت یانکاح کا معاوضہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک شرعی فریضہ اور پرخلوص ہدیہ ہے جس سے مقصود زوجین کے درمیان الفت ومحبت کے تعلقات پیدا کرنا اور عقد نکاح کی اہمیت کا احسا س پیدا کرنا ہے واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ یا سرپرستو ں کا

life
06-11-2011, 01:05 AM
۱۴۔۔۔مال کو اللہ تعالیٰ نے قیام معیشت کا ذریعہ بنا یا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ آدمی اس کی قدر ومنزلت پہچانے اسے ضائع ہونے سے بچائے بالخصوص یتیموں کا مال جس کی تحویل میں ہو وہ اس کی حفاظت اس طرح کرے کہ گویا وہ اس کا اپنا مال ہے ۔

۱۵۔۔۔مراد یتیم بچے ہیں اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ یتیموں کو ان کا مال حوالہ کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے ا سکا یہ مطلب نہیں کہ مال کو ناسمجھ اور بے عقل بچو ں کے حوالے کر دیا جائے بلکہ یتیم کے سرپرست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مال کو ضائع ہونے سے بچائے اور اس کی پوری پوری حفاظت کر ے ۔اس میں سے وہ یتیموں کے خوردونوش اور لباس وغیرہ کی ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے لیکن جب وہ بالغ ہو جائیں اور ان میں سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو جائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کیا جائے ۔

life
06-11-2011, 01:05 AM
۱۶۔۔۔نکاح کی عمر سے مراد سن بلوغ کو پہنچنا ہے شرعاً اس کا اعتبار قدرتی نشوونما کے ظاہر ہو جانے پر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک شادی کی عمر کا اعتبار لڑکے یا لڑکی کے سن بلوغ کو پہنچ جانے پر ہے ۔

۱۷۔۔۔یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لئے ان کاسنِبلوغ کو پہنچنا کا فی نہیں ہے بلکہ ان میں سوجھ بوجھ کا پایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مال کو ذمہ داری کے ساتھ خرچ کرسکیں ۔اگر کسی یتیم لڑکے یا لڑکی میں بالغ ہو جانے پر یہ اہلیت پیدا نہ ہوئی ہو تو مزید انتظار کرنا چاہئیے ۔

life
06-11-2011, 01:05 AM
۱۸۔۔۔یعنی اگر کسی یتیم کا سرپرست محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے ان کی خدمت کے تعلق سے بقدر احتیاج لے سکتا ہے البتہ اس سلسلہ میں معقول اور مناسب طریقہ اختیا رکرنا ضروری ہے ۔

۱۹۔۔۔یہ اس قانون وراثت کی تمہید ہے جو آگے بیان کیا جارہا ہے یتیموں کے بعد دوسرا کمزور طبقہ عورتو ں کا ہے جس کو وراثت سے محروم کیا جاتا رہا ہے چنانچہ زمانۂجاہلیت میں عورتوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور نہ بچوں کو وراثت میں شریک کیا جاتا بلکہ صرف مرد وارث قرارپاتے ۔وراثت کے سلسلہ میں ان کا یہ تصور تھا کہ جنگ کرنے کی قابلیت مردوں ہی میں ہوتی ہے ا س لئے وہی وراثت کے مستحق ہیں عورت اور بچے جنگ کے اہل نہیں ہیں اس لئے وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہئیے اس باطل تصور اور ظالمانہ قانون نے بیواؤں اور یتیم بچوں اور بچیوں کو وراثت سے یکسر محروم کر دیا تھا ۔اسلام نے جاہلیت کے اس قانون Customary Law کوباطل قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مردوں کے پہلو بہ پہلو ، عورتیں بھی وراثت میں شریک ہیں اسی طرح اسلام نے بچوں کو بھی وارث قرار دیا اور ان سب کے حصے مقر رکئے تاریخ میں سماج اور قانون کا اصلاح کا یہ زبردست کاکام تھا جو اسلام کے ہاتھو ں انجام پا یا اور جس کے گہر ے اثرات اقو ام عالم کی سماجی زندگی پر مرتب ہو ئے ورنہ عربوں کے علاوہ دیگر اقوام کاتصور بھی عورتوں کے بارے میں کچھ مختلف نہ تھا یہاں تک کہ غیر مہذب اقوام کے نزدیک عورت کی حیثیت بھی مال وجائیداد ہی کی تھی جس کو میراث سمجھ لیا جاتا تھا اس لئے ان کو میراث میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پید اہوتا تھا ۔

life
06-11-2011, 01:05 AM
Women do not inherit they are themselves the property of their husbands-(Ency. of Religion & Ethnics Vol VII P.306) Women as inheritable property-many primitive people especially in Africa, regard wives and daughters as an important part of the estate to be transmitted in accordance with the regular rules of inheritance with the rest of the property. The explanation at is to be sought partly in the economic value of women either as workers or in the case of daughters , as potential wealth in the shape of a bride- price. Do P.290)

یہ آیت میراث کے سلسلہ میں اس قانون کو بھی واضح کرتی ہے کہ ترکہ بہرحال تقسیم ہونا چاہئیے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو اس کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ ہر قسم کے اموال پر ہو گا اور اگر کوئی چیز قابل تقسیم نہیں ہے تو اسے فروخت کرکے اس کی رقم تمام وارثوں میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دی جائے گی ۔

آیت میں أقربونکا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ قریب ترین رشتہ دار وں کے ہیں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قریب ترین رشتہ دار وں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وارث نہیں ہوسکتے ۔

life
06-11-2011, 01:06 AM
۲۰۔۔۔خطاب ورثاء سے ہے انہیں ترغیب دی گئی ہے کہ رشتہ داروں میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کا ازروئے شرع میراث میں حصہ نہ ہو لیکن وہ غریب اور ضرورت مند ہوں اسی طرح جو یتیم اور مسکین آموجو د ہوں انہیں میراث میں سے کچھ نہ کچھ دو اور اگر گنجائش نہ ہوتو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ضرورکرو ۔

اس ہدایت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر یتیم پوتا وارث نہ قرار پاتا ہو اور دادا نے اس کے لئے وصیت بھی نہ کی ہو تو وارثوں کو چاہئیے کہ قرابت دار اور یتیم ہونے کی بنا پر اسے اس کے دادا کی وراثت میں سے کچھ نہ کچھ دیں اور اس کی دلجوئی کریں ۔

۲۱۔۔۔یعنی لوگوں کو یہ خیا ل کرنا چاہئیے کہ جس طرح دو مرد کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہوسکتے ہیں یہ خیال انہیں یتیموں کی حق تلفی اور دل شکنی کرنے سے باز رکھے گا ۔

life
06-11-2011, 01:06 AM
۲۲۔۔۔ان آیات میں تقسیم وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ نہایت مہتمم بالشان اور تاکیدی حکم ہے ۔

نیز اس میں یہ بات مضمر ہے کہ سور ہ بقرہ کی آیت ۱۸۰۔۔۔میں اہل ایمان کو والدین اور اقرباء کے حق میں وصیت کرنے کا جو حکم مطلقا ً دیا گیا تھا اس کو اس نے مقید کر دیا ہے اس لئے جن لوگوں کے حق میں اللہ نے وصیت فرمادی ہے یعنی ورثا ء ان کے لئے وصیت کرنے کا کوئی سوال اہل ایمان کے لئے باقی نہیں رہتا یعنی اب وصیت صر ف ایسے ہی رشتہ داروں کے حق میں کی جاسکتی ہے جو شرعاً وارث نہ قرار پاتے ہوں ۔

life
06-11-2011, 01:06 AM
۲۳۔۔۔اللہ تعالیٰ نے وراثت میں لڑکے کا حصہ لڑکیوں کے مقابلہ دوگنا رکھا ہے جس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلہ میں فروتر ہیں اگر ایسا ہوتا تو کسی صورت میں بھی عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر نہ رکھا جاتا ۔حالانکہ متعدد صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مساوی رکھا گیا ہے ۔مثلاً میت کے اولا دہونے کی صورت میں جہاں باپ کو ۶/۱ملے گا وہاں ماں کو بھی ۶/۱ملے گا اسی طرح میت کے ماں شریک بھائی بہن کا حصہ برابر رکھا گیا ہے ۔

اصل میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے برابر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر ڈالی ہے وہ بیوی کی بھی کفالت کا ذمہ دار ہے اور بچوں کی کفالت کا بھی جبکہ عورت پر اپنی کفالت کا بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا ہے مزید برآں مرد پر عورت کے مہر کا بھی بار ڈالا گیا ہے ان ذمہ داریوں کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ مرد کا حصہ عورت کی بہ نسبت دوگنا رکھا جائے ۔لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میت نے اپنے پیچھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑی ہو تو دیگر ورثاء کو اگر کوئی ہوں ان کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکے کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ لڑکی کو ملے گا اور دو حصے لڑکے کو اور اگر کئی لڑکے لڑکیاں ہوں تو ان کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہو گی کہ ہر لڑکے کودو حصے اور ہر لڑکی کوایک حصہ ملے گا اور اگر صر ف لڑکے ہوں تو ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم ہو گا ۔واضح رہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوتا ۔

life
06-11-2011, 01:06 AM
۲۴۔۔۔میت نے اگر صر ف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دوسے زیادہ ہوں تو ان کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے انہیں دوتہائی حصہ ملے گا یہی حکم دولڑکیوں کا بھی ہے یعنی اگر میت نے صرف لڑکیاں چھوڑی ہو ں اور وہ دو ہوں تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا ۔یہ بات فحوائے کلام سے واضح ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ جو فرمایا کہ لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو نے کی صور ت میں لڑکے کو ۳/۲ملے گا اور لڑکی کو ۳/۱، لڑکے کا یہ ۳/۲ حصہ دولڑکیوں کے برابر ہے یہ بات فحوائے کلام سے واضح تھی اس لئے دو سے زائد لڑکیوں کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا مزید برآں آیت ۱۷۶۔۔۔میں دوبہنوں کا حصہ ۳/۲بیان کیا گیا ہے لہٰذا دولڑکیوں کا حصہ بدرجۂ اولیٰ ۳/ ۲ ہو گا ۔

دو لڑکیوں کے حصہ کا دو تہائی ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے ۔چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ سعد بن ربیع

life
06-11-2011, 01:06 AM
دو لڑکیوں کے حصہ کا دو تہائی ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے ۔چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسو ل اللہ سعد کی یہ دوبیٹیاں ہیں ان کے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے چچا نے ان کے پورے مال پر قبضہ کرلیا ہے اب ان سے نکاح کو ن کرے گا اس پر آیت میراث نازل ہوئی اور نبی ﷺ نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا کہ سعد کی دوبیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور ان کی والدہ کو ۸/۱اس کے بعد جو بچ جائے وہ تم لے لو ۔(تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص۴۵۷)

ترکہ کا یہ ۳/۲حصہ تمام لڑکیوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا بقیہ ۳ /۱ کے حقدار دوسرے وارث ہوں گے ۔

۲۵۔۔۔یعنی اگر میت نے صر ف ایک لڑکی چھوڑی ہو اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا نہ ہو تو لڑکی کو نصف میراث ملے گی اور بقیہ نصف کے حقدار دوسرے ورثاء ہوں گے

life
06-11-2011, 01:06 AM
اس سے یہ حکم بھی ملتا ہے اگر صرف ایک لڑکاہو تو وہ لڑکی کے دوگنا یعنی پور ے ترکہ کا وارث ہو گا البتہ اگر دوسرے ورثا مثلاً ماں باپ موجو د ہوں تو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ پورا کا پورا لڑکے کو ملے گا ۔

۲۶۔۔۔اولاد خواہ ایک ہو یا زائد اور خواہ لڑکی ہو یا لڑکا بہر صورت میت کے والدین میں سے ہر ایک ۶ /۱کا حقدار ہو گا والدین کا حق اولاد کے مقابلہ میں زیادہ ہے لیکن وراثت میں اولا دکا حصہ زیادہ اور والدین کا حصہ کم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ والدین ایک ایسی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں جب انہیں مال کی ضرورت زیادہ نہیں رہتی بخلاف اس کے اولاد اپنی عمر کے اعتبار سے مال کا زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ تقسیم کتنی حکیمانہ ہے۔

۲۷۔۔۔یعنی والدین کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو ماں کو ۳/۱اور بقیہ حصہ باپ کو ملے گا ۔

۲۸۔۔۔یعنی میت کے اگر بھائی بہن موجو د ہوں تو ماں کو ۳/۱کے بجائے ۶/۱ملے گا اور بقیہ باپ کو ملے گا کیونک اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں واضح رہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا صرف باپ کے زندہ ہونے کی صور ت میں اس کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملتا ۔

life
06-11-2011, 01:07 AM
۲۹۔۔۔وصیت کرنے کا اختیار آدمی کو اپنی میراث کے ۳/۱کی حد تک ہے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے نیز کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے اور نہ ایسی وصیت نافذ ہو گی الا یہ کہ ورثا اس کی اجازت دیں ایک تہائی کی حد تک وصیت کی گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن رشتہ داروں کو حصہ نہ ملتا ہو اور وہ مدد کے مستحق ہو ں مثلاً یتیم پوتا یا پوتی یا بیوہ ، بہو وغیرہ تو آدمی ان کے حق میں وصیت کرسکتا ہے اسی طرح دوسرے مستحقین کے حق میں یا کسی کا رخیر میں صرف کرنے کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے ۔سورہ بقرہ نوٹ ۲۳۳۔۔۔ بھی پیش نظر رہے )

۳۰۔۔۔قرض سب سے پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت کی تعمیل کی جائے گی اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی ۔وصیت کا ذکر قرض سے پہلے اس لئے کیا گیا ہے تاکہ اس معاملہ میں لوگ بے اعتنائی نہ برتیں کیونکہ وصیت بغیر کسی عوض کے ہوتی ہے جس کا ادا کرنا طبیعتوں پر بار ہوتا ہے بخلاف قرض کے کہ یہ ایک مسلمہ حق ہے جس کی ادائیگی واجب ہے ۔

۳۱۔۔۔یعنی وراثت کے معاملہ میں انسان اپنے محدود علم کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا نہ وہ وارثوں کاصحیح طور سے تعین کرسکتا ہے اور نہ ان کے حصوں کا چنانچہ انسان نے آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہوکر جب کبھی میراث کی تقسیم کا ضابطہ بنا نا چاہا ہے جذباتیت کا شکار ہوکر غلط اور غیر منصفانہ فیصلے ہی کرتا رہا ہے اگر قدیم جاہلیت میں عورتوں کو وراثت سے محرو م رکھا جاتا تھا تو جدید جاہلیت میں ان کو مردوں کے برابر لا کھڑا کر دیا گیا جبکہ دونوں کی ذمہ داریاں یکسا ں نہیں ۔

life
06-11-2011, 01:07 AM
نپولین نے جو سول کوڈ بنایا اس میں خونی رشتہ داروں کی موجودگی میں زوجین کو ایک دوسرے کی وراثت سے محروم کر دیا ۔ہندو کوڈ اولاد کی موجودگی میں باپ کا حصہ تسلیم نہیں کرتا البتہ ماں کے حصہ کا ضرور قائل ہے اور انڈین سکسیشن ایکٹ Indian Succession Act 1925 کی روسے اولاد کی موجودگی میں میت کے ماں باپ دونوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وراثت کی تقسیم کے مسئلہ میں انسان اپنی خواہشات اور وقت کے نظریات اور رحجانات کا شکار رہا ہے اور جو ضابطے بھی اس سلسلے میں بنائے جاتے رہے ہیں وہ کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں بنائے گئے لیکن اسلام کا قانون علم الٰہی پر مبنی ہے اسلئے اس میں کمال درجہ کا توازن پایا جاتا ہے ۔

۳۲۔۔۔اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی اسلئے اس کی تقسیم غلط نہیں ہوسکتی ۔تمہار ے اپنے رحجانات اور نظریات غلط اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوسکتے ہیں تمہارے حقیقی مفاد اور مصالح کو جاننے والا اللہ ہی ہے لہٰذا ہمیں اس کی شریعت کے صحیح ہونے پر یقین کرنا چاہئیے اور شرعی قوانین ہی کی پابندی قبول کرنا چاہئیے ۔

life
06-11-2011, 01:07 AM
۳۳۔۔۔میت کے اولا د نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی کا حصہ ۴/۱اور اولاد ہونے کی صورت میں ۸/۱ہو گا اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ سب اس ۴/۱یا ۸/۱میں برابر شریک ہوں گی۔

۳۴۔۔۔اس بات پر اجماع ہے کہ یہ حکم اخیانی یعنی ماں شریک بھائی بہنوں کا ہے رہے سگے اور صرف باپ شریک بھائی بہن تو ان کا حکم اس سورہ کے آخر میں بیان ہوا ہے ۔ اخیانی بھائی بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر صر ف ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اسے ۶/۱ملے گا اور دویا دو سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ۳/۱میں وہ سب برابر کے شریک ہوں گے واضح رہے کہ میت کے اخیانی بھائی بہن اسی صورت میں حصہ پاتے ہیں جبکہ میت کے نہ اولاد ہو اور نہ باپ زندہ ہ

life
06-11-2011, 01:07 AM
۳۵۔۔۔یعنی وصیت اور قر ض کے لئے قانون وراثت میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے مثلاً کوئی شخص شرعی وارثوں کے حقوق تلف کرنے کی غرض سے بے جا وصیت کر جائے یا اپنے ذمہ ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو اس قسم کی ضر ر رسانی کو حدیث میں گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔

۳۶۔۔۔یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفتوں علم اور بردباری کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام وراثت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ اس کے حال سے اللہ باخبر ہے اور وہ محض اپنی بردباری کی بناپر فوری طور سے سزا نہیں دے رہا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ سکے گا ۔

life
06-11-2011, 01:07 AM
۳۷۔۔۔حدود سے مراد قوانین اور ضابطے ہیں وراثت کے ان احکام کی حیثیت جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں قانون الٰہی Divine Law کی ہے جس کی پابندی لازماً اس کے بندوں پر عائد ہوتی ہے ۔

۳۸۔۔۔وراثت کے احکام بیان کر نے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے اس سے ان لوگوں کے جرم کی سنگینی واضح ہے جو اللہ کے مقر ر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کرنا چاہیں یا اسلامی ضابطۂوراثت کیک جگہ کوئی اور ضابطۂوراثت Succession Code لانا چاہیں یہ ان ہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے کوئی سروکار نہ ہو ور نہ کوئی مسلمان اس کی ہرگز جسارت نہیں کرسکتا ۔

۳۹۔۔۔مراد زنا ہے ۔

life
06-11-2011, 02:14 AM
۴۲۔۔۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زنا کی مرتکب عورتوں کی نظربندی کا حکم مخصو ص حالات کے لئے دیا گیا ہے رہا مستقل حکم تو وہ بعد میں ناز ل کیا جائے گا چنانچہ بعد میں یعنی ۰۶ھ؁ میں سورہ نور میں سوکو ڑوں کی سزا مقر ر کی گئی ( سور ۂ نور آیت ۲۔۔۔) اس کا یہ مطلب نہیں کہ نظر بندی کا حکم منسوخ ہو گیا اگر ایسا ہوتا تو قرآن میں اس کی تلاوت باقی نہ رکھی جاتی ۔تلاوت جب باقی رکھی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ حکم ان حالات کے لئے اب بھی باقی ہے جن میں مسلم معاشرہ اس پوزیشن میں نہ ہوکہ کوڑوں کی سزا نافذ کرسکے البتہ جو معاشرہ کو ڑوں کی سزا نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہو اسے کو ڑوں کی سزا ہی نافذ کرنا ہو گی اس آیت میں زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی جو شرط بیان کی گئی ہے وہ کو ڑوں کی سزا کا حکم آجانے کے بعد بھی باقی رکھی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ قرآن میں کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے بعض احکام جو بادی النظر میں مختلف معلوم ہوتے ہیں ان میں در حقیقت کوئی تضا د نہیں ہے بلکہ ایک حکم ایک حالات کے لئے ہے اور دوسرا حکم دوسری طرح کے حالات کے لئے مثلاً ایک جگہ حکم دیا گیا ہے کہ کافروں کو ان کے حال پر چھوڑدو اور دوسری جگہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے جنگ کرو ظاہر ہے کہ یہ مختلف مراحل سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں نہ کہ دوسرا حکم پہلے حکم کا ناسخ ۔

۴۳۔۔۔اذیت سے مراد ملامت ‘ زجر وتوبیخ اور اصلاح وتادیب کی حد تک مارنا ہے ۔تعزیر کا یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے جو زنا کے مرتکب ہوئے ہوں ۔

۴۴۔۔۔اصلاح کی صورت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت اذیت پہنچان

life
06-11-2011, 02:15 AM
۴۴۔۔۔اصلاح کی صورت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت اذیت پہنچانے سے احتراز کیا جائے گا لیکن عورت کو گھر میں روکے رکھنے کا جو حکم آیت ۱۵۔۔۔میں دیا گیا ہے وہ اذیت کے حکم کے علاوہ ہے اور اس کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں اس لئے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا ۔

۴۵۔۔۔اوپر جو توبہ کا ذکر ہوا ہے اس کی مناسبت سے توبہ کی حقیقت یہاں واضح کر دی گئی ۔توبہ کے معنی گنا ہ سے باز آنے اور اللہ کی اطاعت کی طر ف پلٹنے کے ہیں ۔ جو شخص نادانی میں یا جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے مگر اس پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اس پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہے اوراس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے ایسے شخص کی توبہ سچی توبہ ہے اور اسے قبول کرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔

life
06-11-2011, 02:15 AM
۴۶۔۔۔یعنی جو لوگ عمر بھر گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں اور اس سے باز نہیں آتے مگر جب موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ سے معافی مانگنے لگتا ہے ایسے لوگو ں کی توبہ سچی توبہ نہیں ہے کیونکہ جب امتحان کی گھڑی ختم ہو گئی اور نتائج کے ظہور کا وقت آ گیا اس وقت توبہ کرنے کے کوئی معنی نہیں ۔اس لئے ایسے لوگو ں کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں ‘ لیکن جب موت آجاتی ہے اور آدمی حقائق کوبے نقاب ہوتا دیکھنے لگتا ہے اس وقت اللہ سے معافی کا خواستگار ہو تا ہے کیونکہ وہ وقت آزمائش کا نہیں بلکہ نتائج کے رونما ہونے کا ہوتا ہے لہٰذا اگر معاملہ گنا ہ کا ہوتو آدمی کو چاہئے کہ جلد اس سے باز آجائے اور اگر ابتک اس کی روش کفر وانکار کی رہی ہے تو بلا تاخیر اپنا رویہ بدل دے اور ایمان لے آئے ۔معلوم نہیں کس کی موت کا وقت کب آجائے اور توبہ کی مہلت ختم ہو جائے ۔

life
06-11-2011, 02:15 AM
۴۷۔۔۔عرب جاہلیت میں یہ قبیح رواج چلا آرہا تھا کہ مرنے والے کی بیویاں بھی میراث میں شامل سمجھی جاتیں ۔چنانچہ باپ کے مرنے پر بیٹا اپنی سوتیلی ماں کا وارث بن جاتا تھا اور اس سے زن وشوئی کے تعلقات قائم کرلیتا تھا ۔قرآن نے اس کو حرام قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ عورت متروکہ جائیداد نہیں ہے کہ اس پر میت کے ورثاء قبضہ کرلیں بلکہ وہ عد ت گزارنے کے بعد آزاد ہے ۔شرعی حدود میں رہ کر جس سے چا ہے نکاح کرسکتی ہے ۔یہ بھی ایک انقلابی نوعیت کی اصلاح تھی جو اسلام نے عورتوں کے سلسلہ میں کی ۔

۴۸۔۔۔یعنی بد چلنی کی مرتکب ہو نے کی صور ت میں انہیں ایذا دینے کا حق تمہیں پہنچتا ہے ۔

life
06-11-2011, 02:15 AM
ہو نے کی صور ت میں انہیں ایذا دینے کا حق تمہیں پہنچتا ہے ۔

۴۹۔۔۔یعنی محض اس لئے کہ بیوی خوبصور ت نہیں ہے یا اس میں کوئی اور نقص ہے اسے تنگ کرنا جائز نہیں اور نہ اسے چھوڑدینا کوئی مناسب بات ہے ۔اگر وہ پاکدامن ہے تو اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنا چاہئیے ۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں دوسری خوبیاں موجود ہوں جو ازدواجی زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہوں اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کے حسن سیرت کی بناء پر اس رشتہ کو باعث خیر بنادے لہٰذا رشتہ منقطع کرنے کے معاملے میں جلدبازی نہیں کرنا چاہئیے ۔

۵۰۔۔۔بیوی کو جو مہر دیا گیا ہو نیز زوجیت کے تعلقات کی بناء پر اسے ہدیتہ جو کچھ دیا گیا ہو طلاق کی صورت میں شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں سے کسی چیز کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے ۔

life
06-11-2011, 02:15 AM
۵۱۔۔۔عقد نکاح کو پختہ عہد ( میثاقِ غلیظ ) سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اس کے ساتھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں ۔یہ کوئی معمولی رشتہ نہیں بلکہ نہایت محکم رشتہ اور مضبوط پیمان وفا ہے لہٰذا اگر مرد اپنی خواہش سے اس عہد کو ختم کر دینا چاہتا ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس لے لے خواہ وہ مہر ہو یا دوسرے تحائف ۔

۵۲۔۔۔باپ کے انتقال پر اپنی سوتیلی ماں سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کا جو رواج زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اس کو قرآن نے قطعاً ممنوع اور حرام قراردیا ۔

۵۳۔۔۔یعنی قانوناً پچھلے رشتوں کی تحقیق نہیں کی جائے گی ۔

life
06-11-2011, 02:16 AM
۵۴۔۔۔اس آیت میں قریب ترین رشتہ داروں سے نکاح کو حرام قراردیا گیا ہے یہ حرمت انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہے کہ رشتہ داری کے یہ تعلقات محبت وشفقت کے اعلیٰ جذبات پر قائم ہونے چاہئیں ۔اس میں شہوانی جذبات کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئیے ورنہ اس سے انسانی سوسائٹی میں فساد عظیم برپا ہو گا ۔

۵۵۔۔۔ماں خواہ سگی ہو یا سوتیلی حرام ہی ہے اسی طرح باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی ۔

۵۶۔۔۔بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں ۔

۵۷۔۔۔بہن خواہ سگی ہو یا باپ شریک یا ماں شریک سب یکساں طورسے حرام ہیں

life
06-11-2011, 02:16 AM
۵۸۔۔۔بچہ کی پرورش جس عورت کے دودھ سے ہوئی ہے وہ اس کے بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس رشتہ کا احترام ملحوظ رکھا ۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے : ’یحرم من الرضا عۃ مایحرم من النسب جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں ‘(تفسیر ابن کثیر ص ۴۶۹ بحوالہ مسلم)

۵۹۔۔۔بیوی کی وہ لڑکی جو اس کے پہلے شوہر سے ہواس کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ وہ مدخولہ بیوی سے ہو لیکن اگر وہ ایسی بیوی سے ہے جس سے محض نکاح ہوا تھا اور مباشر ت سے پہلے اسے طلاق دی تھی تو اس کی لڑکی سے نکاح جائز ہے ۔رہا آغوش میں پلا ہوا ہونا تو یہ شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ رشتہ کی نزاکت کا احساس دلانے کے لئے ہے اگرسوتیلی لڑکی مدخولہ بیوی سے ہے تو وہ آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے اس کی گود میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو ۔

life
06-11-2011, 02:16 AM
۶۰۔۔۔اس قید نے متبنی ( منہ بولے بیٹے ) کی بیوی سے نکاح کو حرمت کے حکم سے خارج کر دیا ہے نکاح حرام صرف اس بیٹے کی بیوی سے ہے جو آدمی کے اپنے نطفہ سے ہو ۔

۶۱۔۔۔دوبہنوں کو جمع کرنے کی صور ت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ باہم رقابت میں مبتلا ہو جائیں گی اور اس سے رحمی رشتہ متاثر ہو گا اس لئے اس کوبھی حرام قرار دیا گیا ہے یہی مفسدہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے میں ہے اس لئے حدیث میں نبی ﷺ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ہے ۔

۶۲۔۔۔یعنی اس حکم کے نزول سے پہلے جو ہو چکا سو ہوچکا اب اس سے باز آجاؤ تو جو غلطیاں تم کرتے رہے ہو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا ۔

life
06-11-2011, 02:16 AM
۶۳۔۔۔جو عورت کسی دوسرے کے نکاح میں ہو وہ حرام ہے کیونکہ عورت بیک وقت ایک مر د ہی کے نکا ح میں ہوسکتی ہے دو مردوں کے نکا ح میں نہیں ہوسکتی ۔چند شوہری Polyandryانسانی فطر ت کے خلاف ہے اس لئے وحی الٰہی اسے ہمیشہ حرام قرار دیتی رہی ہے اس کا رواج اگر کہیں رہا ہے تو وحشیانہ قبائل میں یا پھر موجودہ ملحدانہ تہذیب اس کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔

۶۴۔۔۔یعنی جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آگئی ہوں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجو دہوں وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کا سابقہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔غلاموں اور باندیوں سے متعلق اسلام کے احکام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے جن میں یہ احکام دئے گئے تھے ۔ اس زمانہ میں اسیرانِ جنگ کو غلام اور باندی بنانے کا رواج بین الاقوامی سطح پر رائج تھا جیل کا رواج بہت کم تھا اور اسیران جنگ War prisoners کے لئے بڑے پیمانے پر قید وبند اور خوردونوش کاک انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس لئے ان کو غلام بنا کر افراد کی تحویل میں دیا جاتا تھا ان حالات میں اسلام نے جو غلام بنانے کی نہیں بلکہ غلاموں کو رہا کر نے کی ترغیب دے رہا تھا اور اسے انسانیت کی بہت بڑی خدمت اور بہت بڑی نیکی قرار دے رہا تھا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اسیران جنگ کی حد تک گوارا کرلیا اگر چہ کہ عام ہدایت یہی تھی کہ جنگی قیدیوں کو یاتو احسان کے طورپر چھوڑدیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کیا جائے جیسا کہ سورہ محمد آیت ۴۔۔۔سے واضح ہے ۔نبی

life
06-11-2011, 02:16 AM
الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اسیران جنگ کی حد تک گوارا کرلیا اگر چہ کہ عام ہدایت یہی تھی کہ جنگی قیدیوں کو یاتو احسان کے طورپر چھوڑدیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کیا جائے جیسا کہ سورہ محمد آیت ۴۔۔۔سے واضح ہے ۔نبی ﷺ کے زمانہ میں جو جنگیں لڑی گئیں ان میں اسیران جنگ کے ساتھ بالعموم یہی معاملہ کیا جاتا رہا تاہم چونکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا جسے فوری طورسے بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا تھا اس لئے اسلام نے غلاموں اورلونڈیوں کے حقوق متعین کئے اور ان کے سلسلہ میں ضروری احکا م دئیے اس سلسلہ کا ایک حکم یہاں بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں اور ان کو حکومت نے باقاعدہ طور پر مسلمان افراد کے قبضہ میں دیا ہو ان کے سابقہ نکاح جو کافرشوہر وں کے ساتھ ہو چکے ہوں باقی نہیں رہیں گے

life
06-11-2011, 02:17 AM
سلامی سوسائٹی میں نہایت اونچا مقام حاصل کرلیا ۔

۶۵۔۔۔یعنی عائلی زندگی سے متعلق یہ احکام قانون الٰہی Divine Law کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی لازماً پابندی کی جانی چاہئیے ۔اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں قرآن کے عائلی قانون ہی کا نفاذ ہونا چاہئیے اس کے علاوہ کسی بھی عائلی قانون Family Law کے قابل قبول ہونے کا سوال مسلمانوں کے لئے پیدا ہی نہیں ہوتا ۔

۶۶۔۔۔متن میں لفظ ’احصان ‘ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنی رفیقۂحیات بنا نے کے عز م کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے لے اور عورت بھی اسی ارادہ کے ساتھ قید نکاح میں داخل ہو ۔کسی عورت سے وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔اس لئے مذکو رہ شرط لگا کر قرآن نے متعہ کے اس مکروہ رواج کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا ۔

life
06-11-2011, 02:17 AM
ور جس شخص کے قبضہ میں ایسی عورت دی گئی ہو اس پر جہاں اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں اسے اس کے ساتھ تمتع کا حق بھی حاصل ہو گا نیز اسے یہ حق بھی ہو گا کہ وہ خود تمتع کرنے کے بجائے کسی ضرورت مند مسلمان کی زوجیت میں اسے دیدے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو گئی ہو لیکن جیسا کہ بعد والی آیت کے احکا م سے ظاہر ہے کسی کو بھی اس بات کی ہرگز اجازت نہ ہو گی کہ وہ لونڈیوں کو قحبہ گری یا شہوت رانی کا ذریعہ بنائے ۔یہاں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں جو پالیسی اختیارکی اس کے نتیجہ میں کتنے ہی لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور کتنوں ہی نے

life
06-11-2011, 02:17 AM
اسلامی سوسائٹی میں نہایت اونچا مقام حاصل کرلیا ۔

۶۵۔۔۔یعنی عائلی زندگی سے متعلق یہ احکام قانون الٰہی Divine Law کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی لازماً پابندی کی جانی چاہئیے ۔اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں قرآن کے عائلی قانون ہی کا نفاذ ہونا چاہئیے اس کے علاوہ کسی بھی عائلی قانون Family Law کے قابل قبول ہونے کا سوال مسلمانوں کے لئے پیدا ہی نہیں ہوتا ۔

۶۶۔۔۔متن میں لفظ ’احصان ‘ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنی رفیقۂحیات بنا نے کے عز م کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے لے اور عورت بھی اسی ارادہ کے ساتھ قید نکاح میں داخل ہو ۔کسی عورت سے وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔اس لئے مذکو رہ شرط لگا کر قرآن نے متعہ کے اس مکروہ رواج کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا ۔

life
06-11-2011, 02:17 AM
۶۷۔۔۔یعنی میاں بیوی آپس کی رضامندی سے مقر رہ مہر میں کمی بیشی کرسکتے ہیں ۔اس ہدایت میں موجودہ غلو آمیز مہر کے مسئلہ کا حل موجود ہے ۔بعض برادریوں میں بڑی مہر باندھنا ایک رسم کے طورپر چلا آرہا ہے جس کامنشا ء محض ’باندھنا ‘ ہوتا ہے تاکہ خاندان کی ناک اونچی رہے ورنہ شوہر کی مالی حیثیت بالعموم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ چالیس تولہ سونا جیسی بھاری مقدار میں مہر ادا کرے اس لئے بالعموم اس کی ادائیگی کی نوبت ہی نہیں آتی ۔جبکہ مہر کا اصل منشاء ادا کرنا ہے نہ کہ محض ’باندھنا ‘ اس لئے جن کے ایسے رسمی مہر مقر ر کئے جاچکے ہیں اور ان کی ادائیگی ان کے شوہر وں کے بس کی بات نہ ہو وہ اپنی بیویوں کو اس پر نظر ثانی کے لئے آمادہ کرسکتے ہیں اور باہمی رضامندی سے اس میں ترمیم ہوسکتی ہے ۔

۶۸۔۔۔یعنی عزت وشرف کی اصل بنیاد ایمان ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کی بنا پر آزاد عورت سے بہتر ہو ۔

۶۹۔۔۔یعنی نسل کے اعتبار سے سب ایک آدم وحوا کی اولاد ہیں خواہ آزاد ہوں خواہ غلام اس لئے لونڈی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

life
06-11-2011, 02:17 AM
۷۰۔۔۔لونڈی سے نکاح کی صورت میں مہر لونڈی کو اداکرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ان کے مالکوں کو ۔بالفاظ دیگر مہر عورت کا حق ہے خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی ۔اس سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلان نے لونڈیوں کو حق ملکیت عطا کرکے سوسائٹی میں ان کا مقام کتنا بلند کیا ۔

۷۱۔۔۔یعنی قید نکاح میں آجانے کے بعد اگر کوئی لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو آزاد عور ت کے لئے جو سزا مقر ر کی گئی ہے یعنی سو کوڑے ( سورہ نور آیت ۲۔۔۔) اس کی نصف سزالونڈی کو بھی دی جائے گی ۔سزامیں یہ رعایت اس لئے رکھی گئی ہے کہ لونڈیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورتوں کو حاصل تھا

life
06-11-2011, 02:17 AM
۷۲۔۔۔لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو یہ اندیشہ محسوس کرتے ہوں کہ اگر انہو ں نے نکاح نہیں کیا تو وہ معصیت میں مبتلا ہو جائیں گے جو لوگ یہ اندیشہ محسوس نہ کرتے ہوں ان کے لئے صبر ہی بہتر ہے ۔دوسرے مالکو ں کی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی صورت میں مالک کے حقوق اور شوہر کے حقوق کو نبا ہنا مشکل تھا اس لئے اس قسم کے نکا ح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔

۷۳۔۔۔مراد انبیاء علیہم السلام اور صالحین کے طریقے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ قرآن عائلی زندگی کے لئے اس طریقہ کی رہنمائی کر تا ہے جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں اورنیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ خد اسے سرکشی کرنے والے لوگ باپ دادا کی پیروی کے نام پر فاسدکلچر یا جدید تہذیب کے نا م پر گمراہ کن نظریہ یا جدید سول کوڈ Modern Civil Code کے نام پر باطل قوانین کی طرف تمہیں بھٹکا کر لیجانا چاہتے ہیں ۔

۷۴۔۔۔یعنی انسان فطرۃ ً غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا خود ساختہ شریعتوں اور من گھڑت رسموں کے بوجھ اتار پھینکنا ضروری ہے ۔ اسلامی شریعت تکلفات سے پاک اور سادہ شریعت ہے جس میں انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جس کا انسان فطری طورپر متحمل ہو سکتا ہے ۔

۷۵۔۔۔باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جن میں اخلاقی قباحت پائی جاتی ہو یا جنہیں شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو ۔

life
06-11-2011, 02:18 AM
۷۴۔۔۔یعنی انسان فطرۃ ً غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا خود ساختہ شریعتوں اور من گھڑت رسموں کے بوجھ اتار پھینکنا ضروری ہے ۔ اسلامی شریعت تکلفات سے پاک اور سادہ شریعت ہے جس میں انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جس کا انسان فطری طورپر متحمل ہو سکتا ہے ۔

۷۵۔۔۔باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جن میں اخلاقی قباحت پائی جاتی ہو یا جنہیں شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو ۔

۷۶۔۔۔یعنی لین دین حقیقی باہمی رضامندی سے ہونا چاہئیے جس لین دین میں دھوکا اور فریب جیسی چیزیں شامل ہوں وہ جائز نہیں ۔رشوت ستانی بھی باطل کی تعریف میں آتی ہے اس لئے کہ اس میں اخلاقی قباحت کا پایا جانا ایک حقیقت ہے اور اس میں دوسروں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے

life
06-11-2011, 02:18 AM
۷۷۔۔۔حصول مال کے لئے آدمی جب ناروا طریقے اختیار کرتا ہے تو اس غرض کے لئے قتل وخون سے بھی کام لینے لگتا ہے گویا قتل وخون کا نتیجہ ہے حصول مال کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے کا ۔

۷۸۔۔۔اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسی باتوں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی ہلا کت ہے ۔

۷۹۔۔۔بڑے گناہو ں ( کبائر ) سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی ممانعت میں نص صریح وارد ہوئی ہے اور جن کے ارتکاب پر سخت وعیدسنائی گئی ہے ۔حدیث میں نبی ﷺ نے شرک ،قتل نفس،والدین کی نافرمانی ، شہادت زور،سود خوری ، یتیم کا مال ہڑپ کرجانا ، جہا د میں مقابلہ کے وقت بھاگ جانا اور اسی قسم کی دوسری باتوں کے گناہ کبیرہ ہو نے اوران میں سے بعض کے اکبر الکبائر ہو نے کی صراحت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کبائر ان چند گناہوں تک محدو د ہیں بلکہ کبائر کی یہ چندمثالیں ہیں چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کبیرہ گنا ہ سات ہیں تو انہوں نے فرمایا سات کے مقابلہ میں سات سو ہو نا اقرب ہے ۔(تفسیر ابن کثیر ، ج ۱، ص ۴۸۶)

life
06-11-2011, 02:18 AM
۸۰۔۔۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں خلقی لحاظ سے فرق رکھا ہے دونوں میں طبعی طور پر مکمل یکسانیت نہیں ہے اور اس بنا پر ان کے حقوق وفرائض میں بھی شریعت نے فرق کیا ہے لہٰذا مردوں کا عورت بننے کی تمنا کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی خواہش کرنا اور اس تمنا اور خواہش کے زیراثر ایک دوسرے سے مشابہت پیداکرنے کی کوشش نظام فطرت میں خلل پیدا کرنے کی کوشش ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بالکل بے سود ہے اسی طرح شریعت کے مقر ر کردہ حقوق وفرائض سے انحرا ف کرکے مکمل مساوات کے نظریہ پر دونوں کے حقوق و فرائض کرنا شریعت اور فطرت دونوں سے ٹکر لینے کے ہم معنی ہیں اس لئے اس ذہنیت سے بچنے اور اللہ سے اس کا فضل طلب کرنے کی ہدایت اس آیت میں کی گئی ہے ۔

life
06-11-2011, 02:18 AM
۸۱۔۔۔اشارہ تقسیم وراثت کے اس قانون کی طرف ہے جو آیت ۷۔۔۔میں بیان ہوا یہ آیت اس بات کو مزید مؤکد کر رہی ہے کہ اصل وارث وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقر ر کئے ہیں ان میں اپنی خواہشات کی بنا پر کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئیے ۔

۸۲۔۔۔یعنی وارث تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقر ر کئے ہیں رہے وہ لوگ جن کو تم نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے تو ان کو اتنا دو جو جائز وصیت کے دائرہ میں آتا ہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لو گ ایک دوسرے کی میراث کے حق دار بننے کا عہد وپیمان کرتے تھے اسلام نے اس طریقہ کو ختم کرکے اقرباء کو اصل وارث قرار دیا اور میراث میں صرف ایک تہائی کی حد تک وصیت کے لئے گنجائش رکھی ۔

۸۳۔۔۔اشارہ ہے ا س بات کی طرف کہ اگر وراثت کے اس قانون سے تم نے انحراف کیا تو یہ بات اللہ سے پوشیدہ نہیں رہے گی ۔

life
06-11-2011, 02:18 AM
۸۴۔۔۔مرد کو اللہ تعالیٰ نے سربراہی کا مقام عطا کیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ بیان فرمائی ہے کہ مردکو ، عورت پر اس کی فطرت اور قدرتی ساخت Nature and۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے لحاظ سے نمایاں ، فوقیت بخشی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اس ذمہ داری کے اٹھانے کا اہل ہے چنانچہ مرد حفاظت و نگرانی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور معاشی دوڑ دھوپ کی بھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے ۔مغربی تہذیب جس نے مساوات مردو زن کے غلو آمیز نظریہ کو پیش کیا ، خاندان کے لئے سربراہ کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی زندگی ، نظم Discipline سے محروم ہو گئی ۔جبکہ قوت ، فعالیت اور حوصلہ کے لحاظ سے مرد کی عورتوں پر فوقیت ایک ناقابل انکا رحقیقت ہے:

Connected result of male superiority i.e strength, activity and courage is the element of protectionin male love , and of trust on the side of the female (ERE VIII P.156)

(مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ

life
06-11-2011, 02:19 AM
۸۵۔۔۔حدیث میں آتا ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :خیر النساء امراۃ اذانظرت الیھا سر تک واذا امرتھا اطاعتک واذا غبت عنھا حفظتک فی نفسھا ومالک بہترین عورت وہ ہے جسم تم دیکھو تو وہ تمہیں خوش کرے ،جب اسے حکم دو تو وہ اطاعت کرے اور تمہاری غیر موجودگی میں اپنے نفس اور تمہارے مال کی حفاظت کرے (تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر )

آیت سے اس وصف کا منفی پہلو بھی واضح ہوتا ہے یعنی اطاعت شعاری کے بر خلاف جو عورتیں مردو ں کی نافرمانی کرنے والی ہوں اور عور ت کے بجائے مرد بن کر رہنا چاہتی ہو ں وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں ۔

۸۶۔۔۔یعنی نیک عورت مرد کے رازوں کی امین ، اس کے گھر ، اس کے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے ۔

life
06-11-2011, 02:20 AM
۸۷۔۔۔یہ تادیبی اختیارات ہیں جو مرد کو دئیے گئے ہیں اور یہ اسی صورت میں استعمال کر نے کے لئے ہیں جبکہ عورت سرتابی کرنے لگے ،عورت کی طرف سے ہر قسم کی کوتاہی اور غلطی پر سخت قدم اٹھانا صحیح نہیں ہے زدو کوب کے سلسلہ میں حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس طرح نہیں مارنا چاہئے کہ عورت کو تکلیف پہنچے یا اس کے جسم پر نشان پڑجائے ۔عورت کو اخلاقی حدود میں رکھنے اور گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے مرد کو ان اختیار ات کا دیا جانا ضروری تھا لیکن اس کایہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ مرد ان اختیارات کو من مانے طریقے پر Arbitrarilyاستعمال کرے ۔آیت کے آخر میں اللہ کی یہ صفت کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے کا حوالہ مرد کو یہ احسا س دلانے کے لئے ہے کہ وہ اپنی قوامیت کے زعم میں عورت پر زیادتی نہ کرے بلکہ یاد رکھے کہ ایک بلند و بالا ہستی اس کے اوپر موجو د ہے

life
06-11-2011, 02:20 AM
۸۸۔۔۔زوجین کے درمیان نزاع کی صورت میں یہاں ایک آخری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ تدبیر یہ ہے کہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں میں سے ایک ایک حکم مقر ر کیا جائے اور یہ دونوں ملکر صلح صفائی کی کوشش کریں ۔عدالت کے مقابلہ میں یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ عدالت میں لے جانے کی صور ت میں میاں بیوی کے مسائل منظر عام پر آجاتے ہیں جو کوئی مناسب بات نہیں ہے نیز اس سے مصالحت کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔رہا حکم (پنچ ) کے اختیارات کا مسئلہ تو حکم کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونو ں کو ملکر فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا یہ فیصلہ زوجین کو ملانے کا بھی ہوسکتا ہے اور ان کو جداکر نے کا بھی اور جمہو ر علما اسی کے قائل ہیں ۔(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج۱،ص ۴۹۳)

life
06-11-2011, 02:20 AM
۸۹۔۔۔معاشرتی احکام کے خاتمہ پر اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی ہدایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمام شرعی احکا م کی اصل توحید ہے اور آدمی اسلام کے معاشرتی احکام پر صحیح طور پر اسی صورت میں عمل پیر ا ہوسکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی عبادت ٹھیک طور سے کر رہا ہو کیونکہ اللہ کی عبادت بشرطیکہ وہ شعور کے ساتھ ہو انسان کی خواہشات کے پیچھے چلنے اور جذبات کی رو میں بہنے سے روکتی ہے ۔

۹۰۔۔۔خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لئے کہ وہی پرورش کا ذریعہ بنے ان کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلو ک کیا جائے ۔

۹۱۔۔۔پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی حدیث میں بھی بڑی تاکید آئی ہے نبی ﷺ نے فرمایا : مازال جبریل یو صینی بالجار حتی ظننت انہ‘ سیورثہجبرئیل مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی برابر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیا ل ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دیں گے ۔

۹۲۔۔۔مراد دوست ہے اور ایسا شخص بھی جس کا وقتی طور سے ساتھ ہو جائے مثلا ًرفیق سفر ، شریک تجارت ، ہم سبق ، کسی مجلس میں ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے وغیرہ ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہئیے کہ انہیں کوئی اذیت اور تکلیف نہ پہنچے اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کیا جائے ۔

life
06-11-2011, 02:20 AM
۹۳۔۔۔حدیث میں نبی ﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ غلاموں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے : ۔

ھم اخوانکم خولکم جعلھم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفو ھم ممّا یغلبھم فان کلفتمو ھم فاعینو ھم یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہئیے کہ جو کھانا وہ کھاتا ہے وہ اسے بھی کھلائے اور جو کپڑا وہ پہنتا ہے وہ اسے بھی پہنائے اور دیکھو ان پر اتنا بار نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے باہر ہو اور اگر کوئی بھاری بوجھ ڈالو تو ان کی مدد کرو(تفسیر ابن کثیر ، ج ۱، ص ۴۹۵) ( بحوالہ بخاری ومسلم)

۹۴۔۔۔اترانا اور فخر کرنا حسن سلو ک کے منافی ہے جو لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر گھمنڈ اور فخر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ذہنیت انہیں لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلو ک کرنے سے باز رکھتی ہے ۔

life
06-11-2011, 02:20 AM
۹۵۔۔۔ہرنیک عمل کی جز ااس کی جنس سے دوگنا ملے گی علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے بھی جزا عطا ء فرمائے گا جس کی کوئی تحدید نہیں ۔

۹۶۔۔۔حدیث میں آتا ہے کہ جب حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کو قرآن سناتے ہوئے اس آیت پر پہنچے تو نبی ﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ آیت جہاں آپ کے لئے شرف کا باعث ہے وہاں وہ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر پیغمبر کو یہ گواہی دینا ہو گی کہ اس نے اللہ کا دین بے کم وکاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اور حضر ت محمد ﷺ کو بھی یہ گواہی دینا ہو گی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ آپ کی بعثت دنیا کے تمام اقوام کے لئے ہے اور آپ آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی رسالت کا دور قیامت تک کے لئے ہے ۔

life
06-11-2011, 02:21 AM
۹۶۔۔۔حدیث میں آتا ہے کہ جب حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کو قرآن سناتے ہوئے اس آیت پر پہنچے تو نبی ﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ آیت جہاں آپ کے لئے شرف کا باعث ہے وہاں وہ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر پیغمبر کو یہ گواہی دینا ہو گی کہ اس نے اللہ کا دین بے کم وکاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اور حضر ت محمد ﷺ کو بھی یہ گواہی دینا ہو گی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ آپ کی بعثت دنیا کے تمام اقوام کے لئے ہے اور آپ آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی رسالت کا دور قیامت تک کے لئے ہے ۔

۹۷۔۔۔متن میں لفظ سکاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نشہ کی حالت میں اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ وہ شراب ہو یا کوئی ٹھوس چیز ۔شراب کی حرمت کا حکم سورہ بقرہ آیت ۲۱۹۔۔۔میں گزر چکا ہے یہاں نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے ۔(مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۱۶۔۔۔)

۹۸۔۔۔معلوم ہوا نماز کے لئے ہوش اور بیداری ضروری ہے ۔

life
06-11-2011, 02:21 AM
۹۹۔۔۔جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو قضائے شہوت یا احتلام کی صورت میں لاحق ہوتی ہے اس حالت میں نماز پڑھنا منع ہے اور اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کیا جائے اور غسل کا نہایت سادہ طریقہ اسلام نے تجویز کیا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے جسم پر پانی بہادے جس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے ۔

۱۰۰۔۔۔یعنی سفرکی حالت میں غسل سے استثناء ہو سکتا ہے جیساکہ اسی آیت میں آگے بیان کر دیا گیا ہے یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جنابت کی حالت میں شرعی عذر کی بناء پر جس کی مثال سفر میں پانی کانہ ملنا ہے غسل کئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہو بشرطیکہ تیمم کرلو جیسا کہ اسی آیت میں آگے حکم دیا گیا ہے ۔

۱۰۱۔۔۔متن میں لفظ لَا مَسْتُمْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں عربی زبان میں یہ جماع کے لئے کنا یہ ہے(لسان العرب ) اور حضر ت ابن عباس سے یہی تفسیر مروی ہے ۔

life
06-11-2011, 02:21 AM
۱۰۲۔۔۔اسے شرعی اصطلاح میں تیمم کہتے ہیں جو وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے ۔تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اسے چہر ہ اور دونوں ہاتھو ں پر پھیر لیا جائے اس سے اصل طریقہ طہار ت کی یا دبھی ذہن میں قائم رہتی ہے اور طہار ت کا احساس بھی برقرار رہتا ہے ۔

مرض میں چونکہ وضو یا غسل سے ضر ر کااندیشہ ہوتا ہے اس لئے یہ رعایت ہوئی کہ تیمم کیا جائے اسی طرح سفر میں ایسی حالت پیش ہوسکتی ہے کہ پانی نہ ملے تیمم کی رعایت اس صورت کے لئے بھی ہے ۔ان دونوں صورتوں پر ، دوسری صورتوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے مثلا ً سخت سردی میں جب کہ جنابت لاحق ہو اور غسل کرنے سے ضر ر کا اندیشہ ہو یا کسی موقع پر پانی تو موجود ہو لیکن کمیابی کے باعث اسے پینے کیلئے محفوظ رکھنا پڑے یا ریل اور ہوائی جہاز کا سفر جس میں غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔نجاست کی یہاں دو حالتیں بیان کی گئی ہیں ایک رفع حاجت اور دوسرے قضائے شہوت ، اس حکم میں دوسری چھوٹی موٹی نجاستیں بھی داخل ہیں اور ہر قسم کی نجاست کے لئے پانی نہ ملنے کی صور ت میں تیمم کیا جاسکتا ہے

life
06-11-2011, 02:22 AM
۱۰۳۔۔۔یعنی اس کی یہ صفات ا س بات کی متقاضی ہوئیں کہ تمہار ے لئے شرعی احکام میں نرمی کی جائے اور تمہیں تیمم کی رعایت دی جائے ۔

۱۰۴۔۔۔اوپر جو شرعی احکام دئیے گئے ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کو جن لوگوں کی طرف سے مخالفت کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا ان کا ذکر ان آیات میں ہورہا ہے ۔

۱۰۵۔۔۔پچھلے آسمانی صحیفوں اور قرآن کریم کے درمیان نسبت جزء اور کل کی ہے اس لئے اہل کتاب کو جو کتا ب دی گئی تھی اس کی حیثیت کتاب الٰہی کے ایک جز ء کی تھی جب کہ حضرت محمد ﷺ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ ہر لحاظَ سے ایک مکمل کتاب ہے ۔

۱۰۶۔۔۔یہود نبی ﷺ کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہتے تھے اسے یہاں دین پر طعنہ زنی سے تعبیر کیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ہر وہ طنز و تشنیع جو پیغمبر ﷺ پر کی جائے براہ راست دین پر حملہ ہے ۔

۱۰۷۔۔۔ملا حظہ ہو سورۂبقرہ نوٹ ۱۲۲۔۔۔

life
06-11-2011, 02:22 AM
۱۰۸۔۔۔معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت وہی لوگ کرتے ہیں جو کافر اور سرکش ہیں اور ان کے کفر اور سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑی ہے ۔

۱۰۹۔۔۔چہر ہ جسم کااشرف حصہ اور اللہ کی نعمت کا خصوصی مظہر ہے اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق اور محسن کا قدر شناس اور سپاس گزار ہو لیکن جو لو گ کفر کی روش اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی حق کو دیکھنے کے لئے اندھے ہو جاتے ہیں اور منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی حق بولنے کے لئے گونگے ہو جاتے ہیں اور اپنی بینائی ،گویائی اور سماعت کا غلط اور الٹا استعمال کرتے ہیں اس لئے بجا طورپر اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان کے چہرے مسخ کرکے پیچھے پھیر دئیے جائیں چنانچہ قیامت کے دن انہیں دردناک سز ا سے دوچار ہونا ہو گا ۔انسان اگر ہوش سے کام لے تو یہ سخت وعید اس کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے حضرت کعب احبار ( مشہور یہودی ) اس آیت کو سن کر ایمان لائے تھے ۔

۱۱۰۔۔۔اصحاب سبت کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۶۵۔۔۔میں گزر چکا

life
06-11-2011, 02:22 AM
۱۱۱۔۔۔شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے خواہ وہ سورج ہو یا تارے ، ناگ ہو یا آگ ، بت ہو یا آسمان ، فرشتے ہو ں یا جن ،ولی ہوں یا پیغمبر ، مادی چیزیں ہوں یا روحانی اور مزعومہ دیوی ہو یا دیوتا ۔

اللہ کی ذات میں شرک کی ایک مثال تو وہ ہے جو نصرانیت میں پائی جاتی ہے وہ ایک کی جگہ تین خداؤں کے قائل ہو گئے ۔باپ ،بیٹا اور روح القدس اور دوسری مثال ہندوستان کے ایک بہت بڑے مذہبی گروہ کے عقیدے کی ہے جو خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتا بلکہ ایک ہی وجو دکا قائل ہے ۔یعنی اس کے نزدیک سب کچھ خدا ہے اور انسان بھی خداہی کا جز ء ہے اس نظریہ کو ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کہتے ہیں ۔اللہ کی صفات میں شرک کی مثال یہ عقیدہ ہے کہ خدائی انتظامات میں اور اس کے اقتدار (Sovereignty) میں دوسرے بھی دخیل اور شریک ہیں مثلاً کوئی بارش کا دیوتا ہے اور کوئی ہوا کا یا کوئی بیماری کی دیوی ہے اور کوئی دولت کی ۔اسی طرح اولیاء اور بزرگو ں کے بارے میں یہ تصور کہ وہ غوث اور مشکل کشا ہیں اور انسان کی حاجت روائی کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی اس صفت میں کہ وہی رب اور حاجت روا ہے دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک مہتمم بالشان صفت یہ ہے کہ وہی پرستش کے لائق ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں ۔اس میں شرک یہ ہے کہ آدمی غیر اللہ کو بھی عبادت کے لائق سمجھنے لگے یا کسی دیوی ، دیوتا ، بت اور سورج وغیرہ کی پوجا کرنے لگے یا اولیاء وانبیاء کی پرستش شروع کر دے ۔یہ سب شرک کی صورتیں ہیں ان کے علاوہ یہ بھی کھلا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مطلق طور پر اطاعت کا مستحق سمجھا جائے

life
06-11-2011, 02:22 AM
۔یہ سب شرک کی صورتیں ہیں ان کے علاوہ یہ بھی کھلا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مطلق طور پر اطاعت کا مستحق سمجھا جائے یا کسی کے لئے شرعی قوانین میں ترمیم کا حق تسلیم کیا جائے یا جمہو ر کے اس دعوے کو صحیح قرار دیا جائے کہ اللہ کے احکام و قوانین سے قطع نظر انہیں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے ۔شرک چونکہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور یہ سراسر اس کے خلاف سرکشی اور بغاوت ہے اس لئے اس کو سب سے بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے ۔یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ شرک کے حکم میں کفراور الحاد بھی شامل ہے کیونکہ اس کے معنی اللہ سے سرکشی اور بغاوت ہی کے ہیں اور اللہ کا انکار کرکے آدمی اپنے کو نیز دوسرے انسانوں کو خدائی کے مقام پر بٹھاتا ہے ظاہر ہے

life
06-11-2011, 02:23 AM
ہ اس طرح وہ لازماً شرک کا مرتکب ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ شرک مذہبی روپ میں آتا ہے اور الحاد لا دینیت کے روپ میں ۔آیت کے پس منظر میں چونکہ یہود ہیں جو خدا کے قائل ہو تے ہوئے شرک کا ارتکاب کرتے تھے اس لئے یہاں واضح کیا گیا کہ شرک ایک ناقابل معافی گنا ہ ہے ۔

۱۱۲۔۔۔یعنی شرک سے کمتر درجہ کے جو گنا ہ ہوں گے ان کے معافی کا امکان ہے لیکن شرک پر اگر آدمی قائم رہا اور اس نے توبہ نہیں کی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہو گئی تو اس گنا ہ کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا ۔

۱۱۳۔۔۔یعنی شرک اور بت پرستی کو معمولی گنا ہ خیال نہ کرو واقعۃً ً یہ زبردست گنا ہ ہے اور قیامت کے دن مشرکو ں اور بت پرستوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا یا جائے گا ۔

life
06-11-2011, 02:23 AM
۱۱۴۔۔۔یعنی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کو بڑا پاکباز ظاہر کر تے ہیں جب کہ یہ شرک کی نجاست سے آلود ہ ہیں اور گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ انہیں من گھڑت باتوں کو مذہب کے نام سے پیش کرنے اور خدا کی طرف منسوب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ۔واضح رہے کہ یہود اعتقاد و عمل کی ان تمام خرابیوں کے باوجود اس بات کے دعویدارتھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں ۔

۱۱۵۔۔۔متن میں لفظ’جبت ‘ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی بے فائدہ چیز کے ہیں یہاں اس سے مراد ہر قسم کے اوہام وخرافات اور سفلی اعمال ہیں جن کا سراشرک سے جاملتا ہے مثلا ً جادو ،ٹونے ،ٹوٹکے ،رمل جفر ،نجوم (جیوتش ) ، فالگیری ، بدشگونی وغیرہ ۔نیز اس کا اطلاق ساحر ، کاہن ،بت اور معبودان باطل پربھی ہوتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : العیافۃ والطرق و الطیرۃ من الجبت جانوروں کے ناموں ، ان کی آوازوں اور ان کے گزرنے سے شگون لینا ، کنکریاں مار کر یا خط کھینچ کر کہانت کرنا

life
06-11-2011, 02:23 AM
م پرستی اور شرک کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اہل مذہب نے اپنے اپنے مذہب میں اوہام وخرافات کو بری طرح داخل کیا ہے لیکن اسلام کا دامن ان چیزوں سے بالکل پاک ہے اس کی بنیاد حقائق پر ہے اور اس نے وہم پرستی کی جڑکاٹ دی ہے موجودہ مسلم سماج میں جو اوہام و خرافات پائے جاتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلام ان کا سخت مخالف ہے ۔

۱۱۶۔۔۔’طاغوت‘ کی تشریح سورۂبقرہ نوٹ ۴۱۸۔۔۔میں گز رچکی ۔یہاں خاص طورسے وہ مذہبی پیشوا مراد ہیں جو فاسد عقائد کی طر ف رہنمائی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ عقیدت مندی کو ’ ایمان بالطاغوت ‘ ( طاغو ت پر اعتقاد رکھنے ) سے تعبیرکیا گیا ہے ۔

۱۱۷۔۔۔یہو د کو مسلمانو ں سے ایسی کد پید ا ہو گئی تھی کہ وہ بت پرستوں کو اہل توحید کے مقابلہ میں برسر حق قرار دینے لگے تھے جبکہ ان کی مذہبی کتاب ’تورات ‘ بت پرستی کو صریح گمراہی قراردیتی ہے ۔

۱۱۸۔۔۔مراد مسلمان ہیں ۔

life
06-11-2011, 02:23 AM
۱۱۹۔۔۔یعنی اگر مدینہ میں ان کی سلطنت قائم ہوتی تو یہ اپنی تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو ہر فائدہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا اس لئے وہ مسلمانو ں کی ابھرتی ہوئی قوت دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہے ہیں ۔واضح رہے کہ اطراف مدینہ میں یہودیوں کی جو آبادیاں تھیں ان کی حیثیت آزاد قبائل کی تھی اس دائرہ سے باہر مدینہ کی عام آبادی پر ان کا تسلط نہ تھا ۔

۱۲۰۔۔۔یعنی انہیں نبی ﷺ اور آپ کے پیروؤں سے اس بنا پر حسد ہے کہ نبوت جو ان کے خاندان ( یعنی بنی اسرائیل ) میں چلی آرہی تھی وہ دوسرے خاندان (یعنی بنی اسماعیل ) میں کس طرح چلی گئی

life
06-11-2011, 02:23 AM
۱۲۱۔۔۔یہاں یہ بات بنی اسرائیل کے ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ ابراہیم کی اولاد تم بھی ہواور بنی اسماعیل بھی ہیں آج اگر ہم نے بنی اسماعیل کو کتاب وحکمت سے نوازا ہے اور انہیں اقتدار بخش رہے ہیں تو اس میں حسد کرنے کی کیا بات ہے یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چا ہے بخشے ، ویسے تمہیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ اس سے پہلے تمہیں بھی کتاب وحکمت سے نواز چکا ہے اور زبر دست سلطنت بھی عطا کرچکا ہے (مثلا ً حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی سلطنت ) لیکن تم نے اللہ کی ان نعمتو ں کی ناقدری کی اور اپنی نااہلی کا ثبوت دیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فضل کے لئے خاندان ابراہیم ؑ کی دوسری شاخ ( بنی اسمٰعیل ) کا انتخاب فرمایا ہے

۱۲۲۔۔۔ان صفات کا حوالہ دینے سے مقصود (یہ واضح کرنا ہے کہ اتنی سخت سزا دینے پر اللہ قادر ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سرکشوں کو ایسی سخت سزادی جائے ورنہ نظام کائنات حق وانصاف پر قائم نہیں رہ سکے گا ۔

life
06-11-2011, 02:24 AM
۱۲۳۔۔۔امانتو ں میں عام امانتیں بھی شامل ہیں مثلاًڈپازٹ ، واجب الاد ا قر ضے وغیرہ اور ذمہ داری کے منصب بھی خواہ ان کا تعلق قیادت سے ہو یا حکومت سے اس دوسرے مفہوم کی تائید سیاق کلام سے ہوتی ہے نیز ذمہ داری کے منصب کے لئے امانت کا لفظ حدیث میں بھی استعما ل ہوا ہے چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کب آئیگی آ پ نے فرمایا: اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الاساعۃ قال کیف اضاعتھا قال اذا وسد الا مرُ الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظا رکرو ، پوچھا امانت کا ضائع کرنا کیا ہے ؟ فرمایا ’جب معاملات (حکومت ) نااہلوں کے حوالہ کر دئے جائیں توقیامت کا انتظا رکرو‘ (بخاری ) ۔معلوم ہوا کہ قیادت و رہنمائی اور سیاست و حکومت کی ذمہ داریوں کے مناصب نااہل ، بد اخلاق ، ظالم ، بددیانت ، اور فاسق و فاجر لو گوں کے سپر د کرنا عام بگا ڑ اور زبردست تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے (اصولی بات یہی ہے رہی حالات کی مجبوری تو اس کا تعلق اجتہاد سے ہے)امانت کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں اللہ کی سپر د کردہ امانتیں ہیں جنکے بارے میں اس کے حضور جوابدہی کرنا ہو گی ۔

life
06-11-2011, 02:24 AM
۱۲۴۔۔۔اشارہ اقتدار کی ذمہ داری کی طرف ہے اور ہدایت یہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کی طرف سے اقتدار پانے کے بعد تمہاری اولین ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ لوگو ں کے درمیان عدل وانصا ف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔

۱۲۵۔۔۔اولی الامر ( اصحاب امر ) سے مراد ارباب اقتدار (Men of Authority)ہیں خواہ ان کا تعلق حکومت کے کسی بھی شعبہ سے ہو نبی ﷺ جہاد کے لئے جو فوجی دستے روانہ کرتے تھے ان پر کسی کو امیر مقر ر فرماتے تھے منکم کا لفظ صراحت کرتا ہے کہ یہاں وہ ارباب اقتدار مراد ہیں جو مسلمانوں میں سے ہوں ان کی اطاعت اس لئے مطلوب ہے تاکہ اسلام کے اجتماعی احکام کی تعمیل ہو ، اس کے قوانین کو نافذ کیا جاسکے سوسائٹی کو صالح بنانے میں مدد ملے اور ایک عادلانہ نظام کا قیام عمل میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کلمۂ حق سربلند ہو ، اصحاب امر کی اطاعت کے سلسلہ میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔

life
06-11-2011, 02:24 AM
(۱)اس آیت میں اللہ ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس حکم میں اطاعت کا لفظ دو جگہ بیان ہوا ہے ایک اللہ کے ساتھ اور دوسرے رسول کے ساتھ جبکہ اولی الامر کے ساتھ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اصل اطاعت اور وفاداری اللہ کی ہے اور اس کے بعد اس کے رسول کی ، رہی اولی الامر کی اطاعت تو وہ ان دو اطاعتوں کے تابع ہے اس سے آزاد ہر گز نہیں ۔

(۲)یہاں اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کو ان حکمرانوں پر منطبق کرنا صحیح نہیں ہے جنہو ں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا یا جن کا مشن ہی اللہ سے بغاوت پر لوگوں کو آمادہ کرنا ہو یا جو لادینی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوں یا خود فرعون بن بیٹھے ہوں ۔

(۳)اولی الامر کی اطاعت کاحکم اس وقت تک ہے ج

life
06-11-2011, 02:24 AM
کوئی حکم نہ دیں اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو تو اس صورت میں اطاعت کا سوال پیدا نہیں ہوتا نبی ﷺ کی حدیث ہے : لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ‘

(۴)اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا جو مثبت حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس سے یہ منفی معنی نکالنا صحیح نہیں کہ اگر مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہوں تو وہاں ان کے لئے بدنظمی ( Anarchy)کی صورت پیدا کرنا روا ہے۔موجو دہ نظام حکومت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اس لئے قطع نظر اس سے کہ قانون بنانے والے لوگ کون ہیں اور کیسے ہیں قانون اگر بجائے خود اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے نہیں ٹکراتا یا اسلام نے مباحات کاجو وسیع دائرہ رکھا ہے اس سے متعلق ہے تو اس کی پابندی اسلام کے منشا کے خلاف ہر گز نہیں بصورت دیگر اسے اضطرار اور مجبوری کی حد تک ہی گوارا کیا جاسکتا ہے

life
06-11-2011, 02:24 AM
۱۲۶۔۔۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا نے سے مراد کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرنا ہے ۔اوپر حکم واختیار رکھنے والو ں کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا یہاں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجو ع کرو یہ ہدایت دونوں کے لئے ہے ان کے لئے بھی جن کو اصحاب امر کی اطاعت کرنا ہے اور ان کے لئے بھی جو اصحاب امر ہیں یہ ایک جامع ہدایت ہے جس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے ۔

(۱)مسلمانو ں کو ارباب اقتدار کے ساتھ اختلا ف کا حق ہے اور اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن چیز کتاب وسنت ہیں ۔

(۲)اس حق کا تقاضا یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ارباب اقتدار پر تنقید کی آزادی کا حق حاصل ہو۔

life
06-11-2011, 02:25 AM
قید کی آزادی کا حق حاصل ہو۔

(۳)اختلافات خواہ امت کے درمیان ہوں یا حکومت اور عوام کے درمیان یا خود اصحاب امر کے اندر فیصلہ کے لئے قرآن وسنت کی طرف رجو ع کرنا چاہئیے اور جو فیصلہ وہاں سے ملے اس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا چاہئیے ۔

(۴)حق کی کسوٹی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے اس لئے علماء ، بزرگ ، ائمہ ، فقہا اور قائدین سب کے اقوال کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے ان میں سے کوئی بھی حق کی کسوٹی نہیں ہے کہ اس کا قول اور عمل لازماً صحیح ہو یا حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہو ۔

(۵)امام کے معصوم ہونے کا تصور جیسا کہ مسلمانو ں کے بعض فرقوں کا عقیدہ ہے سراسر باطل ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو عام مسلمانوں کو ان سے اختلاف کاحق دیا نہیں جاتا اور عام مسلمانوں کے آپس کے اختلاف کی صور ت میں امام کی طرف رجو ع کرنے کا حکم دیا جاتا جبکہ اس آیت سے ان دونوں باتو ں کی تردید ہوتی ہے چرچ کی معصومیت جیسا کوئی تصور اسلام میں ہرگز نہیں ہے ۔

life
06-11-2011, 02:25 AM
(۶)کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جن مسائل میں کتاب وسنت کے نصی احکا م موجود ہیں ان کی اسی طرح تعمیل کی جائے اور اگر حالات نے کوئی نیامسئلہ کر دیا ہوتو کتاب وسنت کی دلیل کو متعلقہ مسئلہ میں فیصلہ کن تسلیم کیا جائے اور اشارات اور متقضیات کو سامنے رکھکر یہ معلوم کیا جائے کہ کو ن سی بات کتاب وسنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے ۔قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنے کے اس طریقہ کو قیاس اور اجتہاد کہتے ہیں ۔

۱۲۷۔۔۔ہر قسم کے اختلافات میں خواہ ان کی نوعیت مذہبی ہو یا سیاسی ہو قرآن وسنت کی طرف رجو ع کرنا ایمان کا صریح تقاضا ہے اس سے دنیا میں بھی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہترین ثمرہ ملے گا ۔

۱۲۸۔۔۔متن میں لفظ ’طاغوت‘ استعمال ہوا ہے جس کی تشریح اس سے پہلے گزرچکی (سورہ نساء نوٹ ۱۱۶۔۔۔،سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۸۔۔۔) یہاں طاغوت کالفظ کتاب وسنت کے مقابل کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ بعد والی آیت سے واضح ہے اس لئے یہاں اس سے مراد وہ حاکم یا جج ہے جو اللہ اور رسول کا مخالف ہو اور کتاب وسنت کے خلاف فیصلہ کرتا ہو ۔

life
06-11-2011, 02:25 AM
۱۲۹۔۔۔یہاں جس بات کو ایمان کے منافی قراردیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کتاب وسنت کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور ’ طاغوت‘ کی عدالت میں اپنا مقدمہ اس لئے لے جائے تاکہ وہاں اس کے حق میں فیصلہ ہو اگر چہ کہ وہ فیصلہ شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو واضح رہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ے وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتے تھے وہ ایمان لانے کے بھی مدعی تھے اور ساتھ ہی اپنے مقدمات رسول کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یہود کی عدالت میں پیش کرنا چاہتے ۔ روایات میں کعب ابن اشرف کا نام آتا ہے جو یہودیوں کا سردار تھا اور مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا منافقین اس کی طرف رجو ع کر تے ظاہر ہے کہ ان کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی تھا لیکن وہ ایمان اورکفر دونوں کوجمع کرنا چاہتے تھے یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک مدینہ کی اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا تھا اور مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کی قبائلی ریاستیں قائم تھیں اس طرح گویا اس علاقہ میں اسلام اور طاغوت کی متوازی عدالتیں Parallel courts قائم تھیں ۔

life
06-11-2011, 02:25 AM
۱۳۰۔۔۔یعنی جس وقت اسلام دشمن طاقتو ں کا زور ٹوٹے گا اورمسلمانوں کو غلبہ اور استحکام حاصل ہو گا اس وقت یہ منافقین اپنے کو بے یار ومددگار پاکر تمہارے پاس معذرت کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے سابقہ رویہ کی یہ توجیہ کریں گے کہ ہمار ا مقصد تو ، مسلمانوں اور یہودیوں میں میل ملاپ پیدا کرنا تھا چنانچہ اس آیت کے نزول کے چند سال بعد یہی صورت پیش آئی ۔

۱۳۱۔۔۔جو لوگ نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے ان کے علاج کی صحیح تدبیر یہاں بتائی گئی جس سے دعوت واصلاح کا کام کرنے والوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنے اس کام کے لئے موثر پیرایہ بیان اختیار کریں اور ان کا طریقۂدعوت Approach ایسا ہو کہ دلوں کو جھنجھوڑکر رکھ دے ۔

life
06-11-2011, 02:25 AM
۱۳۲۔۔۔یعنی رسول اسلئے نہیں آتا کہ اس کے ساتھ صر ف عقیدت کا اظہار کرو اور پھر اس کی اطاعت یا نہ کرو بلکہ رسول اس لئے آتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیونک رسول خدا کی طرف سے احکا م اور قوانین لے کر آتا ہے ۔

۱۳۳۔۔۔رسو ل کی موجودگی میں طاغوت کی عدالت میں مقدمات لے جانا رسو ل کے لئے تکلیف دہ بات تھی اور اس سے عدالت رسول کی توہین ہوتی تھی اس لئے اس گنا ہ کی تلافی کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اللہ سے معافی کے خواستگا رہونے کے ساتھ رسول کی بھی دعائے مغفرت کے طالب بنیں ۔

۱۳۴۔۔۔یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ رسول کی اطاعت بغیر کسی تحفظ کئے اور بے چوں وچرا کرنا ایمان کا کھلا ہواتقاضا ہے نبی ﷺ کے کسی بھی فیصلہ پر ایک مسلمان کو خلش تک نہیں محسوس کرنا چاہئے کجا یہ کہ وہ آپ کے کسی حکم اور کسی فیصلہ کو اپنی خواہش یا زمانہ کے رحجانات کے مطابق نہ پاکر اس پر ناک بھو ں چڑھانے لگے

life
06-11-2011, 02:25 AM
علامہ جصاص لکھتے ہیں ’ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے ک جو شخص اللہ یا اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کو رد کر دے وہ اسلام سے خارج ہے خواہ اس نے شک کی بنا پر اس حکم کورد کیا ہو یا ماننے اور قبول کرنے ہی سے اسے انکا رہو ‘ (احکام القرآن ، ج ۲، ص ۲۶۰)

۱۳۵۔۔۔اللہ کو اختیا رہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس بات کا چا ہے حکم دے اور جب دنیا کی زندگی آزمائش ہی کے لئے ہے تو اپنے آپ کو قتل کرنے یا گھر بار چھوڑدینے کا حکم دے کر بھی آزمائش کی جاسکتی تھی لیکن خداوند رحمن نے انسان کو اتنی زبردست آزمائش میں نہیں ڈالا اور شریعت آسان بنادی ۔

life
06-11-2011, 02:26 AM
اس کے بعد بھی اگر لوگ شریعت پر نہ چلیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہو گی اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی اصل روح Spirit یہ ہے کہ اللہ کی وفاداری ہر چیز پر مقدم ہو حتی کہ اپنی جان پر بھی اور اس کی خاطر ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے یہاں تک کہ اپنے گھر بار اور اپنے وطن عزیز کو بھی خیر باد کہا جاسکتا ہے جس موقع پر دین کا جو تقاضا ہو اس کا پورا کرنا ہی اصل دینداری ہے ۔

۱۳۶۔۔۔یعنی اگر وہ منافقانہ طرز عمل چھوڑدیتے اور خلوص کے ساتھ رسول کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتے تو انہیں زندگی کے ہر معاملہ میں حق وصداقت کا راستہ نظر آتا اور صحیح طرز عمل کی توفیق نصیب ہوتی ۔

۱۳۷۔۔۔انعام سے مراد ایمان اور ہدایت کی نعمت سے نوازنا ہے (ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱۰۔۔۔

۱۳۸۹۔۔۔انعام یافتہ گروہ چار ہیں : انبیاء ، صدیقین ، شہداء ، صالحین ۔

life
06-11-2011, 02:26 AM
انبیا ء سے مراد وہ تمام پیغمبر ہیں جو مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اللہ کی طرف سے دین حق لے کر آئے ۔

صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں صداقت شعاری کا وصف کمال درجہ پر ہو یہ ایمان وعمل کے لحاظ سے انبیاء کے بعد صف اول کے لوگ ہیں ۔شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کی شہادت دینے میں اپنی جان بھی قربان کر دی اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کا رویہ اختیار کیا جنت کی سوسائٹی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی

life
06-11-2011, 02:26 AM
گویا انسانیت کا سارا جوہر وہاں موجود ہو گا ایسے بہترین لوگوں کی رفاقت کامیسر آنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہو گا نیک آدمی دنیا میں بھی اپنی رفاقت کے لئے نیک آدمیوں ہی کا انتخاب کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی نیک لوگوں ہی کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتا ہے ۔

۱۳۹۔۔۔اس وقت جنگ کی دوصورتیں تھیں ایک منظم فوج کشی دوسرے دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا جسے ’ سَرِیّہ ‘ کہتے ہیں ان دونوں طریقوں کو اختیار کرنے کی ہدایت اس آیت میں دی گئی ہے اور نبی ﷺ نے یہ دونوں طریقے اختیار کئے تھے ۔

۱۴۰۔۔۔یعنی منافقین مسلمانو ں کی کامیابی کو اپنی کامیابی نہیں سمجھتے اس لئے انہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور وہ مال غنیمت میں حصہ دار بننے سے محرو م رہے ۔

life
06-11-2011, 02:26 AM
۱۴۱۔۔۔یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے ان لوگوں کو اٹھنا چاہئے جو آخرت کی خاطر اپنی دنیا تج دیں ایسے ہی لوگ اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں رہے وہ لوگ جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے مفادکو عزیز رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین کے لئے انہیں کوئی قربانی نہ دینا پڑے تو جہاد کی راہ ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے ۔

۱۴۲۔۔۔اس وقت مکہ اور اس کے اطراف میں مسلمان محض اس لئے کافروں کے ظلم وستم کا نشانہ بن گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا بالفاظ دیگر وہ مسلمانوں کو ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے قرآن نے بتلایا کہ ایسے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے جنگ کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے

life
06-11-2011, 02:26 AM
۱۴۳۔۔۔یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے اور طاغو ت کی راہ میں لڑنے سے مراد ان باطل مقاصد کے لئے لڑنا ہے جن کے لئے شیطان انسان کو ابھارتا ہے یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کرنے ،اس کے ماننے والوں کا زور توڑنے ،حکم خداوندی کی جگہ انسان کا حکم چلانے،زمین پر اصلاح کے بجائے فساد برپا کرنے اور اسلام کے بجائے کفر کو غالب کرنے کی غرض سے لڑنا ۔

۱۴۴۔۔۔یعنی جو لوگ شیطان کے ورغلانے میں آکر اسلام اور اس کے علمبرداروں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں ان کی یہ کاروائیاں کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں ہوتیں اس لئے اگر اہل حق ان کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں تو ان کے سارے منصو بے خاک میں مل کر رہ جائیں گے ۔

۱۴۵۔۔۔اس آیت سے امام رازی نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جہاد پر مقدم ہیں ( ملاحظہ ہو تفسیر رازی ، ج ۳، ص ۲۷۲) بلاشبہ دین میں ان دوچیزوں کو اولیت حاصل ہے اور یہ عبادتیں مقصود بالذات ہیں رہا جہاد تو اس کی اہمیت اور فضیلت اپنی جگہ ، وہ واجب اسی وقت ہو تا ہے جبکہ حالات اس کے متقاضی ہوں ورنہ ایک مسلمان کے لئے اس کی نیت رکھناکافی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقام نہایت بلند ہو نے کے باوجود اس کا شمار ارکان خمسہ میں نہیں ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد جب فرض عین قرار پائے تو اس سے جی چرانا ایمان کو مشتبہ بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایمان کا کھلا تقاضا ہے کہ آدمی دین کے لئے غلبہ چا ہے اور اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔

۱۴۶۔۔۔یعنی جبتک جنگ کا حکم نہیں دیا گیا تھا اس کے لئے بڑے جوش وخروش کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن جب اس کا حکم دیدیا گیا تو ان پر شاق گزرنے لگا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے

life
06-11-2011, 02:27 AM
۱۴۷۔۔۔یعنی اللہ کی راہ میں جو قربانیاں بھی تم دوگے وہ رائیگاں جانے والی نہیں ہیں بلکہ تمہیں ان کا پورا پورا اجر ملے گا ۔

۱۴۸۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی تدبیر اور احتیا ط سے کام نہ لے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ تدابیر اسے موت سے بچاسکتی ہے موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی اس لئے آدمی کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز نہ کرے ۔

۱۴۹۔۔۔یعنی اگر کسی مشکل سے دوچار ہو تو اسے یہ منافق پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ئی کا م بغیر خدا کے حکم کے نہیں کرتا اور کائنات میں تصرف بھی اللہ ہی کا ہے ا س کی مشیت کے بغیر نہ کوئی نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان اس لئے کسی نقصان کے پہنچ جانے پر اس کی ذمہ داری پیغمبر پر ڈالنا خلاف واقعہ بھی ہے اور ایمان کے منافی بھی ۔

life
06-11-2011, 02:27 AM
۱۵۰۔۔۔گو خیر اور شر دونوں چیزیں اللہ ہی کی مشیت سے ظہور میں آتی ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ خیر کی حالت ا للہ کی رحمت کا فیضان ہے جبکہ شر کی حالت انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور اللہ کے بخشے ہوئے اختیار ات کو غلط طریقہ پر استعمال کرنے سے ظہور میں آتی ہے اس لئے شر کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہئے ۔

۱۵۱۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر منافقین رسول کی ہر بات کو خداکی طرف سے نہیں سمجھتے ہیں تو نہ سمجھیں محمد ﷺ کے رسول ہونے کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اور یہ گواہی اللہ نے قرآن کے ذریعہ دی ہے اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ صرف عربو ں کی طرف نہیں بلکہ تمام اقوام کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔

۱۵۲۔۔۔یہ اور اس طرح کی دوسری آیات صراحت کرتی ہیں کہ رسو ل کی اطاعت درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس لئے کہ رسو ل جو بھی حکم دیتا ہے خدا ہی کی طرف دیتا ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی اطاعت بہ حیثیت رسول نہ صرف آپ کی زندگی بلکہ آپ کی وفات کے بعد اسی طرح مطلوب ہے

ہمار ے لئے آپ کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ ہیں ان کی

life
06-11-2011, 02:27 AM
ہمار ے لئے آپ کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ ہیں ان کی پیروی آپ ؑ کی اطاعت کے ہم معنی ہے اور ان سے انکار آپ ﷺ کی نافرمانی کے مترادف ہے ۔

۱۵۳۔۔۔یعنی پیغمبر کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو زبردستی راہ ہدایت پر چلائے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے ۔

۱۵۴۔۔۔منافقین میں بعض ایسے بھی تھے جو مدینہ میں رات کو مجلسیں جماکر اسلام اور نبی ﷺ کے خلاف خفیہ مشورے کرتے تاکہ اسلام کی راہ میں رکا وٹیں کھڑی کی جاسکیں اور آ پ کو زک پہنچائی جاسکے ۔

۱۵۵۔۔۔اس آیت میں قرآن پر تدبر کی دعوت دی گئی ہے جس سے درج ذیل باتو ں پر روشنی پڑتی ہے ۔

(۱)تدبر کی یہ دعوت عام ہے چنانچہ ان لوگو ں کو بھی قرآن پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو مؤمن نہیں ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ اس کے مضامین باہم مربوط اور اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ اس کا موضوع نہایت وسیع ہے یعنی انسانی زندگی کے لئے مکمل ہدایت ، یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو ایسے وسیع موضوع پر جس کا تعلق مشاہدات ہی سے نہیں مابعدالطبیعی حقائق سے بھی ہو اور جو انسان کی فطرت ، اس کی نفسیات ، اس کے مبداء و معاد اور اس کی زندگی کے جملہ گوشوں سے بحث کرتا ہو ممکن نہیں کہ اس میں تضادنہ پایا جائے ۔

life
06-11-2011, 02:27 AM
(۱)تدبر کی یہ دعوت عام ہے چنانچہ ان لوگو ں کو بھی قرآن پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو مؤمن نہیں ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ اس کے مضامین باہم مربوط اور اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ اس کا موضوع نہایت وسیع ہے یعنی انسانی زندگی کے لئے مکمل ہدایت ، یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو ایسے وسیع موضوع پر جس کا تعلق مشاہدات ہی سے نہیں مابعدالطبیعی حقائق سے بھی ہو اور جو انسان کی فطرت ، اس کی نفسیات ، اس کے مبداء و معاد اور اس کی زندگی کے جملہ گوشوں سے بحث کرتا ہو ممکن نہیں کہ اس میں تضادنہ پایا جائے ۔

کیونکہ انسان کا علم محدود ہے اس لئے وہ کائنات کے اسرارپر سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات پیش کرسکتا ہے جو انسان کو صحیح طور سے زندگی گزارنے اور اس کے خالق سے صحیح تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں

life
06-11-2011, 02:27 AM
(۲)قرآن پر غور کرتے رہنے سے حکمت کے دروازے کھلتے ہیں اور ایمان وایقان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔

(۳)یہ بات صحیح نہیں کہ قرآن صرف عالموں کے سمجھنے کی چیز ہے بلکہ ہر انسان کے سمجھنے کی چیز ہے اگر یہ عالموں کے لئے مخصوص ہوتا تو اس پر تدبر کی عام دعوت نہ دی جاتی ۔

(۴)قرآن کی تمام باتیں باہم مربوط اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اس لئے کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہوسکتا جو دوسری آیتوں سے متنا قض ہو ۔

(۵)قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا اور اس کی تعلیمات پر معترض ہونا سراسر تضاد فکری ہے اور یہ نتیجہ ہے قرآن پر تدبر نہ کرنے کا ۔

life
06-11-2011, 02:28 AM
۱۵۶۔۔۔اس وقت مدینہ میں جنگ کے حالات تھے ۔ایسے حالات میں افواہیں پھیلانے میں سرگرم ہو گئے تھے اس لئے ان کی اس حرکت پر گرفت کی گئی اور اس قسم کی خبروں کو رسول اور ذمہ دارلوگوں کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس سے اصولی طور پر یہ ہدایت ملتی ہے کہ ملت کی سیاسی زندگی پر اثر اندازہونے والی خبروں کو عوام میں پھیلانے سے پہلے ذمہ دار افر اد کے علم میں لانا چاہئے تاکہ وہ ان کی حقیقت معلوم کرسکیں ضمناً اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اصحاب امر کے منصب کے لئے موزوں وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن کے اندر سوجھ بوجھ معاملہ فہمی اور تدبر کے اوصاف پائے جاتے ہوں ۔

۱۵۷۔۔۔یعنی جو حق کی تائید وحمایت کریں گے وہ اس کااجر پائیں گے اور جو اس کی مخالفت کریں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے ۔

۱۵۸۔۔۔منافقین سے اعراض کی جو ہدایت آیت ۸۱۔۔۔میں دی گئی ہے اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان ان کے ساتھ اخلاق سے پیش نہ آئیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں ۔یہاں اسی سلسلہ میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ جو

life
06-11-2011, 02:28 AM
ان کے ساتھ اخلاق سے پیش نہ آئیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں ۔یہاں اسی سلسلہ میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ جو شخص بھی اپنے کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور تمہیں سلام کرتا ہے تم اس سے بے رخی نہ برتو بلکہ اس کے سلام کا جواب اس سے بہتر طریقہ پر دو یا کم ازکم ان الفاظ ہی کو لوٹاؤ۔اسلامی تہذیب کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو السّلام ُعلیکم ( تم پر سلام ہو ) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے اور اس کے جواب میں دوسرا مسلمان وَعَلَیْکُمُ السّلَامُ( تم پر بھی سلام ہو ) کہے سلام کے یہ کم سے کم کلمات ہیں اور اگر اس پر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ( اور تم پر اللہ کی رحمت اور برکت بھی ہو ) کا اضافہ کیا جائے تو بہتر ہو گا ۔حدیث میں یہ کلمات آئے ہیں ۔

۱۵۹۔۔۔مراد دارالحرب کے منافقین ہیں جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اصلاً انہیں دلچسپی کفر سے تھی چنانچہ وہ کافروں کے ساتھ مل کر ان کاروائیوں میں حصہ لیتے تھے جو اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف کی جاتیں اور انہیں اپنا گھر بار اتنا عزیز تھا کہ وہ ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے ملنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں مسلمانوں میں دو رائیں پائی جاتی تھیں ایک گروہ کہتا تھا کہ ان کے ساتھ بھی کافرو ں جیسا معاملہ کیا جانا چاہئے لیکن دوسرا گروہ اس امید پر کہ وہ اچھے مسلمان بن جائیں گے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہتا تھا ۔اس موقع پر قرآن نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ خود کیا مسلمان بنیں گے الٹے وہ تمہیں کا فر بنا نے کی فکر میں ہیں اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں تو ہجرت کرکے نبی اور اس کے ساتھیوں سے آملیں بصور ت دیگر ان سے بھی جنگ کرنا چاہئیے ۔

۱۶۰۔۔۔یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد انہو ں نے مصلحت پرستی اختیار کی اور کفر کی طرف قدم بڑھایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو الٹے پاؤں کفر ہی کی طرف دھکیل دیا ۔

۱۶۱۔۔۔معلوم ہوا کہ یہاں ان لو گو ں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیاتھا لیکن تھے وہ درحقیقت کافر اور اس بات کے خواہشمند تھے کہ مسلمان بھی کافر بن جائیں ان کا یہ کفر ہی تھا جو انہیں ہجرت سے روک رہا تھا کیونکہ ہجرت کے لئے زبردست قربانی کی ضرورت تھی ۔

life
06-11-2011, 02:28 AM
۱۶۲۔۔۔یعنی اگر وہ ہجرت کرتے ہیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مخلص مسلمان بنیں گے اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں مخلص مؤمن بننے کی تو فیق عطا کرے واضح رہے کہ یہاں ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کی بھی قید ہے یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہجر ت ایمان کے تحفظ اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ہو اسی صورت میں دوست بنایا جاسکتا ہے ۔

۱۶۳۔۔۔یعنی ایسی صورت میں تم انہیں دشمنو ں کا ساتھی سمجھو اور جہاں پاؤپکڑو اور قتل کرو۔یہ حکم ان منافقین کا ہے جو کافر قوم کے ساتھ مل کر مسلمانو ں کے خلاف جنگ کریں اوپر نوٹ ۱۵۹۔۔۔میں اس کی تشریح گزرچکی ہے ۔

۱۶۴۔۔۔یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو قتل کے حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی جو منافق کسی ایسی قوم سے جاملیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہد ہ ہے تو معاہد ہ کے احترام کی بناپر ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا اسی طرح ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا جو غیر جانب دار رہیں یعنی نہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کریں اور نہ مسلمانوں کی حمایت میں اپنی قوم سے لڑیں ۔

۱۶۵۔۔۔یعنی اگراللہ ان کو حوصلہ دیتا تو وہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے لیکن ایسا نہیں ہوا لہٰذا ان کے موجود ہ رویہ کو غنیمت سمجھو اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں اورتمہارے ساتھ صلح وآشتی کا رویہ اختیار کئے رہیں تم بھی ان کے خلاف اقدام نہ کرو ۔

۱۶۶۔۔۔یہاں فتنہ سے مراد جنگی کا روائیاں ہیں جو کفار مسلمانو ں کے خلاف کرتے تھے ۔

life
06-11-2011, 02:28 AM
۱۶۷۔۔۔یہ حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں کے خطرے سے بھی محفوظ رہنا چاہتے تھے اور اپنی قوم کے خطرے سے بھی لیکن جب ان کی قوم کا دباؤ پڑجاتا یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنی قوم کے ساتھ شریک ہو جاتے ۔چنانچہ قبیلہ اسد وغطفان کے لوگوں نے مدینہ آکر اسلام قبول کیا اور نبی ﷺ سے معاہدہ بھی کیا لیکن اپنی قوم میں واپس لوٹ کر قوم کے اصرار پر مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدامات میں شریک ہو گئے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ ان کو جہاں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔

۱۶۸۔۔۔یہ قتل خطا کا کفارہ ہے چونکہ مقتول مؤمن تھا اس لئے اس کا کفارہ یہ مقر ر کیا گیا کہ ایک مومن غلام کو آزاد کیا جائے موجود ہ زمانہ میں غلامی کا رواج باقی نہیں رہا اس لئے کفارہ کی ادائیگی کی دوسری صور ت اختیار کرنا ہو گی یعنی دو ماہ کے مسلسل روزے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان ہو ا ہے ۔

۱۶۹۔۔۔دیت ( خون بہا ) کی مقدار نبی ﷺ نے ایک سو اونٹ مقر ر فرمائی تھی (احکام القرآن للجصاص، ج ۲، ص ۲۸۳)

لہذا اگر نقدی کی صور ت میں ادا کرنا ہوتو اس کے مساوی قیمت ادا کرنا ہو گی ۔

life
06-11-2011, 02:28 AM
۱۷۰۔۔۔اس آیت میں کسی مسلمان کے غلطی سے قتل کئے جانے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی صورت یہ کہ مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو اس صور ت میں کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا اور خون بہا بھی دینا ہو گا دوسری صورت یہ ہے کہ مقتول دار الحرب کا باشندہ ہو اس صورت میں صرف کفارہ دینا ہو گا اور تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول معاہد ہ قوم سے تعلق رکھتا ہو یعنی کسی ایسے دارالکفر کا باشندہ ہو جس سے مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اس صورت میں کفارہ بھی دینا ہو گا اور دیت بھی ادا کرنا ہو گی ۔حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے خالد بن ولید کو بنی خزیمہ کی طرف بھیجا انہوں نے بنی خزیمہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی انہو ں نے اپنے قبول اسلام کا اعلان ایک ایسے لفظ سے کیا جو مبہم تھا یعنی ( اسلمنا ) کے بجائے ( صبأنا ) کہا حضرت خالد ؓ نے غلط فہمی میں ان کے کچھ لوگو ں کو قتل کیا ۔جب نبی ﷺ کو اس کی اطلا ع ہوئی تو آپ ﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا خدایا خالد نے جو کچھ کیا اس سے میں بری ہوں اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بھیج کر ان کے مقتولوں کو دیت ادا کر دی اور ان کے نقصان کی تلافی کی حتی کہ ان کے کتے کی بھی قیمت ادا کر دی ۔یہ حدیث بخاری کی ہے اور اسے نقل کر کے ابن کثیر ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حکم نکلتا ہے امام یا اس کے نائب ( سپہ سالار وغیرہ ) سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا معاوضہ بیت المال سے اداکیا جائے گا ۔( تفسیر ابن کثیر ، ج ۱، ص ۵۳۵)

life
06-11-2011, 02:29 AM
۱۷۱۔۔۔موجودہ زمانہ میں جب کہ غلامی کا رواج ختم ہو گیا ہے غلام کو آزاد کرنے کا بدل یہ ہو گا کہ دوماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں متواتر کا مطلب یہ ہے کہ بلاعذر شرعی ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑنہ دیا جائے اور جو شخص روزے بھی نہ رکھ سکتا ہو اس کے مسئلہ کاحل علماء کاایک گروہ یہ بتا تا ہے کہ اسے ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلانا ہو گا یہ بات ظہار کے کفار ہ پر قیاس کر کے کہی گئی ہے ۔

۱۷۲۔۔۔یعنی یہ کفارہ اللہ کی طرف سے مقر ر کردہ توبہ ہے تاکہ قتل کرنے والے کو اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اللہ کی طرف رجو ع ہو ۔

۱۷۳۔۔۔اس آیت میں کسی مسلمان کو ناحق اور دانستہ قتل کرنے والے کے لئے پانچ وعید یں آئی ہیں ایک یہ کہ اس کی سزا جہنم ہو گی دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا تیسری یہ کہ اس پر اللہ کا غضب ہو گا چوتھی یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور پانچویں یہ کہ اسے بہت بڑا عذاب بھگتنا ہو گا جو اس کے لئے خاص طور سے تیار رکھا گیا ہے اس سے اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اسلام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا گنا ہ ہے اورحدیث میں اسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے نبی ﷺ کا ارشاد ہے : سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر’‘ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے (مسلم کتاب الایمان ) ۔لا ترجعو ا بعد ی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ( مسلم کتاب الایمان )۔

life
06-11-2011, 02:29 AM
۱۷۴۔۔۔مطلب یہ ہے کہ جب کسی علاقہ پر حملہ کے لئے نکلو تو پوری تحقیق کرلو کہ مسلمان کہاں کہاں ہیں تاکہ ان پر غلطی سے حملہ نہ کر بیٹھو اور اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لئے تمہیں سلام کرے تو اس کے اسلام کا انکا رنہ کرواگر مال غنیمت کے لالچ میں اس پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے اللہ کے پاس مال ک بڑے ذخیرے ہیں لہذا اجر آخرت کو مقصود بناؤ ۔اسلام میں جنگ کا مقصد محض ملک فتح کرنا نہیں ہے بلکہ حق اور عدل کا قیام ہے اس لئے اگر عین حالت جنگ میں دشمن قوم کا کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے یا السلام علیکم کہکر اپنے مسلمان ہو نے کا اظہار کرتا ہے تو باوجود اس احتمال کے کہ ممکن ہے جان بچانے کی خاطر جھوٹ بو ل رہا ہواس کو قتل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ واقعی مسلمان ہو گیا ہو لہٰذا احتیا ط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے ۔اس سے یہ اصولی ہدایت ملتی ہے کہ کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اسے مسلمان تسلیم کرنا چاہئیے الّا یہ کہ تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے ۔

life
06-11-2011, 02:29 AM
۱۷۵۔۔۔یعنی اس سے پہلے تم نے بھی محض کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان میں پختگی عطا فرمائی اور تم پکے مسلمان بن گئے اسی طرح یہ لوگ بھی اگر اپنے مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کریں تو اسے تسلیم کرو۔

۱۷۶۔۔۔یہ اس صورت کاذکر ہے جبکہ جہاد کے لئے نفیر عام نہ ہوئی ہو اور کچھ لوگوں کا جہاد کرناکفایت کرتا ہو چنانچہ نبی ﷺ چھوٹی چھوٹی مہم پر فوجی دستے روانہ کرتے تھے جس کو ’ سریّہ ‘ کہا جاتا ہے ایسے حالات میں جہاد کی حیثیت ایک درجۂفضیلت ہی کی ہے لیکن اگر جہاد فرض عین یا نفیر عام ہو جائے تو اس صورت میں بھلائی کا وعدہ بلا عذر رہنے والوں کے لئے نہیں ہے واضح رہے کہ جن غزوات میں خود نبی ﷺ نکل گئے تھے ان میں بلا عذر بیٹھ رہنے والوں پر قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے کیونکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ کا رسو ل اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر ایک مہم پر روانہ ہو جائے اور اس کے پیرو اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ایمان کا صریح تقاضا یہ ہے کہ نبی کی جان اپنی جان سے بھی عزیز تر ہو اور واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر جہاد سے وہی لوگ کتراتے تھے جو منافق تھے ورنہ ہر مسلمان جان نثارِ رسول تھا ۔

life
06-11-2011, 02:29 AM
۱۷۷۔۔۔نبی ﷺ کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد جو مسلمان مکہ اور اس کے اطراف میں رہ گئے تھے ان پر ہجرت فرض ہو گئی تھی ہجرت کا یہ حکم درج ذیل وجوہ سے دیا گیا تھا :

(۱)مکہ اور اس کے اطراف کے علاقہ میں جہاں مشرکین کو اقتدار حاصل تھا عقیدہ و ضمیر کی آزادی حاصل نہیں تھی اس لئے جو لوگ مشرکانہ مذہب کو ترک کرکے اسلام میں داخل ہو ئے تھے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا جار ہا تھا کہ وہ دین اسلام چھوڑکر مشرکانہ مذہب میں واپس آجائیں ان حالات میں ایمان پر قائم رہنا جان جو کھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا نتیجہ یہ کہ جن لوگوں کا ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا تھا وہ یا تو اپنے ایمان کو چھپاتے یا مشرکانہ مذہب کے ساتھ سازگاری پید اکرتے اس طر ح اسلام اور شرک اور ایمان اور کفر دونوں کو جمع کیا جاتا ظاہر ہے کہ جس زمین میں ایمان پر قائم رہنے کی آزادی نصیب نہ ہو اس زمین کو خیر آباد کہنا ایمان کا صریح تقاضہ ہے خواہ وہ مکہ کی مقدس زمین ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ایمان اور خداسے وفاداری خاک وخون کی وفاداریوں پر مقدم ہے ۔

(۲)اللہ کے رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد مسلمانو ں کے ہجرت سے گریز کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ رسول کی محبت پر اپنے گھر بار کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں جب رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو رسو ل نے چھوڑا اسے اہل ایمان بھی چھوڑدیں اور رسول کی معیت اس کی خدمت میں حاضری اور اس کی مدد کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔

life
06-11-2011, 02:29 AM
(۳)اسلام اور کفر کے درمیان جنگ برپا تھی اور اللہ کا رسول اپنے مٹھی بھر رفقا ء کے ساتھ مشرکین مکہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے خو د میدان جہاد میں موجو د ہوتا تھا اس لئے اس وقت اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کی طاقت ایک مرکز پر جمع ہو اور رسول کی قیادت میں دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے لیکن جن مسلمانوں نے ہجر ت نہیں کی تھی ان کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑنے کے بجائے دشمنان اسلام کے پلڑے میں پڑ رہا تھا یہاں تک کہ بعض لوگ مشرکین کے دباؤ کی وجہ سے ان کے لشکر میں شریک ہونے کے لئے اپنے کو مجبور پاتے اور اس طرح رسول اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کے لئے میدان جنگ میں آموجود ہوتے ۔یہ تھے اس وقت کے حالات جن میں مکّہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مدینہ کو ہجرت کرجائیں اس حکم کی تعمیل نہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان کو فتنہ میں ڈالنا گوارا کرلیں لیکن اپنا گھربار چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اسی لئے اس آیت میں کسی حقیقی عذر کے بغیر ہجرت نہ کرنے کو اپنے نفس پر ظلم ڈھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور انہیں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے ۔اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جس ملک میں بھی اظہار اسلام کی آزادی نہ ہو اور جبر واستبداد کی وجہ سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجائے وہاں سے کسی ایسے خطۂزمین کی طرف ہجرت کرنا ضروری ہے جہاں ایمان کی حفاظت کی جاسکتی ہو اوراسلام کے کم از کم بنیادی تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہو الّا یہ کہ ایسے حالات میں بھی آدمی ہجر ت کرنے پر قادر نہ ہو ۔

۱۷۸۔۔۔۔۔۔قرآن کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پور ا ہوا اور مہاجرین کو مدینہ میں بڑا عمدہ ٹھکانہ میسر آیا اور رفتہ رفتہ انہیں معاشی فراوانی بھی حاصل ہو گئی ۔

life
06-11-2011, 02:29 AM
۱۷۹۔۔۔اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی حکم کی بجاآوری کے سلسلہ میں آدمی کی نیت اور عملی قدم اٹھانے کا اعتبار ہے اگر اس کام کی تکمیل سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر مار ا نہیں جائیگا اور وہ اس کی بخششوں اور رحمتو ں کا مستحق قرار پائیگا ۔

۱۸۰۔۔۔یہ ’’صلوٰۃ خوف ‘‘ کا بیان ہے یعنی حالت جنگ میں نماز ادا کر نے کا طریقہ جسے ’قصر ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’قصر‘ کی جو شکل نبی ﷺ کی سنت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ظہر ، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں کی رکعتیں چار چار کے بجائے دو دو پڑھی جائیں رہیں مغرب اور فجر کی نمازیں تو ان میں قصر نہیں ہے لہٰذا سفراور حضر دونوں میں مغرب کی تین رکعتیں اور فجر کی دو رکعتیں ادا کی جائیں گی۔قصر کا حکم اصلا ً جہاد کی وجہ سے دیا گیا تھا لیکن پھر ہر طرح کے سفر کے لئے عام کر دیا گیا لیکن سفر میں بالعمو م بے اطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے نبی ﷺ نے حالت امن کے سفر میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کو جائز ٹھہراتے ہوئے فرمایا : صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا علیکم فَاقْبَلُو اصدقتہ قصر کی اجازت اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے لہٰذا اس بخشش کو قبو ل کرو ۔(مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین) ۔اور نبی ﷺ سے یہ سنت بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ خوف اور امن دونوں حالتوں میں قصر فرمایا کرتے تھے ۔

life
06-11-2011, 02:30 AM
۱۸۱۔۔۔یہاں حالت جنگ میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ بتا یا گیا ہے جو نبی ﷺ کی موجودگی میں اختیا رکرنا ضروری تھا کیونکہ آپ ﷺ کی موجودگی میں جب کہ آپ ﷺ نماز کی امامت فرما رہے ہوں مناسب یہی تھاکہ پوری فوج آپ ہی کی اقتداء میں نماز ادا کرے الگ الگ امام اور الگ الگ جماعتیں نہ ہو ں اور صحابہ کرام ؓ پر بھی یہ بات شاق تھی کہ آپ ﷺ امامت فرمائیں اور ان میں سے کوئی شخص اس میں شرکت سے محروم رہے اس لئے آ پ کی موجود گی میں صلوٰۃ خوف ا دا کرنے کا مخصوص طریقہ بتا یا گیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک گروہ اسلحہ کے ساتھ آپ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑا ہو اور دوسرا گروہ حفاظت کا کام انجام دے جب پہلا گروہ آپ کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کرچکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے اور اس کے بعد پیچھے چلا جائے اور حفاظت کا کام سنبھال لے اور دوسرا گروہ اسلحہ کے ساتھ آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے جب آ پ کے ساتھ ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے ۔اس سے نماز کی اہمیت واض۔ح ہوتی ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی اس کی ادائیگی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جہاد کی اصل روح نماز ہی ہے نیز اس سے نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے حالت جنگ میں اگر جماعت سے نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو تو پھر فرداً فرداً ادا کرناچاہئے اگر قبلہ کی طرف رخ نہ کیا جاسکتا ہو تو جس طرف بھی رخ کیا جاسکے اور اگر رکو ع اور سجدہ نہ کیا جاسکتا ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا چاہئے اور اگر ایسی حالت ہو کہ کسی طرح بھی نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو تو پھر قضا کر نی چاہئیے ۔نبی ﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر جبکہ

ღƬαsнι☣Rασ™
07-06-2012, 09:46 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng

life
08-13-2012, 02:14 AM
buhat khush rahye T R ji

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.