PDA

View Full Version : دعوت القرآن/سورۃ 2:البقرۃ


life
06-07-2011, 04:00 AM
(۲) سورہ بقرہ


(۲۸۶ آیات)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


تعارف

نام:


اس سورہ کا نام البقرہ ہے۔ یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورہ ہے جو ۲۸۶ آیتوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کی سورتوں میں نہایت وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں اس لیے ان کے نام عنوانات کے بجائے سورہ کے کسی مخصوص لفظ یا ابتدائی حروف کی مناسبت سے مقرر کئے گئے ہیں جو علامت کا کام دیتے ہیں۔ چونکہ اس سورہ میں ایک جگہ گائے کا ذکر ہے اس لیے علامت کے طور پر اس سورہ کا نام البقرہ(گائے) رکھا گیا ہے۔ سورتوں کے یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تجویز فرمائے تھے۔

زمانۂ نزول:


یہ سورہ مدنی ہے۔ اس کا بیشتر حصہ ہجرت کے متصلاً بعد مدینہ میں دو سال کے اندر نازل ہوا۔ البتہ بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئیں۔ مثلاً سود کی ممانعت سے متعلق آیتیں مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئیں لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں شامل کر دی گئیں۔ واضح رہے کہ قرآنی آیات کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوئی ہے۔


پس منظر:


ہجرت کے بعد سابقہ یہود سے پیش آیا تھا جن کی بستیاں مدینہ کے قرب و جوار میں تھیں۔ یہ لوگ توحید رسالت اور آخرت کو مانتے تھے۔ اور اصلاً ان کا دین اسلام ہی تھا۔ لیکن صدیوں کے انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے عقائد میں غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اور ان کی عملی زندگی میں بہت سی ایسی رسمیں اور طریقے رواج پا گئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے۔ اور جن کا ثبوت ان کی کتاب تورات میں نہ تھا۔ اس سورہ میں ان کو اصل دین یعنی اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے۔


مرکزی مضمون:


سورہ کا مرکزی مضمون ہدایت ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح اس سے پہلے اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ کتابیں بھیجتا رہا ہے اسی طرح اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ اس کے بغیر نہ اللہ کو ماننے کے کوئی معنی رہتے ہیں اور نہ اس کے بغیر زندگی اللہ کے رنگ میں رنگ سکتی ہے۔


نظم کلام:


نظمِ کلام کے لحاظ سے سورہ کا ابتدائی حصہ آیت ۱ تا۲۰ تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ہدایت کو کس طرح کے لوگ قبول کریں گے اور کس طرح کے لوگ قبول نہیں کریں گے۔


آیت ۲۱ تا ۲۹ میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے انہیں بندگیِ رب کی دعوت دی گئی ہے کہ ہدایت کی راہ یہی ہے نیز واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ ہدایت الٰہی سے منہ موڑتے ہیں ان کی عملی زندگی کتنی غلط ہو کر رہ جاتی ہے اور (انجام کتنا بُرا ہو گا۔ برعکس اس کے جو لوگ ہدایتِ الٰہی کو قبول کرتے ہیں ان کی عملی زندگی کس طرح سنورتی ہے۔ اور ان کا انجام کس قدر خوشگوار ہو گا۔


آیت ۳۰ تا ۳۹ میں آدم__سب سے پہلا انسان۔ کی خلافت اور شیطان کی مخالفت کی سر گذشت بیان کی گئی ہے جس سے تاریخ انسانی کا اولین باب روشن ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور بنیادی سوالات کا اطمینان بخش جواب مل جاتا ہے مثلاً یہ کہ انسانیت کا آغاز کس طرح ہوا؟ دنیا میں انسان کی پوزیشن کیا ہے؟ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی اسکیم ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ؟ انسان کی کامیابی کا دار و مدار کس بات پر ہے؟ اس سر گذشت سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اولین انسان حضرت آدم کو جو ہدایت دی گئی تھی وہ اسلام ہی تھا۔ اور وہی انسانیت کا اصل دین ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ انسان کی رہنمائی آغازِ تخلیق ہی سے فرماتا رہا ہے اور انسانیت کی بسم اللہ دین اسلام ہی سے ہوئی ہے۔


آیت ۴۰ تا ۱۲۳ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے اس ہدایت نامہ پر اور اس کے لانے والے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس ہدایت نامہ کا نزول اور آپؐ کی بعثت ٹھیک ٹھیک ان پیشین گوئیوں کے مطابق ہوئی ہے جو ان کی اپنی کتابوں تورات وغیرہ میں موجود ہیں۔ بنی اسرائیل اس زعم میں مبتلا تھے کہ نبوت ان ہی کے خاندان میں محصور ہے اور ایک ایسے نبی پر ایمان لانا جو اس خاندان سے باہر عرب کے امیوں میں پیدا ہوا ہو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے کے معاملہ میں کسی عصبیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے ورنہ آدمی ہدایتِ الٰہی سے یکسر محروم ہو جاتا ہے اگرچہ کہ وہ اپنے کو کتنا ہی دیندار سمجھتا رہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے عہد شکنیوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ ان کے اندر کیسی مجرمانہ ذہنیت پرورش پاتی رہی ہے اور کس طرح وہ ذہنی، فکر ی، اخلاقی اور عملی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ جس کا اصل سبب یہ ہے کہ انہوں نے عملاً ہدایت الٰہی سے انحراف کیا۔


بنی اسرائیل کی مذہبیت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے دین کی اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے نہ کہ مخصوص نسل یا مخصوص مذہبی فرقہ سے وابستگی پر۔


آیت ۱۲۴ تا ۱۶۷ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خانۂ کعبہ _مرکزِ توحید_کو تعمیر کرنے کی سر گذشت بیان ہوئی ہے۔ اس ضمن میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو بنی اسرائیل اور بنی اسمعٰیل دونوں خاندانوں کے جد امجد ہیں اور جن کو یہود، نصاریٰ، مشرکین مکہ اور مسلمان سب اپنا پیشوا مانتے ہیں خالصۃً ہدایت الٰہی کے پیرو تھے اور ان کا دین اسلام تھا نہ کہ یہودیت یا نصرانیت یا کوئی اور مذہب۔ اسی اسلام کی دعوت دینے اور دنیا والوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے امت وسط برپا کی ہے۔ جس کا قبلہ مسجد حرام ہے۔ اس قبلہ کو مشرکین مکہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے اہل ایمان کو جہاد کرنا پڑے گا۔ اور جان و مال کی قربانیاں دینی پڑینگی۔ ساتھ ہی واضح کیا گیا ہے کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے مظہر ہیں اور آپؐ کی دعوت مخالفتوں کے باوجود کامیاب رہے گی اور دین اسلام غالب ہو کر رہے گا۔


آیت ۱۶۸ تا ۲۴۲ میں شریعت کے احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں جو انفرادی زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اجتماعی زندگی سے بھی ، مذہبی بھی ہیں اور اخلاقی بھی، عائلی بھی ہیں اور سوشل بھی۔ یہ وہ رہنمائی ہے جو اسلام نے زندگی کے مختلف گوشوں میں کی ہے۔ موقع موقع سے بنیادی عقائد بھی پیش کئے گئے ہیں کیوں کہ ان ہی کی بدولت آدمی راہِ ہدایت پر قائم رہ سکتا ہے۔


آیت ۲۴۳ تا ۲۸۳ میں مرکز ہدایت خانۂ کعبہ کو مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کی اور اس سلسلہ میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ ساتھ ہی انفاق کی ضد یعنی سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کاروباری معاملات کو درست رکھنے کے سلسلہ میں بھی ہدایت دی گئی ہیں۔


آیت ۲۸۴ تا ۲۸۶ خاتمۂ کلام ہے۔ اس میں ان لوگوں کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ جو کسی تعصب میں مبتلا نہ تھے کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں بلکہ حق پسند تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ہدایت کی راہ کھول دی چنانچہ ان کی زبان سے وہ دعا ادا ہوئی جو ان کے احساسِ ذمہ داری کی ترجمانی کرتی ہے۔


تلاوت کی ترغیب: حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


لا تجعلوا بیوتکم مقابر ان الشیطان ینفرمن البیت الذی تُقرَئُ فیہ سورۃ البقرہ ’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ ‘‘ (مسلم)


یہ اس لیے کہ سورۂ بقرہ میں شیطان کی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے اور اس میں عائلی زندگی کے احکام بھی بیان کئے گئے ہیں نیز ایمان اور ہدایت کی راہ بخوبی واضح کی گئی ہے۔ اس لیے جس گھر میں اس کو سمجھ کر پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے گا وہاں شیطان کو فتنہ اور شر برپا کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکے گی۔

life
06-07-2011, 04:00 AM
ترجمہ


اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے


۱۔۔۔ الف۔ لام۔ میم ۱*


۲۔۔۔ یہ کتاب ۲* الہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ۳* ہے متقیوں ۴* کے لیے


۳۔۔۔ جو غیب ۵* پر ایمان ۶* لاتے ہی، نماز ۷* قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا اس میں سے خرچ ۸* کرتے ہیں۔


۴۔۔۔ جو کتاب (اے پیغمبر!) تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان ۹* لاتے ہیں۔ اور آخرت ۱۰* پر یقین رکھتے ہیں۔


۵۔۔۔ یہی ۱۱* لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح ۱۲* پانے والے ہیں۔


۶۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۱۳* ان کے لیے یکساں ہے۔ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو۱۴* ، وہ ایمان لانے والے نہیں۔


۷۔۔۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر ۱۵* لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ وہ سخت عذاب ۱۶* کے مستحق ہیں۔


۸۔۔۔ اور لوگوں میں ایسے ۱۷* بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہیں مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں۔


۹۔۔۔ وہ اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ مگر انہیں اس کا احساس نہیں ہے۔


۱۰۔۔۔ ان کے دلوں میں روگ ۱۸* ہے۔ جسے اللہ نے اور زیادہ کر دیا ہے اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔


۱۱۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد ۱۹* برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔


۱۲۔۔۔ خبردار ! یہی لوگ ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس کا احساس نہیں۔


۱۳۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ ۲۰* ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں ؟ خبردار! بے وقوف در حقیقت یہی لوگ ۲۱* ہیں۔ لیکن جانتے نہیں ہیں۔


۱۴۔۔۔ جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں سے تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔ اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں ۲۲* سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں سے تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:00 AM
۱۵۔۔۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے۔ اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دیئے جا رہا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ وہ اندھوں کی طرح بھٹکتے پھر رہے ہیں۔


۱۶۔۔۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ گمراہی مول لی لیکن نہ تو ان کا سودا نفع بخش ہوا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہو سکے۔


۱۷۔۔۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی اور جب اس سے ماحول روشن ہوا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور ان کو تاریکیوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۲۳*


۱۸۔۔۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں۔ اب یہ نہ لوٹیں گے ۲۴*


۱۹۔۔۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے۔ جس کے ساتھ کالی گھٹائیں کڑک اور بجلی بھی ہے۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں حالانکہ اللہ ان منکرین کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔


۲۰۔۔۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی بصارت اچک لے جائے۔ جب جب چمک جاتی ہے یہ چل پڑتے ہیں۔ اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں ۲۵*۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت سلب کر لیتا ۲۶*۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

life
06-07-2011, 04:01 AM
۲۱۔۔۔ اے لوگو! عبادت ۲۷* کرو اپنے رب کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں ۲۸*۔ تاکہ (دوزخ کی آگ سے) بچو۔


۲۲۔۔۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا۔ آسمان سے پانی برسایا اور اس سے پھل پیدا کر کے تمہارے رزق کا ساماں کیا۔ تو دیکھو! یہ جانتے ہوئے دوسروں کو اللہ کا ہم سر ۲۹* نہ ٹھہراؤ۔


۲۳۔۔۔ اور اگر تمھیں اس کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس کی مانند ایک سورہ ہی لے آؤ۔ ور اللہ کے وا جو تمہارے حمایتی ہیں ان سب کو بلا لو۔ اگر تم سچے ہو ۳۰*۔ (تو ایسا کر کے دکھاؤ)


۲۴۔۔۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن بنیں گے آدمی اور پتھر ۳۱* جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے۔

life
06-07-2011, 04:02 AM
۲۵۔۔۔ اور(اے پیغمبر!) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا ان کو بشارت دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں ۳۲*۔ جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کے لیے دیئے جائیں گے وہ کہیں گے کہ یہ وہی پھل ہیں جو اس سے پہلے ہمیں (دنیا میں) ملے تھے اور ا سے مشابہ ان کو عطاء کیے جائیں گے ۳۳*۔ نیز ان باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔


۲۶۔۔۔ اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے خواہ وہ مچھر کی ہو یا اس سے کمتر کسی چیز کی ۳۴*۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس تمثیل سے اللہ کا کیا مطلب ؟ (اس طرح وہ اس کے ذریعہ کتنوں ہی کو گمراہ کرتا ہے اور کتنوں ہی کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ ان ہی کو کرتا ہے جو فاسق ہیں ۳۵*۔


۲۷۔۔۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم اللہ نے دیا ہے ان کو قطع کرتے ۳۶* ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔


۲۸۔۔۔ تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو ۳۷* حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندگی بخشی، پھر وہی تم کو موت دے گا اور اس کے بعد تم کو زندہ ۳۸* کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائیے جاؤ گے۔

life
06-07-2011, 04:02 AM
۲۹۔۔۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان ۳۹* استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔


۳۰۔۔۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں ۴۰* سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ ۴۱* بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کیا تو اس میں ایسی مخلوق بنائے گا جو بگاڑ دے گا کرے گی اور خونریزیاں ۴۲* کرے گی؟ ہم تو تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۴۳*


۳۱۔۔۔ اور اسنے آدمؑ کو سارے نام ۴۴* سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کر کے کہا۔ اگر تم سچے ہو تو ۴۵* ان کے نام بتاؤ۔


۳۲۔۔۔ انہوں نے عرض کیا: پاک ہے تو۔ جو علم تو نے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی علم نہیں ، بے شک تو ہی صاحب علم اور صاحب حکمت ہے۔


۳۳۔۔۔ فرمایا: اے آدمؑ ان کو ان کے نام بتاؤ۔ جب اس نے ان کو ان کے نام ۴۶* بتائے تو اس نے فرمایا : میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں اور جو کچھ تم چھپا رہے تھے وہ بھی میرے علم میں ہے۔


۳۴۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ ۴۷* کیا مگر ابلیس ۴۸* نے نہیں کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں ۴۹* میں سے ہو گیا۔


۳۵۔۔۔ ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت ۵۰* میں رہو اور اس میں جو چاہو بفراغت کھاؤ۔ مگر اس درخت ۵۱* کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

life
06-07-2011, 04:02 AM
۳۶۔۔۔ لیکن شیطان نے ان کو پھسلا ۵۲ * دیا اور جس عیش میں وہ تھے اس سے ان کو نکلوا چھوڑا۔ ہم نے کہا۔ تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ۵۳* ہو اور تمہیں ایک وقت خاص تک زمین میں رہنا اور گزر بسر کرنا ہے۔


۳۷۔۔۔ پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) چند کلمات سیکھ لیے تو اس کے رب نے اس کی توبہ ۵۴*قبول کی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔


۳۸۔۔۔ ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ ۵۵*۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت ۵۶* تمہارے پاس آئے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ۵۷* ہوں گے۔


۳۹۔۔۔ لیکن جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں ۵۸* کو جھٹلائیں گے وہ آگ والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔


۴۰۔۔۔ اے بنی اسرائیل ۵۹* ! یاد کرو میری اس نعمت ۶۰* کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد ۶۱* کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ ۶۲*

life
06-07-2011, 04:03 AM
۴۱۔۔۔ اور میں نے جو کتاب اتاری ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ تصدیق ۶۳*کرتی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس موجود ہے لہذا تم سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیتوں کو حقیر قیمت ۶۴* پر بیچ نہ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔


۴۲۔۔۔ حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپاؤ۔


۴۳۔۔۔ نماز ۶۵ * قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع ۶۶* کرو


۴۴۔۔۔۔ کیا لوگوں کو تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔


۴۵۔۔۔ صبر اور نماز سے مدد لو۔ بیشک یہ شاق ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو خشوع ۶۷* اختیار کرنے والے ہیں۔


۴۶۔۔۔ جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

life
06-07-2011, 04:03 AM
۴۷۔۔۔ اے بنی اسرائیل ! یاد کرو ۶۸* میری اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں اقوام عالم پر فضیلت ۶۹* عطا کی تھی۔


۴۸۔۔۔ اور اس دن سے ڈرو جب کوئی نفس کی نفس کے کچھ کام نہ آئے گا، اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی، نہ اس سے فدیہ لیا جائے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔


۴۹۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات بخشی انہوں نے تم کو برے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔


۵۰۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہیں اس میں سے گزار دیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے۔


۵۱۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ۷۰* مقرر کیا۔ پھر موسیٰ کے پیچھے تم بچھڑے ۷۱*کو معبود بنا بیٹھے اس طرح تم ظلم کے مرتکب ہوئے۔


۵۲۔۔۔ اس پر بھی ہم نے تم سے درگزر کیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔

life
06-07-2011, 04:03 AM
۵۳۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان ۷۲* عطا کی تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔


۵۴۔۔۔ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنے (مجرموں) کو قتل کرو ۷۳*۔


یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں بہتر ۷۴* ہے پس اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔


۵۵۔۔۔ یاد کرو جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم آپ کی بات ماننے والے نہیں ہیں جب تک کہ ہم خدا کو کھل کھلا دیکھ نہ لیں اس وقت تم کو کڑک نے آ لیا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے ۷۵*۔


۵۶۔۔۔ پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد جلا اٹھایا تاکہ تم شکر گزار بنو۔


۵۷۔۔۔ ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ ۷۶* اتارا کھاؤ ان پاک چیزوں کو جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں۔ مگر انہوں نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتے رہے۔

life
06-07-2011, 04:03 AM
۵۸۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے کہا تھا اس بستی ۷۷* میں داخل ہو جاؤ اور جہاں سے چاہو بفراغت کھاؤ اور دروازے ۷۸* میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو اور حِطۃ ۷۹ * (اے رب ! ہمارے گناہ بخش دے) کہو۔ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور حسن و خوبی کے ساتھ حکم کی تعمیل کرنے والوں کو ہم مزید فضل سے نوازیں گے۔


۵۹۔۔۔ مگر جو بات کہی گئی تھی اسے ظالموں نے دوسری بات سے بدل دیا۔ آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں آسمان سے عذاب نازل کیا۔


۶۰۔۔۔ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا ۸۰* کی توہم نے کہا اپنا عصا پتھر پر مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے ۸۱* پھوٹ نکلے ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ کھاؤ اور پیو الہ کے رزق میں سے اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔


۶۱۔۔۔ یاد کرو جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کریں گے۔ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین کے نباتات مثلاً سبزیاں ، ککڑیاں ، لہسن، مسور، پیاز وغیرہ پیدا کرے۔ موسیٰ نے کہا م اعلیٰ چیز کے بدلہ میں ادنیٰ ۸۲* چیز حاصل کرنا چاہتے ہو؟ کسی شہر میں اتر جاؤ تمہیں وہاں اپنی مطلوبہ چیزیں ملیں گی اور ان پر ذلت اور پستی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل ۸۳* کرتے تھے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس کا کہ وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تھے۔ ۸۴*

life
06-07-2011, 04:04 AM
۶۲۔۔۔ بے شک جو ایمان ۸۵* لائے اور جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابی ۸۶* جو بھی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو ایسے لوگوں کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان کے لیے نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ۸۷*


۶۳۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر تم سے پختہ ۸۸* لیا تھا (اور تاکید کی تھی کہ) جو کتاب ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو ہدایت اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھو تاکہ اللہ کے غضب سے بچو۔


۶۴۔۔۔ پھر اس قول و قرار کے بعد تم اپنے عہد سے پھر گئے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم تباہ ہو چکے ہوتے۔


۶۵۔۔۔ اور ان لوگوں کا قصہ تو تمہیں معلوم ہی ہے جو سبت ۸۹* کے معاملہ میں زیادتی کے مرتکب ۹۰* ہوئے تھے اور اس کی پاداش میں ہم نے ان سے کہہ دیا کہ ذلیل بندر بن جاؤ۔


۶۶۔۔۔ اس طرح ہم نے اس زمانہ کے لوگوں اور بعد کے آنے والوں کے لیے اس کو نمونۂ عبرت بنایا نیز متقیوں کے لیے نصیحت۔


۶۷ اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں ؟ موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہل بن جاؤ۔

life
06-07-2011, 04:04 AM
۶۸۔۔۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے دعا کیجئے وہ ہمیں واضح طور پر بتائے کہ گائے کیسی ہونی چاہئے۔ موسیٰ نے کہا وہ فرماتے ہے کہ گائے نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا۔ اوسط عمر کی ہو۔ پس جو حکم دیا جا رہا ہے اس کی تعمیل کرو۔


۶۹۔۔۔ کہنے لگے اپنے رب سے دعا کیجئے وہ یہ واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ نے کہا وہ فرماتا ہے گائے زرد رنگ کی ہو ایسے شوخ رنگ کی کہ دیکھنے والے خوش ہو جائیں۔


۷۰۔۔۔ بولے اپنے رب سے دعا کیجئے وہ اچھی طرح واضح کرے کہ وہ گائے کیسی ہونی چاہئے۔ گائے کی تعین میں ہمیں اشتباہ ہو گیا ہے اور انشاء اللہ ہم اس کا پتہ پا لیں گے۔


۷۱۔۔۔ موسیٰؑ نے کہا وہ فرماتا ہے گائے ایسی ہو جس سے خدمت نہ لی جاتی ہو زمین جوتنے کی اور نہ آبپاشی کی۔ صحیح سالم اور بے داغ ہو ۹۱*۔ کہنے لگے اب آپ واضح بات ۹۲* لائے۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرنے پر آمادہ نہ تھے۔


۷۲۔۔۔ اور یاد کرو جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا تھا پھر اس کے بارے میں ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے اور اللہ چاہتا تھا کہ جو بات تم چھپا رہے ہو اس کو ظاہر کر کے رکھ دے۔

life
06-07-2011, 04:04 AM
۷۳۔۔۔ چنانچہ ہم نے کہا اس (مقتول کی لاش) کو اس (گائے) کے ایک حصہ سے ضرب ۹۳* لگاؤ۔ اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۹۴*۔


۷۴۔۔۔ ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بھی تمہارے دل سخت ہو گئے پتھروں کو دیکھنے کے بعد بھی زیادہ سخت کیونکہ بعض پتھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی جاری ہو جاتا ہے ۹۵* اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔


۷۵۔۔۔ کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ اللہ کا کلام سنتا رہا ہے اور اس کو سمجھ چکنے کے بعد دانستہ اس میں تحریف ۹۶* کرتا رہا ہے۔


۷۶۔۔۔ جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اور جب اکیلے میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تم ان کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے خلاف حجت کریں ۹۷ * ؟ کیا تم سمجھتے نہیں ؟


۷۷۔۔۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو وہ چھپاتے ہیں اور ان باتوں کو بھی جن کو وہ ظاہر کرتے ہیں۔


۷۸۔۔۔ اور ان میں ان پڑھ ۹۸* لوگ بھی ہیں جو کتابِ الٰہی کا علم نہیں رکھتے بلکہ آرزوؤں ۹۹* کو لیے بیٹھے ہیں اور صرف اٹکل کی باتیں کرتے ہیں۔
a

life
06-07-2011, 04:04 AM
۷۹۔۔۔ پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں ۱۰۰* پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی قیمت ۱۰۱* وصول کر لین۔ تو ان کے ہاتھ کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا باعث ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت ۱۰۲*۔


۸۰۔۔۔ وہ کہتے ہیں (دوزخ کی) آگ ہمیں چھوٹے گی نہیں اِلا یہ کہ گنتی کے چند ۱۰۳ * دنوں کے لیے آگ میں ڈالے جائیں۔ ان سے پوچھو کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔


۸۱۔۔۔ کیوں نہیں ؟ جس نے بھی برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اس کو گھیرے میں لے لیا تو ایسے ہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔


۸۲۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ جنت والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔


۸۳۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ

life
06-07-2011, 04:05 AM
۸۳۔۔۔ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا والدین ۱۰۴* ، قرابت داروں ، یتیموں ور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے اچھی ۱۰۵* بات کہنا ، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس سے بر گشتہ ہو گئے اور منہ موڑنا تو تمہارا شیوہ ہی ہے۔


۸۴۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا کہ ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ گے اور نہ ایک دوسرے کو ان کی بستیوں سے نکالو گے۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم اس پر گواہ ہو۔


۸۵۔۔۔ مگر یہ تم ہی لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو اور گناہ و زیادتی کے ساتھ ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو۔ اگر وہ تمہارے پاس ایسر ہو کر آتے ہیں تو فدیہ دے کر انہیں چھڑا ۱۰۶* لیتے ہو۔ حالاں کہ سرے سے ان کو (ان کے گھروں سے) نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ پھر کیا تم کتابِ الٰہی کے ایک حصے کو مانتے ہو اور دوسرے حصے سے انکار کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ اس کے مرتکب ہوں ان کی سزا ۱۰۷* اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں وہ رسوا ہو اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ؟ اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔


۸۶۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیوی زندگی خرید لی ۱۰۸*۔ لہذا نہ تو ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ وہ کہیں سے مدد پا سکیں گے۔

life
06-07-2011, 04:05 AM
۸۷۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے اور عیسیٰ ابن مریم کو کھلی نشانیاں ۱۰۹* دیں اور روح القدوس ۱۱۰* (پاک روح) سے اس کی مدد کی پھر تمہارا یہ کیا شیوہ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی بات لے کر آیا تم نے تکبر ہی کیا ؟ کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔


۸۸۔۔۔ وہ کہتے ہیں ہمارے دل بند ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر دی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔


۸۹۔۔۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک کتاب آئی تصدیق کرتی ہوئی اس کی جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے اور اس سے پہلے وہ کافروں کے مقابلہ میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے لیکن جب وہ چیز ان کے پاس آ گئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا ۱۱۱*۔ اللہ کی لعنت ہو ایسے منکرین پر۔


۹۰۔۔۔ کیا ہی بری چیز ہے جس کے بدلہ انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا کہ ضد میں آ کر وہ اللہ کی نازل کردہ ہدایت کا محض اس بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اپنے جس بندے ۱۱۲* کو چاہا نوازا۔ لہذا یہ غضب در غضب کے مستحق ہوئے اور کافروں کے لیے سخت رسوا کن عذاب ہے۔

life
06-07-2011, 04:05 AM
۹۱۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے س پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی ہے اس کے علاوہ جو کچھ نازل ہوا ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور جو کچھ ان کے پاس موجود ہے اس کی ۱۱۳* وہ تصدیق کرتا ہے۔ ان سے کہو پھر تم اللہ کے پیغمبروں کو اس سے پہلے کیوں قتل کرتے رہے اگر تم مومن ۱۱۴* ہو؟


۹۲۔۔۔ تمہارے پاس موسیٰ کھلی کھلی نشانیاں لے آئے تھے پھر بھی تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کے معبود بنا لیا اور تم ظلم ڈھانے والے بنے۔


۹۳۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور حکم دیا تھا کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور سنو۔ انہوں نے کہا ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور ان کے کفر کے سبب بچھڑے کی پرستش ان کے دلوں میں ر بس گئی۔ ان سے کہو اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تم کو کیسی بری حرکتوں کا حکم دیتا ہے۔


۹۴۔۔۔ ان سے کہو اگر آخرت کا گھر تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے مخصوص ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم (اپنے دعوے میں)سچے ہو۔


۹۵۔۔۔ مگر انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے اس کی وجہ سے وہ ہر گز اس کی تمنا نہ کریں گے۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

life
06-07-2011, 04:06 AM
نازل کی ہیں اور ان کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو فاسق ہیں ۱۱۸*


۱۰۰۔۔۔ کیا ان کی یہ روش نہیں رہی ہے کہ جب کبھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان کے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور اٹھا کر پھینک دیا حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔


۱۰۱۔۔۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول اس (کتاب) کی تصدیق کرتا ہوا آیا جو ان کے پاس موجود ہے تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی تاب کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ گویا وہ جانتے ہی نہیں۔


۱۰۲۔۔۔ اور ان چیزوں کے پیچھے پڑ گئے جو شیاطین سلیمان کی حکومت کی طرف منسوب کر کے پڑھتے پڑھاتے ۱۱۹* تھے۔ حالانکہ سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو ۱۲۰* سکھاتے تھے اور بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر (جادو) نازل نہیں یا گیا تھا اور وہ کسی کو سکھاتے نہ تھے جب تک کہ اس کو متنبہ نہ کرتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں لہذا تم کفر میں نہیں پڑنا۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ۱۲۱* حالانکہ وہ اذن الٰہی کے بغیر کسی کو بھی اس کے ذریعہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔ مگر وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے حق میں نفع بخش نہیں تھی بلکہ نقصان دہ تھی اور انہیں معلوم تھا کہ جس نے اسے خریدا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلہ انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا کاش کہ وہ جان لیتے۔

life
06-07-2011, 04:07 AM
۱۰۳۔۔۔ اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا وہ کہیں بہتر تھا۔ کاش انہیں علم ہوتا۔


۱۰۴۔۔۔ اے ایمان لانے والو! ’’رعنا ‘‘۱۲۲* نہ کہا کرو بلکہ ’’اُنْظرنا‘‘ کہا کرو اور توجہ سے سنا کرو۔ رہے کافر تو ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔


۱۰۵۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا خواہ وہ اہل کتاب ہو یا مشرک نہیں چاہتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی خیر نازل ہو لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کرتا ہے اللہ بڑے فضل والا ہے۔


۱۰۶۔۔۔ ہم جس حکم کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند دوسرا حکم لے آتے ہیں ۱۲۳* کیا تمہیں معلوم کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

life
06-07-2011, 04:07 AM
۱۰۷۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے کہ زمین اور آسمانوں کی فرماں روئی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مددگار؟


۱۰۸۔۔۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اس طرح کے سوالات کرو جس طرح کے سوالات ۱۲۴* اس سے پہلے موسیٰ سے کئے گئے تے اور جو شخص ایمان کو کفر سے بدل دے وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔


۱۰۹۔۔۔ بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف پلٹا لے جائیں محض اپنے نفس کے حسد کی بنا پر جب کہ حق ان پر اچھی طرح واضح ہو چکا ہے تو عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے یقین جانو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔


۱۱۰۔۔۔۔ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ جو نیکی بھی تم اپنی عاقبت کے لیے کرو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے جو کچھ تم کر رہے ہو وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔

life
06-07-2011, 04:07 AM
۱۱۱۔۔۔ وہ کہتے ہیں جنت میں نہیں داخل ہوں گے مگر وہ جو یہودی ہیں یا نصرانی۔ یہ محض ان کی تمنائیں ۱۲۵* ہیں کہو اس بات پر دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔


۱۱۲۔۔۔ کیوں نہیں جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور نیک روی اختیار کرے اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگیں ۱۲۶* ہو گے۔


۱۱۳۔۔۔ یہود کہتے ہیں نصاریٰ کچھ نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں یہود کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ایسی ہی بات وہ لوگ بھی کہتے ہیں جن کو (کتاب کا) علم ۱۲۷* نہیں ہے۔ تو اللہ قیامت کے دن ان کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے ۱۲۸* گا۔


۱۱۴۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کرنے سے روکے ۱۲۹* اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگوں کو ان (مسجدوں) میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے اِلا یہ کہ ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی عذاب عظیم ۱۳۰*


۱۱۵۔۔۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے مشرق و مغرب ۱۳۱* جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا رخ ۱۳۲* ہے اللہ بڑی وسعت والا ۱۳۳* اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

life
06-07-2011, 04:07 AM
۱۱۶۔۔۔ وہ کہتے ہیں اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے بلکہ آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اسی کی ملک ہیں۔ سب اسی کے تابع فرمان ہیں ۱۳۴*


۱۱۷۔۔۔ وہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔


۱۱۸۔۔۔ جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ۱۳۵*


ان سے پہلے کے لوگ بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔ ان سب کے دل (ذہن) ایک جیسے ہیں۔ یقین کرنے والوں کے لیے ہم نے نشانیاں اچھی طرح واضح کر دی ہیں۔


۱۱۹۔۔۔ (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے اور تم سے دوزخیوں کے بارے میں پرسش نہیں ہو گی۔ ۱۳۶*

life
06-07-2011, 04:07 AM
۱۲۰۔۔۔ تم سے نہ یہودی راضی ہونے والے ہیں اور نہ نصاریٰ جب تک کہ تم ان ہی کے طریقہ پر نہ چلو۔ ان سے کہو اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے ان کی خواہشات کی پیرو کی تو تمہارے لیے اللہ کی گرفت سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ مدد گار۔


۱۲۱۔۔۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ ایسے لوگ قرآن پر ایمان لاتے ہیں ۱۳۷* اور جو اس کا انکار کریں گے وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔


۱۲۲۔۔۔ اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور یہ کہ میں نے تمہیں اقوام عالم پر فضیلت عطا کی۔


۱۲۳۔۔۔ اور اس دن سے ڈرو جب کوئی نفس کسی نفس کے کام نہ آئے گا نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کسی کو کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

life
06-07-2011, 04:08 AM
۱۲۴۔۔۔ اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا ۱۳۸* الہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے ؟ فرمایا میرا یہ عہد ۱۳۹* ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے جو ظالم ہوں گے ۱۴۰*۔


۱۲۵۔۔۔ اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو ۱۴۱* کو لوگوں کے لیے مرکز اور جائے امن بنا دیا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو اور ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف کرنے ۱۴۲* والوں ، اعتکاف کرنے ۱۴۳* والوں اور رکوع اور سجدہ ۱۴۴* کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ۱۴۵*


۱۲۶۔۔۔ اور جب ابراہیم نے دعا کی اے میرے رب اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے ان کو پھلوں ۱۴۶* کا رزق دے۔ فرمایا جو کفر کریں گے انہیں بھی چند روز سامان زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دوں گا پھر انہیں دوزخ کے عذاب کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔


۱۲۷۔۔۔ اور جب ابراہیم اسماعیل بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما تو خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔

life
06-07-2011, 04:08 AM
۱۲۸۔۔۔ اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم۱۴۷* (فرمانبردار) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت برپا کر جو تیری مسلم *۱۴۸ (فرمانبردار) ہو اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔


۱۲۹۔۔۔ اے ہ،ارے رب ! ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیتیں سنائے اور انکو کتاب اور حکمت کی تعلی دے اور ان کا تزکیہ کرے ۱۴۹*،بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے ۱۵۰*


۱۳۰ ۔۔۔ اور ابراہیم کے طریقہ سے اعراض اس شخص کے سوا اور کون کر سکتا ہے جس نے اپنے کو حماقت ۱۵۱* میں مبتلا کر لیا ہو؟ ہم نے اس کو دنیا میں بھی چن لیا تھا اور آخرت میں بھی صالحین کے زمرے میں ہو گا۔


۱۳۱۔۔۔ جب اس کے رب نے اس سے کہا مسلم ہو جاتو اس نے کہا میں رب العالمین کا مسلم ۱۵۲* (فرمانبردار) ہو گیا۔


۱۳۲۔۔۔ اور ابراہیم نے اسی طریقہ پر چلنے کی وصیت اپنے بیٹوں کو کی تھی اور یہی وصیت یعقوب اپنے بیٹوں کو کر گیا۔ اے میرے بیٹو!اللہ نے تمہارے لیے یہی دین (اسلام ۱۵۳*) پسند کیا ہے لہذا مرتے دم تک تم مسلم ہی ۱۵۴* رہنا۔

life
06-07-2011, 04:08 AM
۱۳۳۔۔۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کی گھڑی آئی؟ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟انہوں نے جواب دیا ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے مسلم (اطاعت گزار) ہیں۔


۱۳۴۔۔۔ یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا۔ جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارے لیے ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں س کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ۱۵۵*


۱۳۵۔۔۔ وہ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ کہو بلکہ ابراہیم کا طریقہ (ہم نے اختیار کیا) جو یکسوئی کے ساتھ اللہ کا ہو کر رہا تھا اور مشرکین میں سے نہ تھا۔


۱۳۶۔۔۔ کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور جو ابراہیم، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اسباط (یعقوب کی نسل) کی طرف نازل کی گئی تھی اور جو موسیٰ اورعیسیٰ اور تمام نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے ملی تھی ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے ۱۵۶* اور ہم اللہ ہی کے مسلم (مطیع) ہیں۔

life
06-07-2011, 04:08 AM
۱۳۷۔۔۔ پھر اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم لائے ہو تو وہ ہدایت یاب ہوں گے اور اگر وہ روگردانی کریں تو (سمجھ لو کہ) وہ مخالفت میں پڑ گئے ہیں۔ پس ان کے مقابلہ میں اللہ تمہارے لیے کافی ہو گا وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔


۱۳۸۔۔۔ کہو ہم نے اللہ کا رن اختیار کیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہو گا ۱۵۷* ؟ اور ہم تو اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔


۱۳۹۔۔۔ کہو کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے حجت کرتے ہو حالانکہ وہ ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہم خالص اسی کے لیے ہیں۔


۱۴۰۔۔۔ کیا پھر تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم، اسماعیل ، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب سب یہودی یا نصرانی تھے ۱۵۸* کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گاجس کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی شہادت ہو اور وہ اس کو چھپائے ۱۵۹* تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ غافل نہیں ہے۔


۱۴۱۔۔۔ یہ ۱۶۰* ایک گروہ تھا جو گر گیا۔ ان لوگوں نے جو کچھ کمایا وہ ان کے لیے ہے اور تم نے جو کچھ کمایا ۱۶۱ * وہ تمہارے لیے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا۔

life
06-07-2011, 04:08 AM
۱۴۲۔۔۔ نادان لوگ ضرور کہیں گے کہ انہیں (مسلمانوں کو) اس قبلہ ۱۶۲* سے، جس پر یہ پہلے تھے، کس چیز نے رو گرداں ۱۶۳*کر دیا۔ کہو مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ ۱۶۴*


۱۴۳۔۔۔ اور ۱۶۵* اسی طرح ہم نے تمہیں ’’امت وَسط ۱۶۶* بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۱۶۷* تم جس قبلہ پر تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۱۶۸* جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے ۱۶۹* اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ۱۷۰* اللہ تو لوگوں کے حق میں بڑا شفیق و رحیم ہے ۱۷۱*۔


۱۴۴۔۔۔ (اے پیغمبر!) ہم تمہارے منہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھتے رہے ہیں ۱۷۲* لہذا ہم تمہیں اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس کو تم پسند کرتے ہو۔ اب تم اپنا رخ مسجد حرام۱۷۳* کی طرف پھیر لو اور (مسلمانو!) جہاں کہیں بھی تم ہم اپنا رخ اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ برحق ہے اور ان کے رب ہی کی طرف ۱۷۴* سے ہے یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے۔


۱۴۵۔۔۔ اور اگر تم اہل کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانیاں پیش کر دو تب بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہو۔ اور نہ ان کا ایک گروہ دوسرے گروہ کے قبلہ کی پیروی کرنے والا ہے ۱۷۵* اور اگر تم نے اس علم ۱۷۶* کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یقیناً تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

life
06-07-2011, 04:09 AM
۱۴۶۔۔۔ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۱۷۷* البتہ ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے


۱۴۷۔۔۔ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے لہذا تم ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ ۱۷۸*


۱۴۸۔۔۔ ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے تو تم نیک کاموں میں سبقت کرو جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تم سب کو جمع کرے گا۔ یقین جانو اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔


۱۴۹۔۔۔ اور جہاں کہیں سے بھی تم نکلو ۱۷۹* اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کر لو، بیشک یہ حق ہے تمہارے رب کی جانب سے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ ۱۸۰*۔۔۔


۱۵۰۔۔۔ اور تم جہاں کہیں سے بھی نکلو اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف کر لو، اور جہاں کہیں بھی تم ہو اپنا رخ اسی کی جانب کر لو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے ، مگر جو ان میں سے ظالم ہیں تو ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت تمام کروں اور تاکہ تم راہ یاب ہو۔ ۱۸۱*۔۔۔

life
06-07-2011, 04:09 AM
۱۵۱۔۔۔ چنانچہ ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیتیں سناتا ہے، تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔


۱۵۲۔۔۔ لہذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا ۱۸۲* اور میرا شکر ادا کرو ناشکری نہ کرو۔


۱۵۳۔۔۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو ۱۸۳* بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۱۸۴*


۱۵۴۔۔۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔ ۱۸۵*


۱۵۵۔۔۔ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کسی قدر خوف، فاقہ ، جان و مال اور پھلوں کے نقصان سے ۱۸۶* اور خوشخبری دے دو صبر کرنے والوں کو،


۱۵۶۔۔۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۱۸۷*


۱۵۷۔۔۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمت ہو گی۔ اور یہی لوگ راہ یاب ہیں۔


۱۵۸۔۔۔ بے شک صف ۱۸۸* اور مروہ ۱۸۹* اللہ کے شعائر ۱۹۰* (نشانیوں) میں سے ہیں۔ لہذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرو ۱۹۱* کرے اس کے لیے ان کا طواف (سعی) کرنے میں گناہ کی کوئی بات نہیں ہے اور جو شخص خوش دلی کے ساتھ نیکی کرے گا تو اللہ قدر کرنے والا اور جاننے والا ہے۔


۱۵۹۔۔۔ جو لوگ ہماری نازل کردہ واضح نشانیوں ۱۹۲* اور ہدایت کو چھپاتے ہیں درآنحالیکہ ہم انہیں کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر کے ہیں یقین جانو اللہ ان پر لعنت ۱۹۳* کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔


۱۶۰۔۔۔ البتہ جن لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور بیان کر دیا ان کی توبہ میں قبول کروں گا میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔


۱۶۱۔۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے ان پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہ۔


۱۶۲۔۔۔ وہ اس (لعنت) میں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ان کو مہلت ہی ملے گی۔

life
06-07-2011, 04:09 AM
۱۶۳۔۔۔ اور تمہارا ۱۹۴* الہ ہے اس رحمن و رحیم ۱۹۵* کے سوا کوئی الٰہ (معبود) نہیں۔


۱۶۴۔۔۔ بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت ۱۹۶* میں ، رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں ، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے لیے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں ، اس پانی میں جو اللہ نے اوپر سے برسایا اور جس سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد ۱۹۷* زندگی بخشی اور جس کے ذریعہ اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر (تابع فرمان) ہیں ۱۹۸* ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ۱۹۹* ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔


۱۶۵۔۔۔ مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کا ہم سر(برابری کا) ٹھہراتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنا چاہئے حالانکہ اہل ایمان اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت ۲۰۰* رکھتے ہیں اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ سکتے جب کہ یہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو انہیں اچھی طرح معلوم ہو جاتا کہ ساری قوت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔


۱۶۶۔۔۔ اس وقت (پیشوا اور لیڈر) جن کی پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے اظہار برأت ۲۰۱* کریں گے اور عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے باہمی تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔


۱۶۷۔۔۔ اور ان کے پیرو کہیں گے کہ کاش ہمیں ایک موقع (دنیا میں جانے کا) اور دیا جاتا تو ہم بھی اسی طرح ان سے اظہار برأت کیا ہے۔ اس طرح اللہ ان کے اعمال کو موجب حسرت بنا کر ان کو دکھائے گا اور وہ آتش جہنم سے ہرگز نہ نکل سکیں گے۔


۱۶۸۔۔۔ لوگو! ۲۰۲* زمین جو حلال و طیب ۲۰۳* چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ۲۰۴* فی الواقع وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔


۱۶۹۔۔۔ وہ تو تمہیں برائی اور بے حیائی ہی کا حکم دے گا اور اس بات کا کہ اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کا تمہیں علم نہیں ہے ۲۰۵*


۱۷۰۔۔۔ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں ہم اسی طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اس صورت میں بھی یہ ان کی پیروی کریں گے جبکہ ان کے باپ دادا نہ عقل سے کام لیتے رہے ہوں ، اور نہ انہوں نے ہدایت پائی ہو ! ۲۰۶*

life
06-07-2011, 04:09 AM
۱۷۱۔۔۔ ان منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص جانوروں کو پکارے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہیں سنتے ۲۰۷* یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اس لیے کچھ نہیں سمجھ پاتے۔


۱۷۲۔۔۔ اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں ان کو کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو ۲۰۸*


۱۷۳۔۔۔ اس نے تم پر حرام ٹھہرایا ہے صرف ۲۰۹* مراد ۲۱۰* خون ۲۱۱* سور ۲۱۲* کا گوشت اور وہ (ذبیحہ) جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو ۲۱۳* البتہ جو شخص مجبور ہو جاۓ اور نہ تو اس کا خواہشمند ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۲۱۴* اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔


۱۷۴۔۔۔ بے شک جو لوگ ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کی ہیں ۲۱۵* اور ان کے بدلے حقیر قیمت وصول کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۲۱۶* اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ۲۱۷*۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔


۱۷۵۔۔۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ گمراہی اور مغفرت کے بدلہ عذاب خریدا۔ تو یہ آتش جہنم (میں جلنے) کے لیے کتنے بڑے حوصلہ کا ثبوت دے رہے ہیں ۲۱۸*


۱۷۶۔۔۔ یہ اس لیے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی لیکن جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ مخالفت میں بہت دور نکل گۓ ۲۱۹ *


۱۷۷۔۔۔ نیکی ۲۲۰* یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ، یوم آخر ، ملائکہ ۲۲۱* کتاب الٰہی اور نبیوں پر ایمان ۲۲۲* لاۓ اور اپنا مال اس کی محبت میں قرابت داروں یتیموں ، مسکینوں مسافروں اور مانگنے والوں ۲۲۳* پر نیز گردنیں چھڑانے ۲۲۴* میں خرچ کرے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ *۲۲۵ دے۔ جب عہد کرے تو اسے پورا کرے اور تنگی و تکلیف میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم ۲۲۶* رہے یہی لوگ ہیں جو سچے ثابت ہوۓ اور یہی لوگ در حقیقت متقی ہیں۔

life
06-07-2011, 04:09 AM
۱۷۸۔۔۔ اے ایمان لانے والو ! مقتولوں کے بارے میں تمہیں قصاص ۲۲۷* (خون کا بدلہ لینے برابری) کا حکم دیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد ، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ۲۲۸* البتہ قاتل کو اس کے ۲۲۹ *بھائی کی طرف سےکچھ رعایت مل جاۓ تو معروف طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور خوبی کے ساتھ (خون بہا) ادا کرنا چاہیے ۲۳۰* یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔


۱۷۹۔۔۔ اور اے عقل والو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ۲۳۱* ہے (اور اس لیے اس کا حکم دیا گیا ہے) تاکہ تم (حدود الٰہی کی خلاف ورزی سے) بچو۔


۱۸۰۔۔۔ تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں کسی کی موت کا وقت آ جاۓ اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف *۲۳۲ طریقہ پر وصیت ۲۳۳* کر جاۓ۔ یہ حق ہے متقیوں (اللہ سے ڈرنے والوں) پر۔


۱۸۱۔۔۔ پھر جو لوگ وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالیں تو اس کا گناہ بدل ڈالنے والوں ہی پر ہو گا۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔


۱۸۲۔۔۔ البتہ جس کو وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری یا گناہ (حق تلفی) کا اندیشہ ہو اور وہ ان کے درمیان مصالحت کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ۲۳۴* بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔

life
06-07-2011, 04:10 AM
۱۸۳۔۔۔ اے ایمان والو ! تم پر روزے۲۳۵* فرض کیے گۓ جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے ۲۳۶* گۓ تھے تاکہ تم متقی بنو ۲۳۷*


۱۸۴۔۔۔ گنتی کے چند دن ہیں ۲۳۸* اور جو شخص مریض ہو یا سفر۲۳۹* میں ہو تو وہ دوسے دنوں میں یہ تعداد پوری کر لے اور جن لوگوں کے لیے روزہ رکھنا دشوار ہو وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ میں دے دیں ۲۴۰* پھر جو کوئی اپنی خوشی سے مزید بھلائی کرے تو یہ اس کے حق میں بہتر ۲۴۱* اور تمہارا روزہ رکھنا ہی تمہارے لیے بہتر۲۴۲* ہے اگر تم سمجھو۔


۱۸۵۔۔۔ رمضان کا مہینہ ۲۴۳* جس میں قرآن نازل کیا گیا وہ انسانوں کے لیے ہدایت ۲۴۴* ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو راہ ہدایت کو واضح کرنے والے اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والے ہیں۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پاۓ وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر لے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا ۲۴۵* اور تاکہ تم (روزوں کی) تعداد پوری کر لو اور اس کی کبریائی ۲۴۶* بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت سے نوازا۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔


۱۸۶۔۔۔ اور جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو (نہیں بتا دو کہ) میں ان سے قریب ۲۴۷* ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب ۲۴۸* دیت ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ راہ راست پائیں۔

life
06-07-2011, 04:10 AM
۱۸۷۔۔۔ تمہارے لیے روزے کی راتوں میں پنی بیویوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۲۴۹* اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر عنایت کی اور تم سے در گزر فرمائی۔ اب تم ن سے اختلاط کرو ۲۵۰* اور اللہ نے تمہارے لیے جو مقدر کر رکھا ہے اسے طلب کرو ۲۵۱* اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تم کو فجر کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سےنمایاں ۲۵۲* نظر آنے لگے۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف ۲۵۳* میں ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کے (مقرر کردہ) حدود ہیں ، ان کے پاس نہ پھٹکو ۲۵۴* اس طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔


۱۸۸۔۔۔ اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال نا روا طریقہ سے نہ کھاؤ ۲۵۵* اور نہ اس کو حکام کے آگے اس غرض سے پیش کرو ۲۵۶* کہ جانتے بوجھتے۲۵۷* دوسروں کے مال کا کوئی حصہ حق تلفی کر کے کھانے کا تمہیں موقع ملے۔


۱۸۹۔۔۔ وہ تم سے ہلال ۲۵۸* کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین اور (خاص طور سے) حج کی تاریخوں کی تعین کا ذریعہ ہے۔ اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی تقویٰ ۲۵۹* اختیار کرے ، گھروں میں تم ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو، اور اللہ سےڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔


۱۹۰۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ۲۶۰* ہیں مگر زیادتی نہ کرو ۲۶۱* اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔


۱۹۱۔۔۔ اور ان کو جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو ۲۶۲* اور ان کو وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے کہ فتنہ۲۶۳* قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور مسجد حرام کے پاس۲۶۴* ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے وہاں نہ لڑیں ، ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔


۱۹۲۔۔۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں ۲۶۵* تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔


۱۹۳۔۔۔ اور ان سے لڑو ۲۶۶* یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جاۓ ۲۶۷* اور اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے سوا کسی کے خلاف اقدام روا نہیں۔ ۲۶۸*

life
06-07-2011, 04:10 AM
۱۹۴۔۔۔۔۔ ماہ حرام ۲۶۹* (میں جنگ کی حرمت) اسی صورت میں ہے جبکہ وہ بھی حرام (کی حرمت) کو ملحوظ رکھیں ۲۷۰* اور حرمتوں کے معاملہ میں برابری کا لحاظ کیا جاۓ گا ۲۷۱* لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس کی زیادتی کا جواب اسی کے برابر دو۔ اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ ان ہی لوگوں کےساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔


۱۹۵۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو ۲۷۲* اور اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۲۷۳* اور (انفاق کا) یہ کام حسن و خوبی کے ساتھ کرو کہ اللہ حسن و خوبی کےساتھ کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔


۱۹۶۔۔۔ حج اور عمرہ ۲۷۴* کو اللہ کے لیے پورا کرو ۲۷۵* اور اگر تم گھر جاؤ تو جو ھَدْی (قربانی کا جانور ۲۷۶*) اپنے مقام پر نہ پہنچ جاۓ ۲۷۷* البتہ جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی قسم کی تکلیف ہو تو وہ روزے ، صدقہ یا قربانی کی شکل میں فدیہ دے ۲۷۸* پھر جب تم امن کی حالت میں ہو تو جو کوئی حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھاۓ وہ جو قربانی میسر ہو پیش کرے ۲۷۹* اور جس کو قربانی میسر نہ آۓ وہ تین دن کے روزے حج(کے زمانہ) میں رکھے اور سات دن کے روزے واپسی پر۔ یہ پورے دس دن(کے روزے) ہوۓ ۲۸۰* یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں ۲۸۱* اور اللہ سے ڈرتے رہو۲۸۲* اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

life
06-07-2011, 04:10 AM
۱۹۷۔۔۔ حج کے چند متعین مہینے ہیں ۲۸۳* جو شخص ان میں حج کا عزم کر لے اسے چاہیے کہ دوران حج نہ شہوت کی کوئی بات کرے نہ فسق و فجور کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی ۲۸۴ *اور جو نیک کام تم کرو گے اللہ اس کو جان لے گا اور زاد راہ ساتھ لے لو کہ بہتر ین زاد راہ تقویٰ ۲۸۵* ہے اور اے عقل والو! مجھ سے ڈرو۔


۱۹۸۔۔۔ اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو ۲۸۶ کےپاس اللہ کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح کہ اس نے تم کو ہدایت کی ہے ۲۸۹* اور یہ حقیقت ہے کہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوۓ تھے۔


۱۹۹۔۔۔ اور تم بھی اسی مقام سےپلٹو جس مقام سے سب لوگ پلٹتے ۲۹۰* ہیں۔ اور اللہ سے معافی طلب کرو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔


۲۰۰۔۔۔ پھر جب تم حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۲۹۱* لوگوں میں ایسے بھی ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ۲۹۲* ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔


۲۰۱۔۔۔ اور کچھ ایسے ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطاء فرما اور آخرت میں بھی اور ہمیں آگ کے عذاب سےبچا لے ۲۹۳*


۲۰۲* یہی لوگ ہیں جن کو ان کی کمائی کی بدولت حصہ ملے گا اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے


۲۰۳۔۔۔ اور مقررہ دنوں ۲۹۴ میں اللہ کا ذکر کرو۔ پھر جو کوئی دو دن میں جلدی کرے (اور نکلنے میں ایک دن کی) تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲۹۵* یہ اس کے لیے ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ اسی کے حضور تمہیں جمع ہونا ہے ۲۹۶*


۲۰۴۔۔۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی باتیں تمہیں دنیوی زندگی میں بڑی دلکش معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے ما فی الضمیر پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ کٹر مخالف ہیں ۲۹۷*


۲۰۵۔۔۔۔ اور جب وہ پلٹتے ہیں تو زمین میں ان کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد برپا کریں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں ۲۹۸* مگر اللہ فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔


۲۰۶۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو نخوت انہیں گناہ پر آمادہ کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے تو جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

life
06-07-2011, 04:11 AM
۲۰۷۔۔۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو رضاۓ الہی کی طلب میں اپنی جانیں کھپا دیتے ہیں ۲۹۹* اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔


۲۰۸۔۔۔ اے ایمان لانے والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ ۳۰۰* اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ۳۰۱* وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔


۲۰۹۔۔۔ ان واضح ہدایات کے آ جانے کے بعد بھی اگر تم پھسل گۓ تو جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۳۰۲*


۲۱۰۔۔۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ اور فرشتے ابر کے سائبانوں میں ان کے سامنے نمودار ہو جائیں اور فیصلہ ہی کر ڈالا جاۓ ؟ ۳۰۳* بالآخر سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہوں گے۔


۲۱۱۔۔۔ بنی اسرائیل سے پوچھو، ہم نے انہیں کتنی کھلی کھلی نشانیاں دیں ۳۰۴* اور جو کوئی اللہ کی نعمت۳۰۵* کو اس کے پانے کے بعد بدل ڈالے تو یقین جانو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔


۲۱۲۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے دنیوی زندگی بڑی خوشنما بنا دی گئی ہے ۳۰۶* وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے وہ قیامت کے دن ان پر فوقیت رکھیں گے۔ اور اللہ جسےچاہتا ہے بے حساب ۳۰۷* رزق عطاء فرماتا ہے۔


۲۱۳۔۔۔ (ابتداء میں) لوگ ایک ہی امت ۳۰۸* تھے (لیکن جب انہوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے انبیاء بھیجے جو خوش خبری سنانے والے اور خبر دار کرنے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تکہ جن امور میں لوگ اختلاف کر رہے تھے ان کا فیصلہ کر دے۔ اور اس میں اختلاف انہیں لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی اور یہ اختلاف انہوں نے روشن ہدایات آ جانے کے بعد محض آپس کی ضد (نفسانیت)کی بنا پر کیا۔ بالآخر اللہ نے اپنے اذن (توفیق) سے اہل ایمان کی اس حق کے معاملے میں رہنمائی فرمائی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ۳۰۹*


۲۱۴۔۔۔ کیا تم نے یہ سمجھ کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان لوگوں کے سے حالات سے سابقہ پیش ہی نہیں آیا ہے۔ جو تم سے پہلے ہو کر گزرے ہیں۔ ان کو تنگیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایسے جھنجھوڑے گۓ کہ رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آۓ گی اللہ کی مدد؟ یقین جانو! اللہ کی مدد قریب ہے۔ ۳۱۰*


۲۱۵۔۔۔ وہ تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہو جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، اور مسافروں کے لیے ہے۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔

life
06-07-2011, 04:11 AM
۲۱۶۔۔۔ جنگ کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ مگر عجب نہیں کہ ایک چیز کو تم ناگوار خیال کرو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور عجب نہیں کہ ایک چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو ۳۱۱* اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۳۱۲*


۲۱۷۔۔۔ وہ تم سے ماہ حرام کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے؟ کہو اس میں جنگ کرنا بڑی سنگین بات ہے ، مگر (لوگوں کو) اللہ کے راستہ سے روکنا، اس سےکفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا، اس اس کے رہنے والوں کو وہاں سےنکال دینا اللہ کے نزدیک اس سےبھی بڑا گناہ ہے اور فتنہ قتل ۳۱۳* سے بھی بڑھکر ہے۔ اور وہ تم سےلڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں ۳۱۴* اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جاۓ گا اور حالت کفر میں مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت جائیں گے۔ وہ دوزخی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔


۲۱۸۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے ہجرت ۳۱۵* کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔


۲۱۹ ۔۔۔ (اے پیغمبر !) لوگ تم سے شراب ۳۱۶* اور جوۓ ۳۱۷ *کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو ان میں بڑی خرابی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کی خرابی ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے ۳۱۸* اور تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ کہو جو فاضل ۳۱۹* ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔

life
06-07-2011, 04:11 AM
۲۲۰۔۔۔ دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں ۳۲۰* اور وہ تم سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو جس میں ان کی بھلائی ہو وہی بہتر ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی ہی ہیں۔ اللہ جانتا ہے کون بگاڑ چاہنے والا ہے اور کون بھلائی چاہنے والا ۳۲۱* اگر اللہ چاہتا تو تم کو مشقت میں ڈال دیتا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ۳۲۲*


۲۲۱۔۔۔ اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرنا ۳۲۳* جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مؤمن کنیز ایک مشرک عورت سے کہیں بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند آۓ۔ اور مشرکوں ۳۲۴* کو اپنی عورتیں نکاح میں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مؤمن غلام ایک مشرک سےکہیں بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند آۓ۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔


۲۲۲۔۔۔ وہ تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو وہ نا پاکی ہے لہٰذا ایّام حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۳۲۵* اور ان سے قربت نہ کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں۔ پھر جب وہ اچھی طرح پاک ہو جائیں تو ان کےپاس جاؤ ۳۲۶* اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے ۳۲۷* اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو خوب پاکیزگی اختیار کرتے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:12 AM
۲۲۳۔۔۔ تمہاری عورتیں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ ۳۲۸* اور اپنے مستقبل کا سامان کرو ۳۲۹* نیز اللہ سے ڈرتے رہو۔ خوب جان لو کہ ایک دن تمہیں اس سے ملنا ہے اور (اے نبی !) اہل ایمان کو بشارت دے دو۔


۲۲۴۔۔۔ کسی کے ساتھ بھلائی کرنے، تقویٰ اختیار کرنے اور اصلاح بین الناس کے کام کرنے کے خلاف اللہ کو اپنی قسموں کا ہدف نہ بناؤ ۳۳۰* اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۳۳۱*


۲۲۵۔۔۔ اللہ تمہاری لغو (بے ارادہ) قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن ان قسموں پر ضرور مواخذہ کرے گا جو تم نے دلی ارادہ کے ساتھ کھائی ہوں ۳۳۲* اور اللہ بہت در گزر کرنے والا اور بڑا برد بار ہے۔


۲۲۶۔۔۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھیں ان کے لیے چار مار ماہ کی مہلت ہے ۳۳۳* پھر اگر وہ رجوع کر لیں تو اللہ معاف کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے۔


۲۲۷۔۔۔ اور اگر وہ طلاق کا فیصلہ کر لیں تو (وہ اچھی طرح جان لیں کہ) اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ۳۳۴*


۲۲۸۔۔۔ اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو۔ وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۳۳۵* اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ پیدا فرمایا ہو اس کو چھپائیں۔ اور اس (عدت کے) دوران ان کے شوہر ان کو واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں بہ شرط یہ کہ وہ تعلقات درست رکھنا چاہیں۔ اور معروف کے مطابق عورتوں کے بھی اسی طرح حقوق ہیں ۳۳۶* جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ۳۳۷* حاصل ہے۔ اور اللہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے ۳۳۸*


۲۲۹۔۔۔ طلاق ۳۳۹* دو مرتبہ ۳۴۰* ہے۔ پھر یا تو معروف طریقہ پر عورت کو روک لیا جاۓ ۳۴۱* یا خوبصورتی کےساتھ رخصت کر دیا جاۓ ۳۴۲* اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو ۳۴۳* اِلّا یہ کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو اس میں ان کے لیے کوئی گناہ نہیں کہ عورت فدیہ دے کر ، چھٹکارا(خلع) حاصل کر لے ۳۴۴* یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو اللہ کے حدود سےتجاوز کرے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۳۴۵*


۲۳۰۔۔۔ پھر اگر اس نے (دو بار کے بعد) طلاق دے دی ۳۴۶* تو اب یہ عورت اس کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے ۳۴۷* پھر اگر وہ بھی اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں (عورت اور پہلے شوہر)پر مراجعت کرنے (پھر سےنکاح کرنے) میں کوئی گناہ نہیں۔ بہ شرط یہ کہ وہ یہ خیال کرتے ہوں کہ حدود الٰہی کو قائم رکھ سکیں گے یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں جنہیں وہ ان لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے جو علم رکھنے والے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:14 AM
۲۳۱۔۔۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں ۳۴۸* تو انہیں بھلے طریقہ سے روک لو یا بھلے طریقہ سے رخصت کرو۔ انہیں ستانے کی غرض سے روکے نہ رکھو کہ اس طرح زیادتی کے مرتکب ہو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کو ۳۴۹* مذاق نہ بناؤ۔ اللہ کے احسان کو اور اس بات کو یاد رکھو کہ اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی جس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۳۵۰*


۲۳۲۔۔۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر انہیں اپنے شوہروں سےنکاح سے نہ روکو جب کہ وہ معروف طریقہ پر باہم رضا مندی سے معاملہ طے کریں۔ ۳۵۱* یہ نصیحت تم میں سے ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے۔ ۳۵۲* اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۳۵۳*


۲۳۳۔۔۔ اور ۳۵۴*مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے ۳۵۵* اور جس شخص کا بچہ ہے اس کو معروف طریقہ سے ان کو کھانا اور کپڑا دینا ہو گا ۳۵۶* کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جاۓ نہکسی ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے تکلیف دی جاۓ اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔ اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ۳۵۷*ہے لیکن اگر دونوں باہمی رضا مندی اور مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور اگر تم اپنے بچوں کو کسی اور سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں بہ شرط یہ کہ تم نے جو کچھ طے کیا ہے معروف طریقہ پر ادا کرو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا

life
06-07-2011, 04:15 AM
۲۳۴۔۔۔ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو ان (بیویوں) کو چاہیے کہ چار ماہ دس دن تک توقف کریں ۳۵۸* پھر جب وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو معروف طریقہ پر وہ جو کچھ اپنے لیے کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔


۲۳۵۔۔۔ اور اس بات میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو نکاح کا پیغام اشارہ کنایہ میں دے دو یا اسے اپنے دل میں پوشیدہ رکھو۔ اللہ جانتا ہے کہ تم ان کو یاد کرو گے مگر ان سے (نکاح کا) خفیہ قول و قرار نہ کرو۔ ہاں معروف طریقہ پر کوئی بات کہہ سکتے ہو اور عقد نکاح کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت ۳۵۹* پوری نہ ہو جاۓ۔ جان رکھو کہ اللہ کو تمہارے دلوں کا حال معلوم ہے لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا اور برد بار ہے ۳۶۰*


۲۳۶۔۔۔ اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا ان کا مہر مقرر کرنےسے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ انہیں کچھ دو۔ صاحب وسعت اپنی مقدرت کے مطابق اور تنگ دست اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے ۳۶۱* یہ حق ہے نیکو کاروں پر ۳۶۲*


۲۳۷۔۔۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو اور مہر مقرر کر چکے ہو تو مقررہ مہر کا نصف دینا ہو گا ۳۶۳* الا یہ کہ وہ رعایت کر دیں یا وہ مرد جس کے ہاتھ میں عقدۂ نکاح ہے ۳۶۴* رعایت کر دے اور تم (مرد) رعایت کرو تو یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔ آپس میں احسان کرنا نہ بھولو ۳۶۵* تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔


۲۳۸۔۔۔ نمازوں ۳۶۶* کی محافظت ۳۶۷* کرو خصوصاً صلوٰۃِ وسطیٰ ۳۶۸* (درمیان والی نماز)کی اور اللہ کے حضور کھڑے ہو عجز و نیاز میں ڈوبے ہوۓ ۳۶۹*

life
06-07-2011, 04:16 AM
۲۳۹۔۔۔ اگر تم حالت خوف میں ہو تو پیدل یا سوار جس طرح بن سکے نماز ادا کرو ۳۷۰* پھر جب امن میسر آ جاۓ تو اللہ کو اس طریقہ پر یاد کرو ۳۷۱* جو اس نے تمہیں سکھلایا ہے ۳۷۲* جس کو تم نہیں جانتے تھے۔


۲۴۰۔۔۔۔ اور تم میں ۳۷۳* سےجو لوگ وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک انہیں نان نفقہ دیا جاۓ اور وہ گھر سے نکالی نہ جائیں پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو وہ معروف طریقہ پر جو کچھ اپنے لیے کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ۳۷۴* اللہ غالب ہے حکمت والا۳۷۵*


۲۴۱۔۔۔ اور مطلقہ عورتوں کو معروف طریقہ پر متاع دیا جاۓ ۳۷۶* یہ حق ۳۷۷* ہے متقیوں پر۔


۲۴۲۔۔۔ اس طرح اللہ اپنے احکام واضح فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔


۲۴۳۔۔۔ کیا ۳۷۸* تم نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود موت کے ڈر سے اپنے گھروں سےنکل گۓ تھے ؟ اللہ نے ان سے فرمایا کہ مر جاؤ پھر اس نے انہیں زندہ کیا ۳۷۹* بے شک اللہ لوگوں پر بڑا مہربان ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔


۲۴۴۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور یہ جان رکھو کہ اللہ سب کچھ سننے الا اور جاننے والا ہے ۳۸۰*

life
06-07-2011, 04:16 AM
۲۴۵۔۔۔ اور کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر واپس کر دے ۳۸۱* اللہ تنگی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی ۳۸۲* اور اسی کی طرف تم لوٹاۓ جاؤ گے ۳۸۳*


۲۴۶۔۔۔ کیا تم نےسرداران بنی اسرائیل کے واقعہ پر ۳۸۴* غور نہیں کیا جوموسٰی کے بعد پیش آیا تھا؟ ۳۸۵* جب کہ انہوں نے اپنے نبی ۳۸۶* سےکہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیجیے۔ تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں ۳۸۷* اس نے کہا ایسا نہ ہو کہ تمکو جنگ کرنے کا حکم دیا جاۓ اور پھر تم جنگ نہ کرو کہنے لگے ہم اللہ کی راہ میں کیسے نہیں لڑیں گے جب کہ ہمیں اپنے گھروں سےنکال دیا گیا ہے اور بچوں سے جُدا کر دیا گیا ہے ؟ مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا سب پھر گۓ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔


۲۴۷۔۔۔۔ ان کے نبی نے ان سے کہا اللہ نے تمہارے لیے طالوت۳۸۸* کو بادشاہ مقرر کیا ہے، بولے اس کو ہم پر بادشاہی کا کیا حق ؟ اس سے زیادہ بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اسے مال کی فراوانی بھی حاصل نہیں ہے۔ نبی نے کہا اللہ نے تم پر حکمرانی کے لیےاسی ۳۸۹*کو منتخب کیا ہے اور اس کو علم اور جسم(کی صلاحیتوں) میں فراوانی عطا کی ہے ۳۹۰* اللہ جسے چاہے اقتدار بخشے اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔ ۳۹۱*


۲۴۸ ۔۔۔۔ اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کے بادشاہ مقرر کیے جانے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آ جاۓ گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامان تسکین اور آل موسٰی اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔ اس صندوق کو فرشتے اٹھاۓ ہوۓ ہوں گے۳۹۲* اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم مومن ہو،


۲۴۹۔۔۔۔ پھر جب طالوت لشکروں کے لے کر ۳۹۳* چلا تو اس نے کہا اللہ ایک دریا۳۹۴* کے ذریعے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے تو جو اس کا پانی پی لے گا وہ میرا ساتھی نہیں اور جو اس کو نہیں چکھے گا وہی میرا ساتھی ہے الا یہ کہ کوئی شخص اپنے ہاتھ سے چلو بھر پانی لے لے۔ مگر تھوڑے لوگوں کےسوا سب نے اس میں سے پی لیا۳۹۵* پھر جب طالوت اور اس کے اہل ایمان ساتھی دریا پار کر گۓ تو کہنے لگے آج ہم میں جالوت ۳۹۶* اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۳۹۷* ہے۔ لیکن جو لوگ سمجھتے تھے کہ انہیں اللہ سے ملنا ہے انہوں نے کہا کتنے ہی چھوٹے گروہ اللہ کے اذن سےبڑے گروہ پر غالب آ گۓ ہیں اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ۳۹۸* ہے۔


۲۵۰۔۔۔ اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ میں آۓ تو انہوں نے دعا کی اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر ہمارے قدم جما دے اور کافر قوم پر ہمیں غلبہ عطاء فرما۔

life
06-07-2011, 04:16 AM
۲۵۱۔۔۔ آخر کار اللہ کے حکم سے انہوں نے ان کو شکست دی اور ۳۹۹* داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اس کو اقتدار اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا اس کو علم ۴۰۰* دیا۔ اگر اللہ ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا مہربان ۴۰۱* ہے۔


۲۵۲۔۔۔ یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں تھیک ٹھیک سنا رہے ہیں اور تم یقیناً پیغمبروں میں سے ہو ۴۰۲*


۲۵۳۔۔۔۔ یہ رسول ہیں ۴۰۳* جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ۴۰۴* ان میں کوئی ایسا تھا جس سے اللہ خود ہم کلام ہوا اور کسی کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح القدس ۴۰۵*سے اس کی تائید کی اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان رسولوں کے بعد ہوۓ، وہ ان روشن نشانیوں کے آ جانے کے بعد ہوۓ ، وہ ان روشن نشانیوں کے آ جانے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ باہم لڑتے مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۴۰۶*


۲۵۴۔۔۔ اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی کام آۓ گی، اور نہ ہی سفارش چلے گی ۴۰۷* اور کفر کرنے والے ہی اصل ظالم ہیں۔


۲۵۵۔۔۔ اللہ جس ۴۰۸* کے سوا کوئی الہ نہیں وہ زندہ ہستی ہے۴۰۹* جو قائم ہے اور سب کو سنبھالے ہوۓ ہے ۴۱۰* اسے نہ اونگھ لگتی ہے اور نہ نیند ۴۱۱* جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے ، کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ۴۱۲* ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتے۔ بجز اس کے جو وہ چاہے ۴۱۳* اس کی کرسی ۴۱۴* آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ اور ان کی حفاظت اس پر کچھ بھی گراں نہیں ۴۱۵* اور وہ نہایت بلند اور عظمت والا ہے۔ ۴۱۶*

life
06-07-2011, 04:17 AM
۲۵۶۔۔۔ دین کے بارے میں کوئی جبر ۴۱۷* نہیں۔ ہدایت گمراہی سے بالکل ممتاز ہو کر سامنے آ گئی تو جس شخص نے طاغوت ۴۱۸* کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ، اور اللہ سب کچھ سننےوالا اور جاننے والا ہے۔


۲۵۷۔۔۔ اللہ اہل ایمان کا کار ساز ہے وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر نور۴۱۹* (روشنی) میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے کار ساز طاغوت ہیں وہ ان کو روشنی سے تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ میں جانے والے ہیں۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔


۲۵۸۔۔۔ کیا تم ۴۲۰* نے اس شخص ۴۲۱* کو نہیں دیکھاجس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں اس وجہ سے جھگڑا کیا کہ اللہ نے اس کو اقتدار بخشا۴۲۲* تھا۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔ اس نے کہا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا اچھا تو اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسےمغرب سے نکال لا ۴۲۳* یہ سنکر وہ کافر ششدر رہ گیا اور اللہ ایسے ظلاموں کو ہدایت نہیں کرتا ۴۲۴*


۲۵۹۔۔۔ یا پھر اس شخص کی مثال (قابل غور) ہےجس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری بڑی تھی ۴۲۵* اس نے کہا اللہ اس کو اس کے مر چکنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا! ۴۲۶* اس پر اللہ نےاسے موت دی اور سو سال تک اسی حالت میں رکھا پھر اسے جلا اٹھایا ۴۲۷* اور پوچھا کتنی مدت اس حال میں رہے ؟ اس نے جواب دیا : ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ فرمایا نہیں بلکہ تم ایک سو سال اس حالت میں گزار چکے ہو ۴۲۸* اب اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ بوسیدہ ہونے کے باوجود ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں) اور تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیں ۴۲۹* اور ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ کس طرح اس کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں پھر ان پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں ۴۳۰* اس طرح جب اس پر حقیقت آشکارا ہو گئی تو پکار اٹھا : میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

life
06-07-2011, 04:17 AM
۲۶۰۔۔۔ اور (وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب ابراہیم نے کہا: میرے رب ! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا۔ فرمایا کیا تم ایمان نہیں رکھتے ؟ عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ دل مطمئن ہو جاۓ فرمایا : تو چار پرندے لے لو اور ان کو اپنے سے ہلالو پھر ان کا ایک ایک جزو ایک ایک پہاڑی پر دکھ دو پھر ان کو پکارو وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوۓ آئیں گے۴۳۱* اور خوب جان لو کہ اللہ غالب اور حکیم ہے ۴۳۲*

۲۶۱۔۔۔ جو لوگ ۴۳۳* اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۴۳۴* ان کے خرچ کی مثال اس دانہ کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگ آئیں اور ہر بل میں سو سانے ہوں ۴۳۵* اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۴۳۶* اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے ۴۳۷*


۲۶۲۔۔۔ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ دل آزاری کتے ہیں ان کا اجر ان کے ب کے پاس ۴۳۸* ہے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔


۲۶۳۔۔۔ بھلی بات کہنا اور در گزر سےکام لینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو ۴۳۹*اور اللہ بے نیاز اور برد بار۴۴۰* ہے۔


۲۶۴۔۔۔ اے ایمان والو ! احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنے صدقات کو اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہےجیسے ایک چٹان جس پر کچھ مٹی (جمع ہوئی) تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا تو وہ صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ۴۴۱* ایسے لوگوں کی کمائی کچھ بھی ان کے ہاتھ لگنے والی نہیں۔ اور اللہ کافروں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۴۴۲*


۲۶۵۔۔۔ اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا جوئی کے لی ثبات قلب کےساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ کی مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو۔ اس پر بارش ہو جاۓ تو دو گنا پھل لاۓ اور اگر بارش نہ ہو تو پھوار ہی کافی ہو جاۓ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔


۲۶۶۔۔۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ پسند کرے گ کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں اور اس کے لیے اس میں ہر قسم کے پھل موجود ہوں ۴۴۳* اور وہ بڑھاپے کی حالت کو پہنچ گیا ہو اور اس کے بچے ابھی ناتواں ہوں اور اس باغ پر آگ (سموم) کا بگولہ ۴۴۴* چلے جس سے وہ جھلس کر رہ جاۓ اس طرح اللہ تمہارے لیے آیتیں واضح فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۴۴۵*

life
06-07-2011, 04:17 AM
۲۶۷۔۔۔ اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے اچھی اور پاکیزہ ۴۴۶* چیزیں خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو زمین سے ہم نے تمہارے لیے نکالی ہیں ۴۴۷* اور بری اور نا پاک چیزیں خرچ کر نے کا ہر گز ارادہ نہ کرو کہ اگر وہی چیزیں تمہیں دی جائیں تو تم کبھی نہ لو گے الا یہ کہ اغماض برت جاؤ اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ نے نیاز اور تعریف کا مستحق ہے۔


۲۶۸۔۔۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے ۴۴۸* مگر اللہ اپنی طرف سےمغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔


۲۶۹۔۔۔ وہ جسے چاہتا ہے حکمت ۴۴۹* سے نوازتا اور جسے حکمت ملی اسےبڑی دولت مل گئی مگر نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔


۲۷۰۔۔۔ تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی ۴۵۰* مانی ہو اللہ اس کو جاتا ہے اور ظالموں ۴۵۱* کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔


۲۷۱۔۔۔ اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر اخفا کے ساتھ محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ۴۵۲* اللہ تمہاری کتنی ہی برائیوں کو دور کر دے گا۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

life
06-07-2011, 04:17 AM
۲۶۷۔۔۔ اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے اچھی اور پاکیزہ ۴۴۶* چیزیں خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو زمین سے ہم نے تمہارے لیے نکالی ہیں ۴۴۷* اور بری اور نا پاک چیزیں خرچ کر نے کا ہر گز ارادہ نہ کرو کہ اگر وہی چیزیں تمہیں دی جائیں تو تم کبھی نہ لو گے الا یہ کہ اغماض برت جاؤ اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ نے نیاز اور تعریف کا مستحق ہے۔


۲۶۸۔۔۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے ۴۴۸* مگر اللہ اپنی طرف سےمغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔


۲۶۹۔۔۔ وہ جسے چاہتا ہے حکمت ۴۴۹* سے نوازتا اور جسے حکمت ملی اسےبڑی دولت مل گئی مگر نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔


۲۷۰۔۔۔ تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی ۴۵۰* مانی ہو اللہ اس کو جاتا ہے اور ظالموں ۴۵۱* کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔


۲۷۱۔۔۔ اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر اخفا کے ساتھ محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ۴۵۲* اللہ تمہاری کتنی ہی برائیوں کو دور کر دے گا۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

life
06-07-2011, 04:18 AM
۴۵۲* اللہ تمہاری کتنی ہی برائیوں کو دور کر دے گا۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔


۲۷۲۔۔۔ ان کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ۴۵۳* ہے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے اس کا فائدہ تم ہی کو پہنچے گا۔ اور تم اللہ کو رضا جوئی ہی کے لیے خرچ کرتے ہو تو جو مال بھی تم خرچ کرو گےاس کا اجر تمہیں پورا پورا دیا جاۓ گا۔ اور تمہاری ہر گز حق تلفی نہ ہو گی۔


۲۷۳۔۔۔ اعانت کے اصل مستحق وہ حاجت مند ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسے گھر گۓ کہ زمین میں دوڑ دھوپ۴۵۴* نہیں کر سکتے۔ بے خبر آدمی ان کی خود داری کو دیکھ کر ان کو غنی خیال کرتا ہے۔ تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتےہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔


۲۷۴۔۔۔ جو لوگ اپنے مال رات اور دن کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ ان کو نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ غم۔


۲۷۵۔۔۔ جو لوگ ۴۵۵* سود ۴۵۶* کھاتے ہیں وہ اس شخص کی طرح اٹھیں ۴۵۷* گے جسے شیطان نے اپنی چھوت سے خبطی بنا دیا ہو ۴۵۸* یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں بیع بھی تو سود کی طرح ہے ۴۵۹* حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور سود کو حام ۴۶۰* اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سےیہ نصیحت پہنچے اور وہ باز آ جاۓ تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا وہ اس کا ہوا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے اور اگر پھر اس کا اعادہ کرے تو ایسے لوگ دوزخی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۴۶۱*


۲۷۶۔۔۔ اللہ سود کو نیست و نابود کرتا ہے اور صدقات کو افزونی عطا فرماتا ہے ۴۶۲* اللہ کسی نا شکرے اور حق تلفی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۴۶۳*


۲۷۷۔۔۔ بے شک جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی ان کا اجر ان کے ب کے پاس ہے۔ ان کو نہ کسی قسم کا اندیشہ ہو گا ور نہ غم۔

life
06-07-2011, 04:18 AM
۲۷۸۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہےاسےچھوڑ دو ، اگر واقعی تم مؤمن ہو۔


۲۷۹۔۔۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کےرسول کی طرف سے اعلان جنگ ۴۶۴* ہے۔ اور اگر توبہ کر لو تو تم کو اپنا اصل مال لینے کا حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جاۓ


۲۸۰۔۔۔ اگر مقروض تنگ دست ہو تو کشادگی تک مہلت ۴۶۵* دو اور معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔


۲۸۱۔۔۔ اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف لوٹاۓ جاؤ گے پھر ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جاۓ گا اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو گی۔


۲۸۲۔۔۔ اے ایمان والو! جب تم کسی معین مدت کے لیے قرض کا لین۴۶۶* دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۴۶۷* اور کوئی لکھنے والا تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے۔ لکھنے سالے کو جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے (دستاویز)لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ لکھ دینا چاہیے ۴۶۸* اور یہ دستاویز وہ شخص لکھواۓ جس کے ذمے حق ہے ۴۶۹* اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کوئی کمی نہ کرے لیکن اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے نادان یا ضعیف ہو دستاویز لکھوا نہ سکتا ہو تو ا کا ولی انصاف کےساتھ لکھواۓ۔ اور اس پر اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لو ۴۷۰* اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم (گواہی کے لیے) پسند کرتے ۴۷۱* ہو۔ دو عورتیں اس لیے کہ اگر ایک غلطی کرے تو دوسری اسے یاد دلاۓ ۴۷۲* اور جب گواہوں کو بلایا جاۓ تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے۔ قرض کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعین کے ساتھ اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتو۔ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے، شہادت کو زیادہ درست رکھنے کا موجب ہے اور اس لحاظ سےانسب ہے کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ ہاں اگر معاملہ دست بدست لین دین کا ہو تو اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور خرید فروخت ک معاملہ کرو تو گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جاۓ ایسا کرو گے تو یہ بڑی نا انصافی ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرو ۴۷۳* اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

life
06-07-2011, 04:18 AM
۲۸۳۔۔۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور کاتب نہ مل سکے تو رہن ۴۷۴* قبضہ میں دے کر معاملہ کر سکتے ہو پھر اگر تم میں سےکوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرتا ہے تو جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اسے چاہیے کہ اس کی امانت ادا کرے اور اللہ سے جو اس کا رب ہے ڈرے۔ اور شہادت کو نہ چھپاؤ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے وہ در حقیقت اپنے دل کو گناہ سے آلودہ کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔


۲۸۴۔۔۔ جو کچھ ۴۷۵* آسمانوں میں ہے اور جو کچھ سمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ۴۷۶* تم اپنے دل کی باتیں ظہر کرو یا چھپاؤ، اللہ ان کا حساب تم سے لے لے گا ۴۷۷* پھر جس کو چاہے گا معاف کرے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۴۷۸*


۲۸۵۔۔۔ رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور مؤمنین بھی ۴۷۹* یہ سب ایمان لاۓ اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر۔ اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر۔ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ۴۸۰* اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ۴۸۱* اور اطاعت کی۔ اے ہمارے رب! ہم تجھ سےمغفرت کے طالب ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔


۲۸۶۔۔۔ اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۴۸۲* اس نے جو نیکی کمائی وہ اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی اس کا وبال بھی اسی پر ہے ۴۸۳* اے ہمارے رب ۴۸۴* اگر ہم سےبھول یا غلطی سرزد ہو جاۓ تو اس پر مواخذہ نہ فرما ۴۸۵* اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ ۴۸۶* اے ہمارے رب! ۴۸۷* ہم پر کوئی ایسا بار نہ ڈال جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ۴۸۸* ہم سے در گزر فرما، ۴۸۹* ہمیں بخش دے ۴۹۰* اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مولیٰ ہے ۴۹۱* پس تو ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔ ۴۹۲*

life
06-07-2011, 04:31 AM
تفسیر


۱ ۔۔۔ یہ اور اس طرح کے حروف مختلف سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جنہیں حروف مقطعات کہتے ہیں ان حروف کو الگ الگ کر کے پڑھا جاتا ہے۔ ۲۹ سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے۔ یہ حروف سورتوں کے مخصوص مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس سورہ کے مضامین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الف کا اشارہ اللہ اور اس کی آیات کی طرف، لام کا اشارہ لا الہ الا اللہ کی طرف اور میم کا اشارہ تین باتوں کی طرف ہے ایک اس کے مِلک اور مالک ہونے کی طرف دوسرے ملائکہ کی طرف جن کے توسط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا گیا اور تیسرے مومنین و متقین کی طرف جن کے لیے یہ قرآن ہدایت و بشارت بن کر نازل ہوا ہے۔ یہ مضامین اس سورہ میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر آیت الکرسی آیت ۲۵۵ جو اس سورہ کی مہتم بالشان آیت ہے الف اور لام کی بہت واضح تعبیر ہے کہ اللہ لا الٰہ الا ہو سے شروع ہوتی ہے۔ گویا الف اللہ کی توحید کا نشان ہے تو لام اس کے منفی پہلو یعنی شرک کے باطل ہونے کی علامت ہے۔ علاوہ ازیں ان حروف کو سورہ کے دیگر مضامین سے بھی گہری مناسبت ہے مثلاً اس سورہ کی آیات ۲۴۳، ۲۶۴ اور ۲۵۷’’ اَلَمْ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں جن میں تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں پہلا واقعہ ایک گروہ کی موت و حیات کا، دوسرا طالوت کا، اور تیسرا حضرت ابراہیم کے بادشاہ کے دربار میں دعوت توحید پیش کرنے کا۔


قرآن کے اس اسلوب کی مثال زبور میں بھی موجود ہے چنانچہ زبور کے باب ۱۱۹ میں عبرانی حروف کا بہ کثرت استعمال ہوا ہے مثلاً زبور ۱۱۹:۱۳۷ میں ہے:۔


’’ص(عبرانی تلفظ صاد سے) اے خداوند تو صادق ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے زبور کی اس آیت میں ص صادق کی طرف اشارہ کر رہا ہے اسی طرح زبور ۱۱۹: ۱۲۱ میں ہے:


’’ع(عبرانی لفظ عین)۔ میں نے عدل و انصاف کیا ہے۔ ‘‘


اس آیت میں ع عدل کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اسی طرح زبور ۱۱۹:۷۳ میں ہے


’’ عی(عبرانی تلفظ یود)۔ تیرے ہاتھوں نے مجھے بنایا اور ترتیب دی۔ ‘‘


اس آیت میں حرف ی ید(ہاتھ)کی طرف اشارہ کر رہا ہے اسی لیے قرآن کے مخاطبین کو اس میں معمہ کے قسم کی کوئی بات محسوس نہیں ہوئی ورنہ وہ ضرور سوال کرتے کہ ان حروف کا کیا مطلب؟ ویسے بھی مجرد حروف کوئی معنی نہیں رکھتے جب تک کہ وہ افعال یا اسماء کے ساتھ استعمال نہ ہوں۔ اس لیے قرینہ کی بات یہی ہے کہ ان کا استعمال علامت اور اشارہ کے طور پر ہوا ہے جس زمانے میں قرآن نازل ہوا اس کی حفاظت کا دار و مدار زبانی حفظ کر لینے پر تھا اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا سکتا کہ سورتوں کے حفظ کر لینے میں مخصوص مضامین کی طرف اشارات سے نیز سورتوں کے علامتی ناموں سے بڑی مدد ملتی ہے اور یہ طریقہ سورتوں کی شناخت کے معاملہ میں بڑا معاون ہوتا ہے اس لیے قرآن نے اس اسلوب کو اختیار کیا بہر صورت ان حروف کو معمہ سمجھنا صحیح نہیں کیونکہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے جو عربی میں نازل ہوئی ہے اس میں معنی کی گہرائی ضرور ہے لیکن معمے کے قسم کی کوئی بات نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱)

life
06-07-2011, 04:31 AM
۲ ۔۔۔۔۔ کسی کتاب کے کتاب الٰہی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب خود منزل من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہو اور اس کے مضامین بھی اس کی شہادت دیتے ہوں قرآن اپنے کتاب الٰہی ہونے کا واضح طور سے دعویٰ بھی کرتا ہے اور اس کے مضامین بھی کھلی شہادت دیتے ہیں کہ یہ اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے۔ اس کے کلام الٰہی ہونے کے بارے میں ادنیٰ شک کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف قرار دینا ایک بے بنیاد اور نا معقول بات ہے کیونکہ آپؐ امی تھے اور قرآن جیسی عظیم الشان کتاب جس کے اندر انسانی زندگی کے لیے مکمل رہنمائی ہو ایک امی کے بس کی بات نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں قرآن کا یہ چیلنج ہے کہ اس جیسی کتاب تمام جن و انس مل کر بھی تصنیف نہیں کر سکتے قرآن کے اس چیلنج کا جواب آج تک نہیں دیا جا سکا نزول قرآن کے دور کے فصحاء و بلغاء اس کا جواب دینے سے قاصر رہے اور بعد کے دور کا بھی کوئی شخص اس دعوے کو غلط ثابت نہ کر سکا۔


۳ ۔۔۔۔۔ قرآن کے ہدایت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ تک پہنچنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ زندگی کی پُر پیچ راہوں کے درمیان یہ کتاب راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور عقائد و افکار، اخلاق و معاملات اور خصائل و اعمال کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ اس کی روشنی میں انسان راہ حق پر چل کر منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ کھلے ذہن سے اس کا مطالعہ کرے اور ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر حق بات کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔

life
06-07-2011, 04:32 AM
۴ ۔۔۔۔۔ قرآن نے دوسری جگہ اپنے ’’ ہُدیً لِلنّاس‘‘(۲:۱۸۵) تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہونے کی صراحت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سراسر ہدایت ہے اور اس کی ہدایت سب کے لیے عام ہے لیکن جس طرح سورج کی روشنی سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ اسی طرح قرآن کی روشنی سے بھی وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے دلوں میں اپنے خالق کی عظمت اور اس کے غضب کا خوف ہو۔ اس فطری صلاحیت کو یہاں تقویٰ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدمی کے اندر یہ وصف ہو تو وہ خیر و شر میں تمیز کرتا ہے اور بھلائی اور نیکی کا طالب بنتا ہے یہ تقویٰ بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے قرآن اس کی آبیاری کرتا اور اسے پروان چڑھاتا ہے جو لوگ اس فطری صلاحیت کو کھو چکے ہوں اور اس کے نتیجہ میں وہ نہ اپنے خالق سے تعلق رکھنا چاہتے ہوں اور نہ ذمہ دارانہ اور پرہیز گارانہ زندگی گزارنے کے لیے آمادہ ہوں وہ قرآن کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ تقویٰ کا یہ فطری وصف قبول ہدایت کے لیے ضروری ہے۔ آگے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ اس بنیادی تقویٰ کا فیضان اور قبول ہدایت کے ثمرات ہیں۔


۵ ۔۔۔۔۔ غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں۔ مثلاً خدا ، ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ۔


’’غیب پر ایمان لاتے ہیں ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض محسوسات کے غلام نہیں ہیں بلکہ ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں جو اگرچہ کہ ان کے مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آئے ہیں لیکن اللہ کا پیغمبر ان کی خبر دے رہا ہے اور انسانی فطرت اور عقل سلیم ان کے حق ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ غیب پر ایمان لانا ضعیف الاعتقادی نہیں ہے بلکہ اس سے عقل کی پرواز بلند ہوتی ہے اور انسان کا روحانی ارتقاء ہوتا ہے جو لوگ محسوساتکے دائرے میں اپنے کو محصور کر لیتے ہیں اور حقائق کو محض اس بنا پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ وہ ان کے مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آئے ہیں وہ بلند پروازی کی فطری صلاحیت کو کھو بیٹھتے ہیں اس کے بعد نہ وہ خدا کو پہچان پاتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو۔ اس محرومی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زندگی کے مقصد اور اس کی غایت کے بارے میں اٹکل پچو باتیں کرنے لگتے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:32 AM
۶ ۔۔۔۔۔ ایمان لانے کا مطلب یقین و اعتقاد کے ساتھ مان لینا ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کی آیات و ہدایات پر اس طرح ایمان لائے جس طرح قرآن میں ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جس میں رسالت اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانا بھی شامل ہے نیز اپنے کو ہمہ تن اس کے حوالے کر دے اور اس کے فیصلوں پر راضی و مطمئن ہو جائے وہ مومن ہے۔


واضح رہے کہ ایمان وہی معتبر ہے جو دل کی تصدیق کے ساتھ ہو لیکن زبانی اقرار بھی ضروری ہے چنانچہ اسلام کا پہلا رکن یہ ہے کہ آدمی زبان سے کلمہ شہادت ادا کرے۔


۷ ۔۔۔۔۔ نماز قائم کرنا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں زیادہ جامع بات ہے۔ نماز قائم کرنے کے مفہوم میں اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا، ارکان نماز ، قیام کرنا، نماز کی صفوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا، جماعت کا اہتمام کرنا، نماز کی صفوں کو درست رکھنا، نماز کے اوقات کی پابندی کرنا غرض نماز کو اس کے تمام ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ ادا کرنا شامل ہے۔


۸ ۔۔۔۔۔ خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنا ہے جس میں زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی تمام قسمیں شامل ہیں۔ یہ گویا بندہ کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ مال اللہ ہی کا بخشا ہوا ہے اور اس بخشش پر وہ اس کا شکر گزار ہے نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا وہ بنیادی نیکیاں ہیں جو تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہیں۔

life
06-07-2011, 04:32 AM
۹ ۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ ہر قسم کے گروہی، قومی، جغرافیائی اور نسلی تعصب سے پاک ہیں وہ اللہ کی نازل کردہ کتابوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں بلکہ وہ اس کی تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرتے ہیں خواہ وہ ان کی اپنی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہو یا کسی اور قوم کے پیغمبر پر۔ لیکن جو لوگ اللہ کی ہدایت کے قائل ہی نہ ہوں یا صرف اس کتاب کو آسمانی کتاب مانتے ہوں جو ان کی اپنی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی تھی ان پر قرآن کی راہ ہدایت کھل نہیں سکتی۔


یہود تورات کو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی مانتے تھے لیکن انجیل کو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور قرآن کو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ماننے سے انکار کرتے تھے۔ اسی طرح نصاریٰ تورات اور انجیل کو تو آسمانی کتاب مانتے تھے لیکن قرآن کے آسمانی کتاب ہونے سے انہیں انکار تھا قرآن نے اپنے پیروؤں کو جس عقیدہ کی تعلیم دی وہ یہ تھی کہ وہ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر تورات ، انجیل، قرآن اور دیگر تمام کتب پر جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں ایمان لائیں۔


۱۰ ۔۔۔۔۔ آخرت کا لفظ دنیا کے مقابلہ میں اس دنیا کے لیے بولا جاتا ہے جہاں انسان کو جی اٹھنے کے بعد اپنے اعمال کی جزا و سزا پانا اور ہمیشگی کی زندگی گزارنا ہے۔ دنیا کے موجودہ نظام کا ایک دن خاتمہ ہو گا جس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم برپا کرے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو دوبارہ پیدا فرما کر جمع کرے گا تاکہ ان کے اعمال کاحساب لے اور نیکو کاروں کو جنت میں اور بد کاروں کو دوزخ میں داخل کرے۔ آخرت کا یہ عقیدہ اور جزا و سزاء کا یہ تصور عقیدۂ تناسخ سے بالکل مختلف ہے اور اس کی قطعی طور پر نفی کرتا ہے۔

life
06-07-2011, 04:32 AM
’’ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ‘‘ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایمان بالآخرت کے مدعی تو بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن حقیقتاً آخرت پر یقین رکھنے والے وہ متقی لوگ ہیں جن کے اوصاف اوپر بیان کئے گئے۔


۱۱ ۔۔۔۔۔ یعنی ہدایت پر ہونے کے مدعی بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں جو شخص جس مذہبی گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے زعم میں برسر ہدایت ہی ہے لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر صرف وہ لوگ ہیں جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہیں اور فوزو و فلاح ان ہی کے لیے مقدر ہے۔


۱ ۔۔۔۔۔۲ ۔۔۔۔۔ اصل کامیابی دنیا کی خوشحالی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی ہے اور کامیاب در حقیقت وہ لوگ ہیں جو اللہ کے فیصلہ میں کامیاب قرار پائیں۔ قرآن کے نزدیک کامیابی کا صحیح معیار یہی ہے اور اسی کو سامنے رکھ کر اپنے لیے فکر و عمل کی راہ متعین کرنا چاہیے۔


۱۳ ۔۔۔۔۔ کفر کے معنی انکار کرنے کے ہیں اور اس سے مراد بالعموم ان باتوں کا انکار ہے جن پر ایمان قرآن کے نزدیک ضروری ہے اس آیت میں خاص طور سے وہ لوگ مراد ہیں ، جنہوں نے قرآن کو کتاب الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کیا۔


۱۴ ۔۔۔۔۔ خبردار کرنے کا مطلب کفر کے نتائج سے آگاہ کرنا ہے۔ جس طرح ایک ڈاکٹر مریض کو بد پرہیزی سے ڈراتا ہے اور علاج سے غفلت برتنے کے نتائج س

life
06-07-2011, 04:33 AM
مطلب کفر کے نتائج سے آگاہ کرنا ہے۔ جس طرح ایک ڈاکٹر مریض کو بد پرہیزی سے ڈراتا ہے اور علاج سے غفلت برتنے کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے اسی طرح ایک پیغمبر کفر و معصیت کے نتائج بد سے آگاہ کرتا ہے۔ زہر کا مہلک ہونا تو سب کو معلوم ہے لیکن اس بات سے لوگ بے خبر ہیں کہ کفر و معصیت کا نتیجہ ہلاکت ہے اسی لیے پیغمبر کی دعوت میں انذار(خبردار کرنے) کا پہلو غالب ہوتا ہے۔


۱۵ ۔۔۔۔۔ یہاں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جن پر قرآن کی صداقت اچھی طرح واضح ہو گئی تھی لیکن محض ہٹ دھرمی کی بنا پر انہوں نے اس کو کتاب الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر اپنے اس کفر پر اس طرح جم گئے اور حق کی مخالفت میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ قبول حق کی صلاحیت ان کے اندر باقی نہیں رہی اس حقیقت کو دلوں اور کانوں پر مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ مہر ظاہری نہیں بلکہ معنوی ہے۔


مطلب یہ کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حق ان پر واضح نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق کو جھٹلانے کی جو روش انہوں نے اختیار کی اس کے نتیجہ میں وہ قانون الٰہی کی زد میں آ گئے ہیں اور ان کی حق کو سنتے، سمجھتے اور دیکھنے کی صلاحیت بالکل سلب ہو گئی ہے۔


اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان کے دل میں حق اسی صورت میں داخل ہو سکتا ہے جبکہ وہ اپنا دل، اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھلی رکھے۔

life
06-07-2011, 04:33 AM
۱۶ اس سے بڑھ کر جرم اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی اپنے رب کے فرمان کو ٹھکرائے؟ اس عظیم جرم پر وہ سزا ہی کا مستحق ہے نہ کہ انعام کا


۱۷ ۔۔۔۔۔ پہلا گروہ جس کا ذکر ابتدائی آیات میں ہوا سچے اہل ایمان کا ہے دوسرا گروہ جس کا ذکر آیت ۶ اور ۷ میں ہوا منکرین کا ہے اور تیسرا گروہ جس کی خصوصیات آیت ۸ تا ۲۰ میں بیان ہوئی ہیں ان لوگوں کا ہے جو ایمان کے مدعی تو ہیں لیکن اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہیں اس سے اشارہ یہود کے اس گروہ کی طرف سے ہے جس نے منافقانہ روش اختیار کی تھی۔ اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ایمان وہی معتبر ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو یعنی آدمی خلوص دل سے اللہ اور آخرت کو مانے اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں میں سے کسی کا انکار نہ کرے، ایمان لانے کا محض زبانی دعویٰ کرنا اور دینداری کا لبادہ اوڑھ لینا اللہ کے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتا۔


۱۸ ۔۔۔۔۔ روگ(مرض) سے مراد ایمان میں غیر مخلص ہونا ہے اس روگ میں اللہ کی طرف سے اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ وہ حق کے تقاضوں سے گریز کرنے کے جرم پر جرم کے مرتکب ہوتے رہے اور ان کی منافقت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔


۱۹ ۔۔۔۔۔ دعوتِ قرآنی کی مخالفت کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی صلاح اس بات پر موقوف ہے کہ اس کے اندر اس کے حقیقی خالق و مالک کا حکم اور قانون چلے۔ اس سے زمین پر امن و عدل کا نظام قائم ہو سکتا ہے اور ہر طرح کا خیر ظہور میں ا سکتا ہے۔ اسی لیے خالق کائنات کی اطاعت و بندگی کی دعوت اور اس بنیاد پر تمدنی نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد حقیقی معنی میں اصلاح کی جدوجہد ہوتی ہے اور اس کی مخالفت میں جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ بگاڑ اور فساد کے سوا کچھ نہیں۔


بناؤ اور بگاڑ کی اس حقیقت سے نا آشنا ہونے ہی کی بنا پر اکثر لوگ بناؤ کو بگاڑ اور بگاڑ کو بناؤ سمجھنے لگتے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:33 AM
۲۰ ۔۔۔۔۔ یعنی اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ کے ساتھی ایمان لائے ہیں۔ مخلصانہ ایمان جس کے نتیجہ میں آدمی اللہ کا پکا وفا دار بندہ بن جاتا ہے اور اس کی راہ میں مشقتوں اور خطرات کو انگیز کرتا ہے مفاد پرستوں کی نظر میں دیوانہ پن اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے خیال میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی مادی مفادات کو مقدم رکھے اور خدا اور اس کے دین سے محض رسمی تعلق رکھے۔


۲۱ ۔۔۔۔۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف خدا اور اس کی ہدایت کو ماننے کا دعویٰ کیا جائے اور دوسری طرف اس سے مخلصانہ وابستگی کو بے عقلی پر محمول کیا جائے؟


۲۲ ۔۔۔۔۔ یہاں شیطانوں سے مُراد شرپسند لیڈر اور پیشوا ہیں۔


۲۳ ۔۔۔۔۔ آگ جلانے سے مُراد وحی کی روشنی ہے۔ تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کے بندے نے قرآن کی روشنی پھیلائی تو جو لوگ بصارت رکھتے تھے ان پر راہِ حق روشن ہو گئی لیکن جو لوگ عقل کے اندھے تھے وہ اس سے محروم رہے۔


روشنی سلب کرنے کا مطلب نورِ بصارت سلب کرنا ہے۔ یعنی جب یہ حق کے طالب نہیں ہے بنے تو اللہ نے ان کو قبول حق کی توفیق نہیں بخشی اس لیے یہ قرآن کی روشنی سے فائدہ اٹھا نہ سکے۔

life
06-07-2011, 04:33 AM
۲۴ ۔۔۔۔۔ یعنی حق بات سننے، بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے یہ بالکل محروم ہو گئے ہیں اس لیے ان سے یہ توقع نہیں کی سکتی کہ یہ راہِ ہدایت پا سکیں گے۔ جس کو قرآن نے روشن کیا ہے۔ یہ مثال ان منافقین کی ہے جو اپنے دل میں ایمان کے بالکل منکر تھے اور محض مصلحتاً اپنے کو مسلمان کہلواتے تھے۔


۲۵ ۔۔۔۔۔ یہ دوسری مثال ان منافقین کی ہے جو شک میں مبتلا تھے اور ایسی دینداری کے قائل نہ تھے جس کی خاطر قربانیاں دینا پڑتی تھیں۔


اس مثال میں بارش سے مراد وحی الٰہی ہے جس کا نزول آسمان سے ہو رہا تھا اور جو انسانیت کے لیے سراسر رحمت بن کر آئی۔ کڑک اور بجلی سے مراد قرآن کی تنبیہات ہیں اور تاریکیوں سے مراد راہ حق کی مشکلات ہیں۔


بجلی چمکنے پر ان کے چل پڑنے اور اس کے غائب ہو جانے پر رک جانے سے اشارہ ان لوگوں کی حیرانی و پریشانی کی طرف ہے۔ قرآن کی چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی تھی اور وہ حیران تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔


اگر بجلی گرا چاہتی ہو تو اس سے بچاؤ کی یہ تدبیر کیا کارگر ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس دے؟ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شیر کو حملہ آور ہوتے دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لے۔ ظاہر ہے اس تدبیر سے شیر کا حملہ رُک نہیں سکتا۔ یہی حال ان منافقین کا تھا جو قرآن کی تنبیہات کو سننا پسند نہیں کرتے تھے۔


۲۶ ۔۔۔۔۔ یعنی منافقین کے اس دوسرے گروہ کی سماعت و بصارت اللہ نے بالکل سلب نہیں کی ہے۔ اس لیے وہ پہلے گروہ کی طرح قبولِ حق کی صلاحیت سے بالکل محروم

life
06-07-2011, 04:34 AM
۲۶ ۔۔۔۔۔ یعنی منافقین کے اس دوسرے گروہ کی سماعت و بصارت اللہ نے بالکل سلب نہیں کی ہے۔ اس لیے وہ پہلے گروہ کی طرح قبولِ حق کی صلاحیت سے بالکل محروم نہیں ہوئے ہیں۔


۲۷ ۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کی اصل دعوت جس کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو جو تم سب کا خالق، مالک اور پروردگار ہے یعنی پرستش بھی اسی کی کرو اور بندگی بھی اسی کی اختیار کرو جس کی تعلیم قرآن دے رہا ہے۔


جو لوگ اللہ کی عبادت کے تو قائل ہیں لیکن اس کی عبادت میں من گھڑت خداؤں کو شریک کرتے ہیں ان کی عبادت حقیقۃً اللہ کی عبادت نہیں ہے۔ جو لوگ واقعی اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس طریقہ پر کریں جس کی تعلیم قرآن دے رہا ہے۔


۲۸ ۔۔۔۔۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے جن لوگوں نے اپنے بزرگوں کو خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے ان کو خالق کی صف میں لا کھڑا کرنا اور ان کے بت بنا کر پوجنا صحیح نہیں ہے۔ پرستش کا مستحق صرف اللہ ہے جو گزرے ہوئے بزرگوں کے بشمول سب کا خالق ہے۔


۲۹ ۔۔۔۔۔ اہل عرب تسلیم کرتے تھے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں پھر بھی وہ اللہ کے شریک ٹھہراتے تھے۔ اس لیے ان سے کہا گیا کہ جب تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تخلیق و ربوبیت کے یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں تو پھر ان کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو جن کا ان کاموں میں کوئی حصہ نہیں۔ یہ توحید کی دعوت ہے جس کے دلائل یہاں مختصراً بیان کئے گئے ہیں۔

life
06-07-2011, 04:34 AM
۳۰ ۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم کو قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ حضرت محمد ؐ کی تصنیف ہے تو تم بھی کوئی اس جیسی ایک سورہ ہی تصنیف کر لاؤ۔ قرآن کے اس چیلنج کا جواب نہ اس زمانے کے مخالفین دے سکے اور نہ بعد کے کسی زمانے کے۔ قرآن کی یہ عظمت مختلف پہلوؤں سے ہے۔ کمال درجہ کی فصاحت و بلاغت، الفاظ کا موزوں ترین انتخاب، موتیوں کی طرح لڑیوں میں پرویا ہوا نظم کلام، دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والی باتیں ، فطری داعیات سے کامل ہم آہنگی، وجدان کی پکار، تزکیۂ نفس کا بہترین نسخہ، اخلاق و شرافت کے نقطہ عروج کو پہنچا دینے والی تعلیم، انسانی زندگی کے لیے مکمل نظام، مسائل حیات کا موزوں ترین حل، زندگی کے جملہ شعبوں کے لیے رہنمائی کا سامان، کائنات کے اسرار اور مابعد الطبعی حقائق کا انکشاف، خالق کائنات کی صحیح ترین معرفت اور اس کی مرضیات کا علم قرآن کی عظمت کے وہ پہلو ہیں جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی بین شہادت دیتے ہیں۔ ایسا کلام جس کی یہ خصوصیات ہوں انسان پیش کرنے سے عاجز ہے اور تمام انسان مل کر بھی اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتے۔ اس آیت میں قرآن اور نبوت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔


۳۱ ۔۔۔۔۔ مراد وہ پتھر ہیں جن کو پوجا جاتا رہا۔ جہنم کی غذا وہ لوگ ہوں گے جن کے اندر کفر اور شرک موجود ہو گا اور وہ بت بھی ہوں گے جو پوجے جاتے رہے تاکہ ان کے پرستاروں کو معلوم ہو جائے گا کہ جن پر وہ چڑھاوے چڑھاتے رہے ہیں ان کی کیا گت بن گئی ہے اور وہ کس طرح ان کی ہلاکت کا موجب بن گئے۔


۳۲ ۔۔۔۔۔ جنت کے باغ جو اہل ایمان کو آخرت میں ملیں گے۔

life
06-07-2011, 04:34 AM
۳۳ ۔۔۔۔۔ جنت کے پھل شکل و صورت میں دنیا کے پھلوں سے مشابہ ہوں گے لیکن ذائقہ میں ان سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گے۔


۳۴ ۔۔۔۔۔ حقائق کو اگر مثال کے پیرایہ میں بیان کیا جائے تو وہ بہ آسانی عقل کی گرفت میں آ جاتے ہیں اس لیے تمثیل ایک حکیمانہ کلام کی خصوصیت ہوتی ہے۔ قرآن نے بتوں کی بے بسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ ان مثالوں کی آڑ لے کر مشرکین قرآن پر معترض ہوتے تھے۔ اسی کا جواب یہاں دیا گیا ہے۔


۳۵ ۔۔۔۔۔ فاسق یعنی نافرمانی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ یہاں یہ لفظ ان بڑی بڑی نافرمانیوں کے لیے استعمال ہوا ہے جس کے ساتھ ایمان جمع نہیں ہو سکتا۔


۳۶ ۔۔۔۔۔ مراد رشتۂ رحم کو کاٹنا ہے۔ جو شخص اس رشتہ کو کاٹتا ہے وہ معاشرہ کی جڑ پر کلہاڑا چلاتا ہے اس لیے اس کو بڑے گناہ کا کام اور موجب فساد قرار دیا گیا ہے۔


۳۷ ۔۔۔۔۔ اللہ کی صفات مثلاً اس کے معبود واحد، مختارِ کل، عادل، علیم و خبیر اور قادرِ مطلق ہونے کی نفی کرنا، اللہ کا انکار کرنے کے ہم معنی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کو ماننا ہے تو اسے اس کی حقیقی صفات کے ساتھ مانو ورنہ اس کو ماننے کا دعویٰ کوئی وزن نہیں رکھتا۔


۳۸ ۔۔۔۔۔ یعنی زندگی، موت اور دوبارہ اٹھایا جانا کسی دیوی دیوتا کا کام نہیں بلکہ یہ سب چیزیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ پھر کس طرح اس کی ناشکری کرتے ہو؟ اس آیت میں آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

life
06-07-2011, 04:34 AM
۳۹ ۔۔۔۔۔ اس سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خدا کی خدائی نظر آنے والے ستاروں تک محدود نہیں ہے بلکہ


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں


۴۰ ۔۔۔۔۔ لفظ ملائکہ استعمال ہوا ہے جو مَلَک کی جمع ہے اور جس کے معنی پیغام رساں کے ہیں اردو میں اسے فرشتہ اور انگریزی میں (Angel) کہتے ہیں۔


فرشتے اللہ کی ذی شعور اور ذی عقل مخلوق ہیں نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ صفات سے متصف ہیں۔ وہ کائنات میں اللہ کے احکام کی تنقید کرتے ہیں۔ اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے بجا لاتے ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کے نبیوں کے پاس وحی لاتے ہیں ،انسانی اعمال کا ریکارڈ رکھتے ہیں اسی طرح روح قبض کرنے کا کام بھی وہ اللہ کے اذن سے انجام دیتے ہیں۔


۴۱ ۔۔۔۔۔ لفظ خلیفہ یہاں با اختیار کے معنی میں استعمال ہوا انسان کو زمین پر خلیفہ مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اختیارات تفویض کر کے آزمائے گا۔ آیا وہ ان اختیارات کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا من مانی کر کے خدا بن بیٹھتا ہے۔

life
06-07-2011, 04:34 AM
مذکورہ آیت میں گویا اس بنیادی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ انسان کی اس دنیا میں اصل حیثیت کیا ہے۔ اس سوال کے صحیح جواب ہی پر اس کے طرز عمل کی صحت اور اس کے حسن انجام کا دار و مدار ہے۔ اس اہم ترین سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کا صحیح جواب تلاش کرنے کے بجائے لوگ اپنی یہ حیثیت متعین کر لیتے ہیں کہ وہ بالکل آزاد اور خود مختار ہیں۔ نہ کسی ہستی نے ان کو اختیارات تفویض کئے ہیں اور نہ ان اختیارات کے استعمال میں وہ کسی ہستی کی مرضی کے پابند ہیں اور نہ ہی انہیں اس بارے میں کسی کے حضور جوابدہی کرنی ہے۔ اس نظریہ کے نتیجہ میں انسان خلافت کے مقام کو چھوڑ کر خدائی کے مقام پر جا بیٹھتا ہے اور اپنے اس غلط فیصلے کے نتیجہ میں زمین کو فساد سے بھر دیتا ہے کیوں کہ زمین کے امن و عدل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں اللہ کے احکام و قوانین جاری و نافذ ہوں ورنہ انسانی خواہشات کی فرماں روائی کا نتیجہ بگاڑ اور ظلم و زیادتی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟


۴۲ ۔۔۔۔۔ فرشتوں نے یہ اندیشہ محسوس کیا کہ انسان کو امتحاناً جو اختیارات تفویض کئے جا رہے ہیں۔ ان کو صحیح طور سے استعمال کرنا آسان نہیں۔ ان اختیارات کو پا کر انسان بہک سکتا ہے اور من مانے طریقے پر استعمال کر سکتا ہے۔ جس کا قدرتی نتیجہ فساد اور خونریزی کی شکل میں ظاہر ہو گا۔

life
06-07-2011, 04:35 AM
۴۳ ۔۔۔۔۔ فرشتوں کے ذہن میں جو اشکال پیدا ہو گیا تھا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو بات ارشاد فرمائی اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے خلیفہ بنائے جانے سے اللہ کے پیش نظر جو اسکیم ہے اس کا تمہیں پوری طرح علم نہیں ہے۔ تمہارے سامنے اس اسکیم کے چند پہلو یا تصویر کا ایک رُخ آ سکا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ جو اس اسکیم کی اصل غایت ہے تمہاری نظروں سے اوجھل ہے یہ چیز تمہارے سامنے آئے گی تو تمہیں محسوس ہو گا کہ انسان کے خلیفہ بنائے جانے میں کتنی عظیم حکمت کار فرما ہے۔


۴۴ ۔۔۔۔۔ ناموں سے مراد آدم کی ذرّیت کے نام ہیں۔ خاص طور سے ان لوگوں کے نام جو دنیا میں اختیارات کا صحیح استعمال کر کے خلافت کا حق ادا کریں گے۔ گویا آدم کو پہلے ہی ان کی اولاد سے متعارف کرایا گیا اور خاص طور سے یہ مثبت پہلو سامنے لایا گیا کہ تمہاری اولاد میں ایسی شخصیتیں بھی ہوں گی جو زمین میں صلاح و تعمیر کی بیش بہا خدمات انجام دیں گی اور یہ لوگ اپنے عظیم کارناموں کی بدولت زمین کے گل سر سید کہلائیں گے۔


فحوائے کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ اولادِ آدم کی جلیل القدر شخصیتوں کو ان کی تخلیق سے قبل ممثل کر کے فرشتوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا یا ان کی روحیں پیش کر دی گئی تھیں۔ بہر صورت فرشتوں کے سامنے مسمیات کو پیش کیا گیا تھا تاکہ ان پر بیک وقت دونوں باتیں واضح ہو جائیں ایک تو ان کے قیاس کی غلطی کہ انسان زمین میں بگاڑ ہی کے کام کرے گا اور دوسرے خدائی منصوبہ کا یہ مثبت پہلو کہ اولاد آدم میں ایسی ایسی شخصیتیں ہوں گی جو بناؤ کا کام بحسن و خوبی انجام دیں گی اور انسانیت کا جوہر خالص چھٹ کر سامنے آئے گا ایسے ہی لوگ خدا کی رحمت کے مستحق ہوں گے اور انہی کو جنت میں بسایا جائے گا۔

life
06-07-2011, 04:35 AM
اگرچہ مفسرین کے ایک گروہ نے اسماء سے مراد اشیاء کے نام لیے ہیں لیکن اول تو یہ تاویل سخوی اعتبار سے صحیح نہیں معلوم ہوتی جیسا کہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اشارہ کیا ہے کیوں کہ اس میں ہم اور ہٰؤلاء کی جو ضمیریں استعمال ہوئی ہیں وہ اشیاء کے بجائے ذوی الارواح کے لیے موزوں ہیں۔ دوسرے اس تاویل کو اختیار کرنے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کے ذہن میں جو اشکال پیدا ہو گیا تھا وہ اس بات سے کس طرح رفع ہوا ہو گا کہ آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئے گئے۔ ظاہر ہے ان کا اشکال اسی صورت میں رفع ہو سکتا تھا جب کہ ان کے سامنے تخلیق آدم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اعلیٰ اوصاف کی شخصیتوں کے کچھ نمونے پیش کئے جاتے۔ اسی لیے ہم نے اسماء سے مراد شخصیتوں کے نام لیے ہیں۔ علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیرمیں مفسرین کا ایک قول اس بات کی تائید میں نقل کیا ہے ہ اسماء سے مراد اولادِ آدم کے نام ہیں اور اس کو ترجیح دی۔ (ملاحظہ ہو تفسیر طبری ج ۱ ص ۱۷۱)


۴۵ ۔۔۔۔۔ یعنی اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ انسان اختیارات پا کر زمین میں فساد ہی فساد برپا کرے گا تو ذرا ان لوگوں کے بھی تو نام اور اوصاف بتاؤ؟ کیا یہ لوگ بھی فساد برپا کرنے والے ہیں ؟


۴۶ ۔۔۔۔۔ یعنی آدمؑ نے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم کی بنا پر بتلایا کہ میری ذریت میں یہ اور یہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے سچے وفا دار بندے بنیں گے اور امن و عدل کے قیام میں سردھڑکی بازی لگائیں گے۔


انسان کو خلیفہ بنانے کا یہ وہ پہلو ہے جو فرشتوں کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے امتحان لے کر آدم ہی کی زبانی ان پر یہ مثبت پہلو واضح کر دیا۔ اس واقعہ سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے۔

life
06-07-2011, 04:35 AM
(۱) انسان کی تخلیق عظیم ترین مقصد کے لیے ہوئی ہے خیر و شر کی اس رزمگاہ سے ایسے افراد کو منتخب کرنا مقصود ہے جو اعلیٰ اوصاف کے حامل ہوں۔


(۲) انسانوں کے درمیان سے اس جوہر کو چھانٹ کر اسے اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں نعمتوں اور رحمتوں سے نوازنا چاہتا ہے۔ چنانچہ آخرت میں ان کا ابدی مقام جنت ہو گا۔


(۳) اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے صرف چند پلہوؤں کو اگر سامنے رکھا جائے تو آدمی غلط رائے قائم کر بیٹھے گا لیکن اگر اس کی پوری اسکیم پیش نظر رہے جو اسی کے بتلانے سے ہماری سمجھ میں ا سکتی ہے تو ا سکیم کی اصل غایت اور حکمت سمجھ میں ا سکتی ہے۔


(۴) جو لوگ انسان کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالیٰ کی اسکیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ انسان کی دنیا میں حیثیت اور اس کے مقصد زندگی کا غلط تعین کر بیٹھتے ہیں۔


(۵) اللہ علیم و حکیم ہے۔ اس لیے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اگر کوئی کام بظاہر حکمت سے خالی نظر آئے تو اس کو نشانۂ اعتراض بنانے کے بجائے اپنے علم کی کمی پر محمول کرنا چاہیے۔

life
06-07-2011, 04:35 AM
(۶) فرشتے جو اللہ کے مقرب بندے ہیں۔ فہم کا قصور ان سے بھی سرزد ہوا جس سے واضح ہوا کہ وہ اپنے اندر خدائی کی صفت نہیں رکھتے۔ ہر طرح سے پاک اور منزّہ ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔


(۷) زمین کا صحیح انتظام و انصرام اور اس میں خیر و صلاح اور امن و عدل کا قیام اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے اس کی ہدایت و مرضی کے مطابق استعمال کرے۔


۴۷ ۔۔۔۔۔ آدمؑ کے لیے سجدہ کرنے کا حکم تعظیم کے طور پر تھا جس میں فرشتوں کا امتحان تھا کہ اس نوری مخلوق کو خاکی مخلوق کے آگے جھکنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کی وہ تعمیل کرتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے اس حکم خداوندی کی تعمیل کی اور امتحان میں پورے اترے۔


یہ سجدہ در حقیقت اس بات کا اعتراف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک نئی مخلوق کو وجود بخشا ہے جو اپنے اندر خلافتِ ارضی کی بدرجۂ اتم صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے اس سجدہ کی نوعیت سجدۂ عبادت سے بالکل مختلف تھی لیکن چوں کہ اس میں آدم کی عظمت کا پہلو نمایاں تھا اس لیے ابلیس جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھا اس حکم کی تعمیل کے لیے آمادہ نہ ہوسکا۔


اگر اس سجدہ میں شرک کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو ابلیس کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع ملتا کہ میں آدم کی عبادت کس طرح کروں لیکن ابلیس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ اپنے سجدہ نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جبکہ مجھے آگ سے یعنی آدم کے مقابلہ میں اپنی برتری کا اظہار کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آدم کو سجدہ تکریم کے لیے تھا نہ کہ عبادت کے لیے۔

life
06-07-2011, 04:36 AM
واضح رہے کہ یہ ایک مخصوص حکم تھا جو فرشتوں کو اور ابلیس کو دیا گیا تھا ورنہ اسلام نے اپنی تکمیلی شریعت میں غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ٹھہرایا ہے خواہ وہ سجدہ تعظیم ہی کیوں نہ ہو۔


اس سے اس حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو مسجود ملائکہ بنا کر انسان کو بڑا مرتبہ عطا کیا ہے اس کے بعد انسان کا اینٹ پتھر اور دیگر مخلوقات کے آگے جھکنا اس کے مقام سے نہایت فروتر ہے۔


۴۸ ۔۔۔۔۔ ابلیس شیطان کا نام ہے جو جنوں میں سے تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی آدمؑ کے آگے جھک جانے کا حکم دیا تھا۔ مگر اس نے اس سے انکار کیا۔


۴۹ ۔۔۔۔۔ اس سے کفر کی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اللہ کے کسی بھی حکم کو ماننے سے انکار کرنا کفر ہے اور شیطان اسی جرم کا مرتکب ہوا تھا ورنہ شیطان اللہ کے وجود کا منکر نہ تھا۔


۵۰ ۔۔۔۔۔ یہ عارضی جنت تھی جس میں آدم و حوا کو آزمائش کی غرض سے رکھا گیا تھا تاکہ انہیں زمین پر بھیجنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح محسوس کرائی جائے کہ تمہارے شایانِ شان مقام جنت ہی ہے لیکن اگر تم شیطان کے بہکانے میں آ گئے تو اپنے کو جنت سے محروم کر لو گے۔

life
06-07-2011, 04:36 AM
۵۱ ۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ نہیں بتلایا کہ یہ درخت کس چیز کا تھا۔ اور اس کی خاصیت کیا تھی اور نہ صحیح حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہے اس لیے اس بحث میں پڑنا فضول ہے۔ اس درخت سیمنع کرنے کی اصل غرض آزمائش تھی کہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں آدم و حوا خدا کے حکم کی کس حد تک تعمیل کرتے ہیں اس مقصد کے لیے کسی ایک درخت کو منتخب کرنا کافی تھا۔


۵۲ ۔۔۔۔۔ قرآن صراحت کرتا ہے کہ لغزش آدم اور حوا دونوں سے سرزد ہوئی تھی اور یہ شیطان کے ورغلانے کے نتیجہ میں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ آدم کو حوا نے بہکایا تھا صحیح نہیں۔


۵۳ ۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان۔


۵۴ ۔۔۔۔۔ آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہیں توبہ کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ اللہ نے ان پر رحم فرما کر توبہ کے لیے موزوں الفاظ ان پر القاء فرما دیئے۔ شیطان اپنی نافرمانی پر بضد ہو گیا لیکن آدم اپنی نافرمانی پر نادم ہوئے جب بندہ کو ئی گناہ کر گزرتا ہے اور اس کے بعد اگر اس کو شرمساری ہوتی ہے اور وہ اللہ سے معافی چاہتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماتا ہے اور اس کی توبہ قبول کر کے اسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔


۵۵ ۔۔۔۔۔ زمین پر اتارا جانا سزا کے طور پر نہ تھا کیوں کہ حضرت آدمؑ کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی تھی۔ اس سے انسان کے پیدائشی گنہگار ہونے کے عقیدہ کی تردید ہوتی ہے۔ آدم کو چوں کہ زمین کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھی اس لیے اسے زمین پر اتارا گیا۔


۵۶ ۔۔۔۔۔ آدم کی لغزش سے انسانی فطرت کی کمزوری ظاہر ہو گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان الہ کی ہدایت کا محتاج ہے۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی اس ہدایت کے لیے نبوت اور رسالت کو ذریعہ بنایا ہے۔ وہ ہر ہر شخص کو براہِ راست ہدایت نہیں بھیجتا بلکہ انبیاء اور رسولوں کو منتخب کر کے ان پر اپنی وحی نازل کرتا ہے اور یہ انبیاء اور رسول عام انسانوں تک اس کا پیغام پہنچاتے ہیں۔


انسان کو دنیا میں بھیج کر اللہ تعالیٰ اس کا امتحان کرنا چاہتا ہے کہ کون اس کی ہدایت کو قبول کر کے زمین میں اس کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت اختیار کرتا ہے اور کون اس کی ہدایت کو رد کر کے اپنی من مانی کرتا ہے اور اس طرح خدائی کے جھوٹے منصب پر جا بیٹھتا ہے۔

life
06-07-2011, 04:36 AM
۵۷ ۔۔۔۔۔ یعنی نہ ماضی کا غم نہ مستقبل کا خطرہ۔ مراد اس سے جنت ہے جہاں نہ کوئی غم ہو گا اور نہ کسی قسم کا خطرہ۔


۵۸ ۔۔۔۔۔ آیات کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی علامتوں اور نشانیوں کے ہیں۔ مراد اللہ کی توحید و ربوبیت اور اس کی قدرت و حکمت کی وہ نشانیاں ہیں جو آفاق و انفس میں موجود ہیں۔ نیز یہ لفظ ان معجزات کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دئے گئے تھے۔ علاوہ ازیں قرآن کی آیتوں کے لیے بھی جو دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتی ہیں۔


۵۹ ۔۔۔۔۔ اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب ہے جو نبی تھے۔ اور حضرت ابراہیم کے پوتے تھے۔ ان کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم امام الناس اور جلیل القدر نبی ہیں جن کی ذریت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ چلایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے۔ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق۔ حضرت اسماعیل سے جو نسل چلی وہ نبی اسماعیل کہلائی۔ مکہ کے عرب بنی اسمعٰیل ہی کی شاخ سے تھے اور اسی شاخ کے قبیلہ قریش میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔


دوسری شاخ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب(اسرائیل) سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ ان کا اصل وطن فلسطین تھا۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسی، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر پیدا ہوئے۔


بنی اسرائیل کو جو دین حضرت ابراہیمؑ سے ورثہ میں ملا تھا وہ اسلام تھا۔ حضرت موسیٰ نے بھی جن پر تورات نازل ہوئی تھی اسلام ہی کو پیش کیا تھا لیکن بعد میں بنی اسرائیل نے اس میں تحریف کر کے یہودی مذہب کی شکل اختیار کر لی۔ اس لیے بعد میں بنی اسرائیل یہودی کہلائے۔ حالانکہ ان کا اصل مذہب اسلام تھا۔ یہاں قرآن ان کو اصل حقیقت یاد دلا رہا ہے اور ان کی فرد جرم بیان کر رہا ہے تاکہ وہ متنبہ ہو کر اصل دین یعنی اسلام کی طرف لوٹ آئیں اور قرآن کی دعوت کو جو اسلام کی حقیقی دعوت ہے قبول کر لیں۔


۶۰ ۔۔۔۔۔ نعمت سے مراد وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو دنیا کی سیادت و امامت کی شکل میں عطا ہوا تھا تاکہ وہ دنیا والوں کے سامنے اسلام کی علمبرداری کریں۔


۶۱ ۔۔۔۔۔ اللہ کے عہد سے مراد اللہ کی شریعت ہے جو درحقیقت اللہ اور بندوں کے درمیان ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہاں خاص طور سے اس عہد کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت موسیٰ کے زمانے میں ہی لیا گیا تھا۔ اس عہد کا ذکر تورات میں اس طرح موجود ہے۔

life
06-07-2011, 04:36 AM
’’ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں اُن کا حساب اس سے لوں گا‘‘(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸۔۔۔ ۱۹)


یہ عہد یاد دلا کر قرآن ان سے حضرت محمدؐ پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔


۶۲ ۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کرنے اور ان پر ایمان لانے میں کسی کا ڈر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ تمام مصلحتوں اور اندیشوں کے علی الرغم اللہ کی عظمت و جلال کا تصور غالب ہونا چاہیے۔


۶۳ ۔۔۔۔۔ تورات و انجیل کے منزل من اللہ ہونے کی قرآن تصدیق کرتا ہے۔ وہ اصل تورات و انجیل کی تردید نہیں کرتا بلکہ صرف ان تحریفات کی تردید کرتا ہے جو بعد میں لوگوں نے اصل کتابوں میں شامل کر لی تھیں۔


یہاں خصوصی اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق جو پیش گوئیاں موجود ہیں ان کو قرآن سچا ثابت کر رہا ہے کیوں کہ ان پیشین گوئیوں کے مطابق قرآن اور اس کے پیغمبر کا ظہور ان کے حق ہونے کی صریح دلیل ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔


۶۴ ۔۔۔۔۔ یعنی دنیوی مفادات اور مصلحتوں کی خاطر اللہ کے احکام کو قربان نہ کرو۔ دنیا کا مفاد خواہ کتنا ہی بڑا ہو آخرت کے مقابلے میں نہایت حقیر ہے اس لیے جو شخص دنیوی مفاد کو اللہ کے احکام پر ترجیح دیتا ہے وہ ایک اعلیٰ چیز کے مقابلے میں نہایت حقیر چیز قبول کرتا ہے۔


۶۵ ۔۔۔۔۔ نماز اور زکوٰۃ اسلام کے اہم ترین ارکان ہیں جو بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی موجود تھے لیکن عملاً وہ ان دونوں ارکان کو ترک کر بیٹھے تھے۔

life
06-07-2011, 04:37 AM
۶۶ ۔۔۔۔۔ رکوع کے معنی جھکنے کے ہیں اور نماز میں رکوع گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر جھکنے کی ایک خاص شکل ہے۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے سے اشارہ نماز با جماعت کی طرف ہے۔ مسجد میں با جماعت نماز پڑھنے کی صورت میں امیر و غریب اور عوام و خواص سب ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے بندگی کی ایک خاص شان پیدا ہو جاتی ہے۔ مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے علاوہ ازیں انسانی مساوات اور اخوت کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے یہود نے اور خاص طور سے ان کے امراء نے مسجدوں کی حاضری کو کسر شان سمجھ کر نماز با جماعت کا اہتمام ترک کر دیا تھا اس لیے یہاں ان کو مخاطب کر کے خاص طور سے یہ حکم دیا گیا کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کریں۔


۶۷ ۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص اللہ کے حضور کھڑے ہونے کا ڈر اپنے دل میں نہ رکھتا ہو اس کے لیے نماز کی پابندی ایک مصیبت ہے لیکن جو لوگ خدا کے حضور پیشی کے تصور سے لرزاں رہتے ہیں ان کے لیے نماز سے زیادہ مرغوب کوئی چیز نہیں۔


آیت میں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی ہے یہ مدد اللہ کے عہد اطاعت کو پورا کرنے کے لیے حاصل کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ سے اطاعت کا جو عہد تم نے کیا ہے اس کو پورا کرنے اور فرماں برداری کی زندگی گزارنے کے لیے جس باطنی قوت کی ضرورت ہے وہ صبر اور نماز سے حاصل ہو سکتی ہے۔ صبر کا مطلب اپنے کو بری خواہشات سے روکنا ہے۔ جب تک آدمی اپنی خواہشات کو قابو میں نہیں رکھتا اطاعت و بندگی کی زندگی نہیں گزارسکتا۔ کیونکہ اللہ کی اطاعت کی راہ میں قدم قدم پر خواہشات رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ دوسری چیز جس کا اہتمام ضروری ہے وہ نماز ہے کیونکہ نماز خدا سے بندہ کے تعلق کو مضبوط بناتی ہے نفس کی بہترین تربیت کرتی ہے اور روح کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔ اس طرح نماز سے جو قوت حاصل ہوتی ہے وہ اطاعت و بندگی کی راہ میں اس کی معاون بن جاتی ہے۔

life
06-07-2011, 04:37 AM
۶۸ ۔۔۔۔۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے مشہور واقعات کی طرف اشارات کئے گئے ہیں۔ جن سے وہ اچھی طرح واقف تھے اس سے ظاہر کرنا یہ مقصود ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں جو اس نے اس قوم پر کئے اور دوسری طرف ان کے یہ کرتوت ہیں جن کے نتیجہ میں یہ معتوب قرار پائے۔


۶۹ ۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے کتاب اور ہدایت سے نواز کر اقوام عالم کی رہنمائی کا منصب عطا کیا تھا تاکہ وہ دنیا والوں کے سامنے دین حق کی دعوت پیش کریں۔


۷۰ ۔۔۔۔۔ صحرائے سینا میں موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر چالیس شب و روز کے لیے طلب فرمایا تھا تاکہ انہیں شرعی احکام عطا کئے جائیں۔


۷۱ ۔۔۔۔۔ مصر میں گائے کی پرستش کا رواج تھا اس لیے یہ مرض بنی اسرائیل میں بھی پیدا ہو گیا تھا۔ بچھڑے کی پرستش کا واقعہ تورات میں مذکور ہے۔


’’ انہوں نے اپنے لیے ڈھلا ہوا بچھڑا بنایا اور اسے پوجا اور اس کے لیے قربانی چڑھا کر یہ بھی کہا کہ اے اسرائیل یہ تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا۔ ‘‘(خروج ۳۲:۸)

life
06-07-2011, 04:37 AM
۷۲ ۔۔۔۔۔ فرقان تورات کی صفت ہے یعنی اس کتاب کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرتی تھی اور اس کی روشنی میں اہل ایمان معاملات و مسائل میں خیر و شر کا امتیاز کر سکتے تھے۔


۷۳ ۔۔۔۔۔ یہ گوسالہ پرستی کی سزا تھی جو انہیں دی گئی۔ جو لوگ اس شرک میں مبتلا نہیں ہوئے تھے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کریں جو گوسالہ پرستی اختیار کر کے ارتداد کے مرتکب ہوئے تھے۔ تورات میں ہے:


’’ اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے پر عمل کیا چنانچہ اس دن لوگوں میں سے تقریباً تین ہزار کھیت آئے۔ ‘‘(خروج ۳۲:۲۸)


اس سے واضح ہے کہ شرک اسلام کی نظر میں ایک زبردست گناہ ہے اور اس کی سزا بھی اسلام میں بڑی سخت ہے۔


۷۴ ۔۔۔۔۔ یعنی یہ عبرتناک سزا معاشرہ کو توحید پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ شرک کے معاملہ میں نرمی اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پوری قوم عقیدہ و عمل کے فساد میں مبتلا ہو جائے۔

life
06-07-2011, 04:37 AM
۷۵ ۔۔۔۔۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰؑ سے ہم کلام ہوتا ہے اور انہیں احکام دیتا ہے۔ وہ کہتے کہ جب تک ہم اللہ کو آپ سے کلام کرتا ہوا نہ دیکھ لیں آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ یہ انکار کے لیے محض بہانہ تھا ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے جن کا ظہور موسیٰؑ کے ہاتھوں ہو رہا تھا : اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ پر عتاب نازل فرمایا۔ تورات کے بیان کے مطابق یہ ستر افراد تھے جنہیں لے کر موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر گئے تھے۔


۷۶ ۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل نے مصرسے نکلنے کے بعد صحرائے سینا میں قیام کیا تھا۔ وہاں ان کو دھوپ سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابر کا اور فاقہ سے بچانے کے لیے من و سلویٰ کا انتظام فرمایا تھا۔ ’’ من‘‘ گوند کے قسم کی ایک چیز تھی جو شبنم کی طرح زمین پر ٹپکتی اور جم جاتی تھی۔ یہ دھنیا کی طرح گول دانے کی شکل میں ہوتی تھی جس کو نبی اسرائیل جمع کر لیتے تھے اور وہ روٹی کا کام دیتی تھی۔


’’سلویٰ‘‘ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے جن کے جھنڈ کے جھنڈ شام کے وقت آ جاتے اور وہ ان کا نہایت آسانی سے شکار کر لیتے۔ تورات میں ہے۔


’’ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا میں نے بنی اسرائیل کا بڑبڑانا سُن لیا۔ سوتو ان سے کہہ دے کہ شام کو تم گوشت کھاؤ گے اور صبح کو تم روٹی سے سیر ہو گے اور تم جان لو گے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا۔ ‘‘


اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی۔ (خروج۱۷:۱۱تا۱۳)

life
06-07-2011, 04:38 AM
یہ چیزیں اتنی کثرت سے فراہم ہوتی تھیں کہ پوری قوم ان پر گزر بسر کرتی تھی۔


۷۷ ۔۔۔۔۔ بستی سے مراد غالباً فلسطین کا شہر اریحا(eriha) ہے۔ یہ شہر سب سے پہلے بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا۔


۷۸ ۔۔۔۔۔ دروازہ سے مراد بستی کا دروازہ ہے یعنی جب شہر فتح ہو جائے تو اس میں متکبرانہ انداز سے داخل نہ ہونا بلکہ متواضعانہ انداز میں اللہ کے حضور سرجھکائے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا۔


دنیا پرست لوگ جب کسی ملک کو فتح کر لیتے ہیں تو ان کا سرتکبر سے اونچا ہو جاتا ہے اور وہ زمین کو ظلم و زیادتی سے بھر دیتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی ملک میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو ظالم متکبرین کی روش ہرگز اختیار نہ کرو بلکہ اللہ کے حضور عجز و انکساری اور اپنے گناہوں کے اعتراف کا رویہ اختیار کرو۔ قلب کی یہ کیفیت تمہیں ہر طرح کے ظلم سے باز رکھے گی۔


۷۹ ۔۔۔۔۔ حِطَّۃٌ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔


۸۰ ۔۔۔۔۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا دشت سین میں کی گئی تھی اور چٹان پر لاٹھی مارنے سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے تھے۔ (ملاحظہ ہو گنتی با ب ۲۰)

life
06-07-2011, 04:38 AM
۸۱ ۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور چشمے بھی اللہ تعالیٰ نے بارہ جاری کئے تھے اس طرح ہر قبیلہ نے اپنا اپنا گھاٹ متعین کر لیا اور پانی کے مسئلے پر جھگڑا برپا ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہا۔ صحرا میں پانی کا یہ انتظام اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا۔


۸۲ ۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جس اعلیٰ مقصد کیلئے تمہیں صحرا میں قیام کرنا پڑ رہا ہے اس کے مقابلہ میں تمہیں کھانے پینے کی یہ چیزیں کیا اتنی زیادہ مرغوب ہیں کہ کچھ مدت کے لیے ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ یہ من و سلویٰ کی غذا تمہیں اس حال میں مل رہی ہے کہ تم فرعونیوں کی غلامی اور شرک و کفر کی ذلت سے بالکل آزاد ہو۔ اب یہ تمہارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سادہ اور معمولی غذا کو جو عزت اور آزادی کے ساتھ نصیب ہو رہی ہے بہتر سمجھو یا ان انواع و اقسام کے کھانوں کو جن کے ساتھ غلامی کی ذلت اور کفر و شرک کی آلائشیں لگی ہوئی ہوں۔


۸۳ ۔۔۔۔۔ جو انبیاء علیہم السلام یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ان میں حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحیٰ علیہ السلام جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔ حضرت یحیٰؑ کو یہود کے فرمانروا ہیرو دویس کے حکم سے قتل کیا گیا اور ان کا سر بادشاہ نے ایک تھال میں رکھ کر اپنی معشوقہ کو نذر کیا۔

life
06-07-2011, 04:38 AM
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سولی پر چڑھانے کی سازش کی گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچا لیا۔


۸۴ ۔۔۔۔۔ یعنی احکامِ الٰہی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی خلاف ورزی کی۔


۸۵ ۔۔۔۔۔ مراد مسلمانوں کا گروہ ہے۔


۸۶ ۔۔۔۔۔ صابی اہل کتاب کا ایک فرقہ تھا جو زبور کو مانتا تھا اب اس فرقہ کا وجود نہیں رہا۔


۸۷ ۔۔۔۔۔ یہ آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے اس سے اس کا منشاء بالکل واضح ہے۔ یہاں یہودیوں کی اس غلط فہمی کو کو دور کرنا مقصود ہے کہ یہودی ایک نجات یافتہ گروہ ہیں اس بنا پر کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن اس کی پر زور تردید کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں نجات کا دارو مدار کسی خاندان یا گروہ یا فرقہ(Community) سے وابستگی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار اوصاف(Virtues) پر ہے۔ جو شخص ایمان و عمل صالح کے اوصاف کا حامل ہو گا وہ آخرت میں نجات پائے گا لیکن جو شخص ان اوصاف سے عاری ہو گا وہ نجات اخروی سے محروم رہے گا۔ خواہ وہ مسلمان گروہ ہی کا فرد کیوں نہ ہو۔


یہاں ایمان اور عمل صالح کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں ہے کیوں کہ یہ تفصیل قرآن نے دوسرے مقامات پر واضح کر دی ہے اور اس کی رو سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی نبوت پر اور جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر اللہ کے ہاں ایمان معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہ کی پیروی عمل صالح کے مفہوم میں شامل ہے۔ اس لیے آیت کا یہ مطلب نکالنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ قرآن کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’ اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے خدا اور آخرت کو مانو اور اچھا عمل کرو۔ ‘‘ مذکورہ آیت سے یہ مطلب نکالنا قرآن میں سراسر تحریف کرنا ہے کیوں کہ اس سورہ کا مرکزی مضمون ہی قرآن کے کتاب الٰہی ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے جس کے بغیر ساری دینداری بے معنی ہو جاتی ہے۔ مزید برآں قرآن نے دوسرے مقامات پر یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کر دی ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔


اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ(آل عمران ۱۹) ’’ اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ ‘‘

life
06-07-2011, 04:38 AM
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی اْلآ خِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ’’ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹے میں رہے گا۔ ‘‘(آل عمران ۸۵)


۸۸ ۔۔۔۔۔ مراد تورات کی پابندی کا عہد ہے جو بنی اسرائیل سے کوہِ طور کے دامن میں لیا گیا تھا گویا کہ وہ ان کے اوپر گرا چاہتا ہے۔ یہ اللہ کی عظیم قدرت کا مظاہرہ تھا۔ تاکہ بنی اسرائیل اس بات کو یاد رکھیں کہ وہ جس ہستی کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں وہ زبردست عظمت رکھنے والی ہے اور اس معاہدہ کی خلاف ورزی پر اس کا غضب بھڑک سکتا ہے۔


۸۹ ۔۔۔۔۔ سبت یعنی ہفتہ کا دن بنی اسرائیل کے لیے عبادت کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ اس دن شکار وغیرہ کرنے کی ممانعت تھی لیکن انہوں نے حیلے کر کے اپنے کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کر لیا تھا۔


۹۰ ۔۔۔۔۔ یہ مثال ہے اس بات کی کہ بنی اسرائیل شریعت کے احکام کی تعمیل میں کس طرح گریز اور فرار کی راہیں تلاش کرتے تھے۔


۹۱ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اس لیے وہ متوسط درجہ کی کوئی سی گائے ذبح کرتے تو کافی ہو جاتا لیکن انہوں نے سوال پر سوال کر کے شریعت کی وسعتوں کو اپنے لیے تنگ کر لیا۔


۹۲ ۔۔۔۔۔ ان اوصاف کی گائے اس زمانے میں پرستش کیلئے مختص کی جاتی تھی اس لیے تعین کے ساتھ ایسی ہی گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کو مصر میں رہتے ہوئے گاؤ پرستی کی جو چھوت لگ گئی تھی اس سے وہ پاک ہو جائیں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھائیں کہ اللہ وحدہٗ کے سوا کسی کو وہ قابلِ پرستش نہیں سمجھتے۔ موجودہ تورات میں گائے کو ذبح کرنے کا اصل حکم موجود ہے گو تفصیلات مذکور نہیں۔

life
06-07-2011, 04:39 AM
’’ اور خداوند نے موسیٰؑ اور ہارون سے کہا کہ شرع کے جس آئین کا حکم خداوند نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ تو بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ تیرے پاس ایک بے داغ اور بے عیب سرخ رنگ کی بچھیا لائیں جس پر کبھی جو آنہ رکھا گیا ہو۔ اور تم اسے لے کر الیعزر کاہن کو دینا کہ وہ اسے لشکر گاہ کے باہر لے جائے اور کوئی اسے اسی کے سامنے ذبح کر دے۔ ‘‘(گنتی ۱۹: ۱ تا۳)


۹۳ ۔۔۔۔۔ یہ قسامہ کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ایک مقتول کی لاش میدان میں پڑی ہوئی مل گئی تھی اور اس کے قاتل کا پتہ نہیں لگ رہا تھا اور وہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے۔ اس سلسلے میں شرعی طریقہ یہ مقرر کیا گیا کہ قریب کے لوگوں سے حلفیہ بیانات لئے جائیں کہ ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس حلفیہ بیان کو مؤکد کرنے کے لئے گائے کی قربانی کرنے کا حکم ہوا تاکہ حلفیہ بیان دینے والے اس کے خون سے اپنے ہاتھ دھوئیں۔ بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا۔ وہ اسی موقع کی بات ہے۔ گویا گائے کو ذبح کرنے کا جہاں یہ مقصد تھا کہ گاؤ پرستی کے ذہن کی اصلاح ہو جائے وہاں دوسرا اہم مقصد قسامہ کے طریقے کو رائج کرنا تھا۔


۹۴ ۔۔۔۔۔ جس گائے کو ذبح کیا گیا تھا اس کے ایک حصہ سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح مقتول کے اندر اللہ تعالیٰ نے جان ڈال دی اور اس نے قاتل کا نام بتا دیا۔


یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نشانی کا ظہور تھا نیز اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ گائے کو ذبح کرنے سے کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ اس کو ذبح کرنا مفید ثابت ہوا۔


۹۵ ۔۔۔۔۔ یعنی پتھر سخت ہونے کے باوجود یہ صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ پانی کی سوتیں اس کے اندر جاری ہوں۔ لیکن انسان کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو جانے کی صورت میں اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ اس کی تمام سوتیں خشک ہو جاتی ہیں اور پھر کوئی نصیحت کا ر گر ثابت نہیں ہوتی۔ اسی لیے جو لوگ اللہ کے غضب کی پرواہ کئے بغیر گناہ کئے چلے جاتے ہیں ان کی اصلاح کسی کے بس میں نہیں ہوتی۔


۹۶ ۔۔۔۔۔ اہل کتاب نے اللہ کے کلام میں جو تحریف کی تھی اس کی مختلف شکلیں تھیں۔ ایک شکل یہ تھی کہ وہ کلام میں کمی بیشی کر دیتے تھے۔ مثلاً انہوں نے یہ جھوٹ خدا کی طرف منسوب کر دیا کہ اللہ نے چھ دن میں کائنات کو پیدا کیا اور اس کے بعد ساتویں دن آرام کیا۔ (تورات۔ خروج ۳۱:۱۷)


نعوذ باللہ من ذالک۔ اسی طرح حضرت ہارونؑ پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے بچھڑا بنایا تھا(خروج باب ۳۱، ۳۲) دوسری شکل یہ تھی کہ الفاظ کو کچھ سے کچھ بنا دیتے مثلاً مروہ کو جو مکہ کی پہاڑی کا نام ہے مورہ یا مریا بنا دیا تاکہ اس کو پہچانا نہ جا سکے ورنہ مکہ کی فضیلت ثابت ہو گی اور چوتھی شکل یہ تھی کہ الفاظ کا ایسا ترجمہ کیا جاتا جو سیاق و سباق اور کلام کے منشاء کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ موجودہ تورات، انجیل وغیرہ میں اس قسم کی تحریفات کی گئی ہیں۔ یہ کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر، قومی تاریخ اور قیاسی باتوں کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کر کے خدا کے کلام(Word of God) کی حیثیت سے پیش کر دیا ہے۔


۹۷ ۔۔۔۔۔ یہود آپس میں کہتے تھے کہ جو پیش گوئیاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں تورات میں موجود ہیں ان کو مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو ورنہ مسلمان خدا کے حضور پیشی کے دن ان کو تمہارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔


۹۸ ۔۔۔۔۔ مراد اہل کتاب کے عوام ہیں جو دین کے احکام و ہدایات سے ناواقف تھے۔

life
06-07-2011, 04:39 AM
۹۹ ۔۔۔۔۔ جب آدمی بے عملی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو شریعت کی پابندیاں اسے بوجھل معلوم ہونے لگتی ہیں اس لیے وہ کلام الٰہی کی من مانی تاویل کر کے اپنی بے عملی کو سندِ جواز عطا کرنے لگتا ہے۔ من چلے لوگ اس قسم کی غلط تاویلات پیش کر کے عوام کی گمراہی کا سامان کرتے رہتے ہیں اور عوام ان کے چکمے میں آ کر دین کو بازیچۂ اطفال بنا لیتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ نجات کے لیے مذہب کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرنا اور فلاں فلاں بزرگوں کا دامن گرفتہ ہونا کافی ہے۔


زندگی کتنی ہی گنہگارانہ ہو فلاں اور فلاں کے طفیل ہمیں جنت ضرور ملے گی۔ لیکن قرآن نے اس قسم کی جھوٹی دینداری کی جڑ کاٹ دی ہے اور نجات کے معاملہ میں جھوٹی آرزوؤں اور خام خیالوں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی۔


۱۰۰ ۔۔۔۔۔ مراد اہلِ کتاب کے علماء ہیں۔


۱۰۱ ۔۔۔۔۔ ان کی اس دین فروشی کا مقصد دنیوی مفاد حاصل کرنا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فائدہ جو دین کو فروخت کر کے حاصل کیا جائے اپنے نتیجہ کے اعتبارسے نہایت حقیر ہے۔


۱۰۲ ۔۔۔۔۔ خدا کی کتاب میں خود ساختہ باتیں شامل کر کے یا مذہبی کتاب خود تصنیف کر کے لوگوں کو یہ باور کرانا کہ یہ خدا کی نازل کردہ کتاب ہے وہ زبردست گمراہی ہے جس کا شکار عام طور سے اہل مذاہب رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ جو چیز فی الواقع خدا کی نازل کردہ نہیں ہے اس کو خدا کی طرف منسوب کرنا پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ اور جو لوگ اس قسم کی جعل سازی کرتے ہیں وہ سخت ظالم ہیں اور انہیں نہایت برے انجام سے دو چار ہونا ہو گا۔ ظاہر ہے مذہب کے نام پر کھوٹے سکے چلانا اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کوئی معمولی جرم نہیں ہے اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہونی چاہیے۔

life
06-07-2011, 04:39 AM
۱۰۳ ۔۔۔۔۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ چونکہ برگزیدہ امت ہیں اس لیے ان کے اعمال خواہ کچھ ہوں وہ آگ میں ڈالے نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو چند دن سزا بھگت کر پھر جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔ اس خام خیالی نے ان کو دین کے تقاضوں سے بے پرواہ کر دیا تھا اور ان کے اندر بے عملی پیدا ہو گئی تھی۔ دین ک بارے میں یہ زبردست غلط فہمی تھی جس میں یہود مبتلا ہو گئے تھے اور افسوس کہ مسلمان بھی اسی قسم کی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔


۱۰۴ ۔۔۔۔۔ اللہ کے نزدیک انسان پر سب سے بڑا حق والدین کا ہے لیکن یہ حق ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا ہے نہ کہ ان کی عبادت و پرستش کرنے کا اور جب اللہ تعالیٰ نے والدین کی پرستش کرنے کی اجازت نہیں دی جب کہ ان کا حق سب سے بڑا ہے تو دوسروں کی پرستش کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے جب کہ ان کا حق والدین کے حق کے بعد ہے۔


۱۰۵ ۔۔۔۔۔ اس حکم میں عمومیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ہر شخص سے اچھی باتیں کر لے اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ ایک مسلمان کے لیے قرآن کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ اس کی خوش اخلاقی صرف مسلمانوں تک محدود رہے بلکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی خواہ کسی قوم، کسی ملک اور کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو مسلمان جب اس سے بات کرے تو اچھی بات کہے۔ دل آزاری اور اذیت دہی کی باتوں سے اجتناب کرے۔ اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔


۱۰۶ ۔۔۔۔۔ اشارہ ہے یہودیوں کی اس شنیع حرکت کی طرف کہ یہ اپنے بھائیوں کے خلاف دشمنوں سے ساز باز کر کے ان کو جلا وطن کراتے ہیں اور جب وہ دشمنوں کی حراست میں آ جاتے ہیں تو قوم پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فدیہ دے کر ان کو چھڑاتے ہیں کہ یہ تورات کا حکم ہے حالانکہ تورات میں جس طرح فدیہ دے کر چھڑانے کا حکم ہے اسی طرح جلا وطن کرانے کی ممانعت بھی موجود ہے۔ پھر تورات کے ایک حکم پر عمل کرنے اور دوسرے کی خلاف ورزی کرنے کا کیا مطلب ؟

life
06-07-2011, 04:39 AM
۱۰۷ ۔۔۔۔۔ یعنی کتابِ الٰہی کی جو بات اپنی خواہشات کے مطابق ہو وہ مان لی جائے اور جو بات خواہشات کے خلاف ہو اس سے انکار کیا جائے۔ اس قسم کی دینداری اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ جو لوگ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں وہ دنیا میں بھی رسوا ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی سخت عذاب کے مستحق ہیں۔


کتابِ الٰہی کی محض تلاوت اور اس سے اظہارِ عقیدت کافی نہیں ہے بلکہ عملاً اس کی پیروی ضروری ہے اور اس کے احکام میں کسی قسم کی تفریق و تقسیم ایمان کے منافی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ دین کی ان باتوں کو قبول کرتے ہیں جو انفرادی زندگی سے متعلق ہیں اور ان باتوں کو رد کر دیتے ہیں جو اجتماعی زندگی سے متعلق ہیں ان کا تصور دین کتنا ناقص ہے اور ان کا جرم کس قدر شدید ہے!


۱۰۸ ۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو ترجیح دی۔


۱۰۹ ۔۔۔۔۔ مراد معجزات ہیں جو اس قدر واضح تھے کہ ان کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں تھی اور وہ صریح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر دلالت کرتے تھے۔


۱۱۰ ۔۔۔۔۔ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ شیطان کی مدد سے معجزے دکھاتے ہیں اس کی تردید کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو شیطان کی نہیں بلکہ پاک روح یعنی جبرائیلؑ(فرشتہ) کی مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل تھی۔

life
06-07-2011, 04:40 AM
۱۱۱ ۔۔۔۔۔ آخری نبی کے بارے میں یہودیوں کی آسمانی کتابوں میں پیشین گوئیاں موجود تھیں اس لیے انہیں بڑی شدت سے آخری نبی کی آمد کا انتظار تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی آمد پر ان کو اپنے دشمنوں پر فتح نصیب ہو گی۔ اس فتح کے لیے وہ دعا کرتے تھے لیکن جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور انہوں نے پہچان بھی لیا کہ یہ نبی موعود ہیں تو محض ضد اور حسد کی وجہ سے ان کی رسالت کے منکر ہو گئے۔


۱۱۲ ۔۔۔۔۔ یہودیوں کو اس بات پر غصہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنی اسمعٰیلؑ میں سے کیوں اٹھایا بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ اٹھایا۔ گویا خدا کو ان ’’ عقلمندوں ‘‘ سے مشورہ کر کے کسی کو رسالت کے منصب پر فائز کرنا چاہیے تھا۔


۱۱۳ ۔۔۔۔۔ یعنی یہود اپنی مذہبی کتاب تورات پر ایمان رکھنا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کا نزول ٹھیک ٹھیک تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہوا ہے اس لیے قرآن کو جھٹلانا تورات کو جھٹلانا ہے۔


۱۱۴ ۔۔۔۔۔ یعنی ان کا تورات پر ایمان رکھنے کا دعویٰ غلط ہے اگر واقعی وہ تورات پر ایمان رکھنے والے ہوتے تو انبیاء کو ہرگز قتل نہ کر ڈالتے۔


۱۱۵ ۔۔۔۔۔ آخرت کا انکار کرنے والے تو دنیا میں زیادہ سے زیادہ جینے کے حریص ہوتے ہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عیش ہمیں دوبارہ نصیب نہیں ہو گا۔


بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست


لیکن یہود جو آخرت کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے وہ ان سے زیادہ جینے کے حریص تھے کیونکہ جنت کو اپنے لیے مخصوص سمجھنے کے باوجود وہ اپنے کرتوتوں کی بنا پر اپنے دل میں یہ خلش محسوس کرتے تھے کہ خدا کے ہاں ان سے کہیں مواخذہ نہ ہو جائے۔

life
06-07-2011, 04:40 AM
اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کو امتحان گاہ سمجھنے کے بجائے تفریح گاہ سمجھتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ دنیا کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں اس لیے وہ اس بات کے حریص ہوتے ہیں کہ ان کی عمر زیادہ سے زیادہ لمبی ہو، حالانکہ انسان کو اصل فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ عمر کی جو مہلت بھی اسے ملے وہ اس امتحان میں کامیابی کے لیے کیا سامان کر رہا ہے۔


اور یہ حقیقت ہمیشہ اس کی نظروں کے سامنے رہنی چاہیے کہ وہ دنیا میں جو رول ادا کر رہا ہے اسے اللہ دیکھ رہا ہے اور جب اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے تو وہ عمل کا بدلہ کیسے نہیں دے گا۔


۱۱۶ ۔۔۔۔۔ یہود ضد اور حسد میں مبتلا ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن خیال کرتے تھے۔ ان کو جبرائیل پر اس لیے غصہ تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لیکر آتے تھے۔ ان کے خیال میں وحی ان کی قوم کے کسی شخص پر نازل کی جانی چاہیے تھی لیکن ان کا یہ خیال پرلے درجہ کی حماقت تھا کیونکہ حضرت جبرائیل فرشتے تھے اور اللہ ہی کے حکم سے حضرت محمد ؐ پر وحی لاتے تھے۔ بالفاظ دیگر نبوت کے لیے بنی اسماعیل میں سے حضرت محمدؐ کا انتخاب اللہ کی طرف سے تھا۔ اس لیے حضرت جبرائیل سے عداوت کے معنیٰ اللہ سے عداوت کے تھے۔ ظاہر ہے جن کو اللہ سے دشمنی ہو ان کو اللہ اپنا دوست کیوں بنائے گا۔


۱۱۷ ۔۔۔۔۔ میکائیل ایک جلیل القدر فرشتے کا نام ہے۔


۱۱۸ ۔۔۔۔۔ قرآن کی آیتیں اس کے کلام الٰہی ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔ لہٰذا ان کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے اللہ کا نافرمان اور اس کے عہد کو توڑنے والا ہو۔

life
06-07-2011, 04:40 AM
۱۱۹ ۔۔۔۔۔ یہاں شیاطین سے مراد وہ شرپسند لوگ ہیں جو سفلی عمل ،جادو، ٹونے ٹوٹکے، تعویذ گنڈوں کے ذریعہ لوگوں کو اوہام و خرافات میں مبتلا کرتے ہیں اور انہیں حقیقت پسند بننے نہیں دیتے۔ اس کے بعد نہ کتاب الٰہی سے دلچسپی باقی رہتی ہے اور نہ مقصد حق سے۔


یہود میں جب اخلاقی انحطاط ہوا تو انہوں نے کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا اور جادو جیسی چیز کے پیچھے پڑ گئے چنانچہ بابل کے زمانہ اسیری میں ان کے یہی کرتوت رہے اور بعد میں بھی ان کا ایک نہ ایک گروہ ان سفلی اعمال میں مبتلا رہا یہاں تک کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی جو ٹھیک ان پیشین گوئیوں کے مطابق تھی جو تورات میں بیان ہوئی تھیں تو انہوں نے اس کی کوئی پروا ہ نہیں کی اور کتاب الٰہی کو نظر انداز کر کے جادو جیسی چیز کے پیچھے پڑ گئے جو عقیدہ و عمل میں فساد پیدا کرنے والی تھی۔ ان کو جادو سے دلچسپی اس لیے تھی کہ وہ حقیقت کی دنیا میں نہیں بلکہ طلسمات کی دنیا میں رہنا چاہتے تھے۔


جن لوگوں نے جادو کو پیشہ بنایا تھا وہ عوام کو یہ کہہ کر ورغلاتے تھے کہ حضرت سلیمان نے جو بے مثال حکومت قائم کی تھی اور جس میں انہوں نے جنوں کو بھی مسخر کر لیا تھا وہ انہیں جادو ہی کے بل پر حاصل ہوئی تھی۔ بعض حضرات نے علٰی مُلْکِ سُلَیْمَانَ کے معنی ’’ سلیمان کے عہد میں ‘‘ کئے ہیں لیکن یہ معنی نہ لغت کے لحاظ سے صحیح ہیں اور نہ مطابق واقعہ۔ لغت میں مُلک کے معنی حکومت کے ہیں نہ کہ عہد کے اور حرف علیٰ یہاں منسوب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ یَفْتَروُنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ’’ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ ‘‘ میں حرف علی منسوب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (دیکھئے تفسیر رازی) اور حضرت سلیمان نے تو جنوں کو مسخر کر لیا تھا اور ان کی حکومت ایک نبی کی قائم کردہ اسلامی حکومت تھی جس میں شرپسندوں کو یہ آزادی کہاں حاصل ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں میں جادو پھیلا کر انہیں گمراہ کریں۔


۱۲۰ ۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی تھے اور ان کا زمانہ دسویں صدی قبل مسیح کا ہے ان کی سلطنت نہایت عظیم الشان تھی۔ ہوائیں پرندے اور جن ان کے لیے مسخر کر دئے گئے تھے۔ یہ حکومت اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے انہیں ملی تھی اور انہوں نے جو مہتم بالشان کارنامے انجام دئے وہ خالصۃً دینی مقاصد کے لیے تھے ان پاکیزہ مقاصد کے لیے انہوں نے ذرائع بھی پاکیزہ اختیار کئے۔ لیکن ان کو جو غیر معمولی طاقت و سطوت حاصل ہو گئی تھی اس کی توجیہ بعد میں شرپسندوں نے یہ کرنا شروع کی کہ یہ سب کچھ انہیں جادو اور ’’ عملیات‘‘ کے ذریعہ سے حاصل ہوا تھا اس طرح لوگوں کو حق سے پھیرنے اور اوہام و خرافات میں مبتلا کرنے کے لیے ’’ نقش سلیمانی‘‘ جیسی بدعتیں ایجاد کر لی گئیں۔ جو بعد میں یہودیوں کے زیر اثر مسلمانوں کے ایک طبقہ میں بھی رائج ہو گئیں۔ اور بعض وہم پرست تو جنوں کی تسخیر کا خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ قرآن اس پر سخت گرفت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب رہنمائی حاصل کرنے اور عمل کرنے کے لیے نازل کرتا ہے۔ اس کو پس پشت ڈال کر سفلی عملیات کے پیچھے پڑنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جن کو نہ خدا سے سروکار ہو اور نہ آخرت سے۔

life
06-07-2011, 04:40 AM
واضح رہے کہ قرآن جادو کو کفر قرار دیتا ہے اور یہود حضرت سلیمان پر ان کے جادو گر ہونے کا جو الزام عائد کرتی ہیں اس کی پر زور تردید کرتا ہے اور انہیں کفر سے بری قرار دیتا ہے۔


۱۲۱ ۔۔۔۔۔ ہاروت ماروت دو فرشتوں کے نام ہیں جن کو بابل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے روپ میں لوگوں کی آزمائش کے لیے بھیجا تھا۔ یہ اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح کہ قوم لوط کی طرف فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں اس کی آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے(ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۶۲)


لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ ان فرشتوں پر جادو جیسی کوئی چیز اتاری گئی تھی۔ یہود نے جادو کو جائز قرار دینے کے لیے اسے حضرت سلیمان کی طرف منسوب کیا تھا۔ اور ہاروت و ماروت فرشتوں کی طرف بھی مگر قرآن نے ان دونوں باتوں کی تردید کی۔


بابل میں ایک زمانہ میں جادو کا بہت زور تھا اس زور کو توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی روپ میں اس قوم کی طرف بھیجا تھا اور ان کے سپرد یہ خدمت کی تھی کہ وہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کی تباہ کاریوں سے آشنا کریں تاکہ لوگ اس سے باز آ جائیں لیکن جب انہوں نے سحر کی حقیقت واضح کرنا شروع کی تو جن کے ذہن میں کجی تھی وہ اس سے الٹا فائدہ اٹھانے لگے۔ یعنی ساحرانہ طریقوں کو اختیار کر کے میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا کام کرنے لگے، ظاہر ہے ایسے کاموں سے ان ہی لوگوں کو دلچسپی ہو سکتی ہے جو بد طینت ، پست ذہن اور کج رو ہوں ایسے لوگوں میں یہ حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے حامل بنیں ؟ ہاروت و ماروت فرشتے تھے اور فرشتوں کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ نہایت پاکیزہ اور اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں لہٰذا وہ فضول قصے جو بعض روایتوں میں ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ہرگز لائق اعتناء نہیں ہیں کیونکہ یہ باتیں ملکوتی صفات کے منافی ہیں۔ افسوس کہ ان بے سرد پا روایتوں نے جن میں زہرہ کا بے ہودہ قصہ بیان ہوا ہے تفسیروں میں جگہ پا لی !

life
06-07-2011, 04:41 AM
۱۲۲ ۔۔۔۔۔ یہ یہودیوں کی شرارتوں کا ذکر ہے جو قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کر رہے تھے۔ بعض منافق یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافقانہ اغراض کے لیے شریک ہوتے اور جب کسی بات پر توجہ دلانے کی ضرورت پیش آتی تو وہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ’’ راعنا‘‘ کہتے جس کے معنی ہیں ’’ ہمارا لحاظ فرمائیے۔ جس طرح انگریزی میں بولتے ہیں (I beg your pardon) لیکن وہ اس لفظ کو ذرا کھینچ کر ادا کرتے جس سے یہ لفظ ’’ راعینا‘‘ بن جاتا جس کے معنی ’’ ہمارے چرواہے‘‘ کے ہیں۔ ان کی اس شرارت کے پیش نظر مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ یہ لفظ استعمال نہ کریں بلکہ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہیں جس کے معنی ہیں ہماری طرف توجہ فرمائیے اس میں طنز کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے مخلصین اور منافقین کے درمیان امتیاز پیدا ہو گیا۔


۱۲۳ ۔۔۔۔۔ یہ یہودیوں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ جب قرآن تورات کو اللہ کی کتاب تسلیم کرتا ہے تو پھر اس کے احکام کو منسوخ کرنے کے کیا معنی۔ کیا خدا اپنی شریعت کو بدلتا ہے؟ قرآن نے اس کا جواب یہ دیا کہ تورات کا قانون منسوخ کیا جاتا ہے یا جسے یہودیوں نے فراموش کر دیا ہے اس کی جگہ اس سے بہتر قانون لایا جاتا ہے اس طرح اللہ اپنی شریعت کے معاملے میں تمہیں ارتقاء کی طرف لے جا رہا ہے۔


دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جو شریعت عطا کی تھی اس کے ساتھ اللہ کو کسی چیز نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ایک شریعت کی جگہ دوسری شریعت نازل نہ کرے۔ وہ فرمانروائے کائنات ہے اور جب چاہے ایک قانون کی جگہ دوسرا قانون دے سکتا ہے تمہیں اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تم اس کے محکوم بندے ہو۔

life
06-07-2011, 04:41 AM
واضح رہے کہ یہ بات شریعت سے متعلق ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں جو پیغمبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ان کی شریعتوں کے درمیان فرق رہا ہے لیکن اصل دین سب کا ایک ہی رہا ہے یعنی اسلام ، چنانچہ توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں مختلف انبیاء علیہم الصلوٰۃ کی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان بنیادی امور اور حقائق کے سلسلہ میں سب کی متفقہ تعلیم وہی تھی جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔ نا سمجھ لوگ شریعتوں کے فرق کو دین کا فرق سمجھ کر یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے مختلف ادیان نازل ہوئے تھے اس لیے جس دین کو بھی آدمی قبول کر لے اللہ اس سے راضی ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے از آدم تا این دم بلکہ تا قیامت صرف ایک ہی دین اسلام بھیجا جاتا رہا ہے۔ البتہ شریعتیں حالات و ظروف کی رعایت سے مختلف بھیجی جاتی رہیں اور اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بھیجا گیا آپ کو جو شریعت دی گئی وہ آخری ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔


واضح رہے کہ پچھلی شریعتوں میں اور اس آخری شریعت میں کتنے ہی احکام مشترک ہیں تاہم پچھلی شریعتوں کے بعض احکام جو مخصوص حالات میں مخصوص مصالح کے پیش نظر دئے گئے تھے۔ منسوخ کر دئے گئے ہیں۔ مثلاً یہودیوں کو سبت منانے کا حکم دے دیا گیا تھا لیکن اب اس کی جگہ نماز جمعہ کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ اسی طرح پہلے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا تھا لیکن اب مسجد حرام کو قبلہ قرار دیا گیا ہے جو سب سے افضل مسجد ہے لہٰذا اب واجب الاتباع شریعت وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یہ شریعت مکمل ہے اور شریعتوں کے سلسلہ کا آخری ایڈیشن ہے اور نجات اسی کی پیروی پر منحصر ہے۔

life
06-07-2011, 04:41 AM
۱۲۴ ۔۔۔۔۔ ان سوالات کی نوعیت اعتراضات کی تھی۔


۱۲۵ ۔۔۔۔۔ یعنی یہ ان کی من گھڑت باتیں ہیں۔ اللہ نے کہیں نہیں فرمایا ہے کہ جو یہودی یا نصرانی ہو گا اس کے لیے جنت ہے اور دوسروں کے لیے نہیں ہے مذہبی گروہ بندی کی یہ باتیں لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں اور ان کو اللہ کی طرف منسوب کر کے دین کی حقیقت پر پردہ ڈال دیا ہے اور اسے لوگوں کی نظروں میں مشتبہ بنا کر رکھ دیا ہے۔


۱۲۶ ۔۔۔۔۔ یعنی نجات پانے اور جنت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے کو پوری طرح حوالے کر دے یہی معنی مسلم ہونے کے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شریعت کے احکام کی تعمیل خلوص کے ساتھ کرے۔ یہ ایک اصولی بات ہے اور تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم متفقہ طور پر سے یہی تھی۔


۱۲۷ ۔۔۔۔۔ مراد مشرکین عرب ہیں جن کے پاس کتاب نہیں تھی اور جو ناخواندہ تھے۔


۱۲۸ ۔۔۔۔۔ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیروؤں کو بے اصل قرار دیتے ہیں۔ اس بات نے اہل مذاہب کے درمیان بڑی کشمکش برپا کر رکھی ہے قرآن کہتا ہے جہاں تک دلائل سے کسی بات کو حق ثابت کرنے کا تعلق ہے قرآن نے اپنی بات بدرجۂ اتم ثابت کر دی ہے اب اگر کوئی کسرباقی رہ جاتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عدالت برپا کرے اور اس نزاع کا دو ٹوک فیصلہ فرمائے اور انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ یہ حق ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ باطل ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس دو ٹوک فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے۔ اس روز انسان کو نہ صرف یہ معلوم ہو گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے بلکہ ہر ایک کا انجام بھی سامنے آئے گا۔

life
06-07-2011, 04:42 AM
۱۲۹ ۔۔۔۔۔ اشارہ ہے یہود کی اس حرکت کی طرف کہ انہوں نے آپس کے افتراق کی بنا پر مسجدوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا اور ان کو ویران کر کے رکھ دیا نیز ضمناً اشارہ ہے کفار مکہ کے اس ظلم کی طرف کہ انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روک دیا ہے ساتھ ہی مساجد کی حرمت بھی واضح فرما دی کہ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں لہٰذا ان میں داخل ہونے کا حق شر پسندوں اور تخریب کاروں کو نہیں ہے الا یہ کہ وہ تخریب کاری کی نیت سے نہیں بلکہ خدا سے ڈرتے ہوئے مسجدوں میں داخل ہوں۔


۱۳۰ ۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ کی عباد ت گاہوں کا احترام نہیں کرتے اور اس کو ویران کرنے کے درپے ہوتے ہیں یا فساد اور تخریب کاری کے ذریعے ان کو تباہ اور برباد کرتے ہیں یا ان کی بے حرمتی کرتے ہیں قرآن ان کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم کی وعید سناتا ہے اس سے واضح ہے جو لوگ اللہ کی عبادت گاہوں کا احترام نہیں کرتے وہ خود احترام کے مستحق نہیں ہیں ان کے لیے ذات اور رسوائی مقدر ہے گویا اسلام دشمنی یا مسلم دشمنی کی بنا پر جو شخص یہ ذلیل حرکت کرتا ہے وہ در حقیقت اپنی ہی رسوائی اور تباہی کا سامان کرتا ہے کاش کہ تخریب پسندوں کو اس کا احساس ہوتا۔


۱۳۱ ۔۔۔۔۔ یہود و نصاریٰ دونوں کا قبلہ بیت المقدس تھا(جو فلسطین میں ہے) چونکہ اس کے مشرقی جانب حضرت مریمؑ نے اعتکاف کیا تھا اس لیے نصاریٰ نے مشرقی سمت کو قبلہ کے طور پر اختیار کیا اور غالباً ان کی ضد میں آ کر یہود نے مغربی سمت کو قبلہ بنا لیا آیت کا اشارہ مشرق و مغرب سے اسی تنازعے کی طرف ہے۔


۱۳۲ ۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کسی سمت یا مقام میں مقید نہیں ہے بلکہ وہ ہر جگہ اور ہر سمت میں ہے۔ نماز کے لیے کسی سمت کے مقرر کرنے کے لیے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ بس اس سمت میں ہے بلکہ سمت کسی دینی مصلحت سے مقرر کی جاتی ہے لہٰذا اگر اللہ نے اس سے پہلے کسی خاص رُخ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا اور اب وہ کسی دوسرے رخ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دے رہا ہے تو اس میں بحث کرنے کی کوئی بات نہیں ہے اصل چیز سمت نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔

ღƬαsнι☣Rασ™
07-06-2012, 09:36 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng

life
08-13-2012, 02:23 AM
buhat khush rahye T R ji

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.