-|A|-
06-18-2010, 02:41 AM
جعلی ڈگری: تین اراکینِ پارلیمان مستعفی
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/08/03/090803102545_sc-building.jpg
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بی اے کی جعلی ڈگر ی رکھنے والوں کو عدالتوں کی طرف سے نااہل قرار دینے کا سلسلہ چل نکلا ہے ان میں سے اب تک قومی اسمبلی کےتین ارکان اسمبلی کی رکنینت سے مستعفی ہوئے ہیں۔
ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جمشید دستی اور حیات اللہ ترین جبکہ پاکستان مسلم لیگ قاف سے تعلق رکھنے والے نذیر جٹ شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید حسنین کو بی اے کی جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں نااہل قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بہاولپور سے کامیاب ہونے والے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عامر یار کی انتخابی عُذرداری پر بھی اُنہیں نوٹس جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عدنان گل کے خلاف جعلسازی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھیں لاہور ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر نااہل قرار دیا تھااور اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں بھی چھ ایسے مقدمات سامنے آئے جس میں ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریاں رکھنے کے الزام میں اپنی رکنیت سے مستعفی ہونا پڑا۔ ان میں ناصر محمود، رانا مبشر اقبال، لیاقت علی گُھمن، نعیمہ مشتاق، بادشاہ قیصرانی اور اجمل آصف شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق صوبے کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ قاف سے ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے سنہ دوہزار دو میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اُمیدواروں کے پاس بی اے کی ڈگری کی شرط کو سنہ دوہزار آٹھ میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی لازمی قرار دیا گیا۔
سنہ دوہزار دو میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے پاس بی اے کی ڈگری ہونے سے متعلق تو کسی نے چیلنج نہیں کیا حالانکہ اس وقت اسمبلیوں میں متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی شامل تھے جن کے پاس اُن مدرسوں کی ڈگریاں بھی تھیں جنہیں وفاق المدارس یا دیگر تعلمی اداروں نے تسلیم نہیں کیا۔
نااہلی سے متعلق ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ججوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں شرم آتی ہیں کہ وہ ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں پر لوگ پارلیمننٹ میں آنے کے لیے جعلی ڈگریوں کا سہارا لیتے ہیں۔
جمشید دستی کو جب سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو اُس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے جمشید دستی کو ہی ٹکٹ دیا تھا ان انتخابات میں جمشید دستی کامیاب ہوئے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے موقف ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلیوں میں موجود ایسے ارکان کو خود ہی اپنے استعفے پیش کردینے چاہیئیں جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں ایسے افراد کو ٹکٹ نہیں دے گی جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں۔
حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف اس سے مختلف ہے۔ وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بی اے کی شرط آ ئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کی ڈگریوں کو نہیں بلکہ اُن کی خدمات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
بی اے کی شرط ختم کروانے کے لیے سنہ دوہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس پر غیر آئینی قرار دیے جانے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بی اے کی اس شرط کو ختم کردیا تھا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گُزار عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار محمد رشید کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت الیکشن ٹربیونل میں پچاس سے زائد درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
تعلیم کے بارے میں قومی اسمبلی کے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنمٹ کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن کمیشن سے کہا جائے گا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگریوں کے حامل ارکان پارلیمنٹ چاہے اُن کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ، ایسے افراد کی پارلیمان میں موجودگی شرمندگی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس ضمن میں یکساں موقف اختیار کرنا چاہیے۔ یادر ہے کہ عابد شیر کی بی اے کی ڈگری کو بھی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ایک ضمنی انتخاب میں کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورت حال اس قابل نہیں ہے کہ ہر دوسرے ماہ ضمنی انتخابات کروائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جن ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریاں رکھنے پر نااہل قرار دیا جاتا ہے اُن پر یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جتنا عرصہ وہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی رہے ہیں اور اس عرصے کے دوران انہوں نے جتنی تنخواہیں یا دیگر سرکاری مراعات لی ہیں اُن سب کو واپس کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروایا جائے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/08/03/090803102545_sc-building.jpg
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بی اے کی جعلی ڈگر ی رکھنے والوں کو عدالتوں کی طرف سے نااہل قرار دینے کا سلسلہ چل نکلا ہے ان میں سے اب تک قومی اسمبلی کےتین ارکان اسمبلی کی رکنینت سے مستعفی ہوئے ہیں۔
ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جمشید دستی اور حیات اللہ ترین جبکہ پاکستان مسلم لیگ قاف سے تعلق رکھنے والے نذیر جٹ شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید حسنین کو بی اے کی جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں نااہل قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بہاولپور سے کامیاب ہونے والے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عامر یار کی انتخابی عُذرداری پر بھی اُنہیں نوٹس جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عدنان گل کے خلاف جعلسازی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھیں لاہور ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر نااہل قرار دیا تھااور اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں بھی چھ ایسے مقدمات سامنے آئے جس میں ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریاں رکھنے کے الزام میں اپنی رکنیت سے مستعفی ہونا پڑا۔ ان میں ناصر محمود، رانا مبشر اقبال، لیاقت علی گُھمن، نعیمہ مشتاق، بادشاہ قیصرانی اور اجمل آصف شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق صوبے کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ قاف سے ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے سنہ دوہزار دو میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اُمیدواروں کے پاس بی اے کی ڈگری کی شرط کو سنہ دوہزار آٹھ میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی لازمی قرار دیا گیا۔
سنہ دوہزار دو میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے پاس بی اے کی ڈگری ہونے سے متعلق تو کسی نے چیلنج نہیں کیا حالانکہ اس وقت اسمبلیوں میں متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی شامل تھے جن کے پاس اُن مدرسوں کی ڈگریاں بھی تھیں جنہیں وفاق المدارس یا دیگر تعلمی اداروں نے تسلیم نہیں کیا۔
نااہلی سے متعلق ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ججوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں شرم آتی ہیں کہ وہ ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں پر لوگ پارلیمننٹ میں آنے کے لیے جعلی ڈگریوں کا سہارا لیتے ہیں۔
جمشید دستی کو جب سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو اُس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے جمشید دستی کو ہی ٹکٹ دیا تھا ان انتخابات میں جمشید دستی کامیاب ہوئے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے موقف ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلیوں میں موجود ایسے ارکان کو خود ہی اپنے استعفے پیش کردینے چاہیئیں جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں ایسے افراد کو ٹکٹ نہیں دے گی جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں۔
حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف اس سے مختلف ہے۔ وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بی اے کی شرط آ ئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کی ڈگریوں کو نہیں بلکہ اُن کی خدمات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
بی اے کی شرط ختم کروانے کے لیے سنہ دوہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس پر غیر آئینی قرار دیے جانے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بی اے کی اس شرط کو ختم کردیا تھا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گُزار عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار محمد رشید کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت الیکشن ٹربیونل میں پچاس سے زائد درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
تعلیم کے بارے میں قومی اسمبلی کے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنمٹ کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن کمیشن سے کہا جائے گا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگریوں کے حامل ارکان پارلیمنٹ چاہے اُن کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ، ایسے افراد کی پارلیمان میں موجودگی شرمندگی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس ضمن میں یکساں موقف اختیار کرنا چاہیے۔ یادر ہے کہ عابد شیر کی بی اے کی ڈگری کو بھی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ایک ضمنی انتخاب میں کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورت حال اس قابل نہیں ہے کہ ہر دوسرے ماہ ضمنی انتخابات کروائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جن ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریاں رکھنے پر نااہل قرار دیا جاتا ہے اُن پر یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جتنا عرصہ وہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی رہے ہیں اور اس عرصے کے دوران انہوں نے جتنی تنخواہیں یا دیگر سرکاری مراعات لی ہیں اُن سب کو واپس کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروایا جائے۔