~ABDULLAH~
05-19-2011, 07:49 PM
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الشیخ اسامہ کے نقش قدم پر
شيخ ابی المنذر الشنقيطی حفظه الله
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبيه الكريم وعلى آله وصحبه أجمعين.
شیخ اسامہ اُمت مسلمہ کی ایسی آواز تھی کہ جو اُسکی تکلیف وپریشانیوں کی ترجمانی کرتی تھی۔ہمیں اس کی غمناک آواز میں ہر زخمی کی آواز ہر زخمی کی آہ، ہر گمشدہ بچے کی ماں کا رونا اور ہر بچے کی چیخ وپکار کی گونج سنائی دیتی ہے۔
اور ہم ظالموں اور سرکشوں کے ہاتھوں ذلیل ومقہور اُمت مسلمہ کے آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھتے تھے۔ اُس کے نظریات اور اُس کے افعال اُمت کی نبض اور اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ اور اس کی تمناؤں اور مرادوں کے حقیقی ترجمان تھے۔ اور اس کے کلمات لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اُٹھنے والی اُمنگوں کی تعبیر تھے۔
تیس سال سے الشیخ اُسامہ جہاد کا پرچم تھامے اپنے دین اور اپنی اُمت کا دفاع کررہے تھے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے پوری زمین میں اس کے لیے قبولیت ڈال دی اور مسلمانوں کے دلوں میں اُس کے لیے محبت اور کفار کی آنکھوں میں ھیبت ڈال دی۔
لہٰذا اُس کے پُرسکون کلمات کی گونج آفاق میں پھیلتی اور سینوں اور دلوں پر راج کرتی تھی جو دوستوں کو جوش دلاتی اور دشمنوں کے دلوں میں رعب طاری کرتی۔اورانکا جہاد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق تھا کہ:
أذلة على المؤمنين أعزة على الكافرين
(مومنوں کے لئے نر م اور کفاروں کے لئے سخت (المائدہ: ۵۴
لہٰذا کتنے ہی مومن اس کی تعلیمات اور اس کی پکار سن کر سکون محسوس کرتے تھے۔ اور کتنے ہی کفار کے جمگھٹے ایسے تھے کہ جو اس کی دھمکیوں اور وعیدوں کو سُن کر بدترین حال میں رہتے تھے۔
فبأس يذوب الصخر من حر ناره ** ولُطفٌ له بالماءِ ينبجسُ الصَّخرُ
ترجمہ شعر : وہ ایسا طاقتور خوف ہے کہ جس کی حرارت سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
اور وہ اتنا نرم ولطیف ہے کہ جیسے پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے
اس نے اپنے دین اور اپنی امت کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹادیا اور ہر محبوب چیز کو چھوڑا۔ اُس نے مال وجان لٹائی اور اپنے اہل وعیال اور وطن کو چھوڑا۔ اُس نے دیا تو ہے مانگا کچھ نہیں اور قربانی دی جبکہ لیا کچھ نہیں جیساکہ یہ سچے ، مخلص اللہ تعالیٰ سے اجر کے امیدواروں کا طریقہ ہے۔
اس کے باوجودکہ اُس نے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہ تمام قربانیاں دیں مگر دلوں کے مریض لوگ پھر بھی ابھی تک اس کی قدروقیمت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تو کیا ہی تعجب کی بات ہے ۔! کہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے ، گناہگار لوگ اتنے بڑے مجاہدوں کے خلاف جرأت کررہے ہیں!! وہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے کے گناہ کے مرتکب تو تھے ہی اس کے ساتھ انہوں نے مجاہدین کی عزتوں پر حملے کرنے کے گناہ کو بھی شامل کرلیا۔!
هو البطل الشهم الأغر السميدع ** الهمامُ السريُّ الأكرمُ المتكرِّمُ
وقد جحدت قومٌ عظيم مقامه ** وقالوا بما قالوا ضَلالاً وأبهموا
وما أنكرت أعداؤه عن جهالة ** مناقبَه العُظمى ولكنَّهم عَمُوا
ترجمہ شعر: وہ تو بہادر ذکی، شریف اور فیاض سردار ہے۔ دلیر صاحب مروت وسخی سردار، کریم اور متکرم ہے۔ اور یہ قوم اس کی عظیم مقام سے تنگ آگئی۔ اور انہوں نے گمراہی کی جوبات کہی تھی کہ دی اور پھر ششں وپنچ میں پڑ گئے۔ اس کے دشمنوں نے اس کے عظیم مناقب کا جہالت سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ تو (اس کی دشمنی میں) اندھے ہوگئے۔
ہمارے شیخ اسامہ عزت ووقار کے ساتھ کھڑے ہوئے اور امت کے دشمنوں کے سامنے اس ذلت ومنافقت کے دور میں ڈٹ گئے اور ہمارے لئے شجاعت وخوداری کی مثال بن گئے۔ اس نے پوری دُنیا کے کفار کے لشکروں اور اُن کے متکبروجابر کو چیلنج کیا۔ تو وہ سب انتہائی سرعت کے ساتھ اُس کے خلاف اپنی تمام تر سازشوں اور مکروفریب کے بڑے جال اٹھالائے۔ مگر کیا مجال ہے بزدلی کوکہ اُس کے دروازے پر دستک دے اور نہ وہ موت کے علاوہ ذلت ورسوائی سے رہنے پر راضی ہوا۔
قالت فَلا كذبَتْ شَجاعَتُه ** أقْدِمْ فنَفْسُكَ مَا لهَا أجَلُ
فَهُوَ النّهَايَةُ إنْ جَرَى مَثَلٌ ** أوْ قيلَ يَوْمَ وَغىً منِ البَطَلُ
ترجمہ شعر: بہادری وشجاعت نے کہا آگے بڑھ کیونکہ تیری جان کی تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ یہ ایسا خاتمہ ہوگا کہ جس کی مثال دی جائے گی یا پھر جنگ کے روز پوچھا جائے گا کہ بہادر کون ہے!
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
کہ تو نے ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجداد کی دلیری کو زندہ کردیا اور ہمیں عزت وعظمت اور نصرت وکامیابیوں کےذمانے کی یادتازہ کرادی۔ لہٰذا ہم نے فخرسے سراُٹھائے اور اپنا اسلحہ اٹھاکر جہاد کے میدانوں کی طرف چل نکلے۔!
اور ہم نے اپنے بہادروں خالد، سعد، مثنیٰ اور مقداد کی اقتداء کی
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
کہ بلاشبہ اللہ نے آپ کے ذریعے دین کی نصرت کی۔ اور آپ کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد پھیلایا۔ اور آپ ہی کے ذریعے کفار کو ذلیل کیا۔ لہٰذا آپ نے متکبرامریکوں کے سروں کو نیچا دکھایا۔ اور آپ نے ان پر ان کے محفوظ ٹھکانے پر حملہ ایسے وقت کیا کہ جب وہ ہر قسم کے حملے سے محفوظ قلعہ بند تھے۔ اور آپ نے اُن کی رُسوائی وخوای کی ہمیشہ کے لائے تاریخ لکھ ڈالی۔
الشیخ اسامہ کے نقش قدم پر
شيخ ابی المنذر الشنقيطی حفظه الله
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبيه الكريم وعلى آله وصحبه أجمعين.
شیخ اسامہ اُمت مسلمہ کی ایسی آواز تھی کہ جو اُسکی تکلیف وپریشانیوں کی ترجمانی کرتی تھی۔ہمیں اس کی غمناک آواز میں ہر زخمی کی آواز ہر زخمی کی آہ، ہر گمشدہ بچے کی ماں کا رونا اور ہر بچے کی چیخ وپکار کی گونج سنائی دیتی ہے۔
اور ہم ظالموں اور سرکشوں کے ہاتھوں ذلیل ومقہور اُمت مسلمہ کے آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھتے تھے۔ اُس کے نظریات اور اُس کے افعال اُمت کی نبض اور اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ اور اس کی تمناؤں اور مرادوں کے حقیقی ترجمان تھے۔ اور اس کے کلمات لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اُٹھنے والی اُمنگوں کی تعبیر تھے۔
تیس سال سے الشیخ اُسامہ جہاد کا پرچم تھامے اپنے دین اور اپنی اُمت کا دفاع کررہے تھے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے پوری زمین میں اس کے لیے قبولیت ڈال دی اور مسلمانوں کے دلوں میں اُس کے لیے محبت اور کفار کی آنکھوں میں ھیبت ڈال دی۔
لہٰذا اُس کے پُرسکون کلمات کی گونج آفاق میں پھیلتی اور سینوں اور دلوں پر راج کرتی تھی جو دوستوں کو جوش دلاتی اور دشمنوں کے دلوں میں رعب طاری کرتی۔اورانکا جہاد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق تھا کہ:
أذلة على المؤمنين أعزة على الكافرين
(مومنوں کے لئے نر م اور کفاروں کے لئے سخت (المائدہ: ۵۴
لہٰذا کتنے ہی مومن اس کی تعلیمات اور اس کی پکار سن کر سکون محسوس کرتے تھے۔ اور کتنے ہی کفار کے جمگھٹے ایسے تھے کہ جو اس کی دھمکیوں اور وعیدوں کو سُن کر بدترین حال میں رہتے تھے۔
فبأس يذوب الصخر من حر ناره ** ولُطفٌ له بالماءِ ينبجسُ الصَّخرُ
ترجمہ شعر : وہ ایسا طاقتور خوف ہے کہ جس کی حرارت سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
اور وہ اتنا نرم ولطیف ہے کہ جیسے پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے
اس نے اپنے دین اور اپنی امت کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹادیا اور ہر محبوب چیز کو چھوڑا۔ اُس نے مال وجان لٹائی اور اپنے اہل وعیال اور وطن کو چھوڑا۔ اُس نے دیا تو ہے مانگا کچھ نہیں اور قربانی دی جبکہ لیا کچھ نہیں جیساکہ یہ سچے ، مخلص اللہ تعالیٰ سے اجر کے امیدواروں کا طریقہ ہے۔
اس کے باوجودکہ اُس نے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہ تمام قربانیاں دیں مگر دلوں کے مریض لوگ پھر بھی ابھی تک اس کی قدروقیمت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تو کیا ہی تعجب کی بات ہے ۔! کہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے ، گناہگار لوگ اتنے بڑے مجاہدوں کے خلاف جرأت کررہے ہیں!! وہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے کے گناہ کے مرتکب تو تھے ہی اس کے ساتھ انہوں نے مجاہدین کی عزتوں پر حملے کرنے کے گناہ کو بھی شامل کرلیا۔!
هو البطل الشهم الأغر السميدع ** الهمامُ السريُّ الأكرمُ المتكرِّمُ
وقد جحدت قومٌ عظيم مقامه ** وقالوا بما قالوا ضَلالاً وأبهموا
وما أنكرت أعداؤه عن جهالة ** مناقبَه العُظمى ولكنَّهم عَمُوا
ترجمہ شعر: وہ تو بہادر ذکی، شریف اور فیاض سردار ہے۔ دلیر صاحب مروت وسخی سردار، کریم اور متکرم ہے۔ اور یہ قوم اس کی عظیم مقام سے تنگ آگئی۔ اور انہوں نے گمراہی کی جوبات کہی تھی کہ دی اور پھر ششں وپنچ میں پڑ گئے۔ اس کے دشمنوں نے اس کے عظیم مناقب کا جہالت سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ تو (اس کی دشمنی میں) اندھے ہوگئے۔
ہمارے شیخ اسامہ عزت ووقار کے ساتھ کھڑے ہوئے اور امت کے دشمنوں کے سامنے اس ذلت ومنافقت کے دور میں ڈٹ گئے اور ہمارے لئے شجاعت وخوداری کی مثال بن گئے۔ اس نے پوری دُنیا کے کفار کے لشکروں اور اُن کے متکبروجابر کو چیلنج کیا۔ تو وہ سب انتہائی سرعت کے ساتھ اُس کے خلاف اپنی تمام تر سازشوں اور مکروفریب کے بڑے جال اٹھالائے۔ مگر کیا مجال ہے بزدلی کوکہ اُس کے دروازے پر دستک دے اور نہ وہ موت کے علاوہ ذلت ورسوائی سے رہنے پر راضی ہوا۔
قالت فَلا كذبَتْ شَجاعَتُه ** أقْدِمْ فنَفْسُكَ مَا لهَا أجَلُ
فَهُوَ النّهَايَةُ إنْ جَرَى مَثَلٌ ** أوْ قيلَ يَوْمَ وَغىً منِ البَطَلُ
ترجمہ شعر: بہادری وشجاعت نے کہا آگے بڑھ کیونکہ تیری جان کی تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ یہ ایسا خاتمہ ہوگا کہ جس کی مثال دی جائے گی یا پھر جنگ کے روز پوچھا جائے گا کہ بہادر کون ہے!
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
کہ تو نے ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجداد کی دلیری کو زندہ کردیا اور ہمیں عزت وعظمت اور نصرت وکامیابیوں کےذمانے کی یادتازہ کرادی۔ لہٰذا ہم نے فخرسے سراُٹھائے اور اپنا اسلحہ اٹھاکر جہاد کے میدانوں کی طرف چل نکلے۔!
اور ہم نے اپنے بہادروں خالد، سعد، مثنیٰ اور مقداد کی اقتداء کی
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
کہ بلاشبہ اللہ نے آپ کے ذریعے دین کی نصرت کی۔ اور آپ کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد پھیلایا۔ اور آپ ہی کے ذریعے کفار کو ذلیل کیا۔ لہٰذا آپ نے متکبرامریکوں کے سروں کو نیچا دکھایا۔ اور آپ نے ان پر ان کے محفوظ ٹھکانے پر حملہ ایسے وقت کیا کہ جب وہ ہر قسم کے حملے سے محفوظ قلعہ بند تھے۔ اور آپ نے اُن کی رُسوائی وخوای کی ہمیشہ کے لائے تاریخ لکھ ڈالی۔