ayaz_sb
03-16-2011, 12:22 PM
احمد رئیس نظامی
عصر حاضر انتہائی خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے، کفر کی تاریکیاں چراغ توحیدو رسالت کو بجھانے کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں، یہ وقت ملت اسلامیہ کےلئے سخت ترین آزمائش کا وقت ہے، ان حالات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو اس دن کی رسوائی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا جس دن مجرمین کو تمام عالم کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑیگا اور اسی ذلت و رسوائی کے ساتھ انہیں دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائیگا۔
اس ذلت و رسوائی سے بچنےکے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو پورا کریں جو اللہ نے ہمارے سپردکی ہے، یعنی تبلیغ دین، غلبہء دین اور اقامت دین وغیرہ، اور یہ ذمہ داری ہمیں اجتماعی حیثیت سے عطا کی گئی ہے۔۔۔ کنتم خیر امۃاخرجت لنّاس۔ تم پہترین امت ہو تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برپا کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس ذمہ داری کا حق اس وقت تک ادا نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم میں اتفاق و اتحاد قائم نہ ہو۔۔۔۔۔ واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو۔۔۔۔ سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط تھام لو اور تفرقے سے بچو۔ جہاں اختلاف و انتشار پایاجاتا ہے وہاں اجتماعیت باقی نہیں رہتی اور جب اجماعیت نہیں رہتی تو انسان وہ ذمہ داری بھی ہوری نہیں کر پاتا جو اس کے سپرد کی گئی ہے، اور جب ذمہ داری پوری نہیں ہوتی تو ہر آن یہ خطرہ بنا رہتا ہے کہ ایسے غیر ذمہ دار انسانوں کو اس مقام و منصب سےہٹا دیا جائےجس پر وہ فائز کئے گئے ہیں، یہ معاملہ تو دنیا سے وابستہ ہے لیکن آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔
دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی سے خود کو بچانے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔
اس دور میں رویّوں میں ایمانداری اور مثبت سوچ و فکر کی ضرورت کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کا جذبہ درکار ہے، دین کا کام کرنے والے کسی بھی شخص، کسی بھی گروہ، تنظیم، تحریک یا جماعت کی مخالفت نہیں کی جانا چاہئے، گروہی عصبیتیں ختم کی جا کر اختلاف کے با وجود اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے، اختلافات کو اس عظیم مقصد پر غالب نہیں ہونے دینا چاہئے جس مقصد کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں، تنقید تنقیص کی شکل اختیار نہ کرنے پائے، اور تنقید بھی برائے اصلاح ہونا چاہئے، تمام تر احتیاط کے باوجود اگر کہیں کوئی تنازعہ رونما ہوتا ہے تو اسے قرآن و سنّت کی روشنی میں خلوص و محبت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے۔
طرح مونڈ دیتا ہے جس طرح استرہ بالوں کو مونڈ دیتا ہے اور اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم نے اللہ کی اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تمہاری جگہ پر ایک دوسری قوم کو کھڑا کر دیگا جو تمہاری طرح نافرمان نہیں ہوگی۔
ہمیں سمجھنا ہے اپنے مقام و منصب کو
ہر ایک زخم کا مرہم ہمارے ہاتھ میں ہے
جس انقلاب کی حاجت ہے آج دنیا کو
اس انقلاب کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے
احمد رئیس نظامی
عصر حاضر انتہائی خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے، کفر کی تاریکیاں چراغ توحیدو رسالت کو بجھانے کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں، یہ وقت ملت اسلامیہ کےلئے سخت ترین آزمائش کا وقت ہے، ان حالات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو اس دن کی رسوائی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا جس دن مجرمین کو تمام عالم کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑیگا اور اسی ذلت و رسوائی کے ساتھ انہیں دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائیگا۔
اس ذلت و رسوائی سے بچنےکے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو پورا کریں جو اللہ نے ہمارے سپردکی ہے، یعنی تبلیغ دین، غلبہء دین اور اقامت دین وغیرہ، اور یہ ذمہ داری ہمیں اجتماعی حیثیت سے عطا کی گئی ہے۔۔۔ کنتم خیر امۃاخرجت لنّاس۔ تم پہترین امت ہو تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برپا کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس ذمہ داری کا حق اس وقت تک ادا نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم میں اتفاق و اتحاد قائم نہ ہو۔۔۔۔۔ واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو۔۔۔۔ سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط تھام لو اور تفرقے سے بچو۔ جہاں اختلاف و انتشار پایاجاتا ہے وہاں اجتماعیت باقی نہیں رہتی اور جب اجماعیت نہیں رہتی تو انسان وہ ذمہ داری بھی ہوری نہیں کر پاتا جو اس کے سپرد کی گئی ہے، اور جب ذمہ داری پوری نہیں ہوتی تو ہر آن یہ خطرہ بنا رہتا ہے کہ ایسے غیر ذمہ دار انسانوں کو اس مقام و منصب سےہٹا دیا جائےجس پر وہ فائز کئے گئے ہیں، یہ معاملہ تو دنیا سے وابستہ ہے لیکن آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔
دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی سے خود کو بچانے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔
اس دور میں رویّوں میں ایمانداری اور مثبت سوچ و فکر کی ضرورت کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کا جذبہ درکار ہے، دین کا کام کرنے والے کسی بھی شخص، کسی بھی گروہ، تنظیم، تحریک یا جماعت کی مخالفت نہیں کی جانا چاہئے، گروہی عصبیتیں ختم کی جا کر اختلاف کے با وجود اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے، اختلافات کو اس عظیم مقصد پر غالب نہیں ہونے دینا چاہئے جس مقصد کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں، تنقید تنقیص کی شکل اختیار نہ کرنے پائے، اور تنقید بھی برائے اصلاح ہونا چاہئے، تمام تر احتیاط کے باوجود اگر کہیں کوئی تنازعہ رونما ہوتا ہے تو اسے قرآن و سنّت کی روشنی میں خلوص و محبت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے۔
طرح مونڈ دیتا ہے جس طرح استرہ بالوں کو مونڈ دیتا ہے اور اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم نے اللہ کی اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تمہاری جگہ پر ایک دوسری قوم کو کھڑا کر دیگا جو تمہاری طرح نافرمان نہیں ہوگی۔
ہمیں سمجھنا ہے اپنے مقام و منصب کو
ہر ایک زخم کا مرہم ہمارے ہاتھ میں ہے
جس انقلاب کی حاجت ہے آج دنیا کو
اس انقلاب کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے
احمد رئیس نظامی