-|A|-
11-27-2008, 01:28 AM
پچیس تیس برس پہلے غربت اگر زیادہ نہیں تو کم ازکم اتنی ہی تھی جتنی آج ہے۔ لیکن اس دور کے غریب عجیب تھے۔ پڑوس سے آٹا، چائے، چینی، برتن، کرسیاں یا بستر ادھار لینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انتہائی نادار بچوں کے رھن سہن اور تعلیم و تربیت میں چچا، ماموں یا نانا دادا یا ہمسائے اپنی تنگدستی کو بھول کرخاموشی سے ہاتھ بٹاتے تھے۔ محلے کے ہرگھر کا احوال دوسرے پر کھلا تھا۔
خوشحال دوکاندار کا بچہ اپنے پڑوسی مزدور کے بچے کے ساتھ بستہ اچھالتا ہوا ایک ہی پیلے سرکاری سکول کا رخ کرتا تھا۔ سینئر بچے کورس کی پرانی کتابیں محلے کے غریب بچوں کو خاموشی سے عطیہ کر دیتے تھے۔ کسی کسی گھر میں بچوں کا ایک آدھ رسالہ آتا تھا۔ اور محلے کے سب بچے اس پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ ٹی وی پر بچوں کے لئے بھی روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور آتا تھا اور جس گھر میں ٹی وی ہوتا شام کو اس کے دروازے محلے کے تمام بچوں پر وا ہوجاتے تھے۔
پھر ہماری زندگیوں سے ہمدرد چچا، ماموں، دادا، نانا، مشترکہ پیلا سکول، بچوں کے رسالے، نو عمروں کے ٹی وی پروگرام، اشیائے ضرورت اور کورس کی کتابیں بانٹنے کا جذبہ اور خاموش دست گیری کی روایت غائب ہوتی چلی گئی۔
غربت عیب زدہ اشتہار ہوگئی۔ نمناک آنکھوں کی جگہ نفسا نفسی، محلے داری کی جگہ ایدھی سینٹر، خاموش دستگیری کی جگہ آدم بو آدم بو چیختے چینلز اور ہمدرد آنکھوں کی جگہ کاروں کے بند شیشے آگئے۔
اب یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہمسائے میں کل کس کا بچہ بیماری سے مرگیا۔ سامنے رہنے والا مزدور اپنے چار بچوں سمیت کیوں اچانک غائب ہوگیا۔ کونے پر بیٹھا خوانچہ فروش لڑکا تین دن سے کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ کام والی ماسی ایک ہفتے سےکہاں ہے۔ تین گھر چھوڑ کے ہر دوسرے تیسرے روز کس کے رونے کی آواز آتی ہے۔
بس یہی ہوتا ہے نا کہ اچانک اخبار میں بچہ برائے فروخت کی تصویر دیکھتے ہی، ریلوے لائن پر خودکشی کرنے والے خاندان کی داستان پڑھتے ہی یا ایدھی ہوم میں چھوڑے جانے والے بچوں کے ٹی وی فٹیج نگاہ سے گذرتے ہی منہ سے نکلتا ہے ۔۔۔ 'ہا آہ۔۔۔ ہاؤ سیڈ ۔۔۔۔۔وٹ اے پٹی۔۔۔' 'حکومت بے شرم ہوگئی ہے جی۔۔۔ دلوں سے خوفِ خدا اٹھ گیا ہے جناب۔۔۔'
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آج (بیس نومبر) دوپہر بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے ایک واک آرگنائز کی ہے آپ پلیز ضرور آنا اور گڑیا کو لانا مت بھولنا ۔۔۔
اتنی فرصت کسے کہ بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لئے ضروری ہے
( ~جون ایلیا
خوشحال دوکاندار کا بچہ اپنے پڑوسی مزدور کے بچے کے ساتھ بستہ اچھالتا ہوا ایک ہی پیلے سرکاری سکول کا رخ کرتا تھا۔ سینئر بچے کورس کی پرانی کتابیں محلے کے غریب بچوں کو خاموشی سے عطیہ کر دیتے تھے۔ کسی کسی گھر میں بچوں کا ایک آدھ رسالہ آتا تھا۔ اور محلے کے سب بچے اس پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ ٹی وی پر بچوں کے لئے بھی روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور آتا تھا اور جس گھر میں ٹی وی ہوتا شام کو اس کے دروازے محلے کے تمام بچوں پر وا ہوجاتے تھے۔
پھر ہماری زندگیوں سے ہمدرد چچا، ماموں، دادا، نانا، مشترکہ پیلا سکول، بچوں کے رسالے، نو عمروں کے ٹی وی پروگرام، اشیائے ضرورت اور کورس کی کتابیں بانٹنے کا جذبہ اور خاموش دست گیری کی روایت غائب ہوتی چلی گئی۔
غربت عیب زدہ اشتہار ہوگئی۔ نمناک آنکھوں کی جگہ نفسا نفسی، محلے داری کی جگہ ایدھی سینٹر، خاموش دستگیری کی جگہ آدم بو آدم بو چیختے چینلز اور ہمدرد آنکھوں کی جگہ کاروں کے بند شیشے آگئے۔
اب یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہمسائے میں کل کس کا بچہ بیماری سے مرگیا۔ سامنے رہنے والا مزدور اپنے چار بچوں سمیت کیوں اچانک غائب ہوگیا۔ کونے پر بیٹھا خوانچہ فروش لڑکا تین دن سے کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ کام والی ماسی ایک ہفتے سےکہاں ہے۔ تین گھر چھوڑ کے ہر دوسرے تیسرے روز کس کے رونے کی آواز آتی ہے۔
بس یہی ہوتا ہے نا کہ اچانک اخبار میں بچہ برائے فروخت کی تصویر دیکھتے ہی، ریلوے لائن پر خودکشی کرنے والے خاندان کی داستان پڑھتے ہی یا ایدھی ہوم میں چھوڑے جانے والے بچوں کے ٹی وی فٹیج نگاہ سے گذرتے ہی منہ سے نکلتا ہے ۔۔۔ 'ہا آہ۔۔۔ ہاؤ سیڈ ۔۔۔۔۔وٹ اے پٹی۔۔۔' 'حکومت بے شرم ہوگئی ہے جی۔۔۔ دلوں سے خوفِ خدا اٹھ گیا ہے جناب۔۔۔'
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آج (بیس نومبر) دوپہر بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے ایک واک آرگنائز کی ہے آپ پلیز ضرور آنا اور گڑیا کو لانا مت بھولنا ۔۔۔
اتنی فرصت کسے کہ بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لئے ضروری ہے
( ~جون ایلیا