PDA

View Full Version : دعوت القرآن/سورۃ 1:الفاتحۃ


life
06-05-2011, 01:03 AM
(۱) سورۃالفاتحہ

(۷ آیات)

بسم اللہ الرحمن الرحیم


تعارف

یہ سورہ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ میں نازل ہوئی۔ اس کی سات آیتیں ہیں ۔ اس سورہ کی حیثیت دیباچۂ قرآن کی ہے اوراسی مناسبت سے اس کا نام سورۂ فاتحہ یعنی افتتاحی سورہ ہے، اس کا اعجاز یہ ہے کہ نہایت مختصر ہونے کے باوجود اس میں پورے قرآن کا لب لباب موجود ہے۔ اسی لیے اسے ام القرآن کہا گیا ہے۔ قرآن کی دعوت کے بنیادی نکات، توحید، آخرت اور رسالت کو نہایت خوبی کے ساتھ اس میں سمو دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت، ربوبیت اور الوہیت کی صفات بیان ہوئی ہیں جو توحید پر دلالت کرتی ہیں ۔ روز جزاء کا مالک ہونا توحید اور آخرت دونوں پر دلالت کرتا ہے اور انعام یافتہ لوگوں کا راستہ سلسلۂ رسالت پر دلالت کرتا ہے ۔

اس سورہ کے معانی پر غور کرنے سے حقائق و معارف کے بے شمار پہلو روشن ہو جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔

یہ سورہ دعائیہ پیرایہ میں ہے اور دعا بھی ایسی جو ایک سلیم الفطرت انسان کے ضمیر کی آواز اور اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ترانۂ حمد ہے۔ گویا اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ان الفاظ میں اس کے حضور دعاگو ہو، کلام کا یہ انداز نہایت لطیف ہے، لیکن جو لوگ لطافت سے نا آشنا ہوتے ہیں وہ یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کا کلام ہے تو ’’ میں شروع کرتا ہوں ، اللہ کے نام سے‘‘کہنے کا کیا مطلب؟ حالانکہ یہاں بلاغت کا پہلو نہایت روشن ہے اور فحوائے کلام سے بخوبی واضح ہے کہ خالق کائنات اپنے بندوں کو یہ تعلیم دے رہا ہے کہ وہ اس کی حمد و ثناء اس آغاز کے ساتھ اور ان الفاظ میں کریں اور ان کلمات کے ساتھ اس کے حضور دعاگو ہوں ۔ اس طرح بندوں کو نہ صرف بندگی کی تعلیم دی گئی ہے، بلکہ آدابِ بندگی بھی جا سکھائے گئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے یہود و نصاریٰ کو اسلام کی شاہراہ دکھائی تھی تاکہ وہ خود اس پر چلیں اور دنیا والوں کو اس پر چلنے کی دعوت دیں ، لیکن انہوں نے کجروی اختیار کر کے اپنے اوپر بھی راہِ حق گم جر دی اور دنیا والوں کو بھی تاریکی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ یہ دعا اس تاریکی سے نکلنے کی دعا ہے چنانچہ اس کی برکت سے دنیا کو قرآن کی روشنی ملی۔

بندہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا کے جواب میں پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ تلاش جس کی ہے وہ راہِ ہدایت تیرے سامنے روشن ہے، اب اللہ کا نام لے اور اس راہ پر گامزن ہو جا۔

سورۂ فاتحہ اور نماز:نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ لازماً پڑھی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے مناجات ہے، اور اللہ تعالیٰ بندے کی طرف متوجہ ہو کر ہر ہر آیت کا جواب عنایت فرماتا ہے۔ حدیث قدسی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

’’ میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے طلب کیا۔چنانچہ بندہ جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی۔ جب بندہ اَلرَّحْمٰنَ الرّحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی، جب بندہ اِیاکَ نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے طلب کیا ، اور جب بندہ اِہْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیہِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیہِمْ وَلاَالضّالِّینَ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مجھ سے طلب کیا۔‘‘(مسلم، نسائی)

ترجمہ

life
06-05-2011, 01:03 AM
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے ۱*

۱۔حمد۲* اللہ ہی ۳* کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ۴* ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔ رحمن و رحیم ۵* ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔ روزِ جزا ۶* کا مال ہے۔

۴۔ ۔۔ہم تیری ہی عبادت ۷* کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد ۸* مانگتے ہیں۔

۵۔ ۔۔ہمیں سیدھے راستے ۹* کی ہدایت بخش

۶۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے راستے کی جنہیں تو نے انعام ۱۰* سے نوازا۔

۷۔۔۔۔۔۔ جو نہ مغضوب ۱۱* ہوئے اور نہ گمراہ ۱۲*۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔ یہ قرآن کی افتتاحی آیت ہے اور ہر سورہ کا آغاز بجز سورۂ توبہ کے اسی آیت سے ہوا ہے۔ گویا اس کی حیثیت تمہید کی سی ہے۔ یہ مختصر، جامع، معنٰی خیز اور نہایت ہی بابرکت کلمات ہیں جس میں خدا کے متبرک نام اور اس کی صفتِ رحمت کا ذکر ہے۔ ان ابتدائی کلمات ہی پر غور کرنے سے معرفت الٰہی ( خدا کی صحیح پہچان) کے دروازے کھلنے لگتے ہیں اور انسان کے اندر اس کی صحیح بیان کا پیدا ہو جانا اس کی رحمت کا فیضان ہے۔

کسی بھی اچھے کام کو شروع کرنے کے لیے ان سے زیادہ موزوں اور بہتر کلمات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھے کام کا آغاز حتیٰ کہ کھانے پینے کی ابتداء بھی ان کلمات ( بسم اللہ) سے کرنا اسلامی تہذیب کا شعار ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الّذِی خَلَقَ( پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) سے ہوا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت بسم اللہ نازل کر کے بندہ کی رہنمائی فرمائی کہ وہ اس حکم کی تعمیل ان الفاظ میں کرے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات میں یہ پیشین گوئی موجود ہے کہ آپ کا کلام اللہ کا نا لیکر پیش کریں گے۔ چنانچہ تورات کی کتاب استثنا میں ہے:۔

’’ میں ان کے لیے انہیں کے بھائیوں میں سے تیری (موسیٰ) مانند ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لیکر کہہ گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘(استثناء ۱۸:۱۸،۱۹)

یہ آیت دعا کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا بندہ کتابِ الٰہی کا آغاز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ تیری توفیق ہی پر منحصر ہے اور ہدایت کی راہ مجھ پر اسی صورت میں روشن ہو سکتی ہے اور حقائق و معارف کے اس ا تھاہ سمندر میں علم و بصیرت کی موتی ہیں اسی صورت میں چن جا سکتا ہوں جبکہ تو میری دستگیری فرمائے۔

’’ بسم اللہ‘‘ کی ’’ ب‘‘ قرآن کا پہلا حرف ہے اور عربی قاعدے کے مطابق یہ بائے استعانت ہے۔گویا قرآن کا پہلا حرف ہی قاری کی یہ حیثیت متعین کرتا ہے کہ وہ ایک عاجز بندہ ہے جو اللہ کی مدد کا ہر وقت محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کا دروازہ ان ہی لوگوں پر کھولتا ہے جو خدا کی کتاب کا مطالعہ خدا بنکر نہیں کرتے بلکہ بندہ کی حیثیت سے جویائے حق اور طالب ہدایت بن کر کرتے ہیں ۔

۲۔۔۔۔۔۔ متن میں حمد کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی تعریف اور شکر دونوں کے ہیں ۔ ’’ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ خوبیوں والا ہے اور کمالات سے متصف ہے۔ وہ عیوب اور کمزوریوں سے نہ صرف پاک اور منزّہ ہے بلکہ اس کے لیے حسن ہی حسن اور جمال ہی جمال ہے اور وہ سرچشمۂ خیرو برکت ہے اس کے یہ فضائل و کمالات ذاتی اور مستقل ہیں اور وہ تمام صفات حسنہ میں تنہا اور یکتا ہے۔ اس لیے تنہا وہی لائق ستائش ہے اور اسی کے گن گائے جانے چاہئیں ، اس کے سوا کوئی ہستی نہیں ہے جو بالذات اپنے اندر خوبیاں رکھتی ہو اس لیے کائنات میں ایک سے زیادہ خداؤں کے تصور کیلئے سرے سے کوئی بنیاد موجود ہی نہیں ہے اور جب حقیقت یہ ہے تو پھر اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو خدا سمجھ کر اس کے گن گانے اور اس کی مالا جپنے کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟

life
06-05-2011, 01:04 AM
’اور شکر اللہ ہی کے لیے ہے‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان جن بیشمار نعمتوں سے نوازا گیا ہے وہ سب اللہ ہی کی بخشش اور دین ہیں ۔ مثلاً زندگی جیسی عظیم نعمت ، خورد و نوش کا اعلیٰ ذوق اور اس کے مطابق رزق کا سامان، اولاد جیسی آنکھوں کی ٹھنڈک، عقل و شعور اور علم کی دولت اور دیگر ظاہری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی عطا جر دہ ہیں ۔ اس لیے شکر کا مستحق بھی تنہا وہی ہے اسی کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور اسی کا سپاس گزار اور شکر گزار بنکر رہنا چاہیے۔

شکر کا یہ جذبہ دین کی اساس ہے اور اسی بنیاد پر خالق کائنات سے انسان کا صحیح تعلق قائم ہوتا ہے۔ گویا یہ ہدایت کی کلید ہے۔ اسی لیے قرآن انسان کی ذہنی و فکری تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ اس کے اندر شکر کا جذبہ ابھرے اور وہ اللہ تعالیٰ کا گرویدہ بن جائے۔

۳۔۔۔۔۔۔ اللہ اس ہستی کا نام ہے جو تمام کائنات کی خالق ہے یہ نام ہمیشہ سے اس کے لیے خاص رہا ہے، اس لفظ سے نہ جمع کا صیغہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ مونث کا۔عربی میں اس کے معنی معبود حقیقی کے ہیں دوسری زبانوں میں اس کا ٹھیک ٹھیک بدل ملنا مشکل ہے۔ اردو میں خدا اور انگریزی میں (God) کے الفاظ عام طور سے خالق کائنات کے لیے مستعمل ہیں ، لیکن خدا سے جمع کا صیغہ خداؤں اور خداوندان بنایا جاتا ہے اور(God) دیوی دیوتا کے لیے بھی بولا جاتا ہے، چنانچہ اس کا مونث (Goddess) آتا ہے جس کے معنی دیوی کے ہیں چنانچہ زہرہ سیارہ کو (Goddess Venus) کہا جاتا ہے نیز عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث میں حضرت عیسیٰ کو(God the Son) کا خطاب دیا گیا ہے۔ (The Oxford Eng. Dictionary Vol.IV P.268.271)

مرہٹی

life
06-05-2011, 01:04 AM
کا خطاب دیا گیا ہے۔ (The Oxford Eng. Dictionary Vol.IV P.268.271)

مرہٹی میں ایشور اور پرمیشور کے الفاظ خدائے تعالیٰ( Being Supreme)کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن یہ شیو اور وشنو کے القاب بھی ہیں ۔ لفظ ایشور( ) اور ( )سے مرکب ہے( )کے معنی مالک اور حاکم کے ہیں اور ( ) کے معنی برتر اس طرح ( )کے معنی ہوئے خدائے برتر لیکن اس کا مونث ایشوری( )آتا ہے جو دیوی کے لیے بولا جاتا ہے ملاحظہ ہو(Moles Worth's Marathi Eng-Dictionary P.84) اسی طرح پرمیشور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور( )سے مرکب ہے( ) کے معنیٰ اعلیٰ کے ہیں اور پرمیشور کے معنی اعلیٰ ایشور کے۔ ایشور اور پرمیشور دونوں الفاظ کے استعمالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ خالق کائنات کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ دیوی دیوتاؤں کے لیے بطور صفت یا لقب انکا استعمال ہوتا ہے اسی طرح بھگوان ( ) کا اسم بھی خدا کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ بطور لقب یا صفت دیوؤں کے لیے اس کا استعمال عام ہے مثلاً بھگوان واسودیو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح وشنو اور شیو کو بھی بھگوان کہا جاتا ہے۔

لہٰذا یہ اسماء قرآن کے اسم ’’ اللہ‘‘ کا بدل نہیں ہو سکتے جو خالق کائنات کے لیے بالکل مخصوص ہے اور ہر قسم کے احتمالات سے پاک ہے یہ لفظ واحد ہے اس کی کوئی جمع نہیں آتی۔نیز اس کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ نام زبان پر آتے ہی ذہن اس کی صفاتِ کمالیہ کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں جہاں کہیں اسم اللہ آیا ہے ہم نے ترجمہ میں بھی لفظ اللہ ہی رکھا ہے۔

اسم اللہ قرآن میں ۲۶۹۷ بار آیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نام کی معرفت کتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ قرآن میں پیش کی گئی ہے۔

PRINCE SHAAN
06-08-2011, 12:41 PM
http://oi51.tinypic.com/2pyt4sm.jpg

life
06-08-2011, 02:24 PM
thanks shaan.....

ღƬαsнι☣Rασ™
07-06-2012, 09:41 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng

life
08-13-2012, 02:23 AM
buhat khush rahye T R ji

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.