-|A|-
06-01-2010, 05:46 PM
’مناسب سکیورٹی ہوتی تو بینظیر بچ سکتی تھیں‘
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/04/15/100415232038_bb_report466.jpg
بینظیر تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ چلی کے ہیرالڈو مونوز، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عبداللہ حسین ہارون، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور کمیشن کے ایک اور رکن انڈونیشا کے مارزوکی داروسمان رپورٹ جاری کرتے ہوئے
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کہا کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔
باون صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صدر مشرف کی اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/06/21/090621070847_bb_226x283.jpg
بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر خود کش حملے میں ہلا ک کر دیا گیا تھا
کمیشن کے مطابق یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ کیوں ان تمام افراد، گروہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے حصوں کی تفتیش نہیں کی گئی جن سے بینظیر بھٹو کی جان کو خطرات لاحق تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے جنرل مشرف کو اپنے خط میں آگاہ کیا تھا۔
اقوم متحدہ کے بینظیر بھٹو کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی عمارت میں رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں کئی عناصر سے سنگین خطرات لاحق تھے جن میں القاعدہ، طالبان اور مقامی جہادی گروپ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تفتیش کی توجہ صرف نچلی سطح کے کارکنوں تک ہی محدود رہی ہے۔ کمیشن اس بات پر پریشان ہے کہ بیت اللہ محسود، القاعدہ یا کسی تنظیم یا فرد کے بارے میں بھی کوئی خاص تفتیش نہیں کی گئی جو ممکنہ طور پر اس قتل یا اس کی منصوبہ بندی میں براہ راست یا بلواسطہ ملوث رہا ہو۔
تفتیش کاروں نے اس امر کو بھی سرے سے مسترد کردیا کہ اس قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہوسکتے ہیں، بشمول ان تین افراد کے جن کے نام بینظیر بھٹو نے مشرف کو لکھے گئے خط میں خود لیے تھے۔ ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ مشرف دور کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، انٹیلیجنس ایجنسیاں بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور اس طرح کے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے گئے جس طرح کے انتظامات کی ضرورت تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے اور اسے دھو دیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنا اعلیٰ سطحی احکامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونوز
ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب درست اقدامات کرنے میں’ناکامی’ زیادہ تر جان بوجھ کرتھی۔ بعض صورتوں میں اس ناکامی کی وجہ وہ غیر یقینیی کی صورتحال تھی جو اس تفتیش میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بہت زیادہ ملوث ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان افسران کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اقدامات کریں۔
ہیرالڈو منوز میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کہا جائے کہ صدر آصف زرداری یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے حسین ہارون نے رپورٹ کے متعلق کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ رپورٹ پاکستان حکومت کو بھیج رہے ہیں اور حکومت ہی اس پر ردِ عمل دے گی۔
یہ رپورٹ یکم اپریل کو پیش کی جانی تھی لیکن پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی درخواست اسے پندرہ دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔
کمیشن کی طرف سے رپورٹ وصول ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رپورٹ نے اس کی تحقیقات سے حکومت پاکستان کو آگاہ کریں گے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیشن نے اقوام متحدہ میں چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس کمیشن نے رواں سال فروری کے آخری ہفتے میں پاکستان کا تین روزہ آخری دورہ مکمل کیا تھا۔ اس دورے میں کمیشن کے سربراہ اور اراکین نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیئر حکومتی اہلکاروں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتیں کیں۔
اس کے علاوہ اس کمیشن کے سربراہ نے پاکستان کے تین دورے کیے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا عملہ تحقیقاتی عمل شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی پاکستان میں موجود تھا۔
خیال رہے کہ بینظیر بھٹو کو دسمبر دو ہزار سات میں راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2010/04/15/100415232038_bb_report466.jpg
بینظیر تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ چلی کے ہیرالڈو مونوز، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عبداللہ حسین ہارون، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور کمیشن کے ایک اور رکن انڈونیشا کے مارزوکی داروسمان رپورٹ جاری کرتے ہوئے
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کہا کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔
باون صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صدر مشرف کی اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/06/21/090621070847_bb_226x283.jpg
بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر خود کش حملے میں ہلا ک کر دیا گیا تھا
کمیشن کے مطابق یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ کیوں ان تمام افراد، گروہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے حصوں کی تفتیش نہیں کی گئی جن سے بینظیر بھٹو کی جان کو خطرات لاحق تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے جنرل مشرف کو اپنے خط میں آگاہ کیا تھا۔
اقوم متحدہ کے بینظیر بھٹو کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی عمارت میں رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں کئی عناصر سے سنگین خطرات لاحق تھے جن میں القاعدہ، طالبان اور مقامی جہادی گروپ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تفتیش کی توجہ صرف نچلی سطح کے کارکنوں تک ہی محدود رہی ہے۔ کمیشن اس بات پر پریشان ہے کہ بیت اللہ محسود، القاعدہ یا کسی تنظیم یا فرد کے بارے میں بھی کوئی خاص تفتیش نہیں کی گئی جو ممکنہ طور پر اس قتل یا اس کی منصوبہ بندی میں براہ راست یا بلواسطہ ملوث رہا ہو۔
تفتیش کاروں نے اس امر کو بھی سرے سے مسترد کردیا کہ اس قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہوسکتے ہیں، بشمول ان تین افراد کے جن کے نام بینظیر بھٹو نے مشرف کو لکھے گئے خط میں خود لیے تھے۔ ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ مشرف دور کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، انٹیلیجنس ایجنسیاں بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور اس طرح کے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے گئے جس طرح کے انتظامات کی ضرورت تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے اور اسے دھو دیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنا اعلیٰ سطحی احکامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونوز
ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب درست اقدامات کرنے میں’ناکامی’ زیادہ تر جان بوجھ کرتھی۔ بعض صورتوں میں اس ناکامی کی وجہ وہ غیر یقینیی کی صورتحال تھی جو اس تفتیش میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بہت زیادہ ملوث ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان افسران کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اقدامات کریں۔
ہیرالڈو منوز میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کہا جائے کہ صدر آصف زرداری یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے حسین ہارون نے رپورٹ کے متعلق کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ رپورٹ پاکستان حکومت کو بھیج رہے ہیں اور حکومت ہی اس پر ردِ عمل دے گی۔
یہ رپورٹ یکم اپریل کو پیش کی جانی تھی لیکن پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی درخواست اسے پندرہ دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔
کمیشن کی طرف سے رپورٹ وصول ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رپورٹ نے اس کی تحقیقات سے حکومت پاکستان کو آگاہ کریں گے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیشن نے اقوام متحدہ میں چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس کمیشن نے رواں سال فروری کے آخری ہفتے میں پاکستان کا تین روزہ آخری دورہ مکمل کیا تھا۔ اس دورے میں کمیشن کے سربراہ اور اراکین نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیئر حکومتی اہلکاروں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتیں کیں۔
اس کے علاوہ اس کمیشن کے سربراہ نے پاکستان کے تین دورے کیے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا عملہ تحقیقاتی عمل شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی پاکستان میں موجود تھا۔
خیال رہے کہ بینظیر بھٹو کو دسمبر دو ہزار سات میں راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔